• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

استقبال قبلہ کے مسائل

عبداللہ حیدر

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 11، 2011
پیغامات
316
ری ایکشن اسکور
1,017
پوائنٹ
120
نماز میں قبلہ رخ ہونے کے مسائل
(امام البانی کی کتاب "اصل صفۃ صلاۃ النبی" اور ان کے فتاویٰ سے ماخوذ)

نماز پڑھتے وقت اپنا رخ مسجد الحرام( مکہ المکرمہ کی مسجد جس میں خانہ کعبہ واقع ہے) کی طرف رکھنا نماز کے ارکان میں سے ہے۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے اس کا حکم دیتے ہوئے فرمایا ہے:
قَدْ نَرَى تَقَلُّبَ وَجْهِكَ فِي السَّمَاءِ فَلَنُوَلِّيَنَّكَ قِبْلَةً تَرْضَاهَا فَوَلِّ وَجْهَكَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ وَحَيْثُ مَا كُنْتُمْ فَوَلُّوا وُجُوهَكُمْ شَطْرَهُ
"(اے نبی) ہم بار بار آپ کے چہرے کا آسمان کی طرف پلٹنا دیکھ رہے ہیں، سو ہم ضرور بالضرور آپ کو اسی قبلہ کی طرف پھیر دیں گے جس پر آپ راضی ہیں، پس آپ اپنا رخ ابھی مسجدِ حرام کی طرف پھیر لیجئے، اور (اے مسلمانو!) تم جہاں کہیں بھی ہو پس اپنے چہرے اسی کی طرف پھیر لو۔"
اور فرمایا:
وَ مِنْ حَيْثُ خَرَجْتَ فَوَلِّ وَجْهَكَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ١ؕ وَ حَيْثُ مَا كُنْتُمْ فَوَلُّوْا وُجُوْهَكُمْ شَطْرَهٗ[1]
"اور تم جہاں سے نکلو، مسجدِ محترم (یعنی خانہ کعبہ) کی طرف منہ (کرکے نماز پڑھا) کرو۔ اور مسلمانو، تم جہاں ہوا کرو، اسی (مسجد) کی طرف رخ کیا کرو۔"
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے اپنی سنت کے ذریعے اس حکم کی جو تشریح فرمائی ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ حکم عام ہےچنانچہ فرض، سنت ، وتر اور نفل تمام قسم کی نمازوں میں قبلہ رخ ہونا فرض ہے۔ حدیث میں ہے:
إِذَا قُمْتَ إِلَى الصَّلَاةِ فَأَسْبِغْ الْوُضُوءَ ثُمَّ اسْتَقْبِلْ الْقِبْلَةَ فَكَبِّر[2]
"جب تم نماز (پڑھنے) کے لیے اٹھو تو (پہلے اچھی طرح سے) مکمل وضو کرلو، پھر قبلے کی جانب رخ کرو،پھر تکبیر (تحریمہ) کہہ (کر نماز شروع کرو)"
البتہ جب کوئی شرعی عذر یا رخصت ہو تو قبلے کی طرف رخ کیے بغیر بھی نماز پڑھی جا سکتی ہے۔ اس کا تفصیلی بیان آگے آ رہا ہے۔
قبلے کی سمت:
مسجد الحرام کی طرف جو بھی سمت بن رہی ہو وہی قبلہ ہے چنانچہ جو ملک مسجد الحرام کے مغرب میں واقع ہیں ان کے لیے مشرقی سمت اور مشرق والوں کے لیے مغربی سمت قبلہ ہے۔ اسی طرح جنوب والوں کے لیے شمال اور شمال والوں کے لیے جنوبی سمت قبلہ ہو گی۔ دور حاضر میں جدید آلات اور پیمائش کے درست ترین پیمانوں کی بدولت قبلے کی ٹھیک ٹھیک سمت معلوم کرنا نہایت آسان ہو گیا ہے چنانچہ بوقت ضرورت ان آلات کو استعمال کرنا چاہیے تا کہ قبلہ کی سمت کا درست طور پر پتہ چل سکے اور نمازوں کی ادائیگی میں کوئی نقصان نہ ہو۔ اسی لیے اب عُلماء کرام کی طرف سے یہ فتویٰ بھی دیا جا چکا ہے کہ اگر کوئی مُسلمان کسی ایسی جگہ کی طرف سفر کرنے والا ہو جہاں اسے قبلہ کی سمت معلوم نہ ہو سکتی ہو یا درست سمت کا پتہ چلنا مشکوک ہو تو اُس مسلمان پر واجب ہے کہ وہ قبلے کاصحیح رُخ بتانے والا کوئی آلہ ساتھ رکھے[3]۔ آجکل ایسے سافٹ وئیر بھی دستیاب ہیں جو موبائل فون میں انسٹال کر کے دنیا میں کسی بھی جگہ سے قبلے کی سمت نکالی جا سکتی ہے۔
اگر ایسی کوئی سہولت میسر نہ ہو ، تو جن جگہوں اور علاقوں میں قبلے کا ٹھیک ٹھیک زاویہ معلوم نہ ہو سکے ، وہاں موجود اور وہاں رہنے والے مسلمانوں کے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ وہ مسجد الحرام کی درست سمت کی طرف رخ کر کے نماز پڑھ لیں ، مثال کے طور پر اگر کسی جگہ خانہ کعبہ مغرب کی سمت میں واقع ہے تو مغربی سمت میں شمال اور جنوب کے درمیان کسی بھی رخ پر نماز پڑھ لی جائے تو وہ درست ہو گی ان شاء اللہ ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے اہل مدینہ کے لیے فرمایا تھا:
مَا بَيْنَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ قِبْلَةٌ[4]
