• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اسلامی ثقافت، عناصر اور اہمیت

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
اسلامی ثقافت، عناصر اور اہمیت
طالب علم : محمد اسلم خان

گو کہ یہ مواد زیادہ تر انٹر نیٹ سے ہی لیا گیا ہے لیکن ہماری فکر کو حرکت میں لانے کے لیے کافی ہے
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
انسان کی مدنی زندگی اور اجتماعی زندگی کے لیے ثقافت ایک فطری اور لابدی چیز ہے، دو آدمیوں کے باہمی ملاپ سے جو بچہ عالمِ وجود میں آتا ہے،اس کے پروان چڑھنے کے لیے ماں کی گود ضروری ہے، نیز اس کی نشونما کے لیے خاندان، معاشرہ اور تعلیم گاہ بھی ضروری ہے، مدنیت انسان کی فطرت ہے اور ثقافت اس کی اساس ہے، سویلائزیشن کو آپ خواہ لفظی اعتبار سے دیکھیں خواہ تاریخی اعتبار سے اس کا مطالعہ کریں، ہر دو اعتبار سے اس کا تعلق سماجی اور اجتماعی زندگی سے جڑا ہوا نظر آئے گا، عربی زبان میں اس کے لیے مدنیت، حضارت جیسے الفاظ استعمال ہوتے ہیں اور انگریزی میں بھی Civic, City, Civil یہ سب Civilization کے مصدر کے طور پر مستعمل ہیں۔
الغرض یہ ایک ایسا گہوارہ ہے،جس میں انسانیت پروان چڑھتی ہے، انسان کا تشخص قائم ہوتا ہے، اس کے لیے ترقی کی راہیں وا ہوتی ہیں اور اس کو اپنا کر زندگی کے ہر موڑ پر انسان کامیاب وکامران ہوتا ہے۔ انسانوں کے درمیان خیالات، اقدار، ادارے، تعلقات اور نظام ہائے زندگی یہ سب اس کا نتیجہ ہیں۔
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
ثقافت کی تعریف
کسی بھی ثقافت کے بارے میں بات کرنے سے پہلے یہ ضروری ہے کہ ثقافت کی تعریف جان لی جائے۔ ثقافت ایک ایسی اصطلاح ہے کہ جس کی حتمی تعرف کرنا انتہائی مشکل ہے کیوں کہ اس کا اصطلاحی مفہوم اپنی ذات میں تنوع لیے ہوئے ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہر دور کے علماء نے اس کی مختلف تعریفیں کی ہیں۔ سب سے بہتر اور آسان فہم تعریف المجمع اللغوی نے کی ہے اور وہ یہ ہے کہ “جملة العلوم ، والمعارف ، والفنون التي يُطلبُ الحِذقُ فيها” ثقافت سے مراد وہ تمام علوم، معارف اور فنون ہیں جن پر دسترس اور جن میں مہارت مطلوب ہے۔
یہ تو ثقافت کی عمومی تعریف ہے جو اپنی جنس کے تمام افراد پر صادق آتی ہے۔ ہمارا موضوع اسلامی ثقافت ہے، اسلامی ثقافت کی تعریف کا معاملہ بھی عام لفظ ثقافت کی طرح مختلف فیہ ہے۔ اور یہ اختلاف حقیقی اسباب کی وجہ سے ہے۔ ایک تو یہ ایسا لفظ ہے جس کی کئی جہتیں ہیں، دوسرا یہ ان اصطلاحات میں سے ہے جس کا مفہوم محدود کرنا مشکل ہے، تیسرا یہ کہ یہ لفظ اپنے اصطلاحی مفہوم میں اسلام کے بہت بعد استعمال ہونا شروع ہوا ہے اور چوتھا یہ کہ اس حوالے سے علماء کے اجتہادات میں تنوع پایا جاتا ہے۔
اسلامی ثقافت کی بے شمار تعریفوں میں سے جو تعریف اس کے مفہوم کے قریب ترین ہے وہ کچھ اس طرح ہے کہ “ماضی و حال میں امت مسلمہ کے عمومی عناصر کو بامقصد انداز سے جاننا جس میں دین، زبان، تاریخ، ثقافت ، اقدار اور مشترک اھداف قابل ذکر ہیں۔
