• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اسبالِ ازار اور ہمارا معاشرہ

شمولیت
فروری 07، 2016
پیغامات
57
ری ایکشن اسکور
14
پوائنٹ
20
اسبالِ ازار اور ہمارا معاشرہ
سیدالانبیاء سرور عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے جس طرح حیاتِ انسانی کے مختلف شعبوں مثلاً اٹھنے، بیٹھنے، سونے جاگنے، کھانے پینے اور دیگر معمولاتِ زندگی کے متعلق آداب واحکام کی تعلیم دی ہے اور اپنے قول وعمل سے امت مسلمہ کی رہنمائی فرمائی ہے کہ یہ کام حلال ہے یہ حرام یہ ناجائز ہے یہ جائز ہے یہ کام اچھا ہے اوریہ برا ہے وغیرہ اسی طرح لباس اور کپڑے کے استعمال کے بارے میں بھی واضح ہدایات دی ہیں ہم یہاں لباس کی ایک خاص نوعیت ”اسبال ازار“ کے متعلق کچھ عرض کرنا چاہتے ہیں۔ چونکہ مسلم معاشرہ میں خاص طور پر خواص کے طبقہ میں بھی اس سلسلہ کی کوتاہیاں فروغ پاتی جارہی ہیں اور افسوس مزید اس پر کہ اس کوتاہی پر خیال والتفات تک نہیں، اولاً اس مضمون کی چند احادیث ملاحظہ فرمائیں۔
عن ابی ہریرة قال قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ما اسفل من الکعبین من الازار فی النار (بخاری،ص:۸۶۱، ج:۲، مشکوٰة، ص:۳۷۳)
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا از قسم ازار یعنی پائجامہ وغیرہ کا جو حصہ ٹخنوں سے نیچے ہوگا وہ دوزخ میں ڈالا جائے گا۔ (بخاری)

عن ابن عمر انّ النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال من جرّ ثوبہ خُیَلاء لم ینظر اللّٰہ الیہ یوم القیٰمة۔ (بخاری،ص:۸۶۰، ج:۲، مشکوٰة،ص:۳۷۳)
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو کوئی اپنا کپڑا استکبار اور فخر کے طور پر زیادہ نیچا کرے گا اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کی طرف نظر بھی نہ اٹھائے گا۔

