• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

ارسال الیدین بعد الرکوع

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
تیسری دلیل:
فریق ثانی نے یہ ذکر کی ہے کہ دو سجدوں کے درمیان جلسہ کی کیفیت احادیث میں نہیں آئی کہ ہاتھ کہاں رکھے جائیں۔ اسی طرح دوسری رکعت اور تیسری رکعت کے لئے اٹھنے سے پہلے بھی جلسہ ہوتا ہے ، جس کو جلسہ استراحت کہتے ہیں۔ اس کی کیفیت بھی نہیں آئی۔ قعدہ (التحیات) پر قیاس کر کے ان دونوںجلسوں میں ہاتھ رانوں پر رکھے جاتے ہیں۔ پس اسی طرح قیام بعد الرکوع کو قیام قبل الرکوع پر قیاس کرنا چاہیئے۔
اس کے تین جواب ہیں۔
اول یہ کہ ان جلسوں میں رانوں پر ہاتھ رکھنے پر تعامل امت ہے۔ اس میں کسی کا اختلاف نہیں، پس اجماع ہو گیا۔ اور حدیث میں ہے’’لا تجتمع امتی علی الضلالۃ‘‘ یعنی میری امت گمراہی پر جمع نہیں ہوگی، اور قیام بعدالرکوع میں ہاتھ باندھنے پر تعامل امت نہیں ،پس قیاس صحیح نہ رہا۔
دوم: یہ کہ جلسوں میں ہاتھوں کے متعلق تین صورتیں ہیں۔ باندھنا، زمین پر رکھنا اور رانوں پر رکھنا۔ باندھنا طبعی حالت نہیں، پس اس کا ثبوت چاہیئے، جیسے شروع میں تفصیل ہو چکی ہے اور ثبوت اس کا کوئی نہیں اور زمین پر ہاتھ رکھنا یہ ہئیت میں مذموم ہے۔
چنانچہ حدیث ہے:
’’عن ابن عمر ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رأی رجلا ساقطا یدہ فی الصلوۃ فقال لا تجلس ھکذا انما ھذہ جلسةۃ الذین یعذبون‘‘ (مسند احمد جلد۲،صفحہ۱۱۶)
ترجمہ:’’ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو دیکھا کہ نماز کے(جلسہ) میں اس کا ہاتھ (زمین پر) پڑا ہے فرمایا: اس طرح نہ بیٹھ کیوں کہ یہ ان لوگوں کی بیٹھک ہے جن کو عذاب دیا جاتا ہے‘‘پس رانوں پر ہاتھ رکھنا متعین ہو گیا۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
تنبیہ:
جلسہ بین السجدتین کے لئے ایک علیحدہ حدیث بھی آئی ہے۔ جو مسند احمد جلد ۴ صفحہ ۳۱۷ میں ہے۔ اس کے الفاظ مع اسناد یہ ہیں:
’’حدثنا عبداللہ حدثنی ابی حدثنا عبدالر زاق اخبرنا سفیان عن عاصم بن کلیب عن ابیہ عن وائل بن حجر قال رأیت النبی صلی اللہ علیہ وسلم کبر فرفع یدیہ حین کبر یعنی استفتح الصلاةلصلاۃ ورفع یدیہ حین کبر ورفع یدیہ حین قال سمع اللہ لمن حمدہ وسجد فوضع یدیہ حذو اذنیہ ثم جلس فافترش رجلہ الیسریٰ ثم وضع یدہ الیسریٰ علی رکبتہ الیسریٰ ووضع ذراعہ الیمنیٰ علی فخذہ الیمنیٰ ثم اشار بسبابتہ ووضع الابھام علی الوسطیٰ وقبض سائر اصابعہ ثم سجد فکانت یداہ حذاء اذنیہ‘‘
ترجمہ:’’ سیدنا وائل بن حجر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تکبیر کہی، پس دونوں ہاتھ اپنے تکبیرکہنے کے وقت اٹھائے یعنی نماز شروع کی، اور تکبیر کے وقت ہاتھ اٹھائے اور رکوع کے وقت بھی ہاتھ اٹھائے، اور جب ’’سمع اللہ لمن حمدہ‘‘ کہا اس وقت بھی ہاتھ اٹھائے اور سجدہ کیا۔ پس اپنے دونوں ہاتھ کانوں کے برابر( زمین پر) رکھے۔ پھر بیٹھے، پس اپنا بایاں پائوں بچھالیا، پھر اپنا بایاں ہاتھ اپنے بائیں گھٹنے پر رکھا اور دائیں کلائی اپنی دائیں ران پر رکھی۔ پھر سبابہ انگلی کے ساتھ اشارہ کیا، اور انگوٹھے کی انگلی پر رکھا( یعنی حلقہ بنایا) اور باقی انگلیاں بند کر لیں، پھر سجدہ کیا پس دونوں ہاتھ آپ کے کانوں کے برابر تھے‘‘
اس حدیث میں جلسہ بین السجدتین کی کیفیت کا بیان ہے۔ پس یہ کہنا کہ جلسہ بین السجدتین کی کیفیت کا بیان حدیثوں میں نہیں آیایہ غلط ہوگا۔ لیکن یہ ہماری طرف سے الزامی جواب ہے۔ کیوں کہ رکوع کے بعد ہاتھ باندھنے والے حدیثوں کو ملا کر مطلب بیان نہیں کرتے۔ چنانچہ اوپر تفصیل ہو چکی ہے۔ ہمارا اصول یہ ہے کہ حدیث بعض بعض کی تفسیر ہوتی ہے۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
چوتھی دلیل:
ابو دائود، ترمذی، نسائی، ابن ماجہ ،مسند احمد اور مستدرک حاکم میں سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث ہے:
’’نھیٰ عن السدل فی الصلوٰۃ وان یغطی الرجل فاہ‘‘
ترجمہ:’’ یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز میں سدل(یعنی کسی عضو یا کپڑے یا بالوں کے لٹکانے )سے اور اس سے کہ آدمی اپنا منہ ڈھانپ رکھے منع فرمایا ہے‘‘
