• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

"ازدواجی زندگی،،، مقاصد، تعلیمات، اور حقوق"

شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
11018927_815757055127188_1070336118894095807_n (1).png


فضیلۃ الشیخ پروفیسر ڈاکٹرعلی بن عبد الرحمن الحذیفی حفظہ اللہ نے08 جمادی اولی 1436 کا خطبہ جمعہ بعنوان

"ازدواجی زندگی،،، مقاصد، تعلیمات، اور حقوق"

ارشاد فرمایا جس میں انہوں نے ان نکات پر گفتگو کی:


٭ مقصد کائنات اور انسان کی ذمہ داری
٭ انسانی تخلیق کا پہلا مرحلہ
٭ انسانی زندگی میں والدین کی اہمیت
٭ نکاح انبیاء کی سنت
٭ نکاح کیلئے ترغیب
٭ نکاح کے فوائد
٭ شریک حیات کے چناؤ کیلئے رہنما اصول
٭ شادی کیلئے لڑکی کی رضا مندی
٭ لڑکیوں کے حق میں ولی کی طرف سے ہونیوالی غلطیاں
٭ شادی سے قبل طرفین خود سے استخارہ کریں
٭ شادی کو آسان بنائیں
٭ شادی کے مقدس بندھن کا تحفظ
٭ زوجین کے حقوق
٭ عائلی زندگی کیلئے رہنما اصول
٭ دعوت ولیمہ کیلئے نصیحتیں
٭ شادی کے خواہش مند افراد کی معاونت، اور اسکے لئے جدید دور کے مطابق مشورے۔


پہلا خطبہ:

تمام تعریفیں اللہ کیلئے ہیں، اسی نے پیدا اور درست انداز میں استوار کیا، وہی صحیح اندازے کے مطابق رہنمائی کرتا ہے، میں اپنے رب کی حمد خوانی اور شکر بجا لاتا ہوں، اسی کی طرف رجوع اور بخشش چاہتا ہوں، میں یہ گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبودِ بر حق نہیں وہ یکتا ہے ، وہی بلند و بالا ہے، اور میں یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ ہمارے نبی سیدنا محمد اللہ کے بندے ، اور چنیدہ رسول ہیں، یا اللہ! اپنے بندے ، اور رسول محمد ، انکی اولاد اور متقی و نیکو کار صحابہ کرام پر اپنی رحمتیں ، سلامتی اور برکتیں نازل فرما۔


حمد و صلاۃ کے بعد:

حکمِ الہی کے مطابق تقوی اختیار کرو، اور جن امور سے اس نے روکا ہے، ان سے رک جاؤ۔

اللہ کے بندو!

تمہارے رب نے اس کائنات کو ایک مقررہ وقت تک کیلئے آباد کرنے کا شرعی اور کونی ارادہ فرمایا، اور یہ آباد کاری باہمی تعاون، اتحاد و اتفاق ، اور زندگی کی بنیاد عدل و انصاف پر مبنی مفید اصولوں پر رکھنے کی وجہ سے ہی ممکن ہے۔

انسان کو اس زمین پر نائب بنایا گیا کہ زمین پر آباد کاری کیلئے بڑھ چڑھ کر حصہ لے، اور یہاں رہتے ہوئے اللہ کی عبادت کرے، کیونکہ انسان کی خوشحالی کا راز اللہ کی بندگی اور بد بختی اللہ کی نافرمانی میں ہے،

اللہ تعالی کا فرمان ہے:

{وَمَنْ يُطِعِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَيَخْشَ اللَّهَ وَيَتَّقْهِ فَأُولَئِكَ هُمُ الْفَائِزُونَ}

جو شخص اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرے، اللہ سے ڈرے، اور اس کی نا فرمانی سے بچتا رہے تو ایسے ہی لوگ با مراد ہیں [النور : 52]

اسی طرح فرمایا:

{وَمَنْ يَعْصِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَيَتَعَدَّ حُدُودَهُ يُدْخِلْهُ نَارًا خَالِدًا فِيهَا وَلَهُ عَذَابٌ مُهِينٌ}

اور جو اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کرے اور اللہ کی حدود سے آگے نکل جائے اللہ اسے دوزخ میں داخل کرے گا جس میں وہ ہمیشہ رہے گا اور اسے رسوا کرنے والا عذاب ہوگا [النساء : 14]

ایک مقام پر فرمایا:

{وَلَوِ اتَّبَعَ الْحَقُّ أَهْوَاءَهُمْ لَفَسَدَتِ السَّمَاوَاتُ وَالْأَرْضُ وَمَنْ فِيهِنَّ}

اور اگر حق ان کی خواہشات کے مطابق ہوتا تو یہ زمین و آسمان اور ان میں جو کچھ ہے ان سب کا نظام درہم برہم ہو جاتا [المؤمنون : 71]

اس دنیا میں انسان کی تخلیق کا سب سے پہلا مرحلہ اللہ اور اسکے رسول کے طریقے کے مطابق بیوی کا حصول ہے، خاوند و بیوی میں باہمی تعاون، پیار، انس، اور محبت کامل ترین صورت میں ہوتی ہے، انکے مقاصد و اہداف یکساں ہوتے ہیں، میاں بیوی باہمی تعلقات کے دوران عظیم تعمیری اور فطرتی تسکین حاصل کرتے ہیں، اور نیک اولاد کی صورت میں بلند اہداف و مقاصد حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