"(اہل مدینہ کے لیے)مشرق اور مغرب کے درمیان (تمام سمت) قبلہ (کے حکم میں) ہے"
البتہ جس شخص کو مکہ مکرمہ میں حاضری کا شرف حاصل ہو اور وہ کسی ایسے مقام پر ہو جہاں سے کعبہ کی زیارت کی جا سکے (جیسے وہاں قریبی رہائش گاہوں میں ہوتا ہے)، یا کسی بھی اور ذریعے سے وہ بالکل ٹھیک سیدھ میں کعبہ کا صحیح رخ جان سکے تو ایسی صورت میں اسے اپنا رخ ٹھیک کعبہ کی طرف رکھنا فرض ہے۔
جب سمت معلوم نہ ہو:
بالفرض ایسے حالات پیدا ہو جائیں جب سمت کا کچھ پتہ نہ چل رہا ہو تو قرائن اوردستیاب وسائل و ذرائع سے قبلے کی سمت جاننےکی پوری کوشش کرنی چاہیے، پھر جس طرف غالب گمان ہو اسی جانب رخ کر کے نماز پڑھ لی جائے۔ یہ نماز درست ہو گی اور اسے لوٹانے کی ضرورت نہیں ہے چاہے وہ غلط سمت ہی میں پڑھی گئی ہو۔ ایسا ایک واقعہ دور نبوت میں پیش آیا تھا جس کی تفصیل جابر رضی اللہ عنہ یوں بیان کرتے ہیں:
" ہم ایک سفر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے ساتھ تھے۔ آسمان پر (گہرے) بادل چھا گئے تو قبلےکے بارے میں ہمارا اختلاف ہو گیا ۔ہم نے درست سمت معلوم کرنے کی کوشش کی پھر(ہر ایک نے اپنے اجتہاد کے مطابق) الگ الگ سمت میں نماز پڑھ کر نشان لگا دیا تا کہ صبح معلوم ہو جائے کہ(اس نے) نماز قبلہ رخ پڑھی ہے یا نہیں۔ صبح ہوئی تو معلوم ہوا کہ ہم نے قبلے کی سمت نماز ادا نہیں کی تھی۔ یہ واقعہ ہم نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی خدمت میں عرض کیا تو انہوں نے ہمیں نماز لوٹانے کا حکم نہیں دیا اور فرمایا:
قد أجزأت صلاتكم[5]
"تمہاری نماز ہو گئی"
شہروں اور آبادیوں میں قبلے کی سمت عمومًا پوچھنے سے معلوم ہو جاتی ہےلہٰذا ایسی جگہوں پر اپنے اجتہاد سے رخ کا تعین کرنے کی بجائے کسی سے دریافت کر لینا واجب ہے۔
سفر میں قبلے سے متعلق رخصت:
تمام فقہاء کا اتفاق ہے کہ سفر کی حالت میں اگر کوئی مسافر نفلی نماز پڑھنا چاہے تو اس پر قبلہ رخ ہونا فرض نہیں ، یعنی وہ اپنی سواری پر اپنی نشست یا اپنے قیام کے رخ کے مطابق ، یا اگر سواری میں کھلی جگہ میسر ہو تو کوئی بھی رخ اختیار کر کے اپنی نفلی نماز پڑھ سکتا ہے ، ،
اس کی دلیل اللہ پاک کا فرمان فَاَيْنَمَا تُوَلُّوْا فَثَمَّ وَجْهُ اللّٰهِ " تو تم جدھر بھی رخ کرو، ادھر اللہ کا چہرہ ہے"بھی ہے[6] ، اور اس فرمان کی عملی تطبیق اور اس مسئلے کی عملی دلیل رسول اکرم صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی صحیح ثابت شدہ سُنّت مبارکہ میں بھی میسر ہے ، جیسا کہ صحیحین میں صراحت کے ساتھ منقول ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم دوران سفر اپنی سواری پر بیٹھ کر نفل اور وتر پڑھ لیا کرتے تھے خواہ اس کا رخ مشرق و مغرب (کسی بھی طرف) ہوتا[7]۔
یہاں یہ بات اچھی طرح سے سمجھنے اور یاد رکھنے کی ہے کہ سفر کی حالت میں نفلی نماز کے لیے قبلہ رخ ہونے کی فرضیت نہ ہونا اپنی جگہ ایک درست مسئلہ ہے لیکن اُس کے ساتھ ساتھ یہ بھی بالکل بجا ہے کہ سواری پر نفل نماز پڑھنے کا افضل طریقہ یہ ہے کہ اگر ممکن ہو تو نمازکے شروع میں تکبیر تحریمہ کہتے وقت سواری کا رخ قبلے کی طرف کرلیا جائے[8]، یا مسافر اپنا رخ قبلہ کی طرف کر لے، پھر اس کے بعد سواری کے پھر جانے کی وجہ سے نمازی کا رخ قبلہ سے ہٹ بھی جائے ، تو کوئی حرج نہیں۔ شروع میں قبلہ رخ ہونا مشکل ہو تو کسی بھی سمت میں نماز شروع کی جا سکتی ہے۔
سواری پر، یا سواری میں عام انداز میں نماز پڑھنے کی طرح رکوع و سجود نہ کیے جا سکتے ہوں جیسا کہ آج کل کی سواریوں میں نشستوں پر بیٹھے رہنے کی صورت میں رکوع وسجود ادا کرنا ممکن نہیں ہوتا تو انہیں اشاروں میں ادا کیا جا سکتا ہے ، ایسی حالت میں یہ خیال رکھا جائے کہ سجدے اور رکوع میں فرق کو جس قدر ممکن ہو برقرار رکھنے کی کوشش کی جانی چاہیے ، لہذا سجدہ کرتے وقت سر کو رکوع کی نسبت زیادہ جھکایا جائے گا[9]۔