یہ دلیل مولوی یوسف حسین برادر قاضی عبدالاحد صاحب خانپوری نے اپنے رسالہ ’’اتمام الخشوع بوضع الیمین علی الشمال بعد الرکوع‘‘ کے صفحہ ۳۴ پر ذکر کی ہے۔ لیکن اس حدیث کے مطلب بیان کرنے میں دو طرح سے اجماع کی مخالفت کی ہے۔ ایک یہ کہ اس حدیث میں سدل سے مراد عام لیا ہے۔ جو عضو، کپڑے اور بالوں سب کو شامل ہے۔حالانکہ محدثین میں سے کسی نے بھی آج تک یہ معنی نہیں کیے جو عضو کو بھی شامل ہوں۔ دوسرے کسی سلف نے رکوع کے بعد ہاتھ چھوڑنے پر اس حدیث سے استدلال کرتے ہوئے منع نہیں کیا۔ بلکہ امام ترمذی رحمہ اللہ نے کئی علماء سے سدل کی مخالفت کی وجہ یہود سے مشابہت بتائی ہے۔ اور ظاہر ہے کہ ہاتھوں کے لٹکانے میں یہود کی مشابہت نہیں۔ بلکہ کپڑے میں ہے ، جیسے سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے۔ ملاحظہ ہو تحفۃ الاحوذی جلداول صفحہ۲۹۶۔
اس کے علاوہ سدل کے معنی مطلق ارسال کے کیے ہیں۔ حالانکہ کہ ارسال اور سدل میں فرق ہے۔ مثلاً شکار کے پیچھے کتا چھوڑ دیں، تو اس کو ’’ارسل‘‘ کہیں گے۔ سدل نہیں کہیں گے۔ اسی طرح کسی کو کسی کے پاس بھیجیں تو وہاں بھی’’ارسل الی فلان‘‘ کہیں گے’’سدل الی فلان‘‘ نہیں کہتے۔ایسے ہی ہاتھ میںکوئی چیز پکڑی ہو تو پھر چھوڑ دیں تو یہاں بھی’’ارسل استعمال ہوتا ہے ’’سدل ‘‘ نہیں ہوتا۔ اصل میں’’سدل‘‘ کے معنی لٹکانے کے ہیں، لیکن مطلق لٹکانے کے نہیں بلکہ اس میں بھی خاص خاص محاورات کو دخل ہے۔
مصنف رسالہ مولوی یوسف حسین صاحب نے یہ بھی نہیں سوچا کہ اگر اس حدیث میں سدل کا لفظ ہاتھوں کے ارسال کو شامل ہوتا تو امام احمد رحمہ اللہ اس حدیث کی مخالفت کیوں کرتے ۔کیوں کہ یہ حدیث مسند امام احمد کی ہے۔ اور فتویٰ ان کا جواز ارسال ہے۔ جیسا کہ گذشتہ صفحات میں گذر چکا ہے۔
اس رسالے میں افراط تفریط بہت ہے، اور کئی جگہ تعارض بھی ہے۔ افراط تفریط کی ایک مثال تو آپ کے سامنے آچکی ہے کہ رکوع کے بعد ہاتھ چھوڑنے کو سدل قرار دے کر اس کی ممانعت پر یہ حدیث پیش کی ہے۔
دوسری مثال سنئے: اس رسالہ کے صفحہ۱۰ پر صحیح مسلم کی حسب ذیل حدیث ذکر کی ہے:
’’عن عبداللہ بن الزبیر قال کان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اذا قعد یدعوا وضع یدہ الیمنیٰ علی فخذہ الیمنیٰ ویدہ الیسریٰ علی فخذہ الیسریٰ واشار باصبعہ السبابۃ السبابة ووضع ابھامہ علی اصبعہ الوسطیٰ ویلقم کفہ الیسریٰ رکبتہ(رواہ مسلم)
ترجمہ:’’ یعنی سیدنا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب بیٹھ کر دعا مانگتے یعنی خواہ نماز میں یا غیر نماز میں تو اپنا سیدھا ہاتھ سیدھی ران پر رکھتے اور اپنا الٹا ہاتھ الٹی ران پر اور اپنی انگشت شہادت کے ساتھ اشارہ کرتے اور اپنا انگوٹھا اپنی بیچ کی انگلی پر رکھتے اور اپنی الٹی ہتھیلی سے اپنا الٹا گٹھنا پکڑ لیتے‘‘
اس حدیث میں نہ تو نماز کی قید ہے اور نہ تشہد کی اور نہ بین السجدتین کی اور اسی وجہ سے بعض حنابلہ کرام بعد وضو کے دعا پڑھنے کے وقت انگشت شہادت سے آسمان کی طرف نظر اٹھا کر اشارہ کرتے ہیں۔ وھو غیر مستبعد صفحہ ۱۰۔۱۱
اس حدیث کا معنی جو اس رسالہ میں کیا ہے آج تک کسی محدث نے یہ معنی نہیں کیا۔ نماز اور غیر نماز دونوں صورتوں میں اس طرح بیٹھنا اور انگلی اٹھانا یہ محض اس رسالے والے کا اختراع ہے اور پھر حنابلہ پر بھی افتراء کیا ہے کہ انہوں نے اس حدیث کو عام (نماز غیر نماز میں) بلکہ وضو کی دعا کو بھی اس میں شامل کر دیا ہے۔ حالانکہ اس حدیث میں تشہد کی کیفیت کا بیان ہے۔ چنانچہ قعد کے لفظ سے ظاہر ہوتا ہے وضو میں نہ اس طرح بیٹھنا ہوتا ہے اور نہ اس طرح اشارہ ہوتا ہے کہ بیچ کی انگلی اور انگوٹھے کا حلقہ بنایا جائے، اور ران پر رکھتے ہوئے اشارہ کیا جائے۔ کتب حنابلہ بھی موجود ہیں، کسی نے اس حدیث سے استدلال نہیں کیا اور نہ وضو کی دعا کی یہ کیفیت بیان کی ہے۔
پھر تعجب ہے کہ خود صاحب رسالہ نے حنابلہ کے دعا مانگنے کی کیفیت یہ لکھی ہے کہ انگشت سے آسمان کی طرف نظر اٹھا کر اشارہ کرتے ہیں۔ حالانکہ اس حدیث میں اس کا نام و نشان نہیں پس ایسا شخص جو حدیثوں کا معنی اپنی رائے سے بیان کرے اور دوسروں پر افتراء کرتے ہوئے ان کو بھی اس میں لپیٹنے کی کوشش کرے اس کو ایسا ہی سمجھنا چاہیئے جیسے کوئی شخص قرآن کی تفسیر اپنی رائے سے کرے۔
مشکوٰۃ شریف کتاب العلم صفحہ ۳۵ میں حدیث ہے:
’’من قال فی القراٰن برآیہ فلیتبوا مقعدہ من النار‘‘
ترجمہ:’’جو قرآن میں اپنے رائے سے کہے وہ اپنا ٹھکانا جہنم میں بنالے‘‘ اعاذنا اللہ منہ
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
مذاہب کے بیان میں بے احتیاطی

رسالہ مذکورہ کے صفحہ ۳۸ میں مؤطا امام مالک کے حوالے سے رکوع کے بعد ہاتھ باندھنا ثابت کرنے کی کوشش کی ہے۔ حالانکہ مؤطا امام مالک میں مطلق قیام کا ذکر ہے۔ اور مطلق قیام سے قبل الرکوع قیام مراد ہوتا ۔چنانچہ آگے تفصیل آئے گی۔
