• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اسلامی آداب زندگی (سبیل المؤمنین)

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
10- مشیت صرف اللہ تعالیٰ کی

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’اس طرح نہ کہو جو اللہ تعالیٰ چاہے اور فلاں چاہے بلکہ یہ کہو کہ جو اللہ تعالیٰ چاہے اور پھر فلاں چاہے۔‘‘ (ابو داؤد: کتاب الادب باب لایقال خبث نفسی۔ ح۔۰۸۹۴: امام نووی نے صحیح کہا ہے۔)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ادب کا بیان
ہر مسلم پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا پوری طرح ادب ملحوظ رکھنا فرض ہے۔ مخلوق میں سب سے بڑھ کر آپ سے محبت کرنا ایمان کا اہم ترین تقاضا ہے۔ ایمان بالرسول صلی اللہ علیہ وسلم کے چند تقاضے درج ذیل ہیں ۔

1- حبِّ رسول صلی اللہ علیہ وسلم
اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
قُلْ إِن كَانَ آبَاؤُكُمْ وَأَبْنَاؤُكُمْ وَإِخْوَانُكُمْ وَأَزْوَاجُكُمْ وَعَشِيرَتُكُمْ وَأَمْوَالٌ اقْتَرَفْتُمُوهَا وَتِجَارَةٌ تَخْشَوْنَ كَسَادَهَا وَمَسَاكِنُ تَرْضَوْنَهَا أَحَبَّ إِلَيْكُم مِّنَ اللَّـهِ وَرَسُولِهِ وَجِهَادٍ فِي سَبِيلِهِ فَتَرَبَّصُوا حَتَّىٰ يَأْتِيَ اللَّـهُ بِأَمْرِهِ ۗ وَاللَّـهُ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الْفَاسِقِينَ ﴿٢٤﴾ التوبہ
’’کہہ دیجیے کہ اگر تمہارے باپ، اولاد، بھائی، بیویاں، کنبہ و قبیلہ، کمایا ہوا مال، وہ تجارت جس کی کمی سے تم ڈرتے ہو اور تمہارے پسندیدہ مکانات تمہیں اللہ، اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور اس کی راہ میں جہاد کرنے سے زیادہ محبوب ہیں تو تم اللہ کے حکم (عذاب) کے آنے کا انتظار کرو۔ ‘‘
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’جس میں یہ تین باتیں ہوں گی وہ ایمان کی حلاوت پائے گا۔
۱: اللہ تعالیٰ اور اس کا رسول صلی اللہ علیہ وسلم سب سے زیادہ محبوب ہو۔
۲: کسی آدمی سے صرف اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے محبت کرتا ہو۔
۳: کفر سے نجات پانے کے بعد اس میں واپسی اتنا ہی ناپسند ہو جتنا آگ میں گرنا۔ (بخاری: کتاب الایمان)

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
’’اس ذات کی قسم جس کے قبضہ میں میری جان ہے تم اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتے جب تک میں تمہیں تمہاری اولاد، تمہارے والدین اور تمام لوگوں سے زیادہ محبوب نہ ہو جاؤں۔‘‘ (بخاری: کتاب الایمان)

سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے ایک بار عرض کیا کہ ’’اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم! آپ مجھے اپنی جان کے علاوہ سب سے زیادہ عزیز ہیں ۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
’’نہیں اے عمر! (ایمان یہ ہے کہ) تیری جان سے بھی زیادہ میں تجھے محبوب ہو جاؤں ۔‘‘
عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا
"یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! آپ مجھے میری جان سے بھی زیادہ محبوب ہو گئے ہیں ۔‘‘
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ہاں اے عمر!‘‘ (بخاری: کتاب الایمان)

