• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اسلامی خطبات از فضیلۃ الشیخ عبد السلام بستوی رحمہ اللہ

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
حضرت زبید فرماتے ہیں، کہ میں تو چاہتا ہوں کہ ہر کام میں انسان کی نیت خداوند کریم کی خوشنودی ہو، یہاں تک کہ کھانے پینے، سونے جاگنے میں بھی۔
آیت قرآنی کُلُّ شَیْءٍ ھَالِکٌ اِلَّاوَجْھَہٗ کی تفسیر میں حضرت سفیان فرماتے ہیں مَا اُرِیْدَ بِہٖ وَجْھُہٗ یعنی تمام چیزیں ہلاک اور فنا ہوجاتی ہیں لیکن مرضی مولیٰ کیلئے جو کام کیے جاتے ہیں، وہ باقی رہ جاتے ہیں، اور قیامت کے دن وہی کام آئیں گے۔

نبی خدا حضرت عیسیٰ علیہ السلام فرماتے ہیں: کہ روزے کے دن داڑھی پر تیل ملو، اور ہونٹوں پر بھی تاکہ تمہارا روزہ دار ہونا لوگوں پر ظاہر نہ ہو، اپنے داہنے ہاتھ سے راہ خدا میں جو خرچ کرواسے مخفی رکھو، یہاں تک کہ تمہارے بائیں ہاتھ کو بھی معلوم نہ ہو، اورنفل نماز گھر کے دروازے بند کر کے پڑھو، ان کاموں میں دنیا طلبی کی نیت نہ رکھو، روزیاں خدا کے ہاتھ میں ہیں، وہیں سے تقسیم ہوتی ہیں۔

ولی اللہ ذوالنون مصری فرماتے ہیں: علماء کا مقولہ ہے کہ خدا تعالیٰ کی سچی محبت رکھنے والا ہر گز اس کا ظاہر ہونا پسند نہیں کرتا، عارف باللہ حضرت فضیل بن عیاض کا قول ہے، کہ دین کے کام دنیا کمانے کے لیے کرنے اس سے بھی بدتر ہیں، کہ انسان طبلے اور باجے سے دنیا کمائے۔

امام مالک رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: کہ مجھ سے میرے استاذ ربیعة الراءی نے سوال کیا کہ سفلہ اور کمینہ آدمی کون ہے؟ میں نے جواب دیا، جو شخص دنیا کو دین کے بدلے میں کمائے، پوچھا اس سے بھی بدتر اور کمینوں کا کمین کون ہے؟ میں نے کہا جو شخص اپنا دین بگاڑ کر دوسرے کا دین سنوارے، میرے استاذ نے کہا تم نے صحیح اور سچا جواب دیا۔

ابن عربی نے کیا زریں مقولہ ارشاد فرمایا ہے:
اخسرالخاسرین من ابدی صالح اعمالہ و بارز بالقبیح من ھواقرب الیہ من حبل الورید۔
بے حد ریاکار اور گھاٹے والا وہ ہے، جولوگوں کے سامنے تو بھلے اور نیک کام کرے، لیکن خدا کے سامنے جو شہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہے، بدکام کرے۔

حضرت سفیان فرمایا کرتے تھے، اے عالمو! اور اے قاریو! خیال کرو، اور سوچو، خوف خداوندی جو تمہارے دل میں ہے، اس سے زیادہ ریا کاری کے لیے ظاہر نہ کرو۔ خدا کے دین کا راستہ کھلا ہے، اللہ کا خوف دل میں رکھو، اور دنیا کو طلب کرنے میں دین کو نہ بھولو، بعض علماء کا قول ہے کہ مومن تو صرف اللہ تعالیٰ سے ڈرتا ہے، اور منافق ظاہری اختیار والوں، بادشاہ وغیرہ سے ڈرتا ہے، اور ریاکار شخص ہر انسان سے ڈرتا ہے۔ (بیہقی مختصر شعب الایمان)

ریا، نمود کی برائی کے متعلق مشکوۃ اور ترغیب وغیرہ میں بہت سی حدیثیں ہیں،ان چند حدیثوں کو نمونے کے طور پر نقل کیا ہے، ان سے ریا کی بڑی مذمت نکلتی ہے، لہٰذا تم ریا، نمود سے بہت بچو، اور جو کام کرو، خالص اللہ کے واسطے کرو، جو تم اخلاص سے کرو گے، تو اللہ تعالیٰ اس عمل کو قبول کرتا ہے۔

نبی ﷺ حدیث قدسی میں فرماتے ہیں، کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے،کہ میں حکیم اور عالم کی ہر ایک بات قبول نہیں کرتا ہوں ’’ولکنی اتقبل ھمہ وھواہ‘‘لیکن میں اس کی نیت ا ور قصد کو قبول کرتا ہوں، اگر اس کی نیت اور اس کا قصد میری اطاعت میں ہو، تو اس کے سکوت کو اپنے لیے حمد وقار سمجھتا ہوں، اگرچہ وہ نہیں نہیںکرتا ہے (دارمی، مشکوٰۃ)

حضرت سالم بن عبداللہ بن عمرؓ نے عمر بن عبدالعزیز کو لکھا، کہ اللہ تعالیٰ کی مدد بندہ کی نیت کے موافق ہوتی ہے، جس کی نیت کامل ہوگی، اس کی مدد بھی کامل ہوگی، اور جس کی نیت میں نقصان ہوگا تو مدد میں بھی نقصان ہوگا۔ (احیاء العلوم)