اور بشریٰ الکریم کے حوالہ سے صفحہ ۳۷ میں شافعیہ کا بھی ہاتھ باندھنے کے متعلق ایک قول لکھا ہے۔ لیکن شافعیہ کی کسی مشہور کتاب کا حوالہ نہیں اور صفحہ۳۸ پر امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ اور امام ابو یوسف رحمہ اللہ کا مذہب رکوع کے بعد ہاتھ باندھنا لکھا ہے۔ حالانکہ ان کے مذہب پر اصل مسئلہ یہ ہے کہ جس قیام میں ذکر مسنون ہواس میں ہاتھ باندھے جائیں۔ اور جس میں ذکر مسنون نہ ہو اس میں ہاتھ چھوڑے جائیں ۔
رکوع کے بعد قیام میں ان کے نزدیک ذکر مسنون نہیں اس لئے اس میں ان کے نزدیک ارسال ہے۔ امام محمد رحمہ اللہ کے نزدیک ہاتھ باندھنا قرأت کی سنت ہے۔ یعنی قرأت میں جتنی دیر قرآن مجید پڑھا جائے اتنی دیر ہاتھ باندھے قرء ات کے علاوہ کوئی ذکر ہو تو اس میں ہاتھ چھوڑ دے۔ جیسے تکبیر تحریمہ کے بعد’’ اللھم باعد بینی‘‘ یا ’’ سبحانک اللہ وبحمدک‘‘ پڑھے۔تو اس وقت ہاتھ نہ باندھے اور جب قرء ات شروع کرے تو ہاتھ باندھے۔
بعض حنفیہ نے امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ اور امام ابو یوسف کا مذہب یہ لکھا ہے کہ رکوع کے بعد ہاتھ باندھے جائیں۔ اس لئے کہ اس میں ذکر مسنون ہے۔ لیکن علامہ ابن الہمام نے کبیری شرح منیتہ المصلی صفحہ۴۶۶ میں اس کی تردید کی ہے۔ وجہ اس کی یہی لکھی ہے کہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ اور امام ابو یوسف رحمہ اللہ کے نزدیک قیام بعد از رکوع میں ذکر مسنون نہیں اور جو ان سے ایک قول میں آیا ہے ،وہ صرف’’ربنا لک الحمد‘‘ قدریہ ہے۔ جو ہاتھ باندھتے باندھتے ختم ہو جاتا ہے۔ یعنی ایسا کوئی ذکر ان سے ثابت نہیں کہ ہاتھ باندھ کر پڑھا جائے۔ پس ان کا مذہب ارسال ہی ہوا۔
چنانچہ فرماتے ہیں’’ وقول صاحب الواقعات اوجہ‘‘ (کبیری شرح منیہ کی پوری عبارت ملاحظہ ہو:’’ویرسل الیدین فی القومۃ القومة بعد الرفع من الرکوع باتفاق ائمتنا کذا قال صدر الشہید حسام الدین فی واقعاتہ اما علی قول محمد فظاہر لانہ قیام لا قراء ۃ فیہ واما علی قولھما فانہ وان کان فیہ ذکر مسنون فی حق المنفرد فی روایۃ وفی حق الامام علی قول لکنہ غیر ممتد ہو قولہ ربنا لک الحمد وھو شئی قلیل لا یزید علی زمان القبض والتخلیۃ فلا فائدۃ فی القبض وذکر السید الامام ابو شجاع فی الملتقط انہ یاخذ الید الیسری بالیمنیٰ فی تلک القومۃ علی قولھما خلافا لمحمد بنائً وجود الذکر المسنون وان قل وقول صاحب الواقعات اوجہ‘‘)
یعنی صاحب واقعات (صدر الشہید حسام الدین) نے جو کچھ لکھا ہے کہ رکوع کے بعد ہاتھ چھوڑنے پر ہمارے ائمہ کا اتفاق ہے یہ زیادہ مدلل ہے۔ مطلب اس بات کا یہ ہے کہ ذکر مسنون’’ ربنا لک الحمد حمداکثیر طیبا مبارکا فیہ‘‘ وغیرہ اگرچہ حدیث میں آیا ہے ،لیکن ان کا مذہب ارسال ہی کا ہے کیوں کہ وہ اس میں اس ذکر مسنون کے قائل نہیں۔
خلاصہ یہ کہ ذکر مسنون کی حدیث نہ پہنچنے کی وجہ سے وہ معذور قرار دیئے جا سکتے ہیں۔ مگر اس کو ان کا مذہب قرار نہیں دیا جا سکتا ۔ مذہب وہ ہی ہے جس پر انہوں نے عمل کیا۔ مصنف رسالہ مذکور نے باوجود صفحہ ۴۰ پر کبیری کی عبارت مذکورہ نقل کرنے کے بعد امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ اور امام ابو یوسف رحمہ اللہ کا مذہب رکوع کے بعد ہاتھ باندھنا لکھا ہے۔ یہ بڑی غلط فہمی ہوئی ہے اور یہ ہی غلط فہمی مولوی بدیع الدین پیر جھنڈا کو مصنف رسالہ کی اتباع میں ہوئی ہے۔ اللہ معاف کرے ۔ آمین
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
پانچویں دلیل:
یہ ہے کہ جیسے رکوع سے پہلے قیام ہے اسی طرح رکوع کے بعد بھی قیام ہے۔ تو جن احادیث میں مطلق قیام میں ہاتھ باندھنے کا ذکر ہے وہ رکوع کے بعد قیام کو بھی شامل ہوں گے۔ جیسے نسائی اور دار قطنی میں حدیث ہے:
’’عن علقمۃ علقمة بن وائل عن ابیہ قال رأیت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اذا کان قائما فی الصلوۃ قبض بیمینہ علی شمالہ‘‘
ترجمہ:’’ سیدنا علقمہ بن وائل اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز میں کھڑے ہوتے تو دائیں ہاتھ کے ساتھ بائیں ہاتھ کو پکڑ لیتے‘‘
اور جامع الصغیر جلد ۲ صفحہ۹۳ میں بحوالہ طبرانی وائل بن حجر سے روایت کیا ہے’’ کان اذا قام فی الصلاۃ قبض علی شمالہ بیمینہ‘‘ یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز میں کھڑے ہوتے تو دایاں ہاتھ بائیں پر باندھ لیتے۔ اور جامع الصغیرنے اس کو حسن کہا ہے۔
اس دلیل کا جواب کئی طرح سے ہے۔
اول یہ کہ یہاں بھی وہی قاعدہ جاری ہے کہ حدیث ایک دوسری کی تفسیر ہوتی ہے ۔ چنانچہ یہی وائل بن حجر رحمہ اللہ کی حدیث ابو دائود اور ابن حبان وغیرہ میں ان الفاظ کے ساتھ ہے:
