• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

استشراقی نظریہ ارتقاء اورقراء اتِ قرآنیہ

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
٭ مصاحف عثمانیہ کے نقطوں اور حرکات سے خالی ہونے کی وجہ سے جن اختلافات کا جیفری نے تذکرہ کیا ہے اس کی بنیاد گولڈزیہر ہے جس کا موقف گزشہ بحث میں ذکر کیا جا چکا ہے۔
٭ جیفری نے مروّجہ قراء ات کو ائمہ قراء کا انتحاب واختیار قرار دیتے ہوئے یہ تاثر دینے کی کوشش کی ہے کہ ان کی اصلیت منقولی نہیں بلکہ اجتہادی واختیاری ہے۔قراء ات کے ارکانِ ثلاثہ کا تذکرہ کرتے ہوئے اس نے دوسری شرط ’صحابہ رضی اللہ عنہم سے مروی ہونا‘ذکر کیا ہے حالانکہ علمائِ اسلام میں سے کسی نے یہ رکن بیان نہیں کیا بلکہ سند کا آنحضورﷺسے مروی ومربوط ہونا ضروری قرار دیا ہے۔
٭ ابن مجاہدرحمہ اللہ کے سات قراء ات منتخب کرنے کی بنیاد جیفری نے حدیث سبعۂ احرف قرار دی ہے۔(۱۱۸)حالانکہ سات قراء ات کا یہ اختیار حدیث سبعۂ احرف کی بناء پر نہیں اور نہ ہی ابن مجاہدرحمہ اللہ نے کہیں اس کی صراحت کی ہے۔بلکہ یہ ایک اتفاق تھا۔ یہی وجہ ہے کہ علماء نے مزید تین قراء ات کو بھی مشہور قرار دیا اوران کو بھی سبعہ احرف پر مبنی قرار دیا ۔پھر یہ اختیار کسی قرعہ یا ذاتی خواہش پر نہیں تھا بلکہ کثرتِ روایت اور تدریسِ قرآن میں ممارست وتجربہ اورمہارت کی بنیاد پر تھا۔چنانچہ محقق ابن الجزری رحمہ اللہ (م۸۳۳ھ)لکھتے ہیں:
’’إضافۃ الحروف والقراء ات إلی أئمۃ القراء ۃ ورواتہم المراد بہا أن ذلک القاری وذلک الامام اختار القراء ۃ بذلک الوجہ من اللغۃ حسب ما قراء بہ فآثرہ علی غیرہ وداوم علیہ ولزمہ حتی اشتہر وعرف بہ وقصد فیہ وأخذ عنہ فلذلک أضیف إلیہ دون غیرہ من القراء وہذا الاضافۃ اختیار ودوام ولزوم لا إضافۃ اختراع ورایٍ واجتہادٍ‘‘(۱۱۹)
غرض ائمہ قراء کی طرف یہ انتساب ان کے ہمیشگی اختیار اورالتزام کی وجہ سے ہے نہ کہ اختراع ورائے کی بنیادپر۔ مثلاً ابن البازش رحمہ اللہ نے امام نافع رحمہ اللہ کے مطابق لکھا ہے کہ انہوں نے جس قراء ت کا لزوم کیا وہ اہلِ مدینہ کے لیے مرجع بن گئی اور ان کے اختیار کی طرف لوگوں نے رجوع کیا۔(۱۲۰)یہی وجہ ہے کہ قراء ات کے اختیار کے بھی چند قواعد ہیں جن کو امام ابو عبید القاسم بن سلام رحمہ اللہ نے ذکر کیا ہے ان میں سے ایک قاعدہ ’کثرت‘ ہے یعنی کسی قراء ت کو کثرتِ استعمال کی وجہ سے بھی بعض قراء اختیار کر لیتے ہیں۔(۱۲۱)جن قراء نے قراء ات کو اختیار کیا انہوں نے اس کو روایت بروایت صحابہ رضی اللہ عنہم اوررسول اللہﷺسے اخذ کیا ۔ مکی بن ابی طالب رحمہ اللہ نے اس کی صراحت کی ہے۔(۱۲۲) ڈاکٹر محمد الحبش نے لکھا ہے کہ ان قراء ات میں ائمہ کا کوئی اجتہاد نہیں اور نہ ان کو نص میں کسی قسم کے تصرف اورتحکّم کا کوئی اختیارحاصل ہے،ان کا کام صرف روایت کی صحت، ضبط اوراس کی توثیق کی حد تک محدود ہے۔(۱۲۳)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
