• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اردو ادب، اقبال اور مُلا

محبوب حسن

مبتدی
شمولیت
نومبر 26، 2011
پیغامات
44
ری ایکشن اسکور
228
پوائنٹ
0
اردو ادب، اقبال اور مُلا​

اردو ادب کے مختلف ادوا ر میں مُلا، مولوی، زاہد اور واعظ ادیبوں اور شاعروں کے مشق ستم کا نشانہ بنتے رہے ہیں۔ آج کے دور میں ایسے کسی ادب پر اعتراض کئے جانے پر عموماً اردو ادب کی روایات کا حوالہ دیا جاتا ہے۔کسی دور میں مذہبی حلقوں سے علامہ اقبال کی بھی مخالفت کی گئی تھی لیکن آج مجموعی طور پر اقبال کافی احترام کی نگاہوں سے دیکھے جاتے ہیں۔ علامہ اقبال کی شاعری میں استعمال شدہ ملّا اور مجاہد کی اصطلاح معروف ہے۔ اقبال کی شاعری میں ملّا پر سخت تنقید ملتی ہے۔ لیکن جہاں پر بھی علامہ نے ملّا پر طنز یا تنقید کی ہے اس کے سیاق و سباق سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ وہ کس وجہ سے ملّا پر نالاں ہیں۔ ایک جگہ پر علامہ اقبال ملّا کو مجاہد کے ضد کے طور پربھی پیش کرتے ہیں۔ ملّاکے سلسلے میں علامہ کے کچھ اشعارملاحظہ ہوں:

الفاظ و معانی میں تفاوت نہیں لیکن
ملّا کی اذاں اور مجاہد کی اذاں اور


مزید ملاحظہ ہو
وہ مذہب مردان خود آگاہ و خدا مست
یہ مذہب ملّاو جمادات و نباتات

مزید ملاحظہ ہو
ملّا کو جو ہے ہند میں سجدے کی اجازت
ناداں یہ سمجھتا ہے کہ اسلام ہے آزاد

ایک نظم ملّائے حرم میں یہ فرماتے ہیں
عجب نہیں کہ خدا تک تری رسائی ہو
تری نگہ سے پوشیدہ ہے آدمی کا مقام
تری نماز میں باقی جلال نہ جمال
تری اذاں میں نہیں ہے سحرکا پیام
ہماری سعی پیہم کی کرامت ہے کہ آج
صوفی و ملّا ملوکیت کے بندے ہیں تمام

ملّا کی مستی گفتار پر یہ ارشاد ہے
صوفی کی طریقت میں فقط مستی احوال
ملّا کی شریعت میں فقط مستی گفتار

ان اشعار سے ملّا کی اندھی مخالفت کے بجائے اس بات کی وضاحت ملتی ہے کہ علامہ اقبال کیوں ملّا سے ناراض ہیں۔ دین میں جمود، اپنے اور آدمیت کے مقام کا ادراک نہ کرنا، اجتماعی زندگی سے دین کو الگ رکھ کر صرف عبادات تک محدود رکھنا، ملوکیت کے آگے جھکنا، دین پر عمل کرنے کے بجائے صرف زبانی نصیحتوں پر اکتفاء کرنا وغیرہ۔

اس سب کے باوجود علامہ اقبال ایسے ملّا کی قدر بھی کرتے تھے جو مسلمانوں میں ملی غیرت باقی رکھنے میں کوشاں ہوں۔ ابلیس کی زبان سے علامہ یوں گویا ہیں۔

افغانیوں کی غیرت دیں کا ہے یہ علاج
ملّا کو ان کے کوہ دمن سے نکال دو

الغرض علامہ کلی معنوں میں ملّا کے مخالف نہیں تھے۔

دراصل پچھلی کچھ صدیاں علمی اعتبار سے مسلمانوں کے زوال کی صدیاں رہی ہیں اور یہ زوال سب سے زیادہ اس گروہ پر آیا جو دین کا محافظ اور نگران سمجھا جاتا تھا بلکہ اگر یہ زوال اس گروہ میں نہ آیا ہوتا تو مسلمانوں کو زوال دیکھنا ہی نہ پڑتا۔ حالات اور وقت کی تبدیلیوں کی قیادت یورپ کے ہاتھوں میں تھی۔ مسلمان ان تبدیلیوں کے چیلنج کا مقابلہ تو در کنار ان تبدیلیوں کو سمجھ ہی نہ سکے۔بدلتے ہوئے چیلنج کو نہ سمجھنے کی وجہ سے ہمارا روایتی دینی حلقہ ان کامقابلہ کرنے کے قابل نہ ہوسکا۔

