• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اخلاص

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
اخلاص

(خالص ہونا/نجات پانا/محفوظ رہنا)​

لغوی بحث:
اخلاص فعل”أَخْلَصَ یُخلِصُ“ کا مصدر ہے اس کا اصل ما دّہ (خ ل ص )ہے جو کسی چیز کی صفا ئی اور مہذّب ہونے پر دلا لت کر تا ہے ([1])
خَالِصٌ“ صا ف سُتھری چیز کو کہا جا تا ہے ۔ فرق صرف یہ ہے کہ”خَالِصٌ“اُ س صا ف چیز کو کہتے ہیں جس میں پہلے کچھ ملاوٹ ہو بعد میں اس کو ملا وٹ سے پا ک کر دیا گیا ہو ۔
اور صا فی اس کو بھی کہتے ہیں کہ جو پہلے سے ہی پاک ہو اور اس کو بھی کہا جا تا ہے جس میں پہلے سے ملا وٹ ہو لیکن بعد میں صا ف کیا گیا ہو۔ کہا جا تا ہے :”خَلَّصْتُهُ فَخَلَصَ“ابن منظور کہتے ہیں کہ: ”خَلَصَ الشَّيْءُ“ (لام کے زَ بر کے ساتھ) اس چیز کیلئے استعمال ہوتا ہے جو پہلے پھنسا ہوا ہو پھراسےنجات ملےاوربچ جا ئے۔جسکا فعل مضارع ”یَخلُصُ“اور مصدر”خُلُوْ صٌ“اور ”خَلاَصٌ“ ہے۔ اور ”أَخْلَصَهُ وَ خَلَّصَه، وَأَخْلَصَ دِینَهُ لِله“کا معنیٰ ہے کہ با لکل خا لص کر دیا اور” أَخْلَصَ الشَّیْءَ“ کا معنیٰ ہے اس چیز کو چُن لیا اور سو رۂ ص میں ہے إِلَّا عِبَادَكَ مِنْهُمُ الْمُخْلَصِينَ ﴿٨٣(لام کے زَبر کے سا تھ) اور (لام کے زِیر کے ساتھ) دو نوں طرح سےیہ لفظ پڑھا گیا ہے ۔
امام ثعلب کہتے ہیں کہ: ”المُخْلِصِيْن“(لام کے زِیرکے ساتھ) مراد وہ لوگ ہیں جنہو ں نے اللہ تعا لیٰ کیلئے عبا دت کو خا ص کیا ہے ۔ اور (لام کے زَبَر کے سا تھ) مراد وہ لو گ ہیں جنہیں اللہ تعا لیٰ نے چُن لیا ہے تو ”مُخْلَصُوْن“( لام کے زبر کے ساتھ ) اللہ کے منتخب شدہ لوگ ہیں اور ”مُخْلِصُوْن“سے موحِّدین مراد ہیں ۔ اسی وجہ سے سور ة قُلْ هُوَ اللَّـهُ أَحَدٌ ﴿١﴾ اللَّـهُ الصَّمَدُ ﴿٢﴾ لَمْ يَلِدْ وَلَمْ يُولَدْ ﴿٣﴾ وَلَمْ يَكُن لَّهُ كُفُوًا أَحَدٌ ﴿٤کو سو رۂ اخلاص کہا گیا ہے ۔ ابن الأثیر کہتے ہیں کہ اس سورت کو سورت اخلاص اس لئے کہتے ہیں کہ سور ة خا لص اللہ تعا لیٰ کے او صا ف کو بیان کر تی ہے اس لئے کہ اس سو رت کو تلا وت کر نے وا لا اللہ تعا لیٰ کی خا لص تو حید کا اقرار کر تا ہے ۔
اور” کَلِمَةُ الْإِخْلاَص کَلِمَةُ التَّوْحِیْد“ کو کہتے ہیں ۔ اور اطا عت میں اخلاص عمل میں ریا کا ری سے بچنے کو کہتے ہیں ۔([2])

[1]- مفردات الرا غب (۱۵۴)
[2]- لسان العرب (7/۲۶)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
اصطلاحی وضاحت:
امام کفَوی کہتے ہیں : اخلا ص یہ ہے کہ عبا دت میں خالص اللہ تعا لیٰ کی بندگی کی نیّت کی جا ئے ۔
بعض کہتے ہیں کہ نیّت ، قول اور عمل کی صفائی کا نام اخلاص ہے ۔([1])
امام مُناوی کہتے ہیں : مِلا وٹ دِل کی صفا ئی کو گد لا کر دیتی ہے اس دِل کو صا ف رکھنے کو اخلاص کہا جا تا ہے پس جس چیز میں ملا وٹ کا خیا ل آئے اس چیز کو اس ملا وٹ سے پاک کر دیا جائے تو اس کو خا لص کہا جا تا ہے ۔
بعض کہتے ہیں کہ اخلا ص ہر اس عمل کے کر نے کو کہتے ہیں جو انسان کی خلا صی میں مدد دے ۔ بعض نے اِ خلاص کی یہ تعریف کی ہے کہ عمل کو لو گوں کی دِ کہلا وے سے بچا نا ۔
بعض نے کہا کہ اخلاص عمل کو تہمت اور نقصان سے بچا نے کو کہتے ہیں ۔([2] )
جر جا نی کہتے ہیں :اِ خلا ص یہ ہے کہ آپ اپنے عمل کے لئے اللہ کے سوا کو ئی اور گواہ تلاش نہ کریں ۔
یہ بھی کہا گیا ہے کہ اخلا ص دل کی فطری صفا ئی کو گد لا کر نے وا لی ملا وٹوں سے پا ک کر نے کا نام ہے : یعنی جس چیز میں کسی اور چیز کی ملاوٹ کا تصوّر کیا جا سکتا ہے اس چیز کو اس ملا وٹ سے پا ک کر نے کے بعد وہ چیز خالص کہلاتی ہے ۔
اللہ تعالیٰ فر ما تے ہیں نُّسْقِيكُم مِّمَّا فِي بُطُونِهِ مِن بَيْنِ فَرْ‌ثٍ وَدَمٍ لَّبَنًا خَالِصًا ﴿٦٦ (النحل ۶۶)
ترجمہ: گو براور خون کے در میان میں سے اللہ تمہا رے لئے خا لص دودہ نکا لتا ہے ۔
تو دودہ وہ خا لص ہو گا جو گو بر ، خون ، اور دیگر جن چیزوں کی ملا وٹ ممکن ہو ۔ ان کی ملا وٹ سے محفو ظ ہو ۔ ([3])
حقیقت میں اخلاص اللہ تعالیٰ کے علا وہ ہر چیز سے برٔات اور بیزا ری اختیا ر کر نے کو کہتے ہیں ۔
دین میں اخلاص کے با رے میں امام را غب فر ما تے ہیں کہ اخلا ص فی الدین مسلمان کا اس سے برأت کا اعلا ن کر نا ہے جو یہو د یوں نے اللہ کے متعلق تشبیہ کا دعویٰ کیا تھا ۔ اور نصا رٰی نے جو تثلیث کا دعوٰی کیا تھا ۔(اخلا ص فی الدین : یہو دیوں کی اللہ کیلئے مشا بہ ثا بت کر نے کا دعوٰی اور نصارٰی کا اللہ کی تثلیث کا دعوٰی مسترد کر کے اس سے برٔات کا اعلا ن ہے ) اللہ تعا لیٰ فر ما تے ہیں ۔
مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّينَ ۚ ….. ﴿٢٩ (اعراف ۲۹) اللہ کیلئے اخلاص کر نے وا لے ( بنو ) دین میں، اور (غا فر ۱۴)ایک اور مقام پر فر ما یا : وَأَخْلَصُوا دِينَهُمْ لِلَّـهِ ﴿١٤٦ (النساء ۱۴۶) ترجمہ: اور انہوں نے خا لص کر دیا اپنا دین صرف اللہ کیلئے ۔۔۔تمام علما ء اس بات پر متفق ہیں کہ اطاعت میں اخلا ص دکھلا و ے سے بچنے کو کہتے ہیں ۔ ([4])
فُضیل بن عیا ض کہتے ہیں : لو گوں کی و جہ سے کو ئی عمل چھو ڑنا ر یاء (دکھلاوہ) ہے اور لو گوں کی و جہ سے عمل کر نا شرک ہے ۔ اور اِ خلاص اِن دونوں (ریا ء اور شرک) سے بچنے کا نام ہے ۔ ایک اور روا یت میں ہے ا خلا ص یہ ہے کہ اللہ تعا لیٰ تمہیں اِن دو نوں چیزوں ( رِیا ء اور شِرک ) سے محفو ظ رکھے ۔([5])

