• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اسلامی خطبات از فضیلۃ الشیخ عبد السلام بستوی رحمہ اللہ

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
بسم اللہ الرحمن ا لرحیم
خطبہ ــ 1
اخلاص کے بیان میں
الحمد للہ نحمدہ و نستعینہ و نستغفرہ و نؤمن بہ ونتوکل علیہ ونعوذ باللہ من شرور انفسنا ومن سیئات اعمالنا من یھدہ اللہ فلا مضل لہ ومن یضللہ فلا ھادی لہ و نشھدان لاالہ الا اللہ وحدہ لا شریک لہ ونشھد ان محمدا عبدہ و رسولہ ارسلہ بالحق بشیرا و نذیرا اما بعد فان خیر الحدیث کتاب اللہ و خیر الھدی ھدی محمد ﷺ و شرالامور محدثاتھا و کل محدثۃ بدعۃ و کل بدعۃ ضلالۃ و کل ضلا لۃ فی النار ط من یطع اللہ و رسولہ فقد رشد ومن یعصھما فانہ لا یضر الا نفسہ اَعُوْذُ بِاللہ ِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ، بِسْمِ اللہ ِ ا لرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ وَمَآ اُمِرُوْآاِلَّا لِیَعْبُدُوا اللہَ مُخْلِصِیْنَ لَہُ الدِّیْنَ حُنَفَآئَ وَیُقِیْمُوا الصَّلٰوۃَ وَیُؤتُواالزَّکٰوٰۃَ وَذٰلِکَ دِیْنُ الْقَیِّمَۃِ o (البینۃ: ۵)
سب تعریف اللہ کے لیے ہے، ہم سب اس کی خو بی بیان کرتے ہیں اور اسی سے مدد اور معافی چاہتے ہیں اور اسی پر ایمان لاتے ہیں اور اسی پر بھروسہ رکھتے ہیں ا ور اپنے نفسوں کی برائی ا ور اپنے کاموں کی برائی سے اللہ ہی کی پناہ چاہتے ہیں کیونکہ جس کو خدا راہ پر لگا دے اس کو کوئی بے راہ کرنے والا نہیں اور جس کو بے راہ کر دے اسے کوئی راہ بتانے والا نہیں ہے، ہم سب اس کی گواہی دیتے ہیں، کہ اللہ ہی ایک سچا معبود ہے، اس کے ساتھ کوئی شریک نہیں ہے، وہ ا کیلا ہے، اور اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس کے بندے اور رسول ہیں، آپ کو حق کے ذریعہ خوشخبری سنانے والا اور ڈرانے والا بنا کے بھیجا اس کے بعد یہ معلوم کرو، کہ اللہ کی کتاب سب کتابوں سے بہترہے، اور محمد ﷺ کا طریقہ سب طریقوں سے ا چھا ہے، اور سب کاموں سے برے کام دین میں نئے کام ہیں، اور ہر نیا کام بدعت ہے، اور ہر بدعت گمراہی ہے، ا ور ہر گمراہی دوزخ کی طرف لے جانے والی ہے جو شخص ا للہ اور اس کے رسول کی فرمانبرداری کرے گا، وہ کامیاب ہوگا، اور جو ان دونوں کی نافرمانی کرے گا، وہ اپنا ہی نقصان کرے گا، میں اللہ کے ذریعہ پناہ چاہتا ہوں شیطان مردود سے، اور اللہ کے نام سے شروع کرتا ہوں جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے، اور انہیں صرف یہی حکم دیا گیا تھا، کہ صرف اللہ ہی کی عبادت کریں اس کے لیے دین کو خالص رکھیں ایک طرف ہو کر، اور نماز قائم رکھیں، اور زکوۃ ادا کریں یہی مضبوط دین ہے۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
یعنی اللہ تعالیٰ نے تمام نبیوں اور رسولوں کو یہی حکم دیاتھا، کہ اخلاص کے ساتھ صرف ایک اللہ کی عبادت کرو۔
عربی لغت میں اخلاص کے معنی خالص کرنے کے ہیں، اور اسلامی محاورہ میں اس نیک کام کو کہتے ہیں جو صرف اللہ تعالیٰ کی خوشنودی ہی کے لیے کیاجائے اس میں ریا و نمود اور اپنی دنیاوی غرض اور طلب شہرت یا طلب معاوضہ اور حصول منفعت وغیرہ کے لیے ہر گز نہ ہو، اسی کو احسان بھی کہتے ہیں، حدیث شریف میں ہے، کہ حضرت جبرئیل ؑ نے نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے فرمایا:
فَاَخْبِرْنِیْ عَنِ الْاِحْسَانِ قَالَ اَنْ تَعْبُدَ اللہَ کَاَنَّکَ تَرَاہُ فَاِنْ لَّمْ تَکُنْ تَرَاہُ فَاِنَّہٗ یَرَاکَ (بخاری)
مجھے احسان کے متعلق بتائیے، تو رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، کہ احسان یہ ہے، کہ تم خدا کی عبادت اس طرح کرو گویا تم خدا کودیکھ رہے ہو، اگر تم نہیں دیکھتے، تو وہ تم کو ضرور دیکھ رہا ہے۔
