• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اسلامی آداب زندگی (سبیل المؤمنین)

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
رعیت کے حقوق:

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’اللہ تعالیٰ جس آدمی کو کسی رعیت کا ذمہ دار بنائے، پھر وہ انہیں دھوکہ دیتے ہوئے مر جائے یعنی ان کے حقوق کی حفاظت کی کوشش نہ کرے، اللہ تعالیٰ نے اس پر جنت حرام کردی ہے۔‘‘
(بخاری کتاب الاحکام باب من استرعی رعیۃ فلم ینصح، مسلم کتاب الامارۃ باب فضیلۃ الامیر العادل)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
۵۔ حوصلہ افزائی کرنا:
ابو حمید ساعدی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"یقیناً اس امت میں اللہ کے بہترین بندے وہ ہیں جو پورا حق دینے والے اور حوصلہ افزائی کرنے والے ہیں۔"
(السلسلۃ الصحیحۃ للالبانی ۸۴۸۲.)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
۶۔ شرم و حیا:
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’ایمان کی ستر یا ساٹھ سے اوپر شاخیں ہیں۔ افضل شاخ ’’لا الہ الا اللّٰہ‘‘ہے۔ کم تر شاخ راستے سے تکلیف دہ چیز کا ہٹانا ہے اور حیا بھی ایمان کا حصہ ہے۔‘‘
(بخاری کتاب الایمان باب امور الایمان، مسلم کتاب الایمان باب شعب الایمان)

با حیا انسان گندے کام نہیں کرتا، برے الفاظ نہیں بولتا۔ اس لیے کہ وہ مذمت اور ملامت سے ڈرتا ہے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’حیا خیر ہی لاتا ہے اور حیا پوری کی پوری خیر و بھلائی ہے۔‘‘
(بخاری کتاب الادب باب الحیاء، مسلم کتاب الایمان باب شعب الایمان)

مسلمان مخلوق کے سامنے شرم کرتا ہے ان کے سامنے ننگا نہیں ہوتا ان کے حقوق کی ادائیگی میں کوتاہی نہیں کرتا کسی کے احسان کا انکاری نہیں ہوتا اور نہ برے انداز سے کسی کا سامنا کرتا ہے۔ اسی طرح وہ اپنے خالق کے آگے بھی وہ باحیا ہوتا ہے اور اس کی اطاعت اور اس کی نعمتوں کا شکر ادا کرنے میں کمی نہیں کرتا۔ ایک مومن اس بات سے ڈرتا ہے کہ لوگ اس کی مذمت اور ملامت کریں اس لیے وہ گندے کاموں کے قریب بھی نہیں جاتا۔ البتہ اگر وہ اللہ کی رضا کی خاطر لوگوں کو حق کی تلقین کرے اور برے کاموں سے روکے اور اس بنا پر لوگ اس کی مذمت کریں تو وہ ان کی پرواہ نہیں کرتا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
۷۔ وقار:
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’جب نماز کی جماعت کھڑی ہو جائے تو تم دوڑتے ہوئے نہ آؤ۔ آرام سے چلتے ہوئے آؤ۔ وقار اختیار کرو۔ جو نماز امام کے ساتھ پا لو وہ پڑھ لو اور جو رہ جائے اسے پورا کرو۔‘‘
(بخاری کتاب الاذان باب لایسعی الی الصلاۃ مستعجلا، مسلم کتاب المساجد باب استحباب اتیان الصلاۃ بوقار وسکینہ)

نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم میدانِ عرفات سے واپس لوٹ رہے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے پیچھے اونٹوں پر مار اور ڈانٹ کی آواز سنی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’لوگو! سکون سے چلو۔ اس لیے کہ تیز رفتاری نیکی نہیں ہے۔‘‘
(بخاری کتاب الحج باب امرالنبی صلی اللہ علیہ وسلم بالسکینۃ عند الافاضۃ، مسلم کتاب الحج باب الافاضۃ من عرفات الی المزدلفۃ)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
۸۔ عہد کی پابندی:
سیدنا یمان اور حذیفہ رضی اللہ عنہما دونوں جنگ بدر میں شرکت کے لیے روانہ ہوئے (راستہ میں) کفار مکہ نے انہیں گرفتار کر لیا۔ اور کہنے لگے تم محمد کے پاس جانا چاہتے ہو؟ انہوں نے کہا۔ ہم ان کے پاس جانا نہیں چاہتے بلکہ ہم تو مدینہ منورہ جانا چاہتے ہیں۔ کفار نے ان دونوں سے اللہ کی قسم کے ساتھ عہد لیا کہ وہ مدینہ چلے جائیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہو کر نہ لڑیں۔ وہ دونوں وہاں سے روانہ ہو کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور آپ کو سارا واقعہ سنایا۔
آپ نے فرمایا:
"تم مدینہ چلے جاؤ۔ ہم ان کا عہد پورا کریں گے اور ان کے مقابلے میں اللہ سے مدد طلب کریں گے ۔"
(صحیح مسلم کتاب الجہاد باب الوفاء بالعہد)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
۹۔ سچائی:
ایک مسلمان سچائی پسند ہوتا ہے کیونکہ سچائی اختیار کرنے سے ایمان کی تکمیل ہوتی ہے۔ ایک مومن حقیقت کے خلاف کوئی خبر نہیں دیتا اور نہ ہی لین دین میں جھوٹ بول کر کسی کو دھوکہ دیتا ہے ۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّـهَ وَكُونُوا مَعَ الصَّادِقِينَ ﴿١١٩﴾ التوبہ
’’اے ایمان والو ! اللہ سے ڈرو اور سچ والوں کا ساتھ دو ۔‘‘

نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’سچائی اختیار کرو۔ سچائی نیکی کا راستہ دکھاتی ہے اور نیکی جنت میں لے جاتی ہے۔ انسان برابر سچ بولتا اور سچائی تلاش کرتا رہتا ہے یہاں تک کہ اللہ کے ہاں صدیق لکھ دیا جاتا ہے۔ اور جھوٹ سے بچو۔ جھوٹ گناہ کی طرف لے جاتا ہے اور گناہ جہنم میں لے جاتا ہے۔ انسان ہمیشہ جھوٹ بولتا اور جھوٹ تلاش کرتا رہتا ہے یہاں تک کہ اللہ کے ہاں کذاب لکھ دیا جاتا ہے ۔‘‘
(بخاری کتاب الادب باب قول اللّٰہ تعالٰی (یا ایہا الذین امنو اتقوا اللہ وکونوا مع الصادقین)، مسلم کتاب البر باب قبح الکذب وحسن الصدق)

جھوٹ بولنا منافق کی نشانی ہے:
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’منافق کی چار نشانیاں ہیں ۔جس میں وہ چاروں ہوں گی وہ خالص منافق ہے اور جس میں ان میں سے کوئی ایک خصلت ہو گی اس میں نفاق کی ایک خصلت ہو گی۔
۱: بات کہے تو جھوٹ بولے۔
۲: وعدہ کرے تو خلاف ورزی کرے۔
۳: امانت رکھی جائے تو خیانت کرے۔
۴: جب جھگڑے تو بدزبانی کرے۔"
(بخاری کتاب الایمان باب علامات المنافق، مسلم کتاب الایمان باب خصال المنافق)

