• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اردو ترجمہ ارشاد الفحول از امام شوکانی رحمہ اللہ

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,551
پوائنٹ
641
مقدمہ
علوم شرعیہ کو ہم دو قسم کے علوم میں تقسیم کر سکتے ہیں:

بنیادی علوم
یہ دو ہیں یعنی کتاب اللہ اور سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا علم۔

ثانوی علوم
وہ علوم جو بنیادی علوم کو سمجھنے و سمجھانے کے لیے امدادی علوم کی حیثیت رکھتے ہیں۔ انہیں ہم مزید دو حصوں میں تقسیم کر سکتے ہیں:
۱۔ علوم اصول : یعنی اصول کے علوم اور ان سے مراد اصول تفسیر، اصول حدیث، اصول فقہ، اصول عقیدہ اور اصول قراآت کا علم ہے۔
۲۔ علوم لغت : ان سے مراد صرف، نحو، بلاغت، لغت، ادب اور منطق کا علم ہے۔
کچھ علوم کتاب و سنت کی تحقیق کے علم ہیں جیسا کہ اصول قراآت اور اصول حدیث کا علم جبکہ کچھ علوم کتاب وسنت کی تفہیم کے علوم ہیں جیسا کہ اصول تفسیر اور اصول فقہ وغیرہ۔

ہر فن اور علم میں کچھ لوگ وہ ہوتے ہیں جو تخلیقی کام کرتے ہیں۔
اس کے بعد تحقیقی کام کی باری آتی ہے۔
اس کے بعد جمع و ترتیب اور تدوین و تنقیح کا کام ہوتا ہے۔
اس کے بعد اختصار و تہذیب کا کام ہوتا ہے۔
اس کے بعد ایک کام اس علم و فن پر کیے گئے اس کام کو دوسری زبانوں میں منتقل کرنے کا ہوتا ہے۔
اس کے علاوہ بھی کچھ لوگ کام کرتے ہیں لیکن وہ عموما مکھی پر مکھی مارنے یا اپنے نام سے کوئی کتاب شائع کروانے کے جذبے کے تحت ہوتا ہے۔

کسی بھی فن میں تخلیقی کام کرنے والے حضرات درحقیقت نابغہ روزگار یا ایسے جینیءس افراد ہوتے ہیں جو صدیوں میں پیدا ہوتے ہیں۔ اصول فقہ میں لکھی جانے والی کتب کا اگر ہم مطالعہ کریں تو ان میں امام شافعی رحمہ اللہ کی "الرسالۃ'' اور امام ابن حزم رحمہ اللہ کی "الاحکام" اور امام شاطبی رحمہ اللہ کی "الموافقات" اس فن کی تخلیقات کی معراج ہیں۔ امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے بھی اس فن میں اپنے تصور حکمت کے ذریعے گراں قدر تخلیق کا اضافہ کیا ہے۔

تخلیقی کام کے بعد تحقیقی کام یعنی ریسرچ ورک کی اہمیت مسلم ہے۔ اصول فقہ میں ریسرچ ورک پر بہت کتابیں لکھی گئی ہیں اور تاحال لکھی جا رہی ہیں مثلاً امام بزدوی رحمہ اللہ کی "اصول بزدوی" اور امام سرخسی رحمہ اللہ کی "اصول سرخسی" اور امام الحرمین رحمہ اللہ کی "البرھان" تحقیقی کام کی بہترین مثالیں ہیں۔ جدید کتابوں میں زکریا بن غلام قادر باکستانی کی کتاب "اصول الفقہ علی منہھج أھل الحدیث" ریسرچ ورک کی ایک عمدہ مثال ہے۔

تحقیقی کام کے بعد کسی فن میں جمع و تدوین اور ترتیب و تنقیح کا کام بھی خصوصی اہمیت کا حامل ہے۔ اصول فقہ میں علامہ آمدی رحمہ اللہ کی کتاب "الاحکام" اور امام زرکشی رحمہ اللہ کی کتاب "البحر المحیط" اصول فقہ میں متنوع اقوال کی جامعیت، فنی مواد کی عمدہ ترتیب اور متفرق اقوال کی تنقیح کے پہلو سے عمدہ کتب ہیں۔

جمع و تدوین اور ترتیب و تنقیح کے بعد ایک اور کام اختصار و جامعیت کا ہے۔ امام شوکانی رحمہ اللہ کی کتاب "ارشاد الفحول" اس پہلو سے ایک بہترین کتاب ہے کہ اس میں اس فن کے بارے ما لہ و ما علیہ کو انتہائی اختصار اور جامعیت کے ساتھ ایک جگہ جمع کر دیا گیا ہے۔ علاوہ ازیں اس میں اس فن کے حوالہ سے گراں قدر علمی نکات کا اضافہ بھی ہے اور بعض مقامات پر اقوال کی تنقیح بھی ہے لیکن مکمل کتاب کا مزاج درحقیقت سابقہ کام کو اختصار اور جامعیت کے ساتھ ایک جگہ جمع کرنے کا ہی ہے۔ تقریباً دو سال قبل کی بات ہے کہ مجلس التحقیق الاسلامی میں "ارشاد الفحول" کے ایک سلیس ترجمہ کی ذمہ داری راقم کو سونپی گئی، راقم نے کچھ عرصہ اس پر کام کیا لیکن بعد میں دیگر مصروفیات کی وجہ سے یہ کام ترک کرنا پڑا۔ فورم پر ہمارے ایک بھائی نے اس خواہش کا اظہار کیا کہ انہیں اس کتاب کا ترجمہ درکار ہے۔ راقم نے اس کتاب کے جس قدر حصہ کا ترجمہ کیا تھا، اسے ذیل میں افادہ عام کے لیے نقل کیا جا رہا ہے۔

نوٹ :
1۔ بریکٹس میں جو عبارتیں منقول ہیں وہ راقم کی طرف سے عبارت کا مفہوم آسان بنانے کے لیے اضافہ ہیں۔
2۔ دوسرا یہ بات بھی اہم ہے کہ کسی فن کی کتاب کا ترجمہ ایک حد تک ہی سلیس بنایا جا سکتا ہے اور اس ترجمہ سے استفادہ کے لیے ضروری ہوتا ہے کہ آپ اس فن کی بنیادی اصطلاحات سے واقف ہوں مثلا اگر کوئی صاحب فزکس کی کسی کتاب کا ترجمہ کریں گے تو اس ترجمہ میں فزکس کی بنیادی اصطلاحات ولاسٹی، اسراع وغیرہ کا بھی ترجمہ کرنا تقریبا مشکل ہوتا ہے۔ اور ان بنیادی اصطلاحات سے ناواقفیت اس مترجم کتاب سے استفادہ میں رکاوٹ بن سکتی ہے۔
امام شوکانی رحمہ اللہ تک اصول فقہ کی جو کتب لکھی گئی ہیں، ان میں منطق اور علم کلام کا استعمال کافی ہوا ہے لہذا ان دو علوم کی اصطلاحات کی بھی بھرمار ہے۔ پس امام شوکانی رحمہ اللہ کی اس کتاب کے ترجمہ سے صد فی صد فائدہ حاصل کرنے کے لیے ضروری ہے کہ ایک شخص منطق اور علم الکلام کی بنیادی اصطلاحات سے واقف ہو۔ جس طرح میڈیکل سائنس کی کتاب پڑھنے کے لیے صرف انگریزی آنا لازم نہیں ہے اسی طرح اردو میں فلسفہ کی کوئی کتاب پڑھنے کے لیے ضروری ہے کہ اردو زبان کے ساتھ ساتھ فلسفیانہ ذوق اور اس فن کی بنیادی اصطلاحات سے واقفیت بھی ہو۔ ترجمہ کی کچھ حدود ہوتی ہے اور ان حدود سے تجاوز کرنا مشکل ہوتا ہے۔
راقم نے اس ترجمہ میں بعض مقامات پر منطق اور علم کلام کی ان اصطلاحات کو سلیس بنانے کی لمبی چوڑی عبارتوں کا اضافہ کیا ہے لیکن اس کے باوجود محسوس یہی ہوتا ہے کہ ترجمہ سے زیادہ اس کتاب کی ایک مفصل شرح کی ضرورت ہے اور اس شرح سے پہلے بھی مبادیات منطق اور علم الکلام پر مبنی ایک مفصل دیباچے اور مقدمے کی ضرورت ہے تا کہ اس کتاب کے ترجمہ سے عوام الناس کے لیے استفادہ ممکن حد تک ہو سکے۔

