• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اردو ترجمہ ارشاد الفحول از امام شوکانی رحمہ اللہ

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,551
پوائنٹ
641
علم أصول فقہ کا فائدہ
اس علم کا فائدہ یہ ہے کہ اس کے ذریعے اللہ کے أحکام کے بارے علم یقینی یا ظن غالب حاصل ہوتا ہے۔ چونکہ اس علم کی غرض و غایت شرف و بزرگی کے اس عالی مقام تک پہنچنا ہے کہ جس میں اللہ کے أحکام کے بارے علم یا ظن حاصل ہو پس اس علم کے طلب کرنے والے سے یہ تقاضا بڑھ جاتا ہے کہ وہ اس علم کو سیکھنے میں پہلے سے بھی زیادہ توجہ برتے اور اس میں گہری دلچسپی کا مظاہرہ کرے کیونکہ دنیا و آخرت کی کامیابی کا انحصار اسی علم پر ہے۔
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,551
پوائنٹ
641
علم أصول فقہ کے مآخذ و مصادر
علم أصول فقہ تین چیزوں سے أخذ کیا گیا ہے:
١۔ علم الکلام' کیونکہ شرعی دلائل کا انحصار اللہ کی معرفت اور اللہ کے رسول کی سچائی پر مبنی ہے ( یعنی شریعت او ر شرعی دلائل کو تو اس وقت مانے گا جب اللہ اور اس کے رسول کو مانتا ہو ) اور ان دونوں مسائل کے عقلی و منطقی دلائل کا تذکرہ علم الکلام میں ہے۔
٢۔ عربی زبان' کتاب و سنت کا فہم اور ان سے استدلال اسی صورت ممکن ہے جبکہ عربی زبان کا گہرا فہم ہو کیونکہ یہ دونوں عربی زبان میں ہیں۔
٣۔ أحکام شرعیہ اپنے تصور کے اعتبار سے' کیونکہ ان کا اثبات یا نفی مقصود ہوتی ہے جیسا کہ ہم کہتے ہیں : أمر وجوب کا فائدہ دیتا ہے اور نہی تحریم کا' نماز واجب ہے اور سود حرام۔

اس فصل میں ہم نے جن مسائل کا تذکرہ کیا ہے وہ أصول فقہ کے طالب علم کی بصیرت میں اضافہ کرتے ہیں جیسا کہ ہر صاحب عقل اس بات کو خوب اچھی طرح جانتا ہے۔
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,551
پوائنٹ
641
دوسری فصل : حکم شرعی کے بیان میں
اس فصل میں أحکام کے بارے بحث ہو گی۔ ہم نے لغات سے متعلق بحث کرنے سے پہلے أحکام سے اپنی گفتگو کا آغاز اس لیے کیا ہے کہ علم الکلام کے چند اہم مباحث أحکام سے متعلق ہیں جن کا ہم ان شاء اللہ یہاں تذکرہ کریں گے ۔ اس فصل کے تحت ہم چار بحثیں کریں گے:
١۔ پہلی بحث حکم کے بارے میں
٢۔ دوسری بحث حاکم کے بارے میں
٣۔ تیسری بحث محکوم بہ کے بارے میں
٤۔ چوتھی بحث محکوم علیہ کے بارے میں
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,551
پوائنٹ
641
مبحث أول : حکم کے بیان میں
پہلی بحث حکم کے بارے میں ہے۔ حکم کی تعریف درج ذیل ہے:
'' الخطاب المتعلق بأفعال المکلفین بالاقتضاء أو التخییر أو الوضع.''
'' حکم سے مراد شارع کا وہ خطاب ہے جو مکلف بندوں کے أفعال سے متعلق ہو' طلب یا تخییر یا وضع کے ذریعے.'' ( اقٹضاء سے مراد اللہ کی طرف سے کسی کام کے کرنے یا نہ کرنے کا مطالبہ اور تخییر سے مراد اللہ کی طرف سے کسی کام کو کرنے یا نہ کرنے میں بندے کو اختیار دینا اور وضع سے مراد اللہ کی طرف سے کسی شیء کو کسی حکم کا سبب' شرط یا مانع مقرر کرناہے۔)
اس تعریف میں طلب، وجود ( کسی کام کو کرنے کے مطالبے یعنی أمر ) اور عدم ( کسی کام کو نہ کرنے کے مطالبے یعنی نہی ) دونوں کو شامل ہے اور ( شارع کی طرف سے ) یہ طلب و مطالبہ یا تو بالجزم ہو گی ( یعنی لازمی مطالبہ ہو گا ) یا اس طلب و مطالبہ کو ترک کرنا جائز ہو گا ( یعنی مطالبہ تو ہو گا لیکن مکلفین کے لیے اسے پورا کرنا لازمی نہ ہو گا)۔ پس اقتضاء میں چار حکم داخل ہیں : واجب یعنی فرض' محظور یعنی حرام ' مندوب یعنی مستحب اور مکروہ۔ جبکہ تخییر سے مراد اباحت ہے۔ اور وضع سے مراد ( کسی حکم کا ) سبب' شرط یا مانع ہے۔

