• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اسلام اور تصوف

lovelyalltime

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 28، 2012
پیغامات
3,735
ری ایکشن اسکور
2,898
پوائنٹ
436


قونیہ ایک قدیم شہر ہے۔ سلجوقیوں کے زمانے میں یہ ان کی سلطنت کا دارالحکومت رہا ہے۔ مذہب اور تصوف سے متعلق کسی بھی شخص کے سامنے اگر قونیہ کا نام لیا جائے تو جو اگلا نام اس کے ذہن میں آتا ہے وہ مولانا جلال الدین رومی کا ہے جو کہ مولانا روم کے نام سے مشہور ہیں۔

مولانا جلال الدین رومی

مولانا کا شمار اہل تصوف کی اعلی ترین شخصیات میں ہوتا ہے۔ 1207ء یا 604ھ میں موجودہ افغانستان کے شہر بلخ میں پیدا ہوئے۔ اپنی ابتدائی تعلیم انہوں نے اپنے والد سے حاصل کی۔ جوانی کی عمر میں وہ شام چلے گئے اور حلب او ردمشق کے بڑے مدارس سے انہوں نے اعلی مذہبی تعلیم حاصل کی۔ آپ فقہ ، علم کلام اور تصوف کے بڑے ماہرین میں شمار ہوتے ہیں۔ اس کے بعد انہوں نے قونیہ میں رہائش اختیار کی جو کہ سلجوقی سلطنت کا دارالحکومت تھا۔ ظاہر ہے کہ وہاں تعلیم و تعلم کے مواقع بھی زیادہ ہوں گے۔
یہاں ان کی ملاقات شمس تبریزی نام کے ایک بزرگ سے ہوئی۔ یہاں سے ان کی زندگی کے ایک نئے باب کا آغاز ہوا۔ شمس تبریزی کی صحبت نے انہیں ایک مکمل صوفی بنا دیا۔ مولانا کو ان سے بے پناہ عقیدت تھی۔ اچانک ان کے مرشد شمس تبریزی غائب ہو گئے۔ کہا جاتا ہے کہ کسی نے انہیں قتل کر دیا تھا۔ اس کے بعد مولانا روم بیمار اور بے قرار رہنے لگے۔ اسی کیفیت میں انہوں نے اپنی مشہور زمانہ مثنوی لکھی۔ انہوں نے 1273ء یعنی 672ھ میں وفات پائی۔

مثنوئ مولانا روم

مولانا روم کی تصوف کے لئے خدمات بے پناہ ہیں۔ ان کی مثنوی کا شمار اہل تصوف کی مقبول ترین کتابوں میں ہوتا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق اس کے اشعار کی تعداد 2500 سے زائد ہے۔ علامہ اقبال اس مثنوی سے بہت متاثر تھے۔ وہ مولانا روم کو اپنا مرشد کہا کرتے تھے۔ انہوں نے ان کے لئے "مرشد رومی" اور خود کے لئے "مرید ہندی" کی اصطلاح استعمال کی ہے۔
مولانا روم ایک بہت بڑے صوفی ہونے کے ساتھ ساتھ اعلی درجے کے شاعر تھے۔ انہوں نے تصوف کی تعلیمات کو اشعار کی زبان میں پیش کیا۔ چونکہ مسلم دنیا میں شعر و شاعری کو کلیدی اہمیت حاصل تھی۔ نہ صرف ادب اور تصوف، بلکہ ریاضی، سائنس اور گرامر جیسے خشک مضامین کو بھی اشعار میں بیان کیا جاتا تھا، اس وجہ سے ان کی مثنوی کو بے پناہ مقبولیت حاصل ہوئی۔ فارسی ادب میں مثنوی کو بلا مبالغہ مقبول ترین کتاب کہا جا سکتا ہے۔
میرے ذہن میں سوال پیدا ہوتا تھا کہ ہمارے بزرگوں نے شعر و شاعری کو اتنی اہمیت کیوں دی کہ حساب اور گرامر جیسے مضامین بھی اس میں بیان کیے۔ اس سوال کا جواب مجھے البیرونی کی مشہور زمانہ "کتاب الہند" سے ملا۔ البیرونی جو کہ ایک بڑے سائنسدان، جغرافیہ دان، مورخ ، سیاح اور ادیب ہیں، بیان کرتے ہیں کہ علوم سے ناواقف کاتب حضرات کتاب کو نقل کرتے ہوئے اس میں بہت سی غلطیاں کرتے ہیں اور بات کو کچھ کا کچھ بنا دیتے ہیں۔ اس وجہ سے قدیم دور میں یہ رواج رہا ہے کہ بات کو اشعار میں بیان کیا جائے۔ وزن، قافیے اور ردیف کی پابندیوں کے باعث اشعار کی غلطی فوراً پکڑی جا سکتی ہے۔ انہیں آسانی سے یاد کیا جا سکتا ہے اور صحیح طور پر اگلوں کو منتقل کیا جا سکتا ہے۔
مثنوی ایسی نظم کو کہتے ہیں جس میں ہر شعر کے دونوں مصرعے ہم قافیہ ہوں۔ ہر شعر کا ایک نیا ہی قافیہ ہوتا ہے۔ اشعار کے ہم وزن ہونے کی شرط کے ساتھ شاعر جتنے چاہے شعر کہتا چلا جائے۔ قافیہ کی پابندی نہ ہونے کے باعث عموماً مثنویاں بہت طویل ہوتی ہیں۔ مولانا روم کی مثنوی بھی سات جلدوں پر مشتمل ہے۔
مجھے ذاتی طور پر شعر و شاعری اور خاص طور پر فارسی شاعری میں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ میں انتہا پسندی کی حد تک حقیقت پسند ہوں۔ حقائق خواہ کتنے ہی تلخ کیوں نہ ہوں، مجھے خوبصورت سے خوبصورت تخیل سے زیادہ عزیز ہوتے ہیں۔ شاعری کو پسند کرنے کے لئے انسان کا تخیل پسند ہونا ضروری ہے جو کہ میرے بس کی بات نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مولانا روم کی مثنوی کا مطالعہ کرنے کے لئے میں نے اس کے نثری ترجموں اور شروحات کا مطالعہ کیا ہے۔

مثنوی میں مولانا روم کا طریق کار یہ ہے کہ وہ علمی انداز میں گفتگو کرنے کی بجائے فکشن کی طرز پر چھوٹی چھوٹی کہانیاں تخلیق کرتے ہیں۔ یہ حقیقی کہانیاں نہیں ہوتیں بلکہ بادشاہوں ، شہزادوں، درویشوں، شیاطین، طوطا و مینا اور دیگر جانوروں کی کہانیاں ہوتی ہیں
۔ مثال کے طور پر ایک کہانی ملاحظہ فرمائیے۔ یہ کہانی مولانا کے خاندان کے لوگوں کی تیار کردہ ویب سائٹ
Mevlana Celaddiin-i Rumi, 13th century Muslim saint and Anatolian mystic
سے لی گئی ہے

تیل کا کاروبار کرنے والے ایک شخص کے پاس ایک طوطا تھا جو بڑی باتیں کیا کرتا تھا۔ جب وہ شخص باہر جاتا تو اس طوطے کو اپنی دکان پر رکھوالی کے لئے چھوڑ جاتا۔ ایک دن طوطا دکان میں اکیلا تھا کہ ایک بلی آئی اور اس نے تیل کا ایک مرتبان الٹا دیا۔ جب سوداگر واپس آیا تو مرتبان کو دیکھ کر یہ سمجھا کہ طوطے نے ایسا کیا ہے۔ اس نے طوطے کے سر پر ایسی ضرب لگائی کہ اس کے بال جھڑ گئے اور وہ گنجا ہو گیا۔ اس کے گفتگو کرنے کی صلاحیت ختم ہو گئی۔ کچھ دن بعد طوطا دکان پر بیٹھا ہوا تھا کہ ایک گنجا آدمی باہر سے گزرا۔ طوطے کی قوت گویائی واپس آ گئی اور وہ چلایا: "تم نے کس کا مرتبان الٹایا ہے؟"

