• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اسباب ورود حدیث

شمولیت
اکتوبر 18، 2012
پیغامات
368
ری ایکشن اسکور
1,006
پوائنٹ
97

1-
لاتغضب ولک الجنۃ (مجمع الزوائد کتاب الأدب )
ترجمہ: غصہ نہ کرو آپ کے لئے جنت ہے ۔
سبب ورود حد یث:۔
عن ابی درداء رضی اللہ تعالی عنہ قال: قلت یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دلینی علی عمل یدخلنی الجنۃ فذکرہ۔
ترجمہ: ابو درداء رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایامیں نے کہا اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم مجھے ایک ایسے عمل کی خبر دیجئے جو مجھے جنت میں لے جائے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ غصہ نہ کرو۔
تبصرہ:۔
اس حدیث مبارکہ سے یہ بات معلوم ہوئی کہ غصہ کو روکنا جنت میں داخلے کا ضامن ہے ، کیونکہ غصہ انسان کو حق تلفی اور زیادتی کی طرف رغبت کرتا ہے اسی لئے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے غصہ کرنے سے منع فرمایا ۔
2-
لاتقبل صلاۃ بغیر طھور ولا صدقۃ من غلول
ترجمہ: بغیر طہارت کے نماز غیر مقبول ہے اور وہ صدقہ بھی غیر مقبول ہے جو غلول کے ساتھ کیا گیا ہو ۔(صحیح مسلم کتاب الطہارۃ رقم الحدیث 224۔سنن ابی داؤد رقم الحدیث 59)
سبب ورود حد یث:۔
عن مصعب بن سعید قال:دخل ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہ علی ابن عامر یعودہ مریض، فقال: ألاتدعواللہ لی یا ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہ ؟قال:سمعت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یقول:لاتقبل فذکرہ ۔
ترجمہ: معصب بن سعید فرماتے ہیں کہ :ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہ علی بن عامر کی عیادت کے لئے گئے جب وہ بیمار تھے علی بن عامر نے فرمایا کہ اے ابن عمر آپ اللہ سے میرے لئے دعا نہیں کرتے ؟ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا کہ بغیر طہارت کے نماز غیر مقبول ہے ۔
تبصرہ:۔
اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ بغیر طہارت (وضو) کے نماز قبول نہیں فرماتا اور نہ ہی حرام کمائی سے صدقہ کو قبول فرماتا ہے ،یعنی نماز کے لئے پاکی کا ہونا شرط ہے اسی طریقے سے حلال مال کا صدقہ ہی اللہ کی جانب منظور ہے ۔
3-ما اصطفی اللہ لملائکتہ أولعبادہ سبحان اللہ وبحمدہ۔ (أخرجہ الامام احمد الحدیث 20183)
ترجمہ: اللہ تعالیٰ نے فرشتوں اور اپنے بندوں کے لئے سبحان اللہ وبحمدہ (ذکر کو )پسند کیا ۔
سبب ورود حد یث:۔


عن ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہ قال:سئل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم أی الکلام أفضل؟قال مااصطفی اللہ فذکرہ۔
ترجمہ: ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا :نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا کہ کونسا کلام افضل ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم
نے فرمایا جو اللہ نے اپنے فرشتوں اور بندوں کے لئے پسند کیا ''سبحان اللہ وبحمدہ ۔


تبصرہ:۔
سبحان اللہ وبحمدہ اتنا مبارکہ کلمہ ہے جسے اللہ پاک نے اپنے بندوں کے لئے چنا کہ وہ ان کلمات کو ادا کریں اور اللہ تعالیٰ کا انہیں قرب نصیب ہو،ان اذکار کی برکت سے اللہ تعالیٰ (صغیرہ )گناہوں کو بھی معاف فرمادیتے ہیں ۔
4- لقد أحجرت واسعا۔ (أخرجہ البخاری الحدیث 6010)
ترجمہ: یقینا تو نے بہت وسیع چیز کو تنگ کردیا ۔
سبب ورود حد یث:۔

