• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

ارسال الیدین بعد الرکوع

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
بسم الله الرحمن الرحيم​
ارسال الیدین بعد الرکوع

مجتہد العصر حافظ عبداللہ محدث روپڑی ؒ​

حافظ و محدث عبداللہ روپڑی رحمہ اللہ کمیر پور امر تسر میں 1304ہجری کو پیدا ہوئے۔ 1964عیسوی لاہور میں وفات پائی۔
حافظ عبداللہ غازی پوری اور امام سید عبدالجبار غزنوی سے کسب فیض کیا۔ بڑے صاحب فہم و بصیرت اور زیرک عالم دین تھے۔ ان کے فضل و کمال علمی کا بڑے بڑے اھل علم نے شباب میں اعتراف کیا تھا۔ نہایت مصلح و متقی عالم باعمل تھے۔ زندگی بھر صوم وصلاة پر کار بند رہے۔
ان کے تلامذہ میں سید بدیع الدین شاہ راشدی ،شیخ عبدالرحمن افریقی بانی مدرسہ دارلحدیث مدینہ منورہ ،مولانا عبدالجبار کھنڈیلوی، مولانا عبدالقادر عارف حصاری ، حافظ عبدالقادر روپڑی، حافظ محمد اسمعیل روپڑی، مولانا محمد صدیق سرگودھوی( رحمۃ اللہ علیہم ) ، حافظ ثناء اللہ مدنی صاحب فتاویٰ ثنائیہ مدنیہ ، حافظ مقبول احمد اور مولانا عبدالسلام کیلانی جیسے فاضل علماء قابل ذکر ہیں۔
تصنیفات:
محدث روپڑی رحمہ اللہ نے مختلف موضوعات پر متعدد کتب اور رسالہ جات تصنیف کئے ہیں۔ جن میں سے چند ایک درج ذیل ہیں۔
الکتاب المستطاب، ارشادالوریٰ فی التجمیع فی القریٰ، درایت تفسیری، رد بدعات، امامت مشرک، رسالہ وسیلہ بزرگان، مودودیت اور احادیث نبویہ، رفع الیدین ،ارسال الیدین بعد الرکوع، دعا بحرمت انبیاء،اسلام اور مرزائیت ،سماع موتی، شرکیہ دم جھاڑ، رؤیت ہلال، اہلحدیث کے امتیازی مسائل وغیرہ۔
زیر نظر رسالہ’’ ارسال الیدین بعد الرکوع‘‘ شیخ سے 1962یا 1960 عیسوی میں کئے گئے ایک سوال ( استفتاء) کا جواب ہے۔ جو کتابی شکل میں کبھی شائع ہوا تھا۔ رسالہ کا انداز انتہائی علمی ہے۔بیان بھی انتہائی دھیما و سہل ہے۔ محدث روپڑی رحمہ اللہ نے اپنے موضوع کو خوب نبھایا ہے۔ فجزاہ اللہ خیر الجزاء
ادارہ اشاعت قرآن و حدیث پاکستان (اور اب محدث فورم ) اعتدالی مؤقف کے حامل اس رسالہ کو مختصر حک و حذف کے بعد شائع کرنے کی سعادت حاصل کر رہا ہے۔ اللہ تعالیٰ ادارہ کے معاونین و منتظمین کی اس کاوش کو قبول و منظور فرما کر ذخیرہ آخرت بنائے۔ اور اس رسالہ کو عوام و خواص کے لئے رہنمائی کا باعث بنائے ۔آمین۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
بسم الله الرحمن الرحيم​
الجواب بعون الوهاب وهو الموفق للصواب

انسان کے وجود میں اصل دل ہے۔ کیوں کہ انسانی معلومات کا ذخیرہ اسی میں ہے۔ مگر ان میں تصرف کرنے والی اور ان کو ادا کرنے والی زبان ہے۔
اسی بناء پر عبادات کی تین قسمیں کی جاتی ہیں۔ زبانی، بدنی، مالی۔ چنانچہ’’التحیات للہ والصلوۃ والطیبات‘‘ کا یہی معنی کرتے ہیں ۔ لیکن در حقیقت دو قسمیں ہیں۔بدنی اور مالی، کیوں کہ زبان بھی بدن ہی کا ایک جزو ہے۔ مالی عبادت اللہ کے حکم کے موافق مال کمانا اور اس کی رضا کے لئے خرچ کرنا۔ خواہ اپنے اوپر خرچ کرے یا دوسروں پر۔ اور بدنی عبادت اللہ کی رضا کے لئے بدن کو اور اعضاء کو ٹھہرانا یا حرکت دینا ان میں طبعی امور بھی شامل ہیں۔