 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,551
پوائنٹ
641
بسم اللہ الرحمن الرحیم
اے اللہ ! ہم آپ ہی کی عبادت کرتے ہیں اور ہر کام میں آپ ہی سے مدد مانگتے ہیں۔ اے اللہ ! آپ ہی وہ ذات ہیں جو معبود برحق اور شکر حقیقی کے لائق و مستحق ہیں۔ آپ کے سوا اس مخلوق پر کوئی بھی انعام کرنے والا نہیں ہے۔ ہر قسم کا نفع جو آپ کے غیر کے ہاتھوں جاری ہوتا ہے' اس کو جاری کرنے والی بھی در اصل آپ ہی کی ذات ہے ۔ ہر طرح کی بھلائی جو ایک مخلوق سے دوسری مخلوق کو پہنچتی ہے' وہ بھی آپ ہی کی قدرت اور فیصلے سے جاری ہوتی ہے۔

اے اللہ تعالی! میں آپ کی ایسی تعریف بیان کرتا ہوں جس پر آپ راضی ہو جائیں اور آپ کی نعمتوں کے صلے میں آپ کا شکر ادا کرتا ہوں۔ اگرچہ آپ کی نعمتیں بے شمار ہیں لیکن پھر بھی آپ کا شکر ادا کرنے کی کوشش کرتا ہوں تا کہ آپ کے حکم پر عمل ہو وگرنہ آپ کے شکریہ کا حق ادا کرنا تو کسی کے لیے بھی ممکن نہیں ہے۔ بلاشبہ میری زبان اور أعضاء و جوارح آپ کی ادنی ترین نعمت کا بھی شکر ادا نہیں کر سکتے بلکہ وہ تو اس شکر کا کچھ حصہ بھی ادا نہیں کر سکتے جو آپ کے احسان مندوں پر واجب ہوتا ہے۔ اللہ کے رسول محمد ٍصلی اللہ علیہ وسلم پر ہر لمحے درود و سلام ہو جو بلا امتیاز ہر سرخ و سیاہ انسان کی طرف نبی بنا کر بھیجے گئے۔ آپ کی نیک اولاد اور برگزیدہ أصحاب پر بھی درود و سلام ہو۔

أما بعد ! علم أصول فقہ ایک ایسا علم ہے کہ اکثر پیش آمدہ مسائل کو حل کرنے اور انہیں دلائل سے ثابت کرنے کے لیے نامور علماء اس علم کا سہارا لیتے ہیں۔ أصول فقہ کے مقررہ قواعد و ضوابط اکثر محققین کے نزدیک مسلمات کی حیثیت رکھتے ہیں جیسا کہ محققین اور مصنفین کی کتابیں اس سے بھری پڑی ہیں۔ پس علماء میں سے جب کوئی عالم دین اپنی بات پر اصول فقہ کے ماہرین کے کلام سے استشہاد پیش کرتا ہے تو ان کا مخالف' چاہے وہ جلیل القدر علماء ہی میں سے کیوں نہ ہو' اس کلام کے سامنے سر تسلیم خم کر لیتا ہے۔ علماء کا یہ عقیدہ ہے کہ اس فن کے قواعد و مسائل عقلی و نقلی علمی دلائل سے آراستہ اور ایسے حق پر مبنی ہیں جسے لازماً تسلیم کرنا چاہیے۔ یہاں تک کہ بڑے سے بڑا عالم دین بھی ان أصول و قواعد میں طعن نہیں کر سکتا۔

(اب) ہم یہ دیکھتے ہیں کہ اہل علم کی ایک بڑی تعداد أصول فقہ کے قواعد و ضوابط کی آڑ میں ذاتی رائے پر عمل کرنے لگ گئی ہے اور اپنے تئیں یہ حضرات یہ گمان کرتے ہیں کہ وہ علم روایت ( یعنی کتاب و سنت) پر عمل کررہے ہیں۔ اس صورت حال میں اہل علم کی ایک جماعت نے اس عظیم المرتبت فن میں یہ کتاب لکھنے کی مجھے ترغیب دلائی تا کہ اس فن میں راجح و مرجوح اور صحیح و غلط کی وضاحت ہو سکے اورصحیح کی طرف رجوع اور غلط سے اجتناب ہو۔ اس طرح ایک عالم دین اس فن کی بصیرت سے درست موقف سے آشنا ہو گا اور اس کے لیے حق بات کو قبول کرنے میں کوئی أمر مانع نہ ہو گا۔ حق کے متلاشیوں کو یہ معلوم ہونا چاہیے کہ یہ ایک ایسی کتاب ہے جس سے مصنفین کے سینے کھل جائیں گے اور اس میں بیان شدہ نادر فوائد سے اہل ایمان کے ہاں اس کی قدر قیمت بڑھ جائے گی۔ واقعہ یہ ہے کہ اس کتاب کی صحیح اور حقیقی معرفت کا اندازہ اس فن کے محققین ہی لگا سکتے ہیں۔ اس کتاب میں ہم نے اس فن کے ان مبادیات کا تذکرہ نہیں کیا ہے جنہیں عام طور پر أصول فقہ کے ماہرین اپنی کتابوں میں بیان کرتے ہیں۔ ہاں ! اس فن کی ان مبادیات کو اس کتاب میں ضرورشامل کیا گیا ہے جن میں سابقہ کام کی نسبت کچھ مزید ایسے فوائد اور معلومات کا بھی اضافہ کیا گیا ہو جو اس فن سے گہرا تعلق رکھتے ہوں۔
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,551
پوائنٹ
641
مقاصد کا بیان
میں نے اس فن کے مقاصد کو اس طرح واضح کر دیا ہے کہ صحیح اور غلط میں فرق ہو جائے ۔ اس سے پہلے اس علم کے مقاصد ( یعنی تحقیق حق ) مفکرین کی نگاہوں سے بھاری پردوں کے سبب اوجھل تھے۔ بلاشبہ یہی وہ عظیم فائدہ ہے جس کے حصول کی خاطر طالبان دین ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کی کوشش کرتے ہیں۔ حق بات کو ضابطہ تحریر میں لانا ہی تمناؤں کی غرض و غایت اور آرزوؤں کی (اصل) منزل ہے' خاص طور پر اس فن میں کہ جس کی طرف رجوع کے دوران مجتہدین کی اکثریت لاشعوری طور پرتقلید کی طرف جا نکلی ( یعنی أصول فقہ تو أصول اجتہاد اور اجتہاد کی تربیت کا فن تھا اورعلماء نے اسے بطور أصول تقلید اور تقلید پر جازم کرنے کے لیے پڑھنا پڑھانا شروع کر دیا)۔ بہت سے علماء جو دلیل کو مضبوطی سے تھامنے والے تھے' لاشعوری طور پر اس علم کے سبب سے رائے محض کے پیروکار بن کر رہ گئے۔ میں نے اس کتاب کو '' أصول فقہ کے اختلافی مسائل میں صحیح رائے کی طرف ماہرین فن علماء کی رہنمائی'' کا نام دیا ہے۔ یہ کتاب ایک مقدمہ' سات مقاصد اور ایک خاتمہ البحث پر مشتمل ہے۔ جبکہ مقدمہ چار فصول پر مشتمل ہے۔
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,551
پوائنٹ
641
مقدمہ (مؤلف)

فصل أول : أصول فقہ کی تعریف' موضوع' فوائد اور مصادر کے بیان میں
أصول فقہ کی تعریف' موضوع' فوائد اور اس کے مآخذ کے بارے میں ہے۔ أصول فقہ کی دو پہلوؤں سے تعریف کی گئی ہے:
١۔ لفظ ' أصول فقہ' کے مرکب اضافی ہونے کے اعتبار سے اور
٢۔ لفظ ' أصول فقہ' کے فن کا نام عَلم ہونے کے اعتبار سے


اصول فقہ کی تعریف بطور مرکب اضافی
پہلی صورت میں مضاف یعنی أصول اور مضاف الیہ یعنی فقہ دونوں کی تعریف کی الگ الگ ضرورت ہے۔ یہ بھی واضح رہے کہ مرکب کی تعریف اس وقت مکمل ہوتی ہے جب اس کے مفردات میں سے ہر ایک کی تعریف کر دی جائے کیونکہ 'کل' کی معرفت اس کے اجزاء پر موقوف ہوتی ہے۔ اس قسم کی تعریف میں 'اضافت' کی تعریف بھی ضروری ہے کیونکہ اضافت یہاں 'جزء صوری' کے قائم مقام ہے۔( مرکب اضافی کے دو اجزاء تو واضح ہیں یعنی مضاف اورمضاف الیہ جبکہ اضافت جو کہ مضاف اور مضاف الیہ کے مابین ایک نسبت کا نام ہے' صورتاً مرکب اضافی کا جز قرار پاتی ہے۔ اس لیے اس نسبت اضافی کو مرکب اضافی کا جزء صوری کہا گیا ہے جیسا کہ اصول فقہ بمعنی فقہ کے اصول میں اصول کا لفظ مضاف ہے اور فقہ کا لفظ مضاف الیہ ہے اور ان دونوں کے مابین نسبت، نسبت اضافی ہے۔)