٭ جیفری نے قراء اتِ حفص کی ترجیح وتعمیم اور اس میں نافع رحمہ اللہ کی روایت کومستحسن قراردینے میں بھی یہ تاثر دینے کی کوشش کی ہے کہ یہ ترجیح یا استحسان دراصل اختیاری ہے اورقراء ات کے مابین بھی تفاوت واختلاف پایا جاتا ہے۔(۱۲۴)حالانکہ متواتر قراء ات میں ترجیح نہیں ہو سکتی ،کیونکہ تمام قراء ات ثابت اورمرتبہ میں ایک دوسری کے برابر ہیں اسی طرح نافع رحمہ اللہ کی روایت شہرت اورکثرت ِممارست ومدارست کی وجہ سے اختیار کی گئی ہے۔ استحساناً ایسا نہیں کیاگیا۔(۱۲۵)
٭ اس مقدمہ کے آخرمیں مستشرق موصوف نے پھر اسی بات کا اِعادہ کیا ہے جو مقدمہ کے شروع میں کیا تھا کہ قرآنی قراء ات میں ارتقاء واقع ہوا ہے ۔ اس کے نزدیک آغاز میں مصاحف قدیمہ کا رواج تھا ،پھر مصاحفِ عثمانیہ مختلف شہروں میں رائج ہوئے بعد ازاں قراء ات کو اختیار کرنے میں آزادی کا رجحان پیدا ہوا ،پھر سبعہ یا عشرہ کا تسلط ہوا ، پھر روایاتِ عشرہ کو اختیار کیا گیااورآخر میں قراء تِ حفص عام شہروں میں رائج ہوگئی۔(۱۲۶)قراء اتِ قرآنیہ میں ارتقاء کا یہ نظریہ کئی لحاظ سے باطل ہے:
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
٭ مصاحفِ قدیمہ کی اِصطلاح جیفری کی اپنی وضع کردہ ہے اور جیفری نے ثانوی درجہ کے مصادر میں موجود صحابہ رضی اللہ عنہ کی تفسیری روایات کو مصاحف ِقدیمہ کا نام دیا ہے حالانکہ عرضۂ اخیرہ کے مطابق تمام آیات ِقرآنیہ مصاحفِ عثمانیہ کی صورت میں باجماعِ صحابہ اُمت میں مروج ہوئیں۔
٭ قراء ات کے اختیار میں آزادی نہیں تھی بلکہ قراء ات سنتِ متَّبعہ اورمنزل من اللہ ہیں،ان میں کسی انسان کے لیے کسی قسم کے اجتہاد واختیار کی کوئی گنجائش نہیں۔
٭ سبعہ یا عشرہ قراء ات کا ’تسلط‘ (۱۲۷) نہیں ہوا بلکہ ان کی ترویج شہرت اورتواتر کی وجہ سے ہوئی۔
٭ قرآن کریم کی قراء ات کو بنیاد بنا کر جس ارتقائی تاریخ کی غیر تکمیلی صورت کا مستشرق موصوف نے تذکرہ کیا ہے وہ انتہائی مضحکہ خیز ہے خصوصاً یہ سوچ جس کی بناء پر وہ قرآن کو بائبل کے مقابلہ میں کمتر پیش کرنے کی جسارت کررہا ہے ،انتہائی غیر دیانتداری پر مبنی رویۂ تحقیق ہے۔ اس کا اندازہ صرف اس بات سے ہو سکتا ہے کہ قرآن مجید کے برعکس جملہ کتب انبیاء کی وفات کے سینکڑوں سال بعد ان کے حواریوں کے ہاتھوں لکھی گئیں جبکہ قرآن اور اس کی قراء ات خالصتاً سماعی اور منقولی بنیادوں پر پھیلی ہیں،کتابت اس کیلئے کبھی کوئی معیار نہیں رہا بلکہ بعد میں کتابتِ قرآن ان قراء ات کو پیشِ نظر رکھ کر مکمل ہوئی۔غرض قراء ات میں کسی قسم کا کوئی تطور ،تغیر یا ارتقاء نہیں ہوا بلکہ اللہ کے رسولﷺسے صحابہ رضی اللہ عنہم اور صحابہ رضی اللہ عنہم سے تابعین، ائمہ قراء اورامت تک بطریقۂ تواتر یہ قراء ات ہم تک پہنچی ہیں اور قرآن کا ہر حرف ابدی صداقتوں کا حامل ہے اور ان میں آج تک کوئی تبدیلی نہ ہوئی ہے اورنہ ہوگی۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
