• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اسلامی آداب زندگی (سبیل المؤمنین)

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
صدقہ واپس لینا:
سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ میں نے ایک شخص کو اللہ کی راہ میں جہاد کرنے کے لئے ایک گھوڑا دیا۔ اس نے (اس کی دیکھ بھال نہ کر کے) اسے خراب کر دیا۔ میں نے اسے اس سے خریدنے کا ارادہ کیا۔ میرا خیال تھا کہ وہ اسے معمولی سی قیمت پر بیچ دے گا۔ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا تو آپ نے فرمایا:
"اسے نہ خریدو اور اپنا صدقہ واپس نہ لو اگرچہ وہ تمہیں ایک درہم میں دے ۔ صدقہ واپس لینے والا اس کتے کی طرح ہے جو قے کر کے قے کو چاٹ لیتا ہے۔"
(بخاری کتا ب الزکاۃ باب ھل یشتری صدقتہ، مسلم کتاب المساقاۃ باب کراھۃ شراء الانسان ما تصدق)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
سرکاری ملازمین کے لیے تنبیہ:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ
’’کچھ لوگ بیت المال میں ناجائز تصرف کرتے ہیں۔ پس ایسے لوگوں کے لیے قیامت کے دن جہنم کی آگ ہے۔‘‘
(بخاری کتاب فرض الخمس باب (فان للّٰہ خمسہ)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابنِ لبتیہ رضی اللہ عنہ کو زکوٰۃ کی وصولی کے لیے بھیجا۔ جب وہ (زکوٰۃ کا مال لے کر واپس) آیا تو کہنے لگا کہ
’’یہ بیت المال کا حق ہے اور یہ مجھے ہدیہ میں ملی ہوئی چیزیں ہیں۔‘‘
آپ صلی اللہ علیہ وسلم منبر پر کھڑے ہوئے اور اللہ کی حمدو ثنا کے بعد فرمایا:
’’میں تم میں سے کسی کو کسی کام کا عامل مقرر کرتا ہوں اور وہ آکر کہتا ہے کہ یہ تمہارا مال ہے اور یہ مجھے ملا ہوا ہدیہ ہے۔ اگر وہ سچا ہے تو اس کا ہدیہ اسے اس وقت کیوں نہ ملا جب وہ اپنے ماں باپ کے گھر بیٹھا تھا (یعنی وہ ہدیہ نہیں بلکہ سرکاری منصب کا نتیجہ ہے)۔ اللہ کی قسم! تم میں سے کوئی شخص حق کے بغیر کوئی مال لے گا تو قیامت کے دن اسے اٹھائے ہوئے آئے گا۔ پس میں تم میں سے کسی کو نہ دیکھوں کہ وہ اللہ سے ملاقات کے وقت (ناجائز طریقے سے حاصل کردہ) اونٹ کو اٹھائے ہوئے ہو جو بلبلا رہا ہو یا گائے کو جو آواز نکال رہی ہویا بکری کو جو ممیا رہی ہو۔" (اٹھائے ہوئے ہو)
(بخاری۔ح۔۷۹۵۲۔ مسلم کتاب الامارۃ باب تحریم ھدایا العمال)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
شبہ والی چیزوں کو چھوڑنے کا بیان:
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’حلال بھی واضح ہے اور حرام بھی۔ ان کے درمیان بہت سی چیزیں شبہہ والی ہیں۔ پس جو شخص شبہے والی چیزوں سے بچ گیا اس نے اپنے دین کو بچا لیا اور جس نے شبہات کو اختیار کیا وہ حرام میں مبتلا ہو گیا۔‘‘
(بخاری کتاب الایمان باب فضل من استبر الدینہ، مسلم کتاب البیوع باب اخذ الحلال وترک الشبھات)

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’وہ چیز چھوڑ دو جو تمہیں شک میں ڈالے اور اسے اختیار کرو جو تمہیں شک میں نہ ڈالے۔ ‘‘
(ترمذی ابواب الزھدباب اعقلھا وتوکل ۔ح۔۸۱۵۲۔ ابن حبان، حاکم اور ذہبی نے صحیح کہا ہے)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
قسم اور اس کے احکام

