• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

استشراقی نظریہ ارتقاء اورقراء اتِ قرآنیہ

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
(١)حضرت سالم رضی اللہ عنہ(۱۲ھ)
(٢)حضرت عمر رضی اللہ عنہ(۲۳ھ)
(٣)حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ(۲۹ھ)
(٤)حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ(۳۳ھ)
(٥)حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ(۴۴ھ)
(٦)حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا(۴۵ھ)
(٧)حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ(م۴۸ھ)
(٨)حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا(۵۹ھ)
(٩)حضرت عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہ(۶۵ھ)
(١٠)حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ(۶۸ھ)
(١١)حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ(۷۳ھ)
(١٢)حضرت عبید بن عمیر رضی اللہ عنہ(۷۴ھ)
(١٣)حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ
(١٤)حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ
(١٥)حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا جب کہ ثانوی مصاحف میں ۱۳تابعین کے نام شمارکیے گئے ہیں۔(۸۷)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
غرض قرآنی نص کو تنقید کا نشانہ بنانے کے لیے ان مصاحف میں مذکور اختلافات کو جیفری نے حتی المقدور اُچھالنے کی کوشش کی ہے، لیکن ساتھ ہی وہ اس حقیقت کا بھی اظہار کرتا ہے:
"This is the absences of any direct manuscripts evidence".(۸۸)
’’ بہر حال یہ روایات براہِ راست کسی باقاعدہ تحریری ثبوت کی حامل نہیں ہیں‘‘۔
صحابہ رضی اللہ عنہم کے ذاتی مصاحف میں اختلافات کے ضمن میں جیفری کے معاندانہ رویۂ تحقیق سے پیدا شدہ بے بنیاد شکوک وشبہات کے اِزالہ اور مستشرق موصوف کی اس کام کی تقییم( Evaluation)سے قبل مناسب معلوم ہوتا ہے کہ مصاحفِ صحابہ رضی اللہ عنہم کے حوالہ سے مسلم محققین اورعلماء کے نقطۂ نظر کا طائرانہ جائزہ لیا جائے:
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
تعددِ مصاحف اور ان کی حقیقت …جمہور علماء کا موقف
صحابہ رضی اللہ عنہم کے ذاتی مصاحف کے وجود یا عدمِ وجود کے متعلق دو آراء پائی جاتی ہیں:ایک یہ کہ بعض صحابہy نے خاص طور پر اپنے لیے کچھ اَوراق، قرآنی آیات اور اس کی قراء ات وتفسیر پر مشتمل رکھے ہوئے تھے۔ جیسا کہ بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے۔ مثلاً ابن سیرین رحمہ اللہ سے منقول ہے کہ حضرت علیt نے کہا:
’’لمّا مات رسول اﷲﷺ آلیت إلا آخذ علیّ ردائی إلا لصلاۃ الجمعۃ حتی أجمع القران فجمعتہ‘‘(۸۹)
’’جب آپ ﷺ فوت ہوئے تو میں نے قسم اٹھائی کہ میں سوائے نمازِ جمعہ کے اپنے اوپر چادر نہیں لوں گا یہاں تک میں قرآن کو جمع کردوں، سو میں نے اس کو جمع کرلیا‘‘۔
یا عمومی طور پر بخاری کی اس روایت سے بھی معلوم ہوتا ہے جس میں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے مصاحف لکھوانے کے بعد ان مصاحف کے علاوہ ہر صحیفہ یا مصحف جلانے کا حکم ارشاد فرمایا۔(۹۰)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
