عطاء اللہ سلفی
مبتدی
- شمولیت
- فروری 07، 2016
- پیغامات
- 57
- ری ایکشن اسکور
- 14
- پوائنٹ
- 20
اسبالِ ازار اور ہمارا معاشرہ
سیدالانبیاء سرور عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے جس طرح حیاتِ انسانی کے مختلف شعبوں مثلاً اٹھنے، بیٹھنے، سونے جاگنے، کھانے پینے اور دیگر معمولاتِ زندگی کے متعلق آداب واحکام کی تعلیم دی ہے اور اپنے قول وعمل سے امت مسلمہ کی رہنمائی فرمائی ہے کہ یہ کام حلال ہے یہ حرام یہ ناجائز ہے یہ جائز ہے یہ کام اچھا ہے اوریہ برا ہے وغیرہ اسی طرح لباس اور کپڑے کے استعمال کے بارے میں بھی واضح ہدایات دی ہیں ہم یہاں لباس کی ایک خاص نوعیت ”اسبال ازار“ کے متعلق کچھ عرض کرنا چاہتے ہیں۔ چونکہ مسلم معاشرہ میں خاص طور پر خواص کے طبقہ میں بھی اس سلسلہ کی کوتاہیاں فروغ پاتی جارہی ہیں اور افسوس مزید اس پر کہ اس کوتاہی پر خیال والتفات تک نہیں، اولاً اس مضمون کی چند احادیث ملاحظہ فرمائیں۔عن ابی ہریرة قال قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ما اسفل من الکعبین من الازار فی النار (بخاری،ص:۸۶۱، ج:۲، مشکوٰة، ص:۳۷۳)
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا از قسم ازار یعنی پائجامہ وغیرہ کا جو حصہ ٹخنوں سے نیچے ہوگا وہ دوزخ میں ڈالا جائے گا۔ (بخاری)
عن ابن عمر انّ النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال من جرّ ثوبہ خُیَلاء لم ینظر اللّٰہ الیہ یوم القیٰمة۔ (بخاری،ص:۸۶۰، ج:۲، مشکوٰة،ص:۳۷۳)
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو کوئی اپنا کپڑا استکبار اور فخر کے طور پر زیادہ نیچا کرے گا اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کی طرف نظر بھی نہ اٹھائے گا۔
عن ابی سعیدٍ الخدریّ قال سمعت رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم یقول ازرة المومن الٰی انصافِ ساقیہ لا جناح علیہ فیما بینہ وبین الکعبین ومَا اسفل من ذلک ففی النار قال ذلک ثلٰث مرّات ولا ینظر اللّٰہ یوم القیامة الٰی من جرّ ازارہ بطرا (ابوداؤد وابن ماجہ، مشکوٰة،ص:۳۷۴)
حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا فرماتے تھے کہ مومن بندہ کے لئے ازار یعنی تہبند باندھنے کا طریقہ (یعنی بہتر اور اولیٰ صورت) یہ ہے کہ نصف ساق تک (یعنی پنڈلی کے درمیانی حصہ تک ہو اور نصف ساق اور ٹخنوں کے درمیان تک ہو تو یہ بھی گناہ نہیں یعنی جائز ہے اور جو اس سے نیچے ہو تو وہ جہنم میں ہے (یعنی اس کا نتیجہ جہنم ہے) راوی کہتے ہیں کہ یہ بات آپ نے تین دفعہ ارشاد فرمائی (اس کے بعد ارشاد فرمایا) اللہ اس آدمی کی طرف نگاہ اٹھاکے بھی نہ دیکھے گا جو ازراہِ فخر وتکبر اپنی ازار گھسیٹ کر چلے گا۔ ان حدیثوں میں فخر وغرور والا لباس استعمال کرنے والوں کو سخت وعید سنائی گئی کہ وہ قیامت کے اس دن میں جبکہ ہر بندہ اپنے رب کریم کی نگاہِ رحم وکرم کا سخت محتاج اور آرزومند ہوگا وہ اس کی نگاہِ رحمت سے محروم رہیں گے۔ اللہ رب العزت اس دن ان کو بالکل ہی نظرانداز کردے گا اور ان کی طرف نظر اٹھاکر بھی نہ دیکھے گا۔ کیا ٹھکانہ ہے اس محرومی اور بدبختی کا۔ اللّٰہم احفظنا منہ۔
حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ تعالی عنہ کی حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ مومن کے لئے اولیٰ اور بہتر یہ ہے کہ تہبند اور اسی طرح پائجامہ نصف ساق تک ہو اور ٹخنوں کے اوپر تک ہوتو یہ بھی جائز ہے لیکن اس سے نیچے جائز نہیں بلکہ سخت گناہ ہے اور اس پر جہنم کی وعید ہے۔ (معارف الحدیث،ص:۲۹۰،ج:۲)
اس وقت لباس کے متعلق اسلامی معاشرہ کی صورت حال زبوں تر ہے عوام الناس کے طبقہ میں دنیوی تعلیم وتہذیب سے متاثر طبقہ کا تو حال ہی عجیب وغریب ہوچکا ہے کہ ان کو لباس و پوشاک میں غیروں کے ساتھ ایسی مشابہت اور موانست پختہ ہوچکی ہے کہ مسلمان وغیرمسلمان کے مابین فرق وامتیاز مشکل بلکہ ناممکن معلوم ہوتا ہے اوراس مروجہ لباس شرٹ اور پینٹ کی وضع اورہیئت ہی ایسی ہوتی ہے کہ اس کو پہننے والے کو ٹخنوں کا مستور ہونا ایک لازمی امر ہے، اگرچہ بعض دین سے وابستہ حضرات نماز وغیرہ کے دوران اس میں احتیاط کرتے نظر آتے ہیں لیکن اکثریت ایسے لوگوں کی ہوتی ہے جنہیں اس طرف توجہ نہیں رہتی بلکہ اس کے گناہ ہونے کا ادراک بھی نہیں ہوتا اور وہ اپنے معمول کے کپڑوں (نصف ہاتھ کہنیوں تک شرٹ اور ٹخنوں پر لٹکی پینٹ) میں نماز پڑھ لیتے ہیں، بہرحال اس مسئلہ سے قطع نظر کہ ان لوگوں کی نماز کا کیا حکم ہے یا ان کا عمل کس درجہ کا ہے؟ ہمیں یہاں ایک دوسرے موضوع پر عرض کرنا ہے۔ وہ یہ کہ مدارس اسلامیہ کے فضلاء اور مدارس میں زیرتعلیم طلبہ کو بھی عموماً اسبال ازار کے گناہ بے لذت میں دیکھاجاتا ہے، بلکہ بعض مدرسوں کے معلّمین اور اہل انتظام کا بھی اس میں ابتلا نظر آتا ہے کہ وہ نہ خود اس کمزوری اور کوتاہی پر متنبہ ہوتے اورنہ اپنے ماتحتوں اساتذہ اور طلبہ کی وضع قطع اور اصلاح و درستگی کی جانب دھیان دیتے اس طرح یہ سلسلہ متعدی ہوتا جارہا ہے اس میں کوئی شک وشبہ نہیں کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمودات وارشادات کسی خاص طبقہ کے لئے نہیں بلکہ ہر صاحب ایمان ان تعلیمات نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کا براہِ راست مخاطب ہے، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذاتی معمول کو اپنے عمل میں لانا ہر مسلمان کی دینی محت کا عین تقاضا بھی ہے اور خوش نصیبی کا سامان بھی، اللہ رب العزت ہمیں توفیق عمل سے نوازے اور ہم لوگوں کے مردہ احساس کو بیدار فرمائے