- شمولیت
- مارچ 08، 2011
- پیغامات
- 2,521
- ری ایکشن اسکور
- 11,551
- پوائنٹ
- 641
مقدمہ
علوم شرعیہ کو ہم دو قسم کے علوم میں تقسیم کر سکتے ہیں:
بنیادی علوم
یہ دو ہیں یعنی کتاب اللہ اور سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا علم۔
ثانوی علوم
وہ علوم جو بنیادی علوم کو سمجھنے و سمجھانے کے لیے امدادی علوم کی حیثیت رکھتے ہیں۔ انہیں ہم مزید دو حصوں میں تقسیم کر سکتے ہیں:
۱۔ علوم اصول : یعنی اصول کے علوم اور ان سے مراد اصول تفسیر، اصول حدیث، اصول فقہ، اصول عقیدہ اور اصول قراآت کا علم ہے۔
۲۔ علوم لغت : ان سے مراد صرف، نحو، بلاغت، لغت، ادب اور منطق کا علم ہے۔
کچھ علوم کتاب و سنت کی تحقیق کے علم ہیں جیسا کہ اصول قراآت اور اصول حدیث کا علم جبکہ کچھ علوم کتاب وسنت کی تفہیم کے علوم ہیں جیسا کہ اصول تفسیر اور اصول فقہ وغیرہ۔
ہر فن اور علم میں کچھ لوگ وہ ہوتے ہیں جو تخلیقی کام کرتے ہیں۔
اس کے بعد تحقیقی کام کی باری آتی ہے۔
اس کے بعد جمع و ترتیب اور تدوین و تنقیح کا کام ہوتا ہے۔
اس کے بعد اختصار و تہذیب کا کام ہوتا ہے۔
اس کے بعد ایک کام اس علم و فن پر کیے گئے اس کام کو دوسری زبانوں میں منتقل کرنے کا ہوتا ہے۔
اس کے علاوہ بھی کچھ لوگ کام کرتے ہیں لیکن وہ عموما مکھی پر مکھی مارنے یا اپنے نام سے کوئی کتاب شائع کروانے کے جذبے کے تحت ہوتا ہے۔
کسی بھی فن میں تخلیقی کام کرنے والے حضرات درحقیقت نابغہ روزگار یا ایسے جینیءس افراد ہوتے ہیں جو صدیوں میں پیدا ہوتے ہیں۔ اصول فقہ میں لکھی جانے والی کتب کا اگر ہم مطالعہ کریں تو ان میں امام شافعی رحمہ اللہ کی "الرسالۃ'' اور امام ابن حزم رحمہ اللہ کی "الاحکام" اور امام شاطبی رحمہ اللہ کی "الموافقات" اس فن کی تخلیقات کی معراج ہیں۔ امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے بھی اس فن میں اپنے تصور حکمت کے ذریعے گراں قدر تخلیق کا اضافہ کیا ہے۔
تخلیقی کام کے بعد تحقیقی کام یعنی ریسرچ ورک کی اہمیت مسلم ہے۔ اصول فقہ میں ریسرچ ورک پر بہت کتابیں لکھی گئی ہیں اور تاحال لکھی جا رہی ہیں مثلاً امام بزدوی رحمہ اللہ کی "اصول بزدوی" اور امام سرخسی رحمہ اللہ کی "اصول سرخسی" اور امام الحرمین رحمہ اللہ کی "البرھان" تحقیقی کام کی بہترین مثالیں ہیں۔ جدید کتابوں میں زکریا بن غلام قادر باکستانی کی کتاب "اصول الفقہ علی منہھج أھل الحدیث" ریسرچ ورک کی ایک عمدہ مثال ہے۔
تحقیقی کام کے بعد کسی فن میں جمع و تدوین اور ترتیب و تنقیح کا کام بھی خصوصی اہمیت کا حامل ہے۔ اصول فقہ میں علامہ آمدی رحمہ اللہ کی کتاب "الاحکام" اور امام زرکشی رحمہ اللہ کی کتاب "البحر المحیط" اصول فقہ میں متنوع اقوال کی جامعیت، فنی مواد کی عمدہ ترتیب اور متفرق اقوال کی تنقیح کے پہلو سے عمدہ کتب ہیں۔