بیوی نسلوں کی پرورش گاہ، نو مولود بچوں کیلئے پہلی درس گاہ، اور بچوں کی تعمیری رہنمائی و اصلاح کیلئے تربیت گاہ ہے۔

ماں اور باپ کا اپنی اولاد پر ہمیشہ اثر رہتا ہے، حقیقت میں یہی دونوں کسی بھی اچھے معاشرے کی بنیادی اینٹ کی حیثیت رکھتے ہیں، بشرطیکہ کہ والدین نیک ہوں۔

والدین چھوٹے بچوں کیلئے پیار، رحمت، شفقت، محبت، اور الفت کا گہوارہ ہیں۔

اصل میں رشتہ داری اور قرابت داری یہ ہے کہ جس کی وجہ سے باہمی تعاون، شفقت، کفالت، ربط، محبت، اور حوادثات زمانہ میں ایک دوسرے کا خیال رکھا جائے۔

نکاح ازلی طریقہ ہے، اس کے ان گنت فوائد ، اور لا متناہی برکتیں ہیں، نکاح ایسے ابدی طریقوں میں سے ہے جس کے فوائد کبھی ختم نہیں ہونگے۔

نکاح انبیائے کرام، اور رسولوں کی سنت ہے،

فرمانِ باری تعالی ہے:

{وَلَقَدْ أَرْسَلْنَا رُسُلًا مِنْ قَبْلِكَ وَجَعَلْنَا لَهُمْ أَزْوَاجًا وَذُرِّيَّةً}

اور یقیناً ہم نے آپ سے پہلے بھی رسول بھیجے، اور ہم نے ان کیلئے بیویاں اور اولاد بھی بنائی[الرعد : 38]

اسی طرح مؤمنوں کی صفات ذکر کرتے ہوئے فرمایا:

{وَالَّذِينَ يَقُولُونَ رَبَّنَا هَبْ لَنَا مِنْ أَزْوَاجِنَا وَذُرِّيَّاتِنَا قُرَّةَ أَعْيُنٍ وَاجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِينَ إِمَامًا}

اور وہ لوگ جو کہتے ہیں: اے ہمارے پروردگار! ہمیں ہماری بیویوں، اور اولاد سے آنکھوں کی ٹھنڈک عطا فرما، اور ہمیں متقی لوگوں کا پیشوا بنا۔[الفرقان : 74]

بلکہ نکاح کا حکم دیتے ہوئے فرمایا:

{وَأَنْكِحُوا الْأَيَامَى مِنْكُمْ وَالصَّالِحِينَ مِنْ عِبَادِكُمْ وَإِمَائِكُمْ إِنْ يَكُونُوا فُقَرَاءَ يُغْنِهِمُ اللَّهُ مِنْ فَضْلِهِ وَاللَّهُ وَاسِعٌ عَلِيمٌ}

اور تم میں سے جو لوگ غیر شادی شدہ ہیں ان کے نکاح کر دو ، اور اپنی نیک صالح لونڈی، غلاموں کے بھی ،اگر وہ محتاج ہیں تو اللہ اپنی مہربانی سے انھیں غنی کر دے گا، اور اللہ بڑی وسعت والا اور جاننے والا ہے [النور : 32]

اور عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

(نوجوانو! جو تم میں سے نکاح کے خرچ کی استطاعت رکھتا ہے، تو وہ نکاح کر لے؛ کیونکہ اس سے نظریں نیچی، اور شرمگاہ کا تحفظ حاصل ہوتا ہے، اور جو نکاح کی طاقت نہیں رکھتا تو وہ روزے رکھے، اس طرح اسکی شہوت کم ہو جائے گی) بخاری و مسلم


حدیث میں مذکور "الباءۃ" سے مراد حق مہر، نان و نفقہ، اور رہائش کے اخراجات ہیں، جو ان کی استطاعت نہیں رکھتا اور اسے نکاح کی ضرورت بھی ہے تو وہ روزے رکھے، روزوں کا اسے ثواب بھی ملے گا، اور شہوت بھی کم ہوگی، اور اللہ کی طرف سے شادی میسر ہونے تک روزے ہی رکھتا رہے۔


انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ:

کچھ لوگوں نے امہات المؤمنین سے آپکی تنہائی کی عبادات سے متعلق استفسار کیا، تو ان میں سے کچھ نے کہا: "میں شادی نہیں کرونگا"، اور کچھ نے کہا: "میں گوشت نہیں کھاؤں گا"، اور کچھ نے کہا کہ : "میں بستر پر آرام نہیں کرونگا" انکی یہ باتیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حمد و ثنا کے بعد فرمایا: (لوگوں کو کیا ہو گیا ہے!؟ انہوں نے کچھ ایسی ویسی باتیں کیں ہیں! لیکن میں [رات کو] نماز بھی پڑھتا ہوں، اور آرام بھی کرتا ہوں، [نفلی]روزے رکھتا بھی ہوں، اور چھوڑتا بھی ہوں، اور شادیاں بھی کی ہوئیں ہیں، جو شخص بھی میری سنت سے اعراض کرے، تو وہ مجھ سے نہیں ) بخاری مسلم
 