مثلاً خود کھائے یا بیوی بچوں کو کھلائے۔ یہ طبعی چیزیں ہیں، مگر جب شریعت کے دائرے کے اندر ہوں اور خدائی حکم سمجھ کر کرے تو مالی عبادت ہے۔ اسی بنا پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا’’بیوی کے منہ میں جو تو لقمہ ڈالتا ہے وہ بھی صدقہ ہے‘‘۔ اسی طرح بدن اور اعضاء کے ساتھ جو کچھ کرے وہ بدنی عبادت ہے۔ یہاں تک کہ بیوی کے ساتھ ہم بستری کرنے کو بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نیکی فرمایا ہے اور وجہ یہ بیان فرمائی ہے کہ اگر یہی خواہش غیرمحل میں پوری کرتا جہاں شریعت کی اجازت نہیں تو گناہ ہوتا پس شریعت کے تحت خواہش پوری کرنا نیکی ہوگی۔
اس تمہید کے بعد اب نماز کو لیجئے۔ یہ بدنی عبادت میں سے دین کا ستون ہے۔ اور حرکات و سکنات کا نام ہے۔ خواہ حرکات و سکنات طبعی ہوں، یا غیر طبعی۔ مثلاً اللہ تعالیٰ نے سر کو اونچا بنایا ہے خواہ انسان کھڑا ہو یا بیٹھا۔
اب رکوع کے لئے یا سجدہ کے لئے سر جھکانا یہ اس کی غیر طبعی حرکت ہوگی ، اور رکوع میں اور سجدہ میں ٹھہرائے رکھنا یہ اس کا غیر طبعی سکون ہوگا۔ اس کے مقابلہ میں اس کو بلند کرنا اور بلندی کی حالت پر چھوڑ دینا یہ اس کی طبعی (یہاں طبعی سے مراد طبعی حالت کی طرف لوٹنا ہے۔ خواہ حرکت ارادے سے ہو) حرکت اور طبعی سکون ہوگا۔اسی طرح ہاتھ باندھنا اور باندھے رکھنا یہ غیر طبعی حرکت اور سکون ہوگا۔ اور چھوڑ دینا اور چھوڑے رہنا یہ طبعی حرکت اور طبعی سکون ہوگا۔
جب یہ بات سمجھ میں آگئی تو اب ایک اصول مسلمہ یاد رکھیئے۔
وہ یہ کہ جس عضو کے متعلق کسی موقعہ پر کوئی ہدایت ہو تو اس کا ہدایت کے تحت رہنا عبادت ہے اور جہاں کوئی ہدایت نہیں وہاں طبعی حالت ہی عبادت ہے۔ کیوں کہ ہر شے اپنی طبعی حالت پر رہتی ہے۔ جب تک وہاں سے ہٹانے کا کوئی سبب نہ ہو۔ اور شریعت میں وہاں سے ہٹانے والی شے اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے۔
پس اگر کوئی شرعی دلیل ہوگی تو اس کو وہاں سے ہٹا دیا جائے گا ورنہ اپنی حالت پر رہے گا۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
نتیجہ یہ کہ ہاتھ باندھنا چونکہ غیر طبعی ہے۔ اس کے لئے ثبوت کی ضرورت ہے ،نہ کہ چھوڑنے کے لئے ۔ کیوں کہ چھوڑنا طبعی ہے، اس بنا پر ہم نے بعد رکوع ہاتھ باندھنے کے ثبوت میں بہت غور و خوض کیا۔ جب کامیابی نہ ہوئی تو اپنی کتاب’’تعلیم الصلوٰۃ‘‘ میں اور اپنے فتووں میں بھی لکھا کہ رکوع کے بعد ہاتھ چھوڑ دینے چاہئیں ۔ بعض احباب نے اس کی دلیل پوچھی تو ان کو یہی جواب دیا گیا کہ اس کو دلیل کی ضرورت نہیں ( جس طرح اذان سے قبل صلاۃ وسلام اور دیگر بدعات کے موجدین سے ان کے عمل پر دلیل طلب کی جاتی ہے۔ اسی طرح رکوع کے بعد ہاتھ باندھنے والوں سے دلیل کا مطالبہ ہوگا نہ کہ نہ باندھنے والوں سے۔ فافھم) کیوں کہ یہ طبعی امر ہے۔ یا دوسرے لفظوں میں یوں سمجھئے کہ
شارع کو علم ہے کہ طبعی ہے اور یہ بھی علم ہے کہ طبعی اپنی جگہ سے ہٹائے بغیر نہیں ہٹتا باوجود اس کے شارع کا اس سے سکوت فرمانا، اور ہٹانے کی ہدایت نہ فرمانا۔ یہی اس کی دلیل ہے۔
اس کے علاوہ یہ اصول مسلم ہے کہ’’ السکوت فی معرض البیانبیان‘‘ یعنی جہاں بیان کی ضرورت ہو وہاں سکوت ہی بیان ہے اور اسی بنا پر حدیث کی
تین قسمیں مشہور ہیں۔قولی، فعلی، تقریری۔ قولی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان اور فعلی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل اور تقریری کسی کام پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا سکوت یا زمانہ وحی میں کسی کام کا ہونا اور برقرار رہنا(شرح نخبہ وغیرہ) پس اس اصول کی بنا پر بھی رکوع کے بعد ہاتھ چھوڑنا اپنی جگہ مدلل ہے۔