جمہور علماء [10]کے نزدیک ہر چھوٹے بڑے سفر میں سواری پر نفل پڑھے جا سکتے ہیں ، اس میں سفر کی مسافت کی کوئی قید نہیں ۔ البتہ ڈرائیونگ کرتے ہوئے یا پرہجوم جگہوں پر یا کسی بھی ایسی جگہ نفل نہیں پڑھنے چاہیئں جہاں توجہ منتشر ہونے یا اپنے یا کسی کے جان و مال کو خطرہ پیش آنے کا ڈر ہو[11]۔
جدید ذرائع آمدورفت کی وجہ سے اس سنت پر عمل کرنا خاصا آسان ہو گیا ہے۔ کیا خوب ہو جو کار، بس، ٹرین اور ہوائی جہاز وغیرہ میں موسیقی سے دل بہلانے کی بجائے مسلمان اس سنت پر عمل کرنا شروع کر دیں جو ہم مسلمانوں کی کم علمی اور اپنے دین سے دوری کی وجہ سے تقریبًا متروک و مہجور ہو چکی ہے۔
فرض نماز کے لیے قبلہ رخ ہونا اور سواری سے اترنا لازمی ہے:
شرعی عذر کے بغیرفرض نماز سواری پر بیٹھ کر یا قبلے کے سوا کسی دوسرے رخ پر ادا کرنا جائز نہیں ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم فرض نماز ہمیشہ سواری سے نیچے اتر کر اور قبلے کی طرف رخ کر کے ادا فرمایا کرتے تھے[12]چنانچہ فرض نمازسواری پر بیٹھ کر نہیں پڑھی جا سکتی البتہ کوئی شرعی عذر ہو تو ایسا کرناجائز ہے۔ مثلا ٹرین ، ہوائی جہاز ، بحری جہازوغیرہ میں سفر کے دوران اترنا ممکن نہ ہو اور وقت نکل جانے کا ڈر ہو تو وہیں پرقبلہ رخ ہو کرنماز ادا کر لینی چاہیے۔ اس کا طریقہ یہ ہے کہ قبلہ کے رخ کا پتہ کرنے کے بعد نماز کی ابتداء قبلہ رخ ہو کر ہی کی جائے ، ایساممکن نہ ہو تو خود صحیح سمت کا انداز لگانے کی پوری کوشش کر کے اسی طرف رخ کر کے نماز شروع کی جائے ، اس کے بعد اگر سواری کسی اور طرف پھرے تو اپنے آپ کو گھما کر قبلہ رخ رہنے کی کوشش کی جانی چاہیے ، بہتر یہی ہے کہ نماز کھڑے ہو کر پڑھی جائے اور اگر ایسا ممکن نہ ہو تو پھر بیٹھ کر بھی پڑھی جا سکتی ہے ۔
نمازوں کو زیادہ سے زیادہ اطمینان کے ساتھ پڑھنے کے لیے ہم نمازوں کو جمع کر کے پڑھنے کی سہولت کا فائدہ بھی اٹھا سکتے ہیں۔اگر ظہر کی نماز کا وقت ایسی سواری میں آ جائے جس سواری کو ہم روک کر اس میں سے اتر نہ سکتے ہوں اور عصر کا وقت ختم ہونے سے پہلے اترنا ممکن ہو تو ظہر کو موخر کر کے اترنے کے بعد عصر کے ساتھ جمع کر کے پڑھنا زیادہ بہتر ہے ، اسی طرح اگر مغرب کا وقت سواری پر ہی آ جائے اور عشاء کا وقت ختم ہونے سے پہلے سواری سے اترنا ممکن ہو تو مغرب کی نماز عشاء کے ساتھ جمع کر کے پڑھنا زیادہ بہتر ہے [13]۔
جہاد اور جنگ کے وقت قبلہ رخ نہ ہونے کی اجازت ہے:
جب دشمن کے ساتھ مقابلہ درپیش ہو اور دشمن کے حملے کی شدت، دشمن کی کثرت اور شدید خوف وغیرہ کی وجہ سے نماز باجماعت کا اہتمام نہ ہو سکے تو جیسے بھی آسانی ہو ویسے نماز پڑھ لینی چاہیے۔ ایسے وقت میں فرض نماز کے لیے سواری سے اترنے اور قبلہ رخ ہونے کی پابندی لاگو نہیں رہتی بلکہ فرض نماز خواہ سواریوں پر بیٹھے ادا کی جائے یا اتر کر اور رخ قبلہ کی جانب رہے یا نہ رہے، بہرحال نماز ادا ہو جائے گی[14]۔دوبدو لڑائی میں تو سر کے اشارے سے نماز پڑھنے کی بھی اجازت ہے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے فرمایا ہے:
إذا اختلطوا فانما هو التكبير والاشارة بالرأس[15]
"جب (فوجیں) گتھم گتھا ہو جائیں تو پھر بس تکبیر اور سر سے اشارہ (ہی نماز ادا کرنے کے لیے کافی) ہے"
قبلے کی مختصر تاریخ:
مکی دور میں اورمدینہ کی طرف ہجرت کے کچھ عرصے بعد تک مسلمان بیت المقدس کی طرف منہ کر کے نماز ادا کیا کرتے تھے۔ پھر مسجد الحرام کی طرف رخ کرنے کا حکم نازل ہوا جس کا ذکر سورۃ البقرۃ میں ان الفاظ میں ہے:
قَدْ نَرَى تَقَلُّبَ وَجْهِكَ فِي السَّمَاءِ فَلَنُوَلِّيَنَّكَ قِبْلَةً تَرْضَاهَا فَوَلِّ وَجْهَكَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ وَحَيْثُ مَا كُنْتُمْ فَوَلُّوا وُجُوهَكُمْ شَطْرَهُ
"(اے نبی) ہم آپ کا آسمان کی طرف منہ پھیر پھیر کر دیکھنا دیکھ رہے ہیں۔ سو ہم آپ کو اسی قبلہ کی طرف جس کو آپ پسند کرتے ہیں منہ کرنے کا حکم دیں گے۔ تو اپنا منہ مسجد الحرام کی طرف پھیر لو"