ہر عبادت کا دارومدار اسی ا حسان اور اخلاص پر ہے، ایمان اور دیگر اسلامی ارکان کی قبولیت اسی اخلاص پر موقوف ہے، قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
فَاعْبُدِ اللہَ مُخْلِصًا لَّہُ الدِّيْنَ۝۲ۭ (سورۃ الزّمر)
یعنی اللہ کی عبادت و اطاعت دل سے اور خلوص اعتقاد سے کرو۔
عبادت قلبی،بدنی، روحانی، مالی اور ہر قسم کی اطاعت میں ا خلاص پہلا رکن اعظم ہے،ایمان میںبھی ا خلاص پہلا رکن ہے، اگر ایمان میں ا خلاص نہیں، تو وہ نفاق ہے، قرآن مجید میں مشرکین و منافقین کو اس لیے برا کہا گیا ہے، کہ وہ نیک کاموں میں ریا و نمود کے طور پر دوسروں کو بھی شریک کر لیا کرتے تھے، لاالہ الا اللہ کا یہی مطلب ہے، کہ اللہ ہی سچا معبود ہے،اور ہم سب اس کے بندے اور غلام ہیں تو بندگی ا ور غلامی کا یہی تقاضا ہے، کہ جو بھی نیک کام کرے وہ صرف اپنے معبود آقا کے لیے ہو، اس میں اسی کی مرضی مقصود ہو، اور اس کے علاوہ کسی ا ور کو خوش کرنا نہ ہو۔
قرآن مجید اور حدیث شریف میں اخلاص کی بڑی اہمیت بیان کی گئی ہے اور سب رسولوں کو اسی کام کے لیے مبعوث کیا گیا تھا، جیسا کہ فرمایا:
وَمَآ اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ مِنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا نُوْحِيْٓ اِلَيْہِ اَنَّہٗ لَآ اِلٰہَ اِلَّآ اَنَا فَاعْبُدُوْنِ۝۲۵ (الانبیاء:۲۵)
اور آپ سے پہلے جتنے رسول ہم نے بھیجے، سب کی طرف یہی حکم بھیجا، کہ میرے سوا کوئی سچا معبود نہیں، لہٰذا تم سب میری عبادت کرو۔
اخلاص بہت بڑی چیز ہے جس نے ا خلاص حاصل کر لیا اس نے نفس پر قابو پا لیا، ا ور جس نے نفس پرقابو پا لیا، اس نے خدا کو راضی کر لیا، درحقیقت انسان کا بہت بڑا دشمن خود اس کا نفس ہے، یہی برائیوں کی طرف لے جاتا ہے، بلکہ بسا اوقات اپنے نفس کی خود پوجا کرتا ہے۔ جیسا کہ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
اَرَءَيْتَ مَنِ اتَّخَذَ اِلٰـہَہٗ ہَوٰىہُ۝۰ۭ (الفرقان:۴۳)
تم نے اس کو بھی دیکھا کہ جس نے ا پنی خواہشات کو معبود بنا لیا ہے۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
یہ نفس ہر کام کو اپنی مرضی کے مطابق کرنا کرانا چاہتا ہے، اور اللہ تعالیٰ اپنی مرضی کے مطابق کرانا چاہتا ہے، تو جب انسان ہر کام کو اللہ کے لیے ا ور اللہ کی مرضی کے مطابق کرے گا، تو گویا نفس کی خواہش کو اس نے کچل دیا اور اس کے کچلنے سے نفس کی خواہش و قوت ٹوٹ جاتی ہے، اسی نفس کشی کا نام عبادت و اطاعت ہے، پس اخلاص ہی سے ضبط نفس کی صفت و حقیقت پیدا ہوتی ہے، ا ور یہ بہت بڑی چیز ہے ساری عبادتوں میںرکن اعظم اور جزولاینفک ہے، بغیر اخلاص کے کوئی عبادت اللہ کے نزدیک مقبول نہیں ہے اس لیے قرآن مجید میں فرمایا:
قُلْ اِنِّىْٓ اُمِرْتُ اَنْ اَعْبُدَ اللہَ مُخْلِصًا لَّہُ الدِّيْنَ۝۱۱ۙ وَاُمِرْتُ لِاَنْ اَكُوْنَ اَوَّلَ الْمُسْلِمِيْنَ۝۱۲ قُلْ اِنِّىْٓ اَخَافُ اِنْ عَصَيْتُ رَبِّيْ عَذَابَ يَوْمٍ عَظِيْمٍ۝۱۳ قُلِ اللہَ اَعْبُدُ مُخْلِصًا لَّہٗ دِيْنِيْ۝۱۴ۙ فَاعْبُدُوْا مَا شِئْتُمْ مِّنْ دُوْنِہٖ۝۰ۭ(الزمر:۱۱ تا ۱۵)
آپ فرما دیجیے، کہ مجھے حکم دیا گیا ہے، کہ میں اطاعت گزاری کو اللہ کے لیے خالص کر کے اس کی عبادت کروں، اور مجھے حکم دیا گیا ہے، کہ میں پہلا فرمانبردار بنوں، کہہ دیجیے کہ میں ڈرتا ہوں اگر اپنے پروردگار کی نافرمانی کروں بڑے دن کے عذاب سے فرما دیجیے کہ اللہ ہی کی عبادت کرتا ہوں، اپنی اطاعت گزاری کو اس کے لیے خالص کر کے، تو تم اے نافرمانو! خدا کو چھوڑ کر جس کی چاہو عبادت کرو۔
اس سے معلوم ہوا کہ ہر قلبی، لسانی و مالی عبادت و اطاعت کا پہلارکن اعظم اخلاص ہی ہے جو خالص ا للہ ہی کے لیے ہو، اس میں کسی قسم کی ظاہری و باطنی بت پرستی و نفسانی خواہشات کو دخل نہ ہو، بلکہ محض اللہ تعالیٰ کی رضا مندی ہو، ا ور بس۔
