• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

استوا کے متعلق امام مالک رحمہ اللہ کا صحیح عقیدہ کیا تها؟

Adnani Salafi

رکن
شمولیت
دسمبر 18، 2015
پیغامات
47
ری ایکشن اسکور
16
پوائنٹ
32
استوا کے متعلق امام مالک رحمہ اللہ کا ایک قول مشہور معروف ہے کہ استوا معلوم یا معقول اور کیفیت مجہول اور اس پر ایمان لانا واجب ہے،جبکہ امام عبدالبر رحمہ اللہ نے امام مالک رحمہ اللہ سے ایک اور قول بهی نقل کیا ہے.ان دونوں اقوال میں سے کسی کی سند صحیح ہے.اور ان ميں سے کس پر ایمان لانا واجب ہے؟


امام مالک رحمہ اللہ سے پوچھا گیا کہ رحمن عرش پر کیسے استوا کیا ہوا ہے.
تو امام مالک رحمہ اللہ نے جواب دیا"استوا معقول و کیفیت مجہول".
(تمہید جلد:7، صفحہ:138)
امام مالک رحمہ اللہ سے پوچھا گیا کہ رحمن عرش پر کیسے استوا کیا ہوا ہے.
تو امام مالک رحمہ اللہ نے جواب دیا"استوا مجہول ولفعل من هو غیر معقول".
(تمہید جلد:7، صفحہ:151)
آپکا دینی بهائی عدنانی سلفی​
 

رضا میاں

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 11، 2011
پیغامات
1,557
ری ایکشن اسکور
3,580
پوائنٹ
384
امام مالک کے اس قول کو ان کے کئی تلامذہ نے نقل کیا ہے یہاں تک کہ اس کے متواتر ہونے کی شہادت بھی دی گئی ہے اور سب نے ہی اسے ایک ہی معنی سے روایت کیا ہے جو کہ آپ کے دیے ہوئے پہلے الفاظ ہیں۔
جہاں تک ابن عبد البر کی روایت کا تعلق ہے تو یہ ان تمام روایات کے خلاف ہے۔ جس سے صاف واضح ہے کہ اس روایت میں غلطی ہوئی ہے اور صحیح روایت وہی ہے جو دیگر رواۃ نے نقل کی ہے۔
جبکہ شیخ عبد الرزاق البدر اپنی کتاب الاثر المشہور عن الامام مالک میں فرماتے ہیں کہ التمہید کی اس روایت میں تحریف ہوئی ہے جبکہ دیگر نسخوں میں مجہول کے ساتھ 'غیر' کا بھی اضافہ ہے یعنی اصل الفاظ یہ ہیں: "
استواؤه [غير] مجهول، والفعل منه غير معقول"۔ اور یہ الفاظ دیگر روایات کے بھی موافق ہیں۔
 

Adnani Salafi

رکن
شمولیت
دسمبر 18، 2015
پیغامات
47
ری ایکشن اسکور
16
پوائنٹ
32
التمہید کی اس روایت میں تحریف ہوئی ہے جبکہ دیگر نسخوں میں مجہول کے ساتھ 'غیر' کا بھی اضافہ ہے یعنی اصل الفاظ یہ ہیں: "
استواؤه [غير] مجهول، والفعل منه غير معقول"۔
اسلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
رضا بهائی کیا آپ ان نسخوں کا سکین اپلوڈ کرسکتے ہیں.
1.کہ جس ميں "غیر مجهول" کے الفاظ موجود ہیں.
2.اور جس میں صرف "مجهول" کے الفاظ موجودہیں.
اور کیا شیخ عبدالزاق البدر کے علاوہ اور کسی نے بهی اس قول میں تحریف کی وضاحت کی ہے؟
 