’’صلیت خلف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فکان اذا دخل فی الصف رفع یدیہ وکبر ثم التحف فادخل یدہ فی ثوبہ فاخذ شمالہ بیمینہ فاذا اراد ان یرکع اخرج یدیہ ورفعھما وکبر ثم رکع فاذا رفع رأسہ من الرکوع رفع یدیہ وکبر وسجدثم وضع وجھہ بین کفیہ قال ابن حجادۃ فذکرت ذلک للحسن فقال ھی صلوۃ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فعلہ من فعلہ وترکہ من ترکہ‘‘
ترجمہ:’’ سیدنا وائل بن حجر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے نماز پڑھی۔ پس جب آپ صف میں داخل ہوتے تو دونوں ہاتھ اٹھاتے اور تکبیر کہتے ۔پھر کپڑا اوڑھ کر اپنے ہاتھ کپڑے میں کر لیتے۔ پھر الٹے ہاتھ کو سیدھے ہاتھ سے پکڑ لیتے۔ پس جب رکوع کا ارادہ کرتے تو دونوں ہاتھ کپڑے سے نکال کر رفع الیدین کرتے اور تکبیر کہتے ،پھر رکوع سے سر اٹھاتے تو دونوں ہاتھ اٹھاتے، اور تکبیر کہتے، اور سجدہ کرتے، پھر اپنا چہرہ اپنی دونوں ہتھیلیوں کے درمیان رکھتے۔ ابن حجادہ اس حدیث کے راوی کہتے ہیں میں نے اس حدیث کا ذکر حسن بصری رحمہ اللہ کے پاس کیا، پس فرمایا یہی نماز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہے۔ کیا اس کو جس نے کیا اور چھوڑا اس کو جس نے چھوڑا‘‘
اس حدیث نے تصریح کر دی کہ ہاتھ باندھنے کا موقعہ رکوع سے پہلے ہے رکوع کے بعد ذکر نہیں۔ پس وہ اپنی طبعی حالت پر رہیں گے۔ جیسے شروع صفحہ۱۰ میں ذکر ہو چکا ہے۔ نیز اس حدیث سے معلوم ہوا کہ عموماً تعلیم کے وقت ایک رکعت کا نقشہ کھینچا جاتا ہے باقی رکعتوں کو پہلی کے بیان پر حوالے کیا جاتا ہے۔ اگر کسی بات میں پہلی اور بعد کی رکعتوں میں فرق ہوتو اس کا کسی نہ کسی حدیث میں الگ ذکر آجاتا ہے ۔جیسے تکبیر تحریمہ کے بعد’’ اللھم باعد بینی‘‘ اور پہلی دوسری رکعت میں قرء ات جہر اور پچھلی دونوں میں آہستہ پڑھنا وغیرہ۔ پس اب یہ اعتراض نہیں ہو سکتا کہ پہلی رکعت میں ہاتھ باندھنے کا ذکر ہے۔ دوسری تیسری رکعت میں ہاتھ باندھنے کا ذکر کہاں ہے؟ صاحب رسالہ نے بھی صفحہ۱۲ پر اس حدیث کا ذکر کیا ہے پھر اس پر اعتراض کیا ہے کہ ’’ اس حدیث میں قیام اول میں ہاتھ باندھنے کا ذکر ہے اور رکوع کے بعد اس کا ذکر نہیں۔ مگر تحمید و اعتدال کا بھی ذکر نہیں ہے تو عدم ذکر سے نفی لازم نہیں آتی ۔ورنہ تحمید اور اعتدال کی بھی نفی لازم آئے گی۔
جو اب اس کا یہ ہے کہ تحمید اور اعتدال کا ذکر دوسری احادیث میں آگیا ہے ،لیکن رکوع کے بعد ہاتھ باندھنے کا ذکر کہیں نہیں آیا۔ پس وہ اپنی طبعی حالت پر رہیں گے، اور اس سے یہ مسئلہ بھی واضح ہوگیا کہ احادیث کو ملا کر مطلب لینا چاہیئے۔ کیوں کہ موقعہ محل کے لحاظ سے کسی حدیث میں کوئی مسئلہ ذکر ہوتا ہے اور کسی میں کوئی ۔پس سب کے ملانے سے بات مکمل ہوجاتی ہے۔
اس کے علاوہ سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:
’’کان اذا قام الی الصلوۃ قال ھکذا ووضع الیمنیٰ علی الیسریٰ فی الصلوۃ اخرجہ ابن عبدالبر‘‘
ترجمہ:’’ سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ جب نماز کی طرف کھڑے ہوتے تو اس طرح کرتے، راوی نے کہا کہ نماز میں سیدھا ہاتھ الٹے ہاتھ پر رکھتے۔ اس حدیث کو امام ابن عبدالبر نے روایت کیا ہے‘‘
سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ کی اس روایت میں تصریح ہے کہ جب نماز کی طرف کھڑے ہوتے تو اس وقت ہاتھ باندھتے( رکوع کے بعد نہیں) اور اس سے یہ بھی ثابت ہوا کہ جہاں حدیثوں میں ہاتھ باندھنے کے متعلق فی الصلوٰۃ کا لفظ آتا ہے وہاں رکوع سے پہلا قیام مراد ہے۔ چنانچہ اس روایت میں فی الصلوۃ کے لفظ سے یہی مراد ہے ۔جیسا کہ الی الصلوۃ کے لفظ سے ظاہر ہے۔
اسی طرح سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:
’’ انہ اذا قام الی الصلوۃ وضع یمینہ علی رسغہ فلا یزال کذالک حتی یرکع الا ان یصلح ثوبہ او یحک جسدہ اخرجہ ابن عبدالبر‘‘
ترجمہ:’’یعنی جب سیدنا علی رضی اللہ عنہ نماز کی طرف کھڑے ہوتے تو اپنا دایاں ہاتھ (بائیں ہاتھ کے) گٹے( پوہنچے) پر رکھتے۔ پس ہمیشہ یہی حالت رہتی۔ یہاں تک کہ رکوع کرتے۔ مگر یہ کہ اپنا کپڑا درست کریں یا اپنا بدن کھجلا ئیں۔ اس حدیث کو ابن عبدالبر نے روایت کیا ہے‘‘
اس روایت میں بھی تصریح ہے کہ جب نماز کی طرف کھڑے ہوتے تو اس وقت ایسا کرتے یعنی ہاتھ باندھتے اور فصل رابع مشکوٰۃ باب صفتہ الصلوۃ صفحہ۴۱ میں بھی جریر ضبی سے یہ روایت ہے ۔اس کے الفاظ یہ ہیں:
’’ عن جریر الضبی قال کان علی اذا قام فی الصلوۃ وضع یمینہ علی رسغہ فلا یزال کذالک حتی یرکع ما رکع الا ان یصلح ثوبہ او یحک جسدہ رواہ ابن ابی شیبۃ‘‘(یہ اثر امام بخاری نے صحیح بخاری میں بالجزم ذکر کیا ہے۔)ترجمہ:’’ جریر ضبی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب سیدنا علی رضی اللہ عنہ نماز میں امامت کراتے تو دایاں ہاتھ بائیں ہاتھ کے گٹ (پوہنچے ) پر رکھتے۔ اور اسی حالت میں رہتے یہاں تک کہ رکوع کریں( جب کریں) مگر یہ کہ اپنا کپڑا ٹھیک کریں یا اپنا بدن کھجلائیں‘‘