ہم جو کام کرتے ہیں اس کی دو صورتیں ہیں، ایک مادی جو ہمارے جسمانی ا عضاء کی حرکت سے پیدا ہوتی ہے، اور دوسری روحانی، جس کا تخیل ہمارے دل کے ارادہ، نیت ا ور کام کی اندرونی غرض و غایت سے تیار ہوتا ہے، کام کی بقا اور برکت دین و دنیا دونوں میں اسی روحانی پیکر کے حسن و قبح اور ضعف و قوت کی بنا پر ہوتی ہے، انسانی اعمال کی پوری تاریخ اس دعویٰ کے ثبوت میں ہے، اسی لیے اس اخلاص کے بغیر اسلام میں نہ تو عبادت قبول ہوتی ہے اور نہ اخلاق و معاملات عبادت کا درجہ پاتے ہیں، اس لیے ضرورت ہے، کہ ہر کام کے شروع کرتے وقت ہم ا پنی نیت کو غیر مخلصانہ غرض و غایت سے پاک و صاف رکھیں، اسی نکتہ کی طرف رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے۔
اِنَّمَا الْاَعْمَالُ بِالنِّیَّاتِ وَ اِنَّمَا لِکُلِّ امْرِیءٍ مَّا نَوٰی فَمَنْ کَانَتْ ھِجْرَتُہٗ اِلٰی دُنْیَا یُصِیْبُھَا اَوْ اِلَی امْرَأَۃٍ یَنْکِحُھَا فَھِجْرَتُہٗ اِلٰی مَاھَاجَرَ اِلَیْہِ۔ (بخاری)
سب کاموں کا دارومدار نیتوں پر ہے، اور ہر انسان کے لیے وہی ہے جس کی اس نے نیت کر لی ہے، پس جو حصول دنیا کے لیے یا کسی عورت سے نکاح کرنے کی غرض سے ہجرت کرے تو اس کی ہجرت اسی کام کے لیے ہے۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
یعنی نیک کاموں کی صحت ا ور اعتبار نیت پر موقوف ہے، اگر نیت اچھی ہے، اور وہ کام صرف خدا ہی کے لیے ہے، تو وہ مقبول ہے، اگر نیت اچھی نہیں ہے، ا ور اس کام کی بنیاد اخلاص پر نہیں ہے، تو وہ مردود ہے، ہجرت کا بہت بڑا درجہ ہے، اگر اللہ تعالیٰ کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے ہو، تو ثواب ہے، اور اگر حصول زر یا کسی عورت سے شادی کی غرض سے ہو، تو بس اسی کے لیے ہجرت ہے، اللہ تعالیٰ کے لیے نہیں، اسی اخلاص کو تقویٰ کے ساتھ تعبیر کیا گیا ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
لَنْ یَّنَالَ اللہَ لُحُوْمُھَا وَلاَ دِمَآئُ ھَا وَلٰکِنْ یَّنَالُہُ التَّقْویٰ مِنْکُم۔ (الحج:۳۷)
اللہ کو قربانیوں کے گوشت نہیں پہنچتے، ا ور نہ ان کے خون، بلکہ اسے تو تمہارے دلوں کی پرہیزگاری پہنچتی ہے۔
وہ کھاتا پیتا نہیں ہے، وہ ان سب چیزوں سے بے نیاز ہے، وہ صرف تمہارے دلوں کے تقویٰ اور اخلاص کو دیکھتا ہے، کہ یہ کام کس ارادے اور نیت سے کیا ہے، اگر دلوں میں اخلاص، خلوص ا ور تقویٰ ہے، تو خوش ورنہ نہیں، جیسا کہ رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:
اِنَّ اللہ َ تَعَالٰی لَا یَنْظُرُ اِلٰی اَجْسَامِکُمْ وَلَا اِلٰی صُوْرِکُمْ وَلٰکِنْ یَّنْظُرُاِلٰی قُلُوْبِکُمْ۔ (صحیح مسلم)
اللہ تعالیٰ تمہارے جسموں اور صورتوں کی طرف نہیں دیکھتا،بلکہ تمہارے دلوں کو دیکھتا ہے۔
کہ تمہارے دلوں میں اخلاص ہے یا نہیں، اگر اخلاص ہے، تو وہ عمل مقبول اور خدا خوش ہے، اور اگر اخلاص نہیں تو خدا ناخوش ہے، دراصل ایمان ا ور اخلاص دونوں ایک ہی ہیں، کیونکہ لاالہ الا اللہ ایمان ہے اور اس میں ہر غیر مخلصانہ کام کی نفی ہے، اس لیے یہی اخلاص بھی ہے، رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وسلم سے ایک شخص نے دریافت کیا کہ:
یَا رَسُوْلَ اللہ ِ مَا الْاِیْمَانُ قَالَ الْاِخْلَاصُ (بیہقی، ترغیب)
اے اللہ کے رسول ایمان کیا ہے؟ آپﷺ نے فرمایا: اخلاص۔
اخلاص والے سے اللہ تعالیٰ خوش رہتاہے، رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ:
مَنْ فَارَقَ الدُّنْیَا عَلٰی اِخْلَاصٍ لِلہِ وَحْدَہٗ لَا شَرِیْکَ لَہٗ وَاَقَامَ الصَّلٰوۃَ وَاٰتَی الزَّکٰوۃَ فَارَقَھَا وَاللہُ عَنْہُ رَاضٍ(ابن ماجہ)
جو دنیا سے اس حال میں رخصت ہو، کہ اللہ وحدہ لا شریک کے لیے اخلاص والا ہو اور نماز پڑھتا ہو اور زکوۃ دیتا ہو تو اللہ تعالیٰ اس سے راضی ہے۔
