• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اسلامی آداب زندگی (سبیل المؤمنین)

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
ملاقات کے لیے اجازت طلب کرنے کا طریقہ:

بنو عامر قبیلے کے ایک شخص نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا:
’’کیا میں اندر آجاؤں؟‘‘
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے خادم سے فرمایا:
’’اس شخص کے پاس جا اور اسے اجازت طلب کرنے کا طریقہ سکھا۔ اس سے کہو کہ کہہ السلام علیکم کیا میں اندر آجاؤں؟
‘‘اس آدمی نے سن کر کہا:
’’السلام علیکم کیا میں اندر آجاؤں؟‘‘
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اجازت دی اور وہ اندر داخل ہوا۔
(ابو داؤد کتاب الادب باب کیفیۃ الاستیذان ۔ح۔۷۷۱۵۔ امام نووی نے صحیح کہا ہے)

سیدنا جابر رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور دروازہ کھٹکھٹایا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ’’کون؟‘‘
جابر نے کہا: "میں ہوں۔"
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’میں میں‘‘ (کیا ہے) گویا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے برا سمجھا۔
(بخاری کتاب الاستیذان باب اذا قال من ذافقال انا، مسلم :کتاب الاستیذان باب کراھۃ قول المستاذن انا اذا قیل من ھذا)
معلوم ہوا کہ اجازت طلب کرنے والے سے جب پوچھا جائے کہ تم کون ہو تو وہ اپنا نام یا کنیت بتائے۔’’میں ہوں‘‘ نہ کہے۔

سیدہ امِ ہانی رضی اللہ عنہا بیان فرماتی ہیں کہ میں اللہ کے رسول کے پاس آئی جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم غسل کر رہے تھے اور فاطمہ پردہ کیے ہوئے تھیں۔ میں نے آکر سلام کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا:
’’یہ کون ہے؟‘‘ میں نے کہا کہ ’’میں امِ ہانی ہوں۔‘‘
(بخاری کتاب الغسل باب التسترفی الغسل عند الناس)

عبداللہ بن مسعودرضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہتے ہیں کہ :
میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا آپ فرما رہے تھے:
"قیامت کی نشانی ہے کہ لوگ پہنچاننے والوں کو سلام کریں گے، اور ایک روایت میں ہے کہ کوئی شخص کسی دوسرے شخص کو صرف اس وجہ سے سلام کہے گا کہ اسے پہنچانتا ہو گا۔"
(السلسلۃ الصحیحۃ للالبانی ۷۵۵۲.)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
ملاقات کے وقت مصافحہ کرنا :

سیدنا انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ صحابہ کرام میں مصافحے کا معمول تھا۔
(بخاری کتاب الاستیذان باب المصافحۃ)

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ
’’کسی بھی نیکی کو ہرگز حقیر نہ جاننا اگرچہ تیرا اپنے بھائی سے مسکرا کر ملنا ہی کیوں نہ ہو۔‘‘
(مسلم کتاب البرباب استحباب طلقۃ الوجہ عند اللقاء)

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ اچھی گفتگو نیکی ہے ۔
(صحیح بخاری الصلح باب فضل الاصلاح بین الناس، مسلم الزکوۃ باب ان اسم الصدقۃ یقع علی کل نوع من المعروف)
معلوم ہوا کہ مسلمان بھائی سے مسکرا کر ملنا اور اچھی گفتگو کرنا بھی نیکی ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
۸۔ مریض کی تیمار داری کرنا:

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مریض کی تیمار پرسی کرنے، جنازے کے ساتھ چلنے، چھینکنے والے کی چھینک کا جواب دینے (اگر وہ الحمدللہ کہے تو جواب میں یرحمک اللہ کہنے) قسم دینے والے کی قسم پوری کرنے، مظلوم کی مدد کرنے، دعوت کرنے والے کی دعوت قبول کرنے، کمزور کی مدد کرنے اور سلام کے پھیلانے اور عام کرنے کا حکم دیا۔
(بخاری الاستئذان باب افشاء السلام)
قسم اٹھانے والے کی قسم کو پورا کرنے کا مطلب یہ ہے کہ کوئی شخص تم پر اعتماد کرتے ہوئے یہ کہہ دے کہ اللہ کی قسم تم یہ کام ضرور کرو تو تم اس کے اعتماد کو مجروح مت کرو اور اس کام کو کر کے اس کی قسم پوری کرو بشرطیکہ وہ کام حرام نہ ہو۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’بے شک اللہ تعالیٰ قیامت کے دن فرمائے گا
’’اے آدم کے بیٹے! میں بیمار ہوا تو تو نے میری عیادت کیوں نہیں کی؟
‘‘انسان عرض کرے گا: ’’اے میرے رب میں کیسے تیری عیادت کرتا جب کہ تو تمام جہانوں کا رب ہے۔‘‘
اللہ تعالیٰ فرمائے گا:
’’کیا تجھے معلوم نہیں کہ میرا فلاں بندہ بیمار ہوا لیکن تو نے اس کی مزاج پرسی نہیں کی۔ کیا تجھے علم نہیں تھا کہ اگر تو اس کی مزاج پرسی کرتا تو تو مجھے اس کے پاس پاتا۔‘‘
(مسلم البر والصلۃ باب فضل عیادۃ المریض)

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’جب کوئی مسلمان اپنے مسلمان بھائی کی عیادت کرتا ہے تو واپس آنے تک وہ جنت کے تازہ پھل چننے میں مصروف رہتا ہے۔
(مسلم البر والصلۃ باب فضل عیادۃ المریض)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
کافر کی عیادت کرنا اور اسے اسلام کی دعوت دینا:

ایک یہودی لڑکا نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت کیا کرتا تھا۔ وہ بیمار ہو گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کی عیادت کے لیے تشریف لے گئے۔ اس کے سرہانے بیٹھے اور فرمایا:
’’اسلام قبول کر لے۔‘‘
اس نے اپنے باپ کی طرف دیکھا۔
باپ نے کہا: ’’ابوالقاسم کی بات مان لے۔‘‘
پس وہ مسلمان ہو گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہ فرماتے ہوئے باہر تشریف لائے
’’تمام تعریفیں اس اللہ کے لیے ہیں جس نے اس لڑکے کو جہنم کی آگ سے بچا لیا۔‘‘
(بخاری الجنائز باب اذا اسلم الصبی فمات ھل یصلی علیہ)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
۹۔ جنازے کے ساتھ جانا:

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ
’’مسلمان کے مسلمان پر پانچ حق ہیں ، سلام کا جواب دینا، بیمار کی مزاج پرسی کرنا، جب وہ مرجائے تو اس کے جنازے کے ساتھ جانا، دعوت قبول کرنا، اور چھینکنے والے کی چھینک کا جواب دینا۔‘‘
(بخاری الجنائز باب الامر باتباع الجنائز، مسلم السلام باب من حق المسلم علی المسلم ردالسلام)

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’جو شخص کسی مسلمان کے جنازہ کے ساتھ ایمان کی حالت میں اور ثواب کی نیت سے چلے گا اور اس کی نمازِ جنازہ پڑھنے اور دفن سے فارغ ہونے تک اس کے ساتھ رہے گا تو وہ دو قیراط اجر پائے گا، ہر قیراط احد پہاڑ کی مانندہے۔ اور جو اس کو دفنائے جانے سے پہلے صرف نمازِ جنازہ پڑھ کر لوٹ آئے تو اس کو ایک قیراط ثواب ملے گا۔‘‘
(بخاری الایمان باب اتباع الجنازہ من الایمان)

سیدنا امِ عطیہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ
’’عورتوں کو جنازوں کے ساتھ چلنے سے منع کیا گیا ہے لیکن ہم پر سختی نہیں کی گئی ہے۔ ‘‘
(بخاری: الجنائز باب اتباع النساء الجنائز، و مسلم: الجنائز باب نہی النساء عن اتباع الجنائز)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
10 ۔ دعوت قبو ل کرنا:

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’مجھے اگر بکری کے پائے کے لیے بھی دعوت دی جائے تو میں ضرور قبول کروں گا۔ اگر مجھے اس کے بازو کا تحفہ دیا جائے تو میں قبول کروں گا۔
(بخاری: کتاب الھبۃ باب القلیل من الھبۃ)

