• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

استاذ سے اختلاف

سید طہ عارف

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 18، 2016
پیغامات
737
ری ایکشن اسکور
141
پوائنٹ
118
استاد سے اختلاف ۔
شاگرد جب دلیل کی بنا پر استاد سے اختلاف کرتا ھے ۔تو اس میں بہت سارے محاسن مخفی ھوتے ھیں ۔جن کو صرف باریک بین لوگ ہی معلوم کرسکتے ھیں۔
چند کا ھم تذکرہ کرتے ھیں ۔

پہلا حسن اس میں یہ ھوتاھے ۔کہ اس سے اندازہ ھوجاتاھے ۔کہ شاگرد لاابالی قسم کا بندہ نہیں ھے ۔بلکہ اپنے استاد کی بات کو قابلِ توجہ سمجھتاھے ۔

دوسراحسن یہ ھے ۔کہ وہ استاد کی بات پر توجہ کرنےکے ساتھ ساتھ اسے سمجھنے کی بھی صلاحیت رکھتاھے ۔

تیسراحسن یہ ھے ۔کہ اس میں غور وفکر اورتنقید کی صلاحیت موجود ھے ۔ اس لیے تو وہ اپنی رائے پیش کرتاھے ۔

چوتھا حسن یہ ھے کہ وہ اپنے اس عمل سے سلف طیب کی سنت کو زندہ کرتاھے کہ صاف صاف اظھارِ مافی الضمیر کرتاھے ۔

پانچواں حسن یہ ھے ۔کہ وہ غلو میں گرفتار نہیں ھے ۔کہ ساری چیزوں کو استاد کی نظر سے دیکھ لے ۔

چھٹاحسن یہ ھے ۔کہ وہ جرات کی صفت سے بھی متصف ھے ۔اس بنا پر تو وہ اختلاف کرتاھے ۔

ساتواں حسن یہ ھے کہ وہ تفھیم کا ملکہ بھی رکھتاھے ۔اس لیے تو اپنے نقطہ نظر کو اس طریقہ پر پیش کرتا ھے ۔

آٹھواں حسن یہ ھے ۔کہ وہ اپنے استاد کو وسیع النظر عالم جانتا ھے ۔اسی لیے تو ان سے اختلاف کرتاھے ۔

نواں حسن یہ ھے کہ وہ اس اختلاف سے اپنے استاد کو یہ پیغام دیتاھے کہ تیرا لگایا ھوا پودااب پھل دینے لگاھے ۔

دسواں حسن یہ ھے ۔کہ وہ لوگوں کو یہ پیغام دیتاھے ۔کہ علم کے حصول کا مطلب روشنی کے پیچھے چلنا ھوتاھے ۔نہ کہ اندھیرے میں رھنا ۔جب استاد کے پاس بھی دلیل کی روشنی نہیں رھی تو اس نے دوسری جگہ روشنی کو تلاش کیا ۔

سنجیدہ اساتذہ اختلاف میں ایسے بے شمار محاسن کو مطالعہ کرتے ھیں اس لیے وہ اپنے شاگردوں سے اظھار اختلاف پر کبھی بھی ناراض نہیں ھوتے ۔

اس حوالے سے ایک دومثالیں ملاحظہ ھو ۔

ھمارے شیخ جناب مولانا محمدعنایت الرحمن صان اللہ قدرہ کو اپنے شیخ مولانا خان بہادر مارتونگی رحمہ اللہ سےبہت محبت تھی ۔
فرماتے تھے ۔کہ میرے استاد دعا میں وسیلہ بالذوات الفاضلة کے قائل تھے ۔ھم جو ان کے شاگرد تھے ۔اس کے منکر تھے ۔ایک دفعہ میں ان سے ملنے کے لیے سوات گیا تھا ۔تو انھوں نے اس مسئلہ کو چھیڑ دیا ۔کہ نقیب احمد آیا تھا ۔وہ وسیلہ کا منکر تھا ۔
میں نے شیخ عبدالحق کی شرح مشکوة سے اسے ملزم کیا ۔