عن ابی سعیدٍ الخدریّ قال سمعت رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم یقول ازرة المومن الٰی انصافِ ساقیہ لا جناح علیہ فیما بینہ وبین الکعبین ومَا اسفل من ذلک ففی النار قال ذلک ثلٰث مرّات ولا ینظر اللّٰہ یوم القیامة الٰی من جرّ ازارہ بطرا (ابوداؤد وابن ماجہ، مشکوٰة،ص:۳۷۴)
حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا فرماتے تھے کہ مومن بندہ کے لئے ازار یعنی تہبند باندھنے کا طریقہ (یعنی بہتر اور اولیٰ صورت) یہ ہے کہ نصف ساق تک (یعنی پنڈلی کے درمیانی حصہ تک ہو اور نصف ساق اور ٹخنوں کے درمیان تک ہو تو یہ بھی گناہ نہیں یعنی جائز ہے اور جو اس سے نیچے ہو تو وہ جہنم میں ہے (یعنی اس کا نتیجہ جہنم ہے) راوی کہتے ہیں کہ یہ بات آپ نے تین دفعہ ارشاد فرمائی (اس کے بعد ارشاد فرمایا) اللہ اس آدمی کی طرف نگاہ اٹھاکے بھی نہ دیکھے گا جو ازراہِ فخر وتکبر اپنی ازار گھسیٹ کر چلے گا۔ ان حدیثوں میں فخر وغرور والا لباس استعمال کرنے والوں کو سخت وعید سنائی گئی کہ وہ قیامت کے اس دن میں جبکہ ہر بندہ اپنے رب کریم کی نگاہِ رحم وکرم کا سخت محتاج اور آرزومند ہوگا وہ اس کی نگاہِ رحمت سے محروم رہیں گے۔ اللہ رب العزت اس دن ان کو بالکل ہی نظرانداز کردے گا اور ان کی طرف نظر اٹھاکر بھی نہ دیکھے گا۔ کیا ٹھکانہ ہے اس محرومی اور بدبختی کا۔ اللّٰہم احفظنا منہ۔
حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ تعالی عنہ کی حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ مومن کے لئے اولیٰ اور بہتر یہ ہے کہ تہبند اور اسی طرح پائجامہ نصف ساق تک ہو اور ٹخنوں کے اوپر تک ہوتو یہ بھی جائز ہے لیکن اس سے نیچے جائز نہیں بلکہ سخت گناہ ہے اور اس پر جہنم کی وعید ہے۔ (معارف الحدیث،ص:۲۹۰،ج:۲)
اس وقت لباس کے متعلق اسلامی معاشرہ کی صورت حال زبوں تر ہے عوام الناس کے طبقہ میں دنیوی تعلیم وتہذیب سے متاثر طبقہ کا تو حال ہی عجیب وغریب ہوچکا ہے کہ ان کو لباس و پوشاک میں غیروں کے ساتھ ایسی مشابہت اور موانست پختہ ہوچکی ہے کہ مسلمان وغیرمسلمان کے مابین فرق وامتیاز مشکل بلکہ ناممکن معلوم ہوتا ہے اوراس مروجہ لباس شرٹ اور پینٹ کی وضع اورہیئت ہی ایسی ہوتی ہے کہ اس کو پہننے والے کو ٹخنوں کا مستور ہونا ایک لازمی امر ہے، اگرچہ بعض دین سے وابستہ حضرات نماز وغیرہ کے دوران اس میں احتیاط کرتے نظر آتے ہیں لیکن اکثریت ایسے لوگوں کی ہوتی ہے جنہیں اس طرف توجہ نہیں رہتی بلکہ اس کے گناہ ہونے کا ادراک بھی نہیں ہوتا اور وہ اپنے معمول کے کپڑوں (نصف ہاتھ کہنیوں تک شرٹ اور ٹخنوں پر لٹکی پینٹ) میں نماز پڑھ لیتے ہیں، بہرحال اس مسئلہ سے قطع نظر کہ ان لوگوں کی نماز کا کیا حکم ہے یا ان کا عمل کس درجہ کا ہے؟ ہمیں یہاں ایک دوسرے موضوع پر عرض کرنا ہے۔ وہ یہ کہ مدارس اسلامیہ کے فضلاء اور مدارس میں زیرتعلیم طلبہ کو بھی عموماً اسبال ازار کے گناہ بے لذت میں دیکھاجاتا ہے، بلکہ بعض مدرسوں کے معلّمین اور اہل انتظام کا بھی اس میں ابتلا نظر آتا ہے کہ وہ نہ خود اس کمزوری اور کوتاہی پر متنبہ ہوتے اورنہ اپنے ماتحتوں اساتذہ اور طلبہ کی وضع قطع اور اصلاح و درستگی کی جانب دھیان دیتے اس طرح یہ سلسلہ متعدی ہوتا جارہا ہے اس میں کوئی شک وشبہ نہیں کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمودات وارشادات کسی خاص طبقہ کے لئے نہیں بلکہ ہر صاحب ایمان ان تعلیمات نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کا براہِ راست مخاطب ہے، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذاتی معمول کو اپنے عمل میں لانا ہر مسلمان کی دینی محت کا عین تقاضا بھی ہے اور خوش نصیبی کا سامان بھی، اللہ رب العزت ہمیں توفیق عمل سے نوازے اور ہم لوگوں کے مردہ احساس کو بیدار فرمائے
 