صنعاء (یمن) سے دریافت شدہ قرآنی مخطوطات اور استشراقی توقعات
یمن کے شہر صنعاء کی عظیم جامع مسجد کی نئی تعمیر کے دوران اس کے بالا خانہ سے ۱۹۷۲ ء میں پرانے چرمی اوراق ، بہت بڑی تعداد میں دریافت ہوئے ، جن میں سے اکثر پر قرآنی آیات تحریر تھیں ،یمن میں محکمہ آثارِ قدیمہ کے چیئرمین قاضی اسماعیل الاکوع نے جب ان پارچہ جات کوملاحظہ کیا تو ان کی قدامت اور خستہ حالی کو دیکھتے ہوئے یہ فیصلہ کیا کہ ان اوراق کو صحیح سالم حالت میں محفوظ کرنے کیلئے ماہرینِ فنِ آثارقدیمہ کو دعوت دینا زیادہ مناسب ہے چنانچہ قاضی اسماعیل الاکوع کی خصوصی دلچسپی سے جرمنی کی وزارتِ خارجہ کے ذریعہ دو جرمن ماہرین ڈاکٹر گریڈ ، آر پیوئن (Dr. Gred. R. puin)اور ایچ۔سی۔ گراف وان بوتھمر(H.C.Graf Von Bothemer)کو ان قرآنی مخطوطات کی حفاظت اور بحالی کیلئے طلب کیاگیا۔ ان ماہرین نے اس منصوبہ پر چند سال کام کیا۔
اس بات سے قطع نظرکہ ان ماہرین نے اس تحقیقی منصوبہ پر کیا اور کتنا کام کیا ،یہ بات واضح طور پرمشاہدہ کی گئی کہ ان کے استشراقی مقاصد اور مشنری جذبات کسی صور ت بھی ان سے جدا نہیں ہوئے ، چنانچہ بیان کیا جاتا ہے کہ بوتھمر نے اس دوران۳۵۰۰۰پارچہ جات کی مائیکروفلم کا ریکارڈ خفیہ طور پر محفوظ کیا اور ان کو اپنے ساتھ جرمنی لے آیا ۔ ۱۹۸۷ء میں انہی پارچہ جات کے حوالے سے بوتھمر اور پیوئن نے ایک مقالہ لکھا اور اُن مخطوطات کے نمبر دینے کے ساتھ ساتھ ایک چرمی مخطوطے جس کا نمبر۳۲۔۱۰۳۳تھا ، کے بارے میں یہ نشاندہی کی کہ اس کی قدامت پہلی صدی ہجری کے آخری چوتھائی حصہ سے ہے۔ یہ آرٹیکل ’’Observations on Easly Qru'an Manuscript in Sana ‘‘کے عنوان سے تحریر کیا گیا اور مختصر عرصے میں مستشرقین کی توجہات کا مرکز بن گیا ، چنانچہ اس سلسلے میں ایک سیمنار لائیڈن ۱۹۹۸ء میں مطالعات قرآنی (Qur'anic Studies) کے نام سے منعقد کیا گیا جس میں بوتھمر اور پیوئن نے صنعاء کے مخطوطات قرآنیہ کے حوالے سے لیکچرز دئیے۔ (۱۲۸)
منعقدہ لیکچرز کی تفصیلات اگرچہ نہیں ملتی تاہم Puinکا آرٹیکل پڑھنے سے چند اہم نکات معلوم ہوتے ہیں۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