سیدنا ابو طلحہ رضی اللہ عنہ نے ایک خرگوش ذبح کیا اور اس کی ران رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کی جسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبول فرمایا۔
(بخاری کتاب الذبائح والعید باب الدرنب)
اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ خرگوش حلال ہے۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’جب تمہیں کھانے کے لیے بلایا جائے تو قبول کرو۔ اگر روزہ دار ہو تو دعوت دینے والے کو دعا دو اور اگر روزہ دار نہیں تو کھانا کھا لو۔
(مسلم: کتاب النکاح باب الامر باجابۃ الداعی الی دعوۃ)

اکٹھے کھانا کھانا:
وحشی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے کہا اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہم کھانا کھاتے ہیں لیکن سیر نہیں ہوتے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: شاید تم الگ الگ کھانا کھاتے ہو، کھانے پر جمع ہو جاؤ اللہ تعالیٰ کا نام لو اس میں تمہارے لیے برکت کر دی جائے گی۔‘‘
(السلسلۃ الصحیحۃ للالبانی :۴۶۶)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
۱۱۔ چھینک کا جوا ب دینا:

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’جب تمہیں چھینک آئے تو (اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ) کہو۔ سننے والا اس کا بھائی جواب میں یہ دعا کرے (یَرْحَمُکَ اللّٰہُ) (اللہ تم پر رحم کرے)۔ چھینکنے والا پھر کہے ( یَہْدِیْکُمُ اللّٰہُ وَیُصْلِحْ بَالَکُمْ) (اللہ تمہیں ہدایت دے اور تمہارے حال کی اصلاح فرمائے۔‘‘)
(بخاری: الادب باب اذا عطس کیف یشمت)

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’جب کسی کو چھینک آئے اور وہ اس پر (اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ) کہے تو تم اس کے حق میں دعا کرو۔ اور اگر اس نے اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ نہیں کہا تو تم بھی اس کو جواب نہ دو۔‘‘
(مسلم کتاب الزھد والرقاق باب تشمیت العاطس)

نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس دو آدمیوں کو چھینک آئی آ پ نے ان میں سے ایک کو جواب دیا اور دوسرے کو جواب نہیں دیا۔ اس نے عرض کیا آپ نے فلاں شخص کی چھینک کا جواب دیا اور مجھے جواب نہیں دیا۔ آپ نے فرمایا اس شخص نے چھینک آنے پر اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ کہا اور تو نے اللہ کی حمد بیان نہیں کی ۔
(بخاری الادب باب لایشمت العاطس اذالم یحمد، مسلم کتاب الزھد باب تشمیت العاطس)

ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’تم میں سے کوئی شخص چھینک مارے تو اس کے پاس بیٹھنے والا اسے جواب دے (یر حمک اللہ کہے) اگر وہ تین سے زیادہ مرتبہ چھینک مارے تو اسے زکام ہے اس کے بعد جواب نہ دے ۔‘‘
(السلسلۃ الصحیحۃ للالبانی :۰۳۳۱)

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو جب چھینک آتی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے منہ پر اپنا ہا تھ یا کپڑا رکھ لیتے جس کے ذریعے سے اپنی آواز کو ہلکا یا پست کرتے۔
(ابو داؤد: الادب باب فی العطاس ۔ح۔۹۲۰۵۔ ترمذی: ابواب الاستیذان باب ماجآء فی خفض الصوت ۔ح۔۵۴۷۲۔ امام ترمذی نے حسن صحیح کہا ہے۔)

یہودی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اس امید پر چھینکتے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے لیے (یَرْحَمُکَ اللّٰہ) کہیں گے لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم (اس کی بجائے) فرماتے۔ ’’( یَہْدِیْکُمُ اللّٰہُ وَیُصْلِحْ بَالَکُمْ)
(ابو داؤد: الادب کیف یشمت الذمی ۔ح۔۸۳۰۵۔ ترمذی: ابواب الادب باب ماجاء کیف یشمت العاطس ۔ح۔۹۳۷۲۔ امام ترمذی نے حسن صحیح کہا ہے۔)

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’جب تم میں سے کسی کو جمائی آئے تو اپنے ہاتھ سے اپنا منہ بند کرلے اس لیے کہ شیطان اندر داخل ہو جاتا ہے۔‘‘
(مسلم: کتاب الزھد باب تشمیت العاطس وکراھۃ التثأوب)