اسلامی ثقافت کی بنیاد براہ راست وحی پر ہے، چاہے وحی متلو ہو یا غیر متلو۔ اس مضبوط بنیاد کی وجہ سے جو خصائص اسلامی ثقافت کو حاصل ہیں دنیا کی کوئی اور ثقافت ان کے حصول کی تمنا تو کر سکتی ہے لیکن کبھی ان سے بہرہ ور نہیں ہو سکتی۔ اسلامی ثقافت کی اس مضبوط بنیاد نے اسے وہ دوام بخشا کہ آج مسلم و غیر مسلم دنیا کے تمام ہی اہل علم اس بات پر متفق ہیں کہ اسلامی ثقافت دنیا کی واحد قدیم ترین ثقافت ہے جو آج بھی اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ نہ صرف موجود ہے بلکہ محفوظ بھی ہے۔
عقیدے، اقدار اور اصولِ حیات کی بنیادی قدریں، جو کسی انسانی گروہ کی مشترک اساس ہوں اور جن کی بنیاد پر کسی قوم یا جماعت کو معاشرے میں ایک متمیز تشخص اور شناخت حاصل ہو، وہ کلچر کہلاتا ہے؛ لیکن واضح رہے کہ ثقافت عقیدہ، فکر، عادات اور اخلاق واطوار کے ساتھ ساتھ سیاسی، اجتماعی اور معاشرتی اداروں؛ حتیٰ کہ بین الاقوامی میدانوں میں بھی اپنے آثار چھوڑتا ہے، جس کے نتیجے کے طور پر مختلف علوم وفنون وجودپذیر ہوتے ہیں، آرٹ کی متنوع شکلیں معرضِ ظہور میں آتی ہیں، فن تعمیر کے گوناگوں شاہ کار انسانی نگاہوں کو خیرہ کیے دیتے ہیں، معاشی ادارے تشکیل پاتے اور سیاسی نظام بنتے ہیں؛ اسی مجموعی تشخص کو ثقافت، حضارت کا نام دیا جاتا ہے اور علوم عُمرانی کی اصطلاح میں ایک کوMentafactsذہنی تشکیل کہا جاتا ہے اور دوسرے کوArtefactsسماجی مظاہر لیکن یہ دونوں باہم مربوط ہوتے ہیں اور ایک کا تصور دوسرے کے بدون غیرممکن ہے۔
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
ثقافت کے بنیادی عناصرِ
کسی بھی ثقافت کے بنیادی طور پر چار عناصر ہوتے ہیں:
(1)
اقتصادی ذرائع
(2)
سیاسی نظام
(3)
اخلاقی اقدار وروایات
(4)
مختلف علوم وفنون پر گہری نظر
نیز جس طرح کسی بھی ثقافت کے آگے بڑھنے اور ترقی کے منازل طے کرنے کے متعدد عوامل ہوتے ہیں: کچھ جغرافیائی، کچھ اقتصادی اور کچھ نفسیاتی جیسے: مذہب، زبان اور اصول تعلیم وتربیت، بالکل اسی طرح کسی بھی ثقافت کے نیرِ اقبال کے گہنانے کے بھی چند ایک اسباب ہوتے ہیں، جو اس کی بقا اور ترقی کی راہوں میں گامزن کرنے کے ذرائع سے معارض ہوتے ہیں مثلا: اخلاقی وفکری زبوںحالی، بدنظمی، ظلم وجور اور فقر وتنگدستی کا شیوع، مستقبل کے تئیں لاپروائی اور باصلاحیت راہ نما اور مخلص قائدین کی نایابی۔
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
انسانی ثقافت کی تاریخ
انسانی ثقافت کی تاریخ اتنی ہی قدیم ہے، جتنا قدیم اس خاک دان ارضی میں خود انسان کا وجود ہے ، دراصل یہ سلسلہ ایسا ہے جو اوّل دن سے تا امروز دراز ہے۔
ثقافت انسانی کا حیطۂ عمل