دوسرا یہ کہ صحابہ رضی اللہ عنہم کا انفرادی طور پر جمع شدہ مواد ’مصحف‘ کا نام اختیار کر چکا تھاجبکہ درحقیقت وہ چند روایات ،اخبارِ آحاد یا شاذہ قراء ات تھیں جو بعض صحابہ رضی اللہ عنہم نے بطورِ تفسیرِ قرآن ذکر کردیں جو بعد میں اپنی استنادی حیثیت سے قطع نظر لغت ، ادب اور قراء ات کی کتابوں میں جگہ پاگئیں۔ واضح رہے کہ ابن ابی داؤدرحمہ اللہ نے دس صحابہ رضی اللہ عنہم کے ناموں کا ذکر کیا ہے جن کو جیفری بعد میں’مقابل نسخہ جات‘ کے حامل بناکر پیش کرتا ہے، لیکن اس کے باوجود ابن ابی داؤدرحمہ اللہ نے کبھی یہ دعویٰ نہیں کیا کہ ان دس اصحاب رضی اللہ عنہم کے پاس تحریری شکل میں الگ الگ قرآن کے نسخے تھے۔ اسی طرح ابن ابی داؤدرحمہ اللہ ان حضرات کی جانب منسوب مختلف قراء ات کو مصحف کے عنوان سے بیان کرتاہے اور ساتھ ہی وہ جَمَعَ القرآن کے الفاظ ان حضرات کے لیے بھی استعمال کرتا ہے جنہوں نے قرآن کریم یاد کررکھا تھا۔چنانچہ وہ لکھتا ہے :
’’فإنہ یقال للذی یحفظ القرآن قد جمع القرآن‘‘(۹۱)
اسی طرح لفظ مصحف کو بطور حرف یا قراء ت کے معانی میں بھی استعمال کیا ہے تاکہ اس کی ذکر کردہ مختلف قراء ات کا کسی باقاعدہ تحریری نسخہ سے ماخوذ ہونے کا گمان نہ ہو۔(۹۲)اگرچہ جیفری بھی ان مصاحفِ صحابہ کی مستقل تحریری شکل کے عدمِ ثبوت کا قائل ہے تاہم اس کا میلان ان کو باقاعدہ مصحف کی صورت میں پیش کرنے کی طرف ہے جوکہ قطعی طور پر غیر تحقیقی اوربے بنیاد ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
٭ یہ حقیقت بھی پیش نظر رہنی چاہئے کہ مصاحف ِصحابہ کے عنوان سے جن کتب کا تاریخ میں تذکرہ ملتا ہے ان کی تعداد ابن ندیم رحمہ اللہ نے ۱۲شما رکی ہے ان میں قدیم ترین کتاب ابن عامر یحصبی رحمہ اللہ(م۱۱۸ھ)کی کتاب ’اختلاف مصاحف الشام والحجاز والعراق‘ہے۔(۹۳)ابن ابی داؤدرحمہ اللہ (م۳۱۶ھ)، ابن انباری رحمہ اللہ(م۳۲۸ھ) اور ابن اشتہ رحمہ اللہ(م۳۶۰ھ)کی کتبِ مصاحف کے سوا کسی اورکتاب نے اپنا نشان نہیں چھوڑا۔ مذکورہ تین کتابوں میں سے بھی مؤخر الذکر دونوں کتب ضائع ہو چکی ہیں۔(۹۴) صرف ابن ابی داؤدرحمہ اللہ کی کتاب زمانہ کی دست بردسے محفوظ رہی۔ مصحف ِعثمانی کے اتنے عرصہ بعد ان کتب کا رواج محض علمی ورثہ کے طور پر فنون کی وسعتوں کا ایک مظاہرہ ہے جس کا سند وروایت یا محکم ومحقق ذرائع سے کوئی واسطہ نہیں اور نہ ہی امت مسلمہ میں ان کی وجہ سے کبھی کوئی تشویش ہی پیدا ہوئی ۔
٭ یہاں ایک بنیادی طرز کا سوال پیدا ہوتا ہے کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے صحابہ رضی اللہ عنہم کے ذاتی مصاحف کو جمعِ قرآن کے وقت ممنوع کیوں نہیں قرار دیا؟ یاحضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی طرح ان کے جلانے کا حکم کیوں نہ ارشاد فرمایا؟یقینا اس کی یہی وجہ سمجھ میں آتی ہے کہ وہ مصاحف صحابہ کے ذاتی اور مخصوص مصاحف تھے جو صرف انہی کے زیر استعمال رہتے تھے اور کسی دوسرے کی اس تک پہنچ نہ ہوتی اور نہ ہی ایسے واقعات اس وقت تک نمودار ہوئے تھے کہ جو مصحفِ واحد کا تقاضاکرتے۔ چونکہ قرآن سات حروف پر نازل ہوا تھا اس لئے دوسری قراء ات میں صحابہ رضی اللہ عنہم کی ترغیب ان مصاحف کے بقاء کی ایک وجہ تھی۔(۹۵) جن کی ضرورت عہدِعثمانی میں قراء ات سمیت قرآن کے جمع ہوجانے کے بعد ختم ہوگئی، اس لیے ان کو جلا دیا گیا۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