طوطے کی اس غلط فہمی سے مولانا یہ سبق اخذ کرتے ہیں کہ جیسے طوطے نے غلط طور پر گنجے پن کا تعلق مرتبان کے الٹنے سے قائم کر لیا، اسی طرح بہت سے لوگ غلط طور پر جعلی پیروں کو ولی اللہ سمجھ بیٹھتے ہیں۔
بعض لوگوں کے خیال میں یہ کہانیاں قبل از اسلام ایران کی دیو مالا سے اخذ کی گئی ہیں۔ کہانی کو بیان کرنے کے بعد وہ اس میں سے سبق اخذ کرتے ہوئے اپنے مخصوص صوفیانہ نظریات بیان کرتے چلے جاتے ہیں۔ ان کے اس طریق کار نے مثنوی کو بہت پر اثر بنا دیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ فارسی دانوں میں مثنوی بہت زیادہ پڑھی جانے والی کتاب ہے۔ مولانا کے بعض غالی عقیدت مند تو نعوذ باللہ مثنوی کو الہامی کتاب قرار دیتے ہیں اور اسے فارسی زبان کا قرآن سمجھتے ہیں۔
مخصوص صوفیانہ نظریات کے علاوہ مثنوی میں بہت سی ایمانی و اخلاقی تعلیمات بھی ہیں۔ قارئین کی دلچسپی کے لئے اس کے کچھ اشعار اور ان کا مفہوم پیش خدمت ہیں۔ یہ اشعار حکیم محمد اختر صاحب کے درس مثنوی سے لیے گئے ہیں۔ اللہ تعالی کے بارے میں لکھتے ہیں

آہ را جز آسمان ہمدم نبود ۔۔۔۔۔ راز را غیر خدا محرم نبود

میں تنہائی میں ایسی جگہ اللہ کا نام لیتا ہوں جہاں اللہ کے سوا میری آہ میں میرا کوئی ساتھی نہیں ہوتا۔ میری محبت کے راز کو سوائے خدا کے اور کوئی نہیں جانتا۔
اے کہ صبرت نیست از فرزند و زن ۔۔۔۔صبر چوں داری ز رب ذوالمنن
عجیب بات ہے کہ تم بیوی بچوں کی ناراضی پر تو صبر نہیں کر سکتےجبکہ احسان کرنے والے رب کریم کی ناراضی پر صبر کر لیتے ہو۔
دہد نطفہ را صورتے چوں پری ۔۔۔۔ کہ کردہ است بر آب صورت گری
اے اللہ! تو نے نطفہ کے ایک قطرہ سے اتنی خوبصورت شکل تخلیق کی ہے۔ یہ تو گویا پانی سے نقش و نگار بنانے کے مترادف ہوا۔
چیست دنیا از خدا غافل بدن ۔۔۔۔ نے قماش و نقرہ و فرزند و زن
دنیا پرستی خدا سے غفلت کا نام ہے۔ یہ کپڑے، سونا چاندی، اولاد اور بیوی کے ساتھ تعلق کا نام نہیں ہے۔
ہم خدا خواہی و ہم دنیائے دوں ۔۔۔۔ ایں خیال است و محال است و جنوں
خدا کو بھی چاہتے ہو اور دنیا پرستی بھی اختیار کرتے ہو۔ یہ خیال تو محض پاگل پن اور ناممکن ہے۔
عشق من پیدا و دلبر ناپدید ۔۔۔۔ در دو عالم ایں چنیں کہ دلبر کہ دید
خدا کی محبت تو میرے دل میں پیدا ہو گئی جبکہ میرا محبوب نظروں سے اوجھل ہے۔ دونوں جہان میں کوئی ایسا محبوب تو دکھاؤ کہ جس کو دیکھے بغیر ہر کوئی اس پر جان نثار کر رہا ہو۔
لحن مرغاں را اگر واقف شوئی ۔۔۔۔ بر ضمیر مرغ کے عارف شوئی
(اے جعلی صوفیو!) اگرچہ تم نے چمن کے مرغوں کی آواز کی نقل کر بھی لی، پھر بھی ان کے دل میں جو مضمون ہے، اسے تم کیسے جان سکتے ہو۔
گر بیا موزی سفیر بلبلے ۔۔۔۔ تو چہ دانی کوچہ گو ید با گلے
اگرچہ تم نے بلبل کی آواز کی نقل کر بھی لی مگر تمہیں کیا معلوم کہ وہ پھول کے ساتھ کیا گفتگو کرتی ہے؟
کار مرداں روشنی و گرمی است ۔۔۔۔ کار دوناں حیلہ و بے شرمی است
مردوں کا کام سر گرم عمل رہنا ہے جبکہ کمینہ خصلت لوگوں کا کام حیلے بہانے اور بے شرمی سے (کام سے جی چرانا) ہے۔
پیش نور آفتاب خوش مساغ ۔۔۔۔ رہنمائی جستن از شمع و چراغ
روشن آفتاب کی موجودگی میں شمع و چراغ سے روشنی حاصل کرنا عجیب بات ہے۔ (یعنی اللہ تعالی کی ہدایت کے ہوتے ہوئے ادھر ادھر سے ہدایت کی توقع فضول ہے۔)
یکے آں کہ بر غیر بد بیں مباش ۔۔۔۔ دویم آں کہ بر خویش خود بیں مباش
دوسروں کے عیب تلاش کرنے کی بجائے انسان کو اپنی خامیاں تلاش کرنی چاہییں۔
مرکب توبہ عجائب مرکب است ۔۔۔۔ تا فلک تا زد بیک لحظہ ز پست
توبہ کا مرکب بھی عجیب چیز ہے۔ یہ توبہ کرنے والے کو ایک سیکنڈ میں پستی سے نکال کر آسمان پر پہنچا دیتا ہے۔
لیک شیرینی و لذات مقر ۔۔۔۔ ہست بر اندازہ رنج سفر
منزل پر پہنچنے کے لطف کا اندازہ سفر کی صعوبتوں سے ہی ہوتا ہے۔
ہمچو امرد کز خدا نامش دہند ۔۔۔۔ تابداں سالوس در دامش کنند
امرد (ایسا خوبصورت لڑکا جس کی داڑھی نہ نکلی ہو) کو یہ لوگ خدا ئے حسن کہتے ہیں تاکہ انہیں اپنے جال میں پھنسا لیں۔
گھومتے درویشوں کا رقص
قونیہ میں مولانا روم کا مقبرہ موجود ہے۔ اس مقبرے کی خاص بات یہاں پر ہونے والا درویشوں کا رقص ہے جو کہ "سماع" کہلاتا ہے۔ یہ برصغیر کے چشتی حضرات کے سماع سے خاصا مختلف ہے۔ قونیہ میں بہت سے غیر ملکی سیاح صرف یہ رقص دیکھنے کے لئے آتے ہیں۔ اس رقص کا طریقہ کار یہ ہے کہ اس میں چند درویش لمبے لمبے فراک پہن کر اسٹیج پر آتے ہیں۔ سر پر انہوں نے اوندھی بالٹیوں کی طرز کی ٹوپیاں لی ہوتی ہیں۔ اس کے بعد وہ ہاتھ پھیلا کر ایک عالم بے خودی میں خلاف گھڑی وار گردش کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ ان درویشوں کا استاد مختلف رنگ کا سوٹ پہن کر ان کے ساتھ کھڑا موسیقی کی زبان میں انہیں ہدایات جاری کرتا رہتا ہے۔
درویشوں کا یہ رقص دیوانہ وار ہوتا ہے مگران کے استاد میں ذرا بھی والہانہ پن نہیں پایا جاتا۔ یہ بالکل اسی طرح ہے جیسے ہمارے ہاں قوالی کے دوران بہت سے لوگ وجد میں آ کر حال کھیلنے لگتے ہیں مگر قوال کو خود کبھی وجد نہیں آتا۔ اس رقص کی تفصیل بیان کرتے ہوئے مولانا روم کی نسل کے بزرگ ڈاکٹر جلال الدین جلبی اس سماع کے بارے میں لکھتے ہیں
سماع کے اندر چار بار سلام کیا جاتا ہے: پہلا سلام سچائی پر انسان کی پیدائش کو بیان کرتا ہے۔۔۔۔ دوسرا سلام تخلیق کے بارے میں خدا کی عظمت کے بارے میں انسان کے جذبات کو بیان کرتا ہے۔ تیسرا سلام ان جذبات کو محبت میں تبدیل کر دینے کی علامت ہے۔ انسان عقل کو اس محبت پر قربان کر دیتا ہے۔ یہ مکمل سپردگی کا نام ہے۔ یہ خود کو خدا کی محبت میں فنا کر دینے کا نام ہے۔ بدھ مذہب میں یہ انسان کے لئے سب سے بڑا درجہ ہے جو کہ "نروان" کہلاتا ہے۔ اسلام میں اسے "فنا فی اللہ" کہا جاتا ہے۔ لیکن اسلام میں سب سے بڑا درجہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ہے جو کہ خدا کے بندے پہلے ہیں اور اس کے بعد اس کے رسول ہیں۔ ۔۔۔۔ چوتھا سلام اسی طرح ہے جیسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عرش پر جا کر واپس آ گئے۔ اسی طرح ایک درویش فنا فی اللہ کی منزل تک پہنچ کر مخلوق کی خدمت کے لئے واپس آ جاتا ہے۔
(Mevlana Celaleddin Rumi - About)
درویشوں کے اس رقص اور اس میں ان کے والہانہ پن کے بارے میں پڑھتے ہوئے میرے ذہن میں قرآن مجید کی یہ آیت آئی جس میں اہل مکہ کے بارے میں اللہ تعالی نے فرمایا:

وَمَا كَانَ صَلاتُهُمْ عِنْدَ الْبَيْتِ إِلاَّ مُكَاءً وَتَصْدِيَةً

(الانفال 8:35)
یعنی بیت اللہ کے پاس ان کی نماز تالیوں اور سیٹیوں کے علاوہ کچھ نہیں تھی۔
درویشوں کا رقص
بشکریہ
longpassages.org
بشکریہ

mawlana-konya.com

اللہ تعالی کے حضور اپنے جذبات اور والہانہ پن کے اظہار کے لئے اس نے اپنے پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ذریعے نماز جیسا خوبصورت طریقہ سکھایا ہے۔ انسان اپنے رب کی محبت میں اس کے سامنے کھڑا ہوتا ہے۔ اسی کی محبت میں ڈوب کر اس کے سامنے رکوع میں جھکتا ہے۔ پھر اوپر اٹھتا ہے اور پورے جوش و جذبے کے ساتھ اس کے سامنے سجدے میں گر جاتا ہے۔ قرآن مجید سجدے کو اللہ تعالی سے قربت کا ذریعہ بتاتا ہے: وَاسْجُدْ وَاقْتَرِبْ یعنی سجدہ کر کے میرے قریب ہو جاؤ۔
نماز کے ذریعے انسان اپنے رب کے ساتھ جس قدر محبت و قربت حاصل کر سکتا ہے، اس کا عشر عشیر بھی اسے ان ناچ گانوں سے حاصل نہیں ہوتا کیونکہ یہ انسان کے بنائے ہوئے طریقے ہیں جبکہ نماز اللہ کے پیغمبروں کی میراث ہے۔

تصوف کی عالمگیر تحریک

انسانیت کی تاریخ میں تصوف یا صوفی ازم ایک عالمگیر تحریک رہی ہے۔ ایک طویل عرصے سے اناطولیہ کا علاقہ تصوف کا عالمی مرکز رہا ہے۔ مناسب ہو گا کہ اس کی کچھ تفصیل یہاں پیش کر دی جائے۔

انسانوں میں دو رجحان بہت عام رہے ہیں۔ ایک رجحان دنیا پرستی کا ہے جس میں انسان مال و دولت، شہرت، اور لذت حاصل کرنے کے لئے اپنے دین و ایمان کو بھی داؤ پر لگا دیتا ہے۔ اس کے بالکل برعکس دوسرا رجحان دنیا سے گریز کا ہے جس میں انسان دنیا کو چھوڑ کر جنگلوں میں نکل جاتا ہے۔ قدیم دور سے یہ دونوں رجحان انسانوں میں موجود رہے ہیں۔ ایسے خواتین و حضرات جن میں دنیا سے گریز کا رجحان قوی تھا، انہوں نے ضروریات زندگی سے منہ موڑ کر جنگلوں اور خانقاہوں کی راہ لی اور اپنا پورا وقت اپنے رب کی تلاش میں صرف کرنا شروع کر دیا۔ یہی لوگ "راہب" کہلائے۔

دنیا کے جھمیلوں سے فراغت کی وجہ سے ان خواتین حضرات کے پاس وقت کی کمی نہ تھی۔ یہی وجہ ہے کہ خدا کے بارے میں سوچتے سوچتے انہوں نے بہت سے فلسفے وضع کر لیے۔ یونانی فلسفے سے تصوف میں "وحدت الوجود (Pantheism)" کا فلسفہ داخل ہوا۔ اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے عبادت کے نت نئے طریقے ایجاد کیے۔ تصوف کی دنیا کا بنیادی اصول یہ طے پایا کہ اس راہ میں چلنے والا ہر شخص اپنی شخصیت کو مٹا کر کسی مرشد کے ہاتھ میں اپنا ہاتھ دے اور اس کا غلام بن کر خود کو اس کے مکمل سپرد کر دے۔
اہل تصوف نے اپنا وقت نفسی علوم (Parapsychology) جیسے ٹیلی پیتھی، ہپناٹزم اور اس قبیل کے دیگر علوم میں بھی صرف کرنا شروع کر دیا۔ اس کے نتیجے میں انہیں محیر العقول کرامتیں دکھانے کی صلاحیت نصیب ہو گئی۔ چونکہ تصوف اور مذہب کا موضوع ایک ہی ہے، اس وجہ سے اس بات کا غالب امکان تھا کہ تصوف کا ٹکراؤ مروجہ مذاہب کے ساتھ ہو جائے۔ ایسا ہی ہوتا مگر اہل تصوف کی اکثریت نے مذہب سے ٹکراؤ کی بجائے ایڈجسٹمنٹ کی پالیسی اختیار کی۔ انہوں نے تصوف کے بنیادی نظریات اور اعمال کو قائم رکھتے ہوئے ہر مذہب کے اندر جگہ بنا لی۔ قدیم مذاہب میں بدھ مت، ہندو مت اور ایران کا زرتشتی مذہب اس کی مثال ہیں۔ خاص طور پر ہندوؤں کے جوگی برصغیر کے معاشرے میں آج تک غیر معمولی مقام کے حامل رہے ہیں۔

یہودیوں کے ساتھ بھی یہی معاملہ ہوا۔ ان کے ہاں "کبّالہ" کا مکتب فکر پیدا ہوا۔ یہود کے راہبوں نے نفسی علوم میں غیر معمولی مہارت حاصل کی اور اس کےذریعے لوگوں کے کام کرنے لگے۔ انہوں نے "زوہار" کے نام سے تورات کی ایک صوفیانہ تفسیر لکھی۔ ان کی کامیابیوں کے پیش نظر بہت سے دنیا پرست بھی ان کے ساتھ شامل ہو گئے۔ ان جعلی صوفیوں کا مقصد لوگوں کو اپنا مرید بنا کر انہیں لوٹنا تھا۔ انجیل سے معلوم ہوتا ہے کہ سیدنا عیسی علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانے میں ان صوفیاء کا بہت غلبہ تھا۔ آپ کایہ ارشاد بہت مشہور ہے

اے شریعت کے عالمو اور فریسیو! اے ریاکارو! تم پر افسوس، کیونکہ تم کسی کو اپنا مرید بنانے کے لئے تو تری اور خشکی کا سفر کر لیتے ہو اور جب بنا لیتے ہو تو اسے اپنے سے دوگنا جہنمی بنا دیتے ہو۔ (یعنی اپنے سے دوگنا بے عمل بنا دیتے ہو۔

(متی 23:15)

یہودیت کے بعد عیسائیت کا دور آیا۔ عیسائیوں نے رہبانیت یا تصوف کو غیر معمولی درجہ دیا۔انہوں نے رہبانیت کو باقاعدہ فن بنا کر پوری عیسائی دنیا میں پھیلا دیا۔ رومی مملکت کے طول و عرض میں بڑی بڑی خانقاہیں قائم ہوئیں جن میں ہزاروں کی تعداد میں لوگ اپنے نفس کو کچلنے کے لئے خود کو اذیت دینے میں مصروف رہا کرتے تھے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعض صحابہ جیسے سیدنا عثمان بن مظعون، ابوذر غفاری اور ابو درداء رضی اللہ عنہم میں دنیا سے گریز کا رجحان پایا جاتا تھا۔ ان کی اصلاح کرتے ہوئے آپ نے شدت سے رہبانیت کی نفی فرمائی۔ یہ واقعات چند مشہور احادیث میں اس طرح بیان ہوئے ہیں

سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: تین آدمیوں کا ایک گروہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ازواج کی خدمت میں حاضر ہوا۔ وہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عبادت کے بارے میں سوال کر رہے تھے۔ جب انہوں نے آپ کی عبادت کی تفصیلات بیان کیں تو وہ بولے: "کہاں ہم اور کہاں نبی صلی اللہ علیہ وسلم؟ اللہ نے آپ کی اگلی اور پچھلی خطائیں معاف کر دی ہیں۔" ان میں سے ایک نے کہا: "جہاں تک میرا تعلق ہے، میں تو ہمیشہ پوری رات نماز پڑھا کروں گا۔" دوسرے نے کہا: "میں ہمیشہ روزہ رکھوں گا اور کبھی افطار نہ کروں گا۔" تیسرے نے کہا: "میں خواتین سے دور رہوں گا اور کبھی شادی نہیں کروں گا۔"
جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف لائے تو آپ نے فرمایا: "کیا تم لوگوں نے اس اس طرح کہا ہے؟ اللہ کی قسم! میں تم سے زیادہ اللہ سے ڈرتا ہوں اور اس خوف رکھتا ہوں مگر روزہ بھی رکھتا ہوں او رافطار بھی کرتا ہوں۔ میں نماز بھی پڑھتا ہوں اور سوتا بھی ہوں اور شادی بھی کرتا ہوں۔ جس نے میری سنت سے اعراض کیا، اس کا مجھ سے کوئی تعلق نہیں۔

(بخاری کتاب النکاح)

سیدنا انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرمایا کرتے تھے: تم (دین کے معاملے میں) اپنی ذات پر تشدد نہ کیا کرو ورنہ تم پر تشدد کیا جائے گا۔ ایک قوم نے شدت سے کام لیا تو اللہ نے ان پر شدت کر دی۔ یہ انہی کی باقیات ہیں جو تم گرجوں اور خانقاہوں میں دیکھتے ہو۔ (پھر آپ نے یہ آیت تلاوت فرمائی) رَهْبَانِيَّةً ابْتَدَعُوهَا مَا كَتَبْنَاهَا عَلَيْهِمْ یعنی"رہبانیت تو انہوں نے خود ایجاد کر لی تھی۔ ہم نے اسے ان پر فرض نہ کیا تھا۔

(سنن ابو داؤد، کتاب الادب)
حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ان واضح ارشادات کے باعث مسلمانوں کی ابتدائی نسلوں میں صوفی ازم یا رہبانیت کا مزاج پروان نہ چڑھ سکا۔ بعد کی صدیوں میں مسلم معاشروں میں کچھ ایسی تبدیلیاں رونما ہوئیں جن کی بدولت یہاں تصوف کو غیر معمولی فروغ حاصل ہوا۔ ان تبدیلیوں کی تفصیل یہاں ہم ریحان احمد یوسفی صاحب کے الفاظ میں بیان کر رہے ہیں
خلافتِ راشدہ کے زمانے میں سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے عہد کے ابتدائی حصے تک مسلمان ان دونوں کے ساتھ مستقل حالت جنگ میں رہے۔آخر کار مسلمانوں نے سلطنتِ فارس کا خاتمہ کردیا اور روم کے تمام ایشیائی مقبوضات پر قبضہ کرکے اس کی کمر توڑدی۔ اس عمل کے نتیجے میں مشرکانہ تہذیب مغلوب ہوگئی اوران تمام علاقوں کے لوگوں نے اسلام قبول کرلیا ۔ یوں صحابۂ کرام کا مشن مکمل ہوگیا۔ تاہم اس دوران میں مسلم معاشرے میں ایک بنیادی تبدیلی یہ آئی کہ وقت گزرنے کے ساتھ رسول اللہ کے فیض یافتہ صحابہ کی تعداد کم ہوتی گئی اور مال و دولت کی بے پناہ کثرت ہوگئی۔ قیصر و کسریٰ کے خزانے اور شام و عراق کی سونا اگلتی زمینیں مسلمانوں کے قبضے میں آگئیں، لیکن غیر تربیت یافتہ نومسلموں کے زیر اثر مسلمانوں کی وہ اخلاقی روایت متاثر ہونے لگی جو نورِ نبوت کے فیضان سے مدینہ کے معاشرے میں روشن تھی۔
سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے عہد میں مسلمانوں کے باہمی خلفشار کا آغاز ہوا اور پھر ان کی مظلومانہ شہادت کے ساتھ ہی مسلمانوں میں باہمی جنگ و جدال کا آغاز ہوگیا۔سیدنا علی رضی اللہ عنہ کا پورا دور اسی جنگ وجدال اور انتشارمیں گزرا۔اس کے بعد بنو امیہ کاتقریباً ایک صدی پر محیط عرصہ مستقل بغاوتوں ،جنگوںاورخانہ جنگیوں سے عبارت ہے۔اس عرصہ میں سیدنا حسین رضی اللہ عنہ اورحضرت عبداللہ ابن زبیر رضی اللہ عنہما کی شہادت اور مکہ اور مدینہ کے مقدس شہروں کی بے حرمتی جیسے المناک واقعات پیش آئے ۔ اس کے علاوہ بھی باہمی جنگوں کے دیگر ان گنت واقعات میں صالحین کی بڑی تعداد اس دنیا سے رخصت ہوگئی۔
بنوامیہ کا خاتمہ علویوں(حضرت علی کی اولاد و وابستگان) اور عباسیو ں کی ایک بڑی بغاوت کے نتیجے میں ہوا ۔ تاہم امن ابھی لوگوں کے نصیب میں نہ تھا۔ پہلے عباسیوں نے بنو امیہ پر ظلم و ستم کے بدترین پہاڑ توڑے۔ اس کے بعد علویوں اور عباسیوں کا باہمی جھگڑا کھڑا ہوگیا۔ علویوں کی پے در پے بغاوتوں کے نتیجے میں خلیفہ منصور کے زمانے تک یعنی اگلے بیس برس مسلم معاشرہ خانہ جنگی کی ایک مستقل کیفیت میں رہا۔
دوسری صدی ہجری کے نصف اول تک کے یہ وہ حالات ہیں جن میں ایک طرف مسلم معاشرے میں مال و دولت کی بے پناہ کثرت تھی اور دوسری طرف مستقل جنگ و جدال اوربدامنی کا ماحول تھا۔ان حالات میں ایک مسلمان کی ضرورت تھی کہ مادیت کے ماحول میں اس کے روحانی ارتقا اور بدامنی کی فضا میں ذہنی و قلبی سکون کے لیے مذہبی قیادت آگے آتی اور قرآن پاک کی روشنی میں اس کی رہنمائی کرتی۔ بدقسمتی سے یہ نہیں ہوسکا۔
صالحین کی ایک بڑی تعداد مستقل جنگوںمیں مصروف رہی ، چاہے وہ خارجی قوتوں کے خلاف تھیں یا بنو امیہ کے خلاف ہونے والی بغاوتوں کی شکل میں۔باقی اہل علم کی توجہ ایک عظیم مسلم ریاست کے قانونی نظام کی تشکیل کے لیے فقہی سرگرمیوں میں صرف ہونے لگی۔ فقہا کی آرا کے ردعمل میں لوگوں نے دینی احکام کواحادیث سے جمع کرنے کی کوشش شروع کردی۔ ائمہ اربعہ کا کام دوسری اور تیسری صدی میں سامنے آیا۔ اسی عرصے میں صحاح ستہ کی تدوین ہوئی۔مسلمان اہل علم فقہ اور حدیث کی تدوین سے فارغ ہوئے تو یونانی فکر و فلسفہ سے مسلم معاشرے میں در آنے والے کلامی مباحث کی طرف متوجہ ہوگئے۔ چوتھی صدی کے نصف اول میں امام ابولحسن اشعری(م324ھ) اورامام ابو منصور ماتریدی (م 332ھ) جیسے لوگ پیدا ہوئے جنہوں نے عقائد کے حوالے سے پیدا ہونے والے کلامی مباحث پر علمی کام کیا۔
اس جائزے سے یہ اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ ابتدائی صدیوں میں جب مستقل خانہ جنگی کی وجہ سے ذہنی پریشانی اور مال و دولت کی فراوانی کی بنا پرپیدا ہونے والے روحانی خلا اور اخلاقی بگاڑ جیسے مسائل کو حل کرنے کی ضرورت تھی ، مسلمان اہل علم کی ترجیحات جنگ و سیاست، فقہ و حدیث اور فلسفہ و کلام بنی رہیں۔
ابتدائی صدی میں اس صورتحال میں ایک نمایاں استثنا حسن بصری (م110ھ) کا تھا۔آپ ایک جلیل القدر تابعی، مفسر اور محدث تھے۔ام المومنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے گھر پرورش پانے والے حسن بصری(پیدائش21ھ) نے صحابۂ کرام کا کافی زمانہ پایا ۔اپنے دور کے انتشار اور صحابۂ کرام کے دور کے بعد آنے والے اخلاقی انحطاط کو انہوں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا اور اس کے خلاف بھرپور جدو جہد کی۔وہ صاحب علم ہونے کے ساتھ ساتھ صاحبِ نظر، صاحبِ درد اور قادر الکلام خطیب بھی تھے۔ان کے مواعظ کی اثر آفرینی اس درجہ بڑھی ہوئی تھی کہ امام غزالی نے اپنی کتاب احیاء العلوم میں ان کے کلام کو نبیوں کے کلام کی طرح قرار دیا۔
ان کی کوششوں کے نتیجے میں ایک فضا پیدا ہوئی مگر بدقسمتی سے ان کے بعد یہ میدان اہل علم کی دلچسپی کا موضوع نہ بن سکا۔جبکہ معاشرے کی اخلاقی تربیت کرنا اورربانی تعلق کی درست جہت کی طرف لوگوں کی رہنمائی کرنا بہرحال معاشرے کی ضرورت تھی جو اُس دور کے معروضی حالات میں زیادہ شدت اختیار کرگئی تھی۔اس کے نتیجے میں ایک زبردست خلا پیدا ہوا۔انسانی ضروریات کی طلب سے پیدا ہونے والا کوئی خلا کبھی باقی نہیں رہتا۔یہ خلا تصوف کی تحریک نے بھر دیا ۔ مسلم معاشرے کے زہد اور غیر مسلم فلسفوں اور روایات سے متاثر تصوف کی تحریک اس فضا میں غیر محسوس طریقے سے اپنی جگہ بناتی چلی گئی اور دوسری اور تیسری صدی میں عوام و خواص دونوں میں مقبول ہوگئی۔