Last edited:
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
اسلام نے نکاح کی استطاعت اور ضرورت رکھنے والے پر اسے واجب قرار دیا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ :

(محبت کرنے والی اور بچے جننے والی عورتوں سے شادی کرو، یقیناً میں تمہاری کثرت کی وجہ سے قیامت کے دن دیگر انبیاء پر فخر کرونگا) اسے احمد نے روایت کیا ہے، اور ابن حبان نے انس رضی اللہ عنہ سے اسے روایت کیا ہے اور صحیح قرار دیا ہے۔


نکاح زوجین کیلئے پاکیزگی اور عفت کا باعث ہے، اسی کی بدولت معاشرے کی اصلاح ہوگی، اور انحراف سے تحفظ ملے گا،

فرمانِ باری تعالی ہے:

{وَإِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَاءَ فَبَلَغْنَ أَجَلَهُنَّ فَلَا تَعْضُلُوهُنَّ أَنْ يَنْكِحْنَ أَزْوَاجَهُنَّ إِذَا تَرَاضَوْا بَيْنَهُمْ بِالْمَعْرُوفِ ذَلِكَ يُوعَظُ بِهِ مَنْ كَانَ مِنْكُمْ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ ذَلِكُمْ أَزْكَى لَكُمْ وَأَطْهَرُ وَاللَّهُ يَعْلَمُ وَأَنْتُمْ لَا تَعْلَمُونَ}

نیز جب تم عورتوں کو طلاق دو اور وہ اپنی عدت کو پہنچ جائیں تو انہیں اپنے (پہلے) خاوندوں سے نکاح کرنے سے نہ روکو جبکہ وہ معروف طریقے سے آپس میں نکاح کرنے پر راضی ہوں ، جو کوئی تم میں سے اللہ پر اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہے اسے اسی بات کی نصیحت کی جاتی ہے، یہی تمہارے لیے شائستہ اور پاکیزہ طریقہ ہے؛(اپنے احکام کی حکمت) اللہ ہی جانتا ہے تم نہیں جانتے [البقرة : 232]


نکاح معاشرے کو زنا، اور لواطت سے تحفظ فراہم کرتا ہے، اور کسی بھی علاقے میں زنا عام ہو جائے تو وہاں پر غربت اور ذلت گھر کر جاتے ہیں، اور وہاں ایسی بیماریاں پھوٹ پڑتی ہیں جو پہلے لوگوں میں نہیں تھیں، مزید بر آں کہ زنا کاروں کیلئے آخرت میں عذاب و رسوائی بھی ہوگی،

فرمانِ باری تعالی ہے:

{وَالَّذِينَ لَا يَدْعُونَ مَعَ اللَّهِ إِلَهًا آخَرَ وَلَا يَقْتُلُونَ النَّفْسَ الَّتِي حَرَّمَ اللَّهُ إِلَّا بِالْحَقِّ وَلَا يَزْنُونَ وَمَنْ يَفْعَلْ ذَلِكَ يَلْقَ أَثَامًا (68) يُضَاعَفْ لَهُ الْعَذَابُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَيَخْلُدْ فِيهِ مُهَانًا }

اور وہ لوگ اللہ کے ساتھ کسی اور الٰہ کو نہیں پکارتے نہ ہی اللہ کی حرام کی ہوئی کسی جان کو ناحق قتل کرتے ہیں اور نہ زنا کرتے ہیں اور جو شخص ایسے کام کرے گا ان کی سزا پاکے رہے گا[68] قیامت کے دن اس کا عذاب دگنا کر دیا جائے گا اور ذلیل ہو کر اس میں ہمیشہ کے لئے پڑا رہے گا۔ [الفرقان : 68 - 69]

لواطت کا ارتکاب کرنے والے کا دل تباہ، فطرت الٹ، نفس خبیث ، اور اخلاق بگڑ جاتا ہے، اسے دنیا و آخرت میں شدید ترین سزا دی جاتی ہے، اور ہم قوم لوط پر نازل ہونے والی سزائیں جانتے ہیں، جو ان سے پہلے کسی اور قوم کو نہیں دی گئیں ، ان پر کھنگر پتھروں کی بارش کی گئی، جبریل علیہ السلام نے ان کے علاقوں کو آسمان تک اٹھا کر الٹا گرایا، اور سب کو تہ و بالا کر دیا، اور اللہ تعالی نے ان پر پتھر بھی برسائے، نیز انہیں مخلد فی النار ٹھہرایا۔

اس جرم کی سنگینی کے باعث نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

(لواطت کرنے والے پر اللہ تعالی کی لعنت ہو، لواطت کرنے والے پر اللہ تعالی کی لعنت ہو، لواطت کرنے والے پر اللہ تعالی کی لعنت ہو)

نکاح :

زنا و لواطت سے تحفظ ، دلی پاکیزگی اور تزکیہ نفس کا باعث ہے، اور عبادتِ الہی اور زمینی آباد کاری کیلئے مسلسل نسلیں پیدا ہونے کا ذریعہ ہے۔

شرعی طور پر خاوند کو با اخلاق، دیندار، اور خوبصورت بیوی اختیار کرنے کا حق ہے، اس بارے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:

(عورت سے شادی چار چیزوں کی بنا پر کی جاتی ہے، مال، حسب نسب، خوبصورتی، اور دین کی وجہ سے، تم دیندار خاتون تلاش کرو، [اگر تم نہ مانو تو]تمہارے ہاتھ خاک آلود ہوں) اسے بخاری و مسلم نے ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے۔

اسی طرح عورت کو دیندار اور با اخلاق خاوند اختیار کرنا چاہیے، چنانچہ ایک حدیث میں ہے کہ ایک آدمی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا کہ میں اپنی بیٹی کی شادی کس سے کروں؟ تو آپ نے فرمایا: (کسی متقی سے اس کی شادی کرو، کیونکہ اگر وہ اس سے محبت کریگا تو اس کی عزت کریگا، اور اگر ناپسند ہوگی تو ظلم نہیں کریگا)

کسی بھی لڑکی کو اسے ناپسند لڑکے کیساتھ شادی پر مجبور نہ کیا جائے، بلکہ لڑکی کی رضا مندی بھی ضروری ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:

(بیوہ کا نکاح اس کے مشورے کے بغیر نہ کیا جائے، اور کنواری کی شادی اس کی اجازت کے بغیر نہ کی جائے) صحابہ کرام نے کہا: "اللہ کے رسول! اس کی اجازت کیسے پتہ چلے گی؟" تو آپ نے فرمایا: (اس کی خاموشی اسکی اجازت ہے) اسے بخاری و مسلم نے ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے۔

اگر اچھا رشتہ آئے اور لڑکی بھی نکاح کے قابل ہو تو لڑکی کا ولی نکاح میں تاخیر مت کرے، کیونکہ یہ اس کے پاس امانت ہے، اور قیامت کے دن اس کے بارے میں استفسار بھی ہوگا۔


ولی لڑکی کی پڑھائی کی وجہ سے رشتے میں تاخیر مت کرے، کیونکہ دونوں پڑھائی جاری رکھنا چاہیں تو ایک دوسرے کا تعاون کر سکتے ہیں، اسی طرح اُسے اپنی بقیہ زندگی میں شادی کی تاخیر کے باعث نقصان بھی اٹھانا پڑ سکتا ہے۔


اسی طرح ولی رشتہ مانگنے والوں کو لڑکی کی ملازمت سے ملنے والی تنخواہ کھانے کیلئے مسترد نہ کرے، کیونکہ اس لالچ کی وجہ سے لڑکی ضائع ہو جائے گی، اور نعمتِ اولاد سے محروم رہے گی، یہ حقیقت میں عورت پر زیادتی ہے، بسا اوقات اپنے ولی کے خلاف وہ بد دعا بھی کر سکتی ہے، جس کی وجہ سے ولی کو ناکامی کا سامنا کرنے پڑ سکتا ہے، اور یہ مال اسے قبر میں کوئی فائدہ بھی نہیں دے گا۔


لڑکی اور لڑکے کیلئے نکاح سے قبل استخارہ کرنا بھی شرعی عمل ہے، اس میں استخارے کی مخصوص دعا مانگی جائے گی۔

اسی طرح حق مہر کے تعین کیلئے میانہ روی اختیار کرنا شریعت کا تقاضا ہے، تا کہ بیوی کو فائدہ بھی ہو ، اور خاوند پر زیادتی بھی نہ ہو،

کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:

(بہترین حق مہر وہ ہے جو آسان ترین ہو) اسے ابو داود، اور حاکم نے عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے۔

اور ایک حدیث میں یہ بھی ہے کہ:


(بہترین اور سب سے بابرکت بیوی وہ ہے جس کا حق مہر آسان ہو)


ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ جب علی رضی اللہ عنہ کی شادی فاطمہ رضی اللہ عنہا سے ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں فرمایا:

(فاطمہ کو کچھ دو) تو علی رضی اللہ عنہ نے کہا: "میرے پاس دینے کیلئے کچھ نہیں ہے"، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (تمہاری حطمی ذرہ کہاں ہے؟) ابو داود اور نسائی نے روایت کیا ہے، اور حاکم نے اسے صحیح کہا ہے۔

اور ذرہ کی قیمت بہت تھوڑی ہوتی ہے، جو کہ چند درہموں سے زیادہ نہیں ہوتی، حالانکہ فاطمہ رضی اللہ عنہا دونوں جہانوں کی خواتین کی سردار ہیں۔


شادی میں آسانی کیلئے سلف صالحین کے واقعات بہت زیادہ ہیں، جن کیلئے کافی وقت درکار ہوگا۔


شادی کے بعد اللہ تعالی میاں بیوی کو بہت سی نعمتوں سے نوازتا ہے،

چنانچہ حدیث میں ہے کہ:

(جو شخص شادی کر لے تو اسکا آدھا دین مکمل ہو گیا، اور باقی نصف میں اللہ سے ڈرے)

میاں بیوی کو ازدواجی بندھن قائم رکھنے کی بھر پور کوشش کرنی چاہیے، کہ کہیں یہ ٹوٹنے نہ پائے، کیونکہ یہ ایک عظیم رشتہ ہے۔