٭ Puinکے بقول اس کے پیش رو مستشرقین میں سے آرتھر جیفری Arthur Jeffery،اوٹو پرٹزلOtto Pretzel،انتونی سپٹلر(Antony Spitaler) اوراے فچر( A Fischer)نے قرآن کا نظر ثانی شدہ (Revised Versianّ)مصحف تیار کرنے کیلئے ایک سنجیدہ کوشش کی تھی اور اس ضمن میں انہوں نے اسوقت تک کے موجود ہزاروں مصاحف قرآنی کا آپس میں تقابل کرنے کے منصوبہ پر کام کا آغاز کیا۔ اس کے لیے جرمن کی میونخ یونیورسٹی میں یہ تمام مواد جمع کرکے بڑے پیمانے پر کام کو آگے بڑھایا گیا، لیکن انتہائی افسوسناک واقعہ اس وقت رونما ہوا جب دوسری جنگِ عظیم کے دوران یہ سارا مواد اور ریکارڈ بمباری سے تباہ ہوگیا۔Piunکی نظر میں صنعاء کی یہ دریافتیں اسی منصوبہ کو دوبارہ شروع کرنے میں ایک بہت بڑی امید کی کرن اور اہم موقع کی حیثیت رکھتی ہیں اور قرآن کاRevised Versianفراہم کرنے اور اس کی نصوص میں اضطراب و ارتقاء ثابت کرنے میں معاون ثابت ہوں گی۔ اس کے بقول:
"So many Muslims have this belief that everything between the two covers of the Koran is just God's unlatered word,"{Dr.Puin} says."They like to quote the textual work that shows that the Bible has a history and did not fall straight out of the sky, but until now the Koran has been out of this discussion. The only way to break through this wall is to prove that the Koran has a history too. The Sana fragments will help us to do this."(۱۲۹)
’’مسلمان اکثریت یہ ایمان رکھتی ہے کہ جو کچھ قرآن کے دو گتوں کے درمیان میں ہے وہ بلاشبہ من و عن (بغیر کسی کمی بیشی کے) خدا کا کلام ہے۔ وہ قرآنی نصوص کو نقل کرتے ہوئے یہ تأثر دیتے ہیں کہ بائبل ایک تاریخ کی حیثیت رکھتی ہے اور آسمانوں سے نازل نہیں ہوئی ، تاہم اب (ان دریافتوں کے بعد ) قرآن ایسی کوئی بحث کرنے کے قابل نہیں رہا ، کیونکہ اب قرآن ’’ تاریخ ‘‘ ہے۔صنعاء کے یہ اوراق و مخطوطات قرآن کی تاریخی حیثیت کو ثابت کرنے کیلئے ایک کامیابی ثابت ہو ں گے۔‘‘
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
٭ Puinان دریافت شدہ قرآنی اوراق کے مطالعہ کے بعد موجودہ قرآن سے انحرافی یا اختلافی مقامات کی نشاندہی بھی کرتا ہے، مثلاً
(١) بہت سارے اوراق میں الف (ہمزہ) غلط طریقہ سے درج لکھا گیا ہے ۔
(٢) کچھ سورتوں میں آیات کے نمبر ز ایک دوسرے سے مختلف دیئے گئے ہیں۔
(٣) دو یا تین مقامات پر سورتوں کی ترتیب بھی مروجہ مصاحف میں سورتوں کی ترتیب سے ہٹ کر پائی گئی ہے۔(۱۳۰)
٭ اگرچہ خود Puinکی نظر میں یہ اختلافات کوئی ایسے بڑے اختلافات نہیں ہیں جن کے ذریعے ان کو علومِ قرآنی میں کسی اہم پیش رفت کا زینہ قرارا دیا جاسکے، لیکن اسکے باوجود اُن قدیم اوراق پر اپنے پہلے سے طے شدہ نتائج کا اظہار کرتا ہے۔