شمولیت
ستمبر 21، 2015
پیغامات
2,697
ری ایکشن اسکور
760
پوائنٹ
290
"آﭖ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﮐﮯ ﺫﺍﺗﯽ ﻣﻌﻤﻮﻝ ﮐﻮ ﺍﭘﻨﮯ ﻋﻤﻞ ﻣﯿﮟ ﻻ‌ﻧﺎ ﮨﺮ ﻣﺴﻠﻤﺎﻥ ﮐﯽ ﺩﯾﻨﯽ ﻣﺤﺖ ﮐﺎ ﻋﯿﻦ ﺗﻘﺎﺿﺎ ﺑﮭﯽ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﺧﻮﺵ ﻧﺼﯿﺒﯽ ﮐﺎ ﺳﺎﻣﺎﻥ ﺑﮭﯽ، ﺍﻟﻠﮧ ﺭﺏ ﺍﻟﻌﺰﺕ ﮨﻤﯿﮟ ﺗﻮﻓﯿﻖ ﻋﻤﻞ ﺳﮯ ﻧﻮﺍﺯﮮ ﺍﻭﺭ ﮨﻢ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﮐﮯ ﻣﺮﺩﮦ احساس کو زندہ فرمائے۔"

آمین یا رب العالمین
 

Dua

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 30، 2013
پیغامات
2,579
ری ایکشن اسکور
4,440
پوائنٹ
463
جزاک اللہ خیرا۔۔۔محترم اگر تکبر اور غرور کے ارادہ سے کپڑا نہ لٹکایا جائے تو ایسی صورت میں جائز ہو گا ؟؟
 

عمر اثری

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 29، 2015
پیغامات
4,404
ری ایکشن اسکور
1,132
پوائنٹ
412
جزاک اللہ خیرا۔۔۔محترم اگر تکبر اور غرور کے ارادہ سے کپڑا نہ لٹکایا جائے تو ایسی صورت میں جائز ہو گا ؟؟
تکبر سے کپڑا لٹکانا حرام ہے : ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا: اللہ تعالی قیامت کے دن اس شخص کی طرف نظرِ(رحمت ) سے نہیں دیکھے گا( یعنی اس پر غضبناک ہوگا) جس نے تکبر کے ساتھ اپنا تہبند (ازار ، پیانٹ،لنگی وغیرہ ٹخنے سے نیچے ) لٹکا کر چلتاہے ۔ (بخاری ، مسلم،احمد)۔
۰ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا: ایک دفعہ ایک شخص تکبر کے ساتھ اپنا تہبند گھسیٹ کر چل رہا تھا تو اسے زمین میں دھنسا دیا گیا ، اب وہ قیامت کے دن تک زمین میں دھنستا رہے گا۔ (بخاری ،مسلم،احمد)۔

۰نوٹ : بعض لوگ کہتے ہیں کہ اگر دل میں تکبر نہ ہوتو تہبند ٹخنوں سے نیچے رکھنے میں کوئی حرج نہیں ہے ، اس کے لیے وہ ابوبکر صدیق کی مثال پیش کرتے ہیں جبکہ ابوبکر صدیق کے واقعہ میں ان کے لیے کوئی دلیل اور جواز موجود نہیں ہے ،اس کی تفصیل حدیث میں یوں آئی ہے کہ : ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلى الله عليه وسلم نے فرمایا: جو شخص تکبر سے اپنا کپڑا لٹکائے گا اللہ تعالی قیامت کے دن اس کی طرف نظرِ کرم نہیں فرمائے گا۔ تو ابوبکر رضی اللہ عنہ نے پوچھا : یا رسول اللہ میرا تہبند کا ایک جانب لٹک جاتا ہے الا یہ کہ میں اس کا خیال کرتارہوں ،نبی کریم صلى الله عليه وسلم نے فرمایا: تم ان لوگوں میں سے نہیں ہیںجو تکبر سے ایسا کرتے ہیں۔ (بخاری ، مسلم،احمد، ترمذی ، نسائی،ابوداود، ابن ماجہ ،مالک) ۔

جولوگ اس واقعہ سے دلیل لیتے ہیں ان سے کہاجائے گا کہ اگر آپ کے اندر تین شروط پائی جائیں تو آپ کوبھی اپناکپڑا لٹکانے کی اجازت ہے :