کسی بھی ثقافت کا تعلق کسی خاص خطۂ ارضی یا کسی خاص نسلِ انسانی سے نہیں ہوتا؛ بل کہ وہ تمام دنیا اور دنیا کی تمام نسلوں کو محیط ہوتی ہے؛ یہی وجہ ہے کہ دنیا میں ظہور پزیر ہونے والی ہر قوم ثقافت وتمدن کے باب میں کچھ نہ کچھ صفحات رقم کرتی ہے، گو بعض ثقافتیں اپنی ٹھوس بنیادیں، زبردست اثر انگیزی اورافادئہ عام کی بنا پر دیگر ثقافتوں سے ممتاز ہوجاتی ہیں اور واقعہ یہ ہے کہ ہر وہ ثقافت جس کا پیغام عالم گیر ہو،جس کا خمیر انسانیت نوازی پر اٹھا ہو، جس کی ہدایات وتوجیہات اخلاقی قدروں کے پاسدار ہوں اور جس کے اصول وضوابط حقیقت پسندی پر مبنی ہوں؛ تاریخ میں ایسی ثقافت کو بقائے دوام حاصل ہوتی ہے، مرورِ ایام کے باوصف انسانی زبانیں اس کے ذکر میں سرگرم رہتی ہیں اور ہر زمانے میں اسے قدر کی نگاہوں سے دیکھا جاتا ہے۔
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
اسلامی ثقافت
اسلامی ثقافت بھی، انسانی ثقافتوں کے دراز سلسلہ کی ایک کڑی ہے، اس سے قبل بھی بہت سی ثقافتیں رونما ہوئیں اور اس کے بعد بھی تاقیامت ابھرتی رہیں گی۔
ہماری ثقافت کے ابھرنے، چمکنے اور عالم پر چھاجانے کے متعدد محرکات تھے اوراس کے گمنام وبے نشان ہونے کے بھی مختلف اسباب ہیں، جن کی تفصیل میں جانا ہمارے موضوع سے خارج ہے، ہمارا مقصد تو صرف انسانی ارتقاء کی تاریخ میں اسلامی ثقافت کے عظیم الشان کردار اور دنیا کے مختلف اقوام پر علوم وفنون، عقائد، اخلاقیات، فلسفہ وحکمت اور ادب کے باب میں اس کے ناقابلِ فراموش احسانات کو ذکر کرنا ہے۔

اسلامی ثقافت کی خصوصیات
یوں تو اسلامی ثقافت اپنے جلو میں ہزارہا خوبیوں اور خصوصیات کو سموئے ہوئے ہے؛ مگر ہم صرف اس کی اہم، مرکزی اور بنیادی خصوصیات کو سپردِ قرطاس کریں گے اور ان شاء اللہ اسی سے ثقافت اسلامی کی تمام اگلی وپچھلی ثقافتوں پر برتری وبہتری عالم آشکارا ہوجائے گی۔
پہلی خصوصیت
اسلامی ثقافت کی پہلی خصوصیت یہ ہے کہ اس کی اساس کامل وحدانیت پر ہے، یہی ایک ایسی ثقافت ہے، جو یہ تصور پیش کرتی ہے کہ کائنات کی ایک ایک شئی صرف اور صرف ایک ذات کی خلق کردہ ہے،اسی کے لیے عبادت اور پرستش ہے اور اسی سے اپنی حاجات وضروریات بیان کرنا چاہیے (ایاک نعبد وایاک نستعین) وہی عزت عطا کرتا ہے اور اسی کے ہاتھ میں کسی کو بھی ذلیل وخوار کردینا ہے، وہی دیتا ہے اور وہی محروم بھی رکھتا ہے اور زمین کی بے کراں وسعتوں اور آسمان کی بے پایاں بلندیوں پر جو کچھ ہے سب اسی کے قبضۂ قدرت میں ہے۔ (وہو علی کل شيء قدیر)
عقیدے کے حوالے سے فکر کی اس بلند آہنگی کا طبقۂ انسانیت کو اونچا اٹھانے، عوام کو بادشاہوں، سربراہانِ مملکت، شہ زوروں اور مذہب کے اجارہ داروں کے جور وقہر سے نجات دلوانے، حاکم ومحکوم کے درمیان صدیوں سے پائی جانے والی خلا کو پاٹنے اور انسانی ذہنوں کو ایک مالک حقیقی، کائنات کے خالق اور عالمین کے حقیقی رب کی طرف پھیرنے میں زبردست اثر رہا، نیز اسی عقیدے کی وجہ سے اسلامی ثقافت گزشتہ تمام ثقافتوں میں نمایاں رہی اور آئندہ بھی اس کی انفرادیت باقی رہے گی (ان شاء اللہ)؛ کیوںکہ اس کے عقیدے میں، طریقۂ جہاں بانی میں، علوم وفنون اور شعروادب میں غرضیکہ معاشرتِ انسانی کے ہر شعبے میں بت پرستی، اس کے آداب اور اس کی پیچیدہ روایات کی ادنیٰ جھلک بھی نہیں پائی جاتی۔
