• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اردو محا ورات اور زبان وبیان میں اُس کی اہمیت

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
اَش اَش کرنا (عش عش کرنا)
یہ محاورہ"ع" سے عش عش کرنے کی صورت بھی آتا ہے، جس کے معنی یہ ہیں کہ کسی ایسی زبان سے ماخوذ ہے جس میں"ع" کا استعمال ہوتا ہو۔ اسی لیے لغت میں اس کے ساتھ چھوٹی"ہ"، "ف" اور"ع" کی علامتیں لکھی ہوئی ہیں، یعنی یہ ہندی، فارسی اور عربی تینوں میں استعمال ہوتا ہے۔ اس سے ہم اپنی زبان کے لِسانی رشتوں کا پتہ چلا سکتے ہیں۔ محاورہ زبان کی قدامت کو بھی ظاہر کرتا ہے۔ اِس اعتبار سے زبان کے سماجی رشتوں اور لسانی رابطوں کی تفہیم میں محاورہ یہ کہیے کہ غیر معمولی طور پر معاون ہوتا ہے۔
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
اِشتعال دینا یا اِشتعالک پیدا کرنا
غصّہ دلانے کو کہا جاتا ہے۔ لیکن لفظِ اشتعال عربی ہے اور اسی طرف اشارہ کرتا ہے کہ یہ محاورہ ہم نے عربی سے اخذ کیا ہے۔ ہمارے سماجی عمل میں بھی یہ استعارہ شریک ہے۔ جان جان کر بھی ہم دوسروں کو Teaseکرتے ہیں اور ان کو غصہ دلاتے ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ محاورہ صرف لغت کی شے ہی نہیں ہے۔ اس کا رشتہ سماجی لسانیات سے ہے اور زبان کو ایک خاص سطح پر پیش کرنے اور سامنے لانے میں محاورہ جگہ جگہ اور معنی بہ معنی ایک خاص کردار ادا کرتا نظر آتا ہے۔ ۔ اس سے کسی بھی معاشرے کے داخلی عمل، فکری رویّے اور معاملاتی اندازِ نظر کو ہم زیادہ بہتر طور پر سمجھ سکتے ہیں۔ مثلاً"اشنان دھیان" ہندو معاشرے کا ایک خاص اندازِ عبادت ہے کہ وہ اشنان کرتے ہیں تو گویا سورج کو جل چڑھاتے ہیں۔ آفتاب پرستی قوموں کا بہت قدیم مذہب ہے اور اِس آفتاب پرستی کا پانی سے گہرا رشتہ ہے۔ اسی لیے اشنان کے وقت بھی سورج کا جل چڑھایا جاتا ہے۔
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
آفت توڑنا
آفت کے معنی مصیبت، سانحہ اور شدید پریشانی کے ہیں۔ آدمی کی زندگی میں اس طرح کے تکلیف دہ موقعے آتے رہتے ہیں کہ وہ اچانک کسی پریشانی میں مبتلا ہو جاتا ہے یا کسی دکھ کا سامنا کرنے پر مجبور ہوتا ہے۔ یہ دکھ زیادہ تر جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ وقت کی دین ہوتے ہیں مگر اس میں انسان ہمارے عزیز رشتے دار، پڑوسی، ساتھ کام کرنے والے شریک رہتے ہیں۔ انہیں کی وجہ سے یہ ہوتا بھی ہے۔ اب وہ اپنے ہوں یا غیر، وہی مصیبت کا باعث ہوتے ہیں۔ کچھ لوگ"آفت ڈھاتے ہیں"، کچھ لوگ"آفت اُٹھاتے ہیں"، کچھ لوگ"آفت توڑتے ہیں"۔ کچھ لوگ اس کی وجہ سے یا کسی اچانک حادثے کے باعث"آفت رسیدہ" ہوتے ہیں، جنھیں"آفت زدہ" یا"آفت کا مارا" کہتے ہیں۔
ہمارے ہاں شاعر اپنے آپ کو سب سے زیادہ آفت زدہ یا آفت رسیدہ خیال کرتا ہے۔ اس میں غم جانا بھی شامل رہتا ہے غم جان اور بھی۔ جہان آفت خود ایسا لفظ ہے جو تہذیبی رشتوں پر روشنی ڈالتا ہے۔ اصل میں یہ لفظ"آپتی" ہے جو سنسکرت لفظ ہے۔ وہاں سے ہندوی بھاشاؤں میں آیا ہے اور فارسی میں"پ" کے بجائے"ف" آ گئی اور تشدید غائب ہو گیا اُردو نے بھی اسے فارسی انداز کے ساتھ قبول کیا جس کے ذریعے ہم زبانوں کے باہمی رشتوں کو بھی سمجھ سکتے ہیں۔ ذہنوں اور زمانوں کے آپسی لین دین کو بھی۔
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
آفت کا پرکالہ (لپکتا ہوا شعلہ)