اصول کی تعریف
جہاں تک مضاف یعنی 'أصول' کا معاملہ ہے تو یہ لفظ 'أصل' کی جمع ہے۔ لغت عرب میں أصل کی یوں تعریف کی گئی ہے:
'' ھو ما ینبنی علیہ غیرہ.''
'' أصل سے مراد وہ شیء ہوتی ہے جس پر کسی اور چیز کی بنیاد ہو۔''
علماء کی اصطلاح میں أصل کے چار معانی ہیں :
١۔ راجح
٢۔ مستصحب (استصحاب ایک تفصیلی طلب عنوان ہے جس کے بارے اس کتاب کے آخر میں مستقل بحث ہو گی)
٣۔ قاعدہ کلیہ
٤۔ دلیل۔
ان لغوی معانی میں راجح معنی آخری یعنی 'دلیل' ہے۔

بعض علماء کا خیال ہے کہ اس مقام پر ' أصل' کے لغوی معنی کے ساتھ اس کا اصطلاحی معنی بیان کرنا خلاف قاعدہ ہے کیونکہ اصطلاحی معنی بیان کرنے کی یہاں کوئی حاجت نہیں ہے۔ ( أصل کی لغوی تعریف کے تناظر میں) بنائے عقلی مثلاً حکم کی بنیاد اس کی دلیل پر' مطلق بنیاد میں شامل ہے کیونکہ مطلق بنیاد کی دو قسمیں ہیں : بنیاد حسی اور بنیاد عقلی۔ بنیاد حسی کی مثال دیوار کی بناء اس کی اساس پر اور بنیاد عقلی کی مثال حکم کی بناء اس کی دلیل پر ہے۔ چونکہ أصول کا لفظ اس جگہ فقہ کی طرف مضاف ہے اور فقہ کا معنی و مفہوم (یعنی فہم و سوجھ بوجھ) ایک عقلی شیء ہے لہذا یہاں أصل کی تعریف میں جس بناء کا تذکرہ ہو رہا ہے وہ عقلی بنیاد ہے (نہ کہ حسی لیکن تعریف میں عقلی بناء کی بجائے مطلق بناء کا تذکرہ ہے جو حسی اور عقلی دونوں قسم کی بناء کو شامل ہے)۔

فقہ کی تعریف
جبکہ مضاف الیہ یعنی 'فقہ' کا معنی لغت میں 'سوجھ بوجھ' ہے۔
''وفی الاصطلاح العلم بالأحکام الشرعیة عن أدلتھا التفصیلیة بالاستدلال.''
''اصطلاح علماء میں شرعی احکام کو استدلال (یعنی اجتہاد) کے طریقوں سے تفصیلی ( یعنی جزوی ) دلائل سے معلوم کرنے کا نام فقہ ہے۔''
فقہ کی ایک دوسری تعریف یہ بھی بیان کی گئی ہے:
''التصدیق بأعمال المکلفین التی تقصد لا لاعتقاد.''
'' فقہ سے مراد مکلف بندوں کے ان اعمال کی تصدیق کرنا ہے ( یعنی ان پر شرعی حکم لگانا ہے کیونکہ منطق کی اصطلاح میں تصدیق کسی شیء کے بارے میں حکم لگانے کو کہتے ہیں) جنہیں ارادتاً کیا گیا ہو اور یہ (تصدیق یا شرعی حکم مکلفین کے) اعتقادات کے لیے نہ ہو ( بلکہ عمل کے لیے ہو)۔''
اس کی ایک تیسری تعریف یہ بھی بیان کی گئی ہے:
'' معرفة النفس ما لھا وما علیھا عملاً.''
'' فقہ سے مراد نفس انسانی کے ' مالہ و ما علیہ' (یعنی جو اس کے لیے اور جو اس پر ہے ) کی ازروئے عمل معرفت حاصل کرنا ہے ۔ ''
اس کی ایک تعریف یہ بھی کی جاتی ہے:
''اعتقاد الأحکام الشرعیة الفرعیة عن أدلتہ التفصیلیة .''
'' فروعی شرعی أحکام کا ان کے تفصیلی دلائل سے یقینی علم فقہ کہلاتا ہے۔''
یا پھر
''ھو جملة من العلوم یعلم باضطرار أنھا من الدین.''
''فقہ سے مراد من جملہ وہ علوم ہیں جن کا دین میں سے ہونا ضروری طور پر معلوم ہو۔''
ان تعریفات میں سے ہر ایک تعریف پر کئی ایک اعتراضات کیے گئے ہیں۔ ان میں سے راجح تعریف پہلی ہے بشرطیکہ اس میں علم سے مراد ظن غالب ہو کیونکہ فقہ کے اکثر نتائج ظن غالب پر ہی مشتمل ہوتے ہیں۔

اضافت کی تعریف
اب رہی اضافت کی تعریف تو اس کا معنی مضاف الیہ کے مفہوم کے اعتبار سے مضاف کو مضاف الیہ کے ساتھ خاص کرنا ہے ۔ پس فقہ کے أصولوں سے مراد وہ أصول ہیں جو اس کے ساتھ اس طرح مخصوص ہوں کہ اسی(یعنی فقہ) پر ان کی بنیاد بھی ہو اور اسی پر یہ قائم بھی ہوں۔

اصول فقہ کی تعریف بطور اسم عَلم
عَلم ہونے کے پہلو سے أصول فقہ کی تعریف یوں کی جاتی ہے:
''فھو ادراک القواعد التی یتوصل بھا الی استنباط الأحکام الشرعیة الفرعیة من أدلتھا التفصیلیة.''
'' اس سے مراد ان قواعد کا ادراک ہے جن کے ذریعے فروعی أحکام کو تفصیلی دلائل سے أخذ کیا جاسکے۔''
بعض علماء نے 'ادارک' کی جگہ 'علم' کا لفظ بھی استعمال کیا ہے۔ ایک قول یہ بھی ہے کہ أصول فقہ سے مراد قواعد کا ادراک یا علم نہیں بلکہ بذاتہ وہ قواعد مراد ہیں جو استنباط أحکام کا ذریعہ ہیں۔ ایک اور قو ل کے مطابق فقہ یعنی سوجھ بوجھ کے طریقوں کو أصول فقہ کہتے ہیں۔

أصول فقہ کی تعریف میں' تفصیلی دلائل کا ذکر' ایک لازمی أمر کی صراحت ہے جو اس سے اشارتاً بھی سمجھ میں آ رہا ہے کیونکہ اس تعریف میں استنباط سے مراد تفصیلی طور پر احکام کا استنباط ہے اور وہ تفصیلی دلائل ہی سے ہو گا۔ اس تعریف میں 'علی وجہ التحقیق' یعنی تحقیق کے طور پر کے الفاظ کا اضافہ بھی کیا جاتا ہے تا کہ 'علم اختلاف و مناظرہ' کو اس تعریف سے خارج کیاجائے۔علم اختلاف اور مناظرہ میں بھی اگرچہ کچھ قواعد کے ذریعے فقہی مسائل کومعلوم کیا جاتا ہے لیکن ان علوم میں مقصود تحقیق نہیں ہوتی ہے بلکہ مد مقابل کو خاموش کرنا اصل مطلوب ہوتا ہے۔

( نوٹ : یہ واضح رہے کہ بعض مصنفین اصول فقہ کی تعریف میں تفصیلی یا جزئی دلائل کی بجائے اجمالی یا کلی دلائل کا تذکرہ کرتے ہیں۔ مثلاً اگر کوئی شخص سوال کرے کہ نماز کے وجوب کی دلیل کیا ہے تو اگر جواب یہ ہو کہ " اقیموا الصلوة" تو یہ جزئی یا تفصیلی دلیل ہے اور اگر جواب ہو قرآن مجید تو یہ اجمالی یا کلی دلیل ہے۔ پس کتاب اللہ، سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم، اجماع، قیاس، عرف، قول صحابی اور مصلحت وغیرہ کلی یا اجمالی دلائل ہیں۔)

علم کی تعریف
چونکہ أصول فقہ کے مصنفین نے علم أصول فقہ کی تعریف بیان کرتے ہوئے 'علم' کی بھی تعریف بیان کی ہے لہذا یہ بہتر ہو گا کہ ہم بھی یہاں مطلق علم کی ایک تعریف بیان کر دیں۔ علم کی تعریف متعین کرنے میں علماء کا شدیداختلاف ہے۔ علماء کی ایک جماعت کہ جن میں امام رازی رحمہ اللہ بھی شامل ہیں' کا کہنا ہے:
'' بأن مطلق العلم ضروری فیتعذر تعریفہ.''
''مطلق علم ایک ضروری و بدیہی چیز ہے جس کی تعریف مشکل ہے۔( جیسا کہ سردی و گرمی بدیہی امور میں سے ہیں کہ اگرچہ ہر شخص ان کے نام لینے پر ان کو پہچانتا ہے لیکن ان کی تعریف ایک مشکل أمر ہے)۔''
علماء کی اس جماعت نے اپنے موقف کے اثبات میں ایسے دلائل بیان کیے ہیں کہ جن میں دلیل والی کوئی چیز نظر نہیں آتی۔