اس روایت میں کلمہ حتی کہ ساتھ ہاتھ باندھنے کی حد رکوع بتلایا ہے۔ اور دو حالتوں کو اس سے مستثنیٰ کیا ہے ۔ ایک کپڑا ٹھیک کرنے کی حالت دوسرے بدن کھجلانے کی حالت۔ اگر رکوع سے اٹھ کر بھی ہاتھ باندھے ہوں تو عبارت یوں ہونی چاہیئے:
’’فلا یزال کذالک حتی یھوی لسجود الا ان یرکع او یصلح ثوبہ او یحک جسدہ
یعنی دو حالتوں کی جیسے استثناء کی ہے اسی طرح رکوع کی حالت کی بھی استثناء کرتے اور ہاتھ باندھنے کی حد سجدہ کے لئے جھکنا بتلاتے ۔ رکوع حد بتانا اور ما بعد کو اس میں شامل نہ کرنا یہ صاف دلیل ہے کہ قیام اور قومہ کا حکم ایک نہیں۔ پس اس روایت سے مسئلہ بالکل صاف ہوگیا اور اکثر امت کا تعامل اس کا مؤید ہے۔
اس قسم کی اور روایات بھی ہیں۔ جن کے ذکر میں طوالت ہے۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
ہم انہیں پر کفایت کرتے ہوئے یہاں ایک قاعدہ لکھتے ہیں جو صاحب رسالہ مذکور نے ذکر کیا ہے ،چنانچہ بحوالہ مغنی اللبیب لکھتے ہیں کہ:اکثر استعمال ’’اذا ‘‘کا شرط ہی میں ہوتا ہے۔ مع ظرفیت کے زمانہ استقبال میں اور خال خال کبھی ان معانی سے خروج کرتا ہے۔ اس کے بعد صاحب رسالہ لکھتے ہیں’’ جو استعمال کثیر اور غالب ہوتا ہے وہ بجائے حقیقت کے سمجھا جاتا ہے اور جو کبھی کبھی ہو وہ بجائے مجاز کے ہے، اور ضعیف احتمال کے لئے استعمال کثیر کا چھوڑنا نری عقل کی کوتا ہی ہے‘‘۔صفحہ ۲۹
سیدنا وائل بن حجر رضی اللہ عنہ اور ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ اور سیدناعلی رضی اللہ عنہ کی روایت میں کلمہ اذا ہے۔ تو اس قاعدے کی بنا پر اس کا حقیقی معنیٰ شرط ہی کا ہوگا۔ اور جب شرط کے معنی ہوئے تو ہاتھوں کا باندھنا پہلے قیام کے ساتھ مقید ہوگیا۔ کیوں کہ شرط مشروط کے لئے قید ہوتی ہے۔ پس رکوع کے بعد ہاتھ باندھنے کی نفی ہوگئی۔
اس کی مثال ایسی ہے جیسے صاحب رسالہ نے یہ کہا ہے کہ جن حدیثوں میں مطلق نماز میں ہاتھ باندھنے کا ذکر آیا ہے۔ اس سے قیام کی حالت میں ہاتھ باندھنا مراد ہے۔
جیسے عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں:
’’صف القدمین ووضع الید علی الیدمن السنۃالسنة‘‘(اخرجہ ابو داؤد وغیرہ)
ترجمہ:’’ یعنی دونوں قدموں کا ایک سیدھ میں رکھنا اور ایک ہاتھ کا دوسرے ہاتھ پر رکھنا یہ سنت ہے۔ روایت کیا اس کو ابو داؤد وغیرہ نے‘‘
اور اسی طرح مصنف ابن ابی شیبہ میں ابو درداء رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:
’’من اخلاق النبیین وضع الیمین علی الشمال فی الصلوۃ‘‘
ترجمہ:’’ یعنی نبیوں کے اخلاق سے ہے دایاں ہاتھ بائیں پر رکھنا نماز میں‘‘
اسی طرح مسند احمد میں حارث غطیف رضی اللہ عنہ یا غطیف بن حارث سے روایت ہے:
’’رأیت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم واضعا یدہ الیمنیٰ علی الیسری فی الصلوۃ‘‘
’’یعنی میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس حالت میں دیکھا کہ آپ نماز میں دایاں ہاتھ بائیں پر رکھے ہوئے تھے‘‘
اسی طرح سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:
’’من السنۃ السنة وضع الیمین علی الشمال فی الصلوۃ‘‘
’’یعنی دائیں ہاتھ کا بائیں پر رکھنا نماز میں سنت سے ہے‘‘
اس قسم کی احادیث ذکر کر کے صاحب الرسالہ لکھتے ہیں ،ان سب اطلاقات کی باقاعدہ مقید کرنے والی حدیث وہ ہے جس کو ہم بروایت نسائی اور طبرانی نقل کرآئے ہیں۔ اور اسی کا مؤید ہے اثر سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کا:
’’کان اذا قام الی الصلوۃ ھکذا ووضع الیمنیٰ علی الیسریٰ فی الصلوۃ اخرجہ ابن عبدالبر‘‘
’’یعنی سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ جب نماز میں کھڑے ہوتے تو اس طرح کرتے اور راوی نے کہا کہ نماز میں سیدھا ہاتھ الٹے ہاتھ پر رکھتے ۔اس حدیث کو امام ابن عبدالبر رحمہ اللہ نے روایت کیا ہے‘‘
اس حدیث سے اتنا ثابت ہوا کہ کھڑے ہوتے ہی ہاتھ باندھتے۔ اول ارسال نہیں کرتے تھے۔ اور سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے:
’’اذا کان قام الی الصلوۃ وضع یمینہ علی رسغہ فلا یزال کذلک حتی یرکع الا ان یصلح ثوبہ او یحک جسدہ۔ اخرجہ ابن عبدالبر‘‘
’’یعنی سیدنا علی رضی اللہ عنہ نمازکو کھڑے ہوتے تو اپنا دایاں ہاتھ اپنے بائیں ہاتھ کے پونچے پر رکھ دیتے۔ یہاں تک کہ رکوع کرتے۔ یعنی اس اثنا میں ہاتھوں کو کھولتے نہ تھے۔ مگر یہ کہ اپنا کپڑا درست کر یں یا اپنا بدن کھجلائیں اس حدیث کو امام ابن عبدالبر نے روایت کیا ہے‘‘(رسالہ مذکورہ صفحہ۱۵)