خاوند کی ذمہ داری ہے کہ اپنی بیوی کے حقوق ادا کرے، چنانچہ بیوی کے مقام و مرتبہ کے لحاظ سے رہائش، اور نان و نفقہ کا انتظام کرے، اور اسے اپنی جمع پونجی خرچ نہ کرنے دے، چاہے وہ مالدار یا ملازمت پیشہ ہی کیوں نہ ہو، ہاں اگر اپنی خوشی سے کرے تو یہ اس کی مرضی ہے، لہذا اگر کوئی خاتون خرچے کے معاملے میں اپنے خاوند کا ہاتھ بٹاتی ہے ، تو اس پر اسے اجر ضرور ملے گا۔


خاوند بیوی کیساتھ کامل حسن معاشرت سے پیش آئے، اچھا سلوک کرے، اور قولی ہو یا فعلی کوئی بھی بد سلوکی مت کرے۔


نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:

(تم میں سے بہتر وہ ہے جو اپنے اہل خانہ کیلئے بہتر ہے، اور میں اپنے اہل خانہ کیلئے تم سے بہتر ہوں)

بیوی کو چاہیے کہ خاوند کے حقوق ادا کرے، اس کے ساتھ حسن معاشرت سے پیش آئے، نیکی کے کاموں میں اس کی اطاعت کرے، اسے تنگ نہ کرے، اس کے بچوں، والدین، اور رشتہ داروں کا خیال کرے، خاوند کے مال اور عدم موجودگی [میں گھر ]کی حفاظت کرے۔


عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

"اللہ تعالی ایسی خاتون کی طرف نہیں دیکھے گا جو اپنے خاوند کا شکریہ ادا نہیں کرتی، حالانکہ اسے خاوند کے بغیر کوئی چارہ نہیں" اسے حاکم نے روایت کیا ہے، اور اسے صحیح الاسناد قرار دیا ہے۔

اور ایک حدیث میں ہے کہ :

(جب کوئی خاتون پانچوں نمازیں پڑھے، رمضان کے روزے رکھے، اپنی شرمگاہ کی حفاظت کرے، خاوند کی اطاعت کرے تو اسے کہا جائے گا، جنت میں جس دروازے سے داخل ہونا چاہو داخل ہو جاؤ)

میاں بیوی کو اختلافات شروع ہوتے ہی ختم کر دینے چاہییں، تا کہ یہ لڑائی اور شر کا باعث نہ بنیں، اور طلاق کی نوبت نہ آئے، کیونکہ شیطان طلاق سے بہت زیادہ خوش ہوتا ہے، اور نتیجۃ خاندان اجڑ جاتا ہے، اولاد منحرف اور بکھر جاتی ہے۔

میاں بیوی کو چاہیے کہ ایک دوسری کی کمی کوتاہی پر صبر کریں، کیونکہ معاملات سدھارنے کیلئے صبر جیسا کوئی اکسیر نہیں، اس لئے کہ صبر کے نتائج قابل ستائش ہوتے ہیں،

اللہ تعالی کا فرمان ہے:

{وَعَاشِرُوهُنَّ بِالْمَعْرُوفِ فَإِنْ كَرِهْتُمُوهُنَّ فَعَسَى أَنْ تَكْرَهُوا شَيْئًا وَيَجْعَلَ اللَّهُ فِيهِ خَيْرًا كَثِيرًا}

اور ان کے ساتھ اچھے طریقے سے رہن سہن رکھو،اگر تم انہیں ناپسند کرو؛ تو بہت ممکن ہے کہ تم کسی چیز کو برا جانو اور اللہ تعالیٰ اس میں بہت بھلائی پیدا کر دے [النساء : 19]

اور ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

(کوئی مؤمن مرد کسی مؤمن عورت سے بغض نہ رکھے، اگر اس کی کوئی ایک بات ناگوار گزرے تو دیگر خوبیوں سے راضی ہو جائے) مسلم

اور جس کیلئے ابتدائی طور پر شادی کرنا مشکل ہو تو عفت و صبر کا دامن مت چھوڑے، اور اپنے آپ کو تنہائی کی بری اور حرام عادتوں ، زنا، اور غیر فطری عمل سے بچائے، حتی کہ اللہ تعالی شادی کیلئے آسانی فرما دے،

اللہ تعالی کا فرمان ہے:

{وَلْيَسْتَعْفِفِ الَّذِينَ لَا يَجِدُونَ نِكَاحًا حَتَّى يُغْنِيَهُمُ اللَّهُ مِنْ فَضْلِهِ }

اور جو نکاح کرنے کے وسائل نہ پائیں انہیں چاہیے کہ پاک دامنی اختیار کریں یہاں تک کہ اللہ اپنے فضل سے ان کو غنی کر دے [النور : 33]
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
لوگوں کو دعوتِ ولیمہ میں فضول خرچی سے مکمل اجتناب کرنا چاہیے:

اللہ تعالی کا فرمان ہے:

{ وَلَا تُبَذِّرْ تَبْذِيرًا [26] إِنَّ الْمُبَذِّرِينَ كَانُوا إِخْوَانَ الشَّيَاطِينِ}

فضول خرچی بالکل مت کرو[26] کیونکہ فضول خرچی کرنے والے شیطانوں کے بھائی ہیں اور شیطان اپنے پروردگار کا ناشکرا ہے۔ [الإسراء : 27-26]

