• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

استاذ محترم مولانا عبد السلام مدنی رحمہ اللہ: حیات مستعار کے چند اہم نقوش

شمولیت
ستمبر 11، 2013
پیغامات
26
ری ایکشن اسکور
4
پوائنٹ
52
استاذ محترم مولانا عبد السلام مدنی رحمہ اللہ: حیات مستعار کے چند اہم نقوش
عبدالمعید مدنی (فیجی)
مولانا عبدالسلام مدنی اس دار فانی سے کوچ کرگئے۔ اللہ تعالی ان کو غریق رحمت کرے آمین۔
ہم لوگ ایسے دور کے بدنصیب ہیں جس میں قلوب واذہان میں اپنی ذات کے سوا دوسروں کے جگہ نہیں ہوتی۔ یہی سب کی کہانی ہے۔

اساتذہ دینی وسماجی دونوں اعتبار سے قابل احترام ہیں۔لیکن مادیت پسندی ساری روایتوں کو بہا لےگئی۔پس مرگ چند آنسو ہی انکا مقدر ہیں اور وہ ان کا حصہ بنتے ہیں جن کی نمایاں جہود ہوں۔عام روایت سے ہٹ جعل سازی کی دنیا میں تو لہو گرم اور لہو رنگ ہونے کی حد ہی نہیں ہے۔اور انکا اعتبار بھی نہیں۔یہ عجیب رسم چمن چل پڑی ہے کہ زندگی میں گالیوں کی بوچھاڑ،اور پس مرگ عقیدتوں اور آنسوؤں کے نذرانوں کی بہار۔زندگی میں نفرت ہی نفرت۔اور بعد از مرگ محبت ہی محبت۔
ہم اپنے استاذکو کیا نذرانہ عقیدت و محبت پیش کریں ؟اگر ہم نے استاذکو حق استاذیت نہیں دیا ۔متعین ادب واحترام کو روا نہیں رکھا تو پس مرگ محبت وعقیدت کا ہمارا دعوی زبانی جمع خرچ کےسوا کچھ نہیں ہے .
مولانا نے اپنے سرمایہ حیات کواسی مقام پر صرف کیا جہاں ایک ہوشمند کو صرف کرنا چاہئے۔زندگی کا فیکٹر یہی ہے کہ انسان اپنے اوقات کہاں صرف کرتا ہے۔انسان اپنے وقفہ حیات میں اس قدر انسان گزیدہ ہے کہ اس کے لئے خود کو سنبھالنا مشکل ہوجاتا ہے۔اس کے اکثر اوقات آہ و کراہ میں بیت جاتے ہیں۔ستم رسا ادائیں بکثرت ہیں ۔ ستم رسانیاں بکثرت ہیں ۔اور ستم رسانیوں کے حقوق بھی بکثرت ہیں جو جبرا طے کر لئے گئے ہیں۔ اور دور نفاق میں ان کی تائید میں لوگ فلسفہ خوری کے خوب عادی بھی ہیں۔
داد دیجئے مولانا کو کہ انھوں نے چالیس سال ایسے ماحول میں گذارا۔نہ گلہ نہ شکوہ۔پوری یکسوئی کے ساتھ اپنے فرائض منصبی کو نبھانے میں لگا دیا اور اس شان کے ساتھ کہ سارےفرائض سے بخوبی عہدہ برہو گئے.یہ بھی ایک کامیاب طرز زندگی ہے۔
استاد محترم ان سارے آزار سے گذرے لیکن آہ نہ کی ۔رسم وفا بھر پور طور پر نبھائی۔اسرار حیات اسی وقت کھلتے ہیں جب انسان کانٹوں پر چل کر خود کو لہو لہان ہونے سے بچا لے ۔کتنے عظیم ہوتے ہیں ایسے لوگ جن کو سلیقہ حیات آتا ہے۔کھو کھلے الفاظ سے کسی کے گرد حصار عظمت کھڑا کرنے کی ناروا کوشش مستحسن نہیں۔کسی کی عظمت حیات کو پرکھنے کا ہنر آنا چاہئے۔بلا پڑھے لکھے دانشور بننا آج سب سے آسان کام ہے۔جس بند ماحول یا جہنم زار حیات میں انسان بہار حیات کے چند جھو کوں کے لئے ترس جائے اسجگہ وفاداری کے سارے رسوم کو نبھا کے فرائض منصبی ادا کر لے جائے کیا عزیمت سے کم ہے۔اباحیت پسندی کی راہ اپنا کر اس وقت چہچہانے کے لئے انسان کے پاس موسم گل ہی موسم گل ہے۔مگر حق وناحق کی تمیز کے ساتھ وقت کاٹنا عذاب جھیلنے سے کم نہیں ہے۔ زندگی گزارنے کا فن ارزاں نہیں ہے نہ یہ فن سب کو آتا ہے۔