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
’’یبعثون یوم القیمۃ علی قدرنیاتھم‘‘۔ (احیاء العلوم)
لوگ قیامت کے دن اپنی نیتوں کے اندازے کے مطابق اٹھائے جائیں گے۔

حضرت حسن بصری فرماتے ہیں:
’’انما خلد اھل الجنۃ فی الجنۃ واھل النار فی النار بالنیات‘‘۔ (احیاء العلوم)
جنتی ہمیشہ جنت میں اور دوزخی ہمیشہ دوزخ میں نیتوں ہی کی وجہ سے رہیں گے۔

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
فَمَنْ كَانَ يَرْجُوْا لِقَاۗءَ رَبِّہٖ فَلْيَعْمَلْ عَمَلًا صَالِحًا وَّلَا يُشْرِكْ بِعِبَادَۃِ رَبِّہٖٓ اَحَدًا۝۱۱۰ۧ (کہف:۱۱۰)
جو اللہ تعالیٰ سے ملنے کی توقع رکھتا ہو، اسے نیک عمل کرنا چاہیے اور اپنے رب کی عبادت میں کسی کو شرک نہیں کرنا چاہیے۔ خالص اللہ تعالیٰ ہی کے لیے عبادت ہونی چاہیے۔

خلاصہ یہ کہ سارے عملوں کا دارومدار نیت ہی پر ہے، اگر نیت اچھی ہے، تو عمل کا ثمرہ بھی اچھا ہوگا، اور اگر نیت میں ہی کھوٹ ہے، تو اس کا اجر بھی ویسا ہی ہوگا، اللہ تعالیٰ ہم کو اخلاص عطافرمائے، اورریا و نمود سے بچائے (آمین) بارک اللہ لنا و لکم فی القران العظیم ط ونفعنا وایاکم بالایات والذکرالحکیم۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
خطبہ ــ 2
لاالہ الااللہ کے بیان میں
بسم ا للہ الرحمن الرحیم
الحمد للہ علی الذات عظیم الصفات سمی السمات کبیر الشان جلیل القدر رفیع الذکر مطاع الامر جلی البرھان فخیم الاسم عزیر العلم وسیع الحلم کثیرالغفران جمیل الثناء جزیل العطآء مجیب الدعاء عمیم الاحسان، سریع الحساب شدیدالعقاب، الیم العذاب، عزیز السلطان و نشھد ان لاالہ الا اللہ وحدہ لا شریک لہ فی الخلق و الامر و نشھد ان سیدنا ومولٰنا محمدا عبدہ و رسولہ المبعوث الی الاسود والاحمر، المنعوت بشرح الصدرورفع الذکر صلی اللہ علیہ واٰلہ واصحابہ الذین ھم خلاصۃ العرب العرباء وخیر الخلآئق بعدالانبیآئ، امابعد، فاعوذباللہ من الشیطن الرجیم بسم اللہ الرحمن الرحیمط فَاعْلَمْ اَنَّہٗ لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللہُ (محمد:۱۹)
سب تعریفیں اس اللہ تعالیٰ کے لیے ہیں، جو عالی ذات والا، بڑی صفتوں والا، بلند شان والا، بزرگ مرتبہ والا، بلند ذکر والا، حکم مانا ہوا، کھلی دلیل والا، بڑے نام والا، بہت علم والا، وسیع حلم والا، بہت بخشنے والا، اچھی تعریف والا، بہت عطاکرنے والا، دعاؤں کا قبول کرنے والا، عام احسان کرنے والا، جلدی حساب کرنے والا، سخت سزا دینے والا،دکھ کی مار دینے والا، غالب بادشاہت والا ہے، اور ہم گواہی دیتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں، وہ ا کیلا ہے، پیدا کرنے میں اور حکم میں اس کا کوئی ساجھی نہیں، اور ہم گواہی دیتے ہیں کہ بیشک ہمارے سردار حضرت محمدﷺ اس کے بندے اور اس کے رسول ہیں جو کالے اور گورے تمام لوگوں کی طرف رسول بنا کر بھیجے گئے ہیں، جو سینہ کے کھول دینے اور ذکر کے بلند ہونے کے ساتھ تعریف کئے گئے ہیں، اللہ تعالیٰ آپ ﷺ پر اور آپ ﷺ کی آل پر اور ان کے اصحاب پر رحمت نازل فرمائے، جو خاص عرب کا خلاصہ اور تمام پیغمبروں کے بعد تمام مخلوقات سے بہترین انسان ہیں، امابعد، میں اللہ کے ذریعہ پناہ چاہتا ہوں شیطان مردود سے اور اللہ کے نام سے شروع کرتا ہوں جو بڑا مہربان اور نہایت رحم والا ہے، یہ بات یقینی جان لو، کہ اللہ کے سوائے کوئی عبادت کے لائق نہیں ہے۔
اس خدا کی یکتائی کو توحید کہتے ہیں، عالم ارواح میں سب سے پہلے اللہ تعالیٰ نے اپنی توحید ربوبیت اور توحید الوہیت کا اقرار لیا تھا، توحید ربوبیت کا یہ مطلب ہے، کہ صرف اللہ تعالیٰ پالنے پوسنے والا، روزی دینے اور پرورش کا سامان مہیا کرنے والا ہے، اوروہی سب کو کھلاتا پلاتا ہے، اور سب کی نگرانی اور حفاظت کرنے والا، اور ضرورت پر کام آنے والا ہے، اور ہر دکھ، درد، رنج و غم میں کام آنے والا ہے وہ اس میں یکتا ہے، نہ وہ کسی کی ا مداد لیتا ہے، اور نہ اس کی اس کو حاجت ہے، اور توحید الوہیت کے یہ معنی ہیں کہ وہ اپنی ذات و صفات میں یکتا ہے، اور ہر قسم کی عبودیت اور عظمت و تقدس کا مستحق ہے
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
قرآن مجید میں فرمایا:
وَاِذْ اَخَذَ رَبُّكَ مِنْۢ بَنِيْٓ اٰدَمَ مِنْ ظُہُوْرِہِمْ ذُرِّيَّــتَہُمْ وَاَشْہَدَہُمْ عَلٰٓي اَنْفُسِہِمْ۝۰ۚ اَلَسْتُ بِرَبِّكُمْ۝۰ۭ قَالُوْا بَلٰي۝۰ۚۛ شَہِدْنَا۝۰ۚۛ (اعراف:۱۷۲)
اور جب کہ آپ کے رب نے ا ولاد آدم کی پشتوں سے ان کی نسلوں کو نکالا، اور ان سے خود ان ہی کی ذاتوں پر اقرار لیا، کہ کیامیں تمہارا پروردگار نہیں ہوں، سب نے کہا، ہاںہم اس کے گواہ ہیں۔