اسلام ہی یکہ وتنہا ایسا دین ہے جس نے بت پرستی اور اس کے تمام تر مظاہر کے خلاف کھلے بندوں جنگ چھیڑی اور بت پرستی کی ہر جھلک اور اس کے باقیات پر خط نسخ پھیر ڈالا، مثلاً: انبیا، اولیا، اصحابِ علم وفضل اور فاتحین کی تصویریں بہ طور یادگار رکھنے کو منع کیا، واضح رہے کہ یہ رسم قدیم وجدید ہر دوثقافت میں رواجِ عام رکھتا ہے؛ اس لیے کہ ان ثقافتوں میں خدائے واحد کے حوالے سے وہ تصور مفقود ہے جو اسلامی ثقافت نے پیش کیا ہے۔پھر اسی عقیدئہ وحدانیت کے زیر اثر وہ تمام قواعد وضوابطِ حیات وجود پزیر ہوئے جن پر اسلامی ثقافت مشتمل ہے؛ چناںچہ اس کے پیغام اس کے قوانینِ تشریعی، اس کے مقاصد واہداف، اس کے ذرائعِ معیشت اور طرز ہائے فکر، ہر ایک میں وحدت کا رنگ غالب ہے۔
دوسری خصوصیت
اسلامی ثقافت کی دوسری خصوصیت یہ ہے کہ اس کے اہداف اور پیغامات تمام کے تمام آفاقی ہیں، ارشاد ربانی ہے: یَا اَیُّہَا النَّاسُ اِنَّا خَلَقْنَاکُمْ مِنْ ذَکَرٍ وَاُنْثَی وَجَعَلْنَاکُمْ شُعُوْبًا وَقَبَآئِلَ لِتَعَارَفُوْا اِنَّ اَکْرَمَکُمْ عِنْدَ اللّٰہِ اَتْقَاکُمْ (حجرات:۱۳) قرآن کریم نے تمام عالم کے انسانوں کو حق، بھلائی اور خلقی شرافت وکرامت کی بنیاد پر ایک کنبہ قرار دیا، پھر اس نے اپنی لائی ہوئی ثقافت کو ایک قلادے کے درجہ میں رکھا، جس میں ان تمام قبائل واقوام کے عمدہ گراںمایہ جواہر کو پرودیا جنھوں نے مذہب اسلام قبول کیا، پھر اس کی اشاعت و ترویج میں کوشاں رہے، یہی وجہ ہے کہ دیگر تمام ثقافتیں کسی ایک نسل اور قوم کے مردانِ کارپرناز کرتی ہیں، مگر ثقافت اسلامی میں وہ تمام افراد مایۂ افتخار ہیں، جنھوں نے اس کے قصر عظمت کو بلند کیا؛ چناںچہ ابوحنیفہؒ، شافعیؒ، واحمدؒ، خلیلؒ وسیبویہؒ، کندیؒ وغزالیؒ اور فارابی وابن رشدؒ (جن کی نسلیں بھی مختلف تھیں اور جائے سکونت بھی الگ) کے ذریعہ اسلامی ثقافت نے پورے عالم کو انسانی فکر سلیم کے عمدہ نتائج سے ہم کنار کیا۔
تیسری خصوصیت
اسلامی ثقافت کی تیسری اہم خصوصیت یہ ہے کہ اس نے اعلیٰ اخلاقی قدروں کو اپنے تمام ضابطہ ہائے حیات اور زندگی کی سرگرمیوں میں اولیت کا مقام عطا کیا اور ان قدروں سے کبھی بھی خالی نہ رہی؛ چناںچہ علم وحکمت، قوانین شرعیہ، جنگ، مصالحت، اقتصادیات اور خاندانی نظام، ہر ایک میں ان کی قانوناً بھی رعایت کی گئی اور عملاً بھی اوراس معاملے میں بھی اسلامی ثقافت کا پلڑا تمام جدید وقدیم ثقافتوں پر بھاری نظر آتا ہے؛ کیوںکہ اس میدان میں ہماری ثقافت نے قابل فخر آثار چھوڑے ہیں اور دیگر تمام ثقافتوں سے انسانیت نوازی میں سبقت لے گئی ہے۔
چوتھی خصوصیت
ہماری ثقافت کی چوتھی خصوصیت یہ ہے کہ اس نے سچے اصولوں پر مبنی علم کو خوش آمدید کہا اور پکے مبادیات پر مبنی عقائد کو اپنی توجہ کا مرکز قرار دیا؛ چناںچہ عقل وقلب دونوں اس کے مخاطب ہیں اور فکر وشعور دونوں اس کی جولان گاہ اور یہ بھی ثقافت اسلامی کی ایسی خصوصیت ہے جس میں پوری انسانی تاریخ میں اس کا کوئی سہیم وشریک نظر نہیں آتا، اس کے باعثِ افتخار ہونے کا راز یہ ہے کہ اسی کے ذریعہ سے اسلامی ثقافت نے ایسا نظام حکومت قائم کیا جو حق وانصاف پر مبنی ہو اور دین وعقیدے کی پختگی جس کا محور ہو، ایسا نہیں کیاکہ دین کو حکومت اور