جھوٹا خواب بیان کرنے کی مذمت:
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"جو شخص ایسا خواب بیان کرے جو اس نے نہیں دیکھا تو قیامت کے دن اسے مجبور کیا جائے گا کہ وہ جو کے دو دانوں کے درمیان گرہ لگائے اور یہ ہرگز نہیں کر سکے گا۔ جو شخص ایسے لوگوں کی بات سننے کے لئے ان کی طرف کان لگائے جو اس کے لئے اس کو ناپسند کرتے ہوں تو قیامت کے دن اس کے کانوں میں پگھلا ہوا سیسہ ڈالا جائے گا۔ جو شخص (کسی جاندار کی) تصویر بنائے تو اسے عذاب دیا جائے گا اور اسے مجبور کیا جائے گاکہ وہ اس میں روح پھونکے جب کہ وہ اس میں روح نہیں پھونک سکے گا۔"
(بخاری کتاب التعبیر باب من کذب فی حلمہ)

سوکن کو غلط تاثر دینے کی ممانعت:
ایک عورت نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میری ایک سوکن ہے۔ کیا مجھے اس بات سے گناہ ہو گا اگر میں یہ ظاہر کروں کہ مجھے خاوند کی طرف سے خوب مل رہا ہے جب کہ مجھے وہ چیزیں نہیں دیتا؟
تو آپ نے فرمایا:
"جو چیز تمہیں نہیں دی گئی اس کا جھوٹ موٹ اظہار کرنے والا جھوٹ کے دو کپڑے پہننے والے کی طرح ہے۔"
(بخاری کتاب النکاح باب المتشبع بمالم ینل، مسلم کتاب اللباس والزینۃ باب النھی عن التزویر فی اللباس)

بچوں سے جھوٹ بولنا گناہ ہے :
عبداللہ بن عامر بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے گھر آئے۔ میں اس وقت بچہ تھا۔ میں کھیلنے کے لیے باہر نکلنے لگا تو میری امی نے کہا اے عبداللہ آؤ میں تمہیں دوں
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا :
"تم نے اسے کون سی چیز دینے کا ارادہ کیا ہے؟ "
میری امی نے جواب دیا میں اسے کھجور دوں گی
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
"اگر تم اسے کوئی چیز نہ دیتی تو تم پر ایک جھوٹ لکھ دیا جاتا۔"
(ابوداؤد۹۳۳۴، السلسلۃ الصحیحۃ للالبانی۸۴۷.)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
10- لوگوں کے درمیان صلح کروانا:
اللہ تعالیٰ نے فرمایا :
إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ إِخْوَةٌ فَأَصْلِحُوا بَيْنَ أَخَوَيْكُمْ ۚ ﴿١٠﴾ الحجرات
’’مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں۔ پس بھائیوں کے درمیان صلح کروا دو۔‘‘

عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"افضل صدقہ آپس میں صلح کروانا ہے۔"
(السلسلۃ الصحیحۃ للالبانی۹۳۶۲.)

رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ
’’وہ شخص جھوٹا نہیں جو لوگوں کے درمیان صلح کروانے کے لیے (اپنی طرف سے باتیں بنا کر) بھلائی کی بات آگے پہنچاتا ہے یا بھلائی کی بات کہتا ہے۔‘‘
(بخاری کتاب الصلح باب لیس الکذاب الذی، مسلم کتاب البر والصلۃ باب تحریم الکذب وبیان المباح منہ)

امِ کلثوم رضی اللہ عنہا نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین موقعوں کے علاوہ (جھوٹ بولنے کی اجازت) بالکل نہیں دی۔
۱: لڑائی کے موقع پر (دشمن کو اصل صورت حال سے بے خبر رکھنے کے لیے)
۲: لوگوں کے درمیان صلح کروانے کے لیے (اپنی طرف سے باتیں بنانا)
۳: مرد کا اپنی بیوی سے اور عورت کا اپنے خاوند سے (کوئی بات کہنا تاکہ گھریلو زندگی خوش گوار رہے)
(مسلم۔ح۔۵۰۶۲.)

