• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

استشراقی نظریہ ارتقاء اورقراء اتِ قرآنیہ

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
٭ ابن ابی داؤدرحمہ اللہ نے ’مصحف ِعمر بن خطابt ‘کا عنوان قائم کیا ہے۔(۶۷) جس کو دیکھتے ہی یہ تاثر ملتا ہے کہ حضرت عمرtنے پورا قرآن علیحدہ طور پر جمع کیا تھا، لیکن تین آیات میں صرف تین صورتوں کا ذکر کر نے کے بعد یہ مصحف اختتام پذیر ہوجاتا ہے۔(۶۸)ایسی صورت میں ایک عقلمند شخص کسی بھی طرح تین اختلافی وجوہ کی بناء پر کسی صحابی رضی اللہ عنہ کوکسی مستقل مصحف کا حامل نہیں گردان سکتااور نہ ہی اس سے مصحف امام کے ساتھ تقابل کی منطق سمجھ میں آتی ہے، لیکن جیفری ان کو مقابل مصحف کا حامل گرداننے پر مصر ہے۔(۶۹)
٭ اس سے بھی زیادہ قابلِ تعجب بات یہ ہے کہ مصحف ِعمررضی اللہ عنہ کے بعد ’مصحف ِعلی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ ‘میں صرف ایک روایت ذکر کی ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ ’’آمَنَ الرَّسُوْلُ بِمَا اُنْزِلَ اِلَیْہِ مِنْ رَبِّہِ وَالْمُوْمِنُوْنَ‘‘(۷۰)کو اس طرح پڑھتے تھے’’آمن الرسول بما انزل الیہ وآمن المومنون‘‘(۷۱)ظاہر ہے کہ ابن ابی داؤدرحمہ اللہ اس سے تفسیری روایات کو واضح کرنا چاہتا ہے، لیکن محقق نے اس کوبھی مصحف گرداناہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
٭ واضح رہے کہ بعض مولفین نے ’مصحف ِفلان‘کے لفظ کا اطلاق ان چند قراء ات پر بھی کیا ہے جو کسی صحابی رضی اللہ عنہ سے منسوب ہوں جیسا کہ حمزہ بن عبد المطلب رضی اللہ عنہ کی جانب مصحف منسوب کیا ہے حالانکہ وہ قرآن کریم کے مکمل ہونے سے آٹھ سال قبل غزوئہ ِاحد میں شہید ہوگئے تھے۔(۷۲)اس سے معلوم ہوا کہ مصحف کے لفظ کا اطلاق پورے قرآن کے جمع پر ہی نہیں ہوتا بلکہ ایک یا زیادہ روایات پر بھی ہوتا ہے ۔ لہٰذا آرتھر جیفری کے مقابل مصاحف کی حقیقت زیادہ سے زیادہ صرف اس قدر ہے کہ یہ وہ چند قراء ات یا تفسیری اضافے ہیں جن کی استنادی حیثیت سے قطع نظر ان کو صحابہ رضی اللہ عنہم کی جانب منسوب کیا گیا ہے۔یقینا یہ چند روایات ِاحاد ،متواتر قرآن کے مدمقابل قابلِ تسلیم نہیں ہیں۔
٭ حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کے مصحف کو ’لباب القلوب‘ سے منسوب کیا گیا ہے جس کے ذیل میں صرف چار قراء ات بیان کی گئی ہیں:
(١) ’ابراہیم ‘کی جگہ’ ابراہام‘ (٢) ’لا یعقلون‘ کی جگہ ’لا یفقہون‘
(٣) ’صوافّ کی جگہ ’صوافِیَ‘ (٤) مَنْ قبْلَہُ کی جگہ من تلقاء ہ(۷۳)