ثقافت کی ترقیات سے الگ رکھے؛ بل کہ ہر قسم کی ترقی میں دین کو اہم عامل کی حیثیت حاصل رہی؛ چناںچہ بغداد، دمشق، قاہرہ، قرطبہ اور غرناطہ کے منارہ ہائے مسجد سے علم ودانش کی کرنیں پھوٹیں اور عالم کے گوشے گوشے کو منور کرگئیں، اسلامی ثقافت تنہا ایسی ثقافت ہے جس میں دین وسیاست کا امتزاج بھی رہا؛ مگر وہ اس امتزاج کی زیاں کاریوں سے یکسر محفوظ رہی، حکمراں، خلیفہ اور امیر المومنین ہوا کرتا تھا؛ لیکن فیصلہ ہمہ دم حق کے موافق ہوتا، شرعی فتاوے وہی لوگ صادر کرتے جو فقہ وفتاویٰ پر اتھارٹی ہوتے اور ہرکہ ومہ قانون اور فیصلے کے سامنے برابر ہوتا، کسی کو کسی پر وجہ امتیاز حاصل نہ ہوتی سوائے تقویٰ اور لوگوں کی عام نفع رسانی کے، نبی پاکﷺ کا ارشاد ہے: ’’وَاللّٰہِ لَو اَنَّ فاطمۃَ بنتَ محمدٍ سَرِقَتْ لَقَطَعَ محمدٌ یدَھا‘‘(رواہ الشیخان) دوسری جگہ فرمایا: ’’الخلقُ کلُّہم عِیالُ اللّٰہِ فأحبُہم إلیہ أنفعُہم لِعِیالہ‘‘ (رواہ البخاری) اس مذہب پر ہماری ثقافت کی اساس ہے، جس میں عام طبقۂ انسانی پر نہ تو کسی حکمراں کو کوئی برتری حاصل ہے، نہ کسی عالمِ شریعت کو، نہ کسی اعلیٰ نسب والے کو اور نا ہی تونگر وزورآور کو (قُل إنَّما أنا بشرٌ مِثْلُکُمْ)
پانچویں خصوصیت
ہماری ثقافت کی ایک اور اہم ترین خصوصیت اس کی کشادہ ظرفی اور انتہا سے زیادہ مسامحت ہے، جو مذہب کی بنیاد پر قائم کسی بھی ثقافت میں ناپید ہے۔ کسی ایسے شخص کا جو نہ کسی مذہب کا پیرو ہو اور نہ کسی معبود کی پرستش کرتا ہو، تمام مذاہبِ عالم کو ایک نگاہ سے دیکھنا اور ان کے اَتباع کے ساتھ معاملۂ عدل کرنا، کوئی تعجب خیز امر نہیں ہے؛ ہماری تو پوری ثقافت کی بنیاد ہی مذہب اور اس کے وضع کردہ اصولوں پر ہے؛ لیکن یہ ایک ناقابل انکار سچائی ہے کہ تاریخ میں سب سے زیادہ مسامحت، انصاف، رحم وکرم اور انسانیت کی علمبردار صرف اور صرف ہماری ثقافت ہے اور ہمارے لیے یہ موجبِ صد افتخار ہے کہ ہماری ثقافت کا قِوام صرف ایک مذہب پر ہے؛ مگر اس کی لامحدود وسعتوں میں مذاہبِ عالم کی ثقافت کی سمائی ممکن ہے۔
اسلامی ثقافت کا منبع و مصدر ذات باری تعالیٰ ہے جس کی دی گئی تعلیمات اس کی بنیاد ہیں جبکہ دیگر ثقافتیں انسانی ذہن کی پیداوار ہیں اور ان کی بنیاد عقل انسانی ہے۔ اس بنیاد کے فرق کی وجہ سے اسلامی ثقافت کو دیگر ثقافتوں کے مقابلے میں دوام اور ثبات نصیب ہوا۔ کیوں کہ اسلام نے رہتی دنیا تک رہنا ہے اس لیے جب تک اسلام ہے اسلامی ثقافت بھی رہے گی۔ چونکہ اس کی بنیاد الوہی تعلیمات پر ہے اور خالق کائنات کی تعلیمات فطرت انسانی کے مخالف نہیں ہو سکتیں۔ فطر ت سےاس موافقت نے بھی اس ثقافت کو دیگر پر فوقیت عطا کی ہے۔
ایک اہم خوبی جو اسلامی ثقافت اور دیگر ثقافتوں میں مابہ الامتیاز ہے وہ اپنے اصولوں پر پابند رہتے ہوئے دوسری ثقافتوں اور ثقافتوں کو اپنے اندر سمو لینا ہے۔ اس لیے یہ ثقافت ہر رنگ و نسل کے انسانوں کے لیے یکساں قابل قبول ہے، اور اسی وجہ سے اسے قبول عام بھی حاصل ہے۔