۱۔ آپ کے تہبندکا صرف ایک جانب لٹکتا ہو نہ کہ تمام جانب ۔

۲۔ جب بھی آپ کا تہبند لٹک کر نیچے آجائے تو آپ اسے اوپر اٹھالیں، کیونکہ یہ چیز آپ کے اختیار کے بغیر ہورہی ہے ۔جیسا کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ کیا کرتے تھے ۔ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ امام احمد کی ایک روایت میں ہے کہ ابوبکر نے فرمایا :(( میراتہبند کبھی کبھی نیچے لٹک جاتا ہے ))۔ شاید چلنے وغیرہ کی وجہ سے جب حرکت پیدا ہوتی ہے تو بغیر اختیار کے ان کا کمر بند ڈھیلاہوجاتا تھا اور جب وہ ا س کا خیال رکھتے تھے تو وہ نیچے نہیں آتا تھا اس لیے کہ جب بھی ان کا تہبند ڈھیلاہوجاتا تو وہ اُسے کس کرباندھ لیتے تھے ۔ (فتح الباری : ۰۱/۶۶۲)۔

۳۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم آپ کے حق میں اس بات کی شہادت دیں کہ آپ تکبر کرنے والے نہیں ہیں !۔ اور اب اِس آخری شرط کا پایا جاناناممکن ہے ۔

اس واقعہ سے صرف اتنی بات ثابت ہوتی ہے کہ اگر کوئی بیمار ہے یا دبلا پتلا ہے اور اس کا تہبند احتیاط کے باوجود نیچے آجائے تو اس میں کوئی حرج نہیں، لیکن آج یہ چیز فیشن بن چکی ہے اور غیروں کی تقلید پر مبنی ہے ۔

٭ فائدہ : ٹخنوں سے نیچے کپڑا لٹکانے کی تین حالتیں ہیں :

۱۔ تکبر کے ساتھ کپڑالٹکائے رکھنا : اس کی وجہ سے [اللہ تعالی قیامت کے دن نہ اس سے بات کرے گا ، نہ اس کی طرف نظرِ کرم فرمائے گا ( یعنی اس پر غضبنا ک ہوگا)،اور نہ ہی اس کو گناہوں سے پاک کرے گا]،دوسرے یہ کہ[ وہ حصہ جہنم میں جلایا جائے گا]۔ (بخاری ، مسلم ، احمد)۔

۲۔ بغیر تکبرکے عمداً اور ہمیشہ ٹخنے سے نیچے رکھنا : اس کے لیے ایک عذاب ہے کہ [وہ حصہ جہنم کی آگ میں جلایا جائے گا]۔(بخاری ،احمد، نسائی )۔

۳۔ بغیر اختیار اور بغیر تکبر کے عارضی طورپر تہبند لٹک کر نیچے آجائے: تو یہ حالت نہی میں داخل نہیں ہے ۔(فتح الباری : ۰۱/۷۶۲)۔ اس لیے کہ سورج گرہن کے موقع پر نبی کریم ا جلدی میںاپنا کپڑا گھسیٹتے ہوئے مسجد آئے تھے ۔ (بخاری ، احمد، نسائی )۔ اور ابوبکر صدیق کے ساتھ جوحالت پیش آتی تھی وہ بھی اسی ضمن میں داخل ہے ۔ جیسا کہ اوپر گزر چکاہے۔ (فتاوی ابن عثیمین رحمه الله )۔

۰ تکبر کے ساتھ کپڑا لٹکانے کی قید ایک عمومی اور غالب قید ہے ورنہ تکبرہر حالت میں مذموم اورحرام ہے ؛چاہے کپڑا ٹخنے سے اوپر ہی کیوں نہ ہو،اس لیے کہ تکبر ؛ اللہ کی خاص صفت ہے ،لہذا جو شخص تکبر کرے گا وہ جہنم کی آگ میں جھونک دیا جائے گا ۔ (دیکھیے : مسلم ، احمد، ابوداو،ابن ماجہ۔فتح الباری : ۰۱/۱۷۲)۔ (لنک)

مزید پڑھیں:
عادتاً شلوار ٹخنوں سے نیچے کرنا: محدث فتوی
علمی تحقیقات اور فتاوی جات کی دائمی کمیٹی
 