مسند احمد میں حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے اس آیت کریمہ کی تفسیر میں اس طرح مروی ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کی پیٹھ پر ہاتھ پھیرا، تو قیامت تک پیدا ہونے والی روحیں نکل آئیں، تو ان کی الگ الگ جماعتیں مقرر فرمادیں، نبیوں کی الگ، ولیوں کی الگ، مسلمانوں کی الگ، کافروں کی الگ، نیکوں کی الگ ا ور بدوں کی الگ الگ جماعتیں مقرر کر کے ہر ایک کی ویسی ہی صورتیں بنائیں، جیسی کہ دنیا میں بنانی منظور تھیں، پھر ہر ایک کو بولنے کی قوت اور طاقت دی، تب اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ’’اَلَسْتُ بِرَبِّكُمْ۝۰ۭ ‘‘ کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں؟ سب نے کہا ہاں! آپ ہمارے رب و مالک و مختار ہیں، ا للہ تعالیٰ نے فرمایا، ساتوں آسمانوں اور زمینوں اور تمہارے باپ آدم کو تم پر گواہ بنا تا ہوں، کہ تم نے میری ربوبیت کا اقرار کر لیا ہے، ایسا نہ ہو، کہ تم کہنے لگو ہمیں خبر نہیں تھی، کہ ہم اس سے ناواقف تھے ’’اعلموا انہ لا الہ غیری‘‘ یقیناً تم جان لو، کہ میرے علاوہ کوئی عبادت کا مستحق نہیں، اور نہ میرے علاوہ کوئی رب ہے، میرے ساتھ کسی کو بھی شریک نہ کرنا، اس قول و قرار کے یاد دلانے کے لیے نبیوں ا ور رسولوں کو بھیجوں گا اور کتابیں بھی اتاروں گا، سب نے اس کا ا قرار کیا، اور کہا ’’لا الہ لنا غیرک‘‘ آپ کے سوا ہماری عبادت کا مستحق کوئی معبود نہیں ہے۔

اس کلمہ طیبہ کی یاد دہانی کے لیے اللہ نے تمام نبیوں اور رسولوں کو دنیا میں بھیجا، چنا نچہ ارشاد باری ہے:
وَمَآ اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ مِنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا نُوْحِيْٓ اِلَيْہِ اَنَّہٗ لَآ اِلٰہَ اِلَّآ اَنَا فَاعْبُدُوْنِ۝۲۵ (انبیاء:۲۵)
اور آپ سے پہلے کسی رسول کو نہیں بھیجا، مگر اس کے پاس لاالہ الاانا کی وحی بھیجتے رہے، کہ میرے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں، اس لیے میری ہی عبادت کرو۔