جب یہ آیت مبارکہ نازل ہوئی تو کچھ صحابہ رضی اللہ عنہم قباء کے مقام پر صبح کی نماز ادا کر رہے تھے، وہ حالت نماز ہی میں تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی جانب سے ایک پیغام رساں نے آ کر خبر دی کہ "آج رات قرآن پاک کی آیت نازل ہوئی ہے جس میں کعبہ کی طرف منہ کرنے کا حکم دیا گیا ہے پس تم اپنا رخ اسی طرف کر لو"۔ اس وقت نمازی کا رخ شام کی جانب تھا، اعلان سن کر سب گھوم کر کعبہ کی طرف پھر گئے، امام بھی گھوم کر سامنے کی طرف آ گیا اور کعبہ کی طرف رخ کر لیا۔[16]
اس واقعے سے جہاں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے جذبہ اطاعت رسول کا اندازہ ہوتا ہے کہ حکم سن کر فورًا رخ تبدیل کر لیاوہیں یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ غلط سمت میں نماز پڑھنے والے کو دورانِ نماز صحیح سمت بتائی جا سکتی ہے اور جب نماز کے دوران درست سمت پتہ چل جائے تو اسی وقت ادھر رخ کر لینا چاہیے۔

[HR][/HR][1]۔سورۃالبقرۃ آیت 150
[2]۔صحیح البخاری کتاب الاستئذان باب من رد فقال علیک السلام،صحیح مسلم کتاب الصلاۃباب وجوب قراءۃالفاتحۃ فی کل رکعۃ وانہ اذا لم یحسن الفاتحۃ
[3]۔ سلسلۃ الھدیٰ و النور شریط رقم 530۔
[4]۔سنن ترمذی کتاب الصلاۃ باب ماجاءان مابین المشرق والمغرب قبلۃ،صحیح سنن ترمذی حدیث نمبر 342
[5]۔ سنن دارقطنی کتاب الصلاۃباب الاجتھاد فی القبلۃ وجوازالتحری فی ذلک،ارواءالغلیل فی تخریج احادیث منارالسبیل للالبانی حدیث نمبر 291
[6]۔ صحیح مسلم کتاب صلاۃالمسافرین وقصرھا باب جوازصلاۃالنافلۃعلی الدابۃفی السفرحیث توجھت
[7]۔ صحیح البخاری کتاب الجمعۃ باب الوترفی السفر،صحیح مسلم کتاب صلاۃالمسافرین وقصرھاباب جوازصلاۃالنافلۃعلی الدابۃفی السفرحیث توجھت
[8]۔ سنن ابی داؤد کتاب الصلاۃباب التطوع علی الراحلۃ والوتر،صحیح سنن ابی داؤدحدیث نمبر 1225
[9]۔ سنن ترمذی کتاب الصلاۃباب ماجاءفی الصلاۃعلی الدابۃ فی الطین والمطر،صفۃ صلاۃالنبی الکتاب الام ص 58
[10]۔ حنفیہ، شافعیہ اورحنابلہ کے نزدیک ہر سفر میں سواری پر نفل پڑھے جا سکتے ہیں جبکہ مالکیہ اسے ایسے طویل سفر کے ساتھ مشروط کرتے ہیں جس میں نماز قصر کی جا سکے۔ (الموسوعۃ الفقیہہ الکویتیۃ، الصلاۃ علی الراحلۃ)
[11]۔ سلسلۃ الھدیٰ و النور شرط رقم 386
[12]۔ صحیح البخاری ابواب تقصیرالصلاۃباب ینزل للمکتوبۃ
[13]۔ فتاوی ابن باز اور فتاوی ابن العثیمین سے ماخوذ
[14]۔ صحیح البخاری کتاب تفسیرالقرآن باب قولہ عزوجل فان خفتم فرجالااورکبانا فاذاامنتم فاذکروااللہ
[15]۔ سنن البیہقی جلد 3 ص 255
[16]۔ صحیح البخاری کتاب الصلاۃ
 

عبداللہ حیدر

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 11، 2011
پیغامات
316
ری ایکشن اسکور
1,017
پوائنٹ
120
السلام علیکم،
نماز کے موضوع پر علامہ ناصر الدین البانی رحمۃ اللہ علیہ کی دو کتابیں ہیں:
١۔ اصل صفۃ صلاۃ النبی (تین جلدوں اور تقریبا ڈیڑھ ہزار صفحات پر مشتمل ہے)
٢۔ صفۃ صلاۃ النبی من التکبیر الی التسلیم ( یہ اوپر والی کتاب کی تلخیص ہے۔ محدث لائبریری میں اس کا اردو ترجمہ موجود ہے۔ نماز نبوی احادیث صحیحہ کی روشنی میں - عبادات - کتاب و سنت کی روشنی میں لکھی جانے والی اردو اسلامی کتب کا سب سے بڑا مفت مرکز
ان دو کتابوں کی روشنی میں نماز کے مسائل پر یہ سلسلہ کافی عرصے سے زیر عمل ہے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ اسے مکمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے، اسے نافع بنائے اور اپنی رضا کے لیے خالص رکھے۔
علمائے کرام سے نظر ثانی کی خصوصی درخواست ہے۔
والسلام علیکم
 
شمولیت
ستمبر 18، 2018
پیغامات
3
ری ایکشن اسکور
0
پوائنٹ
2
اسلام علیکم
ماشاء اللہ بہت اچھی پوسٹ ہے۔ مجھے قبلے کے حوالے سے ہی اک مسئلہ درپیش ہے ۔کیا میں یہاں پوچھ سکتا ہوں؟
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,564
پوائنٹ
791
اسلام علیکم
ماشاء اللہ بہت اچھی پوسٹ ہے۔ مجھے قبلے کے حوالے سے ہی اک مسئلہ درپیش ہے ۔کیا میں یہاں پوچھ سکتا ہوں؟
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ
جی محترم بھائی !