شیخ فرماتے ھیں ۔کہ مجھے یہ بات بہت بری لگی ۔کہ انھوں نے نقیب احمد صاحب کا نام اس طرح لیا ۔وہ اگرچہ ان کے شاگرد تھے ۔

شیخ فرماتے ھیں ۔کہ میں نے ان سے کھا حضرت جو لوگ اس کتاب سے استدلال کرتے ھیں ۔ان کو غلطی لگی ھے ۔پھر میں نے اس عربی عبارت کا تجزیہ کرکے اس استدلال کی غلطی واضح کی ۔فرمایا جب انھوں نے سنا تودیر تک غور وفکر میں ڈوبے رھے ۔آخر میں فرمایا ۔کہ عنایت الرحمن اگر اسمان پر بھی پہنچو تب بھی میرے شاگرد ھو ۔

شیخ نے فرمایا کہ میں نے ان سے کھا ۔حضور میرے وجود میں قسم بخدا اور کوئی خوبی نہیں بجز اس کے کہ آپ کا شاگر ھوں ۔دیکھا وسیلہ جیسے معرکة الاراء مسئلہ میں انھوں نے اپنے استاد سے نہ صرف اختلاف کیا ۔بلکہ ان کی علمی غلطی بھی واضح کی ۔مگر انھوں نے اسکا برا نہیں منایا رحمھما اللہ ۔

مگر یہ بندہ ناچیز یہ کھتا ھے ۔کہ مشکوة کی شرح فارسی اور عربی ازشیخ عبدالحق محدث دھلوی کو جس نے بغور دیکھا ھو۔تو وہ اس بات کی گواھی دے گا ۔کہ وہ وسیلہ بالذوات الفاضلة کی اثبات میں صریح ھے ۔ اور مولانا مارتونگی کی موید ھے

ھماری رائے شیخ الاسلام ابنِ تیمیہ وغیرہ کے ساتھ ھے ۔ جو اس کے قایل نہیں ھیں ۔ مگر شرح مشکوة سے اس کی تایئد نہیں ھوتی ۔گویا ھمیں اس کتاب کے بارے میں اپنے شیخ کے بجائے شیخ المشایخ مولانا مارتونگی کی توجیہ قابل قبول ھے ۔دوسری مثال یہ ھے کہ ۔شیخ ثناء اللہ امرتسری مولانا محمود حسن صاحب کے شاگرد تھے ۔ مسلکا ان الگ تھے ۔

جن لوگوں نے ان کے بارے میں پڑھا ھے ۔وہ جانتے ھیں ۔کہ انھوں نے ان کے مسلک کے خلاف بعض باتیں بہت زوردارلکھی ھیں ۔ اور ان کے ساتھ زبانی اور تحریری مناظرے بھی کیے ۔مگر اس کے باوجود اھل دیوبند نے ان کے ساتھ رشتہ وناطہ کو برقرار رکھا ۔ اور اس اختلاف کو انانیت کا مسئلہ نہیں بنایا ۔ بلکہ جب بھاولپور کا مشھور مرزائی مقدمہ چلا ۔تواھلِ دیوبند نے ایک مشکل موقع پر مولانا ثناء اللہ کو بھی خصوصی طور پرادھر بلایا ۔تاکہ وہ اس مقدمہ میں مسلمان علماء کی مددکرسکے ۔اور وہ وھاں پہنچے ۔

خلاصہ یہ ھوا کہ شاگرد چاھے زبانی طور پر استاد سے اختلاف کریں یا پھر تحریری طور پر ۔ اس میں کوئی مضایقہ نہیں ھے ۔ اورنہ اسے کوئی معقول شخص براکہ سکتا ھے ۔ بشرطیکہ دلیل وبرھان کی بنا پر ھو ۔ نفسانیت وحزبیت اور ضد وعناد کی بنا پر نہ ھو۔ یہ عام احباب کے لیے پیش کی ھیں ۔

علماء کرام ۔کتاب الحجة علی اھل المدینة ۔امام محمدبن الحسن کی اور کتاب الام امام محمد بن ادریس شافعی کی اس حوالے سے پیش ِ نظر رکھ سکتے ھیں ۔والسلام

مولانا واصل واسطی حفظہ اللہ
 
Top