ہر ایک نبی اپنے ا پنے زمانہ میں لوگوں کو اللہ کی عبادت کے لیے بلاتا رہا۔ حضرت آدم علیہ السلام کو دنیا میں بھیجتے وقت فرمایا، کہ تم دنیا میں جاؤ، جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
فَاِمَّا يَاْتِيَنَّكُمْ مِّـنِّىْ ھُدًى فَمَنْ تَبِــعَ ھُدَاىَ فَلَا خَوْفٌ عَلَيْہِمْ وَلَا ھُمْ يَحْزَنُوْنَ۝۳۸ (بقرہ:۳۸)
اگر ہماری طرف سے کوئی رسول ہدایت کرنے والا تمہارے پاس پہنچے، تو تم اس کی پیروی کرنا، جو ہماری راہ پر چلے گا، تو ان پر کسی قسم کا خوف نہ ہوگا، اور نہ وہ غم اٹھائیں گے۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
لاالہ الا ا للہ، اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی الہ نہیں ہے، صرف اللہ ہی الہ ہے، اب الٰہ کے معنی پر غور کیجیے، ا لہ کے معنی معبود کے ہیں، یعنی اللہ تعالیٰ سچا معبود ہے، ا ور وہی عبادت کے لائق ہے۔
عبادت کے معنی اطاعت، فرمانبرداری ا ور بندگی کے ہیں، یعنی اللہ تعالیٰ کے ہر حکم و قانون کو مان کر اس کے مطابق عمل کرنے کا نام عبادت ہے، اور اللہ ہی معبود ہے، ہر قسم کی عبادت اسی کے لیے کی جائے، وہ معبود حقیقی صرف اکیلا ہے، اس کا کوئی شریک نہیں، نہ ذات میں نہ صفات میں، شرک کی کئی قسمیں ہیں، یہاں پر صرف چار قسمیں بیان کی جاتی ہیں۔
(۱) شرک فی العبادت
یعنی عبادت میں اللہ تعالیٰ کے ساتھ دوسرے کو شریک کرنا، کہ جس طرح ا للہ تعالیٰ عبادت کا مستحق ہے، اسی طرح دوسرے کو بھی عبادت کا مستحق سمجھنا، جیسے نماز، روزہ، حج، زکوۃ، رکوع اور سجدہ کرنا، ہاتھ باندھ کر کھڑا ہونا، ان سے دعائیں اور مرادیں مانگنا، نذر و نیاز وغیرہ سب اللہ تعالیٰ ہی کے لیے ہے، اب کسی زندہ یا مردہ پیر، پیغمبر، ولی، شہید وغیرہ کے لیے ان کاموں کا کرنا، یا ان کی قبر پر سجدہ یا طواف کرنا سب شرک فی العبادت ہے۔
(۲) شرک فی ا لعلم
یعنی اللہ تعالیٰ جیسا علم دوسروں میں ماننا، جیسے ہر جگہ حاضر و ناظر رہنا، ہر چیز کا جاننا، دورو نزدیک سے برابر سننا وغیرہ سب اللہ تعالیٰ کی شان ہے، ان ہی صفتوں کو دوسروں کے لیے کسی طرح ثابت ماننا، کہ دوسرا کوئی ولی، نبی، پیر، شہید، فرشتہ وغیرہ بھی اللہ تعالیٰ کی طرح ہر چیز کو جانتے، اور ہر جگہ حاضر و ناظر رہتے، اور دور و نزدیک کی ہر چیز کی خبر رکھتے ہیں، ایسا عقیدہ رکھنے کو شرک فی ا لعلم کہتے ہیں۔
(۳) شرک فی التصرف
یعنی مخلوق میں سے کسی کا اللہ تعالیٰ کی طرح تصرف تسلیم کرنا، مخلوق میں اپنے ارادے سے تصرف کرنا، اور اپنا حکم جاری کرنا، اپنی مرضی سے مارنا، جلانا، آرام و تکلیف دینا، تندرست و بیمار کرنا، مرادیں پوری کرنا،مشکل کے وقت کام آنا، روزی و اولاد دینا، ہوا چلانا، مینہ برسانا وغیرہ سب باتیں اللہ تعالیٰ ہی کے لیے خاص ہیں، کس نبی، ولی، پیر، مرشد، زندہ یا مردہ میں یہ باتیں ہرگز نہیں پائی جاتی ہیں، ان باتوں کو دوسروں میں ثابت ماننا کہ دوسرا شخص بھی مشکل کشائی اور حاجت روائی کرتا، آرام و تکلیف دیتا، مارتا، جلاتااور عالم میں اپنی مرضی کے موافق تصرف کرتا ہے، اس شرک کو ہی شرک فی التصرف کہتے ہیں۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
(۴) شرک فی العادت عادت کے طور پر جو کام اللہ تعالیٰ کی تعظیم کیلئے کرنے چاہئیں وہ غیر اللہ کے لیے کیے جائیں، جیسے قسم کھانا،اٹھتے بیٹھتے نام لینا وغیرہ سب کام اللہ تعالیٰ کی تعظیم و بڑائی کے لیے کیے جاتے ہیں، دوسروں کی قسم کھانا، اور ان کا نام اٹھتے بیٹھتے لینا شرک فی العادت ہے، کلمہ توحید لاالہ الا اللہ میں توحید الٰہی کا ا ثبات اور شرک کی نفی ہے، توحید فی العبادت ساری عبادتیں خواہ عبادت بدنی ہو یا مالی ہو، سب اللہ ہی کے لیے ہوں توحید فی العلم ہر قسم کا علم غیب صرف خدا ہی کو حاصل ہے، ا ور توحید فی ا لتصرف مخلوق میں اللہ کا تصرف ہے توحید فی الاستعانت یعنی ہر قسم کی ا مداد اللہ تعالیٰ ہی سے لینی چاہیے، بہر حال اللہ تعالیٰ کو ذات و صفات میں یکتا ماننے کے بعد اس کے حکموں کے مطابق عمل کرنا نہایت ضروری ہے، صرف زبانی جمع خرچ سے نہ نجات ہوگی، اور نہ دین و دنیا کی کامیابی ہوگی۔

عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی جہنم بھی
یہ خاکی اپنی فطرت میں نہ نوری ہے نہ ناری
اگر اس کلمہ طیبہ پر یقین کامل اور اس کے مطابق عمل نہیں ہے، تو یہ کلمہ فلاح دارین کا ذریعہ نہیں بن سکتا، جیسے کسی کو بھوک یا پیاس لگی ہو، اور وہ اس کے دور کرنے کی کوشش نہ کرے، اور نہ روٹی پانی حاصل کرے، صرف زبان سے روٹی پانی کا وظیفہ پڑھتا ہے، صرف زبانی پانی پانی کی رٹ لگانے سے پیاس دور نہیں ہوسکتی ہے، ا ور نہ روٹی روٹی کہنے سے بھوک مٹ سکتی ہے، بہر حال اسی طرح کلمہ طیبہ کا معاملہ ہے، کہ زبانی اقرار سے نہ مومن و مسلمان بن سکتا ہے، اور نہ دونوں جہان کی سرخروئی حاصل کر سکتا ہے، جب تک کہ اس پر پورا ایقین و اعتقاد نہ ہو، اور اس کے موافق عمل نہ ہو، کلمہ طیبہ کی جو فضیلتیں بیان کی گئی ہیں، وہ اسی وقت حاصل ہو سکتی ہیں، جب کہ اس پر پورا ایمان و عمل صالح ہولاالہ الا اللہ کا پورا اقرار، پختہ ایمان اور خالص عمل ہو، اور اسی پر خاتمہ ہو تو وہ انشاء اللہ نجات ا بدی اور سعادت دارین کا مستحق ہوگا۔