جمع و تدوین اور ترتیب و تنقیح کے بعد ایک اور کام اختصار و جامعیت کا ہے۔ امام شوکانی رحمہ اللہ کی کتاب "ارشاد الفحول" اس پہلو سے ایک بہترین کتاب ہے کہ اس میں اس فن کے بارے ما لہ و ما علیہ کو انتہائی اختصار اور جامعیت کے ساتھ ایک جگہ جمع کر دیا گیا ہے۔ علاوہ ازیں اس میں اس فن کے حوالہ سے گراں قدر علمی نکات کا اضافہ بھی ہے اور بعض مقامات پر اقوال کی تنقیح بھی ہے لیکن مکمل کتاب کا مزاج درحقیقت سابقہ کام کو اختصار اور جامعیت کے ساتھ ایک جگہ جمع کرنے کا ہی ہے۔ تقریباً دو سال قبل کی بات ہے کہ مجلس التحقیق الاسلامی میں "ارشاد الفحول" کے ایک سلیس ترجمہ کی ذمہ داری راقم کو سونپی گئی، راقم نے کچھ عرصہ اس پر کام کیا لیکن بعد میں دیگر مصروفیات کی وجہ سے یہ کام ترک کرنا پڑا۔ فورم پر ہمارے ایک بھائی نے اس خواہش کا اظہار کیا کہ انہیں اس کتاب کا ترجمہ درکار ہے۔ راقم نے اس کتاب کے جس قدر حصہ کا ترجمہ کیا تھا، اسے ذیل میں افادہ عام کے لیے نقل کیا جا رہا ہے۔
نوٹ :
1۔ بریکٹس میں جو عبارتیں منقول ہیں وہ راقم کی طرف سے عبارت کا مفہوم آسان بنانے کے لیے اضافہ ہیں۔
2۔ دوسرا یہ بات بھی اہم ہے کہ کسی فن کی کتاب کا ترجمہ ایک حد تک ہی سلیس بنایا جا سکتا ہے اور اس ترجمہ سے استفادہ کے لیے ضروری ہوتا ہے کہ آپ اس فن کی بنیادی اصطلاحات سے واقف ہوں مثلا اگر کوئی صاحب فزکس کی کسی کتاب کا ترجمہ کریں گے تو اس ترجمہ میں فزکس کی بنیادی اصطلاحات ولاسٹی، اسراع وغیرہ کا بھی ترجمہ کرنا تقریبا مشکل ہوتا ہے۔ اور ان بنیادی اصطلاحات سے ناواقفیت اس مترجم کتاب سے استفادہ میں رکاوٹ بن سکتی ہے۔
امام شوکانی رحمہ اللہ تک اصول فقہ کی جو کتب لکھی گئی ہیں، ان میں منطق اور علم کلام کا استعمال کافی ہوا ہے لہذا ان دو علوم کی اصطلاحات کی بھی بھرمار ہے۔ پس امام شوکانی رحمہ اللہ کی اس کتاب کے ترجمہ سے صد فی صد فائدہ حاصل کرنے کے لیے ضروری ہے کہ ایک شخص منطق اور علم الکلام کی بنیادی اصطلاحات سے واقف ہو۔ جس طرح میڈیکل سائنس کی کتاب پڑھنے کے لیے صرف انگریزی آنا لازم نہیں ہے اسی طرح اردو میں فلسفہ کی کوئی کتاب پڑھنے کے لیے ضروری ہے کہ اردو زبان کے ساتھ ساتھ فلسفیانہ ذوق اور اس فن کی بنیادی اصطلاحات سے واقفیت بھی ہو۔ ترجمہ کی کچھ حدود ہوتی ہے اور ان حدود سے تجاوز کرنا مشکل ہوتا ہے۔
راقم نے اس ترجمہ میں بعض مقامات پر منطق اور علم کلام کی ان اصطلاحات کو سلیس بنانے کی لمبی چوڑی عبارتوں کا اضافہ کیا ہے لیکن اس کے باوجود محسوس یہی ہوتا ہے کہ ترجمہ سے زیادہ اس کتاب کی ایک مفصل شرح کی ضرورت ہے اور اس شرح سے پہلے بھی مبادیات منطق اور علم الکلام پر مبنی ایک مفصل دیباچے اور مقدمے کی ضرورت ہے تا کہ اس کتاب کے ترجمہ سے عوام الناس کے لیے استفادہ ممکن حد تک ہو سکے۔