ایک طرف مسلمانوں کی قیادت علماء کی ہاتھوں سے نکل رہی تھی اور دوسری طرف پڑھا لکھا مسلمان مغرب کا اثر لے رہا تھا اور پھر اس دینی حلقہ کو کچھ ادراک ہی نہ تھا کہ یہ تبدیلی کس طرح کی ہے۔ایسی کیفیت میں ان دین دار حلقوں نے جس طرح کارویہ اختیار کیا اس کی وجہ سے دینی حلقے اور تعلیم یافتہ حلقوں میں بُعد بلکہ مخالفت پیدا ہوگئی۔ وہ تعلیم یافتہ حلقہ جو کسی بھی طرح سے دین کی ترویج کی راہ نکال کر دے رہاتھا اُس سے بھی علماء کی نہ بنی اور علماء اپنے ذہنی جمود کی وجہ سے اپنے اندر کوئی تبدیلی اور ڈائنا مزم نہیں لا سکے۔

علامہ اقبال کی ملّا پر تنقید اسی جمود پر رد عمل ہے۔

اصولی طور پر کسی پر اگر لعن طعن کرنا ہو تو اس کی وجہ واضح ہونی چاہئے۔ بے معنی اور لغو طعن کسی بھی طرح سے اخلاق کے دائرے میں نہیں آتا اگرچیکہ اس کو اردو ادب سے الگ کرنا ممکن نہ ہو۔ لیکن آج کے دورمیں ملّا اس لئے نشانہ بن رہا ہے کیوں کہ اس نے علامہ اقبال سے سبق سیکھ کر اپنے اندر تبدیلی پیدا کردی۔بلکہ آج کے اس دور میں ملّا پر لعن طعن کرتے ہوئے یہی بات واضح نہیں ہے کہ ملّا سے یہاں کیا مراد ہے؟ کیا کسی مدرسے کا مولوی؟ یا کوئی دیندار شخص، یا ترقی پسند تحریک کا مخالف، منٹو اور عصمت چغتائی کے طرز تحریر کا نقاد، سیکولرزم اور جدت پسندی کو دلائل سے پچھاڑ دینے والا؟ سوال یہ ہے کہ ملّا کو ملّا ہونے پر نشانہ بنایا جارہا ہے یامجاہد ہونے پر؟ ملّا کو ملوکیت کا غلام بننے پر نشانہ بنایا جارہا ہے یا استعمار مخالفت پر؟ ملّا کو دین کی انفرادی تعبیر پر نشانہ بنایا جارہا ہے یا دین کی اجتماعی تعبیر پر؟ ایک ابہام ہے اور اس ابہام کے پردے میں اندر کا پورا کا پورا بغض اتارنے کی پوری آزادی۔

حقیقت یہ ہے ملّا کے طعنے دلیل کا متبادل بن گئے ہیں۔ ایک طرف علامہ اقبال فرسودگی، جمود اور ملوکیت کی غلامی پر ملّا پر تنقید کر رہے ہیں اور آج وہ حلقہ جو مغرب سے درآمد شدہ فرسودگی، اور مغرب کے شکست خوردہ فکری اور معاشی نظریا ت کی اندھی تقلید کا قائل ہے وہ ملّا پر طعن کرتا نظر آتا ہے۔یعنی بات بالکل الٹ ہوگئی ہے۔ دینی حلقوں میں روایتی علماء کی جگہ اپنی تمام خامیوں کے باوجود ایسا حلقہ موجود ہے جو وقت کے چیلنج کو سمجھ کر ڈٹا ہوا ہے۔ لیکن یہ مغربی نظریات کے گند میں آلودہ بوسیدہ ذہن ملّا کے پیچھے پڑا ہوا ہے اس کی وضاحت کے بغیر کے اس سے کونسا ملّا مراد ہے؟