ہماری رائے میں اس موقف کے رد کے لیے یہی دلیل کافی ہے کہ ہر عاقل یہ بات جانتا ہے کہ علم کی دو قسمیں ہیں:
١۔ بدیہی اور
٢۔ کسبی۔

علماء کی ایک جماعت کہ جن میں امام جوینی رحمہ اللہ بھی شامل ہیں' کا کہنا ہے کہ دوسری قسم کو علم نظری کہتے ہیں اور اس کی تعریف کرنا ایک مشکل أمر ہے اور اس کی معرفت تقسیم اور مثال کے طریقے سے ہی ہو سکتی ہے:
مثلاً کسی چیز پر انسان کا اعتقاد یا تو جازم (پختہ)ہو گا یا غیر جازم ' اور جزم (پختگی) کی بھی دو قسمیں ہیں:
یا تو وہ أمر واقعہ کے مطابق ہو گا یا نہیں' اسی طرح جو جزم أمر واقعہ کے مطابق ہو گا اس کی بھی دو قسمیں ہیں :
یا تو دلائل سے ثابت ہو گا یا نہیں۔
پس اس تقسیم کے مطابق 'اعتقاد جازم مطابق ثابت' ہی علم ہے۔

اس طرز استدلال پر یہ اشکال وارد کیا گیا ہے کہ علم کی تعریف متعین کرنے میں تقسیم اور مثال کا طریقہ اس وقت درست قرار پائے گا جبکہ اس کے ذریعے علم کی ماہیت اور اس کے ماسوا میں تمیز ہو جائے اور اگر ایسا ہی ہو تو تعریف مشکل ہی نہ رہی (حالانکہ تعریف کرنا ایک مشکل أمر ہے)۔ اس کے برعکس اگر تقسیم اور مثال کے طریقے سے علم کی ماہیت اور اس کے ماسواء میں تمیز نہیں ہوتی تو پھر اس طریقے سے علم کی تعریف معلوم کرنا درست نہیں ہے۔

جمہور علماء کا کہنا ہے کہ علم' نظری یعنی کسبی ہوتا ہے لہذا اس کی تعریف مشکل أمر نہیں ہے۔ ان میں سے بعض علماء نے علم کی تعریف یوں کی ہے:
'' ھو اعتقاد الشیء علی ما ھو بہ عن ضرورة أو دلیل.''
''علم سے مراد بدیہی طور پر یا دلیل کے ذریعے کسی شیء کی حقیقت و ماہیت کے بارے کوئی اعتقاد رکھنا ہے۔''
اس تعریف میں یہ بات بھی شامل ہے کہ مذکورہ بالا اعتقاد' جازم (پختہ) اور غیر جازم دونوں قسم کا ہو سکتا ہے۔ اگر ہم اس اعتقاد کو جازم مان لیں تو محال و ناممکن چیز کا علم اس تعریف سے خارج ہو جائے گا کیونکہ اس بات پر سب کا اتفاق ہے کہ محال اور ناممکن چیز کا وجود نہیں ہوتا۔ ( اور جس کا وجود نہ ہو تو اس کے بارے علم کیسے حاصل ہو گا؟)۔

بعض علماء نے علم کی تعریف کچھ یوں کی ہے:
''ھو معرفة المعلوم علی ما ھو بہ .''
'' علم سے مراد معلوم کی حقیقت و ماہیت کی معرفت حاصل کرنا ہے۔''
اس تعریف پر یہ اعتراض وارد ہوتا ہے کہ اس سے اللہ کا علم خارج ہو جاتا ہے کیونکہ اللہ کے علم کو معرفت نہیں کہتے۔

بعض علماء کے نزدیک علم سے مراد ہے:
''الذی یوجب کون من قام بہ عالما أو یوجب لمن قام بہ اسم العالم.''
''علم سے مراد وہ شیء ہے جو اپنے حامل کو لازماً عالم بنا دے یا اپنے حامل کو لازماً عالم کا نام دے۔''
اس تعریف پر یہ اعتراض ہے کہ اس سے دَور (Vicious Circle) اور تسلسل لازم آتا ہے کیونکہ علم کی تعریف میں لفظ 'عالم' کو استعمال کیا گیا ہے۔

( ' دَور' علم منطق کی ایک اصطلاح ہے جس کا معنی ''توقف الشیء علی ما یتوقف علیہ'ہے یعنی کسی ایک شیء کا اس دوسری شیء پر توقف کرنا جو یعنی دوسری شیئ اس پہلی شیئ پر متوقف ہو۔ مثلاً 'الف' اور 'ب' دو اشیاء ہیں جن میں سے 'ب' موقوف ہے الف پر۔ پس' الف' پہلے ہو گا اور 'ب' بعد میں ہو گی کیونکہ موقوف علیہ پہلے ہوتا ہے اور موقوف بعد میں۔ 'الف' موقوف علیہ ہوا اور 'ب' موقوف اور صورت حال یہ ہو گی : الف …ب۔
'دَور' میں چونکہ ایک شیء کی تعریف اس دوسری شیء سے کی جاتی ہے کہ جو یعنی دوسری شیء خود بھی اس پہلی شیء پر موقوف ہو لہذا اس مثال کے مطابق الف' کی تعریف ایسی 'ب' سے کرنی چاہیے جس پر خود 'الف' بھی موقوف ہو۔
پس 'الف' کی تعریف جب ایسے 'ب' سے کی گئی جس پر 'الف' موقوف ہو تو صورت یہ بنی کہ 'الف' موقوف علیہ اور 'ب' موقوف اور اسی طرح 'ب' موقوف علیہ ہے اور 'الف' موقوف ہوا۔ اس صورت میں دوسرا الف بھی درحقیقت پہلا ہی 'الف' ہے لہذا 'الف ' کی صورت یہ ہوئی کہ وہ 'ب' سے ایک درجہ مقدم ہے جبکہ 'الف' اپنے آپ سے دو درجے مقدم ہے اور کسی شی ء کا اپنے سے دو درجے مقدم ہونا باطل ہے لہذا 'دور' باطل ہوا۔ اسی طرح اگر کوئی شیء اپنے آپ سے لامتناہی درجے مقدم ہو تو اسے تسلسل کہتے ہیں اور اس کے باطل ہونے کی دو وجوہات ہیں ایک اپنے آپ سے مقدم ہونا اور دوسرا لامتناہی ہونا کیونکہ کوئی بھی شیء لامتناہی نہیں ہوتی۔

علامہ آمدی کا کہنا یہ ہے کہ 'دور' دو قسم کا ہے ایک 'دور قبلی' جس کا بیان اوپر گزر چکا ہے اور یہ باطل ہے' ا س کی مثال یہ ہے کہ دو أشیاء میں سے ہر ایک شیء دوسری کا فاعل ہو۔ اس کی دوسری قسم 'دور معی' ہے اور یہ جائز ہے۔ اس کی مثال شرط کا مشروط کے ساتھ 'دور' ہے جس میں شرط کا توقف مشروط اور مشروط کا شرط پر ایک ساتھ یعنی معاً ہوتا ہے۔ اس کی ایک سادہ سی مثال یہ بھی ہے کہ 'أبوت' یعنی باپ ہونا 'بنوت' یعنی بیٹے ہونے کے بغیر ممکن نہیں ہے اور 'بنوت' یعنی بیٹا ہونا 'أبوت' کے بغیر ممکن نہیں ہے۔
امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے 'دور' کی تین قسمیں بیان کی ہیں۔ عقلی دلائل میں مستعمل اصطلاح 'دور' کو وہ 'دور کونی' کا نام دیتے ہیں جس کی دو قسمیں ہم اوپر بیان کر چکے ہیں جن میں سے ایک باطل اور دوسری جائز ہے۔ 'دور' کی دوسری قسم کو امام صاحب 'دور حکمی فقہی' کا نام دیتے ہیں جو بعض فقہی مسائل میں استدلال کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ 'دور' کی یہ قسم بھی باطل ہے۔ اس کی تیسری قسم 'دور حسابی' ہے جو ریاضی اور الجبرا وغیرہ میں استعمال ہوتی ہے۔ یہ دنیاوی علوم میں تو معتبر ہے لیکن کوئی شرعی دلیل نہیں ہے۔)


بعض علماء نے علم کی تعریف یوں بیان کی ہے:
''ھو ما یصح ممن قام بہ اتقان الفعل.''
''علم وہ چیز ہے کہ اس کے حامل شخص کی طرف سے کسی فعل کو بطریق أحسن انجام دیا جا سکے۔ ''
اس تعریف پر یہ اعتراض وارد کیا گیا ہے کہ بعض معلومات ایسی ہوتی ہیں جنہیں بطریق أحسن سرانجام دینے کی قدرت عالم میں نہیں ہوتی جیسا کہ محال چیز کا علم ہے جس کا کرنا ہی ممکن نہیں ہے ( چہ جائیکہ کہ أحسن طریقے سے کیا جائے)۔