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’میں اس شخص کے لیے جنت کے اطراف میں ایک گھر کا ضامن ہوں جس نے حق پر ہوتے ہوئے بھی جھگڑا چھوڑ دیا (اور اپنے حق سے دستبردار ہو گیا) اور اس شخص کے لیے جنت کے درمیان میں ایک گھر کا ضامن ہوں جس نے مزاح کے طور پر بھی جھوٹ کا ارتکاب نہیں کیا اور اس شخص کے لیے جنت کے بلند ترین حصے میں ایک گھر کا ضامن ہوں جس کا اخلاق اچھا ہو۔‘‘
(ابو داؤد کتاب الادب باب حسن الخلق ۔ح۔۰۰۸۴۔ امام نووی نے صحیح کہا ہے)

حق پر ہوتے ہوئے جھگڑا چھوڑنے کی فضیلت ان امور میں ہے جن میں جھگڑا چھوڑنا جائز ہو۔ لیکن باطل نظریات رکھنے والوں سے مجادلہ کرنا واجب ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس کا حکم دیا ہے۔
وَجَادِلْهُم بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ ۚ ﴿١٢٥﴾ النحل
’’اور ان سے ایسے طریقے سے مباحثہ کریں جو بہترین ہو۔‘‘
باطل کی طرف دعوت دینے والوں سے یہ مجادلہ اس لیے ہے کہ لو گوں کی حق کی طرف راہنمائی ہو سکے اس لیے اس مباحثہ میں گالی گلوچ نہیں ہونی چاہئے بلکہ احسن طریقے سے بحث کی جانی چاہئے تا کہ حکمت کے ساتھ ساتھ دی گئی دعوت کے سامنے لوگ سر تسلیم خم کر لیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
مسلمانوں کے درمیان جھگڑوں کے اسباب اور ان کے احکام

لوگوں کے درمیان محبت اور صلح قائم رکھنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے ہر وہ چیز حرام قرار دی ہے جو لوگوں کے درمیان جھگڑا پیدا کرتی ہیں۔ آج معاشرہ میں فتنہ و فساد اور جنگ و جدال ان برائیوں کی وجہ سے ہے، مثلاً غیبت، چغلی، چرب زبانی، غصہ وغیرہ۔ اگر ایک مسلمان ان گناہوں کے انجام کو اپنے سامنے رکھے تو ہمارا معاشرہ امن و سکون کا گہوارہ بن سکتا ہے۔ آئیے ان امور کا تعارف حاصل کرتے ہیں کہ جن سے مسلمانوں کے مابین فتنہ و فساد پیدا ہوتا ہے۔ ان برائیوں کو جڑ سے اکھاڑنے کی کو شش کرنی چاہئے تاکہ مسلمانوں میں صلح صفائی رہے اور لوگ امن و سکون سے زندگی گزار سکیں۔

1- زبان کی حفاظت نہ کرنا:
سیدنا سفیان بن عبداللہ رضی اللہ عنہ نے عرض کیا:
’’یارسول اللہ! مجھے ایسی بات بتلائیے جس کو میں مضبوطی سے پکڑ لوں۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"کہو میرا رب اللہ ہے پھر اس پر جم جاؤ"۔
انہوں نے عرض کیا :یا رسول اللہ سب سے زیادہ خطرے والی چیز کیا ہے؟
آپ نے اپنی زبان پکڑی پھر فرمایا: "یہ زبان"۔
(ترمذی ابواب الزھد باب ماجاء فی حفظ اللسان ۔ح۔۰۱۴۲۔ امام ترمذی نے صحیح کہا ہے)

عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’اے زبان اچھی بات کہو انعام حاصل کرو گی خاموش رہو شرمندہ ہونے سے سلامت رہو گی‘‘۔
(السلسلۃ الصحیحۃ للالبانی۴۳۵)