حقیقت یہی ہے علامہ اقبال جس ملّا کو مخاطب کر رہے ہیں اس کا متبادل آج کے دور کی وہ بوسیدہ ذہن نسل ہے جس نے ایک عمر سرخ سویرے کے انتظارمیں گذاردی اور جب یہ سرخ سویرا افغان ملّا کے ہاتھوں اپنے انجام کو پہونچ گیا تو ادب کے نام پر اس ملّا کے پیچھے پڑا ہے جس کی ضربوں نے ان کے خوابوں کی حقیقت ان کو دکھلادی۔ اس ملّا کا متبادل وہ ذہن بھی ہے جو ایک عرصے سے مغرب کے سماجی و سیاسی نظریات کو عقیدے کا حرف آخر سمجھتا رہا اور اب جا کر پتہ چلا ہے کہ یہ سخت جان ملّاسوٹ بوٹ میں ٹی وی پر آکر بھی ان نظریات کے پرخچے اُڑا سکتا ہے۔کوشش کے باوجود یہ سرخ اور مغربی ملّا اپنی تمناؤوں اور حسرتوں کی لاش سے اُٹھتے ہوئے تعفن کو چھپا نہیں پاتا۔

پچھلے دور کے ملّا کا بھی یہ المیہ تھا کہ ایک عرصہ تک ایک مخصوص سوچ کے ساتھ گذارنے کے بعد اور کچھ مخصوص اساتذہ کی تعلیمات کو حرف آخر سمجھنے کے بعد ان کواپنے آپ کو تبدیل کرنا ناممکن ہوگیاتھا۔ بالکل یہی مسئلہ اس فرسودہ ذہن نسل کا بھی ہے کہ ایک رخ پر اتنی دورچلنے کے بعد کسی طرح بھی اپنے آپ کو پلٹنے پر آمادہ نہیں کرپاتے ۔ بقول شاعر

کعبہ کس منہ سے جاؤگے غالب
شرم تم کو مگر نہیں آتی

حیرت کی بات یہ ہے ابلاغی میدان میں ملّا کے طعنے ان کے لئے بھی دھڑادھڑ استعال ہورہے ہیں جو وقت کے چیلنج کا سامنا بڑی جواں مردی سے کر رہے ہیں۔

کہنے کا قطعاً یہ مطلب نہیں ہے کہ آج کے دور میں ایسے ملّا نہیں پائے جاتے جن کو علامہ اقبال نے نشانہ بنایا تھا۔ لیکن اقبال کی نظیر کو پیش کرکے اس طرح سے ملّا پر اعتراض کرنا کہ یہ پتہ بھی نہ چلے کے کس قسم کے ملّا پر اور کیوں اعتراض کیا جارہا ہے کسی بھی طرح معقول طرز عمل قرار نہیں دیا جاسکتا۔ اور ان کی طرف سے ملا پر فقرے کسنا جو کہ اقبال کی فکر سے غیر اعلانیہ طور اپنے اندر پر شدید بغض پال رکھے ہوں اپنے میں ایک عجیب تناقض ہے۔

پرانی شاعری میں واعظ، زاہد وغیرہ کی اصطلاحات پر اور آج کے دور میں مولوی پر بھی ادب کے نام پر بھپتی کسی جاتی ہے۔ غالب وغیرہ کی پرانی شاعری پڑھنے سے یہ لگتا ہے کہ اپنی اخلاقی بے راہ روی کو جواز فراہم کرنے کے لئے اردو شاعری میں اسطرح کی چیزیں پائی جاتی تھیں۔ اگرچیکہ یہ اخلاقی اعتبار سے انتہائی پست چیز ہے لیکن اردو ادب میں یہ روایت بن چکی ہے اور یہ کوشش عبث ہے کہ اردو ادب کو اس سے پاک کیا جائے۔ مقبول عام پرانی شاعری میں شاعر اپنی کسی ادبی کمزوری کو چھپانے کے لئے اس طرح کی حرکت کرتا نہیں پایا جاتا تھا۔ بلکہ انتہائی معیاری شاعری میں ایک ادھ اس طرح کے اشعار پائے جاتے ہیں۔ اور شعراء کے کلام کے مجموعے میں اس کا تناسب انتہائی کم نظر آتا ہے۔ اور ملّا پر جس طرح بھپتیاں کسی جاتی تھیں اس میں ادبی معیار کا بھی لحاظ رکھا جاتا تھا کہ اس کا نشانہ بننے والے خود اس سے لطف اندوز ہوں۔