رضا میاں

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 11، 2011
پیغامات
1,557
ری ایکشن اسکور
3,580
پوائنٹ
384
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
جی میری ان نسخوں تک رسائی نہیں ہے۔ البتہ اس روایت کے جواب کے لئے یہی کافی ہے کہ اس کے الفاظ باقی تمام راویوں کے الفاظ کے خلاف ہیں۔ لہٰذا اس کے مردود ومنکر ہونے میں کوئی شک نہیں رہتا۔
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,565
پوائنٹ
791
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
Last edited:
شمولیت
جولائی 07، 2014
پیغامات
155
ری ایکشن اسکور
51
پوائنٹ
91
امام مالک رحمہ اللہ کے قول کا صحیح مفہوم


امام مالک رحمہ اللہ کا عقیدہ یہی تھا کہ اللہ تعالیٰ عرش پر مستوی ہے اور اس استواء کی کیفیت مجہول ہے۔ یہ قول تقریباً تمام عقیدہ کی مشہور کتب میں موجود ہے۔
اس بنیادی وضاحت کے بعد آتے ہیں، اس قول کی طرف آتے ہیں جو بھائی سلفی کی طرف سے پیش کیا گیا ہے:​
امام مالک رحمہ اللہ سے پوچھا گیا کہ رحمن عرش پر کیسے استوا کیا ہوا ہے.
تو امام مالک رحمہ اللہ نے جواب دیا"استوا مجہول ولفعل من هو غیر معقول".
(تمہید جلد:7، صفحہ:151)
عرض یہ ہے کہ واقعتاً اس صفحہ پر یہ بات موجود ہے ، لیکن اس کا صحیح مفہوم کیا ہے اس کی وضاحت کے لئے ہم پورے پیرائے کو بیان کرتے ہیں بلکہ تھوڑا مزید پیچھے چلے جاتے ہیں کہ امام مالک رحمہ اللہ اپنی مؤطا میں ایک حدیث لائے جو تقریباً حدیث کی ہر بڑی کتاب میں موجود ہے جسے حدیث النزول کہا جاتا ہے جس میں ہر رات اللہ تعالیٰ کے نزول کا ذکر ہے۔
اس حدیث کی شرح کرتے ہوئے علامہ ابن عبدالبر رحمہ اللہ نے عقیدہ استواء علی العرش کو بیان کیا یہ بحث شروع ہورہی ہے صفحہ نمبر 128 سے ، علامہ ابن عبدالبر رحمہ اللہ نے بڑی تفصیل کے ساتھ استواء علی العرش کے دلائل پیش کئے نہ کہ صرف دلائل بلکہ تمام دلائل کو ذکرکرنے کے بعد جو اعتراض اس عقیدہ پر پیش کئے جاتے ہیں ان کا بھی رد کرتے جارہے ہیں، اور سلف سے اس مؤقف کا اثبات کرتے جارہے ہیں حتی کہ صفحہ نمبر 138 پر امام مالک رحمہ اللہ سے قول ذکر کرتے ہیں : استواؤه معقول وكيفيته مجهولة وسؤالك عن هذا بدعة وأراك رجل سوء
یہ وہی مؤقف ہے جو امام مالک رحمہ اللہ کا مشہور مؤقف ہے۔ یہاں واضح طور پر علامہ ابن عبدالبر رحمہ اللہ نے امام مالک رحمہ اللہ کا مؤقف بیان کردیا۔