صرف چار صورتوں کی بناء پر جن میں دو قراء ات ہیں اور دوتفسیری روایات ہیں ،قطعاً الگ مصحف کو خاص اسم سے منسوب کرنا قرآنی تاریخ میں گھات لگانے کے مترادف ہے۔(۷۴)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
جیفری نے کتاب المصاحف کی Editingکے بعد اس کے شروع میں عربی زبان میں ایک مقدمہ اور آخر میں Materials for the history of the text of the Qur`anکے نام سے اپنا مسودہ شامل ِاشاعت کیا ہے ۔ اپنے مقدمہ کی ابتدائی سطور میں اس نے بڑی آسانی سے یہ دعویٰ کیا ہے کہ’’ ہم یہ کتاب قراء کے لیے اس امید پر پیش کر رہے ہیں کہ یہ ان کے لیے قرآنی قراء ات کے ارتقائی تاریخ پر ایک تازہ اور نئی بحث کے طور پر بنیاد ثابت ہوگی۔اگر چہ اس دور میں مشرق کے علماء قرآن کے اعجاز واَحکام کے متعلق بہت سی کتابیں شائع کر رہے ہیں، لیکن وہ ہمارے سامنے قراء ات کے اِرتقائی مراحل کی وضاحت کرنے سے قاصر رہے ہیں۔ ہمیں یہ بات صحیح طور پر معلوم نہیں ہو سکی کہ مسلمان اس بحث میں تحقیق کرنے سے اس حد تک کیوں گریزاں ہیں،جبکہ فی زمانہ ،ارتقاء کے متعلق ،کتب قدیمہ میں خاص طور پر کئی نزاعات سامنے آرہے ہیں۔ چنانچہ اس کتاب میں جو تبدیلی یا تحریف واقع ہوئی ہے اس حوالہ سے بعض لکھنے والے کامیاب بھی ہوئے ہیں۔‘‘(۷۵)
مستشرق موصوف کے اس بیان کا جو پس منظر راقم کے سامنے آتا ہے وہ درحقیقت اس کا اپنی مقدس کتب کی حقیقتوں سے صحیح معنوں میں روشناس ہونا ہے ، چنانچہ اس کو اس بات کا بخوبی احساس ہے کہ انجیل اپنی اصلی حالت میں موجود نہیں ہے اور اس میں پے بہ پے ارتقاء کے سبب پیدا ہونے والی تبدیلیوں سے اس کا متن ناقابلِ اعتبار ہوچکاہے۔بالکل شعوری طور رپروہ مسلمانوں کے قرآن کو اپنی کتب کے مساوی حیثیت میں لانے کے لیے یہ جملہ ذکرکر رہا ہے ۔یقینا اس کے بقول جو مصنفین اس’ تحقیق‘ میں کامیاب ہوئے ہیں وہ انجیل کی تحریفات اور اس میں ارتقائی تبدیلیوں کے صحیح تجزیہ نگار ہیں، لیکن حقیقت یہ ہے کہ مسلمانوں کو ایسے کام کی نہ تو کبھی ضرورت محسوس ہوئی اور نہ ہی قرآن میں ایسے ارتقاء کی کوئی گنجائش ہے ۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
قرآن کی قراء ات ِ متواترہ نبی کریمﷺسے ثابت و منقول ہیں اور آپﷺوحیِ الٰہی کے بغیر کوئی تبدیلی یا کمی بیشی نہیں کر سکتے تھے جیسا کہ قرآن نے اس کی تصریح کی ہے :
’’قُلْ مَایَکُونُ لِیْ اَنْ اُبَدِّلَہُ مِنْ تِلْقَآئِ یْ نَفْسِیْ اِنْ اَتَّبِعُ اِلَّا مَا یُوْحٰی اِلَیَّ‘‘(۷۶)
’’کہہ دیجئے کہ مجھے اختیار نہیں کہ میں اس کو اپنی طرف سے بدلوں، میں تو صرف اسی کی اتباع کرتا ہوں کہ جو مجھ پر وحی ہوتی ہے‘‘۔