نسائی اور طبرانی کی روایتیں پیچھے گذر چکی ہیں۔ اور سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ اور سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی روایتیں بھی اگرچہ گذشتہ صفحات پر گذر چکی ہیں، لیکن یہاں صاحب رسالہ کی عبارت نقل ہونے کی وجہ سے دوبارہ ذکر ہو گئیں۔ ان روایات سے صاحب رسالہ نے’’ فی الصلوۃ‘‘ کے لفظ کو قیام کے ساتھ مقید کیا ہے ۔ یعنی جن روایتوں میں ’’ فی الصلوۃ‘‘ آیا ہے ان سے مراد قیام کی حالت میں ہاتھوں کو باندھنا ہے۔ نہ قعود و غیرہ کی حالت میں ۔ لیکن یہ کس قدر تعجب کی بات ہے کہ سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ اور سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی روایتوں میں رکوع سے پہلے قیام مراد ہے۔ اسی طرح سیدنا وائل بن حجر رضی اللہ عنہ کی حدیث’’ اذا دخل فی الصف‘‘ میں بھی رکوع سے پہلے قیام مراد ہے تو پھر جب روایات میں’’ فی الصلوۃ‘‘ہے ان سے مطلق قیام کی حالت مراد لینا کیوں کر صحیح ہوگا۔ بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ’’ فی الصلوۃ‘‘ کے لفظ سے قبل از رکوع مراد ہوتا ہے، نہ بعد از رکوع ،اس کے متعلق روایتیں بہت ہے۔
جیسے مشکوۃ شریف باب قیام اللیل فصل اول صفحہ ۱۰۶ میں ہے:
’’صلی رکعتین اطال فیھما القیام والرکوع والسجود‘‘
’’یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو رکعت نماز پڑھی جس میں قیام ،رکوع ،سجدہ لمبا کیا‘‘
یہاں قیام سے مراد پہلا قیام ہے ۔چنانچہ رکوع سجود کے مقابلہ سے ظاہر ہے ۔کیوں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کے متعلق روایات دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ جب قیام بین الرکوع والسجدہ لمبا ہوتا تو جلسہ بین السجدتین بھی لمبا ہوتا۔ لیکن جلسہ بین السجدتین کے لمبا ہونے کو یہاں بیان نہیں کیا۔ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ مختصر تھا۔ پس ایسا ہی قیام بین الرکوع والسجدہ کو سمجھ لیں۔ اسی طرح مشکوۃ شریف باب القرأۃ فی الصلوۃ فصل اول صفحہ ۷۹ میں ہے۔ ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں:
’’کنا نحزر قیام رسول رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فی الظھر والعصر فحزر نا قیامہ فی الرکعتین الاولیین من الظہر قدر قراء ۃ آلمٓ، السجدۃ ،الحدیث‘‘
ترجمہ:’’ یعنی ظہر عصر میں ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قیام کا اندازہ لگاتے تھے۔ پس ظہر کی پہلی دو رکعتوں میں ہم نے آپ کے قیام کا اندازہ سورہ سجدہ قدر کیا‘‘
یہاں بھی قیام سے مراد قیام قبل از رکوع ہے۔ اس قسم کی اور روایات بھی ہیں۔
اس بنا پر جن احادیث میں مطلق قیام کی حالت میں ہاتھ باندھنے کا ذکر ہے اس سے مراد قیام قبل از رکوع ہوگا۔ پس نسائی اور طبرانی اور دار قطنی کی حدیث جس میں مطلق قیام میں ہاتھ باندھنے کا ذکر ہے اس سے بعد از رکوع ہاتھ باندھنے پر استدلال غلط ہوگیا۔ بلکہ وہ ہماری دلیل ہوئی۔
اس کے علاوہ صاحب رسالہ نے جو قاعدہ ذکر کیاہے کہ جو استعمال کثیر اور غالب ہوتا ہے وہ بجائے حقیقت کے سمجھا جاتا ہے۔ اور جو کبھی کبھی ہو وہ بجائے مجاز کے ہے۔ یہ قاعدہ بھی چاہتا ہے کہ مطلق قیام سے قیام قبل از رکوع مراد ہو۔ کیوں کہ براء بن عازب رضی اللہ عنہ کی دونوں حدیثوں سے یہ ثابت ہوگیا کہ مطلق قیام سے خاص مراد ہوتا ہے اور مطلق سے خاص مراد ہونے کی وجہ یہی ہے کہ مطلق کا استعمال خاص میں زیادہ ہے۔ جیسے ابن عباس رضی اللہ عنہما بولیں تو عبداللہ بن عباس مراد ہوتے ہیں۔ فضل بن عباس وغیرہ مراد نہیں ہوتے۔ اسی طرح ابن عمر بولیں تو عبداللہ بن عمر میں زیادہ ہے۔ پس قیام کا استعمال جب قیام قبل از رکوع میں زیادہ ہوا، تو قاعدہ مذکورہ کی بنا پر یہ حقیقت ہوگیااور بعد از رکوع مجاز ہوا۔ حقیقت کے مقابلے میں مجاز کوئی چیز نہیں۔
اس بنا پر بھی حدیث نسائی ،طبرانی ،دار قطنی وغیرہ ہماری دلیل ہوئی نہ کہ رکوع کے بعد ہاتھ باندھنے والوں کی۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
اعتدال کو قومہ کیوں کہتے ہیں؟

کتاب الام جلد اول صفحہ ۹۶ میں امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں
رکوع سجود میں کم سے کم جو تین تسبیحات حدیث میں آئی ہیں، یہ مستحب ہیں۔ یعنی رکوع و سجود اس سے کم وقت میں ادا ہوجاتا ہے۔