اخلاص والوں ہی کی برکت سے دنیا قائم ہے، اور ان ہی کی برکت سے لوگوں کی امداد ہوتی ہے۔رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ:
اِنَّمَا یَنْصُرُاللہُ ھٰذِہِ الْاُمَّۃَ بِضَعِیْفِھَا بِدَعْوَتِھِمْ وَصَلَاتِھِمْ وَاِخْلَاصِھِمْ ۔ (نسائی شریف)
اللہ تعالیٰ امداد کرتا ہے، اس امت کی ان کے ضعیفوں کی دعاؤں، ا ور ان کی نمازوں، اور ان کے ا خلاص کی برکت سے۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
طُوْبٰی لِلْمُخْلِصِیْنَ اُوْلٰئِکَ مَصَابِیْحُ الْھُدٰی وَتَنْجَلِیْ عَنْھُمْ کُلُّ فِتْنَۃٍ ظَلْمَآء ۔ (بیہقی)
مبارک اور خوشخبری ہو، اخلاص والوں کیلئے جو ہدایت کے چراغ ہیں، ان ہی کے ذریعہ تمام سیاہ فتنے دور ہو جاتے ہیں۔
خلوص نیت کے ساتھ کام کرنے سے دین و دنیا دونوں جہان میں سرخ روئی حاصل ہوتی ہے۔ دنیا میں ہر شخص ان سے محبت کرتا ہے، اور بغیر شہرت چاہے شہرت نصیب ہوجاتی ہے، وہ سب کے محسن شمار ہوتے ہیں، ان کے اخلاص کے سر چشمے سے لوگ فیض یاب ہوتے ہیں، ان کے خلوص کے روشن چراغ سے فائدہ اٹھاتے ہیں، ان کے خلوص کے فیض و برکت سے سخت سے سخت فتنے دب جاتے ہیں، آفتیں ا ور مصیبتیں دور ہو جاتی ہیں، ان کی تھوڑی نیکی بھی کافی ہو جاتی ہے، حضرت معاذ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جس وقت رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وسلم مجھے یمن کا گورنر بنا کر بھیجنے لگے، تو میں نے عرض کیا۔
یَارَسُوْلَ اللہَ اَوْصِنِیْ قَالَ اَخْلِصْ دِیْنَکَ یَکْفِکَ الْعَمَلُ الْقَلِیْلُ۔ (الحاکم، ترغیب)
اے اللہ کے رسول مجھے کچھ وصیت فرمائیے آپﷺ نے فرمایا اپنے دین میں اخلاص رکھو، تھوڑا کام بھی تم کو کافی ہوگا۔
خالص عملوں کے وسیلہ سے اگر آئی ہوئی مصیبت کے دور کرنے کے لیے دعا کی جائے،تو اللہ تعالیٰ اخلاص والے عملوں کی برکت سے اس مصیبت کو ہٹا دیتا ہے، اس کا اندازہ ذیل کی سچی حکایت سے کر سکتے ہیں، رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، کہ پہلے زمانے کے تین آدمی جا رہے تھے، رات کا وقت ہوا، ادھر بارش ہونے لگی تو ان تینوں نے بارش سے بچنے کے لیے ایک پہاڑ کے غار میں پناہ اختیار کی اتفاقاً ا وپر سے ایک چٹان پتھر کی گری، جس سے غار کا منہ بند ہوگیا، تو ان لوگوں نے کہا:
لَایُنْجِیْکُمْ مِّنْ ھٰذِہِ الصَّخْرَۃِ اِلَّا اَنْ تَدْعُوا اللہَ تَعَالیٰ لِصَالِحِ اَعْمَالِکُمْ۔
اس بڑی چٹان سے نجات پانے اور بچنے کا سوائے اس کے اور کوئی ذریعہ نہیں ہے،کہ تم اپنے نیک ا ور خالص عملوں کے وسیلہ سے اللہ تعالیٰ سے دعا کرو۔
تو ان میںسے ایک نے کہا، خدایا! میرا گزارہ صرف بکریوں پر تھا،بکریاں چراتا تھا، اور ان ہی کے دودھ سے تمام گھروالوں کی پرورش کرتا تھا، چونکہ میرے ماں باپ بہت بوڑھے ہوچکے تھے، اس لیے میں ان سے پہلے کسی گھر والے کو دودھ نہیں پلاتا تھا، بلکہ پہلے ان کو پلاتا، پھر بال بچوں کو پلاتا، اتفاق سے ایک روز مجھے درختوںکے پتے لینے کے لیے دور جانا پڑا، اور میں اتنی دیر میں واپس آیا، کہ والدین سو چکے تھے میں نے حسبِ دستور دودھ دوہا، والدین کے حصہ کا دودھ لے کر ان کی خدمت میں حاضر ہوا، تو وہ دونوں چونکہ سو گئے تھے، ادب کی وجہ سے جگانا مناسب نہ سمجھا، اور بغیر ان کے پلائے کسی گھر والے کو پلانا مناسب بھی نہیں سمجھتا تھا، نتیجہ یہ ہوا کہ دودھ کا کٹورا لیے میں ان کے سرہانے کھڑا ہوگیا، کہ جب ان کی آنکھ خود بخود کھلے گی، تو دودھ پیش خدمت کروں گا، اس انتظار میں صبح ہوگئی، اور میرے بچے بھوک کی وجہ سے بلبلا رہے تھے، مگر ان کی میں نے کچھ پروا نہ کی، جب یہ صبح کو بیدار ہوئے تو دودھ پیا۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