مسلم دنیا میں تصوف کا عروج و زوال

تیسری صدی ہجری اور اس کے بعد جب عباسی خلفا کے زیر حکومت مسلم معاشرہ علمی، تمدنی، معاشی اور معاشرتی پہلو سے اپنے عروج پر تھا ، اسی دور میں تصوف کی روایت بھی وقت کے بہترین لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کررہی تھی۔سید الطائفہ شیخ جنید بغدادی(م 297ھ)،شیخ بایزید بسطامی(م261ھ)،شیخ سری سقطی(م 253ھ)، شیخ ذوالنون مصری(م 245ھ)،شیخ ابو بکر شبلی(م334ھ)اورشیخ ابو القاسم گرگانی(م450 ھ) جیسے اکابرین نے اگر تصوف کی عملی روایت کو منتہائے کمال پر پہنچایا تو سہل بن عبداللہ تستری(م283 ھ)، شیخ ابو طالب مکی(م 386ھ) ، امام ابوالقاسم قشیری(م 465ھ)، شیخ علی ہجویری(م465 ھ)،امام غزالی(م 505ھ)، شیخ عبدالقادرجیلانی(م561 ھ)، شیخ شہاب الدین سہروردی(م632 ھ)، شیخ ابن عربی(م 638ھ) اور جلال الدین رومی(م 672ھ) جیسے صوفیوں نے عملی روایت کے ساتھ علم اور قلم کی طاقت کے ساتھ تصوف کے اسرارو رموز کو اعلیٰ علمی سطح پر پیش کیا۔
تاہم پانچویں صدی ہجری میں تصوف کا افراط و تفریط سامنے آنے لگا تھا۔ اس لیے اس پر شدید تنقید شروع ہوگئی۔ پانچویں صدی میں اس تنقید کاآغاز ابن حزم (م456ھ) نے کیا۔چھٹی صدی میں ابن جوزی (م597ھ) اور پھر ابن تیمیہ(م 728ھ) اور ان کے شاگرد ابنِ قیم (م 791ھ) نے اس تنقید کو عروج پر پہنچا دیا۔
یہ تنقید آنے والے زمانے میں اگر جاری رہتی تو بہت عرصے قبل ہی تصوف کی روایت ختم ہوجاتی یا کم از کم اس کا اثر بہت محدود ہوجاتا۔تاہم اس عرصے میں مسلم دنیا کو ایک زبردست سانحے کا سامنا کرنا پڑا جس نے نہ صرف مسلمانو ں کی علمی روایت کو شکست و ریخت سے دوچار کردیا بلکہ وہ حالات پیدا کردیے جن میں لوگوں کے لیے سکون وعافیت کی واحد جائے پناہ گوشۂ تصوف تھا۔
یہ سانحہ تاتاریوں کا مسلم دنیا پر حملہ تھاجس نے ساتویں صدی ہجری میں وسطی ایشیا سے لے کر مشرق وسطی تک تمام عالم اسلام کو تباہ و برباد کر کے رکھ دیا۔مسلم دنیا کے تمام تہذیبی اور علمی مراکز (بجز اسپین کے جو بعد میں مسیحیوں کے ہاتھوں برباد ہو گیا) اس آفت کی نذر ہو گئے۔اس فتنہ کا نقطۂ عروج بغداد کی تباہی کا سانحہ تھا جو 1258ء (بمطابق 656 ھ) میں پیش آیا ۔جس کے بعد مسلم دنیا پر تباہی و بربادی کی وہ المناک رات مسلط ہوئی جس کی مثال انسانی تاریخ میں کم ہی ملتی ہے۔
مسلم معاشرہ، ریاست، سیاست، علم ، تہذیب غرض ہر شعبۂ زندگی پر اس کے ایسے منفی اثرات مرتب ہوئے جن سے مسلمان کئی صدیوں تک باہر نہ نکل سکے۔مسلمانوں نے سیاسی اعتبار سے اپنا کھویا ہوا مقام سلطنتِ عثمانیہ اور مغلیہ سلطنت کی شکل میں کسی نہ کسی طرح واپس لے لیا ،لیکن علمی طور پر وہ دوبارہ نہ اٹھ سکے۔ایسے تباہ حال مسلم معاشرے میں اہل تصوف کا اثر و نفوذ مزید بڑھ گیا۔خاص کر عالمِ عجم میں تصوف کی مختلف شاخوں اور خانوادوں کے سلسلے پھیلتے چلے گئے۔اہلِ شریعت کے بالمقابل اہلِ طریقت ہی اصلاً معاشرے کی فکری قیادت کے منصب پر فائز ہوگئے۔
اس دور میں ہندوستان مسلمانوں کا فکری مرکز بن چکا تھا۔اس کی وجہ یہ تھی کہ مسلم اقتدار کا یہ واحد خطہ تھا جو فتنہ تاتار سے محفوظ رہا تھا۔ چنانچہ پورے وسطی ایشیا، ایران اور مشرق وسطیٰ سے مسلم شرفا ، علما اور صوفیا ہجرت کر کے یہاں آگئے۔سرزمینِ ہند اپنے سیاسی حالات ، تاریخی پس منظر، مذہبی روایت اور فلسفیانہ افکار کی بنا پر تصوف کے پودے کی زرخیری کے لیے ایک بہترین جگہ تھی۔ چنانچہ شجرِ تصوف یہاں خوب پھلا پھولا اور اس کے بطن سے خواجہ معین الدین چشتی (م627 ھ)، خواجہ قطب ا لدین بختیار کاکی(م 633ھ)،خواجہ فرید گنج شکر(م664 ھ) ،شیخ بہاء الدین زکریاملتانی(م 665ھ)اور شیخ نظام الدین اولیا(م725ھ) جیسے اکابرینِ تصوف نے جنم لیا۔
مغلیہ سلطنت کے زمانے تک ہندوستا ن میں مسلمانوں کی حیثیت غیر مقامی حکمرانوں کی نہیں رہی تھی بلکہ بحیثیت قوم یا گروہ ان کا اجتماعی تشخص واضح ہونے لگا تھا۔لیکن حکومت کے باجود ہندوستان میں مسلمان ہندوؤں کے مقابلے میں بہرحال اقلیت میں تھے ۔ دوسری طرف اس معاشرے میں اہل تصوف کی حیثیت صرف صوفیا ہی کی نہیں بلکہ مسلم معاشرے کے فکری رہنما ؤں کی بھی تھی ۔اس پس منظر میں ہند میں تصوف کی روایت علمی اور سیاسی طور پر بھی فعال ہونے لگی۔ اس میں ایک طرف شیخ احمد سر ہندی (م 1033ھ)جیسے صاحبِ علم وفضل اور صاحبِ عزیمت لوگ پیدا ہوئے تو دوسری طرف شاہ ولی اللہ(م1762ء بمطابق 1176ھ) جیسے بے نظیر عالم اورمدبر پیدا ہوئے جن کی نظیر تاریخ اسلام میں کم ہی پائی جاتی ہے۔ایسی ہی ایک مثال سید احمد شہید(م1831ء بمطابق 1246ھ) اورشاہ اسماعیل(م1831ء بمطابق 1246ھ) کی ہے جو صاحبِ سیف و قلم تھے۔ جیسا کہ معلوم ہے یہ دونوں بزرگ تصوف کی روایت سے منسلک تھے ، خاص پر شاہ اسماعیل صاحب جن کی تصنیف' عبقات 'تصوف کی ایک بہت اہم کتاب ہے۔
انیسویں اور بیسویں صدی کا زمانہ مسلمانوں کے ہمہ جہتی زوال کا دور تھا۔ عالمِ اسلام تقلید و جمود کی بیڑیوں میں جکڑا ہوا تھا۔علمی و فکری جمود اور سیاسی و معاشرتی انحطاط کی لہرہر جگہ اپنے اثرات مرتب کررہی تھی۔ دوسری طرف اہلِ مغرب تقلید کی بیڑیاں کاٹ کراورعلم و عقل کو امام بناکر موڈرن ازم یعنی جدیدیت کے دور میں داخل ہوچکے تھے۔وہ سائنسی اور سماجی علوم میں ترقی کے ہتھیار سے لیس ہوکر نکلے اور پورے عالم اسلام پر چھاگئے ۔
اس کے ردعمل میں عالم اسلام میں جو احیائی تحریکیں یا افکار وجود میں آئے، ا ن سب نے یہ محسوس کیا کہ تصوف اس جمود و بے عملی کو پیدا کرنے میں ایک بنیادی کردار ادا کررہاہے اور تصوف کی اعلیٰ اخلاقی روایات گدی نشینوں کے مفادات پر قربان ہونے لگی ہیں۔اس صورتحال پر اقبال(م 1938ء) جیسے بڑے لوگوں نے تنقید کی اور اپنی پرجوش شاعری سے لوگوں کو علمی و عملی جمود توڑنے پر آمادہ کیا۔ اِس زمانے میں سیاسی حالات سے متاثر ہوکر جومسلم احیائی تحریکیں وجود میں آئیں ان میں اہل تصوف کا زیادہ کردار نہ تھا۔ مزید یہ کہ ابن تیمیہ کے زیر اثر عرب میں جو احیائی تحریک اٹھی وہ تصوف کے قطعاً خلاف تھی۔ خود برصغیر میں پیدا ہونے والی اسلام کے سیاسی انقلاب کی تعبیر اپنی روح کے اعتبار سے تصوف کے خلاف تھی۔ اس سے وابستہ بڑے اہل علم نے تصوف پر شدید تنقیدیں کیں۔
امت کی تاریخ میں ایک طویل عرصہ بعد فکری قیادت ان لوگوں کے ہاتھ میں آگئی جو تصوف کے خلاف تھے یا اس سے زیادہ ہمدردی نہیں رکھتے تھے۔نیز جدید تعلیم کے بڑھتے ہوئے رجحانات بھی اس بات میں مانع ہوئے کہ لوگ اپنا ہاتھ شیخ کے ہاتھ میں دے کر دنیا سے منہ پھیر لیں۔مسلم معاشرہ مغرب کی جدیدیت کا براہِ راست اثر قبول کررہا ہے جس میں تقلید کے مقابلے میں آزادی اور باطنی تجربات و مشاہدات کے مقابلے میں عقلیت کو بہرحال ترجیح حاصل ہے ۔ ان تمام چیزوں نے مل کر مسلم معاشرے میں اہل تصوف کے کردار کو بہت محدود کردیا ہے اور زمانۂ قدیم کی طرح آج اعلیٰ اذہان تصوف کی تحریک سے کم ہی وابستہ نظر آتے ہیں۔
(انسان کا مسئلہ)
میرے خیال میں دور جدید میں تصوف کے زوال کی ایک بڑی وجہ اہل تصوف کا اپنا کردار ہے۔ قدیم دور کے صوفی اپنے مشن سے مخلص ہوا کرتے تھے۔ ان کے اندر دولت کی طلب نہ ہوا کرتی تھی۔ موجودہ دور میں زیادہ تر صوفیاء نے اپنے روحانی سلسلوں کو جاگیر بنا لیا ہے جو وراثت کی طرح ان کی اگلی نسل میں منتقل ہوتی ہے۔ اب پیری مریدی کا سب سے بڑا مصرف یہی بنا دیا گیا ہے کہ بے وقوف مریدوں کو ذہنی طور پر غلام بنا کر ان کی دولت پر عیش کی جائے۔