قرآن اپنے آپ کو مبین (واضح) کہتاہے، لیکن اگر آپ اس پر نظر ڈالیں تو آپ اس کے ہر پانچویں جملے میں غیر معنویت کا مشاہدہ کریں گے، بہت سارے مسلم سکالرز اورمستشرقین بھی آپ کو بتائیں گے ، حقیقت یہی ہے کہ قرآنی متن کا پانچواں حصہ بالکل ناقابلِ فہم ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس کو ترجمہ کرتے وقت روایتی اضطراب کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔اگر قرآن خود عربی زبان میں ہی نہیں سمجھا جاسکتا تو اسکا ترجمہ کہاں ممکن ہوگا، لہٰذا قرآن کا اپنے بارے میں بار بار ’ مبین‘ کہنا قطعی طور پر صحیح نہیں۔(۱۳۱)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
٭ نیز اوپر ذکر کئے گئے اختلافات ، سورتوں اور آیات کی ترتیب میں اختلافات اس بات کا عندیہ دیتے ہیں کہ قرآن پیغمبر کی زندگی میں حتمی شکل میں لکھا ہوا مروّج نہ تھا۔ (۱۳۲)
قارئین ملاحظہ کر سکتے ہیں کہ بائبل کے ماننے والوں کی یہی وہ بنیادی خواہش ہے جو گذشتہ ایک صدی سے مختلف طریقوں سے اظہار کے راستے تلاش کر رہی ہے کہ کسی طرح قرآن کو بھی بائبل کے بالمقابل لاکھڑا کیا جائے اور یہ ثابت کیا جائے کہ جس طرح تاریخی اعتبار سے بائبل لاتعداد تبدیلیوں اور ارتقاء ات کا سامنا کرتی رہی ، مسلمانوں کے قرآن کو بھی وقت اور تاریخ کے ساتھ ساتھ لفظی و معنوی تغیرات و ارتقاء ات کا ملغوبہ قرار دیا جاسکے۔
Puinاس حوالے قلوا(قالوا)، قل (قال)، قلت(قالت) ، کنوا(کانوا)، سحر (ساحر)،اور بصحبکم(بصاحبکم)جیسی مثالیں پیش کرتا ہے، اگرچہ Puinیہ سمجھتا ہے کہ ان الفاظ کا تلفظ اور ادائیگی الف کے ساتھ ہوتی ہے تاہم یہ رسم ،شبہات کو جنم دیتا ہے، وہ اباؤکم ، اور ابوکم ، بلحق (بالحق)اور کلجواب(کالجواب) جیسی رسم کی غلطیوں کی بھی نشاندہی کرتا ہے۔(۱۳۳)
ٹوبی لسٹر Toby Lesterنے Puinکی تحقیقات کو کافی تفصیلی بحث کرتے ہوئے قرآنی علوم اور اس کے متن میں ارتقاء کے حوالے سے ایک اہم پیش رفت کے طور پراس ضمن میں اپنے مشہورِ زمانہ مقالہ ’’What is the Koran?‘‘ میں لکھتا ہے کہ ان صنعانی مخطوطات پر Puinکی تحقیقات کا خلاصہ یہ ہے کہ قرآن میں ارتقائی عمل جاری رہا ہے چنانچہ اسکے بقول موجودہ قرآن اس طرح نہیں ہے جس طرح محمدﷺکی زندگی میں ان کے پاس تھا ۔ بلکہ یہ قرآن اسکی ترقی یافتہ شکل ہے۔(۱۳۴)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
Puinکے آرٹیکل میں جو تضادات پائے جاتے ہیں ان کا اظہار درج ذیل نکات میں کیا جاسکتا ہے:
(١) میونخ یو نیورسٹی میں ۴۲۰۰۰ قرآنی مصاحف کو جمع کر کے ان میں باہمی تقابل کے نتیجہ میں تضادات تلاش کرنے کا جواستشراقی منصوبہ بنایا گیا، اس کے تباہ ہونے سے کچھ پہلے ایک اعلان کیا گیا ، جس کا ذکرڈاکٹر حمید اللہ رحمہ اللہ نے اس طرح کیا ہے:
’’قرآن مجید کے نسخوں میں مقابلے کا جو کام ہم نے شروع کیا تھا وہ ابھی مکمل تو نہیں ہوا لیکن اب تک جو نتیجہ نکلا ہے وہ یہ ہے کہ: ان نسخوں میں کہیں کہیں کتابت کی غلطیاں تو ملتی ہیں لیکن روایات کا اختلاف ایک بھی نہیں ہے۔‘‘(۱۳۵)