مولانا کی زندگی کی پہچان یکسوئی ہے۔انھوں نے سادگی کو اپنی زندگی کی پہچان بنائی اور اس کو زندگی بھر برتا۔علاقائیت اور ذات برادری کی چھوت چھات کو پسند نہیں کیا جبکہ انڈیا میں تعلیم گاہوں کی سب سے اولین پہچان یہی ہے۔سارےتعلیمی صنم کدوں کا سب سے بڑا بت یہی ہے۔یہی کسب وظائف اور کسب منصب کا سب سے بڑا ذریعہ ہے.تعلیم گاہوں میں،اور معلمین کے لئے جشن،شہرت اور طاقت کے لئے سب سے بڑا سہارا یہی چھوت چھات ہے۔
تحمل برداشت یکسوئی اور محنت نے مولانا کو معاش اولاد تدریس علم اور خطابت میں وقت کے پیمانے کے مطابق کامیابی عطا کی۔یہ سب عیاں ہے تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں۔
انسان کی علمی واخلاقی صلاحیتیں اس وقت مخدوش ہو جاتی ہیں جب وہ خبث باطن کا شکار ہو جائے۔بہت سے ا یسے نامور دیکھے ہیں کہ کریدو تو راکھ کے سوا کچھ نہ ملے گا خبث باطن نے انھیں راکھ بنادیا. جہاں خبث باطن ہوتا ہے وہاں فتنے اٹھتے ہیں۔
طالب علمی اور تدریس کے دونوں ادوار میں مولانا سے انتہائی قربت کا تعلق تھا ۔یہ مشاہدہ ہے کہ تورع اور احتیاط کا دامن انھوں نے کبھی ہاتھ سے جانے نہ دیا۔
مجھے زندگی کے نشیب وفراز کا خوب پتہ ہے اور یہ بھی پتہ ہے کہ کس مہارت سے انھوں نے اپنا تحفظ کیا ۔ورنہ انھیں بھی عبد الحمید،عبدالرحمن اور عبدالمعید کی طرح کاشانہ علم کو خیر باد کہنا پڑتا.
نہنگوں کے نشیمن میں رہنا سب کے بس کی بات نہیں۔ایسے میں بے ضررمساکین چاپلوس یا ہمت والے دور اندیش رہ سکتے ہیں۔
سارے اداروں کی یہی کہانی ہے۔
عجیب دور فتن ہے ۔اس وقت جعلساز اور جعلسازی لپک کر ہر شئے پر مکڑی کی طرح جالے تان دیتی ہے۔پھر حقائق کی پہچان مشکل ہو جاتی ہے۔
مولانا نے خاموش،اپناییت اور۔اعتبار کی زندگی گزاری۔اور زندگی سے کامیابیوں کو نچوڑ ا۔زندگی سے کامیابیوں کو نچوڑنا آسان کام نہیں ہے۔
ذکر تدریس کا۔تسہیل ایجاز،بھرپور ادنی ترین طالب علم پرفوکس ہرفن کی تدریس فن کے تقاضوں کے مطابق۔بھرپور تیاری۔نوٹس کی تیاری۔تدریس کا فن آتا ہو۔ تدریس سے دلچسپی ہو۔اور طلباء کو کچھ دینے اور سکھانے کا جذبہ ہو تو معلم انھیں بہت کچھ سکھا سکتا ہے۔
مولانا کو تدریس کا فن آنا تھا۔تدریس سے بڑی دلچسپی بھی تھی اور طلباء کو کچھ دینے اور انھیں بنا دینے کا جذبہ بھی تھا اور سب سے بڑی بات اس وقت مدارس میں بھی اگر اپنے شاگردوں سے گالی سننے کا حوصلہ پیدا کر لے یا گالی دینے کی عادت ڈال لے تو پہلی صورت میں کامیاب مدرس بن سکتا ہے ۔دوسری صورت میں چیپ لائن مدرس بن سکتا ہے۔اور تیسری صورت میں نیتا مدرس ہوتےہیں۔جہاں چوزے قسم کے ذمہ دار ادارہ ہوں وہاں نیتا مدرسین کی کثرت ہوتی ہے جو طلباء کے ساتھ کلاس میں دبنگوں کا سا رویہ روا رکھتے ہیں۔
مولانا اک با کمال اور معزز معلم تھے۔تعلیم کے لئے مطلوب اسلامی معتبریت انھیں حاصل تھی الحمد للہ.