عالمی ثقافتوں کی تاریخ میں ہماری ثقافت کی یہ چند امتیازی خصوصیات ہیں، جب دنیا حکومت وسلطنت، علم وحکمت اور قیادت وسیادت ہر میدان میں ہمارے زیر نگیں تھی، تو انھیں خصوصیات کی بنا پر ہماری ثقافت ہر قوم ومذہب کے باشعور اور ذہنِ رسا رکھنے والے افراد کے قلوب کو اپنی طرف متوجہ کرلیتی تھی؛ لیکن جب اس کا زور جاتا رہا، اس کو گلے لگانے والے اپنی سیہ کاریوں کی وجہ سے پسماندگی کا شکار ہوگئے اور اس کے بالمقابل دوسری ثقافتیں رونما ہوئیں، تو ہماری ثقافت کی قدر وقیمت پر دنیا کی نگاہیں مختلف انداز سے اٹھنے لگیں؛ چناں چہ کچھ لوگ اس کی ہرزہ سرائی کرنے لگے، تو کچھ مدح سرائی اور کچھ لوگ اس کے فضائل شما رکرانے لگے تو کچھ لوگ اس کے رذائل؛ غرضیکہ جتنے منھ اتنی باتیں۔
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
ثقافت ِ اسلامی کا استخفاف کرنے والے ان نام نہاد مسلمانوں کا جواب شاید یہ ہو کہ ثقافت ِ نو کے نقوش، جدید علوم کی دنیا میں اس کی نت نئی ایجادات اور فتوحات کے مقابلے میں ہماری ثقافت ہیچ ہے؛ لیکن ان کا یہ جواب کسی حد تک درست ہوتب بھی دو وجہوں سے اسلامی ثقافت کا استخفاف کسی بھی طرح درست نہیں ہوسکتا۔
پہلی وجہ
یہ ہے کہ ہر ثقافت کے دو عنصر ہوتے ہیں: ایک اخلاقی، دوسرا مادی، جہاں تک مادی عنصر کی بات ہے، تو اس سے کسی کو انکار نہیں ہوسکتا کہ ہر بعد کی ثقافت پہلے کی ثقافت سے اس باب میں سبقت رکھتی ہے، زندگی اور اس کے وسائل کی ترقی کے حوالے سے سنت اللہ یہی رہی ہے؛ لہذا ثقافت گزشتہ سے ان ترقیات کا مطالبہ کرنا، جو ثقافت حاضر کو حاصل ہیں فعل عبث ہے اوراگر یہ درست ہوتو، پھر ہمارے لیے اس بات کی پوری گنجائش ہے کہ ہم اسلامی ثقافت کے پیدا کردہ ان وسائلِ معیشت اور مظاہرِ تمدن کے باب میں جوگزری ہوئی تمام ثقافتوں میں نابود تھیں، ان کی تحقیر و تنقیص کریں؛ لہٰذا اس صداقت کو تسلیم کرلینا چاہئے کہ دنیا کی ثقافتوں کے مابین فرق مراتب کے لیے مادی عنصر کو کبھی بھی بنیاد قرار نہیں دیا جاسکتا۔
رہا اخلاقی عنصر، تو حقیقت یہ ہے کہ یہی عنصر ثقافتوں کو حیاتِ جاوداں عطا کرتا ہے اور اسی کو اپنا کر کوئی بھی ثقافت انسانیت کو خوش بختی سے ہم کنار کرنے اور اسے زندگی کے مصائب اور ہلاکت کے اندیشوں سے نجات دلانے کا فریضہ انجام دے سکتی ہے اوراس میدان میں ہماری ثقافت تمام ثقافت رفتہ وآئندہ پر سبقت رکھتی ہے اور کامیابی کی اس معراج پر پہنچی ہوئی ہے کہ تاریخ کے کسی بھی موڑ پر اس کی نظیر نایاب ہے اور ہماری ثقافت کو خلود بخشنے کے لیے کافی ہے؛ کیوں کہ کسی بھی ثقافت کا آخری مقصد یہی ہوتا ہے کہ وہ انسانیت کی سعادت کا ہر ممکن سامان فراہم کرے اوریہ کام ہماری ثقافت نے ایسے احسن واکمل طریقے پر انجام دیے ہیں کہ شرق وغرب اور شمال وجنوب کی کوئی بھی ثقافت اس کے عشر عشیر کو بھی نہ پہنچ سکی۔
دوسری وجہ
ان مغرب زدہ ذہنوں کے جواب کے لچر اورنامعقول ہونے اوراس کی بنا پر اسلامی ثقافت کی تحقیر کے درست نہ ہونے کا دوسرا سبب یہ ہے کہ ثقافتوں کے درمیان تقابل کے لیے نہ تو مادی پیمانہ اختیار کرنا چاہیے، نہ کم وکیف اور عدد ومساحت کو معیار بنانا چاہیے اور نا ہی خوراک وپوشاک ومعاش کو؛ بل کہ ان کے درمیان تقابل ان کے آثار کے ذریعہ کیا جانا چاہیے، جو انسانی تاریخ میں اس ثقافت کی باقیات ہیں۔