اگر ولیمہ کے کھانے میں سے کچھ بچ جائے تو اسے پھینکنا جائز نہیں ہے، بلکہ ایسے لوگوں تک پہنچایا جائے جو اس سے مستفید ہوں اور کھا لیں، اس کیلئے ایسے لوگوں کی خدمات حاصل کی جا سکتی ہیں جو مستحقین تک اس کھانے کو پہنچائیں۔

اللہ تعالی کا فرمان ہے:

{وَاللَّهُ جَعَلَ لَكُمْ مِنْ أَنْفُسِكُمْ أَزْوَاجًا وَجَعَلَ لَكُمْ مِنْ أَزْوَاجِكُمْ بَنِينَ وَحَفَدَةً وَرَزَقَكُمْ مِنَ الطَّيِّبَاتِ أَفَبِالْبَاطِلِ يُؤْمِنُونَ وَبِنِعْمَتِ اللَّهِ هُمْ يَكْفُرُونَ}

اللہ نے تمہارے لئے تمہی میں سے بیویاں بنائیں اور تمہاری بیویوں سے تمہارے لیے بیٹے اور پوتے بنائے اور تمہیں پاکیزہ چیزوں کا رزق عطا کیا۔ کیا پھر وہ باطل (معبودوں) پر یقین رکھتے اور اللہ کی نعمتوں کا انکار کرتے ہیں؟ [النحل : 72]


اللہ تعالی میرے اور آپ سب کیلئے قرآن کریم کو خیر و برکت والا بنائے، مجھے اور آپ سب کو اسکی آیات سے مستفید ہونے کی توفیق دے، اور ہمیں سید المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت و ٹھوس احکامات پر چلنے کی توفیق دے، میں اپنی بات کو اسی پر ختم کرتے ہوئے اللہ سے اپنے اور تمام مسلمانوں کے گناہوں کی بخشش چاہتا ہوں، تم بھی اسی سے گناہوں کی بخشش مانگو ۔


دوسرا خطبہ

تمام تعریفات اللہ کیلئے ہیں جو غالب اور بخشنے والا ہے، وہی بردبار، اور قدر دان ہے، میں اپنے رب کی حمد اور شکر بجا لاتا ہوں، اسی کی طرف رجوع کرتا ہوں اور بخشش طلب کرتا ہوں، اور میں گواہی دیتا ہوں کہ اسکے علاوہ کوئی معبودِ بر حق نہیں وہ اکیلا اور یکتا ہے ، اسی کی شاہی ، اسی کی حمد ہے، اور وہی ہر چیز پر قادر ہے، اور میں یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ ہمارے نبی اور سربراہ محمد اسکے بندے اور رسول ہیں، آپ خوش خبری دینے والے، اور ڈرانے والے ہیں، یا اللہ !اپنے بندے اور رسول محمد ، انکی آل ، اور نیکیوں کیلئے بڑھ چڑھ کر حصہ لینے والے صحابہ کرام پر اپنی رحمت ، سلامتی اور برکتیں نازل فرما۔


حمد و صلاۃ کے بعد:

اطاعتِ الہی بجا لاتے ہوئے تقوی الہی اختیار کرو، غضب و معصیتِ الہی سے بچو، کیونکہ کامیاب لوگ تقوی الہی کے ذریعے ہی کامیاب ہوتے ہیں، اور نقصان اٹھانے والے لوگ شریعتِ الہی سے رو گردانی کے باعث ہی ناکام ہوتے ہیں۔


اللہ کے بندو!

نیکیوں کے راستے بہت زیادہ، اور جنت کے راستے بہت کشادہ ہیں، کامیاب وہی ہے جو نیکی کے ہر دروازے پر دستک دے، اور محروم وہی ہے جو نیکیوں سے بے رغبت ہو، اور گناہوں کا دلدادہ ہو۔

جو شخص اپنے لئے اور مسلمانوں کیلئے مالی طور پر احسان کرے تو اللہ تعالی اس کے مال میں برکت عطا فرماتا ہے، خرچ شدہ سے بھی بہتر عطا فرماتا ہے،

اللہ تعالی کا فرمان ہے:

{ وَمَا أَنْفَقْتُمْ مِنْ شَيْءٍ فَهُوَ يُخْلِفُهُ وَهُوَ خَيْرُ الرَّازِقِينَ}

اور جو کچھ بھی تم خرچ کرو تو اللہ تمہیں واپس لوٹا دے گا، اور وہ بہترین رزق دینے والا ہے[سبأ : 39]

اسی طرح فرمایا:

{يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَنْفِقُوا مِمَّا رَزَقْنَاكُمْ مِنْ قَبْلِ أَنْ يَأْتِيَ يَوْمٌ لَا بَيْعٌ فِيهِ وَلَا خُلَّةٌ وَلَا شَفَاعَةٌ وَالْكَافِرُونَ هُمُ الظَّالِمُونَ}

اے ایمان والو! جو ہم نے تمہیں دیا ہے اس میں سے خرچ کرو، قبل از کہ ایسا دن آئے جس میں لین دین، دوستی، سفارش کچھ نہیں ہوگا، اور کافر ہی حقیقت میں ظالم ہیں۔[البقرة : 254]

اور حدیث میں ہے کہ :

(صدقہ مال میں کمی کا باعث نہیں بنتا، اور معاف کرنے سے اللہ تعالی انسان کی عزت ہی بڑھاتا ہے)