چنانچہ اللہ کے رسولﷺنے قرآن کریم کے تمام حروف والفاظ جبریل علیہ السلام سے حاصل کر کے ہو بہو اپنے صحابہ رضی اللہ عنہم تک پہنچائے ،اسی طرح صحابہ رضی اللہ عنہم نے اپنے بعد والوں کو اور آج تک یہ سلسلہ بغیر کسی تبدیلی یا کمی بیشی کے جاری ہے اور رہے گا۔اس لئے یہ تو ایک ایسی سنت ہے جو نقل در نقل ثابت ہے، چنانچہ مسلمان قراء ات کی تحقیق ووضاحت سے غافل نہیں اور نہ ہی اس کو چھپاتے ہیں بلکہ وہ تو اس حد تک ٹھہرے ہوئے ہیں جو ان کو بطریقِ تواتر موصول ہوئی ہے اور یہیں سے مستشرقین وملحدین کی عدمِ واقفیت کی بھی قلعی کھلتی ہے کہ وہ کس قدر قرآنی قراء ات کے ایصال وترویج اور ان کے تواتر سے بتکلف صرفِ نظر کرتے ہیں۔ آرتھر جیفری کا یہ شبہ، کہ مسلمان علماء اپنی کتاب میں ارتقاء کی بحث سے رکے رہے ہیں،اس کی اس تمنا اورخواہش کو واضح کرتا ہے کہ کاش یہودی اورعیسائی علماء کی طرح مسلمان بھی اپنی کتاب میں تحریف کرتے، لیکن مسلم علماء کی امانت ودیانت اور علم وتحقیق میں ان کا نقل وتواتر پر مدارکتاب اللہ کی حفاظت کا واضح ثبوت ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
جیفری نے کتاب المصاحف کے مقدمہ میں اپنے پیشرو نولڈکے(Noldeke)، شوالی(Schewally)، برجسٹراسر (Bergrtrasser)اور پرٹزل(Pritzl)کے اتباع میں قرآنی متن کو اپنا موضوعِ تحقیق بنایا ہے اور خاص طور پر نولڈکے کی ’تاریخ القرآن‘کو بنیاد بناتے ہوئے چند نتائج کا تذکرہ کیا ہے ۔ اس کے نزدیک یہ نتائج مستشرقین کی ابحاث ہی سے ماخوذ ہیں،ان کے بغور مطالعہ سے ہمیں متعد د اغلاط اورمتناقض آراء بھی ملتی ہیں ۔جیفری نے ان کے بیان میں کسی منقولی دلیل سے استدلال کرنا مناسب نہیں سمجھا۔ ہم جیفری کے ذکر کردہ ان تحقیقی نتائج کا تنقیدی جائزہ پیش کرتے ہیں:
٭ جیفر ی کا سب سے بڑا اعتراض یہ ہے کہ آنحضرتﷺکے عہد میں پوراقرآن نہیں لکھاگیا بلکہ اس کے کچھ حصے لکھے گئے تھے۔ اس سلسلہ میں وہ ان روایات کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں جن میں آپﷺکے عہد میں کتابت قرآن اور آپﷺکی زندگی میں ہی قرآن کریم کے صحف یا اَوراق میں غیر مرتب صورت میں جمع ہونے کے شواہد ملتے ہیں۔ اس کے الفاظ ہیں:
’’وہذا الرأی لا یقبلہ المستشرقون لأنہ یخالف جاء فی أحادیث أخری أنہ قبض ﷺ ولم یجمع القرآن فی شئ‘‘(۷۷)
’’ مستشرقین اس رائے کو قبول نہیں کرتے، کیونکہ دیگر اَحادیث اس دعویٰ کی مخالفت کرتی ہیں،جن میں آیا ہے کہ آپﷺ وفات پاگئے اورقرآن کسی چیز میں جمع نہیں ہو سکا‘‘۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