ایک دیہاتی نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا: ’’قیامت کب آئے گی؟‘‘
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
’’تو نے اس کے لیے کیا تیاری کی ہے؟‘‘
اس نے کہا: ’’کچھ نہیں سوائے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت ‘‘
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
’’تو ان ہی کے ساتھ ہو گا جن سے تو نے محبت رکھی، صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین کہنے لگے کیا ہم بھی اسی طرح ساتھ ہونگے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین اتنا کسی اور بات سے خوش نہیں ہوئے جتنا اس بات کو سن کر ہوئے۔‘‘ (بخاری: کتاب المناقب)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
2- تعظیم رسول و نصرتِ رسول

اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
إِنَّا أَرْسَلْنَاكَ شَاهِدًا وَمُبَشِّرًا وَنَذِيرًا ﴿٨﴾ لِّتُؤْمِنُوا بِاللَّـهِ وَرَسُولِهِ وَتُعَزِّرُوهُ وَتُوَقِّرُوهُ ۔۔ ﴿٩﴾ الفتح
’’ہم نے آپ کو شہادت دینے والا، خوش خبری سنانے والا اور ڈرانے والا بنا کر بھیجا ہے تاکہ (اے مسلمانوں)! تم اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ، اور اس کی مدد کرو اور اس کا ادب کرو۔‘‘
لَا تُقَدِّمُوا بَيْنَ يَدَيِ اللَّـهِ وَرَسُولِهِ ۔۔ ﴿١﴾الحجرات
’’اے ایمان والو! اللہ اور اس کے رسول سے آگے مت بڑھو۔‘‘
لَّا تَجْعَلُوا دُعَاءَ الرَّسُولِ بَيْنَكُمْ كَدُعَاءِ بَعْضِكُم بَعْضًا ۔۔ ﴿٦٣﴾ النور
’’رسول کے بلانے کو اس طرح خیال نہ کرو جس طرح تم آپس میں ایک دوسرے کو بلاتے ہو۔‘‘

بارگاہِ نبوت کی بے ادبی تمام اعمال کو غارت کر دیتی ہے اور یہ بے ادبی صریح کفر ہے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کی تعظیم جس طرح کرتے تھے، عروہ بن مسعود ثقفی قریشِ مکہ کے سامنے یوں بیان کرتا ہے
’’اے میری قوم! اللہ کی قسم میں قیصر و قصریٰ اور نجاشی جیسے بادشاہوں کے پاس جا چکا ہوں۔ واللہ میں نے کسی بادشاہ کو نہیں دیکھا کہ اس کے ساتھی اس کی اتنی تعظیم کرتے ہوں جتنی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی تعظیم کرتے ہیں ۔ اللہ کی قسم وہ صلی اللہ علیہ وسلم کھنکار بھی تھوکتے تھے تو کسی نہ کسی آدمی کے ہاتھ پر پڑتا تھا اور وہ شخص اسے اپنے چہرے اور جسم پر مل لیتا تھا ۔ اور جب وہ حکم دیتے تھے تو اس کی بجا آوری کے لیے سب دوڑ پڑتے تھے۔اور جب وہ وضو کرتے تھے تو معلوم ہوتا تھا کہ ان کے وضو کے پانی کے لیے لوگ لڑ پڑیں گے۔ اور جب وہ کوئی بات کرتے تھے تو سب اپنی آوازیں پست کر لیتے تھے اور فرطِ تعظیم کی بنا پر انہیں بھرپور نظر سے دیکھتے نہ تھے۔‘‘ (بخاری: کتاب الشروط)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب مدینہ آئے تو ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ کے مکان پر قیام کیا۔ آپ نیچے کی منزل میں رہے اور ابو ایوب اوپر کی منزل میں رہا کرتے تھے۔ ایک رات انہیں خیال آیا کہ ہم رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے سر پر چلتے پھرتے ہیں یہ خیال آتے ہی وہ ایک کونہ میں ہو گئے اور وہیں رات گزار دی، پھر انہوں نے اس کا ذکر آپ سے کیا۔ آپ نے فرمایا نیچے سہولت ہے ۔ابو ایوب نے عرض کیا میں اس چھت پر نہیں رہ سکتا۔جس کے نیچے آپ ہوں، الغرض وہ نیچے آگئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اوپر چلے گئے۔ (مسلم: کتاب الاشربہ)
اس تعظیمِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ (تعزروہ) اللہ تعالیٰ کے دین کے غلبہ کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مدد کرنا ایمان بالرسول صلی اللہ علیہ وسلم میں داخل ہے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے تذکرے کے وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے نام کی جلالت اور توقیر کا خیال رکھنا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے نام کے ساتھ صلی اللہ علیہ وسلم کہنا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عادات و صفات کو عالیہ (بڑا) جاننا ضروری ہے اور دین و دنیا کی جس بات کی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خبر دی، اس کی تصدیق اور اس پر عمل کے ساتھ ان طریقوں کے احیا کی کو شش کرنا‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیغام کو پوری دنیا میں پھیلانا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ادب میں داخل ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
3- رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے تبرک حاصل کرنا