آپ یہاں پوچھ سکتے ہیں ،
 
شمولیت
ستمبر 18، 2018
پیغامات
3
ری ایکشن اسکور
0
پوائنٹ
2
ہماری مسجد کے قبلے کا رخ تقریبا 40 درجے شمال کی طرف ہے۔ امام صیب کہتے ہیں کہ اس سے فرق نہیں پڑتا ہمارے علاقے کے دیگر مسجدوں سے اس مسجد کے قبلے میں واضح فرق ہے اور سب کو پتہ ہے ۔ مجھے اک اور مولوی صاحب نے بتایا کہ آپ نماز اکیلے پڑھ لیا کریں کیونکی یہاں نماز مکروہ ہے۔ میں عجیب کشمکش میں ہوں اگر اکیلے پڑھتا ہوں تو محلے والے کہتے ہیں یہ گھر میں نماز پڑھتا ہے۔ جب کہتا ہوں کہ قبلہ غلط ہے تو جواب ملتا ہے کہ اورو کی ہوتی ہے اور آپ کی نہیں ہوتی؟ مہربانی کرکے رہنمائی کریں۔
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,564
پوائنٹ
791
ہماری مسجد کے قبلے کا رخ تقریبا 40 درجے شمال کی طرف ہے۔ امام صیب کہتے ہیں کہ اس سے فرق نہیں پڑتا ہمارے علاقے کے دیگر مسجدوں سے اس مسجد کے قبلے میں واضح فرق ہے اور سب کو پتہ ہے ۔ مجھے اک اور مولوی صاحب نے بتایا کہ آپ نماز اکیلے پڑھ لیا کریں کیونکی یہاں نماز مکروہ ہے۔
قبلہ عین کعبہ یاجہت کعبہ؟
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ہمارے گاؤں کی مسجدوں کاقبلہ کمپاس کےمطابق 105اور95درجے کاہے۔
جب کہ کمپاس پرہمارے علاقہ کادرجہ 120پرہے۔ اس طرح ہماری مسجد کاقبلہ مغرب اورجنوب کےدرمیان دکھائی دیتا ہے ۔ ہمیں بتایا جائے کہ ہم موجود مساجد کےمطابق قبلہ رخ لیں یا 120درجہ پررکھیں ؟(سائل:گاؤں کھرانہ تحصیل کھاریاں ضلع گجرات)
الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

واضح ہو کہ قبلہ کی سمت متعین کرنے میں اہل مکہ اورغیراہل مکہ کےحکم میں قدرے اختلاف ہے،یعنی تھوڑا ساحکم مختلف ہے۔ بیت اللہ کےمطابق اوراس کے گرد مسجد میں نماز پڑھنے والوں کےلیے وقت نماز عین کعبہ کی طرف نماز پڑھنا ممکن ہے،اس لیے ان کےلیے ضروری ہےکہ وہ بالکل کعبہ کی صحیح سمت ہوکہ نماز پڑھیں۔ مگرغیر اہل مکہ کےلیے خاص خانہ کعبہ کی طرف نماز میں رخ کرنا چونکہ ناممکن ہے ،اس لیے اللہ تعالی نےغیراہل مکہ کی سہولت کےپیش نظر کعبہ کےرخ میں فروخی کرکےساری سمت کوقبلہ بنادیاہے۔ باالفاظ دیگر جن نمازی حضرات کوکعبہ شریف دکھائی دیتاہوتوان کےلیے بوقت نماز عین کعبہ کی طرف منہ کرنا ضروری ہے مگر جن لوگوں کوکعبہ دکھائی نہ دیتا ہو ان کےلیے عین کعبہ کی طرف رخ کرنا مشکل ترین مسئلہ ہے،لہذا ان کےلیے یہی کافی ہےکہ بوقت نماز ان کارخ جہت کعبہ کی طرف ہو۔ جمہور علماء سلف وخلف اورائمہ اربعہ کا یہی مذہب اورفتوی ہے۔ چنانچہ قرآن مجید میں ہے:
فَوَلِّ وَجْهَكَ شَطْرَ‌ الْمَسْجِدِ الْحَرَ‌امِ ۚ وَحَيْثُ مَا كُنتُمْ فَوَلُّوا وُجُوهَكُمْ شَطْرَ‌هُ(البقرہ :144)

’’تواپنا منہ مسجد حرام کی طرف پھیرلے اورہم جہاں کہیں ہواپنا منہ اسی طرف پھیرا کرو۔‘‘
امام ابن کثیر اس آیت کی تفسیر میں یہ تصریح فرماتےہیں کہ اگر چہ امام شافعی اوربعض دوسرے اہل علم کامؤقف یہ ہے کہ عین کعبہ کی طرف رخ کرنامقصود ہے ۔ امام شافعی کادوسرا قول یہ ہے کہ قبلہ کی جہت کافی ہے ،جیسا کہ امام حاکم نےروایت کی ہے حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ شطر المسجد الحرام سے مراد مسجد کی طرف ہے عین کعبہ نہیں ۔ (تفسر ابن کثیر:ج1ص20.)