جیفری نے صحیح بخاری کی اس روایت سے بھی استدلال کیا ہے جس میں ہے کہ جنگِ یمامہ کے بعد حضرت عمررضی اللہ عنہ نے جمعِ قرآن کا مشورہ دیا اور اس کی وجہ یہ بتائی کہ اگر حفاظ صحابہ رضی اللہ عنہم اسی طرح شہیدہوتے رہے تو قرآن کریم کے بہت سے حصوں کے ضائع ہونے کا اندیشہ ہے ،اس روایت کی بناء پر وہ کہتا ہے :
’’ویتبین من ہذا أن سبب الخوف ہو قتل القراء الذین کانوا قد حفظوا القرآن،ولو کان القرآن قد جمع وکتب لما کانت ہناک علۃ لخوفہما‘‘(۷۸)
’’ اس سے واضح ہوتا ہے کہ خوف کا سبب حفاظ وقراء صحابہ رضی اللہ عنہم کا شہید ہونا تھا اگر قرآن کریم عہدِنبوی میں جمع ہو چکا ہوتا تو اس وجہ سے ان حضرات کو قرآن کے ضائع ہونے کا خوف نہ ہوتا۔‘‘
تعجب ہے کہ جیفری نے بخاری کی حدیث کویہ کہہ کر کہ’مستشرقین اس رائے کو قبول نہیں کرتے‘ردکر دیا ہے حالانکہ قبولیت وعدمِ قبولیت ،روایت کی سند یا متن میں اِضطراب اورعلت کے ثبوت یا عدمِ ثبوت پر ہے نہ کہ رائے یا ذاتی خواہش پر۔ مستشرق موصوف کا یہی وہ منہجِ تحقیق ہے جس کی بناء پر اسلامی دنیا میں ان نظریات کو خاطر خواہ جگہ نہیں مل سکی۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
یہ بات بھی حیرت انگیز اورافسوسناک ہے کہ بعض دوسرے مستشرقین کی طرح جیفری نے بھی صحیح بخاری کی اس روایت کو درست ماننے سے انکار کیا ہے جس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ حضرت ابوبکررضی اللہ عنہ نے سرکاری سطح پر کوئی نسخہ تیار فرمایا تھا وہ لکھتا ہے:
"His collection would have been a purely private affair, just as quite a number of other companions of the Prophet had made personal collections as private affairs"(۷۹)
حالانکہ اگر عہدِ ابو بکرtکا جمع شدہ قرآن Private collectionہو تو اس کے جمع کے لیے اس وقت حضرت عمررضی اللہ عنہ کے مشورہ کی کوئی ضرورت نہ تھی اس کے باوجود انہوں نے مشورہ فرمایا۔ ظاہر ہے کہ یہ مشورہ تب ہی ہوسکتا ہے جب وہ جمع ذاتی نہ ہو بلکہ سرکاری سطح پر ہو۔خود جیفری کے بقول دیگر صحابہ رضی اللہ عنہم کے بھی ذاتی مصحف تھے اوروہ انہوں نے کسی کے مشورہ یا اس قسم کے حالات سے متاثر ہو کرنہیں لکھے تھے۔لہٰذا عہدِ ابوبکررضی اللہ عنہ میں جمعِ قرآن سرکاری سطح پر ہی ہواتھا۔
نیز یہ بات بھی واضح ہوتی ہے کہ حضرت زید بن ثابت رضی للہ عنہ کی اس روایت میں وہ ساری باتیں تو جیفری کی نگاہ میں جھوٹی ہیں جن سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ حضرت ابو بکررضی اللہ عنہ کے زمانہ میں سرکاری سطح پر قران کی حفاظت کا اہتمام کیاگیا تھا، لیکن اسی روایت کا وہ حصہ اس کی نظر میں بالکل صحیح ہے جس میں حضرت عمررضی اللہ عنہ کا وہ جملہ نقل کیا گیا ہے کہ’’اگر صحابہ رضی اللہ عنہم اسی طرح شہید ہوتے رہے تو خطرہ ہے کہ کہیں قرآن کا بڑا حصہ ضائع نہ ہو جائے‘‘۔