علوم شرعیہ کو ہم دو قسم کے علوم میں تقسیم کر سکتے ہیں:
بنیادی علوم
یہ دو ہیں یعنی کتاب اللہ اور سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا علم۔
ثانوی علوم
وہ علوم جو بنیادی علوم کو سمجھنے و سمجھانے کے لیے امدادی علوم کی حیثیت رکھتے ہیں۔ انہیں ہم مزید دو حصوں میں تقسیم کر سکتے ہیں:
۱۔ علوم اصول : یعنی اصول کے علوم اور ان سے مراد اصول تفسیر، اصول حدیث، اصول فقہ، اصول عقیدہ اور اصول قراآت کا علم ہے۔
۲۔ علوم لغت : ان سے مراد صرف، نحو، بلاغت، لغت، ادب اور منطق کا علم ہے۔
کچھ علوم کتاب و سنت کی تحقیق کے علم ہیں جیسا کہ اصول قراآت اور اصول حدیث کا علم جبکہ کچھ علوم کتاب وسنت کی تفہیم کے علوم ہیں جیسا کہ اصول تفسیر اور اصول فقہ وغیرہ۔
ہر فن اور علم میں کچھ لوگ وہ ہوتے ہیں جو تخلیقی کام کرتے ہیں۔
اس کے بعد تحقیقی کام کی باری آتی ہے۔
اس کے بعد جمع و ترتیب اور تدوین و تنقیح کا کام ہوتا ہے۔
اس کے بعد اختصار و تہذیب کا کام ہوتا ہے۔
اس کے بعد ایک کام اس علم و فن پر کیے گئے اس کام کو دوسری زبانوں میں منتقل کرنے کا ہوتا ہے۔
اس کے علاوہ بھی کچھ لوگ کام کرتے ہیں لیکن وہ عموما مکھی پر مکھی مارنے یا اپنے نام سے کوئی کتاب شائع کروانے کے جذبے کے تحت ہوتا ہے۔
کسی بھی فن میں تخلیقی کام کرنے والے حضرات درحقیقت نابغہ روزگار یا ایسے جینیءس افراد ہوتے ہیں جو صدیوں میں پیدا ہوتے ہیں۔ اصول فقہ میں لکھی جانے والی کتب کا اگر ہم مطالعہ کریں تو ان میں امام شافعی رحمہ اللہ کی "الرسالۃ'' اور امام ابن حزم رحمہ اللہ کی "الاحکام" اور امام شاطبی رحمہ اللہ کی "الموافقات" اس فن کی تخلیقات کی معراج ہیں۔ امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے بھی اس فن میں اپنے تصور حکمت کے ذریعے گراں قدر تخلیق کا اضافہ کیا ہے۔
تخلیقی کام کے بعد تحقیقی کام یعنی ریسرچ ورک کی اہمیت مسلم ہے۔ اصول فقہ میں ریسرچ ورک پر بہت کتابیں لکھی گئی ہیں اور تاحال لکھی جا رہی ہیں مثلاً امام بزدوی رحمہ اللہ کی "اصول بزدوی" اور امام سرخسی رحمہ اللہ کی "اصول سرخسی" اور امام الحرمین رحمہ اللہ کی "البرھان" تحقیقی کام کی بہترین مثالیں ہیں۔ جدید کتابوں میں زکریا بن غلام قادر باکستانی کی کتاب "اصول الفقہ علی منہھج أھل الحدیث" ریسرچ ورک کی ایک عمدہ مثال ہے۔
تحقیقی کام کے بعد کسی فن میں جمع و تدوین اور ترتیب و تنقیح کا کام بھی خصوصی اہمیت کا حامل ہے۔ اصول فقہ میں علامہ آمدی رحمہ اللہ کی کتاب "الاحکام" اور امام زرکشی رحمہ اللہ کی کتاب "البحر المحیط" اصول فقہ میں متنوع اقوال کی جامعیت، فنی مواد کی عمدہ ترتیب اور متفرق اقوال کی تنقیح کے پہلو سے عمدہ کتب ہیں۔