Dua

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 30، 2013
پیغامات
2,579
ری ایکشن اسکور
4,440
پوائنٹ
463
محترم بھائی یہاں بھی تکبر کے ساتھ ہی ذکر ہے۔جزاک اللہ خیرا
 

عمر اثری

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 29، 2015
پیغامات
4,404
ری ایکشن اسکور
1,132
پوائنٹ
412
محترم بھائی یہاں بھی تکبر کے ساتھ ہی ذکر ہے۔
نہیں آپی!
اس میں تو تردید ھے. ایسے لوگوں کی جو بغیر تکبر کے اسبال کو جائز سمجھتے ھیں.
واللہ اعلم بالصواب
 

Dua

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 30، 2013
پیغامات
2,579
ری ایکشن اسکور
4,440
پوائنٹ
463
تکبر سے کپڑا لٹکانا حرام ہے : ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا: اللہ تعالی قیامت کے دن اس شخص کی طرف نظرِ(رحمت ) سے نہیں دیکھے گا( یعنی اس پر غضبناک ہوگا) جس نے تکبر کے ساتھ اپنا تہبند (ازار ، پیانٹ،لنگی وغیرہ ٹخنے سے نیچے ) لٹکا کر چلتاہے ۔ (بخاری ، مسلم،احمد)۔
محترم بھائی اگر لفظ تکبر کے ساتھ کو نہ دیکھیں تو معانی میں زور ہے۔مگر یہاں تکبر کے ساتھ الفاظ کے سبب میں معانی ہی بدلا لگ رہا ہے۔جبکہ تکبر اندر کی کیفیت ہی ہے۔اس میں بغیر تکبر کے معمول میں ایسا نہ کرنے کی کیا دلیل ہے۔یہ سمجھنے سے قاصر ہوں۔

@اسحاق سلفی بھائی توجہ فرمائیں۔
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,564
پوائنٹ
791
محترم بھائی اگر لفظ تکبر کے ساتھ کو نہ دیکھیں تو معانی میں زور ہے۔مگر یہاں تکبر کے ساتھ الفاظ کے سبب میں معانی ہی بدلا لگ رہا ہے۔جبکہ تکبر اندر کی کیفیت ہی ہے۔اس میں بغیر تکبر کے معمول میں ایسا نہ کرنے کی کیا دلیل ہے۔یہ سمجھنے سے قاصر ہوں۔

@اسحاق سلفی بھائی توجہ فرمائیں۔
تکبر کے بغیر کپڑے لٹکانا

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
کیا تکبر کے بغیر کپڑے لٹکا نا بھی حرام ہے یا نہیں ؟
الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

مردوں کے لیے کپڑے لٹکانا حرام ہے "خواہ یہ تکبر کے لیے ہو یا کسی اور مقصد کے لیے'البتہ اگر تکبر کی وجہ سے ہو تو پھر اس کی سزا زیادہ سنگین اور شدید ہے' جیسا کہ حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث صحیح مسلم میں ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا:
((ثلاثة لا يكلمهم الله يوم القيامة‘ولا ينظر اليهم ّولا يزكيهم ّولهم عذاب اليم المسبل (ازاره) و2014-03-27المنان ‘والمنفق سلعته بالحلف الكاذب ))(صحيح مسلم‘ الايمان ‘باب غلظ تحريم اسبال الازار المن بالعطية___الخ‘ ح : ١-٦)

"تین شخص ہیں جن سے قیامت کے دن اللہ تعالیٰ نہ کلام فرمائے گا'نہ ان کی طرف(نظر رحمت سے) دیکھے گا' نہ انہیں پاک کرےگا اورا ن کے لیے دردناک عذاب ہوگا (1) کپڑے کو لٹکانے والا (2)احسان جتلانے والا اور(3) جھوٹی قسم کے ساتھ اپنے سودے بیچنے والا۔"
یہ حدیث اگرچہ مطلق ہے لیکن ابن عمر رضی اللہ عنہ کی حدیث کی وجہ سے مقید ہے جس میں نبی ﷺ نے فرمایا:
((من جر ثوبه خيلاء لم ينظر الله اليه يوم القيامة )) (صحيح البخاري ‘اللباس ‘باب من جر ازاره من غير خيلاء‘ ح :٥٧٨٤ وصحيح مسلم باب تحريم جر الثواب خيلاء_____‘ ح :٢-٨٥)