کلمہ طیبہ کی فضیلت
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے:
ما من عبد قال لاالہ الا اللہ ثم مات علی ذلک الا دخل الجنۃ۔ (مسلم)
جو بندہ لا الہ الا اللہ کا اقرار کرے، پھر اسی پر مرجائے، تو جنت میں داخل ہوگا۔

حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں، کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے دریافت کیا، کہ اس دین میں نجات کاذریعہ کیا ہے؟ تو آپﷺ نے فرمایا:
من قبل منی الکلمۃ التی عرضتھا علی عمی فردھا فھی لہ نجاۃ۔ (احمد)
جو میرا لایا ہوا کلمہ لاالہ الا اللہ قبول کرلے، جس کو میں نے اپنے چچا ابوطالب پر پیش کیا تھا، ا ور انہوں نے رد کر دیا تھا تو وہ کلمہ ماننے والے کے لیے نجات ہے۔

یہی کلمہ دنیاوی مصیبتوں کے لیے بھی باعث نجات بن جاتا ہے، اس کے پڑھنے سے جان و مال کی حفاظت ہوجاتی ہے
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:۔
امرت ان اقاتل الناس حتی یقولوا لاالہ الا اللہ فمن قالھا فقد عصم منی ما لہ و نفسہ الا بحقہ و حسابہ علی اللہ۔ (بخاری شریف، مسلم)
مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں ان لوگوں سے اس وقت تک جنگ جاری رکھوں جب تک کہ وہ لاالہ الا اللہ کے قائل نہ ہوجائیں۔ اور جب وہ لاالہ الا اللہ کے قائل ہو جائیں، تو وہ مجھ سے اپنی جان و مال کو بچا لیں گے، بشرطیکہ قتل کے مرتکب نہ ہوں، اور ان کا حساب اللہ کے سپرد ہے۔

اس حدیث سے معلوم ہوا، کہ جس طرح یہ کلمہ طیبہ اخروی سزاؤں سے بچانے والا ہے، اس طرح دنیاوی سزاؤں سے بھی بچانے والا ہے۔

کلمہ طیبہ کے پڑھنے سے ایمان تازہ رہتا ہے
رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں:
جددواایمانکم قیل یارسول اللہ وکیف نجدد ایماننا قال اکثروا من قول لاالہ الااللہ۔
تم لوگ اپنے اپنے ایمان کو نیا کر لیا کرو، عرض کیا گیا، یا رسول اللہ! ہم کس طرح اپنے ا پنے ایمان کو نیا اور تا زہ کر لیا کریں؟ آپﷺ نے فرمایا، تم کثرت سے کلمہ طیبہ لاالہ الا اللہ کو پڑھتے رہو۔ (احمد، طبرانی، ترغیب)
یہ کلمہ طیبہ جڑ ہے، اور باقی اعمال اس کی شاخیں ہیں

ایمان کی تازگی سے دیگر بدنی اور مالی عبادتیں بھی ترو تازہ رہیں گی، اس لیے کہ جڑ تازہ رہے گی، تو شاخیں بھی سر سبز اور ہری بھری رہیں گی۔رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
الایمان بضع وسبعون شعبۃ فافضلھا قول لاالہ الا اللہ وادناھا اماطۃ الاذٰی عن الطریق والحیاء شعبۃ من الایمان (بخاری)
ایمان کی ستر سے زیادہ شاخیں ہیں، ان میں سب سے بہتر کلمہ لاالہ الا اللہ ہے، اور سب سے چھوٹی شاخ تکلیف دہ چیزوں کو لوگوں کے راستے سے دور کر دینا ہے، اور شرم ایمان کی شاخوں میں سے ایک شاخ ہے۔
ان شاخوں کی تفصیل بیان کرنے کے لیے خطبہ کے مختصر وقت میں گنجائش نہیں تفصیل آئندہ کسی خطبہ میں آپ سنیں گے انشاء اللہ۔

کلمہ طیبہ کا پڑھنے والا گناہوں سے پاک ہو جاتا ہے۔اس کلمہ طیبہ کی ایک بڑی خوبی یہ ہے، کہ اس کے کہنے، اور اس کے مطلب پر پورا پورا عمل کرنے والا گناہوں سے پاک صاف ہو جاتا ہے، اور اس کی مغفرت اور بخشش ہو جاتی ہے، رسول اللہ ﷺنے فرمایا:
ان للہ تبارک وتعالی عمودا من نور بین یدی العرش فاذا قال العبد لاالہ الا اللہ اھتز ذلک العمودفیقول اللہ تبارک وتعالی اسکن فیقول کیف اسکن ولم تغفرلقائلھافیقول انی قد غفرت لہ فیسکن عند ذلک (بزار، ترغیب)
اللہ تعالیٰ کے عرش کے سامنے نور کا ایک ستون ہے جب کوئی بندہ کلمہ طیبہ لاالہ الا اللہ کہتا ہے، تو وہ نورانی ستون جھومنے لگتا ہے، جنبش کرتا ہے، اللہ تعالیٰ اس ستون سے فرماتا ہے، حرکت نہ کر ٹھہر جا، تو وہ ستون کہتا ہے، جب تک آپ اس کلمہ طیبہ کے کہنے والے کی بخشش نہ فرمائیں گے، میں برابر اس کی سفارش میں جنبش کرتا رہوں گا، تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے، کہ میں نے اس کلمہ طیبہ کے کہنے والے کو بخش دیا، تب وہ ستون ٹھہر جاتا ہے۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
کلمہ طیبہ پاکیزہ درخت کی طرح ہے۔قرآن مجید میں اس کلمہ طیبہ کو شجرہ طیبہ کے نام سے یاد کیا گیا ہے، چنا نچہ ا رشاد خداوندی ہے:

اَلَمْ تَرَ كَيْفَ ضَرَبَ اللہُ مَثَلًا كَلِمَۃً طَيِّبَۃً كَشَجَرَۃٍ طَيِّبَۃٍ اَصْلُہَا ثَابِتٌ وَّفَرْعُہَا فِي السَّمَاۗءِ۝۲۴ۙ تُؤْتِيْٓ اُكُلَہَا كُلَّ حِيْنٍؚبِـاِذْنِ رَبِّہَا۝۰ۭ وَيَضْرِبُ اللہُ الْاَمْثَالَ لِلنَّاسِ لَعَلَّہُمْ يَتَذَكَّرُوْنَ۝۲۵ وَمَثَلُ كَلِمَۃٍ خَبِيْثَۃٍ كَشَجَرَۃٍ خَبِيْثَۃِۨ اجْتُثَّتْ مِنْ فَوْقِ الْاَرْضِ مَا لَہَا مِنْ قَرَارٍ۝۲۶ يُثَبِّتُ اللہُ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا بِالْقَوْلِ الثَّابِتِ فِي الْحَيٰوۃِ الدُّنْيَا وَفِي الْاٰخِرَۃِ۝۰ۚ وَيُضِلُّ اللہُ الظّٰلِــمِيْنَ۝۰ۣۙ وَيَفْعَلُ اللہُ مَا يَشَاۗءُ۝۲۷ۧ ( ابراھیم: ۲۴ تا ۲۷)
(اے محمدﷺ)کیا آپ نے نہیں دیکھا، کہ اللہ نے کیسی مثال بیان کی ہے، کہ پاکیزہ کلمہ اس پاکیزہ درخت کی طرح ہے جس کی جڑیں مضبوط ہوں، اور شاخیں آسمان میں پھیلی ہوئی ہوں، بحکم خدا ہر وقت پھل دیتا ہو، اور اللہ لوگوں کے سامنے مثالیں بیان کرتا ہے، تاکہ وہ یاد رکھیں، ا ور ناپاک بات کی مثال اس گندے درخت کی طرح ہے، کہ جس کو زمین کے ا وپر ہی سے اکھاڑ کر پھینک دیا گیا ہو، اور اس کو ٹھہراؤ نہ ہو، ایمانداروں کو دنیاوی زندگی میں بھی اور آخرت میں بھی اللہ تعالیٰ پکی بات پر قائم رکھتا ہے، ا ور ظالموں کو گمراہ چھوڑ دیتا ہے، اور جو چاہتا ہے کرتا ہے(وہ مالک مختار ہے)

کلمہ طیبہ سے مراد بحکم حدیث لاالہ الا اللہ محمد رسول ا للہ ہے، حاصل تمثیل یہ ہے، کہ کلمہ طیبہ اس درخت کی مانند ہے، جس میں یہ چاراوصاف ہوں۔

(۱) شکل و صورت، لذت و خوشبو، نفع سایہ، اور پھل پھول کے لحاظ سے عمدہ ہو۔

(۲) اس کی جڑ زمین کے اندر خوب جمی ہوئی ہو، کہ آندھیوں کا بھی مقابلہ کر سکے۔

(۳) اس کی شاخیں اور پتیاں خوب بلند اور پھیلی ہوئی ہوں۔

(۴) اس میں پھل ہمیشہ آتے ہوں، اور ہر وقت رہتے ہوں، کسی وقت خالی نہ رہتا ہو، ایسا درخت بہترین ہوتا ہے، ایسے ہی درخت کی طرح کلمہ طیبہ بھی ہے، اس کے اندر بھی یہ چاروں اوصاف موجود ہیں۔

(۱) اس کے اندر جولذت و کیف ہے، وہ اصحابِ ذوق سے پوچھو، دنیا کی بہترین مادی غذاؤں میں وہ کیف نہیں ہوسکتا، جو اس میں ہے۔

(۲) کلمہ طیبہ کلمہ حق ہے، ا ور حق کی جڑیں مضبوط ہیں، یہ کلمہ صداقت ہے، اور صداقت ناقابل زوال ہے، یہ کلمہ نور ہے، اور نور کی بنیاد نفوس قدسیہ میں ثبت ہوتی ہے، جس کو ہواو ہوس کا کوئی جھونکا اور شیطانی و سوسوں کی کوئی آندھی اپنی جگہ سے ہلا نہیں سکتی۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
(۳) اس کلمہ طیبہ کی شاخیں بہت بلند ہیں، عالم قدس تک اس کی رسائی ہے، اعمال صالحہ، اقوال صادقہ اس کی شاخیں ہیں، اور ان شاخوں کو روزانہ صبح و شام آسمانوں کے فرشتے اٹھا کر دربار الٰہی تک لے جاتے ہیں، ا یمان و یقین ا ور حقیقت و معرفت تک پہنچنا اس کی شاخیں ہیں، جو فضاء الٰہی میں پھیلی ہوئی ہیں، الغرض کل جہان اسی پاک کلمہ کی شاخوں کے زیر سایہ ہے۔