''اَللّٰھُمَّ اِنْ کُنْتُ فَعَلْتُ ذٰلِکَ ابْتِغَآئَ وَجْھِکَ فَفَرِّجْ عَنَّا مَا نَحْنُ فِیْہِ''۔
اے اللہ ! اگر میں نے اس کام کو تیری خوشنودی اور تیری مرضی کے لیے کیا ہو،تو اس چٹان کو ہٹا دے۔
چنانچہ اس اخلاص عمل کی وجہ سے فوراً وہ چٹان صرف اتنی ہٹی، کہ وہ باہر نہیں نکل سکتے تھے، اس لیے دوسرے کی باری آئی، اور دوسرے نے کہا، کہ
اے اللہ! تو خوب جانتا ہے، کہ مجھ کو اپنے چچا کی لڑکی سے بہت محبت تھی، اور میں اس سے اپنی خواہش پوری کرنا چاہتا تھا، وہ بچتی رہی اور میرے قبضے میں نہیں آئی، یہاںتک کہ ایک سال قحط سالی کے زمانے میں معاشی حالت خراب ہوگئی، بہت مجبور ہو کر وہ میرے پاس آئی اور قرض کی درخواست کی، میں نے اس کو ایک سو بیس دینار اس شرط پر دیے، کہ وہ اپنے آپ کو میرے حوالے کر دے، اور میری مراد پوری کر دے وہ اس کام پر رضا مند ہوگئی، جب میں ہر طرح اس پر قابو پاچکا، اور اس برے کام کے لیے بالکل آمادہ ہوگیا، تو اس نے کہا: ''اتق اللہ''، خدا سے ڈرجا، اور ناحق اس مہر کو مت توڑیہ تیرے لیے حلال نہیں، میں اس سے ہٹ گیا، حالانکہ مجھے اس سے بہت محبت تھی،اور ان ا شرفیوں کو بھی بلا معاوضہ چھوڑ دیا۔
''اَللّٰھُمَّ اِنْ کُنْتُ فَعَلْتُ ذٰلِکَ ابْتِغَآئَ وَجْھِکَ فَفَرِّجْ عَنَّا مَا نَحْنُ فِیْہِ''۔
الٰہی! اگر میں نے اس کام کو محض تیری رضامندی کے لیے کیا ہو تو اس چٹان کو ہم سے ہٹادے، جس میں ہم گھرے ہوئے ہیں۔
چنانچہ وہ چٹان کچھ اور ہٹ گئی،لیکن نکلنے کے قابل راستہ نہ ہو سکا، اس لیے تیسرے کی باری آئی اس نے کہا،
اے اللہ! میں نے ایک مرتبہ مزدوروں سے کچھ کام لیا، سوائے ایک کے سب کی مزدوری دے دی، وہ ا پنی مزدوری کو چھوڑ کر چلا گیا، میں نے اس کی مزدوری کو زراعت پر لگا دیا، اور اس سے بہت ترقی ہوگئی، ایک زمانہ کے بعد وہ مزدور آیا، اور اپنی مزدوری طلب کی، میں نے اس سے کہا، یہ سب کچھ اونٹ، گائے، بیل، بکریاں اور غلام وغیرہ سب تیرے ہیں، سب لے جا، اس نے کہا، اے اللہ کے بندے مجھ سے مذاق نہ کر، میں نے کہا، میں مذاق نہیں کرتا، جب اس کو یقین آگیا، تب وہ سب کچھ لے کر چلاگیا۔
ا''َللّٰھُمَّ اِنْ کُنْتُ فَعَلْتُ ذٰلِکَ ابْتِغَآئَ وَجْھِکَ فَاَفْرِجْ عَنَّا مَا نَحْنُ فِیْہِ''۔
اے اللہ ا گر میں نے اس کام کو تیری رضامندی کے لیے کیا ہو، تو اس چٹان کو ہٹا دے، تاکہ ہم باہر نکل جائیں۔
چنانچہ وہ چٹان اور ہٹ گئی، اور سب باہر نکل آئے۔ (بخاری شریف)
آپ نے اس اخلاص عمل کے اثر کو دیکھا کہ اخلاص نے ان کی مصیبتوں کودور کر دیا، اللہ تعالیٰ اخلاص کو قبول فرماتا ہے اور اسی سے خوش ہوتا ہے، حدیث میں نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
اِنَّ اللہَ لَایَقْبَلُ مِنَ الْعَمَلِ اِلَّا مَاکَانَ لَہٗ خَالِصًا وَّابْتُغِیَ بِہٖ وَجْہُ اللہِ (طبرانی، ترغیب)
اللہ تعالیٰ اس عمل کو قبول فرماتا ہے،جو خالص اسی کے لیے کیا گیا ہو، اور اس کی رضامندی چاہی گئی ہو۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
خالص اور سچی نیت پر ثواب ملتا ہے، اگرچہ وہ کام نہ کرے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا، جو شخص نیکی کا ا رادہ کرے، اور وہ اس کام کو کسی وجہ سے نہ کر سکے، تو ایک نیکی کا ثواب لکھا جاتا ہے، اور جو اس کا ا رادہ کرے اور پھر اُس کام کو کر بھی لے تو دس نیکیوں کا ثواب لکھا جاتا ہے، بعض صورتوں میں سات سو نیکیوں کا ثواب لکھا جاتا ہے، اور اگر گناہ کا ارادہ کیا اور اس برے کام کو خدا کے خوف سے نہیں کیا، تو اللہ تعالیٰ ایک نیکی کا ثواب لکھتا ہے، اور اگر اس کام کو کر لیا، تو صرف ایک ہی گناہ لکھا جاتا ہے۔ (بخاری، ترغیب)