ایک طرف تو وہ پوری روایت نقل کر کے اسے من گھڑت اورموضوع کہتاہے اور دوسری طرف اسی روایت سے قرآن کریم کے غیر مکتوب ہونے پر استدلال بھی کرتا ہے ۔ اس کے باوجود اس کا دعویٰ یہ ہے کہ مستشرقین کا انصاف،نیک نیتی اورغیرجانبداری بالکل واضح ہے۔(۸۰)اس طرح کی متناقض (Paradox)آراء مستشرقین کی تحقیقات میں جابجانظر آتی ہیں۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
طاش کبریٰ زادہ رحمہ اللہ نے علامہ خطابی رحمہ اللہ کے حوالہ سے عہدِ رسالت میں مصحف واحد میں عدمِ جمع قرآن کی حکمتوں کا تذکرہ ان الفاظ میں کیا ہے:
’’إنما لم یجمع القرآن فی المصحف لما کان یترقبہ من ورود ناسخ لبعض أحکامہ أو تلاوتہ،فلما انقضی نزولہ بوفاتہ الہم اﷲ الخلفاء الراشدین ذلک وفاء بوعدہ الصادق لضمان حفظہ علی ہذہ الامۃ‘‘(۸۱)
’’قرآن ایک مصحف میں اس لئے جمع نہیں ہوا، تاکہ احکامات اورتلاوت میں ناسخ کے ورود کا انتظار کیاجائے۔ پس جب آپﷺکی وفات سے اس کا اِمکان ختم ہوگیا تو اللہ تعالیٰ نے خلفائِ راشدین کو اُمت کے لیے اس کتاب کی حفاظت کی ضمانت اوراپنے وعدہ کو سچا کرنے کی توفیق بخشی۔‘‘
٭ آرتھر جیفری قرآن کی ترتیب کو بھی موضوعِ بحث بناتا ہے،اور اس حوالے سے رقمطراز ہے:
’’فإن علماء الغرب لا یوافقون علی أن ترتیب نص القرآن کما ہو الیوم فی أیدینا من عمل النبی ﷺ‘‘(۸۲)
یعنی مغرب کے علماء نصِ قرآنی کی موجودہ ترتیب کو عملِ نبیﷺ ماننے پر متفق نہیں ہیں۔اس اعتراض کی عبارت میں اولاً تو اخفاء ہے کہ’ترتیب ِنصِ قرآنی‘سے اس کا کیا مفہوم ہے، کیونکہ ترتیب ِآیات اور ترتیب ِسور دونوں مصحف کے حصے ہیں۔ یہاں اس بات کی وضاحت ضروری محسوس ہوتی ہے کہ مستشرقین نے قرآن کی آیات وسور کی ترتیب کو اپنا خاص موضوع اس لئے بنایا تاکہ وہ قرآن کریم کو غیر مرتب اورناقص ثابت کر سکیں۔ ان کے نزدیک قران اس ترتیب کے مطابق نہیں جس پر وہ نازل ہوا تھا ۔چنانچہ Rodwellنے ترجمۂ قرآن کے پیش لفظ میں تحریر کیا ہے کہ ’اس وقت مصحف میں موجود ترتیب دراصل حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کی تیار کردہ ہے، ان کو جمعِ قرآن کے وقت جس ترتیب سے مختلف مقامات سے قرآن ملتا گیا وہ اسے اسی ترتیب کے مطابق جوڑتے چلے گئے، ان میں کوئی تاریخی ربط یا ترتیب ملحوظ نہیں رکھی گئی۔(۸۳)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
صحابہ رضی اللہ عنہم کے ذاتی مصاحف کا مصحف ِعثمانی سے تقابل اور اس کی حقیقت