(۴) اس میں ہر وقت پھل آتے رہتے ہیں، کلمہ طیبہ کا پھل ہر وقت دنیا میں بھی اچھا ملتا ہے اور آخرت میں بھی اچھا ملے گا رزق میں برکت، دولت، عزت، حکومت ا ور عروج ترقی اس کے مادی پھل ہیں، ا لہا مات نفسانیہ، مختلف مکاشفات، حقائق عالم کا علم، اسرارسربستہ کی معرفت اور انوار تجلی کا وقتاً فوقتاً ظہور اس کے روحانی پھل ہیں، پھر آخرت میں جنت میں داخل ہونا وہاں کی لذتیں حاصل ہونا،نور الٰہی میں ڈوب جانا ا ور دیدار باری تعالیٰ کی روشنی میں گم ہوجانا، یہ اس کے اخروی پھل ہیں، یہ درخت نہ دنیا میں ثمرآوری سے خالی رہتا ہے، اور نہ آخرت میں کبھی اس کے پھل ختم ہوں گے۔

یہ تو کلمہ طیبہ کی مثال تھی، اب کلمہ خبیثہ یعنی کلمہ شرک، تو اس کی مثال ایسی ہے، جیسے کوئی بد شکل درخت ہو، جس میں نہ زیادہ سرسبزی ہو، نہ اچھے پھل ہوں، نہ خوشبو ہو، نہ اچھا مزہ ہو، نہ اس کا سایہ ہو، اور نہ کوئی اور فائدہ، پھر اس کی جڑ بھی ا وپر ہی رکھی ہو، جمی ہوئی نہ ہو، اور ہوا کے معمولی جھونکے سے ہی جڑ سمیت گر پڑے، یہی حالت کلمہ شرک کی ہے، نہ اس سے دنیا میں کوئی فائدہ ہے نہ دین میں، نہ اس کے پھلوں میں کوئی لذت نہ اس کے پتوں میں کوئی سا یہ، کمزور اتنا ہے کہ جب ذرا کافر پر مصیبت پڑی، بس اس نے اپنے ہر باطل معبود کو چھوڑ کر اللہ کی طرف رخ کیا، اور شرک کا پورا درخت زمین پر آرہا، اور چونکہ اس کی جڑ ہی کو ثبات نہیں، تو شاخیں کہاں سے آئیں گی، اس کی شاخوں کی کوئی حقیقت نہیں، نہ مشرک کے اعمال کی بارگاہ الٰہی تک پہنچ ہے، کیونکہ اعمال (شاخیں) بغیر اصل (جڑ) یعنی ایمان کے کیسے پائے جاسکتے ہیں۔

اُمّ المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں، میں نے کہا یا رسول اللہ! اس امت کا امتحان قبروں میں ہوگا، میں ضعیف عورت ہوں، میرا کیا حال ہوگا؟ حضور ﷺ نے آیت ’’یُثَبِّتُ اللہُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا بِالْقَوْلِ الثَّابِتِ فِی الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا‘‘ تلاوت فرمائی۔ (رواہ البزار)

حضرت عثمان بن عفان ؓکی روایت ہے، کہ حضور ﷺ جب میت کے دفن سے فارغ ہوتے، تو وہاں ٹھہر جاتے، اور فرماتے اپنے بھائی کے لیے استغفار کرو، اور اس کے لیے دعائے تثبیت کرو، کیونکہ اس وقت اس سے سوال کیا جائے گا۔ (ابو داؤد)