سیداحمد حسن محدث دہلوی فرماتے ہیں کہ اس آیت میں شطر کےمعنی جہت قبلہ ہے۔ (تفسیر احسن التفاسیر ج۱ص۱۲۹)
مفسر ابوبکر جابر الجزائری اس آیت کی تفسیر کرتےہوئے لکھتے ہیں :
وجوب استقبال القبلة في الصلاة وفي أي مكان كان المصلي عليه أن يتجه إلى جهة مكة. (ایسر التفاسیر: ج۱ص۱۲۹)
’’بوقت نماز قبلہ کی طرف منہ کرنا واجب ہے لہذا نماز جہاں بھی ہو اس کےلیے ضروری ہے کہ وہ نماز پڑھتے وقت مکہ کی طرف منہ کرے ۔‘‘
قرآن مجید کی اس آیت اورمفسر ین کی تفسیر کےمطابق ثابت ہواکہ مکہ سے دور بسنے والے نمازیوں پربوقت نماز عین کعبہ کی طرف رخ کرنا فرض نہیں ۔ ان کےلیے جہت کعبہ ہی کفایت کرتی ہے ۔ احادیث رسول میں بھی یہی راہنمائی ملتی ہے ۔
عَن أبی ھریرۃ رضی اللہ عنہ قَال رسول اللہﷺ مَا بَینَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ قِبْلَۃ۔ (ابن ماجہ: باب القبلۃ ص۲۱ وقال الترمذی ھذا حدیث (عن سعید المقبری عن أبی ھریرہ) حسن صحیح۔ جامع الترمذی باب ما بین المشرق والمغرب قبلۃ ج۱ص۴۵،۴۶) رواہ الحاکم ایضا وصححہ الذھبی۔

’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : مشرق اورمغرب کےدرمیان قبلہ ہے ۔‘‘
وضاحت:
رسول اللہ ﷺ نے یہ مدینہ والوں کوفرمایا کیونکہ ان کا قبلہ جنوب کو پڑتا ہے تومشرق اورمغرب کےدرمیان جنوب ہوگا۔
اسی طرح ہم پاکستانیوں کا قبلہ مغرب کی طرف ہے تویہ شمال اورجنوب کےدرمیان پڑے گا ۔ مطلب یہ ہے کہ خاص خانہ کعبہ کی طرف نماز میں منہ کرنا چونکہ ناممکن ہے اس لیے اللہ تعالی نے اس میں فراخی کرکے ساری سمت کو قبلہ بنا دیا ۔
(افادات اسماعیل سلفی رحمتہ اللہ علیہ )
امام شوکانی اس حدیث کی شرح میں ارقام فرماتے ہیں کہ یہ حدیث اس بات کی دلیل ہے کہ جو لوگ کعبہ شریف سے دور بستے ہیں ان کےلیے یہی کافی ہے کہ وہ بوقت نماز اپنا منہ کعبہ کی طرف کر لیں ۔ عین کعبہ کی طرف منہ کرنا فرض نہیں ۔ (نیل الاوطار: باب حجۃ من رای فرض البعید اصابۃ الجھۃ لاالعین ج۳ص۱۶۹)
حضرت ابو ایوب الانصاری سے روایت ہے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جب کوئی بول وبراز کرنے لگے توقبلہ کی طرف منہ نہ کرے اورنہ پیٹھ بلکہ وہ مشرق یا مغرب کی طرف منہ کرے ۔ (صحیح البخاری: باب لا تستقبل القبلۃ الخ ج۱ص۲۹)
شیخ الاسلام حافظ ابن حجر عسقلانی اس حدیث کی شرح میں تصریح فرماتے ہیں کہ حدیث شرقو اوغربوا یہ حکم اہل مدینہ کےلیے ہے کیونکہ اہل مدینہ کاقبلہ چونکہ جانب مشرق اورمغرب کےدرمیان بجانب جنوب واقع ہے لہذا بول وبراز کے وقت پڑتا ہے لہذا بول وبراز کےوقت ان کو شمال یا جنوب کی طرف منہ کرکے بیٹھنا چاہیے ۔فرماتے ہیں :
اما من کان فی الشرق فقبلیتہ فی جہۃ المعرب وکذلک عکسہ۔ (فتح الباری شرح صحیح البخاری: ج۱ص۳۹۶)
کہ اہل مشرق کاقبلہ مغرب کی جہت میں ہے اور اہل مغرب کاقبلہ مشرق کی جہت میں ہے ۔ اس صحیح حدیث یہ ہے بھی ثابت ہواکہ ہم پاکستانیوں کےلیےنماز کےوقت مغرب کی طرف رخ کرنا کافی ہے ۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ بیت اللہ قبلہ ہے مسجد حرام والوں کا اورمسجد حرام قبلہ اہل حرم کا اورحرم قبلہ ہے روئے زمین پربسنے والے تمام مسلمانوں کا خواہ وہ مشرق میں ہو یا مغرب میں میری تمام امت کا قبلہ یہی ہے ۔ (رواہ البیھقی وقال تفردبہ عمر بن حجص وھو ضعیف ، نیل الاوطار ج۲ص۱۶۹ وتفسیر ابن کثیر ج۱ص۲۰۲)