جو شخص ازراہ تکبر کپڑا لٹکائے گا تو قیامت کے دن اس کی طرف ( نظر رحمت سے) دیکھے گا بھی نہیں۔"
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور دوسری صورت جو تکبر کے بغیر ہے ،وہ بھی قابل گرفت ہے
((مااسفل منالكعبين من الازار فهو في النار)) (صحيح البخاري ‘اللباس‘باب مااسفل منالكعبين من الازار فهو في النار‘ ح:٥٧٨٧)

"جو تہ بند ٹخنوں سے نیچے ہوگا وہ جہنم کی آگ میں ہوگا۔
جب یہ دو مختلف سزائیں ہیں تو پھر مطلق کو مقید پر محمول کرنا ممنوع ہے کیونکہ مقید پر محمول کرنے کے قاعدہ کے لیے شرط یہ ہے کہ دونوں نصوص کا حکم ایک ہو اور جب حکم مختلف ہو تو پھر ایک دوسرے کے ساتھ مقید نہیں کیا جاسکتایہی وجہ ہے کہ آیت تیمم کو جس میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:
﴿فَامسَحوا بِوُجوهِكُم وَأَيديكُم مِنهُ ۚ ... ﴿٦﴾... سورةالنساء

"منہ اور ہاتھوں کا مسح ( یعنی تیمم ) کرلو۔'کو اس آیت وضو کے ساتھ مقید نہیں کیا جاسکتا جس میں ارشادباری تعالیٰ ہے:
﴿فَاغسِلوا وُجوهَكُم وَأَيدِيَكُم إِلَى المَر‌افِقِ...﴿٦﴾... سورة المائدة

"منہ اور کہنیوں تک ہاتھ دھولیا کرو۔"
لہذا تیمم کہنیوں تک نہیں ہوگا ۔اس کی دلیل وہ حدیث بھی ہے جس میں امام مالک : اور کئی دیگر محدثین نے حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا :
"((ازاره المسلم الي نصف الساق ولاحرج ّاو :لا جناحّ فيما بينه وبين الكعبين ‘ماكان اسفل من الكعبين فهو في النار‘ومن جر ازاره بطراً لم ينظر الله اليه) (سنن ابي داود اللباس باب في قدر موضع الازار‘ح :٤-٩٣ وسنن ابن ماجه ‘ ح: ٣٥٧٣ والسنن الكبريٰ للنسائي :٥/٤٩-‘ ح:٩٧١٦ والموطا مالك :٢/٩١٤‘٩١-)

" مومن کا تہ بند نصف پنڈلی تک ہوتا ہے اور اس میں کوئی حرج نہیں۔۔۔یا یہ فرمایا کہ اس میں کوئی گناہ نہیں ۔۔۔جو نصف پنڈلی اور دونوں ٹخنوں کے درمیان ہو اور جو ٹخنوں سے نیچے ہو وہ جہنم کی آگ میں ہوگا اور جس شخص نے ازراہ تکبر اپنا کپڑا لٹکایا 'اللہ تعالیٰ اس کی طرف (نظر رحمت سے) دیکھے گا بھی نہیں۔"
اس حدیث میں نبی ﷺ نے دو صورتیں بیان فرمائی ہیں اور ان کی سزا ؤں کے مختلف ہونے کیوجہ سے ان کا حکم بھی مختلف بیان فرمایا ہے" تو گویا یہ دو مختلف فعل ہیں جن کا حکم اور سزا بھی مختلف ہے۔اس تفصیل سے اس شخص کی غلطی واضح ہوجاتی ہے جو نبی ﷺ کے فرمان (( مااسفل من الکعبین من الازار فھو فی النار)) کو فرمان نبوی ( من جر ثوبه خٰلاء لم ينظرالله اليه)) کے ساتھ مقید کرتا ہے۔جب ان بعض لوگوں کو سمجھایا جاتا ہے'جنہوں نے اپنے کپڑے کو ٹخنوں سے نیچے لٹکا رکھا ہوتا ہے 'تو وہ کہتے ہیں کہ ہم نے ازراہ تکبر ایسا نہیں کیا تو ان سے ہم یہ عرض کریں گے کہ کپڑا نیچے لٹکانے کی دوقسمیں ہیں۔ایک وسم تو وہ ہے جس میں انسان کو صرف مخالفت کے مقام یعنی ٹخنوں سے نیچے کی جگہ پر عذاب دیا جائے گا اور اس سے مراد وہ ہے جو اپنے کپڑے کو تکبر کے بغیر ٹخنوں سے نیچے لٹکاتا ہے اور دوسری قسم وہ ہے جس کی سزا یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس شخص سے کلام نہیں فرمائے گا'نہ اس کی طرف (نظر رحمت سے )دیکھے گا 'نہ اسے پاک کریگا' بلکہ اس کے یے درد ناک عذاب ہوگا اور یہ سزا اس شخص کے ؛لیے ہوگی جو اپنے کپڑے کو ازراہ تکبر لٹکائے ۔
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