علم کی ایک اورتعریف یہ بیان کی گئی ہے:
'' ھو اعتقاد جازم مطابق.''
'' علم سے مراد ایسا پختہ اعتقاد (یعنی تصدیق) ہے جو أمر واقعہ کے مطابق ہو۔''
اس تعریف پر یہ اعتراض وارد کیا گیا ہے کہ اس تعریف سے تصورات (جو تصدیقات نہ ہوں) خارج ہو جاتے ہیں حالانکہ ان پر علم کا اطلاق ہوتا ہے( کیونکہ بعض تصورات بھی أمر واقعہ کے مطابق ہوتے ہیں)۔

بعض علماء نے علم کی یہ تعریف بیان کی ہے:
'' ھو حصول صورة الشیء فی العقل أو الصورة الحاصلة من الشیء عند العقل.''
'' علم سے مراد عقل میں کسی شیء کی صورت کا حاصل ہونا یا عقل کے نزدیک کسی شیء سے حاصل شدہ صورت ہے۔''
اس تعریف میں یہ نقص بیان کیا گیا ہے کہ اس کے مطابق ظن' شک' وہم اور جہل مرکب بھی علم کی تعریف میں شامل ہو جائیں گے۔
بعض علماء نے اس کا جواب یہ دیا ہے کہ علم کے عمومی معنی کا اعتبار کرتے ہوئے مذکورہ بالا چیزیں بھی علم کی تعریف میں شامل ہیں۔
اس جواب پر یہ اعتراض وارد کیا گیا ہے کہ ظن' شک' وہم اورجہل مرکب پرلفظ علم کا اطلاق' اس کے لغوی اور اصطلاحی معنی کے منافی ہے۔

علم کی ایک اور تعریف یوں بیان کی گئی ہے:
''ھو حکم لا یحتمل طرفاہ أی المحکوم علیہ وبہ نقیضہ.''
'' علم سے مراد ایک ایسا حکم ہے کہ جس کے دونوں أطراف یعنی محکوم علیہ اور محکوم بہ آپس میں ایک دوسرے کے نقیض اور متضاد نہ ہوں۔''
( حکم چونکہ تصدیق Assent ہوتا ہے ) لہذا اس تعریف سے تصور (Apprehension)خارج ہوجاتا ہے حالانکہ وہ بھی علم ہی ہے۔

علم کی ایک اور تعریف یوں بیان کی گئی ہے:
'' ھو صفة توجب تمییزا لمحلھا لا یحتمل النقیض بوجہ.''
'' علم سے مراد وہ کیفیت اور حالت ہے جو اپنے محل اور مقام کے لیے( دوسری چیزوں سے) تمیز کو اس طرح لازم کر دیتی ہے کہ اس میں کسی پہلو سے بھی نقیض و متضاد کا احتمال نہ ہو۔''
اس تعریف پر یہ اعتراض وارد ہوتا ہے کہ جو علوم فطرت و عادت ( یعنی طبعی قوانین Natural Laws) پر موقوف ہوتے ہیں' ان میں قدرت الہیہ ( یعنی مافوق الفطرت قوانین Super Natural Laws) کی وجہ سے خرق عادت( مثلاً معجزات اورکرامات وغیرہ) کے امکان کے پیش نظر نقیض اور متضاد کا احتمال پایا جاتا ہے۔

علم کی ایک اور تعریف کچھ علماء نے یہ بیان کی ہے:
'' ھو صفة یتجلی بہ المدرک للمدرک .''
''علم سے مرادوہ حالت اور کیفیت ہے کہ جس میں کسی ادارک کرنے والے کے لیے وہ چیز واضح ہو جائے کہ جس کا ادراک کیا جا رہا ہو۔''
اس تعریف پر یہ اعتراض وارد کیا گیا ہے کہ لفظ 'ادراک' تو خود 'علم' کا مجاز ہے۔ پس اس لفظ کے ساتھ علم کی تعریف کرنے کا مطلب 'تعریف الشیء بذاتہ' یعنی کسی شیء کی تعریف اسی سے کرنے کے مترادف ہے۔

علاوہ ازیں یہ بات بھی اہم ہے کہ مجاز کے ذریعے کسی شیء کی تعریف بیان نہیں کرتے اور مجاز سے کسی شیء کی تعریف کرنا تعریفات کا ایک متروک اور شاذ طریق کار ہے۔ بعض أصحاب علم و فضل نے جو یہ دعوی کیا ہے کہ عمومی معنی کے بیان میں مجاز کے ذریعے تعریف کرنا ایک معروف طریق کار ہے تو یہ دعوی قابل تسلیم نہیں ہے۔

بعض علماء نے علم کی تعریف یوں بیان کی ہے:
'' ھو صفة یتجلی بہ المذکور لمن قامت ھی بہ.''
''علم ایک ایسی حالت اور کیفیت کا نام ہے جس کے ساتھ مذکور یعنی بیان شدہ چیز اس شخص کے لیے واضح ہو جاتی ہے کہ جس کے ساتھ وہ کیفیت اور حالت قائم ہو۔''
معروف محقق علامہ شریف جرجانی متوفی ٨١٦ھ کا قول ہے کہ علم کی جو بھی تعریفات بیان کی گئی ہیں ان میں سب سے بہتر تعریف یہی ہے جو علم کی ماہیت و حقیقت کو اچھی طرح واضح کر رہی ہے۔
یہ ایک ایسی جامع تعریف ہے کہ اس میں لفظ 'مذکور' بلا اختلاف موجود و معدوم اور ممکن و ناممکن' مفرد و مرکب اور کلی و جزئی سب کو شامل ہے۔
اسی طرح لفظ 'تجلی' میں بھی مکمل انکشاف کا مفہوم موجود ہے۔

پس اس تعریف کا معنی یہ ہو ا کہ علم ایک ایسی حالت اور کیفیت کا نام ہے کہ جس کے حامل کے لیے ہر وہ چیز' جو قابل ذکر اور بیان ہو' کمال درجے میں منکشف ہو جائے گی اور اس میں کسی قسم کا اشتباہ نہ رہے گا۔ پس علم کی اس تعریف سے ظن اور جہل مرکب خارج ہو جائیں گے جیسا کہ اس تعریف میں مقلد مصیب ( یعنی صحیح رائے کو پالینے والے مقلد) کا علم بھی داخل نہیں ہے کیو نکہ مقلد کا اعتقاد در حقیقت اس کے دل کی ایک گرہ ہوتی ہے اور اس کے دل میں وہ انشراح صدر اور انکشاف موجود نہیں ہوتا کہ جس سے اس کی یہ گرہ کھل سکے۔(علامہ جرجانی کا کلام ختم ہوا)

اس تعریف پر یہ اعتراض وارد کیا گیا ہے کہ اس سے حواس خمسہ کاادراک ( یعنی ان کے ذریعے حاصل شدہ علم) خارج ہو جاتا ہے کیونکہ اگر تو 'مذکور' سے مراد زبان سے بیان شدہ چیز لی جائے' جیسا کہ اس تعریف کے ظاہر سے بھی یہی معلوم ہوتا ہے' تو اس ( یعنی مذکور) کا حواس کے ادراک (سے حاصل شدہ علم )سے کوئی تعلق باقی نہیں رہ جاتا۔ دوسری صورت میں اگر اس 'مذکور' سے وہ ذکر مراد لیا جائے جو ذال کی کسرہ (یعنی زبان سے تذکرہ کرنا ) اور ذال کی ضمہ کے ساتھ ( یعنی ذہن میں یاد رکھنا ) دونوں معانی کو شامل ہو تو پھر اس لفظ کے استعمال کی دو ممکنہ صورتیں ہو سکتی ہیں:
١۔ یا تو وہ ایسا مشترک لفظ ہو گا جس سے بیک وقت اس کے دو معانی مراد لیے جا رہے ہوں ۔
٢۔ یا یہ ایک ایسا لفظ ہو گا جس سے ایک ہی وقت میں حقیقت و مجاز دونوں مراد ہوں۔

جبکہ یہ دونوں صورتیں ہی کسی شیء کی تعریف میں متروک اور شاذ طریق کار کے قبیل سے ہیں۔

علم کی تعریف میں جو کچھ کہا گیا ہے یہ اس کا ایک مختصر سا خلاصہ ہے۔ علاوہ ازیں ان تعریفات پر جو بھی اعتراضات وارد کیے گئے ہیں' ان کا بھی ایک مختصر جائزہ ہم نے قارئین کے سامنے پیش کر دیا ہے۔

میرے ( یعنی امام شوکانی ) نزدیک علم کی بہترین تعریف درج ذیل ہے:
'' ھو صفة ینکشف بھا المطلوب انکشافا تاما.''
'' یہ ایک ایسی حالت اور کیفیت کا نام ہے جس سے مطلوب پوری طرح منکشف اور واضح ہو جائے۔''
گزشتہ تعریفات پر جو اعتراضات وارد ہوتے ہیں ان میں سے کوئی ایک بھی اس تعریف پر وارد نہیں ہوتا۔ اس بات کو اچھی طرح سمجھ لیں!