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’بے شک اللہ تعالیٰ چھینک کو پسند اور جمائی کو ناپسند کرتا ہے۔ پس جب تمہیں چھینک آئے تو اللہ کا شکر ادا کرو لیکن جمائی شیطان کی طرف سے ہے۔ جب تمہیں جمائی آئے تو کوشش کر کے اسے روکو۔ جب تم جمائی لیتے ہو تو شیطان ہنستا ہے۔‘‘
(بخاری: الادب باب ما یستحب من العطاس وما یکرہ من التثائب)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
12۔ حلال امور میں مسلمان کی سفارش کرنا :

اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
مَّن يَشْفَعْ شَفَاعَةً حَسَنَةً يَكُن لَّهُ نَصِيبٌ مِّنْهَا ۖ ۔۔﴿٨٥﴾ النساء
’’جس نے کوئی اچھی سفارش کی اس کے لیے بھی اس نیکی میں حصہ ہو گا۔‘‘

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جب کوئی ضرورت مند آتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کی طرف متوجہ ہوتے اور فرماتے:
’’سفارش کرو۔ تمہیں بھی اجر دیا جائے گا۔ اللہ تعالیٰ اپنے نبی کی زبان پر جو پسند فرماتا ہے فیصلہ فرما دیتا ہے۔‘‘
(بخاری: کتاب الزکوۃ باب التحریص علی الصدقۃ، مسلم: کتاب البر والصلۃ باب استحباب الشفاعۃ فیمالیس بحرام)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
سفارش قبول کرنا ضروری نہیں:
بریرہ رضی اللہ عنہا ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی لونڈی تھی اور ایک غلام مغیث رضی اللہ عنہ کے نکاح میں تھیں ۔عائشہ رضی اللہ عنہا نے انہیں آزاد کر دیا۔ آزادی کے بعد اسلام نے لونڈی کو اجازت دی ہے کہ وہ اپنے غلام خاوند کے نکاح میں رہنا پسند نہ کرے تو نکاح فسخ کراسکتی ہے چنانچہ اس نے اپنا یہ حق استعمال کرتے ہوئے اپنے خاوند مغیث سے علیحدگی اختیار کر لی۔ مغیث کو بریرہ سے بڑی محبت تھی وہ اس کی منت سماجت کرتا کہ تعلق زوجیت ختم نہ کرے۔ نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم نے بریرہ رضی اللہ عنہا سے فرمایا کہ اگر تو اپنے خاوند سے رجوع کر لے (تو اچھا ہے) اس نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیا آپ مجھے رجوع کرنے کا حکم دیتے ہیں۔
آپ نے فرمایا میں تو صرف سفارش کرتا ہوں۔ وہ کہنے لگی مجھے مغیث کی کوئی ضرورت نہیں۔
(بخاری: کتاب الطلاق باب شفاعۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم فی زوج بریرہ)

حدود الٰہی میں سفارش کی ممانعت :
ایک دفعہ اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ نے ایک عورت کی سفارش کی جس نے چوری کا ارتکاب کیا۔ آپ نے فرمایا:
"اسامہ کیا تو اللہ کی حدوں میں سفارش کرتا ہے"
پھر آپ نے خطبہ ارشاد فرمایا:
"تم سے پہلے لوگوں کو اسی چیز نے ہلاک کیا کہ ان میں سے کوئی بلند مرتبہ چوری کرتا تو اسے چھوڑ دیتے اور کوئی کمزور چوری کرتا تو اس پر حد قائم کر دیتے۔ اللہ کی قسم اگر محمد کی بیٹی فاطمہ بھی چوری کرتی میں اس کا ہاتھ بھی ضرور کاٹتا۔ "
(بخاری: اواخر کتاب الانبیاء، ومسلم : کتاب الحدود باب قطع السارق الشریف وغیرہ)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
13- اہل خیر کی زیارت کرنا:

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے کہا:
’’آؤ امِ ایمن کی زیارت کو چلیں جس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کی زیارت کیا کرتے تھے۔‘‘
وہ دونوں ان کے پاس پہنچے تو وہ رو پڑیں۔
انہوں نے کہا: ’’آپ کیوں روتی ہیں ؟ ‘‘
امِ ایمن نے جواب دیا:
’’میں اس لیے روتی ہوں کہ آسمان سے وحی کا سلسلہ منقطع ہو گیا ہے۔‘‘
یہ بات سن کر یہ دونوں بھی رونے لگے۔
(مسلم: کتاب فضائل الصحابۃ باب من فضائل ام ایمن)
 
Top