اسلامی تدریس اسلامی معلم کی روح کا عکس ہوتی ہے۔اسکی ثقافت مہارت اور سیرت وکردار کا پیکر ہوتی ہے ۔ایسی صورت میں طالب علم استاد کا عکس بن جاتاہے۔اسکی نبرات صوت تک کا امین بن جاتاہے ہے استاد اس کا آئینہ حیات بن جاتاہے۔
آج کوئی استاد کیا کر سکتا ہے۔جب پڑھنے والے ایسے آجائیں جو خود ہی استاد ہوں ۔ایسی حالت میں مذکور ہ اقسام کے استاد میسر ہو سکتے ہیں۔ تدریس دین اس وقت مجبوری کا پیشہ بن گئی ہے۔یا فقط ذوق حیات۔ایک دو فیصد دیوانے مل جائیں یہی حاصل تدریس ہے بقیہ بس سر گرمئی محفل قائم رہنے اور رکھنے کی بات ہے۔
مولانا کچھ اسی قسم کا استاد بننے کے زندگی بھر خواہاں رہے۔ اس وقت نہ علم کام کی،نہ عمل۔پروپگنڈہ اور ادعاء ہی کافی ہے اس بگڑ ےماحول میں بھی مولانا نے خاموش اور تحمل سے اپنی راہ نکال اور تدریس کو معتبریت دی اعتبار بخشا۔
مولانا کی ایک پہچان تھی خطیب کی۔بنجارہ خطابت کے ماحول میں ،ادعاء وکسبی خطابت کی دنیا میں،بے لگام سرکش خطابت کے عالم میں۔کذب ونفاق کا اسٹیج لگانے کی دنیا میں مولانا کی خطابت خطابت کے لئے ایک علمی دعوتی اور ترب پہچان تھی۔ ادلہ نصوص اور آداب خطابت سے مزین۔ خطابت کو انھوں نے اسوقت بھی اعتبار بخشا جبکہ خطابت سر بازار رسواہے رسوا خطباء کے سبب اور رسوا مقاصد کے سبب۔مولانا کی زندگی وادی میں بہنے والی ندی کی مانند تھی جو پہاڑی نالوں کے برعکس خاموشی سے برابر بہے جاتی ہے اورخلق الہی اس سے مسلسل مستفید ہوتی ہے۔
مولانا کی زندگی کا ایک عنوان ہے تسلسل۔پوریزندگی تسلسل سے تعبیر ہے۔اس تسلسل نے ان کی تدریس خطابت علمی کاموں اور تربیت اولاد کو جلا بخشا۔
علمی استعداد ایک شے ہے۔اور اس کا استعمال دوسری شے ہے۔علمی استعداد کم ہو یا زیادہ اگر اخلاص کے ساتھ اس کا استعمال ہو تو حسنات دنیا وآخرت کا حصول ممکن ہے۔عیاں ہے کہ انھوں نے اپنے علمی استعداد کو خدمت دین کے لئے ممکن حد تک استعمال کیا۔یہ بہت بڑی کامیابی ہے۔اکثر بد نصیب اس کامیابی سے محروم رہ جاتے ہیں۔
کسی کی داستان حیات اگر شخصی تعلقات کی جھوٹی داستانوں سے کسی کی داستان حیات کو سجایا جائے تو تذکروں اور افسانوں کے درمیان کوئی فرق نہیں رہ جا ئے گا۔
اس وقت یہی ہورہا ہے۔کسی شخص پر اگر لکھنے کی دعوت مل جائے تو ثقافت و عدالت کی پروا کئے بغیر ایک جم غفیر ٹوٹ پڑتا ہے اورایسا منظر بنتاہے جیسے کسی کو فرشتہ بنانے کی بھر پور کوشش ہو رہی ہے ۔مدلل مداحی کا بھیانک خواب۔ مولانا نے کامیاب زندگی گزاری والعلم عنداللہ۔