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
اسلامی ثقافت میں تحفظ ماحول کی اہمیت
تحفظ ماحول کی جدید اصطلاح قریب چالیس سال قبل وجود میں آئی تھی لیکن اسلام میں اس کا مفہوم شروع سے ہی موجود ہے۔ اسلام میں ماحولیاتی تحفظ کے بارے میں اصل یہ ہے کہ پوری کائنات کا خالق ایک ہے اور ایک مذہب کے طور پر اسلام میں یہ بات بھی واضح کردی گئی ہے کہ اس کرہ ارض پر انسانوں کو کس طرح رہنا چاہیئے۔
"ہمیں خدا تعالیٰ کی تخلیقات کی حفاظت کا حکم دیا گیا ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ مسلمانوں کی مقدس کتاب قرآن میں تحفظ ماحول کوایک خصوصی موضوع کے طور پر لیا گیا ہو بلکہ قرآن کے ذریعے مسلمانوں کو یہ بھی بتا دیا گیا ہے کہ مثال کے طور پر انہیں جانوروں سے کیسا سلوک کرنا چاہیئے۔ اس کے علاوہ قدرتی وسائل کے استعمال میں بھی احتیاط برتنے کا حکم ہے اور یہاں تک کہا گیا ہے کہ وضو کرتے وقت بھی پانی ضائع نہ کیا جائے۔"
اس امر کی وضاحت کرتے ہوئے کہ اسلام اسراف سے منع کرتا ہے اور اسی لئے اسے گناہ سے بھی تعبیر کیا گیا ہے، جرمنی میں ترک مسلمانوں کی ایک مسجد کے امام Ender Cetin کہتے ہیں کہ قدرتی وسائل کے استعمال اور انسانوں کی ماحولیاتی ذمہ داریوں کے حوالے سے یہ بات بہت اہم ہے کہ اسلام فطرت کی پیدا کردہ ہر شے کے استعمال میں احتیاط پسندی کا حکم دیتا ہے۔
وہ کہتے ہیں: یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ مسلم دنیا کے مقابلے میں چند شعبوں میں مغربی ممالک اسلامی اصولوں پر زیادہ کاربند نظر آتے ہیں۔ اگر تحفظ ماحول ہی کی مثال لی جائے تو یہ خواہش بھی کی جاسکتی ہے کہ گرین پیس جیسی بین الاقوامی تنظیمیں مسلم ریاستوں میں بھی اتنی ہی فعال ہوں جتنی کہ وہ مگربی ملکوں میں ہیں۔"
Cetin کے خیال میں مغربی ملکوں میں پیدا ہونے والے مسلمان بچوں میں ماحولیاتی تحفظ کا شعور اپنے والدین کی نسل کے مقابلے میں قدرے زیادہ ہے۔
"دینی تعلیم یا سماجی تربیت کے دوران جب ایسے بچوں کو صفائی اور ماحول کو آلودگی سے بچانے کے بارے میں کچھ بتایا جاتا ہے تو وہ اسے اچھی طر‌ح ذہن نشین کرلیتے ہیں اور اس پر عمل کرنے کی کوشش بھی کرتے ہیں۔ یہ بچے فرش پر نہ تو کوڑا پھینکتے ہیں اور نہ ہی وہ زمین پر تھوکتے ہوئے نظر آئیں گے۔ معاشرتی تربیت کے حوالے سے یہ بظاہر چھوٹی چھوٹی لیکن دوررس نتائج کی حامل کامیابیاں ہیں۔"
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
غیر اسلامی ثقافتی یلغار