[1]- الکُليات للکفوي (ص:۶۴)
[2]- التو قيف عليٰ مَهّمات التعاريف للمناوي (ص:۴۲)
[3]- التعريفات للجرجاني (۱۳،۱۴)
[4]- التعر يفات (۱۳) الإحيا ء علوم الدين (۴۰۰/۴)
[5]- مدارج السالکين (۹۵/۳)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
اخلاص کی حقیقت
اخلاص کی حقیقت یہ ہے کہ زندگی کے ہر پہلو میں اس کی پا بندی کی جا ئے صرف خیا لی طو ر پر اخلا ص کا تصوّر کر نا کافی نہیں بلکہ عملی طو ر
پر بھی اخلا ص کو مدّ نظر رکھا جا ئے ۔ اور عملی اخلا ص غیر اللہ سے مکمل بیزا ری اختیار کر نے کو کہتے ہیں ۔ جسکے دو پہلو ہیں ۔
ایک پہلو یہ ہے کہ اخلا ص کا تعلق انسان کے عمل و کر دار کیسا تھ ہو یا انسا نی زند گی کے مختلف پہلو اور احوال کے ساتھ ہوانسان کا جو بھی عمل اللہ کی ر ضا کی نیّت سے ہو اور اس میں اللہ کیلئے ہو نے کے شوا ہد ہوں تو وہ عمل خا لص شمار ہو تا ہے ۔ اس لئے کہ وہ شرک ، ریاء کا ری ، دِکہلا و ے اور شہرت حا صل کر نے کی نیّت سے پاک ہے ۔
اور بعض دفعہ انسان کے عمل میں ان چیزوں کی ملا وٹ ہو تی ہے پس جب عمل ان مذ کو رہ چیزوں سے پا ک ہو کر خالص اللہ کی ر ضا کی نیت سے ہو تو اسے خا لص کہا جا تا ہے ۔
اور اخلا ص ۔ شرک، ریاء ، ملا وٹ ، دہو کہ ، حیلہ با زی اور جھو ٹ کے منا فی ہے اسی وجہ سے بعض او قات اخلا ص اور سچا ئی میں معنوی قر بت پا ئی جا تی ہے اسی و جہ سے اخلا ص صرا حت اور و ضا حت کے معنے میں بھی استعما ل کیا جاتا ہے ۔ اور اسی وجہ سے اخلا ص کا لفظ وضاحت ، اما نت ، اور صفا ئی کے سا تھ مفہوم میں ملتا ہے ۔
اور سا بقہ تمام الفاظ یعنی ریاء ، ملا وٹ ، دہو کہ ، حیلہ سا زی ، اور جھو ٹ ، شرک کے معنی تک پہنچ جا تے ہیں اسلئے کہ شرک یا خَفی ہو تا ہے یا جلیّ (ظاہری ) اسی طرح اخلاص بھی یا خَفی (با طنی) ہو تا ہے یا ظا ہری اور دو نوں کا تعلق مسلمان کے دل کے ساتھ ہے جو اسکی نیت اور ارادے کی شکل میں ہے ۔
اور اسی وجہ سے عمل نیّت کے مطا بق ہو تا ہے یا اس میں اخلا ص ہو تا ہے یا نہیں جو دکہلا وے کی نیت سے عمل کر تا ہے وہ مخلِص نہیں ہوتا اور جو اللہ تعالیٰ کی قُر بت حا صل کر نے کی نیّت سے عمل کر تا ہے وہ مخلِص ہے ۔ لیکن عام طو ر پر اخلا ص اس عمل کے لئے مختص کر دیا گیا ہے،جو اللہ تعا لیٰ کی قُر بت حا صل کر نے کی نیّت سے کیا جا ئے اور تما م قسم کی ملاوٹ سے پا ک ہو اور جو عمل اللہ تعا لیٰ کی قُر بت حا صل کر نے کی وجہ سے ہو لیکن اس کے سا تھ انسا نی عظمت بھی شامل ہو جا ئے یہاں تک کہ اسی انسا نی تعظیم کے سا تھ اسے یا د کیا جا ئے اور اسکے اصل پہلو ( اللہ کی قر بت کی نیت ) کسی انسان کی تعظیم کے مقا بلے میں کمزور ہو جا ئے تو یہ عمل اخلاص سے نکل گیا اور اسے اللہ کے لئے خا لص نہیں کہا جا سکتا ۔ بلکہ انسان کی تعظیم بھی اس سے ثا بت نہیں ہو سکتی ۔
جیسے امام غزا لی کہتے ہیں : دنیا کے حصّو ں میں سے کو ئی ایسا حصّہ جس کو نفس پسند کر تا ہے اور اسکی طرف دل مائل ہوتا ہے ۔ جب عمل میں دا خل ہو جا ئے تو اس سے عمل کا خا لص ہو نا گد لا ہو جا تا ہے اور اخلا ص ختم ہو جا تا ہے ۔ یہ حصّہ تھو ڑا ہو یا زیا دہ ہو ۔ اور انسان اپنے ، دنیا وی حصّو ں سے جُڑا ہوا اور اپنی خوا ہشات میں ڈو با ہوا ہے ۔ اس کا کوئی عمل اور کو ئی عبا دت بہت کم دنیا وی اغرا ض اور دل کی خوا ہشا ت سے الگ ہو کر اللہ کیلئے خا لص ہو سکتی ہے۔ اسلئے کہا جا تا ہے یہ جس کی عمر کا ایک لمحہ خا لص اللہ کی ر ضا کیلئے گزر گیا تو وہ کا میا ب ہوا اور یہ صرف اس وجہ سے کہ اخلا ص بہت قیمتی اور طا قتور چیز ہے اور انسان کا اپنے دل کو ان ملا وٹوں سے بچا نا بہت مشکل ہے ۔
پس خا لص وہ عمل ہے جس کے کر نے کا سبب صرف اللہ کی رضا کو حا صل کر نا ہو ۔ ( [1])
امام ابن تیمیہ فرماتے ہیں ۔ دین میں اخلا ص وہ اہم چیز ہے جسکے بغیر اللہ تعا لیٰ کو ئی عمل قبول نہیں کر تا ۔
اور اللہ تعا لیٰ نے اسی کے لئے تمام انبیا ءو رُسل مبعو ث فر ما ئے ہیں ۔
اور اسی مقصد کے لئے تمام کتابیں نازل فرمائیں ۔ اور اہل ایمان کے ائمہ کرام سب اس پر متفق ہیں ۔ اور نبوی دعوت کا یہی خلا صہ ہے ۔ اور قرآن کریم کا بنیا دی مو ضوع یہی (اخلا ص ) ہے ۔( [2])
سا بقہ تفصیل سے یہ معلو م ہو تا ہے کہ اخلا ص نیّت دل اور عمل کو اللہ کی رضا کے علا وہ ہر قسم کی اغراض کی ملاوٹ سے پا ک کر نے کو کہا جا تا ہے اور خا لص وہ ہو تا ہے جس کے کر نے کی وجہ صرف اللہ تعا لیٰ کی نزد یکیت حاصل کر نا ہو ۔
اور یہ کہ ا خلا ص عمل شروع کر نے کے بعد ہو تا ہے ور اللہ کیلئے اخلاص یہ ہے کہ بندہ جو بھی عمل کر تا ہے وہ خالص اللہ کیلئے کرے ۔
(۲):۔ دو سرا پہلو یہ ہے کہ ا خلا ص کا معنیٰ اور اسکے شرا ئط کو انسان اپنی زندگی کا مقصد سمجھ کر اسی کو تھا مے رکھے ۔