عن ابی ھریرۃ رضی اللہ تعالی عنہ قال: قام النبی صلی اللہ علیہ وسلم فی صلاۃ فقمنا معہ،فقال أعرابی وھو فی الصلاۃ أللھم ارحمنی ومحمدا صلی اللہ علیہ وسلم ولا ترحم معنا احدا،فلما سلم النبی صلی اللہ علیہ وسلم قال للأعرابی لقد احجرت واسعا۔
ترجمہ: ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا کہ: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نماز کی حالت میں تھے اور ہم بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کھڑے تھے کہ ایک شخص نماز میں کہتا ہے کہ اے اللہ مجھ پر رحم کر اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر اور ہمارے علاوہ کسی پر رحم نہ کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز کے بعد ارشاد فرمایا کہ تو نے وسیع چیز کو بہت تنگ کردیا ۔
تبصرہ:۔
اللہ تعالیٰ کی رحمت بہت وسیع ہے جس کی کوئی حد نہیں قیامت تک کوئی شخص اگر اللہ سے معافی طلب کرے گا اسے معافی ملے گی یہ رحمت کسی خاص جماعت کے لئے نہیں بلکہ حدیث کے مطابق تمام انسانیت کے لئے ہے ، لہٰذا اللہ تعالیٰ کی رحمت سے کبھی مایوس نہیں ہونا چاہیئے ۔
مطابق تمام انسانیت کے لئے ہے ، لہٰذا اللہ تعالیٰ کی رحمت سے کبھی مایوس نہیں ہونا چاہیئے ۔
5-ذادک اللہ حرصا ولاتعد۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث 783)
ترجمہ: اللہ تعالیٰ آپ کی حرص کو اور بڑھائے آئندہ ایسا نہ کرنا ۔
سبب ورود حد یث:۔

عن ابی بکرۃ رضی اللہ تعالی عنہ أنہ انتھی الی النبی صلی اللہ علیہ وسلم وھوراکع فرکع قبل أن یصل الی الصف ، فذکر ذالک النبی صلی اللہ علیہ وسلم فقال ذادک اللہ ۔
ترجمہ: ابو بکر رضی اللہ تعالی عنہ نماز میں پہنچے جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم رکوع کی حالت میں تھے تو ابو بکر رضی اللہ تعالی عنہ نے بغیر صف میں ملے ہوئے ہی رکوع کردیا اس بات کا ذکر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ آ پ کی حرص اور بڑھائے آئندہ ایسا نہ کرنا (یعنی جب صف میں آؤ تو نماز شروع کرو )
تبصرہ:۔
اس حدیث میں امام کی اقتداء کا سبق سکھایا جارہا ہے کہ جب صف میں آجائیں تب نماز کی ابتداء کریں ایسا نہ کریں کہ ابھی صف میں آئے ہی نہیں کہ نماز شروع کردیں ۔حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ آدمی بظاہر کسی عمل کو اچھا محسوس کرتا ہے لیکن اللہ کے نزدیک وہ عمل جب ہی مقبول ہوگا جب تک نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہوجا ئے ۔
6-عن انس رضی اللہ تعالی عنہ قال : قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم : الحمد اللہ الذی أنقذہ بی من النار۔
(أخرجہ البخاری کتاب الجنائز 1356)
ترجمہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ : اللہ کا شکر ہے جس نے اسے میرے ذریعے آگ سے نجات دی ۔
سبب ورود حدیث :۔