سید احمد حسن دہلوی فرماتے ہیں کہ اس آیت میں شفر کےمعنی جہت کے ہیں ۔ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے اس آیت کی تفسیر میں روایت ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ خاص کعبہ مسجد حرام میں نماز پڑھنے والوں کا قبلہ ہے اورحد حرم کےاندر رہنے والوں کاقبلہ المسجد الحرام ہے اورجہت حرم سب روئے زمین کےرہنے والوں کاقبلہ ہے ۔ بیہقی نے بھی اس حدیث کو روایت کیاہے اوراس حدیث کی سند کوعمر بن حفص راوی کی وجہ سے ضعیف بتلایا ہے ۔ لیکن یہ حدیث کئی سندوں سے روایت کی
گئی ہے جس سے ایک سند کودوسری سندسے قوت حاصل ہوجاتی ہے ۔ اس لیے تین اماموں ابو حنیفہ ، مالک اوراحمدبن حنبل رحمہم اللہ نے اپنے مذہب کامدارس حدیث پررکھا ہے ۔ (احسن التفاسیر: ج۱ص۱۲۹)
اس حدیث سے ثابت ہواکہ روئے زمین کےمشرقی ،مغربی ،شمالی اورجنوبی مسلمانوں کےلیے حرم کی جہت ہی قبلہ ہے ۔ عین کعبہ کی طرف منہ کرناضروری نہیں ۔
امام بخاری نے اپنی صحیح میں ایک باب یوں قائم فرمایا ہے :
باب التوجه وقال أبو هريرة: قال النبي - صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ -: ((استقبل القبلة وكبر)) (صحیح البخاری: ج۱ص۵۷)

’’ہر مقام اورہر ملک میں آدمی جہاں رہے قبلہ کی طرف منہ کرے اورابوہریرہ رضی اللہ عنہ نےکہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کعبہ کی طرف منہ کر اورتکبیر کہو۔‘‘
علامہ وحید الزماں اس حدیث کر شرح میں رقم طراز ہیں : امام احمد بن حنبل ،امام مالک اورامام ابوحنیفہ رحمہم اللہ کا یہ قول ہے کہ جہت کعبہ کی طرف منہ کرنا کافی ہے ۔کیونکہ عین کعبہ کی طرف منہ کرنا دوسرے ملک والوں کےلیے بہت مشکل ہے ، البتہ جن لوگوں کو کعبہ دکھائی دیتا ہے ان کوعین کعبہ کی طرف منہ کرنا ضروری ہے ۔ (تسیر الباری: ج۱ص۲۹۸)
مسلک سلف وخلف:
امام ترمذی اپنی الجامع میں ارقام فرماتےہیں کہ متعدد صحابہ جن میں حضرت عمر ،حضرت علی اورحضرت ابن عباس رضی اللہ عنہم بھی شامل ہیں سے روایت ہے کہ مشرق اورمغرب کےدرمیان قبلہ ہے جن میں حضرت عمر ، حضرت علی اورحضرت ابن عباس رضی اللہ عنہم بھی شامل ہیں ۔ (جامع الترمذی: ج۱ص۴۶)
امام ابن کثیر کےمطابق جناب ابو عالیہ ، مجاہد ،عکرمہ ،سعید بن جبیر،قتادہ اورربیع بن انس وغیرہ تابعین کابھی یہی قول ہے ۔(2۔تفسیر ابن کثیر ج1 ص 206)
امام ابن عبدالبر تصریح فرماتے ہیں :
وَهَذَا صَحِيحٌ لَا مَدْفَعَ لَهُ وَلَا خِلَافَ بَيْنَ أَهْلِ الْعِلْمِ فِيهِ.(نیل الاوطارج 2ص169)
کہ قبلہ طرف رخ کرنے میں توسع ہے اوریہ ایسی صائب رائے ہے کہ اس کی تردید ممکن نہیں اورعلماء کا اس میں قطعاً کوئی اختلاف نہیں ۔
ائمہ اربعہ کا مسلک:
اگرچہ اوپرضمنا ائمہ اربعہ کا مسلک ذکر ہوچکا ہے ۔ اب ذیل میں خود ان کے مذاہب کی مستند کتابوں کے حوالہ جات مع صفحات پیش کیے دیتا ہوں تاکہ کسی کوہمارا مؤقف سمجھنے کا سامنا نہ کرنا پڑے۔
فقہائے احناف کا مسلک:
فقیہ مرغینانی حنفی لکھتے ہیں کہ جو مسلمان شہر مکہ سے دوررہتا ہے تونماز کےلیے اس پر صرف جہت کعبہ کی طرف منہ کرنا فرض ہے ،عین قبلہ کی طرف نہیں اوریہی بات صحیح ہے ۔ کیونکہ شرعی تکلف ( ذمہ داری ) ہر شخص کی وسعت کےمطابق ہے ۔ (ہدایۃ اولین :ج1ص97)
امام مالک کا مسلک :
حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے فرمایا : مشرق اورمغرب کے درمیان قبلہ ہے ،جب بیت اللہ کی طرف رخ کرلیا جائے۔(مؤطا،باب القبلۃ)مگریہ اہل مدینہ کےلیے ہے کیونکہ مدینہ منورہ سے مکہ مکرمہ جنوب میں پڑتا ہے ۔ لہذا اس فرمان کے مطابق اہل مشرق کاقبلہ شمال اورجنوب کے درمیان پڑےگا۔ مشرق والوں کاقبلہ مغرب میں اورمغرب والوں کامشرق کی جہت میں پڑےگا۔ چنانچہ علامہ باجی مالکی تصریح فرماتے ہیں ۔