(نوٹ : دائرہ معارف اسلامیہ کے مقالہ نگار نے علم' کی تعریف میں تقریباً ٥٥ تعریفات کا تذکرہ کیا ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ 'علم' کی تعریف میں اہل فن اور أصحاب علم و فضل کا کس قدر اختلاف ہے۔)
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,551
پوائنٹ
641
مطلق تعریف [Absolute Definition] کا حکم
علم کی تعریف میں کیے جانے والے قیل و قال کو جان لینے کے بعد قاری کو یہ بھی اچھی طرح معلوم ہو جانا چاہیے کہ کسی شیء کی مطلق تعریف بعض اوقات 'حقیقی' (Real) ہوتی ہے اور بعض اوقات' اسمی' (Nominal)۔ اگر کسی شیء کی ماہیت[Quiddity] حقیقی ہو تو اس کی تعریف کو 'حقیقی' اور اگر ماہیت اعتباری (فرضی یعنی Supposed) ہوتو اس کی تعریف کو 'اسمی' کہتے ہیں۔

اس اجمال کی تفصیل کچھ یوں ہے کہ اگر واضع (وضع کرنے والا یعنی Author)کسی شیء کو سمجھنے کی کوشش کرے اور اس کے لیے کوئی نام وضع (یعنی مقرر) کرے تو اس کی دو صورتیں ہو سکتی ہیں :
یا تو اس کی ماہیت، حقیقی ہو گی ( یعنی معرِّف ایسا لفظ ہو گا جو معرَّف کے أوصاف ذاتیہ یا لازمہ کو بیان کر رہا ہو گا مثلاً انسان کی تعریف حیوان ناطق یعنی غور و فکر کی صلاحیت رکھنے والا حیوان' سے کرنا۔ اس مثال میں حیوان ناطق ایک ایسا لفظ ہے جو اپنے مسمی یعنی انسان کے اوصاف ذاتیہ اور لازمہ کو بیان کر رہا ہے۔)
یا ایسا نہیں ہو گا ( یعنی تعریف فرضی اور اعتباری ہو گی مثلاً کسی عربی نے کسی عجمی سے سوال کیا ہے کہ' کلچہ' کسے کہتے ہیں؟ اب عربوں کے ہاں اتفاق سے 'کلچہ' نامی کوئی شیء نہیں پائی جاتی لہذا جواب دینے والا ایک مشکل میں پڑ گیا کہ سائل کو کیا جواب دے۔ پس جواب دینے والے یعنی عجمی نے جواب دیا : کلچہ 'خبز' کو کہتے ہیں یا عجمی نے عربی کو ایک روٹی دکھا دی۔ اس مثال میں ایک ایسی شیء کی تعریف بیان کی جارہی ہے کہ جس کی صورت سائل کے ذہن میں نہیں ہے لہذا سائل کو اس کے سوال کے حقیقی جواب سے ملتی جلتی ایک ایسی شیء بتلا دی گئی ہے کہ جس کی صورت سائل کے ذہن میں پہلے سے موجودہے ۔ پس تعریف اسمی میں مترادفات کے ذریعے تعریف کی جاتی ہے اور جس کی تعریف کی جا رہی ہوتی ہے' تعریف میں اس کے أوصاف ذاتیہ یا لازمہ سے کوئی تعرض نہیں ہوتا کیونکہ سائل یا مخاطب کے ذہن میں اس شیء کا نقش ہی موجود نہیں ہے۔ ہاں!سائل کے ذہن میں اس کے مترادفات کا نقش موجود ہوتا ہے۔ تعریف اسمی کو تعریف لفظی بھی کہتے ہیں)۔

پہلی صورت کو مزید دو اعتبار سے تقسیم کیا جا سکتا ہے:
یا تو اس کا معنی و مفہوم وہی ہوگا جو اس کی حقیقت تھی ( یعنی أوصاف ذاتیہ سے کسی شیء کی تعریف کرنا جیسا کہ 'شجر' کی تعریف میں 'جسم' وصف ذاتی ہے کیونکہ اس کے بغیر 'شجر' کی تعریف ممکن نہیں ہے یعنی بغیر 'جسم' کے کسی 'شجر' کا تصور ذہن میں لانا ممکن نہیں ہے۔ اس کو تعریف حقیقی کہتے ہیں۔ پس شجر کو 'جسم نامی' یعنی بڑھنے والا جسم قرار دینا تعریف حقیقی کی مثال ہے۔)
یا اس میں کچھ اور وجوہات اور کیفیات ہوں گی ( یعنی صفات لازمہ سے اس کی تعریف کی گئی ہو گی مثلاً کسی نے سوال کیا کہ شراب کسے کہتے ہیں؟ اب اس کا ایک جواب تو یہ ہے کہ 'زرد رنگ کے مائع' کو شراب کہتے ہیں اور دوسرا جواب یہ ہو سکتا ہے کہ 'نشہ آور مائع' کو شراب کہتے ہیں۔ پہلی صفت معرَّف (defined) کی لازمی صفت نہیں ہے کیونکہ یہ صفت کئی اور چیزوں میں بھی پائی جاتی ہے جبکہ دوسرے جواب میں بیان کردہ صفت' شراب کی صفت لازم ہے۔ صفات ذاتیہ اور لازمہ میں فرق یہ ہے کہ صفات ذاتیہ کے بغیر اس شیء کے وجود کا تصور بھی ناممکن ہو لیکن صفات لازمہ کے بغیر اس شیء کے وجود کا تصور ممکن ہوتا ہے۔)

پس کسی شیء کی حقیقی ماہیت کی تعریف، کسی اسم کے مسمی کے ساتھ اس حیثیت سے کرنا کہ وہ حقیقی ماہیت ہے' اس کی حقیقی تعریف کہلاتی ہے جو ذہن میں تمام یا بعض صفات ذاتیہ یا عارضی صفات یا ذاتی اور عارضی صفات کے مرکبات کے تصور کا فائدہ دیتی ہے۔
( جبکہ کسی شیء کی حقیقت کی بجائے اس کے مفہوم کی تعریف) اسم کے مفہوم اور جو کچھ وضع کرنے والے نے سمجھ کر اس کا نام رکھا' کے ساتھ کرنے کو تعریف 'اسمی' کہتے ہیں' جو کسی زیادہ مشہور و معروف لفظ کے ساتھ' اُس کی وضاحت کا فائدہ دیتی ہے جس کے لیے نام وضع کیا گیا تھا۔ یہ واضح رہے کہ معدوم أشیاء (Nonexistent) کی تعریف ہمیشہ اسمی ہوتی ہے کیونکہ ان کے حقائق نہیں ہوتے بلکہ صرف مفہومات ہوتے ہیں اور موجودات کی تعریف کبھی حقیقی ہوتی ہے اور کبھی اسمی' کیونکہ ان کے لیے مفہومات کے ساتھ حقائق بھی ہوتے ہیں۔ البتہ ان دونوں قسم کی تعریفات میں اطراد وانعکاس (یعنی جامع مانع ہونا) شرط ہے۔

'اطراد' (Contraceptive) سے مراد یہ ہے کہ جب بھی تعریف پائی جائے تو معرَّف (یعنی جس کی تعریف بیان کی جارہی ہے) بھی پایا جائے۔ اس طرح وہ چیز معرَّف (defined) میں داخل نہ ہو گی جو اس کے افراد میں سے نہیں ہے۔ پس 'اطراد' کا معنی کسی شیء کی تعریف کرتے وقت اس سے غیر متعلقہ اشیاء کو دور کرنا ہے۔ اس صورت میں اس کو' مانع' کا نام دے سکتے ہیں۔ اس کے برعکس 'انعکاس' (Comprehensive) کا معنی یہ ہے کہ جب بھی معرَّف پایا جائے تو تعریف بھی موجود ہو۔ اس صورت میں معرَّف کے افراد میں سے کوئی شیء خارج نہ ہو گی اور اس کا معنی کسی شیء کی تعریف کرتے ہوئے اس کے افراد کو جمع کرنے کا ہو گا۔ پس اس طرح اسے 'جامع' کا نام دیا جائے گا۔
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,551
پوائنٹ
641
علم کی أقسام
آپ کے سامنے یہ واضح رہے کہ علم بدیہی طور پر دو حصوں میں تقسیم ہوتا ہے:
ضروری اور نظری۔

١۔ ضروری سے مراد وہ علم ہے جسے حاصل کرنے کے لیے غور و فکر کی ضرورت محسوس نہ ہو۔
٢۔ اور نظری سے مراد وہ علم ہے جو غور و فکر کے بعد حاصل ہو۔