٭ آرتھر جیفری نے صحابہ رضی اللہ عنہم کی جانب مصاحف منسوب کرنے میں بڑی جرات کا مظاہرہ کیا ہے اور یہ تاثر دینے کی کوشش کی ہے کہ گویا مختلف قسم کے ۲۸مقابل قرآن ایجاد ہوگئے حالانکہ اس نے بعض ایسے حضرات کو بھی مصحف کا حامل گردانا ہے جن سے پورے قرآن میں صرف چند مقامات پر قراء ات کے اختلافات وارد ہوئے ہیں مثلاً حضرت سالم رضی اللہ عنہ کے مصحف میں صرف دوروایات ذکر کر کے(۹۶)اس کومصحف کا بھاری بھرکم عنوان دے دیا ہے۔ اُم سلمہ رضی اللہ عنہا سے ۴روایات(۹۷)،ابن عمرورضی اللہ عنہ سے کوئی نہیں(۹۸)،حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ سے ۱۰روایات(۹۹) حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا سے ۱۰روایات(۱۰۰)،ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے ۴روایات(۹۵)، انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے ۲۴(۱۰۲) حضرت عمررضی اللہ عنہ سے ۲۹(۱۰۳)،ابن زبیررضی اللہ عنہ سے ۳۵روایات(۱۰۴)اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہاسے ۱۳روایات ذکر کی گئی ہیں۔(۱۰۵)
جیفری نے صحابہ رضی اللہ عنہم کے مصاحف کے حوالہ سے جس مبالغہ آمیزی سے کام لیا ہے اس کی ایک جھلک اس کے اس قول سے نظر آتی ہے کہ
’’ وما جمعہ واحد لم یتفق حرفا مع ما جمعہ الآخرون‘‘(۱۰۶)
’’یعنی ہر ایک مصحف دوسرے مصحف سے ایک حرف میں بھی موافقت نہیں رکھتا۔‘‘
نصِ قرآنی کی تحریف اور عدمِ توثیق کیلئے اس قدر بلا دلیل جملہ تحقیق کے میدان میں قطعاً کوئی وزن نہیں رکھتا کیونکہ یہ تمام مصاحف خودجیفری کی مقدور بھر کوشش سے Materialsمیں مرتب کیے گئے ہیں۔اس کے سوا ان کی کچھ حقیقت نہیں۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
٭ یہاں اس امر کا تذکرہ بھی ضروری ہے کہ جیفری نے غیر تصحیح شدہ نسخہ جات سے جن اختلافی قر اء ات کو نقل کیا ہے ان سب کی اسناد غیر مصدقہ ہیں۔ وہ کوئی قابلِ اعتبار سند کے ساتھ ایسی کوئی قابلِ ذکر اختلافی قراء ت لانے میں کامیاب نہیں ہو سکاجو مصحفِ عثمانی کی اسناد کی طرح محکم ومتواتر ہو۔اس کے ساتھ ساتھ بعض اختلافی قراء ات جو ہم تک پہنچی ہیں وہ لسانی اعتبار سے بھی ناممکن نظر آتی ہیں اوربعض اختلافی روایات کی اسناد ناممکن الوجود اور محال ہیں جو زمانی اعتبار سے درست تسلیم نہیں کی جاسکتیں یا وہ روایت کے معروف اصولوں کے مطابق نہیں ہیں۔(۱۰۷)
٭ جیفری کے بقول: تمام مستشرقین کے نزدیک حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے لیے جو مصحف حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ نے لکھا وہ بھی مصحف خاص تھا ،رسمی نہ تھا۔(۱۰۸)حالانکہ صحیح بخاری کی روایت ہے جس میں زید بن ثابت رضی اللہ عنہ نے حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے اس حکم پر یہ جملہ کہاتھا کہ
’’فواﷲ لو کلفونی نقل جبل من الجبال ما کان اثقل علی مما امرنی بہ‘‘(۱۰۹)
’’بخدا اگر مجھے کسی پہاڑ کے اٹھانے کا مکلف بنایاجاتا تو وہ اس حکم کی نسبت آسان ہوتا۔‘‘
حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کا مذکوہ جملہ جیفری کے پیشِ نظر ہے ،حیرت ہے کہ اگر یہ حکم محض مصحفِ خاص کی تیاری کے لیے ہوتا توحضرت زیدرضی اللہ عنہ کو اس قدر ذمہ داری کا احساس کیوں ہوتا؟جب کہ حضرت زیدرضی اللہ عنہ کے پاس پہلے سے مصحف موجود تھا۔پس ثابت ہوا کہ یہ مصحف خاص نہیں بلکہ رسمی اور سرکاری تھا۔تاہم اگر ایک لمحہ کے لیے جیفری کے نظریہ کو تسلیم بھی کر لیا جائے کہ وہ مصحف خاص تھا پھر بھی قرآنی نص کی توثیق میں فرق واقع نہیں ہوتا،کیونکہ حضرت ابوبکررضی اللہ عنہ کو یہ معلوم تھا کہ کثیر صحابہ رضی اللہ عنہم اپنے سینوں میں قرآن مجید کو محفوظ رکھے ہوئے ہیں،بالفرض اگر ضرورتِ رجوع پیش آئے تو ’مصحف ِخاص‘کی موجودگی سے سہولت لی جائے۔لہٰذا مصحفِ خاص ماننے سے بھی کسی طرح کا حرج لازم نہیں آتا ۔ تاریخ شاہد ہے کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کا یہی مصحف عہدِ عثمانی میں مصاحف کی تیاری کے لیے سب سے بنیادی مصدر تھا۔(۱۱۰)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
٭ مقابل مصاحف کا عنوان دیتے ہوئے جیفری نے اس حقیقت کو بھی یکسر فراموش کر دیا ہے کہ مصحفِ عثمانی کی تیاری میں کئی صحابہ رضی اللہ عنہم نے بالواسطہ یا بلا واسطہ شرکت کی اور بالآخر تقریباً بارہ ہزارہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا اس بات پر اجماع منعقد ہوا۔بالفرض اگر صحابہ رضی اللہ عنہم کے مصاحف میں باہمی اختلاف ہوتا تو وہ اپنے مصاحف پر ڈٹے رہنے کا اعلان کرتے اور کبھی بھی مصحفِ عثمانی کو تسلیم نہ کرتے۔(۱۱۱)
خود ابن ابی داؤدرحمہ اللہ ،جن کوجیفری نے بظاہر اپنے ہتھیار کے طور پر استعمال کیا ہے، اپنی کتاب میں صحابہ رضی اللہ عنہم کے مصاحف میں اختلافات کے ضمن میں مصحفِ ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے منقول روایات ذکر کرنے کے بعد اس حقیقت کو ان الفاظ میں واضح کرتے ہیں:
’’لا نری أن نقرأہ إلا المصحف عثمان الذی اجتمع علیہ أصحاب النبی ﷺ،فإن قرأ إنسان بخلافہ فی الصلوٰۃ أمرتہ بالاعادۃ‘‘(۱۱۲)
’’ہمارے خیال میں اصحابِ پیغمبررضی اللہ عنہم کا مجمع علیہ مصحفِ عثمان رضی اللہ عنہ ہی پڑھاجانا چاہئے۔اگر کوئی شخص اس کے برخلاف نماز میں قراء ات کرے تو میں اس کو نماز لوٹانے کا حکم دوں گا۔‘‘
لیکن مستشرق موصوف کو ابن ابی داؤدرحمہ اللہ کی کتاب المصاحف کے غالباً انہی اجزاء سے اتفاق ہے جو اس کے طے شدہ فکر سے ہم آہنگ ہیں۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
صحابہ رضی اللہ عنہم سے منسوب مصاحف اورجیفری کا نقطہ نگاہ
آرتھر جیفری نے صحابہ رضی اللہ عنہم سے منسوب مصاحف میں روایات کی چھان بین کئے بغیرمصحف ِعثمانی سے ان کاتقابل کیا ہے اورتقریباً۶۰۰۰سے زائد ایسے مقامات کی نشاندہی کی ہے جو مصاحف صحابہ میں موجود ہ قرآن سے مختلف تھیں ۔ ان مصاحف میں ایسی آیات وقراء ات کا تذکرہ بھی کرتا ہے جو قرآنی نص سے کم یا زیادہ ہیں۔