لیکن اس روایت کا فائدہ اُٹھا کر ماشاء اللہ اب ایسے شعراء کی افزائش بھی ہورہی ہے جو شاعری کے بجائے تک بندی بلکہ نثر بندی کرتے ہیں اور انہیں شعر لکھنے کے لئے کوئی موضوع نظر نہیں آتا تو مولوی بے چارہ نشانہ بن جاتا ہے اور وہ بھی ایسے کہ سمجھ میں نہیں آتا کہ مولوی کی کس بات پر اس کو مشق ستم بنایا جارہا ہے۔چونکہ کچھ وجوہات کی بنا پر آج بھی ایک پڑھا لکھا شخص اپنے آپ کو مولوی یا مولویت سے متعلق پیش نہیں کرنا چاہتا اس لئے یہ ایک انتہائی آسان نسخہ ہے۔ بلکہ اگر کوئی سرپھرا مولویت کا دفاع کرتا نظر بھی آئے تو اس کو ایک تنگ نظر کے طور پر پیش کرنا انتہائی آسان ہے ۔ اس سے ایک بہت بڑا فائدہ یہ بھی ہوتا ہے کہ وہ ادب جس میں مولوی کو نشانہ بنایا گیا ہے اس کے معیار کی جانچ ہی نہیں ہوپاتی۔ آپ جتنا بھی بے تکا بھونڈا اور لغو ادب پیش کریں کہیں نہ کہیں سے داد و تحسین کے ڈوگرے برسانے والے نظر آہی جاتے ہیں۔ ایسے میں ایک ادبی ذوق رکھنے والے شریف انسان کو خاموشی میں ہی عافیت نظر آتی ہے۔ اس طرح کے ادب سے یوں محسوس ہوتا ہے کہ گویا ڈھلتی عمر کی کوئی ناکام اداکارہ ذرائع ابلاغ میں جگہ پانے کے لئے کسی نہ کسی حرکت کی محتاج ہے۔بلکہ اس طرح کے نیچ ادب کے ساتھ وہ فرسودہ نسل بھی ساتھ ہوجاتی ہے جوملّا کی غیرت اور بیداری کی وجہ سے اپنے خوابوں کی تعبیر نہیں دیکھ سکی اور نہ ہی دیکھنے کا کوئی امکان پاتی ہے۔

تحریر: عبد السلام خلیفہ (بھارت)
https://www.facebook.com/notes/abdussalam-khalifa/اردو-ادب-اقبال-اور-ملا/10150936991653891
 

باذوق

رکن
شمولیت
فروری 16، 2011
پیغامات
888
ری ایکشن اسکور
4,010
پوائنٹ
289
کچھ ملتے جلتے اسی موضوع پر ندا فاضلی کے اشعار سے متعلق ایک اقتباس یہ بھی پڑھئے ۔۔۔۔ (بشکریہ : مذہبیت، ادبیت اور ندا فاضلیت)

۔۔۔۔۔۔۔ ہمیں رابعہ بصری، فریدالدین گنج شکر، حافظ شیرازی، ابن عربی، جامی، جنید شیرازی، امیر خسرو، مرزا مظہر جان جاناں، رومی اور سعدی وغیرہ جیسے معتبر صوفی شاعروں کی تخلیقات میں مذہبی شعائر سے علیحدگی کا پہلو نظر نہیں آتا بلکہ اس طرح کی شاعری حق الیقین کی ٹھوس بنیادوں پر ہی قائم ہوتی ہے۔ اس کے برخلاف ندافاضلی کے یہاں پورا زور صرف شعائر مذاہب کے ردّ پر مبنی ہے اور یہ ردّ بھی بے جواز اور غیر منطقی ہے۔مثلاً ان کا ایک معروف شعر ہے ؎
گھر سے مسجد ہے بہت دور چلو یوں کرلیں
کسی روتے ہوئے بچے کو ہنسایا جائے