مولانا کے نقوش حیات کچھ اس طرح ہیں
ولادت:7فروری 1944
[ مقام؛ موضع ٹکریا ضلع سدھارتھ نگر ،یوپی۔
تعلیم:مفتاح العلوم ٹکریا, مکتب52تا 60 مدرسہ سراج العلوم بونڈھیار۔حال ضلع بلرام پور۔عربی چہارم تک۔
60تا+66 مدرسہ رحمانیہ بنارس۔تا فراغت۔
66تا70 جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ۔بی اے دعوۃ۔: فاضل عربی ادب مدسہ بورڈ یوپی
اساتذہ:مولانا نذیر احمد رحمانی۔مولانا محمد اقبال رحمانی۔مولانا عابد حسن رحمانی۔ مولانا عبد الغفار حسن رحمانی۔ شیخ عبدالمحسن العباد ،ڈاکٹر تقی الدین الہلالی، شیخ ابوبکر الجزائری،شیخ محمد امین شنقیطی۔شیخ محمود فخری۔ یہ یے اہم اساتذہ کی فہرست.
تدریس:10دسمبر 1970تا 30جون2011جامعہ سلفیہ بنارس۔مدت تدریس چالیس سال۔
عالمیت تا فضیلت کی اکثر علوم حدیث کی نصابی کتابیں زیر تدریس رہیں۔فقہ وادب کی کتابیں بھی زیر تدریس رہیں۔
اولاد:پانچ بیٹے،پانچ بیٹیاں۔سب تعلیم یافتہ،اعلی تعلیم یافتہ۔اور سب تاہل کی زندگی میں داخل اور خوشحال ،مطمئن معاشی زندگی۔
ازدواجی زندگی :مولانا کی ازدواجی زندگی کامیاب رہی۔ماموں کی صاحبزادی زوجہ محترمہ اور اب بیوگی کے غم کا بوجھ اٹھاے ہوئے ہیں اللہ ان کو اور بچوں کو صبر کی توفیق بخشے اور عظیم استاد کو بال بال بخشے۔ آمین یا رب العالمین۔
تصانیف:حاشیہ نزھت النظر،زیر درس کتابوں کے نوٹس،مشکات اور سنن نسائی کے نوٹس چھپ چکے ہیں۔دروس حدیث،خطبات کے مجموعے۔
مرعات المفاتیح کی پروف ریڈنگ۔یہ بہت بڑا کام تھا۔ شیخ الحدیث رحمہ اللہ کو مولانا کی پروف ریڈنگ پربڑا اعتبار تھا ۔جن کا تعلق تصنیف وتالیف کی دنیا سے نہیں ہے ان کو پتہ نہیں کہ پروف ریڈنگ کتنا بڑا درد سر ہے۔ میری تحریروں میں میری کمزور پروف ریڈنگ کے سبب شرمناک غلطیاں رہ جاتی ہیں۔مرعاۃالمفاتیح کی غلطیوں سے پاک طباعت کا سہرا مولانا کے سر جاتاہے۔
مولانا نے معتبر مستند اور صاف ستھری زندگی گذاری۔نیکی صالحیت اور امانت داری کو انھوں نے برتا۔ انکا بہت بڑا سرمایہ چالیس سالوں پر پھیلے انکے تلامذہ ہیں .انھیں میں سے ایک یہ کج مج راقم سطور ۔اور ان کا شاگرد ہونے پر بجا طور پر نازہے۔ شاگرد ہونے کی حیثیت سے ان سے شفقت بھی ملی ،محبت بھی ملی اور عزت بھی ملی ۔صرف کہنے کو نہیں۔مثالی شفقت ومحبت اور عزت۔
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,472
پوائنٹ
964
رحمہ اللہ رحمۃ واسعۃ
مولانا عبد المعید تذکرہ نگاری کے ساتھ تبصرہ نگاری بھی خوب کرتے ہیں۔
 
Top