ج4ص258​

محدث فتویٰ

ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

عادتاً شلوار ٹخنوں سے نیچے کرنا
شروع از عبد الوحید ساجد بتاریخ : 18 May 2014 11:38 AM
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
طیب فا رو ق بذر یعہ ای میل سوال کر تے ہیں کہ حد یث میں بطور تکبر شلو ار ٹخنو ں سے نیچا کر نے کی مما نعت ہے اگر کو ئی عا دتاً ایسا کرتا ہے تو اس کی کیا حیثیت ہے ؟ نیز اسے کس حد تک اونچا رکھنا چا ہیے جو عورتیں اپنا کپڑا ٹخنوں سے اوپر رکھتی ہیں ان کے متعلق شر یعت کا کیا حکم ہے حدیث میں شلوا ر کے بجا ئے تہبند کا ذکر ہے کیا یہ حکم عا م ہے یا تہبند کے سا تھ خا ص ہے ؟
الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

بلا شبہ حدیث کے الفاظ یہ ہیں کہ اللہ تعا لٰی اس شخص کی طرف نظر رحمت سے نہیں دیکھے گا جو تکبر اور غرور کر تا ہوا اپنے کپڑے کو ٹخنوں سے نیچے لٹکا تا ہے ۔(صحیح بخا ری ؒ:کتا ب اللبا س )
"خیلا ء "کے لفظ سے یہ مطلب نہ لیا جا ئے کہ تکبر کے بغیر عا دت کے طو ر پر ٹخنوں سے کپڑا نیچے کر نا جا ئز ہے کیوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ٹخنوں سے نیچے لٹکا نے کو ہی تکبر کی علا مت قرار دیا ہے جو کہ اللہ تعا لیٰ کو پسند نہیں حدیث میں ہے اپنی چا در کو ٹخنوں سے نیچے کر نے سے اجتنا ب کرو کیوں کہ یہ تکبر ہے اور اللہ تعا لیٰ مخلو ق سے تکبر کو پسند نہیں کر تے ۔(ابو داؤد :کتا ب اللبا س )
اس حدیث میں تکبر اور غیر کی بنا پر ٹخنوں سے نیچے کپڑا کر نے والے کے لیے دو الگ الگ سزاؤں کا بیا ن ہے حا فظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے اس مقا م پر بڑی عمدہ بحث کی ہے جو قا بل ملا حظہ ہے ۔(فتح البا ری :10/257)
اس سلسلہ میں حضڑت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ایک روا یت فیصلہ کن حیثیت رکھتی ہے وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیا ن کر تے ہیں کہ مؤمن کی چا در نصفپنڈلی تک ہو تی ہے پنڈلی اور ٹخنوں کے در میا ن چا در رکھنے میں کو ئی حر ج نہیں ہے اور جو کپڑا ٹخنوں سے نیچے ہے وہ آگ کا حصہ ہے اور جس نے تکبر اور غرور کر تے ہو ئے کپڑا نیچے لٹکا یا قیا مت کے دن اللہ تعا لیٰ اسے نظر رحمت سے نہیں دیکھے گا ،(ابو داؤد :کتا ب اللبا س )