پھر اس بارے میں صریح احادیث بھی ہیں۔ جیسے مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ کی حدیث، وائل بن حجر رضی اللہ عنہ کی حدیث اورسیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ و سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے آثار کا ذکرآئندہ صفحات پر آئے گا۔ ان شاء اللہ تعالیٰ
اب دلیل کی ضرورت صرف ہاتھ باندھنے کے لئے چاہیئے۔ فریق ثانی نے اس کے ثبوت میں رسائل بھی لکھے۔ مگر کوئی تسلی بخش دلیل پیش نہیں کر سکے۔ بڑی دلیل ان کی ایک حدیث ہے جو مسند احمد جلد ۴ صفحہ ۳۱۸ پر ہے۔ معہ اسناد درج ذیل ہے:
’’حدثنا عبداللہ حدثنی ابی حدثنا عبداللہ ابن الولید حدثنی سفیان عن عاصم بن کلیب عن ابیہ عن وائل ابن حجر قال رأیت النبی صلی اللہ علیہ وسلم حین کبر رفع یدیہ حذآء اذنیہ ثم حین رکع ثم حین قال سمع اللہ لمن حمدہ رفع یدیہ ورأیتہ ممسکاً یمینہ علی شمالہ فی الصلوٰۃ فلما جلس حلق بالوسطیٰ والابھام واشار بالسبابۃ ووضع یدہ الیمنی علی فخذہ الیمنی ووضع یدہ الیسری علی فخذہ الیسری‘‘
ترجمہ:’’ سیدنا وائل بن حجر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا ،جب تکبیر کہی تو دونوں ہاتھ اپنے کانوں کے برابر اٹھائے۔ پھر جب رکوع کیا پھر جب سمع اللہ لمن حمدہ کہا، تو اپنے دونوں ہاتھ اٹھائے اور میں نے آپ کو دیکھا کہ آپ دائیں ہاتھ کو بائیں ہاتھ پر نماز میں تھامے (باندھے) ہوئے ہیں۔ پس جب آپ بیٹھ گئے تو درمیانی انگلی اور انگوٹھے کا حلقہ بنایا اور سبابہ کے ساتھ اشارہ کیا اور دائیں ہاتھ کو دائیں ران پر رکھا، اور بائیں ہاتھ کو بائیں ران پر رکھا‘‘
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
اس حدیث میں ہاتھ باندھنے کا ذکر’’ سمع اللہ لمن حمدہ‘‘ کے بعد ہے۔ اس سے فریق ثانی استدلال کرتا ہے کہ رکوع کے بعد ہاتھ باندھنے چاہئیں۔ لیکن وہ اس بات پر غور نہیں کرتے کہ یہاں’’رأیتہ‘‘ ( میں نے آپ کو دیکھا) سے پہلے حرف واؤ ہے، اور حرف واؤ میں ترتیب ضروری نہیں۔ بلکہ پہلی چیز کو بعد بھی ذکر کر دیتے ہیں۔ چنانچہ اسی حدیث میں سبابہ انگلی کے ساتھ اشارہ کرنے کے بعد ذکر ہے کہ دایاں ہاتھ دائیں ران پر رکھا اور بایاں بائیں پر۔ حالانکہ ہاتھوں کا رانوں پر رکھنا سباب کے ساتھ اشارہ کرنے سے پہلے ہے۔ تو اس کی وجہ یہی ہے کہ واؤ ترتیب کو نہیں چاہتی۔
نیز بخاری شریف جلدی اول صفحہ ۳۹ باب الوضوء قبل الغسل میں ہے:
’’عن میمونۃ زوج النبی صلی اللہ علیہ وسلم قالت توضأ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وضوء ہ للصلٰوۃ غیر رجلیہ وغسل فرجہ وما اصابہ من الاذی ثم افاض علیہ المآء ثم نحی رجلیہ فغسلھما ھذہ غسلہ من الجنابۃ‘‘
ترجمہ:’’ سیدہ میمونہ رضی اللہ عنہابیوی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز کی طرح وضو کیا، سوائے پاؤں اپنے کے اور دھوئی اپنی شرمگاہ۔ اور جو کچھ پہنچا تھا، آپ کو نجاست سے۔ پھر اپنے اوپر پانی بہایا ،پھر اپنے پائوں( اس جگہ سے) علیحدہ کیے پس ان کو دھویا۔ یہ آپ کاغسل ہے جنابت سے‘‘
اس حدیث میں وضو کا پہلے ذکر ہے اور استنجا اور پلیدی دھونے کا ذکر بعد میں ہے۔ حالانکہ استنجا وضو سے پہلے ہوتا ہے۔ اس سے صاف معلوم ہوا کہ وائو میں تقدم و تاخر ہوجاتا ہے پھر قرآن مجید میں بھی ایسی مثالیں بہت ہیں۔
چنانچہ تیسرے پارہ رکوع نمبر ۱۲ میں ہے:
’’یمریم اقنتی لربک واسجدی وارکعی مع الراکعین‘‘