اس کی اہمیت کسی پر پوشیدہ نہیں ہے ؛ اس لئے کہ اب وہ پچھلے زمانے کی صدیاں نہیں ہے جس میں دشمن اپنی فوجی یلغار کے لئے کئی سرحدوں کو عبور کرکے اپنے مقصد تک پہنچے ۔ جس صدی میں ہم زندگی کررہے ہیں ، یہ ثقافتی یلغار اور ثقافتی تصادم کی صدی ہے ، مواصلاتی نظام یا جدید ٹیکنالوجی نے دنیا کو گلوبل ولیج یا بہتر کہوں ہوم ولیج میں تبدیل کردیا ہے ۔ اب دشمن اس کے ذریعے کسی شور و شرابے کے بغیر ممالک بلکہ گھروں تک کو پہنچ چکا ہے ۔ جس کی وجہ سے مسلم معاشرے میں خصوصا نسل جوان مغربی ثقافتی کے دلدل میں غرق ہوتے جارہے ہیں ، ہمارے جوانوں کی سوچ ، گفتار و کردار کو لوٹا جارہا ہے ۔ اب ان حالات میں اپنے جوانوں کو غرق ہونے سے بچانے کے لئے ، کیا اب بھی دینی و سیاسی لیڈروں اور دیگر ذمہ دار افراد سے لیکر گھر کے والدین تک خصوصا علماء و دانشمندوں کا وظیفہ سنگین نہیں ہوا ہے ؟
وہ کون سے اقدامات کئے جائیں اور کیا طریقہ کار استعمال کیا جائے کہ جس سے مغربی ثقافت کو روکا جائے ؟
کیا ہمارے پاس اس ثقافتی یلغار سے روکنے کے لئے کوئی واضح اور روشن راستے نہیں پائے جاتے ہیں ؟
کیوں نہیں ، ہمارے پاس الہی اور اسلامی ثقافت ہے کہ جسے صحیح انداز میں زندہ اور اجاگر کرنے کے لئے اسلامی تعلیمات کو عملا فروغ دینے کی ضرورت ہے اور نسل جوان کو مغربی ثقافت کی ثقافت و تمدن کو اپنانے سے اس کے نقصانات کو خود انہیں کے اپنے ہاتھ سے بنائے مختلف ذرائع اور وسائل سے آگاہ کرنے کی ضرورت ہے ۔
اب یہ سوال ذہن میں آتا ہے کہ مغرب والے اپنے ثقافتی یلغار کا اصلی مقصد جوانوں کو کیوں ٹارگٹ قرار دیتے ہیں ؟
وہ اس لئے کہ کیونکہ دشمن نے یہ خوب جان لیا ہے کہ جوان طبقہ ہر معاشرے کے لئے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے ، قوم و ملت کا بڑا سرمایہ شمار ہوتا ہے ، قدرت طلبوں کے راہ میں رکاوٹ بنتا ہے ۔
اس بناء پر ثقافتی یلغار کے موضوع سے متعلق جوانوں کے محور پر تحقیق کرنا ضروری سمجھا گیا ہے ۔ ہاں البتہ یہ بات قابل ذکرہے کہ ثقافتی یلغار کا موضوع بہت وسیع ہے ، تفصیل سے بیان کرنا اس مضمون کی گنجائش سے باہر ہے ؛ لذا کوشش کی گئی ہے کہ صرف جوانوں سے متعلق ثقافتی یلغار کے چند عوامل اور اسباب اور اس سے روکنے کے لئے پیشگی اقدامات کی بہت ہی مختصر وضاحت کی جائے ۔
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
ثقافتی یلغار کے مقاصد
حملہ آور اپنے مقاصد کو دیگرممالک میں پیادہ کرنے کے لئے مندرجہ ذیل حربے یا ہتھکنڈے استعمال کرتا ہے
1۔ فوجی ، ۲۔ سیاسی ، ۳۔اقتصادی ، ۴۔ ثقافتی
البتہ یہ جان لینا چاہئے کہ مذکورہ مقاصد ہر زمانے کے اپنے شرائط کے مطابق کبھی ایک ، کبھی دو تو کبھی سب ہی استعمال کئے جاتے ہیں ۔اب ان حربوں میں سے تجربے کے ذریعے جو سب سے زیادہ عامل مؤثر واقع ہوا ہے وہ ثقافتی یلغار کا ہے ۔یہی وجہ ہے کہ آج کے دنیا کے مستکبرین اپنے پورے تسلط کے لئے صرف ثقافتی یلغار کا استعمال زیادہ کررہے ہیں ؛ کیونکہ اس کو بغیر کسی شور مچائے انجام دیا جاتا ہے ۔
کسی بھی سماج یا معاشرہ کی اپنی ایک پہچان ہوا کرتی ہے جس کے ذریعے اُسے پہچانا جاتا ہے ۔ آج کل مغرب کی شناخت اور پہچان اس کی ٹیکنالوجی ہے ، لیکن اسلامی معاشرے کی پہچان ، دینداری ، اخلاق ، عقلانیت اور معنویت ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ دشمن کئی صدیوں سے اس کو ختم کرنے کے لئے مد مقابل صف آرائی کئے ہوئے ہیں اور کبھی پیچھے ہٹنے والا نہیں ہے۔
 
Top