حضرت براء بن عازب ؓ کی روایت ہے، حضور اقدس نے فرمایا، جب مومن سے قبر میں سوال کیا جاتا ہے تو وہ شہادت دیتا ہے’’لاالہ الا اللہ محمد رسول اللہ‘‘ یہی مضمون ہے ’’یُثَبِّتُ اللہُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا‘‘کا۔ (بخاری، مسلم)
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
کلمہ طیبہ ہاتھ پکڑ کر جنت میں لے جائے گا:
ذیل میں ایک بہت لمبی حدیث کا ترجمہ ہے جس میں دیگر بہت سی فضیلتوں کے ساتھ کلمہ طیبہ کی فضیلت بہت زیادہ بیان کی گئی ہے، رسول ا للہ ﷺ نے بیان فرمایا:
(۱) گذشتہ شب میں میں نے عجیب و غریب باتیں دیکھیں، میں نے ا پنی امت کے ایک شخص کو دیکھا، کہ عذاب کے فرشتوں نے اسے گھیر رکھا ہے، اسی وقت اس کا وضو آتا ہے، اور ان کے ہاتھوں سے اسے چھڑالے جاتا ہے۔
(۲) اپنے ایک امتی کو میں نے دیکھا، کہ شیاطین نے اسے پریشان کر رکھا ہے، کہ اتنے میں اس کا ذکر الٰہی کرنا آتا ہے، اور اسے بچا کر لے جاتا ہے۔
(۳) میں نے اپنی امت کے ایک شخص کو دیکھا، کہ قبر کے عذاب اس کے لیے پھیلائے جا رہے ہیں کہ اتنے میں اس کی نماز آئی، اور اسے ان سے چھڑا لے گئی۔
(۴) میں نے اپنے ایک امتی کو دیکھا، کہ پیاس کے مارے زبان نکالے دے رہا ہے، کہ اس کے رمضان کے روزے آئے اور اس کو پانی پلا کر آسودہ کر گئے...
(۵) میں نے اپنے ایک امتی کو دیکھا، کہ اس کے آگے اور پیچھے سے، دائیں اور بائیں طرف سے، اوپر اور نیچے سے اس کو ظلمت اور اندھیرا گھیرے ہوئے ہے کہ اس کا حج اور عمرہ آیا، اور اس کو ظلمت سے نکال لے گیا،
(۶) میں نے ا پنے ایک امتی کو دیکھا، کہ اس کی روح قبض کرنے کے لیے ملک الموت آیا، لیکن اس نے اپنے ماں باپ کی جو خدمتیں کی تھیں اور ان کے ساتھ جو احسان کیے تھے وہ نیکی آئی اور موت کو اس سے ہٹا دیا۔
(۷) میں نے ا پنے ایک امتی کو دیکھا، کہ وہ مومنوں سے بول رہا ہے، لیکن مومن اسے جواب تک نہیں دیتے۔ اتنے میں اس کی صلہ رحمی نے آکر کہا، یہ تو رشتہ ناطہ جوڑنے والا تھا، اسی وقت ان سب نے اس سے بول چال شروع کر دی، اور یہ ان کے ساتھ ہوگیا۔
(۸) میں نے ا پنے ایک امتی کو دیکھا، کہ نبیوں کے حلقے کے پاس آتا ہے، لیکن ہر حلقے سے وہ ہٹا دیا جاتا ہے، اسی وقت اس کا جنابت سے غسل کرنا سامنے آیا، اور اس کا ہاتھ پکڑ کر میرے پاس بٹھا دیا۔
(۹)میں نے ا پنے ایک امتی کو دیکھا، کہ وہ آگ کے شعلوں کو اپنے ہاتھوں اور منہ پر سے ہٹا رہا ہے، اتنے میں اس کا صدقہ اور خیرات آگئے، اور اس کے سر پر سایہ اور اس کے چہرے پر پردہ بن گئے۔
(۱۰) میں نے ا پنے ایک امتی کو دیکھا، کہ عذاب کے داروغے اس کے پاس آگئے، اتنے میں اس کا بھلائی کا حکم کرنا، اور برائی سے روکنا آگیا، اور اسے ان سے چھڑا کر لے گیا۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
(۱۱) میں نے ا پنے ایک امتی کو دیکھا، کہ اسے آگ میں ڈالا جا رہا ہے، اتنے میں اس کے وہ آنسو آگئے جو خوف خدا سے رو کر اس نے دنیا میں بہائے تھے، اور وہ اسے آگ سے بچا کر لے گئے۔
(۱۲) میں نے ا پنے ایک امتی کو دیکھا، کہ اس کا نیکیوں کا پلڑا ہلکا ہو رہا ہے اتنے میں اس کے چھوٹے بچے جو انتقال کر گئے تھے آگئے، اور اس کے نیکی کے پلڑے کو بوجھل اور بھاری کر دیا۔
(۱۳) میں نے ا پنے ایک امتی کو دیکھا، کہ گھاس کے تنکے کی طرح کپکپا رہا ہے، اتنے میں اس کا خدا کے ساتھ حسن ظن (نیک گمان) آیا، اور اسے سکون و قراردے گیا۔
(۱۴) ورایت رجلا من امتی یزحف علی الصرا ط مرۃ فجاءۃ صلوۃ علی فاخذت بیدہ فاقامتہ علی الصراط حتی جاوز۔
ایک امتی کو میں نے دیکھا کہ پل صراط پر جم نہیں سکتا، کبھی گرتا ہے، کبھی پڑتا ہے، کبھی گھٹنوں سرکتا ہے، اتنے میں اس کا مجھ پر درود بھیجنا آگیا، اور اس کا ہاتھ تھام کر سیدھا کھڑا کر کے پلصراط سے پار کر دیا۔
(۱۵) ورایت رجلا من امتی انتہی الی ابواب الجنۃ فغلقت الابواب دونہ فجاء ۃ شھادۃ لاالہ الا اللہ فاخذت بیدہ فادخلتہ الجنۃ۔(حاکم، طبرانی، کنزالعمال)
ایک امتی کو میں نے دیکھا، کہ جنت کے دروازوں کے پاس پہنچ گیا ہے، لیکن وہ دروازے بند ہوگئے، اتنے میں اس کا کلمہ شہادت پڑھنا آگیا، اور اس کا ہاتھ پکڑ کر اس نے اسے جنت میں پہنچا دیا۔
کلمہ طیبہ کے کہنے والے کو قبر میں وحشت نہیں ہوگی
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
لیس علی اھل لا الہ الااللہ وحشۃ فی قبورھم ولا منشرھم وکانی انظرالی اھل لاالہ الااللہ ینفضون التراب عن رءوسھم ویقولون الحمد للہ الذی اذھب عنا الحزن و فی روایۃ لیس علی اھل لاالہ الااللہ وحشۃ عند الموت ولا عندالقبر (طبرانی، بیہقی، ترغیب)
کلمہ طیبہ لاالہ الااللہ کہنے والے پر نہ قبروں میں وحشت ہوگی، اور نہ حشر کے دن کوئی گھبراہٹ ہوگی، نہ موت کے وقت کسی قسم کی بے چینی ہوگی، گویا میں لاالہ الااللہ کے پڑھنے والوں کو دیکھ رہا ہوں، کہ وہ اپنی قبروں سے اٹھ رہے ہیں اور اپنے سروں سے مٹی جھاڑ رہے ہیں، اور یہ کہتے جاتے ہیں، کہ سب تعریف خدا کے لیے ہے، جس نے ہم سے رنج و غم کو دور کر دیا ہے۔
 
Top