• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اسلامی تعلیمات کی روشنی میں ناقدانہ جائزہ

حافظ محمد عمر

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
427
ری ایکشن اسکور
1,542
پوائنٹ
109
اسلامی تعلیمات کی روشنی میں ناقدانہ جائزہ

عقیدہ
لغوی و اصطلاحی معنی ومفہوم:
لغوی طور پر لفظ ’’عقد‘‘ سے بنا ہے، جس کا معنی جوڑنا اور مضبوط کرنا ہے۔قرآن کریم میں متعددمقامات پر مختلف معنوں میں لفظ استعمال ہوا ہے۔
مثلاً
1.زبان کی گرہ: ﴿ وَاحْلُلْ عُقْدَةً مِّن لِّسَانِي ﴾ (سورة طه 65: 27)
’’ اے اللہ میری زبان کی گرہ کھول دے۔‘‘
2.عقدنکاح: ﴿ وَلاَ تَعْزِمُواْ عُقْدَةَ النِّكَاحِ ﴾ (سورة البقرة 2 : 235)
’’ عدت پوری نے تک عقد نکاح کا عزم نہ کرو۔‘‘
3.دھاگے میں گرہ لگانا: ﴿ النَّفَّاثَاتِ فِي الْعُقَدِ ﴾(سورة الفلق 113: 4 )
’’ دھاگے میں گرہ لگانے والی عورتوں کی پھونک جھاڑ۔‘‘
4.مضبوط قسم: ﴿ بِمَا عَقَّدتُّمُ الأَيْمَانَ ﴾ (سورة المائدة 5: 89 )
’’ جس قسموں کو تم نے مضبوط کیا۔‘‘
5.عہد وپیمان: ﴿ أَوْفُواْ بِالْعُقُودِ ﴾ (سورة المائدة 5 : 1)
’’ اپنے عہد وپیمان کو پورا رکھو۔‘‘
چادر باندھنے کے لئے عقد ازار استعمال ہوتا ہے، نیز خرید وفروخت اور باہمی لین دین کے معاملات کو بھی عقد کہا جاتا ہے، الغرض عربی زبان میں مضبوطی اور پختگی کے معنی ادا کرنے کے لئے اس لفظ کا استعمال ہوتا ہے۔
شرعی اصطلاح میں عزم بالجزم اور پختہ دین پر عقیدہ کا اطلاق ہوتا ہے، خواہ ذہن کی پختگی حق پر ہو یا باطل پر اگر ذہنی مضبوطی حق پر ہے تو عقیدہ صحیح کہلاتا ہے جیسا کہ اللہ تعالی کی وحدانیت پر پختہ ہونا اور اگر کسی باطل چیز پر ذہن پختہ ہوا تو عقیدہ باطل ہے۔ جیسا کہ عیسائیوں کا عقیدہ تثلیث پر مضبوط ہونا۔
عقیدہ بنیاد اور جڑ ہے:
بنابریں عقیدہ بنیاد ہے اور وہ جڑ ہے جس پر شریعت کے احکام مبنی ہیں جس قدر یہ جڑ مضبوط ہو گی اسی قدر دین پر استقامت اور شریعت پر عمل مضبوط ہو گا۔
اللہ تعالی کا فرمان ہے:
﴿ إِنَّ الَّذِينَ قَالُوا رَبُّنَا اللَّهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوا ﴾ (فصلت : 35)
’’ بے شک جن لوگوں نے یہ کہا کہ ہمارا رب اللہ ہے اور پھر وہ اسی پر ڈٹ گئے۔‘‘
وہ جن لوگوں نے اللہ تعالی کی توحید کا اقرار کیا اور اللہ تعالی نے انہیں جو احکامات دیئے ان پر عمل كيا اور عمل بھی اسی لیے خاص کیا۔ لہٰذا عقیدہ اورعمل صالح ہی دنیا و آخرت میں کامیابی کی ضمانت ہے۔(حقيقت شہادتیں رابعة الطويل: ص 29)
معاشرے میں صحیح دین کو رواج دینا اور برائیوں سے روکنا ہر صاحب علم کا فرض ہے اور جب دین میں غیر دین کی اور صحیح میں غلط کی آمیزش ہونے لگے تو دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی کرنا بھی اہل علم کی ذمہ داری ہے اور اہل علم کبھی بھی اپنی اس ذمہ داری سے غافل نہیں رہتے۔
عَنْ نَافِعٍ أَنَّ رَجُلاً عَطَسَ إِلَى جَنْبِ ابْنِ عُمَرَ فَقَالَ الْحَمْدُ لِلَّهِ وَالسَّلاَمُ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ. قَالَ ابْنُ عُمَرَ وَأَنَا أَقُولُ الْحَمْدُ لِلَّهِ وَالسَّلاَمُ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ وَلَيْسَ هَكَذَا عَلَّمَنَا رَسُولُ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- عَلَّمَنَا أَنْ نَقُولَ الْحَمْدُ لِلَّهِ عَلَى كُلِّ حَالٍ (سنن الترمذی ، باب ما یقول العاطس إذا عطس: 2/ 98)
حضرت عبد الله بن عمر رضی اللہ عنہما كى پاس بیٹھے ایک شخص کو چھینک آئی اس نے کہا الحمد للہ والسلام علی رسول اللہ ﷺ حضرت ابن عمررضی اللہ عنہ نے فرمایا میں بھی مانتا ہوں تمام تعریفیں اللہ کے لئے ہیں اور اللہ کے رسول پر درود و سلام مگر ہمیں حضور ﷺ نے اس طرح نہیں سکھایا تھا۔ ( یعنی اس موقع پر الحمد للہ کے ساتھ سلام کا اضافہ اپنی طرف سے نہ کرو۔)‘‘