اس حدیث شریف سے معلوم ہوا، کہ نیک کام کا ارادہ کرنے سے بھی نیکی کا ثواب لکھا جاتا ہے، اگرچہ اس کام کو نہ کر سکے، اور اگر کرلے، تو اس سے سات سو تک نیکیاں لکھی جاتی ہیں، مثلاً اگر تم آخری شب میں تہجد کا ا رادہ کرو، اور سچی نیت کر لو، لیکن آخر شب میں بیدار نہ ہو سکے، تو تہجد کا ثواب مل جائے گا۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ :
من اتی فراشہ وھو ینوی ان یقوم فغلبتہ عینُہ حتی اصبح کتب لہ مانوی وکان نومہ صدقۃ علیہ من ربہ۔ (ابن ماجہ۔ نسائی)
جو اپنے بستر پر آیا، کہ اس نے یہ نیت کی کہ رات کو اٹھ کر نماز پڑھے گا، لیکن وہ سو جائے ا ور صبح تک آنکھ نہ کھلی تو اس نے جو نیت کی تھی وہ لکھی گئی، اور نیند (سونا) اس کے رب کی طرف سے صدقہ ہے۔
یہ اخلاص کی برکت ہے کہ تہجد کا ثواب بھی نامہ اعمال میں لکھا گیا، اور رات بھر سوتے بھی رہے اور اگر اسی سونے کی حالت میں مر بھی جائے، تو تہجد پڑھنے والوں میں لکھے جائیں گے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ:
انما یبعثون علی نیاتھم۔ (ابن ماجہ)
لوگ اپنی نیتوں پر قیامت کے دن اٹھائے جائیں گے۔
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں، کہ ہم لوگ رسول اللہ ﷺ کے ساتھ غزوہ تبوک سے واپس آرہے تھے، تو آپﷺ نے فرمایا: مدینہ میں کچھ لوگ ایسے رہ گئے تھے، کہ وہ ہر ایک موقع پر اس جنگ میں تمہارے ساتھ ساتھ رہے ہیں، ہم نے عرض کیا یہ کیسے ہوسکتا ہے، آپﷺ نے فرمایا عذر کی وجہ سے وہ رکے رہے ہیں، ورنہ نیت کے اعتبار سے تمہارے ساتھ رہے ہیں، اس لیے وہ بھی اس خلوص نیت کی وجہ سے مجاہدین میں شامل ہیں۔ (بخاری)
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ خلوص نیت کی وجہ سے انسان بڑے بڑے درجے حاصل کرسکتا ہے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ دنیا چار قسم کے لوگوں کے لیے ہے، ایک وہ بندہ جس کو اللہ تعالیٰ نے مال اور علم دیا ہو، اور وہ اس میں اللہ سے ڈرتا ہو، اور صلہ رحمی کرتا ہو، اور جانتا ہو کہ اس مال و علم میں اللہ تعالیٰ کا حق ہے (ان دونوں کے حق ادا کرتا رہے)تو یہ افضل المنازل بڑے مرتبے کے لوگوں میں سے ہے، دوسرا وہ ہے کہ جس کو اللہ نے علم تو دیا، لیکن مال سے محروم ہو فھوصادق النیۃ (اور اس کی نیت سچی ہو) کہتا ہو اگر میرے پاس مال ہوتا تو میں بھی اس طرح اللہ کے راستے میں خرچ کرتا، جس طرح فلاں شخص خرچ کرتا ہے فھو بنیتہ فاجرھماسواء تو یہ اپنی خالص نیت کی وجہ سے، اور پہلا شخص خرچ کرنے والادونوں ثواب میں برابر ہیں، تیسرا وہ شخص ہے، جس کو اللہ تعالیٰ نے مال دیا ہو، اور علم نہیں دیا، تو وہ اپنامال بے قاعدگی کے ساتھ بے سمجھے بوجھے خرچ کرتا ہو، نہ اس میں خدا سے ڈرتا ہو، اور نہ حق والوں کے حق ادا کر کے صلہ رحمی کرتا ہو، اور نہ اس میں ا للہ ہی کے حق کو جانتا ہو، بلکہ نڈر ہو کر شراب و کباب، کھیل تماشا اور ناچ گانوں میں اڑاتا ہو، فھذاباخبث المنازل، تو یہ سب سے بُرے مرتبے والا ہے، چوتھا وہ شخص ہے، جس کو خدا نے نہ تو مال دیا ہو، نہ علم، وہ کہتا ہے، کہ اگر میرے پاس مال ہوتا، تو میں فلاں شخص (قسم سوم) کی طرح خرچ کرتا فھو بنیتہ تو وہ اپنی بری نیت کی وجہ سے خود اور اس سے پہلا شخص دونوں گناہ میں برابر ہیں۔ (احمد، ترمذی)۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
پیارے بھائیو! تم ہر ایک کام میں اخلاص پیدا کرو، جو کام بھی کرو پہلے نیت کو پاک صاف کر لو تاکہ تمہارا کام مقبول ہو، اور تم اپنے مقصد میں کامیاب ہو جاؤ، ریا، نمود، نمائش، دکھاوے سے بچو، ریا کی برائی کے متعلق رسول اللہ ﷺ نے ذیل کی حدیثوں میں فرمایاہے، تم انہیں غور سے پڑھو:
(۱)۔ من صام یرائی فقد اشرک۔
جس نے دکھانے کے لیے روزہ رکھا اس نے شرک کیا۔
(۲)۔ ومن صلی یرائی فقد اشرک۔
اور جس نے دکھانے کے لیے نماز پڑھی، اس نے شرک کیا۔
(۳)۔ ومن تصدق یرائی فقد اشرک۔