اور فصل رابع مشکوٰہ شریف تصنیف نواب صدیق الحسن خان صاحب صفحہ ۴۵ میں بحوالہ ابن ابی شیبہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے روایت کیاہے کہ ضرورت کے وقت ایک تسبیح بھی کافی ہے۔
مطلب یہ کہ رکوع سجدہ میں جو اطمینان کا حکم آیا ہے، وہ تو صرف اتنا ہے کہ ہر ایک جوڑ میں سکون پیدا ہو جائے۔ جس میں کم سے کم ایک دو تسبیح پڑھی جا سکتی ہیں۔ ایسا ہو کہ جھکتے ہی سر اٹھا لے۔ اس سے رکوع سجدہ ادا نہیں ہوگا جیسے کہ حنفیوں کا خیال ہے کہ رکوع صرف جھکنے سے اور سجدہ صرف زمین پر سر لگانے سے ہو جاتا ہے ، اور جلسہ بین السجدتین کے لئے بھی مسیئی الصلوۃ وغیرہ کی حدیث میں اطمینان کا لفظ آیا ہے ۔ اور قیام بعد رکوع کے لئے لفظ استواء کا اور ہڈیوں کا اپنے جوڑوں کی طرف لوٹنے کاذکر ہے۔ تو ان کا بھی ادنیٰ اندازہ اتنا ہی ہوا جتنا رکوع سجدہ کا۔ باقی زائد مستحب میں شامل ہے۔
رہا رکوع سے پہلا قیام تو اس میں صرف استواء یا اطمینان کافی نہیں۔ بلکہ وہ کم سے کم اتنا لمبا ہونا چاہیئے کہ اس میں سورۃ فاتحہ پڑھی جائے۔
بلکہ حنفیہ کے نزدیک کسی اور سورت کا ملانا بھی سورۃ فاتحہ کی طرح واجب ہے۔ پس وہ رکوع سجدہ اور جلسہ بین السجدتین سے بہت لمبا ہوگا۔ اس بنا پر پہلے قیام کو قومہ نہیں کہہ سکتے۔ کیوں کہ قومہ کے معنیٰ عربی زبان میں ایک دفعہ کھڑا ہونے کے برابر ہے۔ ہاں قیام بعد رکوع کو قومہ کہہ سکتے ہیں۔ کیوں کہ وہ اپنی حقیقت کے لحاظ سے بہت چھوٹا ہے۔ جیسے جلسہ بین السجدتین اپنی حقیقت کے لحاظ سے بہت چھوٹا ہے۔ اور اسی وجہ سے اس پر جلسہ کا لفظ بولتے ہیں۔ اس کے معنی عربی میں ایک دفعہ بیٹھنے کے ہیں۔ اسی فرق کو ملحوظ رکھتے ہوئے فقہا نے قیام بعد رکوع کا نام قومہ رکھا ہے۔ تاکہ اس کی حقیقت واضح ہو جائے کہ وہ پہلے رکوع سے قیام کی طرح نہیں، بلکہ وہ جلسہ بین السجدتین کی طرح ہے۔
صاحب رسالہ نے فقہاء کے مقصد پر نظر نہیں کی، کہ جیسے فرض واجب سنت وغیرہ کے الفاظ مختلف احکام پر بولے جاتے ہیں ۔ اور مقصد ان سے یہ ہوتا ہے کہ قرآن و حدیث سے ان احکام کے مراتب جو ثابت ہوتے ہیں ان کو ان ناموں سے بیان کر دیا جائے۔ مثلاً احادیث سے ثابت ہے کہ فاتحہ بغیر نماز نہیں۔ تو اس کو اس لفظ سے بیان کر دیا جاتا ہے فاتحہ فرض ہے لیکن احادیث میں فاتحہ کے لئے فرض کا لفظ نہیں آیا۔ لیکن فرض کا جو مطلب ہے وہ آیا ہے۔ یعنی اس کے بغیر نماز نہیں ہوتی۔ ایسے ہی قومہ کے لفظ کو سمجھ لیں اگرچہ لفظ قومہ کا نہیں آیا لیکن جو اس سے جو مطلب ہے وہ آگیا ہے۔ یعنی تھوڑا سا کھڑے ہونا جس میں پورا سکون ہو جائے اور اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ قومہ کو لغوی معنی سے قیام کہہ دیا جاتا ہے۔ لیکن اصل قیام رکوع سے پہلے ہے ۔ پس جب احادیث میں مطلق قیام آئے تو اس سے پہلا قیام مراد ہوگا۔ پس قیام میں جو ہاتھ باندھنے کی احادیث ہیں وہ اسی پر محمول ہوں گی۔ یہ ایک ایسا اٹل اصول ہے جو ہر طرح سے عقل و نقل کے موافق ہے۔ جب تک اس کے خلاف کوئی صریح دلیل نہ وہ اس اصول کو نہیں چھوڑا جا سکتا۔
آج کل لوگ اپنی طرف سے قرآن و حدیث میں تصرف کرتے ہیں اور جو اپنی رائے میں آتا ہے اس کو قرآن وحدیث بنا لیتے ہیں۔ ہمیں چاہیئے کہ جیسے قرآن و حدیث ہم نے سلف سے لیا ہے اس کی تفسیر اور اس کے مطالب بھی پہلے لوگوں سے لیں ۔ کیوں کہ انہوں نے ہمیں صرف الفاظ ہی نہیں پہنچائے بلکہ پوری تفسیر و تشریح بھی پہنچائی ہے۔ ان کا یہ اصول تھا کہ مختلف روایتیں جمع کر کے نتیجہ نکالتے ۔اسی طرح قرآن کی تفسیر قرآن اور احادیث کے ساتھ اور اس کے بعد تفسیر صحابہ رضی اللہ عنہم سے کرتے۔ اس اصول کا سختی سے پابند رہنا چاہیئے۔ واللہ الموفق
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
نوٹ:
بعض لوگ کسوف کی حدیث سے استدلال کرتے ہیں کہ نماز کسوف میں کئی رکوع ہوتے ہیں۔ پہلے رکوع سے اٹھ کر پھر قرء ات شروع کرتے ہیں اور اس میں ہاتھ باندھتے ہیں۔ اس سے معلوم ہوا کہ رکوع کے بعد ہاتھ باندھنے چاہیئیں ۔یہ ڈبل غلطی ہے۔ نماز کسوف میں رکوع کے بعد جو قیام ہوتا ہے وہ اصلی قیام کے قائم مقام ہوتا ہے ۔ گویا پہلے رکوع کو کالعدم قرار دے کر نئے سرے سے قیام ہوتا ہے۔ اسی لئے اس میں قرأت بھی ہوتی ہے۔ بلکہ بہت سے علماء فاتحہ کے بھی قائل ہیںملاحظہ ہو ’’نیل الاوطار جلد۳ صفحہ۲۲۴ باب الجھر بالقرأۃ فی الصلوۃ الکسوف ‘ ‘ وغیرہ۔ نیز اس کے بعد پھر رکوع ہوتا ہے اور زیر بحث وہ قیام ہے جس کے بعد سجدہ ہوتا ہے۔ اسی لئے اس میں قرء ات نہیں ہوتی۔ جس کو فقہا کی اصطلاح میں قومہ کہا گیا ہے۔ چنانچہ ابھی ذکر ہوا ہے۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
تنبیہ:
یہ بات یاد رہے کہ بعض لوگ اس کے بارے میں بے احتیاطی کرتے ہیں۔ بعض موقعہ پر ایسی روایتیں بھی نقل کر دیتے ہیں جن میں رکوع کے بعد ہاتھ باندھنے کا نام و نشان تک نہیں ہوتا۔ لیکن عوام اس سے دھوکہ کھا سکتے ہیں۔ شاہ بدیع الدین پیر جھنڈا سندھی نے سندھی زبان میں رکوع کے بعد ہاتھ باندھنے کے متعلق جو رسالہ لکھا ہے اس کے صفحہ ۱۴ میں رکوع کے بعد ہاتھ باندھنے پر یہ حدیث پیش کی ہے:
’’عن وائل الحضر می قال صلیت خلف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فکبر حین دخل ورفع یدیہ وحین اراد ان یرکع رفع یدیہ وحین رفع رأسہ من الرکوع رفع یدیہ ووضع کفیہ‘‘
ترجمہ:’’ سیدنا وائل (بن حجر رضی اللہ عنہ ) الحضرمی سے روایت ہے کہا میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے نماز پڑھی۔ پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تکبیر کہی۔ جب کہ داخل ہوئے( نماز میں) اور دونوں ہاتھ اٹھائے اور جبکہ ارادہ کیا یہ کہ رکوع کریں، تو اپنے دونوں ہاتھ اٹھائے اور جب رکوع سے اپنا سر اٹھایا تو اپنے دونوں ہاتھ اٹھائے اور دونوں ہتھیلیاں رکھیں‘‘
اس حدیث میں اخیر کا لفظ کہ’’دونوں ہتھیلیاں رکھیں‘‘ اس سے رکوع کے بعد ہاتھ باندھنے پر استدلال کیا ہے۔ حالانکہ دونوں ہتھیلیوں کا رکھنا زمین پر مراد ہے۔ چنانچہ اس کے بعد جن الفاظ کو حذف کر دیا ہے اس سے صاف ظاہر ہے کہ یہاں زمین پر سجدے میں رکھنا مراد ہے۔
چنانچہ پوری عبارت یوں ہے:
’’ووضع کفیہ وجافی وفرش فخذہ الیسریٰ واشارہ باصبعہ السبابۃالسبابة‘‘
ترجمہ:’’یعنی دونوں ہتھیلیاں رکھیں اور پہلوئوں سے دور کیا، اور بائیں ران بچھا دی، اور اشارہ کیا ساتھ انگلی اپنی سبابہ کے‘‘
اس حدیث میں اختصار بہت ہے۔ پہلوئووں سے دور کرنے سے مراد ہاتھوں کا دور کرنا ہے۔ جو سجدے کی حالت ہے، اور سجدے میں ہتھیلیاں زمین پر رکھی جاتی ہیں۔ اور بائیں ران کا بچھانا، یہ قعدے کی حالت ہے اور بائیں ران کے بچھانے کا مطلب یہ ہے کہ دائیں ران نہیں بچھائی اور اس قعدے کی حالت میں سبابہ انگلی کے ساتھ اشارہ کیا۔
مولوی بدیع الدین صاحب نے اخیر کا ٹکڑا حذف کرتے ہوئے اس حدیث کو بعد رکوع ہاتھ باندھنے کی دلیل بنا لیا ۔ اس کے علاوہ مولوی بدیع الدین صاحب نے یہ بھی نہیں سوچا کہ یہ حدیث مسند احمد کی ہے ۔تو اگر اس حدیث سے رکوع کے بعد ہاتھ باندھنا ثابت ہوتا تو امام احمد رحمہ اللہ اس کی مخالفت کیوں کرتے ۔ حالانکہ ان کا فتویٰ اس کے خلاف ہے۔ چنانچہ صفحہ ۱۵ پر تفصیل گذر چکی ہے۔ اس قسم کی بے احتیاطی علماء کی شان کے لائق نہیں، اللہ بچائے۔ آمین۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
تنبیہ:
آج کل ایک اور نیا فرقہ پیدا ہوا ہے وہ نہ ہاتھ چھوڑتے ہیں اور نہ باندھتے ہیں ۔ بلکہ سجدہ جانے تک ہاتھ کانوں تک اٹھائے رکھتے ہیں اور اس کی دلیل میں یہ حدیث پیش کرتے ہیں جو بخاری و مسلم میں ہیں:
’’واذا رفع رأسہ من الرکوع رفعھما کذلک وقال سمع اللہ لمن حمدہ ربنا ولک الحمد‘‘
ترجمہ:’’ یعنی جس وقت رکوع سے سر اٹھاتے تو اسی طرح ہاتھ اٹھائے جیسے رکوع کو جانے کے وقت اٹھتے تھے، اور کہتے ’’سمع اللہ الخ‘‘
اس حدیث کا مطلب یہ بیان کیا جاتاہے کہ’’سمع اللہ الخ‘‘ رفع کی حالت میں کہتے تو گویا’’سمع اللہ الخ‘‘اخیر تک ہاتھ اٹھائے رکھنے چاہئیں۔ یہ مطلب آج تک کسی نے بھی بیان نہیں کیا۔ یہ بالکل سلف کے خلاف ہے۔ بلکہ دوسری احادیث بھی اس کے خلاف ہیں۔
مسیٔ الصلوۃ کی حدیث میں ہے جس کے راوی ابو حمید الساعدی رضی اللہ عنہ ہیں:
’’رکع ثم اعتدل فلم یصب رأسہ ولم یقنعہ ووضع یدیہ علی رکبتیہ ثم قال سمع اللہ لمن حمدہ ثم رفع واعتدل حتی رجع کل عظم فی موضعہ معتدلا‘‘ (مسند احمد جدل ۵ صفحہ ۴۲۴)
ترجمہ:’’ پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رکوع کیا۔ پھر ٹھیک ہوگئے۔ پس نہ سر کو نیچے کیا اور نہ اٹھائے رکھا اور دونوں ہاتھ اپنے گٹھنوں پر رکھے پھر کہا ’’ سمع اللہ لمن حمدہ الخ ‘‘ پھر سر اٹھایا اور ٹھیک ہوگئے، یہاں تک کہ ہر ہڈی اپنے ٹھکانے آگئی۔ اس حال میں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ٹھیک ہونے والے تھے‘‘
اسی روایت میں ’’ سمع اللہ لمن حمدہ‘‘ پہلے کہنے کا ذکر ہے ،پھر سر اٹھانے کا پس یہ کہنا کیوں کر صحیح ہوگا کہ’’ سمع اللہ لمن حمدہ‘‘ رفع کی حالت میں ختم ہونا چاہیئے۔ پس اصل یہ ہے کہ اس میں کوئی پابندی نہیں کہ ضرور’’ سمع اللہ لمن حمدہ‘‘ رفع کی حالت میں ہو۔ بلکہ آگے پیچھے ہونے کا کوئی حرج نہیں۔ رہا سجدہ جانے تک ہاتھ اٹھائے رکھنا تو یہ محدث (بدعت)اور نیا مذہب ہے سلف سے اس کا کوئی ثبوت نہیں۔ ایسے لوگوں سے بچنا چاہیئے۔ آمین
 
Top