واما من کان من مکۃ فی المشرق اوفی المغرب فان قبلتھم مابین الجنوب والشمال۔(حاشیۃ مؤطا:ص183)
امام احمداورحنابلہ کا فیصلہ:
جونمازی مکہ مکرمہ سے دور ہواس کےلیے جہت کعبہ ہی کافی ہے ،اس پرعین کعبہ کی طرف منہ کرنا فرض نہیں ۔ امام احمد نے فرمایا کہ اگر اس کا رخ کعبہ سے تھوڑا سا ٹیڑھا بھی ہوجائے تووہ نماز کا اعادہ نہ کرے۔ تاہم کعبہ کواپنے وسط میں رکھنے کی کوشش ضرور کرے۔ امام ابوحنیفہ یہی فرماتے ہیں اورامام شافعی کاایک قول بھی ہمارے قول کے موافق ہے ۔ (مغنی :1؍457)الشیخ سیدمحمد سابق مصری تصریح فرماتے ہیں :
المشاهد للكعبة يجب عليه أن يستقبل عينها، والذي لا يستطيع مشاهدتها يجب عليه أن يستقبل جهتها، لان هذا هو المقدور عليه، ولا يكلف الله نفسا إلا وسعها.(فی الفقہ السنۃ :1؍109)
’’جونمازی کعبہ کےسامنے ہواس پرواجب ہے کہ وہ عین کعبہ کی طرف منہ کرے۔ اورجسے کوکعبہ نظر نہ آرہا ہوتو اس پرجہت کعبہ کی طرف منہ کرنا واجب ہے کیونکہ وہ عین کعبہ کی طرف منہ کرنے پرقادر نہیں اوراللہ تعالی کسی کو اس کی طاقت سے زیادہ تکلیف نہیں دیتا ۔
حضرت عبید اللہ رحمانی مبارک پوری حدیث بین المشرق والمغرب قبلۃ کو حجت قاطع قرار دیتے ہوئے فیصلہ یوں کرتے ہیں :
فالحديث دليل على أن ما بين الجهتين قبلة، وأن الجهة كافية في الاستقبال،وقوله تعالى: {حيثما كنتم فولوا وجوهكم شطره} [2: 144]يدل على كفاية الجهة، إذ العين في كل محل تتعذر على كل مصل، فالحق أن الجهة كافية لمن تعذر عليه العين(مرعاۃ المفاتیح شرح مشکوۃ المصابیح باب المساجد فصل ثانی ص422)
’’یہ حدیث اس مسئلہ میں حجت اوردلیل ہے کہ دونوں جہتوں مشرق اورمغرب یا پھر جنوب وشمال کےدرمیان قبلہ ہے اوراستقبال قبلہ کےلیے جہت قبلہ ہی کافی ہے ۔ اللہ تعالی کا یہ ارشاد’’تم جہاں بھی ہو پھیر لو اپنے مونہوں کو قبلہ کی جہت ‘‘جہت کےکافی ہونے پردلالت کرتا ہے ۔ ہرایک جگہ پرہرایک نمازی کےلیے عین قبلہ کی طرف منہ کرنا بڑا مشکل ہے۔ پس حق بات یہی ہے کہ جس آدمی کےلیے عین کعبہ کی طرف منہ کرنا مشکل ہوتواس کے لیے سمت قبلہ ہی کافی ہے ۔‘‘
قبلہ کی سمت متعین کرنے کا پرانا دیسی طریقہ
ہمارے شیخ حضرت حافظ محمد گوندلوی رحمہ اللہ واسعۃ نے قبلہ کی سمت متعین کرنے کا طریقہ یہ بتلانا تھا کہ قطب ستارہ کے رخ پردائیں سے بائیں طرف سوفٹ خط بنا لیجئے ،پھر اس خط کے قطبی سرے سے دس فٹ خط اوپر کو کھینچ لیجئے۔ ازاں بعد نیچے والے سوفٹ لمبے خط کے جنوبی سرےسے خط کھینچ کراس خط کو جو دس فٹ کاخط ہے اس کے اوپر کے سرے سے ملادیں ۔ اب اس میں ترچھے خط کی سمت قبلہ رخ ہوگئی ۔ نقشہ یہ ہے ۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ حرم مکہ سے باہر دور دراز کے ممالک کےمسلمانوں کےلیے چونکہ نماز میں عین قبلہ کی طرف منہ کرنا ناممکن اورمشکل ہے ،اس لیے اللہ تعالی نے اس میں فراخی کرکے ساری سمت قبلہ بنادیا ہے ۔ ان مذکورہ بالا آیات ،احادیث صحیحہ،صحابہ وتابعین ،فقہاء محدثین ،امام ابو حنیفہ ،امام مالک ،امام احمد بن حنبل رحمہم اللہ اورایک قول کے مطابق امام شافعی کومذکورہ بالاتصریحات کے تحت ہمارے لیے مکہ مکرمہ کی طرف رخ کرلینا ہی کافی ہے،خاص خانہ کعبہ کی طرف منہ کرنا ضروری نہیں ۔ لہذا آپ موجودہ مساجد کے مطابق اپنی مسجد کارخ رکھ سکتے ہیں۔یعنی 105اور110درجےکےدرمیان کوئی ایک درجہ اختیارکرلیں۔احتیاط اسی میں ہے ۔
فتاویٰ محمدیہ (ج1ص302 )
محدث فتویٰ
 
Top