[1]- الإحياء علوم الدين (۳۶۸/۴) المفردات للراغب (۱۵۴)
[2]- التحفه العراقيه في أعمال القلوب (۵۸)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
اخلاص کی اقسام:

انسان سے صا در ہو نے والی چیزوں کے مطا بق اخلاص کی چار قسمیں ہیں ۔
(۱)اقوال میں اخلا ص ۔ (۲) افعال میں اخلاص (۳)اعمال یعنی تمام عبا دات میں اخلا ص (۴)دل کے احوال یعنی الہامات وغیرہ میں اخلاص ۔اور دین میں اخلاص ان سب قسموں پر مشتمل ہے ۔ اور اخلا ص کی پا بندی ظا ہری زندگی میں جتنی ضرو ری ہے اس سے زیا دہ با طنی خیا لات و افکا ر میں اس کی پا بندی اورضر و ری ہے ۔ اخلا ص کا نظریہ اپنا نے کے لئے کئی چیزیں ضروری ہیں ۔

(۱)اخلا ص میں دوام اور ہمیشگی:زندگی ایک مکمل مر حلہ ہے اس میں مختلف احوال آتے ہیں لیکن کسی بھی حا لت میں انسان کو اخلا ص کا دامن نہیں چھو ڑ نا چا ہئیے۔ اسلئے کہ اخلا ص کا تعلق صرف دور حا ضر کیسا تھ یا صرف گزشتہ دور کیساتھ اور یا صرف آئندہ زمانے کے ساتھ نہیں بلکہ ہر وقت اور ہر دور میں مخلص ہو نا چا ہئے۔ اس وجہ سے اخلا ص میں ہمیشگی ایک بنیا دی صفت ہے ۔

(۲)اخلا ص کا مکمّل ہو نا :۔یعنی انسان اپنے تما م متعلَّقہ معا ملا ت اور اہداف میں جو دینی جذبے کے تحت و جو د میں آتے ہیں بہر پور اخلا ص سے کا م لے تا کہ اسکی شخصیت کما ل کے اعلیٰ درجے پر پہنچ جائے ۔ اور یہ تب ہو تا ہے جب انسان کے دل میں الہ تعا لیٰ کی مضبو ط محبت ہو حق اور حقیقت کو پسند کر نے وا لا انسان ہو اور دو سرے مخلص لو گو ں کے لئے بہر پو ر اخلا ص کا جذ بہ رکھتا ہو اور اسکی نیّت میں بھی مکمل اخلا ص ہو اور عمل میں بھی اخلا ص نما یاںہو ۔

(۳)علم کا ہو نا :کیو نکہ اخلاص میں ضرو ری یہ ہے کہ اسلامی تعلیمات کے جذبے کے تحت اللہ کی رضا کے لئے کوئی عمل کیا جا ئے ۔ اور جہالت کے ہو تے ہوئے حقیقی اخلا ص کے ساتھ عمل کو بجا لا نا ممکن نہیں ۔ اسلئے علم اخلا ص کیلئےایک ضروری شرط ہے جس علم سے حقیقی اخلا ص کو اپنا یا جا سکتا ہے ۔