غیر معمولی طور سے ذہین اور شرارت پسند آدمی کو آفت کا" پرکالہ" کہتے ہیں۔ آفت کا ٹکڑا بھی اسی ذیل میں آتا ہے۔ ایک اور محاورہ آفت کی چھٹی ہے۔ چھٹی خط کو کہتے ہیں۔ اب سے کچھ زمانہ پہلے تک ڈاکیہ کو چھٹی رساں کہتے تھے۔ یعنی خط پہنچانے والا۔ چھٹی رساں کا لفظ بھی ایک ایسی ترکیب پر مشتمل تھا جس میں ایک لفظ ہندی اور دوسرا فارسی تھا۔ آفت کی چھٹی بھی اسی طرح کاترکیبی لفظ ہے جس سے ہماری زبان کی ساخت اور پرداخت کا علم ہوتا ہے۔ خط آنے پر ہمارے قصبوں اور خاص طور پر دیہات کے لوگوں میں ایک طرح کی کھلبلی سی مچ جاتی تھی۔ کہاں سے آیا ہے؟ کس نے لکھا ہے؟ کیا لکھا ہے؟ اور پھر یہ کہ اسے کون پڑھ کر سنائے؟ چٹھی میں کوئی بہت خوشی یا غم کی بات ہوتی تھی تو اسے آفت کی چٹھی سمجھا جاتا ہے۔ اب یہ رو یہ اگر محفوظ ہیں تو ہمارے اِن محاورات میں جو معاشرتی مطالعے کی کنجیاں کہہ جا سکتے ہیں۔
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
افرا تفری
یہ عربی لفظ ہے، اَفراط اور تفریط، یعنی بہت زیادہ اور بہت کم۔ ظاہر ہے کہ اس صورت میں توازن بگڑتا ہے اور چاہے وہ معاملات ہوں، مسائل ہوں، مشغولیتیں ہوں یا مصروفیات ہوں، تناسب اور توازن کے بغیر اُن کا حُسن اور اُن سے وابستہ بھلائی اور عظمت قائم نہیں رہتی اور ایک بے تکا پن پیدا ہو جاتا ہے۔ اُردو والوں نے اسی کو ایک نئے محاورے میں بدل دیا۔ اس کے تلفظ اور املا کو بھی نئی صورت دی اور اس کے معنی میں نئی جہت پیدا کی۔ اب افراتفری کے معنی ہیں گڑبڑ بھگدڑ چھینا جھپٹی اور بے ہنگم پن۔ یہی بات سماج میں خرابی کا باعث ہوتی ہے اور اُس کی قوت کو کمزوری اور خوبی کو خرابی میں بدلتی ہے۔ اس معنی میں اس مفہوم کا رشتہ انفرادی عمل سے بھی قائم ہوتا ہے اور اجتماعی اعمال سے بھی جو ہماری معاشرتی کارکردگی کی دائرے میں آتا ہے۔
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
افلاطون ہونا، افلاطون بننا
اَفلاطون قدیم یونان کا ایک بہت بڑا فلسفی، طبیب اور دانشور تھا۔ ارسطو اسی کا شاگرد تھا۔ افلاطونی نظریات یونانی فلسفے پر بہت اثرانداز ہوئے ہیں اور ارسطو نے اپنی تنقیدوں سے اُن کو نئی قوت اور وسعت بخشی ہے۔ اب یہ عجیب اتفاق ہے کہ ہماری زبان کے محاورے میں اَفلاطون کی عظمت کا تصور بدل گیا ہے اور ایسے لوگوں کے لیے یہ محاورہ استعمال ہونے لگا ہے جو خواہ مخواہ اپنے اوپر مغرور ہوں اور اپنی معاشرتی زندگی میں اس کا موقع بہ موقع اظہار کرتے رہتے ہوں۔ اسی لئے اَفلاطون کا سالہ اور افلاطون کا ناتی بھی محاورے میں شامل ہوئے۔ اُس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ہم نے کس طرح دوسرے ملکوں کے کرداروں کو اپنے یہاں جگہ دی اور اُن کی شخصیت کو اپنی طرف سے نئے معنی پہنائے۔
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
افواہ پھیلانا، افواہ اُڑانا
افواہ جھوٹی سچی باتوں کو کہتے ہیں۔ عام آدمی کو کسی بات میں اِس رشتے سے دلچسپی نہیں ہوتی کہ وہ بات سچی ہے یا جھوٹی غلط ہے یا صحیح مناسب ہے یا غیر مناسب وہ تو باتوں کو پھیلاتا اور ان سے اپنی دلچسپیوں کا اظہار کرتا ہے۔ غالب نے تو دہلی کے لوگوں کی ایسی باتوں کا ذکر کرتے ہوئے یہ بھی کہا تھا کہ دہلی کے خبر تراشوں کا جیسا کہ دستور ہے انہوں نے اپنی طرف سے خبر اُڑا دی۔ اسی خبر اڑانے کو افواہ اڑانا کہتے ہیں۔ اس سے ہمارے معاشرے کے مزاج اور خواہ مخواہ کی باتوں سے دلچسپی کا پتہ چلتا ہے۔ مصرعہ ہے۔ اسی انداز کی ایک بات ہے۔