اسلام اور تصوف

مسلمانوں کی پوری تاریخ کا اگر جائزہ لیا جائے تو مسلم صوفیاء میں تین غالب رجحانات نظر آتے ہیں
صوفیاء کے پہلے گروہ کا مقصد صرف اور صرف "تزکیہ نفس" ہے۔ یہ لوگ قرآن و سنت کا علم حاصل کرتے ہیں اور اسے دوسروں تک پہنچاتے ہیں اور اس طریقے سے لوگوں کی شخصیتوں کو نفسانی آلائشوں سے پاک کرتے ہیں۔ یہ لوگ بدعات سے پرہیز کرتے ہیں اور ان کی پوری زندگی شریعت کے مطابق بسر ہوتی ہے۔ اس قسم کے صوفیاء کا سراغ مسلمانوں کی ابتدائی صدیوں میں ملتا ہے۔ سیدنا حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ جیسی نابغہ روزگار شخصیات اس کی مثال ہیں۔ موجودہ دور میں صوفیاء کا یہ گروہ ناپید ہوتا جا رہا ہے۔

صوفیاء کا دوسرا گروہ وہ ہے شریعت کی کھلم کھلا مخالفت کرتا ہے۔ ان کے نزدیک دینی علوم محض ظاہری علوم ہیں۔ اصل علم باطن کا علم ہے جو ظاہری حواس سے نہیں بلکہ باطن کی آنکھ سے حاصل ہوتا ہے۔
اس گروہ کے صوفی کھلے عام فحش کاموں کا ارتکاب کرتے ہیں، نشہ آور اشیاء استعمال کرتے ہیں، مزاروں کی پوجا کرتے ہیں اور شریعت کی تمام حدود کو توڑتے ہیں۔

صوفیاء کا تیسرا گروہ وہ ہے جو شریعت کو بنیادی اہمیت دیتا ہے البتہ انہوں نے ایسے بہت سے تصورات اوراد و مشاغل ایجادکر رکھے ہیں جن کا دین میں کوئی تصور نہیں ملتا
۔ اس گروہ کے صوفی عام طور پر دینی اعتبار سے تعلیم یافتہ ہوتے ہیں۔ یہ لوگ صوفیاء کے دوسرے گروہ کی شدید مذمت کرتے ہیں اور قرآن و حدیث کے حوالوں سے بات کرتے ہیں۔ ان کے نقطہ نظر کے مطابق پہلے گروہ سے تعلق رکھنے والے صوفیاء اصلی نہیں ہوتے۔ اس تیسرے گروہ میں بعض بڑے مذہبی علماء بھی شامل رہے ہیں۔ اس وقت یہی تیسرا گروہ صوفیاء کی اکثریت پر مشتمل ہے۔
پہلے گروہ کے بارے میں تو کچھ کہنے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ یہ لوگ دین پر پوری طرح عمل پیرا ہوا کرتے تھے۔ دوسرے گروہ کے بارے میں بھی بحث کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ ان کی تردید تو خود شریعت پسند صوفی کرتے ہیں۔ تیسرے گروہ کے بعض بزرگوں کے ساتھ مجھے وقت گزارنے کا موقع ملا ہے۔ ان کے نظریات اور اعمال کا اگر اللہ تعالی کے کلام قرآن مجید اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت کی روشنی میں جائزہ لیا جائے تو چند ایسے معاملات ہیں جن میں ان کے عقائد و اعمال قرآن و سنت سے بالکل متضاد نقطہ نظر پیش کرتے ہیں۔ ان اہل تصوف کے ساتھ میرا جو تجربہ رہا ہے، اس کے نتیجے میں چند ایسے معاملات میرے سامنے آئے ہیں جہاں تصوف کی روایت قرآن و
سنت سے بالکل مختلف نقطہ نظر پیش کرتی نظر آتی ہے۔
وحدت الوجود