ترجمہ: ’’ اے مریم! اپنے رب کے لئے قیام اور سجدہ کر اور رکوع کر ساتھ رکوع کرنے والوں کے‘‘
اس آیت میں قیام کے بعد سجدہ کا ذکر کیا ہے۔ حالانکہ رکوع سجدہ سے پہلے ہوتا ہے۔ لیکن چونکہ وائو کے ساتھ ذکر ہوا ہے اس لئے کوئی حرج نہیں اور دوسرے پارہ رکوع ۸ میں ہے ’’واتمواالحج والعمرۃ للہ‘‘ یعنی حج اور عمرے کو اللہ کے لئے پورا کرو۔ اس آیت میں عمرے کا ذکر پیچھے ہے۔
حالانکہ عمرہ بالاتفاق پہلے جائز ہے، بلکہ بہت ’’ اہل حدیث ‘‘ کے نزدیک افضل یہ ہے کہ حج تمتع کرے اور حج تمتع میں عمرہ پہلے ہوتا ہے ۔
اسی طرح پہلے پارہ رکوع ۸ میں گائے ذبح کرنے کا ذکر کیا ہے جس کا سبب واقعہ قتل تھا۔ لیکن گائے ذبح کرنے کا بیان پہلے ہے اور واقعہ قتل کا ذکر پیچھے ہے۔ چنانچہ گائے ذبح کرنے کا ذکر کر کے فرمایا:
’’واذ قتلتم نفسا فادارأتم فیھا‘‘
ترجمہ:’’یعنی جب تم نے ایک جان کو قتل کیا پس اس میں تم نے اختلاف کیا‘‘
لیکن چونکہ واؤ کے ساتھ ذکر ہے اس لئے پیچھے ذکر کرنے میں کوئی حرج نہیں۔
نوٹ:
امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کا مذہب اس مسئلہ میں یہ ہے کہ رکوع کے بعد ہاتھ چھوڑنا اور باندھنا دونوں طرح جائز ہے (امام احمد رحمہ اللہ یہ اختیار اسی وقت دے سکتے ہیں جبکہ ان کے نزدیک وضع(باندھنا) اور ارسال( نہ باندھنا) دونوں ہی پر واضح دلیل نہ ہو۔ )
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
شرح الزادالمستقنع میں ہے:
’’اذا رفع المصلی من الرکوع فان شاء وضع یمینہ علی شمالہ او ارسلھما‘‘
ترجمہ: ’’یعنی پھر رکوع سے سر اٹھانے کے بعد اگر چاہے دائیں کو بائیں ہاتھ پر رکھے یا دونوں جانب دونوں کو لٹکائے۔
کشاف القناع عن متن الاقناع جلد اول صفحہ ۱۳۱ میں ہے:
(’’ثم ان شاء ارسل یدیہ)من غیر وضع احدٰھما علی الاخریٰ(وان شاء وضع یمینہ علی شمالہ نصا) ای نص احمد علی تخییرہ بینھما انتھٰی‘‘
یعنی (پھر رکوع سے سر اٹھانے کے بعد) اگر چاہے دونوں ہاتھ اپنے لٹکائے بغیر اس کے کہ رکھے، ایک ان دونوں کا اوپر دوسرے کے اور اگر چاہے رکھے دائیں کو اوپر بائیں کے۔ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ نے اس کی صراحت کی ہے‘‘
اس کے علاوہ اور سنیے۔
شرح منتھی الارادات فی جمع المقنع مع التنقیح والزیادات جلد اول صفحہ ۱۸۹ میں ہے:
’’(ثم) بعد رفع من الرکوع ان شاء وضع یمینہ علی شمالہ او ارسلھما)بجانبیہ فیخیر نصاً‘‘
’’یعنی پھر رکوع سے سر اٹھانے کے بعد اگر چاہے دائیں کو بائیں ہاتھ پر رکھے، یا اپنی دونوں جانب دونوں ہاتھوں کو لٹکائے۔ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ نے دونوں باتوں کے اختیار ہونے کی صراحت کی ہے‘‘
قارئین کرام کو جب معلوم ہوگیا کہ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کے مذہب میں دونوں باتوں کا اختیار ہے اور یہ بھی قارئین کرام کو معلوم ہو چکا کہ حدیث مذکور جس سے فریق ثانی کا استدلال ہے ،یہ مسند امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کی ہے۔
تو اگر واؤ اس میں ترتیب کے لئے ہوتی تو امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کا مذہب صرف رکوع کے بعد ہاتھ باندھنا ہوتا لیکن امام احمد رحمہ اللہ کے مذہب میں دونوں باتوں کا اختیار ہے۔
اس سے صاف معلوم ہوا کہ امام احمدؒ نے بھی اس واؤ کو ترتیب کے لئے قرار نہیں دیا۔