اڑتی سی اک خبر ہے زبانی طیور کی
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
آکھ کی بڑھیا
"آکھی" ایک خاص طرح کا پودا ہوتا ہے جسے آک بھی کہتے ہیں۔ یہ پودا گرمی کی شدید اداؤں میں پروان چڑھتا ہے اور اُس کے پتے اور پھُول بہت تر و تازہ ہوتے ہیں۔ اس کے بیج کچھ اس طرح ہوتے ہیں کہ وہ ایک ہرے خول میں بند رہتے ہیں۔ جب وہ خول کھُلتا ہے تو چھوٹے چھوٹے بیج بالوں جیسے بہت سارے ریشوں کے درمیان ہوتا ہے جو ہوا میں اڑتے پھرتے ہیں۔ انہیں بچے پکڑتے ہیں اور پھر اپنی پھونک سے اڑا دیتے ہیں۔ ان بالوں کو اور بیج کو آک کی بڑھیا کہتے ہیں یعنی سفید بالوں والی بُڑھیا جو اڑتی پھرتی ہے۔ ایسی ہی ایک مشین بھی ہے جس میں شکر سے سفید سفید بالوں جیسا ایک گچھا پیدا ہوتا ہے۔ اسے سمیٹ لیتے ہیں۔ وہ بھی بڑھیا کے بال کہلاتے ہیں۔ یہ محاورہ جو مشینی دور تک آگیا اس بات کی علامت ہے کہ ہمارے معاشرے میں بوڑھی عورت اپنے سفید بالوں کے ساتھ بچوں اور بڑوں کو کسی نہ کسی خاص معنی میں متاثر کرتی ہے۔ کہانیوں میں بھی اکثر بوڑھی عورتوں کا ذکر آتا ہے مگر شفقت و محبت کے ساتھ نہیں ایک طرح مکاری کے ساتھ۔
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
اُکھاڑ پچھاڑ
اکھاڑنا بھی بیشتر اچھے معنی میں نہیں آتا، جیسے اُس کو اکھاڑ دیا گیا، وہ اکھڑ گیا، اس کی جڑ اکھڑ گئی، جڑ بنیاد اکھاڑ کر پھینک دی گئی۔ یہ سب ایک طرح کے سماجی عمل ہیں اور اُن میں فرد یا جماعت کا ایسا عمل شامل ہے جو ذاتی طور پر یا جماعتی طور پر نقصان دینے والا ہو۔ یہی صورت پچھاڑ کی ہے۔ پچھڑ جانا، پچھاڑ کھانا، پچھاڑ دینا شکست دینے کے معنی میں آتا ہے یا پھر اس میں بے چینی اور ناکامی کا مفہوم شامل رہتا ہے۔
یہاں اکھاڑ پچھاڑ انہیں مطالب کا جامعہ ہے اور اس کے ساتھ کہا جاتا ہے کہ بہت اکھاڑ پچھاڑ کی یا اکھاڑ پچھاڑ کھائی۔ اکھاڑ پچھاڑ مچانا بھی اسی دائرہ میں شامل ہے۔ پہلے زمانہ میں جب جھڑپیں ہوتی تھیں، لوٹ مار ہوتی تھی۔ اسی کو اکھاڑ پچھاڑ بھی کہتے تھے۔ اکھاڑ پچھاڑ مچانا اسی طرح کا عمل ہے۔ فتنہ فساد برپا کرنے والوں کو بھی اکھاڑ پچھاڑ مچانے والا کہتے تھے۔ خاندانی جھگڑے جب بڑھ جاتے تھے تو وہ بھی ایک طرح کی اکھاڑ پچھاڑ تھی جس کے ذمہ دار خاندان ہی کے لوگ ہوتے تھے۔
یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ یہ محاورہ بھی ایسے محاورات میں سے ہے جو سماج کی فطرت انسانی ذہنی روش اور سماجی، معاشرتی اور خاندانی تنظیم کو بگاڑ دینے کا عمل اس میں شامل ہے۔
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
اُکھڑی اُکھڑی باتیں کرنا
جما، جما کر باتیں کرنا ایک طرح کا سماجی عمل بھی ہے اور شخصی عادت بھی۔ اس کے مقابلے میں اکھڑی اکھڑی باتیں کرنا آتا ہے، یعنی باتوں کو بے دلی سے کرنا۔ کٹے پھٹے جملے اور بے ربط فقرے استعمال کرنا یہ ذہنی رو یہ سماجی نفسیات کا حصّہ ہوتا ہے۔ آدمی جب بیزار ہوتا ہے، بات نہیں کرنا چاہتا تو خواہ مخواہ کی بے تکی باتیں کرتا ہے، بے ربط اور بے موقع سوال و جواب کرتا ہے۔ وہی تو اکھڑی اکھڑی باتیں ہیں۔ ہمارے یہاں اس طرح کا عمل طرح طرح سے سامنے آتا ہے۔ ہم کسی بات پر توجہ دینا نہیں چاہتے، سننا نہیں چاہتے، بات کو ڈھنگ سے کہنا نہیں پسند کرتے، ٹلا دینا چاہتے ہیں، تو یہ رو یہ اختیار کرتے ہیں۔
 
Top