اور جس نے دکھانے کے لیے صدقہ و خیرات کیا اس نے شرک کیا۔ (بیہقی، ترغیب)
آپ حضرات کو یہ معلوم ہے کہ شرک بہت بڑا گناہ ہے، اور شرک کرنے والے کو اللہ ہرگز نہ بخشے گا ا ور اس شرک سے سارے اعمال بے کار ہو جاتے ہیں، لہٰذا ریا سے بچنا چاہیے، اس لیے کہ ریا کار سب سے پہلے دوزخ میں جائیں گے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: کہ قیامت کے دن سب سے پہلے شہید کا فیصلہ کیا جائے گا، میدانِ حشر میں خدا کے سامنے لایا جائے گا، اللہ تعالیٰ اپنی نعمتوں کی پہچان کرائے گا، وہ پہچان لے گا، تب اللہ تعالیٰ فرمائے گا: ''فماعملت فیھا'' تم نے ان نعمتوں کے مقابلہ میں کیا عمل کیا؟ شہید جواب دے گا: ''قاتلت فیک حتی استشھدت'' یعنی میں نے تیری راہ میں جہاد کیا، یہاںتک کہ میں شہید کر دیا گیا، اللہ تعالیٰ فرمائے گا'' کذبت'' تو جھوٹ بکتا ہے، میری راہ میں میری خوشنودی کے لیے جہاد نہیں کیاہے، بلکہ اس لیے قتال و جہاد کیا ہے، تاکہ لوگ کہیں کہ فلاں شخص کیسا بہادر اور پہلوان ہے ''فقدقیل'' پس یہ تو کہا گیا،اور دنیا میں تیری بڑی تعریف و تو صیف کی گئی۔
ثم امربہ فسحب علی وجھہ حتی القی فی النار۔
پس حکم دیا جائے گا، اور اس کو منہ کے بل گھسیٹ کر جہنم میں ڈال دیا جائے۔
دوسرے قاری اور عالم کا حساب لیا جائے گا، جب وہ خدا کے سامنے پیش ہوگا، اللہ تعالیٰ اپنی نعمتوں کی پہچان کرائے گا، وہ پہچان لے گا، پھر اللہ تعالیٰ فرمائے گا ''فما عملت فیھا''تم نے کیا عمل کیا؟ ان نعمتوں کی کیا شکر گذاری کی؟ وہ جواب دے گا، میں نے علم کو سیکھا اور سکھایا، اور آپ کی رضامندی کے لیے قرآن شریف پڑھا، اللہ تعالیٰ فرمائے گا ''کذبت'' تو جھوٹ بولتا ہے، تو نے یہ کام میرے لیے نہیں کیا، بلکہ اس لیے کیا کہ لوگ تجھے عالم اور قاری کہیں ''فقدقیل'' پس تو یہ کہا گیا، اور تیرا مقصد پورا ہوگیا، اس کو بھی منہ کے بل گھسیٹ کر دوزخ میں ڈال دیا جائے گا۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
پھر ایک سخی کو لایا جائے گا، جس کو اللہ تعالیٰ نے بہت ساری دولت اور ہر قسم کا مال دے رکھا تھا وہ اللہ کے سامنے حاضر ہوگا اللہ تعالیٰ اس سے بھی اپنی نعمتوں کی پہچان کرائے گا، وہ پہچان لے گا، اللہ تعالیٰ فرمائے گا: پھر تم نے کیا عمل کیا؟ وہ کہے گا سب تیری راہ میں خرچ کر دیا، اللہ تعالیٰ فرمائے گا: تو جھوٹ کہتا ہے، بلکہ تو نے اس لیے خرچ کیا ہے، تاکہ لوگ کہیں فلاں آدمی سخی ہے، تجھے یہ کہا گیا پھر حکم دیا جائے گا، اور منہ کے بل گھسیٹ کر جہنم میں پھینک دیا جائے گا، یہ فرما کر نبی ﷺ نے فرمایا:
''اولئک الثلثۃ اول خلق اللہ تسعربھم الناریوم القیمۃ''
یہ تینوں سب سے پہلے دوزخ میں ڈالے جائیں گے اور قیامت کے دن جہنم سب سے پہلے انہی تینوں سے بھڑکائی جائے گی۔(ترغیب)۔
نبی ﷺ نے فرمایا:
''الیسیرمن الریاء شرک'' (ترغیب)
معمولی ریا بھی شرک ہے۔
اور یہی شرک اصغر ہے، آپﷺ نے فرمایا: ''مجھے شرک اصغر کا خوف ہے''۔ صحابہ ؓ نے عرض کیا: شرک اصغر کیا ہے؟ آپﷺ نے فرمایا: ریا ا ور دکھاوا، یعنی جو کام لوگوں کے دکھانے کے لیے کیا جائے وہ شرک اصغر ہے۔ (ترغیب، مشکوۃ)
نبی ﷺ نے فرمایا: ''من سمع سمع اللہ بہ'' جو شہرت اور سنانے کے لیے کوئی کام کرے گا، تو قیامت کے دن اللہ اس کے عیبوں کو لوگوں کے سامنے ظاہر فرمائے گا اور لوگوں کو سنا دے گا، کہ یہ شخص دنیا میں ریا کار تھا۔ (بخاری شریف)۔
حدیث قدسی میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے، کہ ''انا اغنی الشرکاء عن الشرک'' میں سب شریکوں کے حصے سے بے نیاز ہوں، جب کوئی ایسا کام کرتا ہے، جس میں دوسروں کو بھی شریک کر لیتا ہے، تو اس کو اور اس کے شریک کو اس کے ساتھ چھوڑ دیتا ہوں، جو حشر شرک کا وہی اس کا بھی۔ (مسلم)
نبی ﷺ نے فرمایا:
''تعوذوا باللہ من جب الحزن''۔
جب حزن (غم کے کنویں) سے تم اللہ کی پناہ مانگو۔
صحابہؓ نے عرض کیا، اے اللہ کے رسول! جب الحزن کیا ہے؟ آپﷺ نے فرمایا: جہنم میں ایک گڑھا ہے جس سے دوزخ روزانہ چار سو مرتبہ پناہ مانگتی ہے، صحابہؓ نے عرض کیا، اے اللہ کے رسول! ومن یدخلہ اس میں کون لوگ داخل ہوں گے، آپﷺ نے فرمایا ''القراؤ المراءون باعمالہم'' (ترمذی) وہ قاری اور پڑھنے والے جو لوگوں کے دکھلانے کے واسطے پڑھتے اور عمل کرتے ہیں، اور آپﷺ نے فرمایا:
''لا یقبل اللہ عملا فیہ مثقال حبۃ من خردل من ریاء''۔
جس عمل میں رائی کے دانہ کے برابر ریا ہوگا، اللہ تعالیٰ اس عمل کو قبول نہیں فرمائے گا۔ (ترغیب)
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
اور نہ اس کا بدلہ دے گا، بلکہ فرمائے گا، جس کو دکھانے کے لیے عمل کیا ہے، اس سے جا کر بدلہ لو۔ نبی ﷺ فرماتے ہیں، قیامت کے دن اللہ تعالیٰ سب کو جمع کرے گا، تو ایک ندا کرنے والا ندا دے گا کہ جس نے ایسا کام کیا ہے، کہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ دوسرے کو بھی شریک کر لیا ہے۔
''فلیطلب ثوابہ من عند غیراللہ''-
تو اس کا ثواب غیر اللہ سے طلب کرے۔
کیونکہ اللہ تعالیٰ تمام شرکاء سے بے نیاز ہے، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
مَنْ كَانَ يُرِيْدُ حَرْثَ الْاٰخِرَۃِ نَزِدْ لَہٗ فِيْ حَرْثِہٖ۝۰ۚ وَمَنْ كَانَ يُرِيْدُ حَرْثَ الدُّنْيَا نُؤْتِہٖ مِنْہَا وَمَا لَہٗ فِي الْاٰخِرَۃِ مِنْ نَّصِيْبٍ۝۲۰ (شوریٰ:۲۰)
جو آخرت کی کھیتی چاہے، تو ہم اس کی کھیتی میں زیادتی کر دیتے ہیں، اور جو دنیا کی کھیتی چاہے تو ہم اسے دنیا میں دے دیتے ہیں، اور اسے آخرت میں کچھ حصہ نہیں ملے گا۔
اور قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ دوسری جگہ فرماتا ہے:
مَنْ كَانَ يُرِيْدُ الْحَيٰوۃَ الدُّنْيَا وَزِيْنَتَہَا نُوَفِّ اِلَيْہِمْ اَعْمَالَہُمْ فِيْہَا وَہُمْ فِيْہَا لَا يُبْخَسُوْنَ۝۱۵ اُولٰۗىِٕكَ الَّذِيْنَ لَيْسَ لَہُمْ فِي الْاٰخِرَۃِ اِلَّا النَّارُ۝۰ۡۖ وَحَبِطَ مَا صَنَعُوْا فِيْہَا وَبٰطِلٌ مَّا كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ۝۱۶ (ھود:۱۵۔۱۶)
جو شخص دنیا کی زندگی اور اس کی زینت کو چاہتا ہے تو دنیا میں ہم اس کو پورا پورا بدلہ بلا کمی کے دے دیتے ہیں، ان لوگوں کے لیے آخرت میں سوائے دوزخ کے کچھ نہیں ہے، ا ور ان کے سارے اعمال اکارت ہوگئے۔
حضرت عمرؓ سے دریافت کیا گیا، کہ اخلاص کیا ہے؟ تو فرمایا: ا خلاص یہ ہے، کہ انسان کی یہ چاہت نہ ہو، کہ لوگ میری تعریف کریں، بلکہ اس کا دلی منشا یہ ہو کہ اللہ تعالیٰ اسے قبول فرمالے اور اسے پسند کرلے۔
سہل بن عبداللہ فرماتے ہیں کہ مخلص اور دیندار آدمی ہی ریا کار کو جان سکتا ہے، ا ور پکا سچا ایماندار ہی نفاق کو پہچان سکتا ہے، حضرت جنید بغدادی فرماتے ہیں:
لو ان عبدا اتی بافتقارادم وزھد عیسیٰ و جھد ایوب واطاعۃ یحیی واستقامۃ ادریس وود الخلیل و خلق الحبیب وکان فی قلبہ ذرۃ لغیراللہ فلیس للہ حاجة۔ (مختصر شعب الایمان)
اگر کوئی شخص حضرت آدم علیٰ نبینا و علیہ السلام جیسی مسکینی اور عاجزی اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام جیسا زہد ا ور تقوی، اور حضرت ایوب علیہ السلام جیسا صبر ا ور حضرت یحییٰ علیہ السلام جیسی اطاعت و فرمانبرداری ا ور حضرت ادریس علیہ السلام جیسی استقامت اور مضبوطی اور حضرت ابراہیم علیہ السلام جیسی محبت خداوندی اور حضرت محمد رسول اللہ ﷺ جیسے ا خلاق پیدا کرے، لیکن اگر اس کے دل کا میلان ایک ذرہ برابر بھی خدا تعالیٰ کے سوا اور کی طرف ہے، اگر ذراسی بھی ریا کاری اور تکبر اس کے پاس ہے،تو اس کے یہ تمام عمل ضبط اور برباد ہیں، خدا کے یہاں ایک بھی مقبول نہیں۔
 
Top