لغو قسم کے معاف ہونے کا بیان:
اللہ تعالیٰ نے فرمایا :
لَا يُؤَاخِذُكُمُ اللَّـهُ بِاللَّغْوِ فِي أَيْمَانِكُمْ وَلَـٰكِن يُؤَاخِذُكُم بِمَا عَقَّدتُّمُ الْأَيْمَانَ ۖ ﴿٨٩﴾ المائدہ
’’اللہ تعالیٰ لغو قسموں پر تمہارا مواخذہ نہیں فرماتا بلکہ وہ ان قسموں پر گرفت کرتا ہے جن کو تم مضبوط باندھتے ہو۔‘‘
اُمّ المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا:
"یہ آیت اس آدمی کے بارے میں اتری جو (بات بات پر بغیر ارادہ قسم کے) کہتا ہے اللہ کی قسم۔ اللہ کی قسم۔"
(بخاری کتاب التفسیر سورۃ المائدہ باب (قولہ) ’’لا یؤاخذکم اللہ باللغو فی ایمانکم‘‘)

قسم توڑنے کا کفارہ:
اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
فَكَفَّارَتُهُ إِطْعَامُ عَشَرَةِ مَسَاكِينَ مِنْ أَوْسَطِ مَا تُطْعِمُونَ أَهْلِيكُمْ أَوْ كِسْوَتُهُمْ أَوْ تَحْرِيرُ رَقَبَةٍ ۖ فَمَن لَّمْ يَجِدْ فَصِيَامُ ثَلَاثَةِ أَيَّامٍ ۚ ذَٰلِكَ كَفَّارَةُ أَيْمَانِكُمْ إِذَا حَلَفْتُمْ ۚ وَاحْفَظُوا أَيْمَانَكُمْ ۚ كَذَٰلِكَ يُبَيِّنُ اللَّـهُ لَكُمْ آيَاتِهِ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ ﴿٨٩﴾ المائدہ
’’(قسم توڑنے کا) کفارہ دس مسکینوں کو درمیانی درجے کا کھانا کھلانا ہے جو تم اپنے گھر والوں کو کھلاتے ہو یا ان کو کپڑے پہنانا ہے یا غلام آزاد کرنا ہے پس جو اس کی طاقت نہ رکھے تو وہ تین روزے رکھے یہ تمہاری قسموں کا کفارہ ہے۔ جب تم قسم اٹھاؤ تو اپنی قسموں کی حفاظت کرو۔ (یعنی انہیں پورا کرو)۔‘‘

قسم توڑنے کا حکم:
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"جو شخص کسی کام پر قسم کھائے پھر اس کام میں (جس کے نہ کرنے کی اس نے قسم کھائی تھی) بہتری دیکھے تو وہ اپنی قسم کا کفارہ ادا کرے اور وہ کام کرے جو بہتر ہے۔"
(بخاری کتاب الایمان والنذور، باب قول اللّٰہ تعالٰی لا یواخذکم اللّٰہ باللغو، مسلم کتاب الایمان باب ندب من حلف یمینا فرای غیرھا خیرا منھا)

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"بے شک میں اللہ کی قسم، اگر اللہ نے چاہا، کسی کام پر حلف نہیں اٹھاؤں گا، پھر میں اس سے زیادہ بہتر صورت دیکھوں تو میں ضرور اپنی قسم کا کفارہ ادا کروں گا۔ اور وہ کام اختیار کروں گا جو بہتر ہے۔"
(بخاری کتاب فرض الخمس باب ومن الدلیل علی ان الخمیس لنوائب المسلمین)

اللہ کی اطاعت کی نذر:
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"جو شخص اللہ کی اطاعت کی نذر مانے تو اسے اللہ کی اطاعت کرنی چاہیے اور جو شخص اللہ کی نافرمانی کی نذر مانے تو وہ اس کی نافرمانی نہ کرے۔"
(بخاری کتاب الایمان والنذور باب النذر فی الطاعۃ)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
اللہ کے پسندیدہ کام

1- نیکیوں کی طرف جلدی کرنا:
اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
فَاسْتَبِقُوا الْخَيْرَاتِ ۚ ﴿١٤٨﴾ البقرہ
’’پس نیکیوں کی طرف جلدی کرو۔‘‘

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’ہر نیکی صدقہ ہے۔‘‘
(بخاری کتاب الادب باب کل معروف صدقۃ، مسلم:کتاب الزکوۃ باب ان اسم الصدقۃ یقع علی کل نوع من المعروف)