سیدنا جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک دن میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھا۔آپ کے سامنے کچھ بچے آگئے، آپ نے ہر بچہ کے رخسار پر اپنا ہاتھ پھیرا اور میرے رخسار پر بھی ہاتھ پھیرا۔ آپ کا ہاتھ ٹھنڈا اور خوشبودار تھا۔ (مسلم: کتاب الفضائل)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم انس رضی اللہ عنہ کے ہاں جا کر قیلولہ فرمایا کرتے تھے ۔ ایک دن آپ نے قیلولہ فرمایا آپ کو کثرت سے پسینہ آیا کرتاتھا۔ آپ چمڑے کے ایک ٹکڑے پر لیٹے ہوئے تھے۔ انس رضی اللہ عنہ کی والدہ ام سلیم رضی اللہ عنہا شیشی میں آپ کا پسینہ جمع کرنے لگیں۔ آپ کی آنکھ کھل گئی آپ نے پوچھا یہ تم کیا کر رہی ہو؟ انہوں نے عرض کیا یہ آپ کا پسینہ ہے اس کو ہم اپنی خوشبو میں ملا لیتے ہیں کیونکہ یہ تمام عطروں سے زیادہ خوشبودار ہوتا ہے۔ (مسلم: کتاب الفضائل)

نماز فجر پڑھ کر جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لوٹتے تو مدینہ منورہ کے خادم اپنے برتنوں میں پانی لے کر آپ کی خدمت بابرکت میں حاضر ہوتے۔ آپ ان برتنوں میں اپنا ہاتھ ڈبو دیتے حتی کہ سخت سردی کے دنوں میں بھی آپ اپنا ہاتھ ڈبویا کرتے تھے ۔ (مسلم: کتاب الفضائل)

سیدنا عثمان بن عبد اللہ بن موہب روایت کرتے ہیں کہ مجھ کو میرے گھر والوں نے پانی کا ایک پیالہ دے کر ام سلمہ رضی اللہ عنہا کی طرف بھیجا۔ جب کسی کو نظر لگ جاتی یا کوئی تکلیف ہوتی وہ بڑا پیالہ ان کی طرف بھیجتا۔ ام سلمہ رضی اللہ عنہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بال نکالتیں ۔ جسے انہوں نے چاندی کی ڈبی میں رکھا ہوا تھا۔اور پیالے میں اس کو ہلاتیں وہ اسے پی لیتا۔ میں نے ڈبی میں جھانک کر دیکھا تو اس میں چند ایک سرخ بال تھے۔ (بخاری: کتاب اللباس)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
4- نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم پر درود پڑھنا

اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
إِنَّ اللَّـهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ ۚ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًا ﴿٥٦﴾ الاحزاب
’’بے شک اللہ تعالیٰ اور اس کے فرشتے نبی پر درود بھیجتے ہیں۔ اے ایمان والو! تم بھی ان پر درود و سلام بھیجو۔‘‘

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’جو شخص مجھ پر ایک مرتبہ درود بھیجتا ہے، اللہ تعالیٰ اس پر دس رحمتیں نازل فرماتا ہے۔‘‘ (مسلم: کتاب الصلوۃ)