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"جو شخص مجھے زبان اور شرم گاہ کی حفاظت کی ضمانت دے میں اس کے لئے جنت کی ضمانت دیتا ہوں۔"
(بخاری کتاب الرقاق باب حفظ اللسان)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زبان پکڑی اور فرمایا:
"اس کو قابو میں رکھ"۔
معاذ رضی اللہ عنہ نے عرض کیا:
کیا ہم زبان کے ذریعے جو گفتگو کرتے ہیں اس پر بھی ہماری گرفت ہو گی۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"لوگ اپنی زبان کی وجہ سے جہنم میں جائیں گے۔"
(ترمذی ابواب الایمان باب ماجاء فی حرمۃ الصلاۃ۔ح۔۶۱۶۲۔ امام ترمذی نے حسن صحیح کہا ہے)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
2- غیبت کرنا :

آج لوگوں میں فساد پھیلنے کا اہم سبب غیبت کا جرم ہے۔ غیبت کرنے والے مسلمانوں کی عزت سے کھیلتے ہیں اور مسلمانوں کے درمیان جھگڑا پیدا کر کے معاشرہ میں بد امنی پیدا کر تے اور صلح کروانے کے حکم کی نافرمانی کرتے ہیں۔

غیبت کرنا بھائی کا گوشت کھانا ہے:
انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے انہوں نے کہا کہ عرب سفر کے دوران ایک دوسرے کی خدمت کیا کرتے تھے۔ ابو بکر رضی اللہ عنہ اور عمر رضی اللہ عنہ کے ساتھ ایک آدمی تھا جو انکی خدمت کیا کرتا تھا (ایک مرتبہ) وہ دونوں سو گئے، جب جاگے تو دیکھا ان کے لیے کھانا تیار نہیں کیا ان میں سے ایک نے اپنے ساتھی سے کہا یہ تو تمہارے گھر کی نیند سے مقابلہ کر رہا ہے ان دونوں نے اسے جگایا اور کہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جاؤ اور ان سے کہو عمر اور ابو بکر آپ کو سلام کہہ رہے ہیں اور دونوں آپ سے سالن (کھانا) مانگ رہے ہیں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا"
"ان دونوں کو سلام کہو اور انہیں بتاؤ تم دونوں نے کھانا کھا لیا"
وہ دونوں گھبرا گئے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے، دونوں نے کہا اے اللہ کے رسول! ہم نے اس آدمی کو آپکی طرف کھانا لینے بھیجا تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا کہ ان دونوں نے کھانا کھا لیا ہےِ؟ ہم نے کس چیز سے کھایا؟
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"اپنے بھائی کے گوشت کے ساتھ، اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے میں اس کا گوشت تمہارے دانتوں کے درمیان دیکھ رہا ہوں"
دونوں نے کہا ہمارے لیے بخشش طلب کیجیے
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"وہی شخص تمہارے لیے بخشش طلب کرے گا"۔
(السلسلۃ الصحیحۃ للالبانی ۸۰۶۲)

کسی کی غیبت سننا حرام ہے :
ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک مرد اور ایک عورت کا قصہ بیان کرنے لگی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
"میرے لیے اتنا اور اتنا بھی ہو تو مجھے پسند نہیں کہ میں کسی شخص کے بارے میں کوئی بات کروں"۔
(السلسلۃ الصحیحۃ للالبانی۱۰۹ وسنن ترمذی ۷۳۴۲)

لوگوں نے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے عرض کیا کہ ہم اپنے حکمرانوں کے پاس جاتے ہیں تو ان سے ایسی باتیں کرتے ہیں جو ان باتوں سے مختلف ہوتی ہیں جو ہم ان کے پاس سے باہر نکل کر کرتے ہیں۔ آپ نے فرمایا ہم ایسے روئیے کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں (عملی) نفاق شمار کرتے تھے۔
(بخاری کتاب الاحکام باب مایکرہ من ثناء السلطان)