پس أحکام تکلیفیہ پانچ ہیں کیونکہ شارع کا خطاب یا تو جازم ( یعنی تاکیدی اور پُر زور انداز میں ) ہو گا یا جازم نہ ہو گا۔ پس اگر شارع کا خطاب، جازم ہو گا تو اس میں یا تو کسی کام کے کرنے کا مطالبہ ہو گا یا کسی کام سے روکا گیاہو گا۔ پہلا حکم 'ایجاب' ہے اور دوسرا 'تحریم'۔

اگر تو شارع کا خطاب غیر جازم ہو گا تو اس میں طرفین ( یعنی اس کام کو کرنے یا نہ کرنے کے دونوں پہلو ) برابر ہوں گے اور اس کو 'اباحت' کہتے ہیں یا ان میں سے ایک پہلو یعنی اس فعل کو کرنے یا نہ کرنے کا راجح ہو گا' اگر کرنے کا پہلو راجح ہو گا تو 'ندب' اور اگر نہ کرنے کا پہلو راجح ہو تو 'کراہت' کہتے ہیں۔یہ کل آٹھ قسمیں ہوئیں جن میں سے پانچ حکم تکلیفی اور تین حکم وضعی کی أقسام ہیں۔

حکم تکلیفی کی وجہ تسمیہ
حکم تکلیفی کو 'تکلیفی' کا نام اس لیے دیا گیا ہے کہ اس کی اکثر اقسام میں تکلیف پائی جاتی ہے۔ یہ واضح رہے کہ حکم تکلیفی کی ہر قسم میں تکلیف نہیں ہوتی جیسا کہ اباحت میں کسی قسم کی تکلیف شرعی موجود نہیں ہے بلکہ جمہور کے نزدیک 'ندب' اور کراہت تنزیہی میں بھی تکلیف شرعی نہیں ہے ( کیونکہ جمہور کے نزدیک تکلیف سے مراد 'الزام ما فیہ مشقة' یعنی مشقت والی چیز کو لازم قرار دینا ہے اور ندب اور کراہت میں کسی فعل کو لازم قرار نہیں دیا جاتا جبکہ تکلیف کی ایک تعریف 'طلب ما فیہ مشقة' یعنی اس شیء کا مطالبہ کہ جس میں مشقت ہو' بھی کی گئی ہے اس تعریف کے مطابق ندب اور کراہت بھی حکم تکلیفی میں شامل ہیں کیونکہ دونوں میں شارع کی طرف سے مطالبہ موجود ہے۔) بقیہ تین أحکام کو حکم وضعی کا نام اس لیے دیا گیا ہے کہ شارع نے ان کو حکم شرعی کے وجود اور عدم وجود کے لیے بطور علامت وضع یا مقرر کیا ہے۔
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,551
پوائنٹ
641
واجب کی اصطلاحی تعریف
واجب کی اصطلاحی تعریف درج ذیل ہے:
'' ما یمدح فاعلہ و یذم تارکہ علی بعض الوجوہ.''
''واجب اس فعل کو کہتے ہیں کہ جس کا کرنے والا قابل ستائش اور نہ کرنے والا بعض حالات میں قابل مذمت ہو۔''
'بعض حالات' کی قید ہم نے اس لیے لگائی تا کہ واجب مخیر اور واجب کفائی کے ساتھ ( اس تعریف کا ) تناقض پیدا نہ ہو کیونکہ واجب مخیر میں اگر وہ ایک قسم کو چھوڑ کر دوسرے کو سر انجام دے تو ایسا شخص قابل مذمت نہیں ہوتا ( جیسا کہ قسم کا کفارہ دس مسکینوں کو کھانا کھلانا یا کپڑے پہنانا یا ایک غلام کو آزاد کرانا ہے۔ قسم توڑنے والے پر یہ کفارہ واجب تو ہے لیکن اس واجب میں ان تین کاموں میں سے ایک کے کرنے کو واجب قرار دیا گیا ہے لہذا یہ واجب مخیر کی مثال ہے اور اس مثال میں تینوں واجبات میں سے دو کو چھوڑ کر ایک کو ادا کرنے کا حکم ہے لہذا دو کو چھوڑنے والا قابل مذمت نہیں ہے۔) اسی طرح واجب کفائی ( یعنی فرض کفایہ ) کو ترک کرنے میں بھی ایک شخص اس وقت قابل مذمت نہیں ہو گا جبکہ اس واجب کو کچھ دوسرے لوگ ادا کر رہے ہوں۔