(۴)اعلیٰ سے اعلیٰ اخلا ص کی طرف بلند ہو نے کی کو شش کر نا :جب اخلا ص ایک انسا نی کو شش ہے جس سے انسان بندگی کا حق ادا کر کے اعلیٰ در جے پر فا ئز ہو جا تا ہے ۔ اس بلند مقام پر پہنچ کر کئی با ر انسان پھسل جاتا ہے اور کئی بار بلندی پر چڑھنے میں کا میاب ہو جا تا ہے ۔ ایک دم اخلا ص کے اعلیٰ مر تبے تک پہنچنا نا ممکن ہے اسلئے ضروری ہے کہ آہستہ آہستہ اخلا ص کے بلند و با لا در جے پر چڑ ھا جا ئے تاکہ اخلا ص کے اعلیٰ مر تبے پر فا ئز ہو جا ئے اور کمال درجے پر پہنچنے کیلئے یہ شرط ہےکہ بندہ آہستہ آہستہ چڑھتا جا ئے ۔

(۵)اما نت داری:اما نت داری اسلئے ضروری ہے کہ جس میں اما نت داری کا جذبہ ہو وہ اللہ کے حقو ق کی ادا ئیگی کا خیا ل رکھے گا، اسکے فرائض اور وا جبات بجا لا ئے گا ۔ اور اما نت داری کے جذبے کی وجہ سے وہ خیا نت نہیں کر ے گا اور حقو ق کی حفا ظت کر ے گا ۔ اور اما نت داری اخلا ص کی بہترین ظا ہری دلیل ہے۔
خا ص کر اما نت کے معا ملےمیں بہکا نے کے اسباب بہت زیا دہ ہیں جن کی وجہ سے انسان کا اخلا ص ختم ہو جا تا یا اس میں خرا بی آجا تی ہے کیو نکہ اخلا ص کیلئے اما نت داری ضروری ہے۔ اس لئے مکمل اخلا ص کیلئے مکمل اما نت داری کی ضرورت ہے۔
اس تفصیل کا خلا صہ یہ ہے کہ اخلا ص درا صل کر دار ، گفتار اور عبادت کو ریاء(دکھلا وہ) دھو کہ ، اور جھو ٹ کی ملا وٹ سے پا ک کر نے کو کہا جا تا ہے ۔پھر عمل میں اخلا ص کے کئی مرا تب ہیں مثلاًعمل کو چھو ڑ کر اسے کچھ شمار نہ کر نا یہ نہ کہ اس کے اجر کی امید چھو ڑدے ۔ پھر اللہ کے سا منے عمل پر اپنے آپکو شر مندہ محسوس کر نا اگر چہ اس میں بھر پور محنت بھی کی ہے ۔ لیکن اخلا ص والے اس عمل میں مدّنظر یہ رکھا جا ئے کہ اس نیکی کی تو فیق تو اللہ نے ہی دی ہے جو اسکی سخا وت اور احسان کر نے کی دلیل ہے یہ ساری باتیں ذِہن میں لا کر انسان اپنی خلاصی و نجا ت کیلئے خا لص اللہ کی رضا کی نیت سے عمل کر ے (تو یہ اخلا ص ہے ) ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
اخلاص اور سچا ئی میں فرق
جر جا نی کہتے ہیں کہ اخلا ص اور سچا ئی میں فرق یہ ہے کہ سچائی بنیا د ہے اور اخلا ص اسکی شا خ اور اس کے تا بع ہے دو نوں میں ایک فرق یہ بھی ہے کہ اخلا ص عمل شروع کر نے کے بعد ہو تا ہے اور سچا ئی عمل شروع کر نے سے پہلے نیت میں ہو تی ہے ۔

لفظ اخلا ص قرآن کریم میں

قرآن کریم میں لفظ اخلا ص کئی طریقوں سے مذکو ر ہے ۔
(۱)کا فر لو گ جب مصا ئب دیکھتے تھے تو انکے متعلق اللہ تعا لیٰ فر ما تے ہیں ۔ دَعَوُا اللَّـهَ مُخْلِصِينَ (یونس: ۲۲)
ترجمہ : یہ لوگ سخت مصا ئب میں خا لص اللہ کو پکار تے ہیں ۔ ( [1])
(۲)ایمان والوں کو اللہ تعالیٰ مخا طب کر کے فر ما تا ہے :۔ فَادْعُوهُ مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّينَ ۗ ( غافر: ۶۵)
ترجمہ:۔ پس تم خالص اس کی عبادت کرتے ہوئے اسے پکا رو ۔
(۳)ایمان والوں کو صرف اسی کا حکم کیا گیا ہے : فر ما یا :وَمَا أُمِرُ‌وا إِلَّا لِيَعْبُدُوا اللَّـهَ مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّينَ … ( البیّنه۵)
ترجمہ:۔انکو صرف اس بات کا ہی حکم دیا گیا تھا کہ خا لص اللہ کی بندگی کریں۔
(۴)انبیاء کرام کے متعلق اللہ تعالیٰ نے فر ما یا :۔ إِنَّا أَخْلَصْنَاهُم بِخَالِصَةٍ ذِكْرَ‌ى الدَّارِ‌ ﴿٤٦ (ص)
ترجمہ:۔ اور ہم نے ان أنبیاء) کو خاص آخرت کے گھر کی یا د کیلئے خا ص کر دیا تھا۔
(۵)منا فقین کے متعلق اللہ تعالیٰ نے فر ما یا : وَأَخْلَصُوا دِينَهُمْ لِلَّـهِ (النساء: ١٤٦)
ترجمہ:۔ اور توبہ کر نے کے بعد یہ لو گ (منافقین) اپنا دین اللہ کیلئے خا لص کر دیں ۔ ( دین میں اللہ کیلئے اخلا ص پیدا کریں )۔
(۶)جنت کے با رے میں اللہ نے فر ما یا کہ وہ صرف اخلا ص وا لوں کے لئے منا سب ہے فرما یا: إِلَّا عِبَادَ اللَّـهِ الْمُخْلَصِينَ الصافات: ٤٠
ترجمہ:۔ مگر خا ص اللہ کے چنے ہو ئے بندے جنت میں داخل ہوں گے ۔
(۷)ابلیس کے گمراہ کر نے سے صرف وہی بچ جا سکیں گے جو اخلا ص وا لے ہوں ۔ ابلیس کا قول نقل کر کے فر ما یا: إِلَّا عِبَادَكَ مِنْهُمُ الْمُخْلَصِينَ ص
صرف تیرے خا لص(چنے ہو ئے )بندے میری گمراہی سے بچ جا ئیں گے۔( [2])
قرآن کریم میں جتنے طریقوں سے لفظ اخلا ص آیا ہے اُن سب کا خلا صہ دو با توں میں ثابت ہے۔
(۱)ایک دین میں مخلص ہو نے کا حکم ہے۔ وہ ایمان والوں کی دُعا ؤں اور عبا دتوں میں اخلا ص کا حکم ہو یاکا فروں کا مصا ئب کے وقت اخلا ص کا تذکر ہ ہو اور منا فقوں کا اسلا م کی طرف متو جہ ہو کر نفا ق سے تو بہ کر تے وقت اسلام کے سا تھ اللہ کیلئے مخلص ہو نا ہو یہ قسم اخلا ص مطلق اللہ تعالیٰ کیلئے ہے ۔
(۲)دو سرا اللہ تعا لیٰ کا اپنے بندو ں کو چننے اور پسند کر نے کے معنی میں ہے چا ہے وہ أنبیا ء ہوں یا انبیا ء کے علاوہ صالحین اور اللہ کے خاص بندے ہوں آگے چل کر ہم اخلا ص کے سا تھ تعلق رکھنے والی تمام آیات اِسی تر تیب سے الگ الگ معنوں کے لحاظ سے ذکر کر نے کی کوشش کر ینگے ۔(ان شاء اللہ تعالیٰ)۔
(مزید وضاحت کیلئے درج ذیل او صاف کا مطا لعہ کیجئے ۔
الإِحْسَان، الأَدَب، الأَمَانَة، الاسْتِقَامَة، الأَسوَة الحَسَنة، الصدق، المراقبة،
اور اسکے مقابل میں دیکھئے ۔ الرِیَاء، الإسَاءَة، التَهَاون، الخدَاع، الخِیَانَة، القُدْوَة السَیِئَة، النِفَاق، الشِرْك.