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ میں عصر کی نماز پڑھائی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سلام پھیرا اور تیزی کے ساتھ اٹھ کھڑے ہوئے اور لوگوں کی گردنیں پھلانگتے ہوئے اپنی بیوی کے حجرے میں تشریف لے گئے۔ لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی جلدی سے گھبرا گئے۔ تھوڑی دیر بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم باہر تشریف لائے اور فرمایا:
’’مجھے (نماز کی حالت میں) یاد آیا کہ ہمارے پاس سونے کی ایک ڈلی رہ گئی تھی۔ مجھے یہ بات اچھی نہیں لگی کہ وہ مجھے اللہ کی یاد سے روکے۔ سو میں نے اس کو تقسیم کر دینے کا حکم دیا۔‘‘
(بخاری الاذان باب من صلی بالناس فذکر حاجۃ فتخطاھم)

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ
’’صحت اور فرصت دو ایسی نعمتیں ہیں کہ اکثر لوگ ان کے غلط استعمال کی وجہ سے خسارے اور گھاٹے میں رہتے ہیں۔‘‘
(بخاری کتاب الرقاق باب الصحۃ والفراغ ولاعیش الاعیش الاخرۃ)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
2- گناہوں سے رکنا :
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ
"جہنم کو شہوات نفسانی کے ساتھ ڈھانپ دیا گیا ہے اور جنت کو گراں گزرنے والے ناگوار کاموں سے ڈھانپ دیا گیا ہے۔
(بخاری کتاب الرقاق باب حجبت النار بالشھوات، مسلم اوائل کتاب الجنۃ وصفۃ نعیمھا واھلھا)

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"اللہ تعالیٰ کو غیرت آتی ہے (اللہ غضب ناک ہوتا ہے) اور اللہ کی غیرت یہ ہے کہ آدمی وہ کام کرے جو اللہ نے اس کے لئے حرام کئے ہیں۔"
(بخاری کتاب النکاح باب الغیرۃ، مسلم کتاب التوبہ باب غیرۃ اللّٰہ)

سھل بن سعد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’چھوٹے چھوٹے گناہوں سے بچو کہ جس کی مثال اس طرح ہے کہ کچھ لوگوں نے ایک وادی میں پڑاؤ ڈالا اور چھوٹی چھوٹی لکڑیاں اکٹھی کیں۔ لکڑیاں جمع کر کے روٹیاں پکا لیں اس طرح جب گناہ کر نے والا چھوٹے چھوٹے گناہ کرتا ہے تو وہ گناہ اسے ہلاک کر دیتے ہیں ۔‘‘
(مسند احمد:۲۴۷۱۲)

عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"جب تم ان بندوں کو دیکھو جنہیں اللہ گناہوں کے باوجود دنیا میں اپنی نعمتیں دے رہا ہے تو سمجھ لو کہ اللہ ان سے محبت نہیں کرتا بلکہ یہ ان کے لیے ڈھیل ہے" (اللہ ان کو اچانک پکڑ لے گا)۔
(السلسلۃ الصحیحۃ للالبانی:۳۱۴)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
3- اللہ کے لیے اپنے نفس سے جہاد :
علاء بن زیاد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے عبد اللہ بن عمر وبن عاص رضی اللہ عنہ سے سوال کیا کہ اسلام کے لحاظ سے افضل مومن کون ہے؟
انہوں نے کہ: اسلام کے لحاظ سے افضل مومن وہ ہے جس کے ہاتھ اور زبان سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں، اور افضل جہاد اللہ کے لیے اپنے نفس سے جہاد کرنا ہے اور افضل مہاجر وہ ہے جس نے اللہ کے لیے اپنے گناہوں کو چھوڑ دیا۔ اس آدمی نے کہا:
اے عبد اللہ یہ بات آپ نے کہی ہے یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہی ہے۔
عبد اللہ رضی اللہ عنہ نے کہا:
" بلکہ رسول للہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات کہی ہے۔"
(السلسلۃ الصحیحۃ للالبانی۱۹۴۱)
انسان کا نفس عمارہ شر پسند ہے وہ نیکیوں سے دور بھاگتا اور خواہشات کی رو میں بہتا ہے۔ ایک مومن کا افضل جہاد یہ ہے کہ وہ اپنے نفس کو اللہ تعالیٰ کی اطاعت پر مجبور کرے اور اسے نفس مطمئنہ بنائے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
4- فتنے کے خوف سے جائز کام کا چھوڑنا :
ایک دن نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"اے عائشہ تمہاری قوم ابھی کفر سے نئی نئی نکلی ہے۔ مجھے اندیشہ ہے کہ ان کو کعبہ گرانا بہت برا معلوم ہو گا اگر ایسا نہ ہوتا تو میں کعبہ کو گرا کر ابراہیم علیہ السلام کی بنیادوں پر اس کو از سر نو تعمیر کرتا۔"
(مسلم کتاب الحج باب نقض الکعبۃ)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
5- فتنے کے خوف سے گوشہ نشینی:
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"عنقریب وہ وقت آئے گا کہ مسلمانوں کا بہترین مال وہ بکریاں ہوں گی جن کو لے کر وہ پہاڑوں کی چوٹیوں اور بارش کی جگہوں پر چلا جائے گا۔ شہروں سے اس کا یہ فرار اپنے دین کو فتنوں سے بچانے کے لئے ہو گا۔"
(بخاری کتاب الایمان باب من الدین الفرارمن الفتن)

