محمد آصف مغل
سینئر رکن
- شمولیت
- اپریل 29، 2013
- پیغامات
- 2,677
- ری ایکشن اسکور
- 4,006
- پوائنٹ
- 436
فَجَعَلْنٰھَا نَكَالًا لِّمَا بَيْنَ يَدَيْہَا وَمَا خَلْفَہَا وَمَوْعِظَۃً لِّلْمُتَّقِيْنَ۶۶ وَاِذْ قَالَ مُوْسٰى لِقَوْمِہٖٓ اِنَّ اللہَ يَاْمُرُكُمْ اَنْ تَذْبَحُوْا بَقَرَۃً۰ۭ قَالُوْٓا اَتَتَّخِذُنَا ھُزُوًا۰ۭ قَالَ اَعُوْذُ بِاللہِ اَنْ اَكُوْنَ مِنَ الْجٰہِلِيْنَ۶۷ قَالُوا ادْعُ لَنَا رَبَّكَ يُبَيِّنْ لَّنَا مَا ہِىَ۰ۭ قَالَ اِنَّہٗ يَقُوْلُ اِنَّہَا بَقَرَۃٌ لَّا فَارِضٌ وَّلَا بِكْرٌ۰ۭ عَوَانٌۢ بَيْنَ ذٰلِكَ۰ۭ فَافْعَلُوْا مَا تُؤْمَرُوْنَ۶۸
بہرحال بنی اسرائیل آخر مجبور ہوگئے ۔بیل ذبح کرنا پڑا اور معجزانہ طورپر بیل کے لمس سے وہ مقتول زندہ ہوگیا اور اس نے قاتل کا پتہ بتادیا۔
اس معجزہ نے حکیمانہ طورپر انسان کی نفسیات پرروشنی ڈالی کہ وہ حتی الوسع جرائم کے باب میں اخفاسے کام لیتا ہے لیکن ساتھ ہی یہ بھی بتلایا کہ فطرت ہمیشہ مجرم کو بے نقاب کرکے رہتی ہے ۔گویا جرم وگناہ میں اور علام الغیوب خدا کے بتائے ہوئے منصفانہ قوانین میں ایک جنگ برپا ہے۔ ناممکن ہے کوئی گناہ سرزد ہو اور فطرت کی طرف سے ان پر سزا نہ ملے۔
ان آیات سے معلوم ہوا کہ استہزاء علم ومتانت کے شایان شان نہیں، البتہ مزاح جو پاکیزہ ہو جس سے کسی کا دل نہ دکھے اور جو خلاف واقع نہ ہو،جائز ہے۔
۱؎ فَافْعَلُوْا مَاتُؤْمَرُوْنَ کا مقصد یہ ہے کہ ان کو صحیح مذہب سے متعارف کرایاجائے۔ انھیں بتایاجائے کہ مذہب کی اصل روح تسلیم ورضا ہے ۔ جرح ونقد نہیں۔ ایک دفعہ ایک نظام عمل کو مان لینے کے بعد صرف عمل کے لیے گنجائش رہ جاتی ہے ۔پس تم سے بھی یہی مطالبہ ہے ۔
{بَقَرَۃٌ} گائے اور بیل۔ {ہُزُوًا} مذاق۔{فَارِضٌ} عمررسیدہ{ عَوَانٌ} جوان۔
بنی اسرائیل کی قوم میں جہاں صدہا عیوب پیدا ہوگئے تھے وہاں سب سے بڑا عیب اخفائے جرم کا جذبہ تھا اور ظاہر ہے اس کا مطلب صاف صاف یہ ہے کہ قوم میں احساس گناہ نہیں رہا اور وہ بدمذہبی کے اس دور میں سے گزررہی ہے جس کی اصلاح از بس دشوار ہے ۔ بائبل میں لکھا ہے کہ جب کوئی شخص قتل ہوجاتا اور اس کے قاتل کا کوئی پتہ نہ چل سکتا توپھر وہ ایک بیل ذبح کرتے اور اس کے خون سے ہاتھ دھوتے۔ قاتل اگر اس جماعت میں ہوتا تو وہ اس سے انکار کردیتا۔ خیال یہ تھا کہ قاتل اگر دھوئے گا تو وہ ضرور نقصان اٹھائے گا۔ یہ کوئی شرعی بات نہ تھی۔ محض ان کا وہم تھا۔ جس پر ان کو یقین تھا۔ جس طرح جاہل قوموں کے معتقدات ہوتے ہیں کہ ان کی کوئی حقیقت نہیں ہوتی، تاہم اس پر سختی سے عمل کیاجاتا ہے ۔ جب بنی اسرائیل میں سے ایک شخص قتل ہوگیا اور انھوں نے عمداً اخفائے جرم کی ٹھان لی تو اللہ تعالیٰ نے ان کے مسلمہ قانون کے مطابق بیل ذبح کرنے کا حکم دیا۔ اس پر چونکہ ان کے دلوں میں چور تھا۔ اس لیے حیلے تراشے۔ بار بار سوال کیا۔ بیل کس طرح کا ہو۔ کیا رنگ ڈھنگ ہو۔ کس نوع کا ہو۔ نیت یہ تھی کہ کسی طرح بات آئی گئی ہوجائے۔ حدیث میں آتا ہے کہ اگر وہ کوئی سا بیل ذبح کردیتے تو منشائے الٰہی کی تکمیل ہوجاتی مگر یہ سب تفاصیل تو اس لیے پوچھی جارہی تھیں کہ عمل کی نوبت ہی نہ آئے۔ اس طرز عمل میں باریک اشارہ اس طرف بھی ہے کہ وہ قومیں جن میں تفصیل طلبی کا جذبہ پیدا ہوجائے وہ عمل سے محروم ہوجاتی ہیں۔ جب تک مذہب اپنی سادہ حالت میں رہے لوگوں میں جوش عمل موجود رہتا ہے اور جب ہربات ایک معمہ بن جائے،ہرمسئلہ ایک مستقل بحث قرار پائے اس وقت عمل کے لیے طبیعتوں میں کوئی جذبہ موجود نہیں رہتا۔پھرہم نے اس (واقعہ) کو ان کے لیے جو اس وقت تھے اور ان کے پیچھے آنے والوں کے لیے عبرت اور ڈر نے والوں کے لیے نصیحت ٹھہرایا۔(۶۶) اور جب موسی ٰعلیہ السلام نے اپنی قوم سے کہا کہ خدا تمھیں حکم دیتا ہے کہ ایک گائے ذبح کرو۔ انھوں نے کہا کیا تو ہم سے ٹھٹھا کرتا ہے ؟ وہ بولا۔ اللہ کی پناہ اس سے کہ میں جاہلوں میں سے ہوں۔(۶۷) انھوں نے کہا کہ اپنے رب کو پکار کہ وہ ہم سے بیان کرے کہ وہ کیسی(گائے) ہے ۔ اس نے کہا ۔وہ (خدا) کہتا ہے کہ وہ (گائے) نہ بوڑھی ہے نہ بچہ ہے ۔ اس (عمر) کے درمیان ہے ۔ جو ان پس جو تمھیں حکم ہوا ہے تم کرو۔۱؎(۶۸)
بہرحال بنی اسرائیل آخر مجبور ہوگئے ۔بیل ذبح کرنا پڑا اور معجزانہ طورپر بیل کے لمس سے وہ مقتول زندہ ہوگیا اور اس نے قاتل کا پتہ بتادیا۔
اس معجزہ نے حکیمانہ طورپر انسان کی نفسیات پرروشنی ڈالی کہ وہ حتی الوسع جرائم کے باب میں اخفاسے کام لیتا ہے لیکن ساتھ ہی یہ بھی بتلایا کہ فطرت ہمیشہ مجرم کو بے نقاب کرکے رہتی ہے ۔گویا جرم وگناہ میں اور علام الغیوب خدا کے بتائے ہوئے منصفانہ قوانین میں ایک جنگ برپا ہے۔ ناممکن ہے کوئی گناہ سرزد ہو اور فطرت کی طرف سے ان پر سزا نہ ملے۔
ان آیات سے معلوم ہوا کہ استہزاء علم ومتانت کے شایان شان نہیں، البتہ مزاح جو پاکیزہ ہو جس سے کسی کا دل نہ دکھے اور جو خلاف واقع نہ ہو،جائز ہے۔
۱؎ فَافْعَلُوْا مَاتُؤْمَرُوْنَ کا مقصد یہ ہے کہ ان کو صحیح مذہب سے متعارف کرایاجائے۔ انھیں بتایاجائے کہ مذہب کی اصل روح تسلیم ورضا ہے ۔ جرح ونقد نہیں۔ ایک دفعہ ایک نظام عمل کو مان لینے کے بعد صرف عمل کے لیے گنجائش رہ جاتی ہے ۔پس تم سے بھی یہی مطالبہ ہے ۔
حل لغات