(٢) معمولی اختلافات سورتوں کی ترتیب میں اس قدر پرانے اوراق میں بالکل قدرتی عمل ہے۔موجود ہ مصاحف میں ترتیب کے خلاف کچھ لوگوں نے بذات خود بھی ترتیبات لگانے کی کوشش کی ہے، جسے فلوجل نے کیا، Puin کسی جگہ بھی قرآنی سورتوں کی متن میں اختلافات کی طرف اشارہ نہیں کر سکا ۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
(٣) کسی قدیم مصحف میں مروّج و متواتر قرآن سے ہٹ کر بعض غلطیوں کاملنا دراصل تصحیحات کے زمر ے میں تو آسکتا ہے تحریفات کے قبیل سے نہیں۔خود پیوئن نے بھی اس کو تسلیم کیا ہے،ٹوبی لسٹر کے افسانے پر پیوئن نے قاضی اسماعیل الاکوع کو خط لکھ کرمعذرت کرنے کے ساتھ ساتھ اعتراف کیا کہ سوائے چند رسم کی اغلاط کے ان اوراق میں اختلاف ہم دریافت نہیں کر پائے۔اس خط کا متن Impact Internationalکے شمارہ نمبر۳،مارچ۲۰۰۰ء میں ملاحظہ کیا جاسکتا ہے۔
(٤) یہ بے ترتیبی صرف سورتوں میں نہیں ، اوراق کے حوالے سے ذکر کی گئی ہے جیساکہ Puinکے قبضہ میں ۳۵۰۰۰مخطوطات تھے تو یہ ایک فطری عمل ہے۔
(٥) سورتوں میں ترتیب کا یہ خلا اس وجہ سے بھی ہوتا ہے کہ مسلمان حفظ کے لیے چند سورتوں پر مشتمل مصاحف بھی استعمال کر تے تھے، اور مسجدیں اس وقت مدارس اور مکاتب کا کام دیتی تھیں ، لہٰذا یہ سورتوں کی بے ترتیبی نہیں بلکہ خاص مقصد کیلئے ترتیب دیئے جاتے تھے۔
(٦) اگر ایسا کوئی حصہ یا پورا قرآن بھی مل جائے تو یہ اس بات کی قطعی طور پر دلیل نہیں بن سکتا ہے کہ نبی ﷺ کے عہد میں یا کسی عہد میں یہی نسخہ مروّج رہا ہو، بلکہ ممکن ہے کہ یہ نسخہ کسی کاتب نے املاء کیا ہو اور یہاں محفوظ ہوگیا ہو۔ کیونکہ صدیوں کا تواتر اس کی نفی کرتا ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
حواشی
(۱)زرکلی خیر الدین، الاعلام،۱؍۸۴، دارالعلم للملایین،بیروت، ط۲،۱۹۸۴ء
(۲)نجیب العقیقی، المستشرقون، ۳/۹۰۶، دارالمعارف مصر،۱۹۶۵ء
(۳)الاعلام،۱؍۸۴…و نجیب العقیقی، المستشرقون،۳/۹۰۷
(۴)گولڈزیہر،العقیدۃ والشریعۃ فی الاسلام،ص۴ ،ترجمہ: محمد یوسف موسیٰ ،علی حسن عبدالقادر، عبدالعزیز عبدالحق، دارالکتب الحدیثۃ، قاہرہ ۱۹۵۹ء
(۵)العقیدۃ والشریعۃ،ص۵
(۶)دیکھئے:Ignaz Gold Zihr, Islamic Studies, Goerge Allen and Unwin Ltd. Landon, 1886.
(۷)الدکتور مصطفی السباعی، الاستشراق والمستشرقون،ص۳۳، مکتبہ دارالبیان کویت،س۔ن۔
(۸) تفصیل کے لیے الغزالی محمد الغزالی کی کتاب دفاع عن العقیدۃ والشریعۃ ضد مطاعن المستشرقین ص۵یا۱۰، دارالکتب الحدیثہ مصر، ط۳، ۱۳۸۴ھ اور علیان محمد عبدالفتاح کی اضواء علی الاستشراق ص۹ تا ۵۲، دارالبحوث العلمیۃ کویت، ط۱، ۱۴۰۰ھ ملاحظہ ہوں۔
(۹)عبدالحلیم النجار،تقدیم مذاہب التفسیرالاسلامی،ص ث (۱۰)أضواء علی الاستشراق،ص۹تا۵۲
 
Top