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"لوگوں میں سب سے بہتر زندگی اس شخص کی ہے جو اللہ کے راستے میں اپنے گھوڑے کی لگام تھامے ہوئے ہے۔ اس کی پیٹھ پر سوار ہو کر تیزی سے ادھر ادھر جاتا ہے۔ جب بھی کوئی دھماکہ یا گھبراہٹ کی آواز سنتا ہے تو تیزی سے وہاں پہنچتا ہے۔ قتل ہو جانے یا موت کے مقامات کو تلاش کرتا ہے۔ یا وہ شخص لوگوں میں بہتر حالت میں ہے۔ جو تھوڑی سی بکریوں کے ساتھ پہاڑ کی چوٹی پر یا کسی وادی میں رہتا ہے۔ نماز قائم کرتا، زکوۃ ادا کرتا ہے اور اپنے رب کی عبادت کرتا ہے حتیٰ کہ اسے موت آجاتی ہے۔ ایک روایت میں ہے۔ وہ اللہ سے ڈرتا اور لوگوں کو اپنے شر سے محفوظ رکھتا ہے۔"
(بخاری کتاب الجہاد باب افضل الناس مومن یجاھد بنفسہ ومالہ فی سبیل اللّٰہ، مسلم کتاب الایمان باب فضل الجہاد والرباط)
معلوم ہوا کہ جب لوگوں کے اخلاق و کردار اتنے بگڑ جائیں کہ لوگوں کے اندر رہتے ہوئے دین کو بچانا ممکن نہ رہے تو اپنے دین کی حفاظت کے لیے پہاڑوں اور جنگلوں میں نکلنا جائز ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
6- بھلائی کے کاموں پر پابندی کرنا:
رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ سے فرمایا:
’’اے عبداللہ! تم فلاں شخص کی طرح مت ہو جانا۔ وہ رات کو اٹھ کر اللہ کی عبادت کرتا تھا۔ پھر اس نے رات کو اٹھنا چھوڑ دیا۔‘‘
(بخاری کتاب التھجد باب مایکرہ من ترک قیام اللیل، مسلم کتاب الصیام باب النھی عن صوم الدھر لمن تضرر بہ او فوت بہ حقا)

اعمال کا دار و مدار آخری عمل پر ہے :
جنگ خیبر میں ایک شخص بڑی بہادری سے لڑ رہا تھا۔ کسی نے اس کی تعریف کی۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"یہ شخص دوزخی ہے۔"
ایک صحابی نے اس کا پیچھا شروع کیا۔ آخر کار وہ لڑتے لڑتے بہت زخمی ہو گیا۔ اس نے اپنی تلوار زمین پر رکھی اور اس کی تیز نوک کو اپنے سینے پر رکھا اور خود کشی کر لی۔ اس صحابی رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ کو یہ واقعہ سنایا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"بعض آدمی لوگوں کی نگاہ میں جنتیوں جیسے عمل کرتے ہیں حالانکہ وہ دوزخی ہوتے ہیں۔ اور بے شک بعض لوگ دوزخیوں جیسے عمل کرتے ہیں حالانکہ درحقیقت وہ جنتی ہوتے ہیں۔ بے شک تمام اعمال کا دار و مدار خاتمہ پر ہے۔ پھر آپ نے بلال کو حکم دیا کہ اعلان کر دو کہ جنت میں سوائے مسلم کے کوئی نہیں جائے گا اور بے شک اللہ تعالیٰ اپنے دین کی مدد فاجر آدمی سے بھی لے لیتا ہے۔"
(بخاری کتاب المغازی باب غزوۃ خیبر، مسلم کتاب الایمان باب بیان غلظ تحریم قتل الانسان نفسہ)
 
Top