نظر کی تعریف
غور و فکر کی درج ذیل تعریف کی جاتی ہے:
'' ھو الفکر المطلوب بہ علم أو ظن.''
''نظر سے مراد ایسا غور و فکر ہے جس سے علم یقینی یا ظن غالب حاصل کرنے کا ارادہ کیا گیا ہو۔''
ایک اور قول کے مطابق 'نظر' کی تعریف یوں کی جاتی ہے:
'' ھو ملاحظة المعقول لتحصیل المجھول.''
'' علم نظری سے مراد معقول میں غور و فکر کرتے ہوئے مجہول کو حاصل کرنا ہے ( یعنی جو علم یا dataعقل میں پہلے سے موجود ہے یا عقل میں آ سکتا ہے اس کے ذریعے نامعلوم نتائج کو جاننا)۔''
اس کی تعریف میں ایک قول یہ بھی ہے :
'' ھو حرکة النفس من المطالب التصوریة أو التصدیقیة طالبة للمبادی .''
''تصور اور تصدیق سے متعلقہ مقاصد سے پیدا ہونے والی اس نفسانی حرکت کا نام نظر ہے جو بنیادی قواعد ( یعنی تصور و تصدیق پر مشتمل معلومات کی صورتوں) کو طلب کرنے والی ہوتی ہے۔''
ان بنیادی قواعد سے مراد تصور اور تصدیق پر مشتمل وہ معلومات ہیں جن کی صورتیں ایک ایک کرکے سامنے آتی رہتی ہیں۔ علم ضروری اور نظری میں سے ہر ایک کی پھر دو قسمیں ہیں یعنی تصور اور تصدیق۔ علم منطق میں ان اقسام سے متعلق تفصیلی أبحاث موجود ہیں۔
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,551
پوائنٹ
641
دلیل کی تعریف
دلیل کی تعریف درج ذیل ہے:
'' ما یمکن التوصل بصحیح النظر فیہ الی مطلوب خبری.''
'' دلیل اسے کہتے ہیں کہ جس میں صحیح غور و فکر کے ذریعے اس مقصود و مطلوب تک رسائی حاصل کی جائے کہ جو خبری ہو۔''
اس کی ایک اور تعریف یوں بیان کی گئی ہے:
''ما یمکن التوصل بصحیح النظر فیہ الی العلم بالغیر.''
''دلیل اسے کہتے ہیں کہ جس میں صحیح غور و فکر کے ذریعے اس کے غیر کو معلوم کرنے تک رسائی حاصل کی جائے۔''
اس کی ایک تعریف کچھ یوں بھی بیان کی گئی ہے:
'' ما یلزم من العلم بہ العلم بشیء آخر.''
''دلیل اس کو کہتے ہیں جس کے علم سے ایک دوسری شیء کا علم لازماً حاصل ہو۔''
دلیل کی ایک اور تعریف یہ بیان کی گئی ہے:
'' ھو ترتیب أمور معلومة للتأدی الی مجھول.''
''ایک مجہول اور غیر معلوم شیء کو جاننے کے لیے معلوم چیزوں کو ایک ترتیب دینا' دلیل کہلاتا ہے۔''
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,551
پوائنٹ
641
علامت کی تعریف
علامت کی درج ذیل تعریف کی گئی ہے:
''ھی التی یمکن أن یتوصل بصحیح النظر فیھا الی الظن.''
'' علامت سے مراد وہ شیء ہے جس میں صحیح غور و فکر کے ذریعے ظن غالب تک پہنچا جا سکے۔''
'ظن' سے مراد راجح پہلو ہے جبکہ 'وہم' مرجوح پہلو کو کہتے ہیں۔ اور اگر ذہن طرفین یعنی راجح اور مرجوح میں متردد ہو تو اسے 'شک' کہتے ہیں۔ ( مثلاً '' زید کھڑا ہے'' منطق کی اصطلاح میں ایک تصدیق (Assent) ہے۔ علم نحو میں اسے جملہ خبریہ کہتے ہیں اور جملہ خبریہ وہ ہوتا ہے جس میں سچ اور جھوٹ دونوں باتوں کا احتمال موجود ہو یعنی جس کی تصدیق و تکذیب ممکن ہو۔ مناطقہ نے جملہ خبریہ میں 'حُسن' کے پہلو کو مدنظر رکھتے ہوئے اسے تصدیق کا نام دے دیا اگرچہ منطق میں جملہ خبریہ کا نام تکذیب بھی رکھا جا سکتا تھا۔ تصدیق کو علم منطق میں 'حکم' اور 'اعتقاد' بھی کہتے ہیں۔ اس جملے میں زید کے قیام کے بارے ایک خبر دی گئی ہے اور اس خبر میں سچ اور جھوٹ دونوں احتمالات موجود ہیں۔ اگر تو اس خبر میں سچ کا پہلو راجح مثلاً ٥٠ فی صد سے زائد ہو تو اسے 'ظن' کہیں گے یعنی زید کے قیام کے بارے مخاطب کو 'علم ظن' حاصل ہو گا اور اگر سچ کا پہلو مرجوح ہو مثلاً ٥٠ فیصد سے کم ہو تو 'وہم' کہیں گے اور سچ اور جھوٹ میں سے کوئی پہلو بھی راجح نہ ہو یعنی دونوں برابر یا ٥٠ فیصد ہوں تو اسے 'شک' کہیں گے۔)

پس ظن سے مراد وہ حکم ہے جو راجح چیز کے بارے لگایا جاتا ہے اور ظن میں اس کی نقیض ( یعنی مرجوح ) کا جو احتمال پایا جاتا ہے تو اس سے ظنی علم معیوب ومطعون قرار نہیں پاتا۔( مثلاً ''زید کھڑا ہے'' میں اگر راجح پہلو زید کے قیام کا ہو تو زید کے قیام کے بارے ظن غالب حاصل ہو گا لیکن اس کے ساتھ زید کے عدم قیام کا پہلو مرجوح ہوگا اور وہ بھی ساتھ ہی موجود ہو گا۔ ''زید کھڑاہے'' میں مرجوح پہلو یعنی زید کا عدم قیام اس وقت ختم ہو گا جبکہ زیدکے قیام میں علم یقین حاصل ہو۔ چونکہ راجح پہلو کے ساتھ مرجوح کا تصور لازم ہے لہذا ایک ہی تصدیق میں ظن کے ساتھ وہم کا پہلو بھی موجود ہو گا اور کسی تصدیق میں وہم کا پہلو ہونا قابل عیب نہیں ہے۔ امام شوکانی آئندہ الفاظ میں اس خبر واحد ' کہ جس سے ظن غالب حاصل ہوتا ہے' کا دفاع کرتے ہوئے فرماتے ہیں۔)

وہم یعنی مرجوح پہلو میں کوئی حکم موجود نہیں ہوتا کیونکہ دو متضاد چیزوں کے ساتھ ( ایک ہی شیء پر) حکم لگانا ممکن نہیں ہے کیونکہ وہ نقیض کہ جس کا تعلق ظن ہے اس پر (تصدیق یا تکذیب کا) حکم لگا دیا گیا ہے اور اگر مرجوح نقیض ( یعنی وہم) پر بھی حکم لگا دیا جائے تو اس طرح ایک ہی شیء پر نقیضین کے ساتھ حکم لگایا جائے گا ( جو کہ ممنوع ہے)۔

اسی طرح شک میں بھی طرفین (Extremes) میں سے کسی پر بھی حکم نہیں لگایا جاتا ( مثلاً "زید کھڑا ہے'' میں 'قیام' اور 'عدم قیام' طرفین ہیں) کیونکہ ( شک کی صورت میں) طرفین میں وقوع اور عدم وقوع عقل کی نظر میں برابری اور مساوات کی بنیاد پر ہوتا ہے اور اگر طرفین میں سے کسی ایک پر ( تصدیق یاتکذیب کا) حکم لگا دیا جائے تو اس سے'ترجیح بلا مرجح' لازم آئے گا ( یعنی کسی مرجح کے بغیر ترجیح دی جائے گی جو درست نہیں ہے ) اور اگر طرفین میں سے دونوں پر ( تصدیق یا تکذیب کا) حکم لگا دیا جائے تو اس سے ( ایک ہی شیء پر) نقیضین سے حکم لگانا لازم آئے گا۔
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,551
پوائنٹ
641
اعتقاد کی تعریف
اعتقاد کی تعریف درج ذیل ہے:
''ھو المعنی الموجب لمن اختص بہ کونہ جازماً بصورة مجردة أو بثبوت أمر أو نفیہ.''
'' اصطلاح میں اعتقاد سے مراد وہ کیفیت اور حالت ہے جو صاحب اعتقاد کو صورت مجردہ (Abstract Form) یا کسی شیء کے ثبوت یا کسی شیء کی نفی پر یقین والا بنا دے۔''
اعتقاد کی ایک اور تعریف یوں کی گئی ہے:
''ھو الجزم بالشیء من دون سکون نفس.''
'' کسی شیء کے بارے ایسا یقین رکھنا ہے کہ جس میں نفسانی اطمینان شامل نہ ہو۔''
اعتقاد کو تصدیق بھی کہتے ہیں' چاہے یہ اعتقاد جازم ( یعنی پختہ ) ہو یا غیر جازم'
( أمر واقعہ کے) مطابق ہو یا غیر مطابق'
( دلائل سے ) ثابت ہو یا نہ ہو۔