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’بخیل وہ ہے جس کے سامنے میرا ذکر کیا جائے اور وہ مجھ پر درود نہ پڑھے۔‘‘ (ترمذی: ابواب الدعوات۔ امام نووی، حاکم اور ذہبی نے صحیح کہا)

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’تم میری قبر کو عید مت بناؤ اور مجھ پر درود پڑھو۔ اس لیے کہ تم جہاں کہیں بھی ہو، تمہارا درود مجھ تک پہنچایا جاتا ہے۔ (ابوداود: المناسک باب زیارۃ القبور۔ امام نووی نے صحیح کہا ہے۔)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک آدمی کو نماز میں دعا مانگتے ہوئے سنا۔ اس نے نہ اللہ تعالیٰ کی حمد بیان کی، نہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر درود پڑھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’اس نے جلد بازی کی۔‘‘ پھر اسے بلایا اور فرمایا: ’’جب تم نماز پڑھو تو پہلے اپنے رب کی حمد و ثنا بیان کرو۔ پھر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود پڑھو۔ پھر جو چاہو مانگو۔‘‘ (ابوداود: کتاب الصلوۃ۔ امام ترمذی، حاکم، ذھبی اور ابن حبان نے صحیح کہا ہے)

صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ
’’یا رسول اللہ! اللہ نے ہمیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر درود پڑھنے کا حکم دیا ہے۔ ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر کیسے درود پڑھیں؟‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اس طرح پڑھو۔
اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ، وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ، كَمَا صَلَّيْتَ عَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ، اللَّهُمَّ بَارِكْ عَلَى مُحَمَّدٍ، وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ، كَمَا بَارَكْتَ عَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ
’’اے اللہ! محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور آلِ محمد پر رحمت نازل فرما جس طرح تو نے ابراہیم اور آلِ ابراہیم پر رحمت نازل کی ہے۔ بے شک تو تعریف کے لائق اور بزرگی والا ہے۔ اے اللہ! محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور آلِ محمد پر برکت نازل فرما جس طرح تو نے ابراہیم اور آلِ ابراہیم پر برکت نازل کی ہے۔بے شک تو تعریف کے لائق اور بزرگی والا ہے۔‘‘ (بخاری: کتاب الدعوات)

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام سے فرمایا
’’یہ درود پڑھو:
اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَأَزْوَاجِهِ وَذُرِّيَّتِهِ كَمَا صَلَّيْتَ عَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ، وَبَارِكْ عَلَى مُحَمَّدٍ وَأَزْوَاجِهِ وَذُرِّيَّتِهِ كَمَا بَارَكْتَ عَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ
’’اے اللہ! محمد صلی اللہ علیہ وسلم، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویوں اور اولاد پر رحمت نازل فرما جس طرح تو نے ابراہیم کی آل پر رحمت نازل فرمائی اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم، آپ کی بیویوں اور اولاد پر برکت نازل فرما جس طرح تو نے ابراہیم کی آل پر برکت نازل کی ہے۔ بے شک تو تعریف کے قابل اور بزرگی والا ہے۔‘‘ (بخاری: کتاب احادیث الانبیاء)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
5- اطاعتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم

آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لائے ہوئے دین اسلام کو دنیا و آخرت میں کامیابی کا واحد ذریعہ جاننا اور تمام دیگر ادیان کو ادیان باطلہ جاننا اور پھر ہر معاملے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کرنا ایمان بالرسول کا اہم ترین تقاضا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
وَمَا أَرْسَلْنَا مِن رَّسُولٍ إِلَّا لِيُطَاعَ بِإِذْنِ اللَّـهِ ۔۔ ﴿٦٤﴾ النساء
’’اور ہم نے رسول کو اس لیے بھیجا کہ اللہ کے حکم سے اس کی اطاعت کی جائے۔‘‘
اس لیے قرآنِ حکیم میں:
أَطِيعُوا اللَّـهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ کا بار بار ذکر ہے۔
بلکہ اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ کی اطاعت کو اپنی اطاعت کہا ہے۔
مَّن يُطِعِ الرَّسُولَ فَقَدْ أَطَاعَ اللَّـهَ ۔۔ ﴿٨٠﴾ النساء
’’جس نے رسول کی اطاعت کی اس نے اللہ کی اطاعت کی۔‘‘
وجہ واضح ہے کہ رسول دین کے معاملہ میں اپنی طرف سے کوئی بات نہیں کہتے۔
وَمَا يَنطِقُ عَنِ الْهَوَىٰ ﴿٣﴾ إِنْ هُوَ إِلَّا وَحْيٌ يُوحَىٰ ﴿٤﴾ النجم
’’اور وہ اپنی خواہش سے نہیں بولتے یہ تو وحی ہے جو اس کی طرف کی گئی ہے ۔‘‘
اسی لیے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو ہر معاملہ میں حاکم بنایا گیا۔ فرمایا:
فَلَا وَرَبِّكَ لَا يُؤْمِنُونَ حَتَّىٰ يُحَكِّمُوكَ فِيمَا شَجَرَ بَيْنَهُمْ ثُمَّ لَا يَجِدُوا فِي أَنفُسِهِمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَيْتَ وَيُسَلِّمُوا تَسْلِيمًا ﴿٦٥﴾ النساء
’’تیرے رب کی قسم! کوئی شخص اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتا جب تک کہ وہ اپنے تنازعات میں آپ کو حَکَمْ تسلیم نہ کرے۔ پھر آپ کے فیصلے سے دل میں کوئی تنگی بھی محسوس نہ کرے بلکہ سرِ تسلیم خم کرے۔‘‘
اللہ تعالیٰ کی خوشنودی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت میں ہے۔ فرمایا:
قُلْ إِن كُنتُمْ تُحِبُّونَ اللَّـهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللَّـهُ ۔۔﴿٣١﴾ آل عمران
’’اے نبی! کہہ دو اگر تم اللہ سے محبت کرتے ہو تو میری اتباع کرو۔ اللہ تعالیٰ بھی تم سے محبت کرے گا۔‘‘
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے فیصلے کے بعد کسی کو انکار کرنے کا کوئی اختیار باقی نہیں رہتا۔
وَمَا كَانَ لِمُؤْمِنٍ وَلَا مُؤْمِنَةٍ إِذَا قَضَى اللَّـهُ وَرَسُولُهُ أَمْرًا أَن يَكُونَ لَهُمُ الْخِيَرَةُ مِنْ أَمْرِهِمْ ۗ وَمَن يَعْصِ اللَّـهَ وَرَسُولَهُ فَقَدْ ضَلَّ ضَلَالًا مُّبِينًا ﴿٣٦﴾ الاحزاب
’’کسی مومن مرد اور عورت کو یہ حق نہیں ہے کہ جب اللہ اور اس کا رسول کسی معاملے کا فیصلہ کر دے پھر اس معاملے میں اس کی کوئی ذاتی رائے یا اختیار رہے۔ جو اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کرتا ہے وہ صریح گمراہی میں ہے۔‘‘
اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت میں کامیابی ہے۔
وَمَن يُطِعِ اللَّـهَ وَرَسُولَهُ فَقَدْ فَازَ فَوْزًا عَظِيمًا ﴿٧١﴾ الاحزاب
’’اور جو شخص اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرتا ہے پس اس نے بڑی کامیابی حاصل کی۔‘‘

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میری تمام امت جنت میں جائے گی سوائے اس کے جس نے انکار کیا۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین نے پوچھا اے اللہ کے رسول کون انکار کرے گا ۔ آپ نے فرمایا جس نے میری اطاعت کی جنت میں داخل ہوگا اور جس نے میری نافرمانی کی اس نے انکار کیا۔ (بخاری: کتاب الاعتصام بالکتاب والسنہ)
اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت نہ کرنے والے ہی ناکام ہیں۔
يَوْمَ تُقَلَّبُ وُجُوهُهُمْ فِي النَّارِ يَقُولُونَ يَا لَيْتَنَا أَطَعْنَا اللَّـهَ وَأَطَعْنَا الرَّسُولَا ﴿٦٦﴾ الاحزاب
’’جس دن ہم ان لوگوں کے چہرے جہنم کی آگ میں الٹ پلٹ کریں گے تو وہ کہیں گے اے کاش! ہم اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی اطاعت کرتے۔‘‘
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
6- کامیابی صرف سنت کی پیروی میں ہے