پھر ایک اور عجیب بات ہے کہ امام احمد رحمہ اللہ کا یہ مذہب خود مولوی یوسف حسین نے’’ اتمام الخشوع ‘‘ کے صفحہ ۳۷ پر اور شاہ بدیع الدین نے اپنے رسالہ کے صفحہ ۱۵ پر ذکر کیا ہے۔ لیکن باوجود اس کے مسند احمد کی حدیث مذکورہ کو اپنے دلائل میں پیش کیا ہے۔ بلکہ شاہ بدیع الدین نے مسند احمد کی ایک اور حدیث بھی پیش کی ہے۔ جس کا ذکر آگے آئے گا۔
اسی طرح مصنف اتمام الخشوع نے بھی ایک اور حدیث سدل کی پیش کی ہے جس کا ذکر بھی آئیندہ صفحات میں آئے گا،ان شاء اللہ تعالیٰ۔ لیکن یہ نہیں سوچاکہ یہ حدیثیں اگر ہاتھ باندھنے کی دلیل ہوتی تو خود امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ (شیخ عبداللہ روپڑی رحمہ اللہ کی یہ بات نہایت ہی قابل غور ہے۔)ان حدیثوں کی مخالفت کیوں کرتے؟ مسائل دین میں ایسی بے پرواہی سے کام نہیں لینا چاہیئے، اور نہ ہی ہر ایک کا یہ مقام ہے کہ قلم برداشتہ فتویٰ لکھ دے۔ اللہ سے ڈرنا چاہیئے۔ قیامت کا دن مفتی کے لئے بڑا خطرناک ہے اللہ بچائے اور اپنا فضل و کرم کرے۔ آمین
شبہ:
اگر کہا جائے کہ وضو کے اعضاء کا دھونا اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں واؤ کے ساتھ ذکر کیا ہے۔ چنانچہ چھٹے پارے سورئہ مائدہ کے پہلے رکوع میں ہے:
’’فاغسلوا وجوھکم وایدیکم الی المرافق وامسحوا برؤسکم وارجلکم الی الکعبین‘‘
ترجمہ:’’ یعنی پس منہ دھوئو اور اپنے ہاتھ کہنیوں تک دھوئو اور سر کا مسح کرو اور پائوں ٹخنوں تک دھوئو‘‘
اگر واؤ ترتیب کے لئے نہ ہو تو اعضاء وضو کا اس ترتیب کے خلافدھونا جائز ہو جائے گا۔ جیسے حنفیہ کہتے ہیں کہ الٹا وضو بھی جائز ہے۔ مثلاً پاؤں سے شروع کرے اور منہ پر ختم کرے ،یہ وضو صحیح ہوگا۔
اس کا جواب یہ ہے کہ یہاں ترتیب واؤ سے نہیں سمجھی جاتی ، بلکہ اس کا قرینہ اور ہے، وہ یہ ہے کہ پاؤں کا ذکر سر کے بعد کیا ہے حالانکہ پاؤں دھوئے جاتے ہیں، اور سر پر مسح ہوتا ہے۔ سو چاہیئے تھا کہ پاؤں کا ذکر منہ کے ساتھ ہوتا۔ سر کو درمیان میں لانا یہ اس بات کی دلیل ہے کہ ترتیب ملحوظ ہے۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
پھر احادیث میں ہمیشہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا وضو جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سکھایا اور اسی طرح صحابہ رضی اللہ عنہم نے جو کیا اور سکھایا، سب میں یہی ترتیب ہے جو قرآن مجیدمیں ہے۔اس سے بھی ثابت ہوا کہ الٹا وضو جائز نہیں۔ خلاصہ یہ کہ واؤ ترتیب پر دلالت نہیں کرتی بلکہ ترتیب کا ثبوت کسی خارجی دلیل سے ہونا چاہیئے۔ پس اس سے ثابت ہوا کہ حدیث میں واؤ کے ساتھ ہاتھ باندھنے کا ذکر ہونا یہ اس بات کی دلیل نہیں کہ یہ رکوع کے بعد ہے۔ اب کسی اور دلیل سے اس کا فیصلہ ہونا چاہیئے کہ پہلے ہے یا بعد ہے۔
پس سنئے محدثین کا اصول ہے کہ’’ الا حادیث یفسر بعضھا بعضا‘‘یعنی احادیث آپس میں ایک دوسری کی تفسیر ہوتی ہیں (وائل بن حجر رضی اللہ عنہ کی تمام روایات کتب احادیث میں سے جمع کر لیں مع تراجم ابواب پھر دیکھیں کیا نتیجہ نکلتا ہے۔)اس اصول کی بناء پر عاصم بن کلیب کی اپنے باپ سے اور باپ کی وائل بن حجر سے روایات دیکھنی چاہیئں ،کہ ان میں ہاتھ باندھنے کا ذکر کس موقعہ پر کیا ہے۔ مسند امام احمد رحمہ اللہ میں عاصم بن کلیب کی روایت ہاتھ باندھنے کے متعلق چار جگہ ذکر کی گئی ہے۔
ایک یہ، تین جگہ اور ان تینوں جگہوں میں ہاتھ باندھنے کا ذکر رکوع سے پہلے۔ رکوع کے بعد نہیں، پس اس سے صاف معلوم ہوا کہ حدیث زیر بحث میں بھی یہی مراد ہے۔