کا نظریہ ہے۔قرآن مجید اور مروجہ صوفی ازم کی تعلیمات میں سب سے بڑا تضاد (Pantheism) " صوفیاء کی اکثریت اس نظریہ کی قائل ہے۔ قرآن کا تصور توحید تو یہ ہے کہ اس کائنات کا ایک خدا ہے۔ باقی سب اس کی مخلوق ہے۔ اکابر صوفیاء قرآن کے اس تصور توحید کو "عوام کی توحید" قرار دیتے ہیں۔ ان کے خیال میں لا الہ الا اللہ کی توحید عام لوگوں کی توحید ہے۔ ان کے نقطہ نظر کے مطابق توحید "لا موجود الا اللہ" ہے۔ اس کا معنی یہ ہے کہ کوئی بھی چیز خدا کی مخلوق نہیں ہے۔ اس کائنات میں صرف ایک ہی وجود ہے اور وہ اللہ تعالی کی ذات ہے۔
بظاہر تو یہ نظریہ توحید کا بڑا علم بردار نظر آتا ہے مگر ذرا سا غور کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ نظریہ ایک بہت بڑے شرک کی راہ کھول دیتا ہے۔ اگر کائنات میں خدا کے سوا کچھ نہیں ہے تو یہ جو سب کچھ نظر آتا ہے، یہ خدا ہی ہوئے۔ اس کے بعد انسان کا اپنا وجود بھی کوئی حیثیت نہیں رکھتا بلکہ ہر انسان خدا ہی ٹھہرا۔ صرف انسان ہی پر کیا موقوف، تمام حیوانات، نباتات، جمادات، سیارے، ستارے، زمین، آسمان سبھی خدا ہوئے۔ اس کے بعد ایمان و کفرکی حقیقت ختم ہو گئی۔ جب ہر انسان خدا ہی کے وجود کا حصہ ہے تو پھر آخرت کی جزا و سزا کیا معنی رکھتی ہے؟ یہی وجہ ہے کہ بعض اکابر صوفیاء نے انا الحق یعنی "میں حق ہوں" اور سبحانی ما اعظم شانی یعنی "میں پاک ہوں، میری شان کیا بلند ہے!" کے نعرے لگائے۔ وحدت الوجود کو بڑے پیمانے پر ہندوؤں کے ہاں اختیار کیا گیا ہے، جس کی وجہ سے ان کے ہاں ہر چیز کو دیوی دیوتا کا مقام دے دیا گیا ہے۔
اسلام اور مروجہ صوفی ازم میں دوسرا بڑا فرق "ختم نبوت" کا عقیدہ ہے۔ قرآن مجید کے مطابق محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خاتم النبیین ہیں۔ آپ پر نہ صرف نبوت ختم ہوئی بلکہ نبوت کے دروازے کو مکمل طور پر بند کر کے اسے سیل کر دیا گیا۔ صوفی علماء بظاہر تو ختم نبوت کے قائل نظر آتے ہیں مگر یہ انبیاء کرام کی وحی کے علاوہ بھی خدا سے براہ راست ہدایت حاصل کرنے کے قائل ہیں۔ اس طریق کار کو "الہام" کا نام دیا جاتا ہے۔ اپنی نوعیت کے اعتبار سے وحی اور الہام میں کوئی فرق نہیں ہے۔ یہ محض لفظی اختلاف ہے ورنہ دونوں کی حقیقت یہی ہے کہ اللہ تعالی سے براہ راست ہدایت حاصل کی جائے۔
اگر خدا سے براہ راست ہدایت حاصل کرنے کو ممکن تصور کر لیا جائے تو پھر وحی اور نبوت کی کوئی حیثیت نہیں رہ جاتی۔ اس کے بعد کوئی شخص اگر نبوت کا دعوی نہ بھی کرے، وہ الہام کی بنیاد پر ہی دوسروں کو اپنی اطاعت کے لئے مجبور کر سکتا ہے۔ عجیب بات یہ ہے کہ اس الہام کے قائل ہمارے بزرگ بڑی شدت سے ختم نبوت کے عقیدے کا پرچار کرتے ہیں اور جھوٹے نبیوں کے پیروکاروں کے خلاف مہم چلاتے ہیں۔ مگر ایسا کرنے کے ساتھ ساتھ وہ الہام کو درست تصور کر کے خود ہی ختم نبوت کے عقیدے پر ضرب بھی لگا رہے ہوتے ہیں۔ ان حضرات کے ہاں یہ ایک ایسا تضاد ہے جس کی نظیر شاید ہی کسی اور معاملے میں مل سکے۔
قرآن مجید اور مروجہ تصوف کی دعوت میں تیسرا بڑا فرق یہ ہے کہ قرآن بار بار انسان کی عقل کو اپیل کرتا ہے۔ اللہ تعالی نے انسان کو ایک عقل مند مخلوق بنایا ہے۔ یہ عقل ہی وہ شرف ہے جس کی بدولت انسان حیوانات سے بڑا درجہ رکھتا ہے۔ عقل اور وحی میں کوئی تضاد نہیں بلکہ انسانی عقل اگر جذبات سے مغلوب نہ ہوئی ہو تو پھر یہ وحی کی آواز کو پہچانتی اور اس کی طرف لپکتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن مجید میں بار بار أَفَلا تَعْقِلُونَ یعنی "کیا تم عقل نہیں رکھتے؟" اور لَعَلَّكُمْ تَعْقِلُونَ یعنی "تاکہ تم عقل سے کام لو" کہہ کر انسانی عقل کو اپیل کی جاتی ہے۔ قرآن یہ بیان کرتا ہے کہ اس کی نشانیوں میں اہل عقل ہی غور و فکر کرتے ہیں۔
اس کے بالکل برعکس ان اہل تصوف کی اکثریت کے ہاں عقل کو "حجاب اکبر" قرار دیا جاتا ہے۔ ان کی محفلوں میں اپنی عقل سے سوچنے والوں کی بری طرح حوصلہ شکنی کی جاتی ہے۔ مریدین کو اس بات کی تلقین کی جاتی ہے کہ وہ خود کو مرشد کے سپرد اس طریقے سے کریں جیسے مردہ کے ہاتھ میں زندہ ہوتا ہے۔ برصغیر کے ایک بڑے صوفی عالم لکھتے ہیں
بیعت ارادت