[1]- مزید تفصیل کے لئے دیکھئے:احياء علوم الدين (۴/۳۷۶۔۳۶۹) روضة الشريف رجه (۴۷۲۲) المنهاج فی شعب الايمان (۳/۱۱۴) المفردات فی غريب القرآن للراغب الاصفهانی (۱۵۴)
[2]- بصا ئر ذوي التمييز (۱۷۲/۱)
 
Last edited:

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
وہ آیات جو الاخلاص کے متعلق وارد ہوئی ہیں
دین کو اللہ کیلئے خالص کرنا
(١)قُلْ أَتُحَاجُّونَنَا فِي اللَّـهِ وَهُوَ رَ‌بُّنَا وَرَ‌بُّكُمْ وَلَنَا أَعْمَالُنَا وَلَكُمْ أَعْمَالُكُمْ وَنَحْنُ لَهُ مُخْلِصُونَ ﴿١٣٩البقرة
(١)آپ كہہ دیجئے كیا تم ہم سے اللہ كے بارے میں جھگڑتے ہو جو ہمارا اور تمہارا رب ہے، ہمارے لئے ہمارے اعمال ہیں اور تمہارے لئے تمہارے اعمال ،ہم تو اسی كے لئے مخلص ہیں۔

(٢)قُلْ أَمَرَ‌ رَ‌بِّي بِالْقِسْطِ ۖ وَأَقِيمُوا وُجُوهَكُمْ عِندَ كُلِّ مَسْجِدٍ وَادْعُوهُ مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّينَ ۚ كَمَا بَدَأَكُمْ تَعُودُونَ ﴿٢٩الأعراف
(٢)آپ كہہ دیجئے كہ میرے رب نے حكم دیا ہے انصاف كا اور یہ كہ تم ہر سجدہ كے وقت اپنا رخ سیدھا ركھا كرو اور اللہ تعالیٰ كی عبادت اس طور پر كرو كہ اس عبادت كو خالص اللہ ہی كے واسطے ركہو، تم كو اللہ نے جس طرح شروع میں پیدا كیا تھا اسی طرح تم دوبارہ پیدا ہو گئے۔

(٣)إِنَّا أَنزَلْنَا إِلَيْكَ الْكِتَابَ بِالْحَقِّ فَاعْبُدِ اللَّـهَ مُخْلِصًا لَّهُ الدِّينَ ﴿٢﴾ أَلَا لِلَّـهِ الدِّينُ الْخَالِصُ ۚ وَالَّذِينَ اتَّخَذُوا مِن دُونِهِ أَوْلِيَاءَ مَا نَعْبُدُهُمْ إِلَّا لِيُقَرِّ‌بُونَا إِلَى اللَّـهِ زُلْفَىٰ إِنَّ اللَّـهَ يَحْكُمُ بَيْنَهُمْ فِي مَا هُمْ فِيهِ يَخْتَلِفُونَ ۗ إِنَّ اللَّـهَ لَا يَهْدِي مَنْ هُوَ كَاذِبٌ كَفَّارٌ‌ ﴿٣الزمر
(٣)یقینا ہم نے اس كتاب كو آپ كی طرف حق كے ساتھ نازل فرمایا ہے پس آپ اللہ ہی كی عبادت كریں ، اسی كے لیے دین كو خالص كرتے ہوئے۔خبردار اللہ تعالیٰ ہی كے لئے خالص عبادت كرنا ہے اور جن لوگوں نے اس كے سوا اوراولیاء بنا ركھے ہیں ( اور كہتے ہیں )كہ ہم ان كی عبادت صرف اس لئے كرتے ہیں كہ یہ (بزرگ)اللہ كی نزدیكی كے مرتبہ تك ہماری رسائی كرا دیں، یہ لوگ جس بارے میں اختلاف كر رہے ہیں اس كا ( سچا) فیصلہ اللہ ( خود ) كرے گا، جھوٹے اور ناشكرے ( لوگوں ) كو اللہ تعالیٰ راہ نہیں دكھاتا۔

(٤)قُلْ إِنِّي أُمِرْ‌تُ أَنْ أَعْبُدَ اللَّـهَ مُخْلِصًا لَّهُ الدِّينَ ﴿١١﴾ وَأُمِرْ‌تُ لِأَنْ أَكُونَ أَوَّلَ الْمُسْلِمِينَ ﴿١٢الزمر
(٤)آپ كہہ دیجئے كہ مجھے حكم دیا گیا ہے كہ اللہ تعالیٰ كی اس طرح عبادت كروں كہ اسی كے لئے عبادت كو خالص كرلوں۔اور مجھے حكم دیا گیا ہے كہ میں سب سے پہلا فرمان بردار بن جاؤں۔