اس کے علاوہ سیدنا علقمہ رضی اللہ عنہ نے بھی وائل بن حجر رضی اللہ عنہ سے ہاتھ باندھنے کے متعلق روایات ذکر کی ہیں۔ ان سب میں رکوع سے پہلے ہاتھ باندھنے کی صراحت ہے۔ پس حدیث مذکورہ سے (اگر ظاہری الفاظ سے استدلال جائز ہے( مطلقاً) تو پھر مسند احمد میں ایک حدیث میں یہ بھی ذکر ہوا ہے کہ صحابی کہتے ہیں میں نے نبی علیہ السلام کو دائیں بائیں( دونوں جانب) پھرتے دیکھا، اور دیکھا کہ آپﷺ ہاتھ باندھے ہوئے تھے سینے پر۔(مسند احمد) کیا نماز کے بعد بھی ہاتھ باندھے جائیں گے؟) استدلال قواعد محدثین کے مطابق نہیں۔
اس کے علاوہ اس حدیث کی اسناد میں بھی گفتگو ہے۔ اس میں دوراوی کچھ کمزور ہیں، ایک عبداللہ بن ولید، اس کے متعلق تقریب میں حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں ’’صدوق ربما اخطأ‘‘ یعنی سچا ہے کئی دفعہ غلطی کی ہے۔ دوسرا راوی عاصم بن کلیب ہے۔ یہ وہی عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی حدیث کا راوی ہے جس میں رکوع کے وقت رفع الیدین نہ کرنے کا ذکر ہے۔ تقریب میں اس کے متعلق لکھا ہے’’ صدوق رمی بالارجآئ‘‘ یعنی سچا ہے، مرجی ہونے کی ساتھ متہم ہے۔
اگرچہ یہ جرح ہلکی ہے، لیکن یکے بعد دیگرے دو راویوں کی تھوڑی کمزوری بھی کچھ طاقت پکڑ لیتی ہے۔ بہر صورت اس حدیث سے فریق ثانی کا استدلال ڈبل غلطی ہے۔ کیوں کہ باوجود اس کمزوری کے واؤ ترتیب پر دلالت نہیں کرتی۔ چنانچہ اوپر تفصیل ہو چکی ہے۔ یہ تو فریق ثانی کی بڑی دلیل کا جواب ہے۔ اب باقی دلائل کا حال سنئے، وہ صرف قیاسات یا محض اپنی رائے ہے۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
پہلی دلیل:
یہ کہ بعض احادیث میں مطلق آیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز میں ہاتھ ( اس حدیث کے اصل الفاظ ہیں’’ من اخلاق النبیین وضع الیمین علی الشمال فی الصلوٰۃ‘‘، اس قسم کی اور روایات بھی ہیں جن کی تفصیل آگے آئے گی۔ ان شاء اللہ)باندھے۔ اس سے فریق ثانی استدلال کرتا ہے کہ
رکوع کے بعد بھی ہاتھ باندھنے چاہئیں ۔کیوں کہ سجدے میں تو ہاتھ زمین پر ہوتے ہیں اور قعدے کے وقت ہاتھ رانوں پر ہوتے ہیں، اور رکوع میں گٹھنوں پرہوتے ہیں۔ باقی قیام رہا خواہ رکوع سے پہلے ہو یا بعد، پس اس میں ہاتھ باندھنے چاہئیں
لیکن فریق ثانی کا یہ استدلال بھی محدثین کے خلاف ہے۔ محدثین (ساری احادیث (ہاتھ باندھنے کی) مع الابواب جمع کر لیں محدثین کا فیصلہ سامنے آجائے گا۔ ان شاء اللہ)کا اصول ہے کہ’’ الاحادیث یفسر بعضھا بعضا‘‘ یعنی حدیثیں آپس میں ایک دوسری کی تفسیر ہوتی ہیں۔جب دوسری روایتوں میں موقعہ محل بتادیا اور وہ رکوع سے پہلے ہے تو پھر رکوع کے بعد اپنی طبعی حالت پر رہا۔ چنانچہ اوپر تفصیل ہو چکی ہے اور یہی وجہ ہے
کہ کسی محدث نے آج تک رکوع کے بعد ہاتھ باندھنے کا باب باندھ کر ان مطلق حدیثوں سے استدلال نہیں کیا۔ اگر یہ مطلق حدیثیں رکوع کے بعد کی حالت کو شامل ہوتیں تو کوئی نہ کوئی ضرور یہ باب باندھتا۔ کسی کا اس پر باب نہ باندھنا یہ زبردست دلیل ہے کہ محدثین کے نزدیک متفقہ طور پر وہی معنی ہیں جس پر دوسری احادیث دلالت کرتی ہیں۔
حدیثوں کا معنی اس طرح اپنے طور پر اپنی رائے سے کرنا ایسا ہی ہے جیسے قرآن مجید کا معنی اپنی رائے سے کرے، اور سلف کی پرواہ نہ کرے۔ اللہ تعالیٰ اس سے بچائے ۔ آمین