نیکی کا دروازہ یہ بھی ہے کہ مالدار لوگ شادی کے خواہشمند افراد کا تعاون کریں، اس سلسلے میں قرض، عطیات فراہم کریں، اس کیلئے خصوصی فنڈ قائم کیا جائے، اس خیراتی کام کیلئے سرمایہ لگائیں، اور اس پر مکمل توجہ دیں، اور اس سے حاصل ہونے والے منافع کو مستحقین تک پہنچائیں، کیونکہ بہت سے نوجوانوں کی شادیاں مالی زبوں حالی کی وجہ سے ہی تاخیر کا شکار ہوتی ہیں۔


اللہ تعالی کا فرمان ہے:

{ وَأَحْسَنُوا وَاللَّهُ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ}

احسان کرو، اللہ تعالی احسان کرنے والوں سے محبت کرتا ہے۔[المائدة : 93]

صاحب استطاعت والد کیلئے اپنے بچوں کی شادی کرنا ضروری ہے، تا کہ بچوں کا حق ادا ہو سکے، اور بچوں کیلئے فتنوں سے تحفظ حاصل ہو۔


مسلمانو!


اللہ تبارک و تعالی نے تمہیں ایک ایسے کام کا حکم دیا ہے، جس کی ابتدا خود اللہ تعالی نے فرمائی،

اور بتلایا:

{إِنَّ اللَّهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًا}

یقینا اللہ اور اسکے فرشتے نبی پر درود بھیجتے ہیں، اے ایمان والو! تم بھی ان پر درود و سلام پڑھو[الأحزاب: 56]،


اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ:

جو شخص مجھ پر ایک بار درود پڑھے گا اللہ تعالی اس پر دس رحمتیں نازل فرمائے گا۔

اس لئے سید الاولین و الآخرین اور امام المرسلین پر کثرت کیساتھ درود پڑھو۔


اللهم صلِّ على محمدٍ وعلى آل محمدٍ، كما صلَّيتَ على إبراهيم وعلى آل إبراهيم، إنك حميدٌ مجيد، اللهم بارِك على محمدٍ وعلى آل محمدٍ، كما باركتَ على إبراهيم وعلى آل إبراهيم، إنك حميدٌ مجيد، وسلم تسليما كثيرا۔

یا اللہ ! تمام صحابہ کرام سے راضی ہو جا،یا اللہ! ہدایت یافتہ خلفائے راشدین ابو بکر، عمر، عثمان، اور علی سے راضی ہوجا، تابعین کرام اور قیامت تک انکے نقشِ قدم پر چلنے والے تمام لوگوں سے راضی ہوجا، یا اللہ ! انکے ساتھ ساتھ اپنی رحمت، اورکرم کے صدقے ہم سے بھی راضی ہو جا، یا ارحم الراحمین!


یا اللہ! اسلام اور مسلمانوں کو غالب فرما، یا اللہ! اسلام اور مسلمانوں کو غالب فرما، یا اللہ! اسلام اور مسلمانوں کو غالب فرما، یا اللہ! شرک اور مشرکین کو ذلیل و رسوا فرما، یا اللہ! کفر ، کفار اور منافقین کو ذلیل کر دے ، یا رب العالمین!


یا اللہ! اپنے دین، قرآن، اور سنت نبوی کو ساری دنیا میں غلبہ عطا فرما، یا قوی ! یا عزیز!


یا اللہ! تمام مسلمانوں کے دلوں میں الفت پیدا فرما، باہمی اختلافات رکھنے والوں میں صلح فرما، انہیں سلامتی کا راستہ دکھا، اور انہیں گمراہی کے اندھیروں سے روشنی کا راستہ دکھا۔


یا اللہ! امت محمدیہ پر رحم فرما، یا اللہ! ہمیں دین کی سمجھ عطا فرما، یا اللہ! ہمیں دین کی سمجھ عطا فرما، یا اللہ! مسلمانوں کو دین کی سمجھ عطا فرما، یا رب العالمین! بیشک تو ہر چیز پر قادر ہے۔


یا اللہ! ہمیں اور ہماری اولاد کو ابلیس، شیاطین اور انکے چیلوں سے محفوظ فرما، جن و انس کے شیطانوں اور انکے لشکروں سے محفوظ فرما، یا اللہ! تمام مسلمانوں کو ابلیس، شیاطین اور انکے چیلوں سے محفوظ فرما، بیشک تو ہر چیز پر قادر ہے۔


یا اللہ! یا ذالجلال و الاکرام ! ہم تجھ سے سوال کرتے ہیں کہ ملک شام میں مسلمانوں کی مشکل کشائی فرما، یا اللہ! شام کے مسلمانوں کی تکالیف اور دکھ درد ختم فرما دے، یا رب العالمین! یا اللہ! ان پر ظلم کرنے والوں کیخلاف انکی مدد فرما، یا ذالجلال و الاکرام!


یا اللہ! ہمیں حق بات اچھی طرح دکھا دے، اور پھر اتباعِ حق کی توفیق عطا فرما، اور ہمیں باطل بات اچھی طرح دکھا دے، اور پھر باطل سے بچنے کی توفیق عطا فرما، یا اللہ! اپنی رحمت کے صدقے ، ہمارے لئے باطل کے بارے میں ابہام مت رکھنا ، کہ کہیں گمراہ نہ ہوجائیں، یا ارحم الراحمین!