(٥)قُلِ اللَّـهَ أَعْبُدُ مُخْلِصًا لَّهُ دِينِي ﴿١٤﴾ فَاعْبُدُوا مَا شِئْتُم مِّن دُونِهِ ۗ قُلْ إِنَّ الْخَاسِرِ‌ينَ الَّذِينَ خَسِرُ‌وا أَنفُسَهُمْ وَأَهْلِيهِمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ ۗ أَلَا ذَٰلِكَ هُوَ الْخُسْرَ‌انُ الْمُبِينُ ﴿١٥الزمر
(٥)كہہ دیجئے كہ میں تو خالص كر كے صرف اپنے رب ہی كی عبادت كرتا ہوں۔تم اس كے سوا جس كی چاہو عبادت كرتے رہو كہہ دیجئے كہ حقیقی زیاں كاروہ ہیں جو اپنے آپ كو اور اپنے اہل كو قیامت كے دن نقصان میں ڈال دیں گے، یاد ركھو كہ كھلم كھلا نقصان یہی ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
(٦)هُوَ الَّذِي يُرِ‌يكُمْ آيَاتِهِ وَيُنَزِّلُ لَكُم مِّنَ السَّمَاءِ رِ‌زْقًا ۚ وَمَا يَتَذَكَّرُ‌ إِلَّا مَن يُنِيبُ ﴿١٣﴾ فَادْعُوا اللَّـهَ مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّينَ وَلَوْ كَرِ‌هَ الْكَافِرُ‌ونَ ﴿١٤غافر
(٦)وہی ہے جو تمہیں اپنی نشانیاں دكھلاتا ہے اور تمہارے لیے آسمان سے روزی اتارتا ہے،نصیحت تو صرف وہی حاصل كرتے ہیں جو ( اللہ كی طرف رجوع كرتے ہیں۔تم اللہ كو پكارتے رہو اس كے لئے دین كو خالص كر كے گو كافر برا مانیں۔

(٧)هُوَ الْحَيُّ لَا إِلَـٰهَ إِلَّا هُوَ فَادْعُوهُ مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّينَ ۗ الْحَمْدُ لِلَّـهِ رَ‌بِّ الْعَالَمِينَ ﴿٦٥غافر
(٧)وہ زندہ ہے جس كے سوا كوئی معبود نہیں پس تم خالص اسی كی عبادت كرتے ہوئے اسے پكارو، تمام خوبیاں اللہ ہی كے لئے ہیں جو تمام جہانوں كا رب ہے۔

(٨)لَمْ يَكُنِ الَّذِينَ كَفَرُ‌وا مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ وَالْمُشْرِ‌كِينَ مُنفَكِّينَ حَتَّىٰ تَأْتِيَهُمُ الْبَيِّنَةُ ﴿١﴾ ۔۔۔۔۔۔۔۔ وَمَا أُمِرُ‌وا إِلَّا لِيَعْبُدُوا اللَّـهَ مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّينَ حُنَفَاءَ وَيُقِيمُوا الصَّلَاةَ وَيُؤْتُوا الزَّكَاةَ ۚ وَذَٰلِكَ دِينُ الْقَيِّمَةِ ﴿٥البينة
(٨)اہل كتاب اپنے پاس ظاہر دلیل آجانے كے بعد ہی ( اختلاف میں پڑ كر) متفرق ہوگئے۔۔۔۔۔۔۔۔ انہیں اس كے سوا كوئی حكم نہیں دیا گیا كہ صرف اللہ كی عبادت كریں اسی كے لئے دین كو خالص رکھیں ،ابراہیم حنیف كے دین پر اور نماز كو قائم ركھیں اور زكوٰۃ دیتے رہیں یہی ہے دین سیدھی ملت كا۔

(٩)إِلَّا الَّذِينَ تَابُوا وَأَصْلَحُوا وَاعْتَصَمُوا بِاللَّـهِ وَأَخْلَصُوا دِينَهُمْ لِلَّـهِ فَأُولَـٰئِكَ مَعَ الْمُؤْمِنِينَ ۖ وَسَوْفَ يُؤْتِ اللَّـهُ الْمُؤْمِنِينَ أَجْرً‌ا عَظِيمًا ﴿١٤٦النساء
(٩)منافق تو یقینا جہنم كے سب سے نیچے كے طبقہ میں جائیں گے، نا ممكن ہے كہ تو ان كا كوئی مدد گار پالے۔ہاں جو توبہ كر لیں اور اصلاح كر لیں اور اللہ تعالیٰ پر كامل یقین ركہیں اور خالص اللہ ہی كے لئے دینداری كریں تو یہ لوگ مومنوں كے ساتھ ہیں، اللہ تعالیٰ مومنوں كو بہت بڑا اجر دے گا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
(١٠)هُوَ الَّذِي يُسَيِّرُ‌كُمْ فِي الْبَرِّ‌ وَالْبَحْرِ‌ ۖ حَتَّىٰ إِذَا كُنتُمْ فِي الْفُلْكِ وَجَرَ‌يْنَ بِهِم بِرِ‌يحٍ طَيِّبَةٍ وَفَرِ‌حُوا بِهَا جَاءَتْهَا رِ‌يحٌ عَاصِفٌ وَجَاءَهُمُ الْمَوْجُ مِن كُلِّ مَكَانٍ وَظَنُّوا أَنَّهُمْ أُحِيطَ بِهِمْ ۙ دَعَوُا اللَّـهَ مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّينَ لَئِنْ أَنجَيْتَنَا مِنْ هَـٰذِهِ لَنَكُونَنَّ مِنَ الشَّاكِرِ‌ينَ ﴿٢٢يونس
(١٠)وہ اللہ ایسا ہے كہ تم كو خشكی اور دریا میں چلاتا ہے، یہاں تك كہ جب تم كشتی میں ہوتے ہو اور وہ كشتیاں لوگوں كو موافق ہوا كے ذریعہ سے لے كر چلتی ہیں اور وہ لوگ ان سے خوش ہوتے ہیں ان پر ایك جھونكا سخت ہوا كا آتا ہے اور ہر طرف سے ان پر موجیں اٹہی چلی آتی ہیں اور وہ سمجھتے ہیں کہ (برے )آگھرے،(اس وقت )سب خالص اعتقاد كر كے اللہ ہی كو پكارتے ہیں كہ اگر تو ہم كو اس سے بچالے تو ہم ضرور شكر گزار بن جائیں گے۔