اس کے علاوہ جلسئہ استراحت میں اور سجدوں کے درمیان جس میں فریق ثانی کے خیال کے مطابق ران پر ہاتھ رکھنے کا ذکر نہیں ،تو وہاں بھی ان مطلق احادیث کی بنا پر ہاتھ باندھنے چاہئیں۔ حالانکہ یہ اجماع کے خلاف ہے ،پس حدیث کا معنی ایسا کرنا جو اجماع کے خلاف ہو یہ سراسر گمراہی ہے۔ اپنی رائے پر ایسا فریفتہ نہ ہونا چاہیئے کہ کسی کی پرواہ ہی نہ ہو۔ اسی چیز نے گمراہ فرقوں کو گمراہ کیا ہے۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
دوسری دلیل:
فریق ثانی نے یہ دی ہے کہ احادیث میں آیا ہے کہ
رکوع کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس طرح کھڑے ہوتے کہ ہر ہڈی یا ہر جوڑ اپنے ٹھکانے پر آجاتا۔ چونکہ رکوع سے پہلے ہاتھ باندھے ہوئے ہوتے ہیں اس لئے بعد میں بھی باندھنے چاہئیں ۔
اس استدلال میں بھی فریق ثانی نے حدیث کے الفاظ پر غور نہیں کیا۔ حدیث کے اصل الفاظ یہ ہیں:
’’اذا رفع رأسہ من الرکوع استوی حتی یعود کل فقار مکانہ‘‘(مشکوٰۃ باب صفۃ ا لصلوۃ فصل اول صفحہ ۷۵)
ترجمہ:’’ یعنی رکوع سے سر اٹھاتے تو اس طرح ٹھیک ہو کر کھڑے ہوتے کہ پیٹھ کا ہر مہرا اپنے ٹھکانے پرلوٹ آتا‘‘
اس عبارت میں ’’فقار‘‘کا لفظ ہے، اور فقار فقرہ کی جمع ہے۔ پیٹھ کے مہروں کو کہتے ہیں، اس میں ہاتھ شامل ہی نہیں۔ پس یہ دلیل نہ بنی،
دوسری جگہ مشکوٰۃ میں یہ الفاظ ہیں:
’’فاقم صلبک وارفع رأسک حتی ترجع العظام الے مفاصلھا‘‘ (تمام ہڈیاں اپنے جوڑوں کی طرف لوٹ جائیں۔ اس پر غور و فکر کی ضرورت ہے ۔کیوں کہ ہاتھوں کو اگر ہڈی بھی مان لیا جائے تو ان ہڈیوں کا سینے کی طرف کوئی جوڑ(مفصل) ہوتا ہی نہیں ہے۔ تو پھر اس سے ہاتھوں کا سینے کی طرف لوٹنا کس طرح مراد لیا جا سکتا ہے؟ نیز لوٹنا اور لوٹانا میں بھی فرق ہے۔ فافھم، اگر ہاتھ باندھیں گے تو گویا بالقصد لوٹایا ہے ،جبکہ فقط لوٹنے کا ذکر ہے۔) (مشکوٰۃ باب صفۃ الصلوۃ فصل دوم صفحہ ۷۶)
ترجمہ:’’ یعنی اپنی پیٹھ سیدھی کر، اور سر اٹھا یہاں تک کہ تمام ہڈیاں اپنے جوڑوں کی طرف لوٹ آئیں‘‘
اس عبارت میں اگر یہ دیکھا جائے کہ لفظ حتی غایت( انتھٰی) کے لئے ہے۔ اور مقصدپیٹھ سیدھی کرنے اور سر اٹھانے کی حد بتانا ہے۔ یعنی پیٹھ اتنی سیدھی ہو جائے اور سر اس قدر اونچا ہو جائے کہ ہر ہڈی اپنے جوڑ کی طرف لوٹ آئے۔ تو اس صورت میں ہڈیوں سے پیٹھ کی ہڈیاں مراد ہوں گی۔ کیوں کہ پیٹھ کے سیدھا کرنے اور سر اٹھانے میں انہیں کا دخل ہے۔
پس یہ عبارت اور پہلی عبارت ایک ہو گئیں۔ پس جیسے وہ دلیل نہیں یہ بھی دلیل نہ بنی۔ اور اگر لفظ’حتی‘ کو صرف ’’وارفع رأسک ‘‘ کی غایت بنایا جائے، اور معنی یوں کیے جائیں کہ سر اتنا اونچا کر کہ تمام ہڈیاں اپنے جوڑوں کی طرف لوٹ آئیں ، تو اس صورت میں ہاتھ بھی اس میں شامل ہو جائیں گے (ہاتھوں پر ہڈیوں کا لفظ احادیث میں آیا ہے، چنانچہ سات ہڈیوں پر سجدہ کرنے کا حکم ہے جن میں دو ہاتھ بھی ہیں) اور مطلب یہ ہوگا کہ ہاتھ بھی گٹھنوں پر نہ رہیں۔ بلکہ اپنے جوڑوں کی طرف لوٹیں اور اپنے جوڑوں کی طرف لوٹنا ان کا یہی ہے کہ جیسے پیٹھ کی ہڈیاں اپنی طبعی حالت پر ہوں گی، اسی طرح ہاتھ بھی طبعی حالت پر ہو جائیں اور قیام میں طبعی حالت ہاتھوں کا چھوڑنا ہے۔
پس یہ فریق ثانی کی دلیل تو کجا اس کا الٹ ہو گیا اور نسائی کی روایت میں ہے:
’’ثم رفع رأسہ فقام حتی استوی کل شیء منہ‘‘ (باب مواضع اصابع الیدین فی الرکوع صفحہ ۱۴۴)
ترجمہ:’’ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے( رکوع سے) اپنا سر اٹھایا ۔ پس کھڑے ہوئے یہاں تک کہ ہر چیز آپ کی ٹھیک ہوگئی‘‘