لہذا واجب کی تین تقسیمیں کی گئی ہیں:
١۔ معین و مخیر
٢۔ اور مضیق و موسع
٣۔ اور عین و کفایہ


فرض اور واجب میں فرق
جمہور علماء ( یعنی مالکیہ' شافعیہ' حنابلہ اور اہل الحدیث ) کے نزدیک واجب اور فرض دو مترادف اصطلاحات ہیں اور ان میں کوئی فرق نہیں ہے جبکہ ایک مرجوح قول کے مطابق فرض وہ ہے جو دلیل قطعی سے ثابت ہو اور واجب وہ ہے جو دلیل ظنی سے ثابت ہو ( اور یہ حنفیہ کا قول ہے)۔ پہلا قول راجح ہے۔
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,551
پوائنٹ
641
محظور یا حرام کی تعریف
'محظور' کی تعریف درج ذیل ہے:
'' ما یذم فاعلہ ویمدح تارکہ.''
'' محظور سے مراد وہ کام ہے جس کے کرنے والے کی مذمت کی جائے اور اس کا چھوڑنے والا قابل مدح ہو۔ ''
اسے حرام' معصیت' ذنب ( یعنی گناہ)' مزجور عنہ ( یعنی جس کے ارتکاب پر ڈانٹ پلائی گئی ہو) ' متوعد علیہ ( یعنی جس کے ارتکاب پر وعید جاری کی گئی ہو ) یا قبیح بھی کہتے ہیں۔
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,551
پوائنٹ
641
مستحب یا مندوب کی تعریف
'مندوب' کی تعریف یہ ہے:
''ما یمدح فاعلہ ولا یذم تارکہ.''
''مندوب سے مراد وہ فعل ہے جس کا فاعل قابل مدح ہو لیکن اس کو ترک کرنے والا قابل مذمت نہ ہو.''
اس کی ایک تعریف یہ بھی کی گئی ہے :
'' ھو الذی یکون فعلہ راجحاً فی نظر الشرع.''
''مندوب سے مرادوہ فعل ہے جس کا کرنا شارع کی نظر میں راجح ہو ( یعنی نہ کرنے سے بہتر ہو اور باعث اجر و ثواب ہو)۔''
اسے مرغب فیہ ( یعنی جس کی ترغیب دی گئی ہو)' مستحب' نفل' تطوع' احسان اور سنت بھی کہتے ہیں۔ ایک قول یہ بھی مروی ہے کہ 'مندوب' کو سنت صرف اسی صورت کہیں گے جبکہ اس پر شارع نے دوام اختیار کیا ہو ( یعنی ہر مندوب سنت نہیں ہے ) جیسا کہ وتر کی نماز ہے یا فرائض کے ساتھ پڑھی جانے والی سنن مؤکدہ وغیرہ
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,551
پوائنٹ
641
مکروہ کی تعریف
مکروہ کی تعریف درج ذیل ہے:
'' ما یمدح تارکہ ولا یذم فاعلہ.''
'' مکروہ ایسے فعل کو کہتے ہیں کہ جس کے ترک کرنے والے کی مدح کی جائے اور اس کا فاعل قابل مذمت ہو۔''