(١١)فَإِذَا رَ‌كِبُوا فِي الْفُلْكِ دَعَوُا اللَّـهَ مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّينَ فَلَمَّا نَجَّاهُمْ إِلَى الْبَرِّ‌ إِذَا هُمْ يُشْرِ‌كُونَ ﴿٦٥العنكبوت
(١١)پس یہ لوگ جب كشتیوں میں سوار ہوتے ہیں تو اللہ تعالیٰ ہی كو پكارتے ہیں اس كے لئے عبادت كو خالص كر كے پھر جب وہ انہیں خشكی كی طرف بچالاتاہے تو اسی وقت شرك كرنے لگتے ہیں۔تاكہ ہماری دی ہوئی نعمتوں سے مكرتے رہیں اور برتتے رہیں ابھی ابھی پتہ چل جائے گا ۔

(١٢)وَإِذَا غَشِيَهُم مَّوْجٌ كَالظُّلَلِ دَعَوُا اللَّـهَ مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّينَ فَلَمَّا نَجَّاهُمْ إِلَى الْبَرِّ‌ فَمِنْهُم مُّقْتَصِدٌ ۚ وَمَا يَجْحَدُ بِآيَاتِنَا إِلَّا كُلُّ خَتَّارٍ‌ كَفُورٍ‌ ﴿٣٢لقمان
(۱۲)اور جب ان پر موجیں سائبانوں کی طرح چھا جاتی ہیں ،تو وہ(نہایت) خلوص کے ساتھ اعتقاد کر کے اللہ تعالیٰ ہی کو پکارتے ہیں، پھر جب وہ باری تعالیٰ انہیں نجات دے کر خشکی کی طرف پہنچاتا ہے تو کچھ ان میں سے اعتدال پر رہتے ہیں ،ہماری آیتوں کا انکار صرف وہی کرتے ہی جو بدعہد اور نا شکرے ہیں۔

(١٣)وَإِن كَانُوا لَيَقُولُونَ ﴿١٦٧﴾ لَوْ أَنَّ عِندَنَا ذِكْرً‌ا مِّنَ الْأَوَّلِينَ ﴿١٦٨﴾ لَكُنَّا عِبَادَ اللَّـهِ الْمُخْلَصِينَ ﴿١٦٩﴾ فَكَفَرُ‌وا بِهِ ۖ فَسَوْفَ يَعْلَمُونَ ﴿١٧٠الصافات
(١٣)كفار تو كہا كرتے تھے۔كہ اگر ہمارے سامنے اگلے لوگوں كا ذكر ہوتا ۔تو ہم بھی اللہ كے چیدہ بندے بن جاتے ۔لیكن پھر اس قرآن كے ساتھ كفر كر گئے، پس اب عنقریب جان لیں گے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
اللہ رب العالمین کا اپنے لئے کسی بندے کو خالص اور چن لینا

الف: انبیاء کرام علیہم السلام


(١٤)وَلَقَدْ هَمَّتْ بِهِ ۖ وَهَمَّ بِهَا لَوْلَا أَن رَّ‌أَىٰ بُرْ‌هَانَ رَ‌بِّهِ ۚ كَذَٰلِكَ لِنَصْرِ‌فَ عَنْهُ السُّوءَ وَالْفَحْشَاءَ ۚ إِنَّهُ مِنْ عِبَادِنَا الْمُخْلَصِينَ ﴿٢٤يوسف
(١٤)اس عورت نے یوسف كی طرف كا قصد كیا اوریوسف اس كا قصد كرتے اگر وہ اپنے پروردگار كی دلیل نہ دیكھتے ،یونہی ہوا اس واسطے كہ ہم اس سے برائی اور بے حیائی دور كر دیں بے شك وہ ہمارے چنے ہوئے بندوں میں سے تھا۔
(١٥)وَاذْكُرْ‌ فِي الْكِتَابِ مُوسَىٰ ۚ إِنَّهُ كَانَ مُخْلَصًا وَكَانَ رَ‌سُولًا نَّبِيًّا ﴿٥١مريم
(١٥)اس قرآن میں موسیٰ( ) كا ذكر بھی كر، جو چنا ہوا اور رسول اور نبی تھا۔
(١٦)وَاذْكُرْ‌ عِبَادَنَا إِبْرَ‌اهِيمَ وَإِسْحَاقَ وَيَعْقُوبَ أُولِي الْأَيْدِي وَالْأَبْصَارِ‌ ﴿٤٥﴾ إِنَّا أَخْلَصْنَاهُم بِخَالِصَةٍ ذِكْرَ‌ى الدَّارِ‌ ﴿٤٦ص
(١٦)ہمارے بندوں ابراہیم ،اسحاق اور یعقوب ( علیہم السلام)كا بھی لوگوں سے ذكر كرو جو ہاتھوں اور آنكھوں والے تھے۔ہم نے انہیں ایك خاص بات یعنی آخرت كی یاد كے ساتھ مخصوص كر دیا تھا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
(ب) کامیاب مؤمن (جو عذاب دنیا یا عذاب آخرت یا تلبیس ابلیس سے کامیاب ہوئے)3