تین صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج کے گھر آئے اور آپ کی عبادت کا حال پوچھا۔ جب ان کو بتلایا گیا تو انہوں نے اسے کم سمجھا اور کہا ہمارا اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا کیا مقابلہ۔ ان کے تو اگلے پچھلے تمام گناہ معاف کر دئیے گئے ہیں۔ ان میں سے ایک نے کہا میں ہمیشہ روزہ رکھوں گا کبھی ناغہ نہیں کروں گا۔ دوسرے نے کہا میں ساری رات نماز پڑھا کروں گا۔ تیسرے نے کہا میں عورتوں سے کنارہ کش رہوں گا۔ کبھی نکاح نہیں کروں گا۔ آپ ان کے پاس تشریف لائے اور ان سے پوچھا تم نے اس اس طرح کہا ہے۔ خبردار اللہ کی قسم میں تم میں سب سے زیادہ اللہ سے ڈرنے والا، اس کا سب سے زیادہ خوف دل میں رکھنے والا ہوں۔ میں روزے بھی رکھتا ہوں اور سوتا بھی ہوں۔ عورتوں سے شادی بھی کرتا ہوں۔ پس جس نے میری سنت سے اعراض کیا وہ مجھ میں سے نہیں۔ (بخاری: کتاب النکاح)

رمضان کے مہینے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دس ہزار صحابہ کے ساتھ مدینہ منورہ سے مکہ معظمہ روانہ ہوئے ۔ دوران سفر آپ اور بعض صحابہ روزہ رکھے ہوئے تھے۔ بعض صحابہ کا روزہ نہیں تھا۔ جب آپ کدید کے چشمے پر(جو قدید اور عسفان کے درمیان ہے) پہنچے تو آپ نے عصر کے بعد دودھ یا پانی کا گلاس منگوایا اور سواری پر بیٹھے روزہ افطار کر لیا۔ جب لوگوں نے آپ کو افطار کرتے دیکھا تو سوائے چند کے سب نے افطار کیا۔ جن لوگوں نے افطار نہیں کیا تھا۔ ان کے متعلق آپ نے فرمایا یہ گنہگار ہیں۔ (بخاری: کتاب المغازی)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
والدین کے حقوق

والدین کے ساتھ اچھا برتاؤ اور حسن سلوک کرنے کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے، چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے ۔
وَقَضَىٰ رَبُّكَ أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا ۚ إِمَّا يَبْلُغَنَّ عِندَكَ الْكِبَرَ أَحَدُهُمَا أَوْ كِلَاهُمَا فَلَا تَقُل لَّهُمَا أُفٍّ وَلَا تَنْهَرْهُمَا وَقُل لَّهُمَا قَوْلًا كَرِيمًا ﴿٢٣﴾ سورة الاسراء
’’آپ کے رب نے فیصلہ کر دیا ہے کہ تم اس کے علاوہ کسی اور کی عبادت نہ کرو اور والدین کے ساتھ بہتر سلوک کرو اگر ان میں سے کوئی ایک یا دونوں تمہارے سامنے بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو تم انہیں"اُف" تک نہ کہو اور نہ ہی انہیں جھڑکو اور ان سے ادب سے بات کرو اور ان پر رحم کرتے ہوئے انکساری سے ان کے آگے جھکے رہو اور دعا کرو کہ اے میرے رب ان پر رحم فرما جس طرح انہوں نے بچپن میں مجھے پالا تھا۔‘‘
لہٰذا ایک مسلمان کو چاہئے کہ وہ والدین کی عزت کرے ان کے ساتھ ادب کے ساتھ پیش آئے۔ بیوی اور اولاد کو ان پر فوقیت نہ دے۔ انہیں اچھا کھانا کھلائے۔ بیمار ہو جائیں تو ان کا علاج کروائے اور اگر فوت ہو جائیں تو ان کے لیے مغفرت کی دعا کرے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
1- والدین کے ساتھ حسنِ سلوک کرنا

نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم نے تین بار فرمایا
’’اس کا ناک خاک آلود ہو جس نے بڑھاپے میں اپنے والدین میں سے ایک یا دونوں کو پایا پھر (ان کی خدمت کر کے) جنت میں نہ گیا۔‘‘ (مسلم: کتاب البر والصلۃ)

ایک صحابی نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا: ’’اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم! میرے حسنِ سلوک کا سب سے زیادہ مستحق کون ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’تیری ماں‘‘
اس نے کہا: ’’پھر کون؟‘‘
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’تیری ماں‘‘
اس نے کہا: ’’پھر کون؟‘‘
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’تیری ماں‘‘
اس نے کہا:’’پھر کون؟‘‘
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’تیرا باپ۔ پھر جوتمہارے سب سے زیادہ قریب ہو۔ ‘‘ (بخاری: کتاب الادب)

سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا ’’اللہ کو کونسا عمل زیادہ محبوب ہے؟‘‘
آپ نے فرمایا: ’’وقت پر نماز پڑھنا۔‘‘
پوچھا: ’’پھر کونسا؟‘‘
آپ نے فرمایا: ’’والدین کے ساتھ حسنِ سلوک ۔‘‘
پوچھا: ’’پھر کونسا؟‘‘
فرمایا: ’’اللہ کے راستے میں جہاد کرنا۔‘‘ (بخاری: کتاب المواقیت)

ایک صحابی نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا:
’’میں آپ سے ہجرت اورجہاد پر بیعت کرتا ہوں، اور اللہ تعالیٰ سے اجرکا طالب ہوں۔‘‘
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ’’کیا تیرے ماں باپ زندہ ہیں؟‘‘
اس نے کہا’’دونوں زندہ ہیں۔‘‘
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ
’’اگر تو واقعی اجر کا طالب ہے تو ان کی اچھی طرح خدمت کر۔‘‘
ایک روایت میں ہے کہ ’’ففیھما فجاہد‘‘ پس ان میں جہاد کر۔‘‘ (بخاری: کتاب الجہاد)

سیدہ اسماء بنت ابی بکر صدیق رضی اللہ عنہا کی مشرکہ ماں معاہدہ حدیبیہ کے دوران مدینہ میں اپنی بیٹی کے پاس آئیں۔ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ
’’کیا میں اپنی ماں سے حسنِ سلوک کروں۔"
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’ہاں! تم اپنی ماں سے صلہ رحمی کرو۔‘‘ (بخاری، کتاب الھبۃ)

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’والد جنت کے دروازوں میں سے بہترین دروازہ ہے۔ پس تو اس کی حفاظت کر۔‘‘ (ترمذی: ابواب البر والصلۃ باب الفضل فی رضاالوالدین ۔ح۔۰۰۹۱۔ امام ترمذی نے حسن صحیح کہا۔ابنِ حبان ‘ حاکم اور ذہبی نے صحیح کہا ہے۔)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
2- والدین کو گالی نہ دینا

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’اپنے والدین کو گالی دینا کبیرہ گناہ ہے۔‘‘
صحابہ نے عرض کیا:
’’کیا کوئی شخص اپنے والدین کو گالی دے سکتا ہے؟‘‘
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’ہاں! ایک شخص کسی کے باپ یا ماں کو گالی دیتا ہے تو وہ پلٹ کر اس کے باپ یا ماں کو گالی دیتا ہے (اس طرح وہ اپنے والدین کی گالی کا سبب بنا)۔ (بخاری: کتاب الادب، مسلم: کتاب الایمان)
 
Top