جب یہ لفظ مطلق طور پر استعمال ہو تو تین معانی میں مشترک ہوتا ہے ( یعنی اس میں تین میں سے ایک معنی کا امکان ہوتا ہے) :
١۔ ایسا فعل جس سے تنزیہی طور پر منع کیا گیا ہو یعنی ایسا فعل ہو جس کے ترک کرنے کو شارع نے اس کے کرنے سے افضل قرار دیا ہو۔
٢۔ افضل کام کو ترک کر دینا جیسا کہ چاشت کی نماز
٣۔ محظور یا حرام کے معنی میں ( متقدمین میں سے امام مالک رحمہ اللہ کے ہاں بعض اوقات کراہت کے فتوی سے مراد حرمت ہوتی ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ سلف صالحین کی ایک جماعت کسی شیء کی نسبت حرمت کا فتوی لگانے میں بہت محتاط اور اللہ سے ڈرنے والی تھی۔ اس پر امام ابن قیم رحمہ اللہ نے '' اعلام الموقعین '' میں کچھ بحث کی ہے۔)
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,551
پوائنٹ
641
مباح یا تخییر کی تعریف
مباح کی تعریف درج ذیل کی گئی ہے:
''ما لا یمدح علی فعلہ ولا علی ترکہ.''
'' مباح اس فعل کو کہتے ہیں جس کا فاعل نہ تو قابل مدح ہو اور نہ ہی قابل مذمت۔''
اس سے مراد یہ ہے کہ شارع نے اس ( یعنی مباح ) کے فاعل کے بارے آگاہ کیا ہے کہ اسے مباح کے ارتکاب یا عدم ارتکاب کی صورت میں کوئی ضرر نہیں ہے۔

بعض اوقات 'مباح'سے مراد ایسا فعل بھی ہوتا ہے جس کے کرنے پر تو کوئی وبال نہ ہو لیکن اس کا نہ کرنا ممنوع ہو جیسا کہ کہا جاتا ہے : ' دم المرتد مباح' یعنی مرتد کا خون مباح ہے۔ اب اگر کوئی شخص مرتد کو قتل کر دیتا ہے تو اس پر کوئی وبال نہیں ہے ( لیکن اسلامی ریاست کا مرتد کو نہ قتل کرنا قابل وبال اور ناجائز ہے۔) مباح کو حلال' جائز اور مطلق بھی کہتے ہیں۔
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,551
پوائنٹ
641
سبب کی تعریف
'سبب' کی تعریف درج ذیل ہے:
''ھو جعل وصف ظاھر منضبط مناطا لوجود حکم أی یستلزم وجودہ وجودہ.''
'' سبب سے مراد وہ ظاہری اور منضبط وصف ہے جسے شارع نے کسی حکم کا مدار بنایا ہو یعنی اس وصف کا وجود اس حکم کے وجود کو مستلزم ہو۔''
اس اجمال کی تفصیل ہے کہ مثلاً اللہ تعالی نے 'زنا' میں دو حکم مقرر کیے ہیں : ایک تکلیفی یعنی زانی پر حد کا واجب ہونا اور دوسرا وضعی یعنی زنا کو حد کے واجب ہونے کا سبب قرار دینا' کیونکہ زنا بذاتہ حد کو واجب نہیں کرتا بلکہ شریعت کے واجب کرنے سے حد واجب ہوئی ہے ( یعنی شارع نے حد کے حکم کے لیے زنا کو سبب قرار دیا ہے' اگر زنا ہو گا تو حد ہوگی اور اگر زنا نہیں ہوگا توحد بھی نہ ہو گی۔)

تحقیق و تلاش سے معلوم ہوتا ہے کہ شرعی أحکام میں سبب کی دو قسمیں ہیں :
وقتی سبب مثلاً زوال آفتاب، ظہر کی نماز کی فرضیت کا سبب ہے ( یعنی جب بھی زوال آفتاب ہو گا ظہر کی نماز فرض ہو جائے گی)۔
اور معنوی سبب مثلاً کسی شیء کا نشہ آور ہونا اس کی حرمت کا سبب ہے اور ملکیت، ضمان کا سبب ہے ( یعنی اگر ملکیت ہو گی تو ضمان و ذمہ داری بھی ہو گی ) اور معصیت' عقوبت کا سبب ہے۔
 
Top