جمع و تدوین اور ترتیب و تنقیح کے بعد ایک اور کام اختصار و جامعیت کا ہے۔ امام شوکانی رحمہ اللہ کی کتاب "ارشاد الفحول" اس پہلو سے ایک بہترین کتاب ہے کہ اس میں اس فن کے بارے ما لہ و ما علیہ کو انتہائی اختصار اور جامعیت کے ساتھ ایک جگہ جمع کر دیا گیا ہے۔ علاوہ ازیں اس میں اس فن کے حوالہ سے گراں قدر علمی نکات کا اضافہ بھی ہے اور بعض مقامات پر اقوال کی تنقیح بھی ہے لیکن مکمل کتاب کا مزاج درحقیقت سابقہ کام کو اختصار اور جامعیت کے ساتھ ایک جگہ جمع کرنے کا ہی ہے۔ تقریباً دو سال قبل کی بات ہے کہ مجلس التحقیق الاسلامی میں "ارشاد الفحول" کے ایک سلیس ترجمہ کی ذمہ داری راقم کو سونپی گئی، راقم نے کچھ عرصہ اس پر کام کیا لیکن بعد میں دیگر مصروفیات کی وجہ سے یہ کام ترک کرنا پڑا۔ فورم پر ہمارے ایک بھائی نے اس خواہش کا اظہار کیا کہ انہیں اس کتاب کا ترجمہ درکار ہے۔ راقم نے اس کتاب کے جس قدر حصہ کا ترجمہ کیا تھا، اسے ذیل میں افادہ عام کے لیے نقل کیا جا رہا ہے۔
نوٹ :
1۔ بریکٹس میں جو عبارتیں منقول ہیں وہ راقم کی طرف سے عبارت کا مفہوم آسان بنانے کے لیے اضافہ ہیں۔
2۔ دوسرا یہ بات بھی اہم ہے کہ کسی فن کی کتاب کا ترجمہ ایک حد تک ہی سلیس بنایا جا سکتا ہے اور اس ترجمہ سے استفادہ کے لیے ضروری ہوتا ہے کہ آپ اس فن کی بنیادی اصطلاحات سے واقف ہوں مثلا اگر کوئی صاحب فزکس کی کسی کتاب کا ترجمہ کریں گے تو اس ترجمہ میں فزکس کی بنیادی اصطلاحات ولاسٹی، اسراع وغیرہ کا بھی ترجمہ کرنا تقریبا مشکل ہوتا ہے۔ اور ان بنیادی اصطلاحات سے ناواقفیت اس مترجم کتاب سے استفادہ میں رکاوٹ بن سکتی ہے۔
امام شوکانی رحمہ اللہ تک اصول فقہ کی جو کتب لکھی گئی ہیں، ان میں منطق اور علم کلام کا استعمال کافی ہوا ہے لہذا ان دو علوم کی اصطلاحات کی بھی بھرمار ہے۔ پس امام شوکانی رحمہ اللہ کی اس کتاب کے ترجمہ سے صد فی صد فائدہ حاصل کرنے کے لیے ضروری ہے کہ ایک شخص منطق اور علم الکلام کی بنیادی اصطلاحات سے واقف ہو۔ جس طرح میڈیکل سائنس کی کتاب پڑھنے کے لیے صرف انگریزی آنا لازم نہیں ہے اسی طرح اردو میں فلسفہ کی کوئی کتاب پڑھنے کے لیے ضروری ہے کہ اردو زبان کے ساتھ ساتھ فلسفیانہ ذوق اور اس فن کی بنیادی اصطلاحات سے واقفیت بھی ہو۔ ترجمہ کی کچھ حدود ہوتی ہے اور ان حدود سے تجاوز کرنا مشکل ہوتا ہے۔
راقم نے اس ترجمہ میں بعض مقامات پر منطق اور علم کلام کی ان اصطلاحات کو سلیس بنانے کی لمبی چوڑی عبارتوں کا اضافہ کیا ہے لیکن اس کے باوجود محسوس یہی ہوتا ہے کہ ترجمہ سے زیادہ اس کتاب کی ایک مفصل شرح کی ضرورت ہے اور اس شرح سے پہلے بھی مبادیات منطق اور علم الکلام پر مبنی ایک مفصل دیباچے اور مقدمے کی ضرورت ہے تا کہ اس کتاب کے ترجمہ سے عوام الناس کے لیے استفادہ ممکن حد تک ہو سکے۔