یھودی یخرم النبی صلی اللہ علیہ وسلم فمرض فأتاہ النبی صلی اللہ علیہ وسلم یعودہ ، فقعدہ عند رأسہ ، فقال لہ :''أسلم ''فنظر الی أبیہ فقال : أطع أبا القاسم فأ سلم ، فخرج النبی صلی اللہ علیہ وسلم وھو یقول : الحمد للہ ۔
ترجمہ: ایک یہودی غلام نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا خادم تھا جب وہ بیمار ہوگیا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس کی عیادت کے لئے تشریف لے گئے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے سر کے پاس آکر بیٹھے اور فرمایا ''اسلام کو قبول کرو ''اس نے اپنے باپ کی طرف دیکھا تو اس کے باپ نے کہا کہ ابو القاسم صلی اللہ علیہ وسلم (آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی کنیت تھی ) کی بات کو مانو پس وہ ایمان لے آیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم وہاں سے نکلے اور فرمایا کہ اللہ کا احسان ہے جس نے اس کو میرے ذریعے آگ سے نجات دی ۔
تبصرہ :۔
اللہ رب العالمین نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو رحمت اللعالمین بناکر دنیا میں بھیجا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا مقصد بھی یہی تھا کہ تمام انسانیت کے لئے لوگ آگ سے بچ جائیں اور جنت میں داخل ہوجائیں ، اسی فکر پر ہمیں بھی ہر وقت دین اسلام کی دعوت کو کبھی بھی ترک نہیں کرنا چاہیئے چاہے وہ کوئی بھی میدان ہو یعنی ایک مسلمان ہر وقت اللہ کا داعی ہوتا ہے ۔
7-عن عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا أن النبی صلی اللہ علیہ وسلم قال : لاینبغی لوعم فیھم أبو بکر أن یؤمھم غیرہ ۔
(ترمذی أبواب المناقب جلد5ص814)
ترجمہ: امی عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کسی قوم کے شایاں نشین نہیں کہ ابو بکر کے ہوتے ہوئے ان کے علاوہ کوئی امامت کروائے ۔
سبب ورود حدیث :۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فذھب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یصلح بینھم فرجح وقد صلی الناس العصر قال من صل بالناس العصر قالوا : أبو بکر قال : قد أحسنتم لاینبغی لقوم یکون فیھم أبو بکر یصلی بھم غیرہ ۔
ترجمہ: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کسی قوم (اھل عوال کے کچھ لوگ )کی صلح کرواکر واپس تشریف لائے تو لوگ نماز عصر پڑھ چکے تھے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کس نے نماز عصر پڑھائی ، تو کہا گیا کہ ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ نے نماز پڑھائی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ آپ نے اچھا کیا کیونکہ کسی قوم کے یہ لائق نہیں کہ ابو بکر کے ہوتے ہوئے کو ئی اور ان کے علاوہ نماز پڑھائے ۔
تبصرہ :۔ اس حدیث مبارکہ سے واضح طور پر سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ کی فضیلت اجا گر ہوتی ہے کہ اس پوری امت میں اگر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کسی کا درجہ ہے تو وہ ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ کا ہے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد بھی خلافت کے لئے ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ کو ہی چنا گیا ، اس حدیث سے کلی طور پر یہ عقیدہ بھی باطل ہوگیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد امامت کے لئے علی رضی اللہ تعالی عنہ کو چنا گیا کیونکہ صحابہ رضی اللہ تعالی عنہم کا اجماع تھا ( اس میں خود علی رضی اللہ تعالی عنہ بھی شامل تھے )کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد ابو بکر رضی اللہ تعالی عنہ کا درجہ ہے لہٰذا انہی کو حق تھانبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد خلافت کا ۔
8-عن ابی قتادۃ رضی اللہ تعالی عنہ قال:قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اذادخل احدکم المسجد فلا یجلس حتی یصلی رکعتین ۔ (صحیح البخاری جلد1ص120)
ترجمہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ:جب بھی آپ میں سے کوئی مسجد میں داخل ہو تو وہ دورکعت (تحیۃ المسجد )پڑھے بغیر نہ بیٹھے۔
سبب ورود حد یث:۔