ندافاضلی کے اس شعر کو انسان دوستی کا مظہر کہا جاتا ہے جس پروہ کافی داد پاچکے ہیں۔
۔۔۔۔ یہ شعر انسان دوستی کا استعارہ نہیں بلکہ محض ایک اہم اور بنیادی مذہبی فریضے سے انکار کی حیلہ تراشی ہے۔ سب سے پہلی بات تو یہ کہ دوسرے مصرعے کا پہلا لفظ"کسی" غور طلب ہے یعنی ایسا نہیں ہے کہ متکلم مسجد کے لیے نکلا ہو اور راستے میں اسے ایک روتا ہوا بچہ مل گیا ہو جسے ہنسانے کو وہ نماز پر ترجیح دے رہا ہو بلکہ یہاں یہ معمولی سا لفظ بتا رہا ہے کہ فی الحال کوئی روتا ہوا بچہ وہاں موجود ہی نہیں ہے لیکن چونکہ متکلم نماز پڑھنے کے لیے ذہنی طور پر تیار نہیں ہے، لہٰذا وہ کسی روتے ہوئے بچے کی تلاش میں ہے۔
اب اگر کوئی یہ کہے کہ کسی شعر کو پرکھنے کے لیے مذہبی معیار نہیں بلکہ ادبی معیار کی ضرورت ہوتی ہے تو پھر میں یہ عرض کرنا چاہوں گا کہ اگر شاعر نے اپنا شعر مذہبی بنیادوں پر ایستادہ کیا ہے تو پھر اس کے استعاراتی یا فنی نظام سے پہلے اس کا محاکمہ بھی انھیں مذہبی نظام کی بنیادوں پر کیا جائے گا۔
چونکہ شعر مذکور کا متکلم بچے کے ہنسانے کو مسجد جانے پر ترجیح دے رہا ہے تو پھر اس کی نیت کا محاسبہ بھی ضرور ی ہوجاتا ہے کہ وہ واقعی مسجد جانا چاہتا ہے یا اس کی دوری کے بہانے اس کا نعم البدل پیش کرکے محض اپنی انسان دوستی کا ڈھنڈورا پیٹنا چاہتا ہے۔ دیکھا آپ نے انسان دوستی جیسی اصطلاحیں اپنے مخصوص افکار کی تشہیر کے لیے اور اپنے مقابل افکار کو زیر کرنے کے لیے کیسے استعمال میں لائی جاتی ہیں۔
اب ان کا یہ شعر دیکھیں ؎
بچہ بولا دیکھ کر مسجد عالی شان
اللہ تیرے ایک کو اتنا بڑا مکان

کبیر نے جب یہ کہا تھا کہ ؎
کنکر پتھر جوڑ کے مسجد لئی بنائے
وا چڑھ ملّا بانگ دے کا بہرو بھیو کھدائے
توممکن ہے کہ اسے یہ معلوم نہ ہو کہ موذن (ملّا) کی اذان (بانگ) خد ا کے لیے نہیں بلکہ اس کے بندوں کے لیے ہوتی ہے جو محض عبادت کے وقت کا اعلان ہے۔ لیکن یہ کیسے مان لیا جائے کہ ندافاضلی کو مسجد کے متعلق یہ علم نہیں کہ لغوی معنی میں یہ اللہ کا مکان نہیں بلکہ عبادت گاہ ہے اور مسجد کو اللہ کا گھر کنایتہ بولا جاتا ہے ۔ اس کے باوجود اگر ندافاضلی اللہ میاں کو one room kitchen میں ہی محصور کرنے کے خواہش مند ہیں تو انھیں اس کا جواز بھی پیش کرنا چاہیے تھا۔ انھیں یہ بتانا چاہیے تھا کہ آخر وہ مسجد پر مفلوک الحالی برستا کیوں دیکھنا چاہتے ہیں۔اقبال نے اسی موضوع کو جب چھوا تو وہاں تشکیک کا پہلو بالکل نہ تھا بلکہ انھوں نے مذہبی منافقت پر کاری ضرب لگائی ۔
مسجد تو بنا لی شب بھر میں ایماں کی حرارت والوں نے
من اپنا پرانا پاپی ہے برسوں میں نمازی بن نہ سکا

اقبال کے اس شعر میں تضحیک نہیں طنز ہے جس میں اصلاح معاشرہ کی واضح جھلک موجود ہے۔ انھوں نے مسجد کے وجود پر سوالیہ نشان لگانے کے بجائے ضعف ایمان کو نشان زد کیا۔
 
Top