حق وباطل اور صحیح وغلط کا تقابل و تعارض ، لیل ونہار ، نور وعظمت کی طرح ہمیشہ ہوتا رہا ہے۔ بعض دفعہ ایمان کے ٹھوس اور مستحکم عقیدے کے ساتھ خود اسی کی جڑوں میں غلط عقائد بھی نشوونما پاتے رہتے ہیں اس کا سبب کہیں لا علمی اور کہیں کم فہمی اور کہیں غلط رہبری ہے۔
عوام الناس جس طرح غلطيوں کاشکار عقائد میں ہو جاتے ہیں ٹھیک اسی طرح اعمال و اخلاق میں بھی اغلاط میں ابتلائےعام ہو جاتا ہے۔
بعض باتیں بزرگوں کے تجربات کی وجہ سے رواج پا گئی ہیں۔ ان کو غلط کہنے کا مطلب یہ ہے کہ ان کو حکم شریعت کی طرح ضروری نہ سمجھا جائے۔ بعض باتوں کو بے اصل کہا گیا ہے اور ہو سکتا ہے کہ ان باتوں میں کسی اور حیثیت سے کوئی فائدہ ہو اس لیے یہ بات ذہن میں رہنی چاہیے کہ یہاں بے اصل کہنے کا مطلب صرف اتنا ہے کہ شرعا وہ بات ثابت نہیں خواہ کسی اور طرح درست ہو۔
بعض باتیں بذات خود غلط نہیں ہوتیں بلکہ ان کا التزام یعنی حد سے زیادہ ان کی پابندی یا نیت و عقیدے کی کسی خرابی کی وجہ سے وہ ممنوع قرار پاتی ہیں۔
بعض باتیں ایسی ہیں کہ وہ مسلمانوں کے کسی خاص فرقے یا جماعت کا نشان بن گئی ہیں اور کسی شرعی ثبوت یا عدم ثبوت سے قطع نظر وہ ان کی سختی سے پابندی کرتے ہیں۔
عقیدہ کیا ہے؟:
عقیدہ ان فیصلوں کا نام ہے جنہیں انسان اپنی عقل سے سوچ کر کانوں سے سن کر اور قوانین الٰہی کے ذریعے پرکھ کر صادر کرتا ہے۔ یہ فیصلے دو ٹوک اور بے لاگ ہوتے ہسیں عقل ونقل کی کسوٹی پر قطعی پورے اترتے ہیں اسی لیے ایک بار جب اس کا ذہن اس قسم کا فیصلہ صادر کرتا ہے اور اپنے دل و دماغ میں وہ ٹھان لیتا ہے کہ جو اس نے سوچا وہی برحق اور درست ہے تو اب کوئی طاقت اسے نہ اپنے فیصلے سے ہٹا سکتی ہے نہ ہی اس کے اندر کسی قسم کا نقص، فتور یا شک و شبہ کا احتمال اس کے دل میں پیدا کر سکتی ہے۔
شیخ ابو بکر جابر الجزائری اپنی تصنیف میں مومن کے عقائد میں رقمطراز ہیں:
’’ اس قسم کا سب سے اولین فیصلہ بندہ اپنے بنانے والے کےبارے میں کرتا ہے وہ دل سے مانتا اور زبان سے اس کا اقرار کرتا ہے کہ وہ ذات واحد ہے جس نے اس کو وجود بخشا وہی اس کا خالق و مالک ہے اور اس کے بے حد قریب ہے وہ یہ جانتا ہےکہ اس ذات باری نے کل کائنات کو اس کے لئےاور اسے اپنی پر ستش اور بندگی کے لئے پیدا کیا اسی غرض کے لئے اس نے بے شمار انبیاء اور رسول ہر قوم اور ہر زمانے میں مبعوث فرمائے ان پر آسمانی کتابیں نازل فرمائیں بندہ مومن یہ عقیدہ رکھتا ہے کہ خدا نے اپنے پیغمبروں اور آسمانی کتابوں کے ذریعہ جس قدر احکام اسے عطا کیے ان کا ماننا اور ان پر عمل کرنا اس پر فرض ہے اور جن چیزوںسے اس نے منع کیا ہے ان سے رک جانا اس کے لئے لازمی ہے اس لیے کہ اس کے بغیر دل و دماغ اور وح وضمیر کی نہ تو صفائی ہو گی نہ اس کے افکار و خیالات میں پاکیزگی آئے گی نہ ہی اس کے اخلاق و عادات کمال اور بڑائی پیدا ہو گی اور نہ اس کی انفرادی اور اجتماعی زندگی میں کوئی اصلاح اور درستگی پیدا ہو گی۔(مومن كى عقائد از شيخ ابو بكر جابر الجزائری : ص 35۔ 36)
عقیدہ، شریعت اسلامیہ کے فلک بوس محل کی عمیق ترین بنیاد ہے ۔ شریعت جتنی عظیم ہے عقیدہ اتنا ہی محکم ہے بنیاد کی مضبوطی کے بغیر عمارت کا استحکام بے معنی ہے۔ عقیدہ دین کی اولین اساس ہے اسلام نے عقیدہ کی پختگی اس کی تصحیح وتطہیر اور استقامت و سلامتی پر سب سے زیادہ زور دیا ہے۔ قرآن مجید کا ایک تہائی حصہ عقائد ہی کی بابت ہے۔ مکہ مکرمہ کی نبوی زندگی میں رسول اللہ ﷺ تيره سال تك ايمان وعقيده کی تصحیح و تعلیم دیتے رہے اللہ تعالی پر ایمان اس کے دلائل توحید باری تعای وغیرہ جیسے حقائق ایمانی ہیں جن پر کامل و بے ریب یقین کا ہونا مومن کی ایمانی زندگی کا جز ولاینفک ہے۔
 
Top