برے کردار کے حامل کی غیبت:
برے کردار کے حامل کی غیبت کرنا جائز ہے تاکہ وہ لوگوں کے دین و دنیا کا نقصان نہ کر سکے۔
ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ ایک آدمی نے نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم سے اندر آنے کی اجازت طلب کی۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
"اس کو اجازت دے دو۔ یہ اپنے خاندان کا برا آدمی ہے"
پھر وہ شخص آیا آپ اس سے خندہ پیشانی اور تپاک سے ملے۔ جب وہ چلا گیا تو عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے عرض کی کہ آپ برے شخص سے خندہ پیشانی سے کیوں ملے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’اے عائشہ تم نے مجھے بدکلامی کرتے کب دیکھا ہے۔ اللہ کے نزدیک قیامت کے دن سب سے بدتر وہ شخص ہو گا جس کے شر سے بچنے کے لیے لوگ اس سے ملنا بند کر دیں "۔
(بخاری کتاب الادب باب مایجوز من اغتیاب اھل الفساد، مسلم کتاب البر باب مداراۃ من یتقی فحشہ)

شادی کی خواہش رکھنے والوں کو ایک دوسرے کے حالات بتانے کی اجازت ہے:
سیدہ فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ ابو جہم اور معاویہ دونوں نے مجھے نکاح کا پیغام بھیجا ہے۔ میں کیا کروں؟ آپ نے فرمایا:
"معاویہ مفلس آدمی ہے اس کے پاس مال نہیں ہے۔ ابو جہم لاٹھی ہی اپنے کندھے سے نہیں رکھتا ہے"۔ (عورتوں کو مارتا ہے یا کثرت سے سفر کرتا ہے)
(بخاری کتاب النفقات باب نفقۃ المرأۃ اذا غاب عنھا زوجھا، مسلم کتاب الاقضیۃ باب قضیۃ ھند)

مفتی کے پاس مسئلہ پوچھنے کے لئے غیبت کرنا جائز ہے:
ہند زوجہ ابو سفیان رضی اللہ عنہما نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ ابو سفیان بخیل آدمی ہیں۔ وہ مجھے اتنا خرچہ بھی نہیں دیتے کہ مجھے اور میرے بچوں کو کافی ہو جائے۔ کیا میں ان کے علم کے بغیر ان کے مال میں سے کچھ مال لے لوں۔ آپ نے فرمایا :"تم دستور کے مطابق اتنا مال لے لیا کرو جو تمہیں اور تمہارے بچوں کو کافی ہو جائے"۔
(بخاری کتاب النفقات باب نفقۃ المرأۃ اذا غاب عنھا زوجھا، مسلم کتاب الاقضیۃ باب قضیۃ ھند)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
3- غصہ کرنا:

اکثر کمزور لوگ طاقتور سے بدلہ نہیں لے سکتے وہ غیبت کر کے اپنے غصہ کی آگ کو ٹھنڈا کرتے ہیں۔ حالانکہ یہ حرام ہے۔ امیر لوگ غریبوں پر غصے ہوتے ہیں وہ مشتعل ہو کر آپے سے باہر ہوتے ہیں اور بغیر سوچے سمجھے جو منہ میں آئے کہتے جاتے ہیں۔ اس طرح وہ معاشرہ میں بد امنی پیدا کرتے اور مسلمانوں میں جھگڑا پیدا کرتے ہیں۔ غصہ شیطانی حرکت ہے۔

دو آدمی ایک دوسرے کو گالی گلوچ کر رہے تھے۔ ان میں سے ایک کا چہرہ (غصہ سے) سرخ ہو گیا۔ اس کی رگیں پھول گئیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"اگر یہ ’’اَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ ‘‘
’’میں شیطان مردود سے اللہ کی پناہ پکڑتا ہوں‘‘ پڑھ لے تو اس کا غصہ دور ہو جائے گا"۔
(بخاری کتاب الادب باب الحذر من الغضب)

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"اصل طاقت ور پہلوان وہ ہے جو شخص غصہ کے وقت اپنے آپ کو قابو میں رکھے"۔
(بخاری کتاب الادب باب الحذر من الغضب، مسلم کتاب البر باب فضل من یملک نفسہ عند الغضب)

انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’بڑا پہلوان وہ شخص ہے جس پر کسی شخص نے ظلم کیا ہو تو اس نے اپنا غصہ پی لیا اپنے شیطان پر بھی غالب آ گیا اور اپنے ساتھی کے شیطان پر بھی غلبہ حاصل کر لیا"۔
(السلسلۃ الصحیحۃ للالبانی ۵۹۲۳)

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"جو شخص غصہ کو پی جائے جب کہ وہ اسے نافذ کرنے پر قادر بھی ہو تو قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اسے بلائے گا اور اسے کہے گا کہ وہ جس موٹی آنکھوں والی حور کو چاہے اپنے لئے پسند کر لے"۔
(ابوداؤد کتاب البر والصلۃ باب فی مظم الغیط۔ح۔۱۲۰۲ ترمذی) امام ترمذی نے حسن کہا ہے۔)

احکامِ شرعیہ کی بے حرمتی کے وقت غضب ناک ہونا:
یاد رکھئے کہ صرف آپس کے دنیاوی معاملات میں غصہ کرنا نا پسندیدہ ہے۔ جبکہ ایک مومن کو اس وقت غضب ناک ہونا چاہئے جب کوئی اللہ تعالیٰ کے کسی حکم کی نا فرمانی کرے۔ یہ نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت مطہرہ ہے۔ جب آپ اللہ تعالیٰ کی نافرمانی دیکھتے تو غصہ سے آپ کے چہرے کا رنگ بدل جاتا تھا۔
ایک صحابی نے عرض کیا :
"یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فلاں آدمی کی لمبی نماز پڑھانے کی وجہ سے میں صبح کی نماز میں پیچھے رہ جاتا ہوں"۔
آپ کسی وعظ میں اتنا غضبناک نہیں ہوئے جتنا اس دن آپ نے غصہ کا اظہار فرمایا۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"لوگو! تم میں سے بعض لوگ (دوسروں کو دین سے) نفرت دلاتے ہیں امام کو چاہیے کہ اختصار کرے اس کے پیچھے بوڑھے، بچے اور ضرورت مند لوگ ہوتے ہیں"۔
(بخاری کتاب الاذان باب تخفیف الامام فی القیام، مسلم کتاب الصلاۃ باب امرالائمۃ بتخفیف الصلاۃ فی تمام)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک سفر سے واپس آئے۔ ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا نے گھر کے سامنے چبوترے پر ایک پردہ ڈالا ہوا تھا۔ جس میں تصویریں تھیں۔ جب آپ نے اسے دیکھا تو (غصہ سے) آپ کے چہرہ کا رنگ بدل گیا اور فرمایا:
"اے عائشہ قیامت کے دن اللہ کا عذاب سب سے زیادہ ان کو ہو گا جو اللہ کی تخلیق میں مشابہت اختیار کرتے ہیں۔"
(بخاری کتاب اللباس باب ماوطئی من التصاویر، مسلم کتاب اللباس باب لا تدخل الملائکۃ)

آپ نے قبلے کی جانب مسجدکی دیوار پر تھوک دیکھا۔ آپ کو یہ بات بہت ناگوار گزری حتیٰ کہ آپ کی ناراضگی کے آثار آپ کے چہرہ پر نظر آئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اپنے ہاتھوں سے کھرچا اور فرمایا:
"نمازی نماز میں اپنے رب سے سرگوشی کرتا ہے۔ اس کا رب اس کے اور قبلے کے درمیان ہے پس کوئی قبلہ کی طرف نہ تھوکے"۔
(بخاری کتاب الصلاۃ باب حک البزاق بالید من المسجد، مسلم کتاب الصلاۃ باب النھی عن البزاق فی المسجد فی الصلاۃ وغیرھا)
 
Top