جیفری نے کتاب المصاحف کے مقدمہ میں ’’اختلاف مصاحف الصحابۃ‘‘کے عنوان کے تحت متعدد صحابہ رضی اللہ عنہم کے ذاتی مصاحف جن میں علی بن ابی طالب،ابی بن کعب، سالم مولیٰ حذیفہ،عبداللہ بن مسعود،ابوموسیٰ اشعری، عبد اللہ بن زبیر، ابوزید اور معاذ بن جبل رضی اللہ عنہم وغیرہ کے نا م لے کر یہ ذکر کیا ہے کہ انہوں نے قرآن کو اپنے اپنے مصحف میں جمع کیا۔ جیفری کہتا ہے کہ اگرچہ بعض لکھنے والوں نے جمع سے مراد حفظ لیا ہے، لیکن ہم ان کے قول سے موافقت نہیں کرتے جس کی چار وجوہ ہیں:
٭ حضرت علی رضی اللہ عنہ اپنا جمع شدہ مصحف اونٹ پر لاد کر صحابہ رضی اللہ عنہم کے پاس لائے۔
٭ ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کا جمع کیا ہوا مصحف لوگوں میں ’لباب القلوب‘ کے نام سے موسوم ہوا۔
٭ ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کا جمع کردہ مصحف حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے جلا دیا۔
٭ حضرت عبد اللہ بن مسعودرضی اللہ عنہ نے عراق میں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے گورنرکو اپنا جمع کردہ مصحف پیش کرنے سے انکار کیا۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
اس سے لازم آتاہے کہ صحابہ رضی اللہ عنہم نے جو جمع کیا تھا وہ مصاحف میں تحریر ی صورت میں جمع تھااور ہر صحابی رضی اللہ عنہ کا خاص مصحف انہی سورتوں اور آیات پر مشتمل تھاجن سے وہ مطلع ہوپائے۔ حضرت ابوبکررضی اللہ عنہ کیلئے جو مصحف زید بن ثابت رضی اللہ عنہ نے لکھا وہ بھی مستشرقین کی رائے میں ’مصحفِ خاص‘ تھا۔(۸۴)جیفری ان تفصیلات کوذکر کرنے کے بعد اپنا ہدف ان الفاظ میں بیان کرتا ہے:
’’وکانت ہذہ المصاحف یختلف بعضہا عن بعض لأن کل نسخۃ منہا اشتملت علی ما جمعہ صاحبہا وما جمعہ واحد لم یتفق حرفا ما جمعہ الآخرون‘‘(۸۵)
’’یہ مصاحف آپس میں ایک دوسرے سے مختلف تھے، کیونکہ ہر نسخہ اپنے جامع کی درج کردہ (معلومات) پر مشتمل تھا اور ایک کا جمع کیا ہوا دوسروں سے ایک حرف میں بھی متفق نہیں تھا۔‘‘
جیفری نے کتاب المصاحف کی ساتھ ملحقہ Materialsمیں بھی صحابہ رضی اللہ عنہم کے ذاتی طور پر جمع کئے ہوئے نسخوں کے متعلق یہی ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ ان مصاحف کا باہمی اختلاف بذاتِ خود ایک پیچیدہ مسئلہ ہے نیز یہ مصاحف ِصحابہ مصحفِ عثمانی کے مقابل ہیں۔ اس نے صحابہ رضی اللہ عنہم اور تابعین رحمہم اللہ کے ۲۸ مصاحف کو مصحف ِعثمانی کے مقابل قرار دیتے ہوئے تقریباً۶۰۰۰ سے زائد ایسے مقامات کی نشاندہی کی ہے جو کہ مصحف ِعثمانی سے مختلف تھے۔(۸۶) بنیادی مصاحف میں درجِ ذیل صحابہ رضی اللہ عنہم کے نام مذکور ہیں:
 
Top