اپنے کپڑے کو اس حد تک اونچا رکھنا چا ہیے اس کے متعلق متعدد احادیث میں نصف پنڈلی تک اونچا رکھنے کی حد مقرر کی گئی ہے چنانچہ کعب احبا ر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے او صا ف بیان کر تے ہو ئے فر ما تے ہیں :" رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کے لو گ حما د یعنی اللہ کی بکثر ت حمدو ثنا کر نے والے ہو ں گے وہ یوں کہ اوپر چڑھتے وقت اللہ اکبر کا نعر ہ بلند کر یں گے اور بیچے اتر تے وقت اللہ کی تعریف کر یں گے اور اپنی چا دروں کو نصف پنڈلی تک رکھیں گے ،(دارمی :1/5)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مسلما ن کی پہچا ن یہی بتلا ئی ہے کہ اس کی
اس و عید سے چا ر صورتیں مستثنیٰ چا در نصف پنڈلی تک رہتی ہے ۔(ابو داؤد )ہیں ۔
(1)کسی کی تو ند بڑھی ہو ئی ہے یا جسم کے نحیف ہو نے کی وجہ سے کمر میں جھکا ؤ ہے کو شش کے با و جو د چا در نیچے ہو جا تی ہے ایسی حا لت میں اگر چا در ٹخنوںسے نیچے ہو جا ئے تو مواخذہ نہیں ہو گا ۔
(2)بعض دفعہ انسا ن گھبرا ہٹ کے عا لم میں اٹھتا ہے اور جلدی جلدی چلتے ہو ئے بے خیا لی میں چا دد ٹخنوں سے نیچے آجا تی ہے اللہ تعا لیٰ سے امید ہے کہ صورت اس سخت و عید کے تحت نہیں ہو گی ۔
(3)ٹخنو ں یا پا ؤں پر زخم ہوا اور اسے ڈھا پنے کے لیے کو ئی اور کپڑا نہ ہو تو مکھیوں اور گر د و غبا ر سے بچا نے کے لیے اپنی چا در کو ٹخنوں سے نیچے کیا جا سکتا ہے ۔
(4)عورتیں بھی اس حکم سے مستثنیٰ ہیں چنانچہ رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب یہ سخت و عید سنا ئی تو حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے سوا ل کر نے پر آپ نے وضا حت فر ما ئی کہ عورتیں ایک ہا تھ تک کپڑا نیچے لٹکا سکتی ہیں
(ترمذی :ابوا ب اللبا س )
اگر عورت اس کے با و جو د اپنا کپڑا اوپر رکھتی ہے جس سے قا بل ستر حصہ ننگا ہو تا ہو تو وہ اللہ کے ہاں بہت بڑے جر م کا ارتکا ب کر تی ہے
یہ سخت و عید صرف چا در کے سا تھ خا ص نہیں ہے بلکہ ہر قسم کے کپڑے سے متعلق ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فر ما ن ہے کہ کپڑا نیچے لٹکا نے کا حکم چا در قمیص اور پگڑی وغیرہ کے لیے عا م ہے ۔ (ابو داؤد : کتا ب اللبا س )
حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فر ما تے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو حکم چا در کے متعلق دیا ہے وہی قمیص کے متعلق ہے نیز راوی حدیث حضرت شعبہ کہتے ہیں کہ میں نے اپنے شیخ محا ر ب بن دثا ر سے دریا فت کیا کہ آپ نے چا در کا ذ کر کیا تھا انہوں نے جوا ب دیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مطلق طو ر پر کپڑے کا ذکر کیا ہے چا در وغیرہ کا خصوصیت کے ساتھ تو ذکر نہیں کیا ،(صحیح بخا ری کتا ب اللبا س )
لہذا شلو ار وغیرہ کے با رہ میں بھی وہی حکم ہے جو چا در اور تہبند کا ہے
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

ج1ص470

محدث فتویٰ
 
Top