اس طرح 'جہل مرکب' بھی اعتقاد کی تعریف میں داخل ہے کیونکہ وہ ایک ایسا اعتقاد ہے جو أمر واقعہ کے مطابق نہیں ہوتا۔ علاوہ ازیں تقلید بھی اعتقاد کی تعریف میں شامل ہے کیونکہ اس میں کسی شیء کے ثبوت یا نفی کے بارے یقین کی کیفیت کسی دوسرے کے قول کی وجہ سے حاصل ہوتی ہے۔ البتہ 'جہل بسیط' اعتقاد کی تعریف میں شامل نہیں ہے کیونکہ وہ علم اور اعتقاد کے مقابلے میں استعمال ہوتا ہے ( یعنی علم اور اعتقاد کے مقابلے جہالت ہو) جیسا کہ عدم مَلکہ کے بالمقابل ہوتا ہے ( یعنی جہل بسیط اس شخص کی جہالت ہے جس میں علم حاصل کرنے کا مَلکہ ہو اور وہ علم حاصل کر سکتا ہو لیکن پھر بھی جاہل رہے۔ پس جہل بسیط میں 'جاہل' کے پاس علم کا مَلکہ ہوتا ہے جبکہ جہل مرکب میں یہ بھی نہیں ہوتا)۔ 'جہل بسیط' سے مراد اس شخص کا علم اور اعتقاد سے محروم ہونا ہے جس میں عالم اور معتقد ( یعنی کسی اعتقاد کا حامل) ہونے کی صلاحیت موجود ہو۔
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,551
پوائنٹ
641
أصول فقہ کا موضوع
کسی بھی علم کے موضوع سے مراد وہ شیء ہوتی ہے جس میں اس علم کے ذاتی عوارض Essential Attributes سے بحث کی جاتی ہو۔ 'عرض' سے مراد یہاں وہ چیز ہے جسے کسی شیء پر محمول کیا جائے اور وہ اس سے( یعنی اس کی حقیقت سے) خارج بھی ہو۔
( علم منطق میں دو اصطلاحات نہایت اہم ہیں : تصور اور تصدیق' اگر کسی شیء کے بارے کسی حکم ( یعنی خبر ) کو تسلیم کر لیا جائے تو اسے تصدیق کہتے ہیں مثلاً ''زید کھڑا ہے '' میں زید کے بارے ایک خبر دی جا رہی ہے اور اس خبر کو تسلیم کرنا تصدیق ہے۔ علم النحو میں جسے جملہ خبریہ کہتے ہیں اسے منطق میں حکم' اذعان' اعتقاد یا تصدیق کہتے ہیں۔ ان میں سے معروف نام تصدیق ہی ہے۔ تصدیق میں پہلا حصہ موضوع اور دوسرا محمول کہلاتا ہے۔ پس عوارض سے مراد وہ محمولات ہیں جنہیں موضوعات پر محمول کیا جائے اور وہ موضوعات سے خارج ہوں یعنی ان کی حقیقت موضوعات کی حقیقت سے مختلف ہو۔ سابقہ صفحات میں ہم یہ بحث کر چکے ہیں کہ کسی شیء کے عوارض سے مراد اس کی وہ صفات ہوتی ہیں جو عارضی اور وقتی ہوں اور اس شیء کی حقیقت سے خارج ہوں جیسا کہ انسان کا ہنسنا اس کی صفات عارضہ میں سے ہے)۔

ان عوارض کو عوراض ذاتیہ اس لیے کہا گیا ہے کہ یہ کسی شیء سے بذاتہ ملحق ہو جاتے ہیں یا کسی ایسے واسطے کے ذریعے سے کسی شیء سے ملحق ہوتے ہیں جو واسطہ اس شیء کے برابر ہو یا کسی ایسے واسطے کے ذریعے ملحق ہوتے ہیں جو واسطہ اس شیء سے بھی زیادہ عام ہو اور وہ شیء اس واسطے میں داخل بھی ہو۔
پہلے کی مثال 'انسان کا ادارک' ہے ( جو اس کی ذات کے ساتھ براہ راست ملحق ہوتاہے لہذا وقتی صفت ہونے کہ وجہ سے عارض ہوا اور ذات سے براہ راست ملحق ہونے کی وجہ سے ذاتی ہوا۔)
دوسرے کی مثال 'انسان کا ہنسنا' ہے جو تعجب کے واسطے سے ہوتاہے ( یہاں ہنسنا ایک عارضی صفت ہے لیکن انسان کے ساتھ براہ راست ملحق نہیں ہے بلکہ تعجب کی وجہ سے ملحق ہوئی ہے یعنی تعجب کے بعد انسان ہنستا ہے' اس کے بغیر نہیں اور انسان کا ہنسا اور تعجب کرنا برابر کی صفات ہیں۔)
اور تیسرے کی مثال 'انسان کا حرکت کرنا' ہے جو حیوان ہونے کے واسطے ہو۔ ( اس مثال میں حرکت کرنا ایک عارضی صفت ہے کیونکہ انسان ہر وقت حرکت میں نہیں رہتا اور انسان کی حرکت اس کے حیوان ہونے کے واسطے سے ہے یعنی انسان حیوان ہونے کے بعد حرکت کرتا ہے اور اگر وہ حیوان نہ ہو مثلاً جمادات میں سے ہو تو حرکت نہ کرے گا۔ حیوان اور انسان دونوں جنس ہیں اور ان میں سے حیوان کی جنس' انسان کی نسبت عام ہے پس انسان کی حرکت ایک ایسے واسطے سے ہے جو اس سے عام ہے۔)

أعراض ذاتیہ سے متعلق بحث کرنے سے مراد یہ ہے کہ أعراض ( یعنی صفات ) ذاتیہ کو علم کے موضوع پر محمول کرنا جیسا کہ ہم کہتے ہیں : الکتاب یثبت بہ الحکم یعنی کتاب کے ساتھ حکم ثابت ہوتا ہے۔
یا اس سے مراد أعراض ذاتیہ کو علم کی انواع پر محمول کرنا جیسا کہ ہم کہتے ہیں: الأمر یفید الوجوب یعنی فعل أمر وجوب کا فائدہ دیتا ہے۔
یا ان أعراض ذاتیہ کو علم کے أعراض ذاتیہ پر محمول کرنا جیسا ہم کہتے ہیں : النص یدل علی مدلولہ دلالة قطعیة یعنی نص اپنے مدلول پر قطعی طور پر دلالت کرتی ہے۔
یا ان أعراض ذاتیہ کو علم کی أعراض ذاتیہ کی انواع پر محمول کرنا ہے جیسا کہ ہم کہتے ہیں : العام الذی خص منہ البعض یدل علی بقیة أفرادہ دلالة ظنیة یعنی وہ عام جس کی تخصیص ہو چکی ہو' اپنے بقیہ افراد پر دلالت میں ظنی ہوتا ہے۔

أصول فقہ کے جمیع مباحث کا مرکز و محور أحکام شرعیہ اور ان کے دلائل کے لیے أعراض ذاتیہ کا اثبات ہے یعنی أحکام شرعیہ کے لیے دلائل کو ثابت کرنا اور أحکام کا دلائل سے ثابت ہونا (مثلاً کسی شرعی حکم کے ثبوت کے لیے قرآن' سنت' اجماع اور قیاس وغیرہ شرعی دلائل ہیں اور ان کے شرعی دلائل ہونے کو ثابت کرنا أصول فقہ کا ایک موضوع ہے یعنی قیاس کے حجت یا شرعی دلیل ہونے کے کیا دلائل ہیں؟ وغیرہ۔ اور یہ ثابت کرنا کہ ان شرعی دلائل سے أحکام کیسے ثابت ہوتے ہیں مثلاً اگر کوئی حکم شرعی واضح طور پر قرآن وسنت میں نہ ہو تو کیا وہ قیاس سے ثابت ہو جاتا ہے یا نہیں؟ یعنی احکام شرعیہ، دلائل شرعیہ سے کیسے ثابت ہوتے ہیں یا نہیں ؟ یہ أصول فقہ کا دوسرا موضوع ہے) پس اس فن کے جمیع مسائل اثبات اور ثبوت سے متعلق ہیں یعنی دلائل کا اثبات اور أحکام کے ثبوت ( کا طریق کار)۔
 
Top