جیفری کے ان شبہات کا جواب ابن ابی داؤدرحمہ اللہ کی کتاب المصاحف میں مذکورروایات کی عدمِ صحت کودلیل بنانے سے بھی زیادہ مناسب اس انداز سے دیا جا سکتا ہے کہ جیفری کی منتخب روایات کی توضیح اس طرح کی جائے کہ تطبیق ،ترجیح اور تاویل کی صورت میں مفہوم ِروایت کی وضاحت ہو جائے۔ دورِ قریب کے عظیم مفکر ڈاکٹر حمیداللہ رحمہ اللہ کی بھی یہی رائے تھی ۔ وہ جمعِ قرآن سے متعلق ابن ابی داؤدرحمہ اللہ کی کتاب المصاحف اور ایسی دوسری کتابوں میں بیان کی گئی روایات کو رد نہیں کرتے بلکہ وہ ان روایات کی تشریح وتوضیح اس انداز سے کرتے ہیں کہ ان کتابوں میں موجود روایات کی تردید بھی نہیں ہوتی اور ان کی ایسی تاویل ممکن ہوتی ہے جس سے ان کا اپنا مدلل نقطۂ نظر بھی متاثر نہیں ہوپاتا۔(۱۱۳)ذیل میں یہی منہج اختیار کرتے ہوئے جیفری کی محققہ ،ابن ابی داؤدرحمہ اللہ کی،کتاب المصاحف کی چند روایات کی تاویلات پیش کی جاتی ہیں جن سے واضح ہوگا کہ بالفرض اگرایسی روایات کو صحیح بھی تسلیم کر لیا جائے تب بھی اس کا درست مفہوم ،صحابہ رضی اللہ عنہم وتابعین اور دیگر علماء امت کے متفقہ نظریہ ہی کے موافق بنتا ہے۔
الغرض جیفری کے وضع کردہ تمام مصاحف اور ان میں موجود قراء ات وروایات کا کوئی اطمینان بخش ثبوت نہیں ملتااورغالباً جیفری اسی وجہ سے ان روایات کے استنادی ثبوت کے درپے نہیں ہوا اور نہ ہی ان قراء ات کے مصادر متعین کیے ہیں۔حقیقت یہ ہے کہ Materialsکے۳۶۲صفحات میں مرقوم’ مصاحف ‘ مروج ومتواتر متنِ قرآنی کے مقابلہ میں کوئی حیثیت نہیں رکھتے اور نہ ہی کمزور روایات کا مصحف عثمانی سے تقابل کاکوئی منطقی جواز بنتا ہے۔ جیفری کو یہ بات معلوم ہونے کے باوجود کہ تابعین کے مصاحف سراسر مصاحف ِ صحابہ کے تابع ہیں۔مثلاً مصحفِ علقمہ (م۶۲ھ)،ربیع بن خیثم رحمہ اللہ(م۶۴ھ)،حارث بن سویدرحمہ اللہ(م۷۰ھ)، حطان رحمہ اللہ(م۷۳ھ)،اسودرحمہ اللہ(م۷۴ھ)،طلحہ بن مصرف رحمہ اللہ(م۱۱۲ھ) اورمصحفِ اعمش(م۱۴۸ھ)مکمل طور پر عبداللہ بن مسعودرضی اللہ عنہ اورابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کے مصاحف پر مبنی تھے۔ اس کے باوجود اس نے ۱۳تابعین کے مصاحف کومحض اپنی کتاب کی ضخامت کاذریعہ بنایا ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
جیفری نے صحابہ رضی اللہ عنہم کے ان مختلف مصاحف کے متعلق یہ نظریہ بھی قائم کیا ہے کہ یہ مختلف شہروں میں مصحف عثمانی سے قبل رائج تھے اورانہی کے مابین اختلاف کے باعث لوگ ایک دوسرے کی قراء ات کا انکار کرنے لگے۔(۱۱۴) حالانکہ تاریخی یا منقولی اعتبار سے اس بات کا کوئی ثبوت نہیں ملتا کہ مصاحفِ عثمانیہ کے ارسال سے قبل صحابہ رضی اللہ عنہم کے کوئی رسمی مصاحف تھے بلکہ ان کے پاس صحف اورقرآن کی بعض سورتوں کے اجزاء تھے۔چونکہ اصل بنیاد حفظ پر تھی اور رسول اللہﷺسے مختلف حروف سن لینے کی بناء پر ان کی ادائیگی میں اختلاف پیدا ہوا ،مفہوم ومقصد پر سب کا اتفاق تھا۔ یہی وجہ بنی کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے قراء کو بھی بھیجا تاکہ لوگوں کوبعینہٖ ان حروف پر قرآن پڑھائیں جن کی رسول اللہﷺنے اِجازت دی۔(۱۱۵)
اسی ضمن میں آرتھر جیفری نے کہا ہے کہ اہلِ شام مصحفِ ابی بن کعب رضی اللہ عنہ پر متفق تھے(۱۱۶)حالانکہ حضرت ابی رضی اللہ عنہ مدینہ منورہ میں مقیم تھے جبکہ شام میں حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ موجود رہے۔(۱۱۷)
 
Top