اس عبارت میں لفظ’کل شیئ‘ ہے۔یہ بھی اس بات کا مؤید ہے کہ ہڈیوں سے مراد عام ہے۔ جو ہاتھوں کو بھی شامل ہے۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
شبہ:
بعض نے اس پر شبہ کیا ہے کہ مسلم میں حدیث ہے جس کے شروع الفاظ یہ ہیں’اذا قام الی الصلوۃ اعتدل قائما‘ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز کی طرف کھڑے ہوتے تو سیدھے کھڑے ہوتے اور ابو دائود افتتاح الصلوۃ میں ابو حمید ساعدی کی حدیث ہے اس کے الفاظ یہ ہیں:
’’کان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اذا قام الی الصلوۃ یرفع یدیہ حتی یحاذی بھما منکبیہ ثم کبر حتی یقر کل عظم فی موضعہ معتدلا ثم یقرأ‘‘
ترجمہ:’’ یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز کی طرف کھڑے ہوتے تو اٹھاتے دونوں ہاتھ اپنے یہاں تک کہ برابر کرتے ان کو اپنے دونوں کندھوں کے۔ پھر اللہ اکبر کہتے۔ یہاں تک کہ ہر ہڈی ٹھیک اپنی جگہ پر ٹھہر جاتی ،پھر قرأت کرتے‘‘
پہلی حدیث میں قیام اول میں اعتدال کا لفظ آیا ہے، اور دوسری حدیث میں ہر ہڈی کا اپنے مقام میں ٹھہرنے کا ذکر ہے۔ تو اگر ہر ہڈی اپنے مقام میں ٹھہرنے سے مراد طبعی مقام ہو تو پھر قیام اول میں بھی ارسال چاہیئے۔
اس کا جواب یہ ہے کہ قیام اول میں ہاتھ اس سے مستثنیٰ ہیں۔ کیوں کہ دوسری احادیث میں ہاتھ باندھنے کا ذکر ہے۔ اسی لئے ہم کہتے ہیں کہ حدیث بعض بعض کی تفسیر ہوتی ہے۔ سب کو ملا کر مطلب لینا چاہیئے۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
تنبیہ:
صاحب رسالہ نے’’اتمام الخشوع‘‘ کے صفحہ۶ پر ہڈی کا اپنی جگہ لوٹنے کے متعلق لکھا ہے کہ’’شرع نے جو اس کا مقام مقرر کیا ہے وہ مراد ہے‘‘۔ حالانکہ یہ حدیث کی بالکل تحریف ہے۔ راوی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حالت کو بیان کر رہا ہے تاکہ معلوم ہو کہ یہ شرع ہے۔ شاگرد کو پہلے سے شرع کہاں معلوم ہے۔ اگر پہلے شرع معلوم ہوتی تو پھر یہ بیان ہی فضول ہے۔ اس کے علاوہ اعتدال کا لفظ بھی اس کے خلاف ہے۔ کیوں کہ اعتدال کی حالت کو راوی ہڈیوں کے رجوع کے ساتھ بیان کر رہا ہے، اور رجوع صیغہ لازم ہے، بظاہر اس کا مطلب یہی ہے کہ ہڈیاں خود جس طرف لوٹیں وہ مقام مراد ہے اور وہ طبعی ہے اور ہاتھ جس مقام پر باندھے جاتے ہیں وہ مقام ان کا طبعی نہیں بلکہ طبعی مقام ارسال کی صورت میں ہے۔
نیز بزار کی روایت میں یہ الفاظ ہیں:
’’ثم انحط ساجدا بمثل ذلک ثم رفع رأسہ بالتکبیر بیدیہ الی ان حاذتا بشحمۃ اذنیہ والی ان اعتدل فی قیامہ ورجع کل عظم الی موضعہ ثم صلی اربع رکعات یفعل فیھن ما فعل فی ھذہ‘‘
ترجمہ:’’ یعنی پھر سجدے کو اسی طرح گئے، یعنی تکبیر کہہ کر،پھر تکبیر کے ساتھ سر اٹھایا ہاتھوں سمیت یہاں تک کہ ہاتھ کانوں کی لو کے برابر ہو گئے اور یہاں تک سر اٹھایا ہاتھوں سمیت کہ آپ اپنے مقام میں اعتدال کی حالت پر ہو گئے اور ہر ہڈی اپنے ٹھکانے پر آگئی، پھر( اسی طرح) چار رکعت نماز پڑھی، ان میں بھی وہ ہی کرتے جو پہلی میں کیا‘‘
اس روایت میں ہاتھوں اور سر کا اٹھانا الگ بیان کیا، اور اعتدال کا بیان الگ کیا۔ اور اس کی تفسیر ہڈی کے رکوع کے ساتھ کی۔ اس سے معلوم ہوا کہ ہاتھوں کا اٹھانا اعتدال میں شامل نہیں، اور جب اٹھانا اعتدال میں شامل نہ ہوا تو باندھنا بھی شامل نہیں۔ کیوں کہ باندھنا بھی اٹھاکر ہوتا ہے۔ پس صحیح وہ ہی ہے جو ہم نے بیان کیا کہ ہاتھ اس سے مستثنیٰ ہیں۔
 
Top