(١٧)قَالَ رَ‌بِّ فَأَنظِرْ‌نِي إِلَىٰ يَوْمِ يُبْعَثُونَ ﴿٣٦﴾ قَالَ فَإِنَّكَ مِنَ الْمُنظَرِ‌ينَ ﴿٣٧﴾ إِلَىٰ يَوْمِ الْوَقْتِ الْمَعْلُومِ ﴿٣٨﴾ قَالَ رَ‌بِّ بِمَا أَغْوَيْتَنِي لَأُزَيِّنَنَّ لَهُمْ فِي الْأَرْ‌ضِ وَلَأُغْوِيَنَّهُمْ أَجْمَعِينَ ﴿٣٩﴾ إِلَّا عِبَادَكَ مِنْهُمُ الْمُخْلَصِينَ ﴿٤٠الحجر
(١٧)كہنے لگا كہ اے میرے رب مجھے اس دن تك كی ڈھیل دے كہ لوگ دوبارہ اٹھا كھڑے كیے جائیں۔فرمایا كہ اچھا تو ان میں سے ہے جنہیں مہلت ملی ہے۔روز مقرر كے وقت تك كی۔( شیطان نے) كہا كہ اے میرے رب چونكہ تو نے مجھے گمراہ كیا ہے مجھے بھی قسم ہے كہ میں بھی زمین میں ان كے لئے معاصی كو مزین كروں گا اور ان سب كو بہكاؤں گا بھی۔سوائے تیرے ان بندوں كے جو منتخب كر لئے گئے ہیں ۔
(١٨)إِنَّكُمْ لَذَائِقُو الْعَذَابِ الْأَلِيمِ ﴿٣٨﴾ وَمَا تُجْزَوْنَ إِلَّا مَا كُنتُمْ تَعْمَلُونَ ﴿٣٩﴾ إِلَّا عِبَادَ اللَّـهِ الْمُخْلَصِينَ ﴿٤٠﴾ أُولَـٰئِكَ لَهُمْ رِ‌زْقٌ مَّعْلُومٌ ﴿٤١﴾ فَوَاكِهُ ۖ وَهُم مُّكْرَ‌مُونَ ﴿٤٢﴾ فِي جَنَّاتِ النَّعِيمِ ﴿٤٣الصافات
(١٨)یقینا تم دردناك عذاب ( كا مزہ) چكھنے والے ہو۔تمہیں اسی كا بدلہ دیا جائے گا جو تم كرتے تھے۔مگر اللہ تعالیٰ كے خالص برگزیدہ بندے۔انہیں كے لئے مقررہ روزی ہے۔( ہر طرح كے) میوے ،اور وہ باعزت و اکرام والےہونگے۔نعمتوں والی جنتوں میں ۔
(١٩)إِنَّهُمْ أَلْفَوْا آبَاءَهُمْ ضَالِّينَ ﴿٦٩﴾ فَهُمْ عَلَىٰ آثَارِ‌هِمْ يُهْرَ‌عُونَ ﴿٧٠﴾ وَلَقَدْ ضَلَّ قَبْلَهُمْ أَكْثَرُ‌ الْأَوَّلِينَ ﴿٧١﴾ وَلَقَدْ أَرْ‌سَلْنَا فِيهِم مُّنذِرِ‌ينَ ﴿٧٢﴾ فَانظُرْ‌ كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الْمُنذَرِ‌ينَ ﴿٧٣﴾ إِلَّا عِبَادَ اللَّـهِ الْمُخْلَصِينَ ﴿٧٤الصافات
(١٩)یقین مانو! كہ انہوں نے اپنے باپ دادا كو بہكا ہوا پایا۔اور یہ انہی كے نشان قدم پر دوڑتے رہے۔ان سے پہلے بھی بہت سے اگلے بہك چكے ہیں ۔جن میں ہم نے ڈرانے والے( رسول ) بھیجے تھے،۔اب تو دیكھ لے كہ جنہیں دھمكایا گیا تھا ان كا انجام كیسا كچھ ہوا، سوائے اللہ کے برگزیدہ بندوں کے۔
(٢٠)وَإِنَّ إِلْيَاسَ لَمِنَ الْمُرْ‌سَلِينَ ﴿١٢٣﴾ إِذْ قَالَ لِقَوْمِهِ أَلَا تَتَّقُونَ ﴿١٢٤﴾ أَتَدْعُونَ بَعْلًا وَتَذَرُ‌ونَ أَحْسَنَ الْخَالِقِينَ ﴿١٢٥﴾ اللَّـهَ رَ‌بَّكُمْ وَرَ‌بَّ آبَائِكُمُ الْأَوَّلِينَ ﴿١٢٦﴾ فَكَذَّبُوهُ فَإِنَّهُمْ لَمُحْضَرُ‌ونَ ﴿١٢٧﴾ إِلَّا عِبَادَ اللَّـهِ الْمُخْلَصِينَ ﴿١٢٨الصافات
(٢٠)بے شك الیاس( ) بھی پیغمبروں میں سے تھے۔جبكہ انہوں نے اپنی قوم سے فرمایا كہ تم اللہ سے ڈرتے نہیں ہو؟۔كیا تم بعل( نامی بت) كو پكارتے ہو؟ اور سب سے بہتر خالق كو چھوڑ دیتے ہو؟۔اللہ جو تمہارا اور تمہارے اگلے تمام باپ دادوں كا رب ہے۔لیكن قوم نے انہیں جھٹلایا، پس وہ ضرور ( عذاب میں ) حاضر ركھے جائیں گے۔سوائے اللہ تعالیٰ كے مخلص بندوں كے ۔
(٢١)فَأْتُوا بِكِتَابِكُمْ إِن كُنتُمْ صَادِقِينَ ﴿١٥٧﴾ وَجَعَلُوا بَيْنَهُ وَبَيْنَ الْجِنَّةِ نَسَبًا ۚ وَلَقَدْ عَلِمَتِ الْجِنَّةُ إِنَّهُمْ لَمُحْضَرُ‌ونَ ﴿١٥٨﴾ سُبْحَانَ اللَّـهِ عَمَّا يَصِفُونَ ﴿١٥٩﴾ إِلَّا عِبَادَ اللَّـهِ الْمُخْلَصِينَ ﴿١٦٠الصافات
(٢١)یا تمہارے پاس اس كی كوئی صاف دلیل ہے۔تو جاؤ اگر سچے ہو تو اپنی ہی كتاب لے آؤ۔اور ان لوگوں نے تو اللہ كے اور جنات كے درمیان بھی قرابت داری ٹھہرائی ہے، اور حالانكہ خود جنات كو معلوم ہے كہ وہ( اس عقیدہ كے لوگ عذاب كے سامنے) پیش كیے جائیں گے۔جو كچھ یہ ( اللہ كے بارے میں بیان كر رہے ہیں اس سے اللہ تعالیٰ بالكل پاك ہے۔سوائے اللہ كے مخلص بندوں كے۔
(٢٢)قَالَ رَ‌بِّ فَأَنظِرْ‌نِي إِلَىٰ يَوْمِ يُبْعَثُونَ ﴿٧٩﴾ قَالَ فَإِنَّكَ مِنَ الْمُنظَرِ‌ينَ ﴿٨٠﴾ إِلَىٰ يَوْمِ الْوَقْتِ الْمَعْلُومِ ﴿٨١﴾ قَالَ فَبِعِزَّتِكَ لَأُغْوِيَنَّهُمْ أَجْمَعِينَ ﴿٨٢﴾ إِلَّا عِبَادَكَ مِنْهُمُ الْمُخْلَصِينَ ﴿٨٣ص
(٢٢)كہنے لگا میرے رب مجھے لوگوں كے اٹھ كھڑے ہونے كے دن تك مہلت دے۔ ( اللہ تعالیٰ نے) فرمایا تو مہلت والوں میں سے ہے۔ متعین وقت كے دن تك۔كہنے لگا پھر تو تیری عزت كی قسم میں ان سب كو یقینا بہكا دوں گا۔بجز تیرے ان بندوں كے جو چیدہ اور پسندیدہ ہوں ۔
 
Top