عن جابر رضی اللہ تعالی عنہ أن سلیکا جاء والنبی صلی اللہ علیہ وسلم یخطب فجلس فأمرہ النبی صلی اللہ علیہ وسلم أن یصلی رکعتین ثم أقبل علی الناس فقال:اذاجاء أحدکم والامام یخطب فلیصل رکعتین یتجوز فیھا۔
ترجمہ: جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ سلیک آئے جب کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم خطبہ ارشاد فرمایا رہے تھے تو وہ (دو رکعت پڑھے بغیر )بیٹھ گئے ۔تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو دو رکعت پڑھنے کا حکم دیا اور لوگوں کی طرف توجہ فرمائی اورارشاد فرمایاکہ جب بھی آپ میں سے کوئی مسجد آئے تو وہ دو رکعت پڑھے بغیر نہ بیٹھے ۔
تبصرہ:۔
اس حدیث مبارکہ سے ثابت ہوتا ہے کہ تحیۃ المسجد ہر حال میں پڑھنا ضروری ہے آپ اندازہ لگاسکتے ہیں کہ جمعہ کا خطبہ کتنا اہم ہے لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے وضاحت کردی کہ اگر خطبہ بھی ہورہا ہو تو دورکعت کو ترک نہ کیا جائے ۔
9-عن ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ قال:قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قم یا بلال فأذن فی الناس ان یصوموا غدا۔ (أخرجہ ابوداؤد کتاب الصوم 2340)
ترجمہ: ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بلال اٹھو اور لوگوں کو اجازت دو کہ کل روزہ رکھیں ۔
سبب ورود حد یث:۔

جاء اعرابی الی النبی صلی اللہ علیہ وسلم فقال:أبصرت الھلال اللیلۃ،فقال ''أشھدأن لاالہ الااللہ ،وان محمدا رسول اللہ ؟قال:نعم قال:''قم یا بلال فأذن فی الناس ان یصومواغدا۔
ترجمہ: ایک اعرابی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوتا ہے اور کہتا ہے کہ میں نے چاند اپنی آنکھوں سے رات کو دیکھا ہے (یعنی رمضان کا )تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کیا آپ گواہی دیتے ہیں کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبود نہیں اور میں اللہ کا رسول ہوں ، اس نے کہا جی ہاں ، تب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اے بلال اٹھو اور لوگوں کو خبر کر دو کہ کل روزہ رکھیں ۔
تبصرہ:۔
اس حدیث مبارکہ سے معلوم ہوتا ہے کہ خبر واحد حجت ہے یعنی اگر ایک ایمان والا کسی چیز کی گواہی دے تو اس کی گواہی کو قبول کرنا چاہیئے باقاعدہ امام بخاری ؒ نے اپنی صحیح میں اخبار احاد (یعنی خبر واحد)کے بارے میں ابواب قائم کئے ہیں کہ خبر واحد حجت ہے ۔
10-عن ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہ قال:قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم انی لست کھیئتکم انی أطعم واسقی۔ (أخرجہ البخاری رقم الحد یث 1922)
ترجمہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں آپ کی طرح نہیں ہوں مجھے کھلایا اور پلایا جاتا ہے ۔
سبب ورود حد یث:۔

أن النبی صلی اللہ علیہ وسلم نھی عن الوصال:قالوا،انک تواصل قال انی لست کھیئتکم انی أطعم وأسقی۔
ترجمہ: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے وصال سے منع فرمایا (یعنی لگاتار روزہ رکھنا)تو صحابہ رضی اللہ تعالی عنہم نے عرض کیا کہ اے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم آپ بھی وصال کرتے ہیں تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں آپ جیسا نہیں ہوں (کیونکہ میں اللہ کا رسول ہوں )مجھے کھلا یا اور پلایا جاتا ہے ۔
تبصرہ:۔
اس حدیث مبارکہ سے معلوم ہوتا ہے کہ بعض احکامات انبیاء کرامؑ کے لئے خاص ہوتے ہیں جیساکہ ہر روزروزہ رکھنا امت کے لئے منع ہے لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا خاصہ تھا ،بظاہر ہر روز روزہ رکھنا نیکی نظر آتی ہے لیکن شریعت چونکہ نام ہے دین محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا تو عمل بھی وہ قابل قبول ہے جس ہر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مہر ہو ۔
 

کیلانی

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 24، 2013
پیغامات
347
ری ایکشن اسکور
1,110
پوائنٹ
127
اللہ ہمیں صحیح معنوں میں مسلمان بنائے
 
Top