یا اللہ! ہمیں اور ہمارے والدین کو بخش دے، یا اللہ! ہمیں اور ہمارے والدین کو بخش دے، یا اللہ! تمام فوت شدگان کو بخش دے، یا اللہ! تمام مسلمان فوت شدگان کو بخش دے، اور انکی قبروں کو منور فرما، یا ارحم الراحمین!


یا اللہ! مسلم نوجوانوں کی اصلاح فرما، یا اللہ! مسلم نوجوانوں کی اصلاح فرما، یا رب العالمین!


یا اللہ! اپنی طرف سے اتنا حلال عطا فرما کہ حرام کی ضرورت ہی نہ پڑے، اتنی نیکیاں کرنے کی توفیق دے کہ گناہوں کی طرف توجہ ہی نہ جائے، اور اپنے فضل کا محتاج بنا کہ کسی اور کی طرف نظر ہی نہ اٹھے۔ یا رب العالمین!


یا اللہ! ہمیں نفسانی شر سے محفوظ فرما، یا اللہ! ہمیں نفسانی اور اپنے اعمال کے شر سے محفوظ فرما، اور ہمیں ہر شریر کے شر سے محفوظ فرما۔


یا اللہ! ہمارے ملک کی ہر قسم کے شر و مکر سے حفاظت فرما، یا رب العالمین!


یا اللہ! سب معاملات کا انجام ہمارے لئے بہتر بنا، اور ہمیں دنیا و آخرت کی رسوائی سے محفوظ فرما۔


یا اللہ! ہم تجھ سے جنت اور اس کے قریب کرنے والے اعمال کا سوال کرتے ہیں، اور یا اللہ! جہنم اور جہنم کے قریب کرنے والے ہر عمل سے تیری پناہ چاہتے ہیں، یا اللہ! ہم تجھ سے دنیا و آخرت میں عافیت کا سوال کرتے ہیں،


یا اللہ! خادم حرمین شریفین کو اپنے پسندیدہ کام کرنے کی توفیق عطا فرما، یا اللہ! ہر نیکی کے کام میں انکی مدد فرما، اُسکی تیری مرضی کے مطابق رہنمائی فرما، اور اسکے تمام اعمال اپنی رضا کیلئے قبول فرما، یا اللہ! اسے ہدایت یافتہ اور رہبر بنا، یا اللہ! انکے مشیروں کو تیرے پسندیدہ کام کرنے کی توفیق عطا فرما، یا اللہ! اسکے دونوں ولی عہد کو بھی تیرے پسندیدہ کام کرنے کی توفیق عطا فرما، اور انکی تیری مرضی کے مطابق رہنمائی فرما ، بیشک تو ہر چیز پر قادر ہے، اور انہیں اپنی رحمت کے صدقے اسلام اور مسلمانوں کے حق میں اچھے فیصلے کی توفیق عطا فرما، یا ارحم الراحمین!


یا اللہ! یا ذالجلال و الاکرام! تو ہمارے اگلے ، پچھلے، خفیہ، اعلانیہ، اور جن گناہوں کے بارے میں تو ہم سے بھی زیادہ جانتا ہے، سب معاف فرما دے، تو ہی آگے اور پیچھے کرنے والا ہے، تیرے علاوہ کوئی معبود نہیں ہے۔


یا اللہ! ہم تیری نعمتوں کے زوال، عافیت کے خاتمے، اچانک پکڑ، اور تیری ہر قسم کی ناراضگی سے پناہ چاہتے ہیں۔


یا اللہ! ہمیں دنیا اور آخرت میں بھلائی عطا فرما، اور ہمیں آخرت کے عذاب سے محفوظ فرما۔


اللہ کے بندو!


{إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْإِحْسَانِ وَإِيتَاءِ ذِي الْقُرْبَى وَيَنْهَى عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنْكَرِ وَالْبَغْيِ يَعِظُكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ (90) وَأَوْفُوا بِعَهْدِ اللَّهِ إِذَا عَاهَدْتُمْ وَلَا تَنْقُضُوا الْأَيْمَانَ بَعْدَ تَوْكِيدِهَا وَقَدْ جَعَلْتُمُ اللَّهَ عَلَيْكُمْ كَفِيلًا إِنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ مَا تَفْعَلُونَ}

اللہ تعالی تمہیں عدل و احسان اور قریبی رشتہ داروں کو (مال) دینے کا حکم دیتا ہے، اور تمہیں فحاشی، برائی، اور سرکشی سے روکتا ہے ، اللہ تعالی تمہیں وعظ کرتا ہے تاکہ تم نصیحت پکڑو[90] اور اللہ تعالی سے کئے وعدوں کو پورا کرو، اور اللہ تعالی کو ضامن بنا کر اپنی قسموں کو مت توڑو، اللہ تعالی کو تمہارے اعمال کا بخوبی علم ہے [النحل: 90، 91]

اللہ کا تم ذکر کرو وہ تمہیں کبھی نہیں بھولے گا، اسکی نعمتوں پر شکر ادا کرو وہ تمہیں اور زیادہ عنائت کرے گا، اللہ کا ذکر بہت بڑی عبادت ہے، اور اللہ جانتا ہے جو تم کرتے ہو۔

https://www.facebook.com/kmnurdu/posts/815757431793817:0
 
Top