جیساکہ میں نے پوراپس منظر ذکر کیا اس کے ساتھ تسلسل جوڑتے ہوئے بات تشبیہ اور کیفیت پر چلی اس حوالے علامہ ابن عبدالبررحمہ اللہ سلف میں سے مختلف اہل علم سے عدم تشبیہ اور کیفیت نہ بیان کرنے کو مؤقف بیان کررہے ہیں ، حتی کہ امام مالک رحمہ اللہ سے یہ نقل کیا کہ امام مالک رحمہ اللہ کے سامنے جب ایسی احادیث پیش کی جاتیں جن میں اللہ کی صفات کا ذکرہ ہوتا تو وہ روکتے کہ کہیں عام آدمی اس میں تشبیہ نہ سمجھ بیٹھے چنانچہ علامہ ابن عبدالبر رحمہ اللہ لکھتے ہیں: فأنكر ذلك إنكارا شديدا ونهى أن يحدث به أحدا وإنما كره ذلك ملك خشية الخوض في التشبيه بكيف هاهنا امام مالک نے ایسی احادیث بیان کرنے والے کو روکا کیونکہ امام مالک رحمہ اللہ نے یہ ناپسند کیا کہ کوئی تشبیہ اور کیفیت کے حوالے سے غورو خوض نہ کرے۔
یہ صفحہ ہے150۔ اس سے ایک دو صفحات پہلے سے یہی کیفیت اور تشبیہ سے بچنے سے متعلقہ آثار کا بیان چل رہا ہے، حتی کہ اب وہ صفحہ آگیا جو اصل مدعیٰ ہے۔ علامہ ابن عبدالبر رحمہ اللہ نے ابن معین سے نقل کیا انہوں نے عدم کیفیت کو بیان کیا اور اس کے بعد امام مالک رحمہ اللہ کا قول پیش کیا کہ جب ان سے یہ سوال ہوا تو انہوں نے فرمایا:
استواؤه مجهول والفعل منه غير معقول والمسألة عن هذا بدعة
پورے پیرائے سے واضح ہے کہ یہاں استواؤہ سے مراد کیفیۃ استوائہ ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ اس کے متصل بعد ہی نقل کیا کہ جب ان سے سوال کیا گیا اللہ تعالیٰ کے عرش پر مستوی ہونے کے حوالے سے تو انہوں نے کہا:
سألت عن غير مجهول وتكلمت في غير معقول إنك امرؤ سوء أخرجوه فأخذوا بضبعيه فأخرجوه
اور پھر مزید یہ کہ علامہ ابن عبدالبر رحمہ اللہ نے یہ اقوال پیش کرکے نقل کیا: قال يحيى بن إبرهيم بن مزين إنما كره ملك أن يتحدث بتلك الأحاديث لأن فيها حدا وصفة وتشبيها والنجاة في هذا الانتهاء
یعنی : یحی بن ابراہیم بن مزین نے فرمایا کہ امام مالک نے اس کو ناپسند اس لئے کیا کہ اس میں حد بندی اور تشبیہ کا اندیشہ ہے اور نجات یہیں رک جانے میں ہے۔ (جہاں شریعت نے روک دیا۔ )
خلاصہ :
اس پوری تفصیل کا خلاصہ یہ ہے کہ امام مالک یہاں مراد صفت استواء کو مجہول کہنا نہیں بلکہ کیفیت استواء کو مجہول کہنا ہے جس کے دلائل یہ ہیں :
۱۔ علامہ ابن عبدالبر رحمہ اللہ ان کاصراحت کے ساتھ مؤقف بیان کرچکے ہیں جلد 7 صفحہ 138 اور یہ دیگر کتب سے بھی ثابت ہے۔
2۔ امام مالک رحمہ اللہ کا مؤطا میں حدیث النزول ذکر کرنا جس سے اہل علم استواء علی العرش کا استدلال کیا ہے۔
۳۔ علامہ ابن عبدالبر رحمہ اللہ کا کیفیت اور تشبیہ کی نفی کے پیرائے میں ان کے اس قول کو پیش کرنا۔
۴۔ اس کے متصل بعد ہی ان کا صریح قول پیش کرنا۔
۵۔ علامہ ابن عبدالبر رحمہ اللہ کاخود وضاحت پیش کرنا کما مر دیکھئے: جلد 7 صفحہ 150
۶۔ یحی بن ابراہیم سے وضاحت نقل کرنا۔ دیکھئے : جلد 7 صفحہ 151
ان تمام دلائل و قرائن سے امام مالک رحمہ اللہ کے قول کا صحیح مفہوم واضح ہوا۔ ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب
 
Last edited:
Top