بیعت ارادت یہ ہے کہ مرید اپنے ارادہ و اختیار ختم کر کے خود کو شیخ و مرشد ہادی برحق کے بالکل سپرد کر دے، اسے مطلقا اپنا حاکم و متصرف جانے، اس کے چلانے پر راہ سلوک چلے، کوئی قدم بغیر اس کی مرضی کے نہ رکھے۔ اس کے لئے مرشد کے بعض احکام، یا اپنی ذات میں خود اس کے کچھ کام، اگر اس کے نزدیک صحیح نہ بھی معلوم ہوں تو انہیں افعال خضر علیہ الصلوۃ والسلام کی مثل سمجھے، اپنی عقل کا قصور جانے، اس کی کسی بات پر دل میں اعتراض نہ لائے، اپنی ہر مشکل اس پر پیش کرے۔۔۔۔۔
مرشد کے حقوق مرید پر شمار سے افزوں ہیں، خلاصہ یہ ہے کہ اس کے ہاتھ میں مردہ بدست زندہ ہو کر رہے۔ اس کی رضا کو اللہ عزوجل کی رضا اور اس کی ناخوشی کو اللہ عزوجل کی ناخوشی جانے۔ اسے اپنے حق میں تمام اولیائے زمانہ سے بہتر سمجھے، اگر کوئی نعمت دوسرے سے ملے تو بھی اسے (اپنے) مرشد ہی کی عطا اور انہیں کی نظر کی توجہ کا صدقہ جانے۔ مال، اولاد، جان سب ان پر تصدق (وار دینے) کرنے کو تیار رہے۔
ان کی جو بات اپنی نظر میں خلاف شرعی بلکہ معاذ اللہ (گناہ) کبیرہ معلوم ہو، اس پر بھی نہ اعتراض کرے، نہ دل میں بدگمانی کو جگہ دے بلکہ یقین جانے کہ میری سمجھ کی غلطی ہے۔۔۔۔۔۔جو وہ حکم دیں "کیوں" نہ کہے، دیر نہ کرے، سب کاموں میں اسے تقدیم (اولیت) دے۔۔۔۔۔
ان تعلیمات کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ مرید، اپنے پیر کے ہاتھ میں کھلونا بن کر رہ جاتا ہے۔ مرید کی مکمل برین واشنگ کر کے اسے پیر و مرشد کا ذہنی و نفسیاتی غلام بنا دیا جاتا ہے۔ اس مقصد کے لئے جو طریق ہائے کار استعمال کیے جاتے ہیں، ان کی تفصیل ہم اپنی کتاب "مسلم دنیا اور ذہنی ، فکری اور نفسیاتی غلامی" میں بیان کر چکے ہیں۔
موجودہ اہل تصوف کے ہاں مرشد کی ذہنی غلامی کی یہ روایت دین اسلام کے بالکل خلاف ہے۔ آج کے دور کا بڑے سے بڑا ولی بھی سیدنا ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما سے بڑا مقام حاصل نہیں کر سکتا۔ ان کے ہاں یہ عام معاملہ تھا کہ اگر کسی شخص کو ان سے کسی بات پر اختلاف ہوتا تو بھرے مجمع میں ان سے اس اختلاف کا اظہار کر کے ان سے جواب طلبی کر سکتا تھا۔ اس کے برعکس صوفیاء کے ہاں اختلاف رائے تو درکنار ، اس بارے میں سوچنا بھی جرم ہے۔

موجودہ اہل تصوف اور اسلام کے درمیان چوتھا بڑا فرق "قبر پرستی" ہے۔ صوفیاء کی اکثریت بزرگان دین کے مزارات پر چلہ کشی کرتی ہے اور قبروں سے روحانی فیض حاصل کرنے کا دعوی کرتی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آپ کے صحابہ کا مزاج اس سے بالکل مختلف تھا۔ اگر قبروں سے روحانی فیوض و برکات حاصل کیے جا سکیں تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قبر انور سے بڑھ کر کون سی قبر ہو گی۔

سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے مرض وفات میں ارشاد فرمایا: "اللہ نے ان یہودیوں اور عیسائیوں پر لعنت فرمائی جنہوں نے اپنے انبیاء کی قبروں کو نماز کی جگہ بنا لیا۔ " آپ فرماتی ہیں: "اگر یہ خوف نہ ہوتا کہ حضور کی قبر کو بھی لوگ نماز کی جگہ بنا لیں گے تو آپ کی قبر مبارک کھلی جگہ پر ہوتی۔

(بخاری، کتاب الجنائز)

سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قبروں کو پختہ بنانے، ان پر لکھنے، ان پر عمارت تعمیر کرنے اور ان پر پاؤں رکھ کر چلنے سے منع فرمایا۔

(ترمذی، کتاب الجنائز)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات کے بعد آپ کے کثیر تعداد میں صحابہ 90 سال تک موجود رہے ہیں۔ان کے حالات زندگی پر دوسری صدی ہجری ہی میں طبقات ابن سعد جیسی کتاب لکھی گئی ہے جس میں ہزاروں صحابہ کے حالات زندگی بیان کیے گئے ہیں۔ اس کتاب کی گیارہ جلدیں ہیں جن میں ہر جلد 600صفحات کے قریب ہے۔ اس کے علاوہ تیسری صدی میں امام بخاری کے استاذ کے استاذ ابن ابی شیبہ نے صحابہ کرام کے اقوال و اعمال کو اپنی مشہور کتاب "المصنف" میں جمع کیا ہے۔ اس کتاب کی 26 جلدیں ہیں جن میں سے ہر جلد 700 صفحات کے آس پاس ہے۔ ان تمام کتب میں کوئی ایک بھی ایسی روایت نہیں ملتی کہ کسی صحابی نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قبر انور پر آ کر چلے اور مراقبے کیے ہوں اور اس طریقے سے روحانی سفر طے کیے ہوں۔ اگر آپ کی قبر مبارک کا یہ معاملہ ہے تو پھر بعد کے کسی بزرگ کی قبر سے فیضان کا حصول کیسے ممکن ہے؟

موجودہ اہل تصوف اور اسلام کے درمیان پانچواں بڑا فرق "ترک دنیا" کا ہے۔ جیسا کہ اوپر بیان کیا جا چکا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے واضح الفاظ میں ترک دنیا سے منع فرمایا ہے۔ اس معاملے میں مسلمانوں کے ارباب تصوف میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ ایک گروہ کے نزدیک بہرحال ترک دنیا افضل ہے۔ کھانے پینے کی لذتوں، ازدواجی زندگی کی مسرتوں اور دنیا کے دیگر معاملات سے لطف اندوز ہونے کی بجائے خود کو خدا کے لئے وقف کر دینا چاہیے۔
اہل تصوف کا تیسرا گروہ جس میں شامل لوگ قرآن و حدیث پڑھتے ہیں، وہ اس حقیقت سے بخوبی واقف ہیں کہ اسلام ترک دنیا کی اجازت نہیں دیتا۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے بڑے طبقے میں ترک دنیا کو ترک کر دیا گیا ہے۔ ان کا نقطہ نظر یہ ہے کہ اگر دنیا رب کی یاد سے غافل نہ کرے تو پھر دنیاوی زندگی کے مزے لوٹنے میں بھی کوئی حرج نہیں ہے۔
اسلام اور مروجہ تصوف میں چھٹا بڑا تضاد وہ اذکار، اوراد، چلے اور مراقبے ہیں جن کا کوئی ذکر قرآن مجید یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت میں نہیں ملتا۔ بغیر سوچے سمجھے قرآن ختم کرنے پر زور، لاکھوں کی تعداد میں آیات کا ورد، سانس اوپر نیچے کرنے کے ذریعے ذکر، جنگلوں اور غاروں میں چالیس چالیس دن کے مراقبے، ان سب کے پورے مدون قوانین ہیں جو ارباب تصوف نے تخلیق کر لیے ہیں۔ ان سب کا کوئی ذکر اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ارشادات میں نہیں ملتا۔

اسلام اور تصوف میں یہ وہ تضادات ہیں جن کا تصوف سے وابستگی کے دور میں میں نے بذات خود مشاہدہ کیا ہے۔ میں نے بہت سے صوفی بزرگوں کی خدمت میں جب ان
تضادات کی نشاندہی کی تو مجھے بس خاموش رہنے کا حکم ہوا۔ کوئی صوفی بزرگ اس کا تسلی بخش جواب پیش نہ کر سکا۔ اگر کوئی صاحب ان تضادات کو حل کرنے کی کوشش کریں تو مجھے خوشی ہو گی۔ یہ بات درست ہے کہ سب کے سب صوفی علماء اوپر بیان کردہ تضادات میں سے ہر ایک کا شکار نہیں ہیں۔ بہت سے ایسے صوفی علماء جنہوں نے قرآن و سنت کا مطالعہ کیا ہے، بھی ان بدعات کی مخالفت کرتے نظر آتے ہیں۔

تصوف کا مثبت پہلو
ان تمام تضادات کے باوجود مسلم اہل تصوف نے چند ایسی خدمات سرانجام دی ہیں جن کی مثال دوسری قوموں کے صوفیوں میں نہیں ملتیں۔ ہندو اور عیسائی صوفیاء کے برعکس مسلم صوفیاء نے جنگلوں میں چھپ کر زندگی گزارنے کی بجائے معاشرے کے بیچ میں رہ کر اپنی سرگرمیاں جاری رکھیں۔ ابتدائی صدیوں میں فقہ اور حدیث کی تدوین اور کلامی و فلسفیانہ بحثوں میں مشغولیت کے باعث اہل علم کی بڑی تعداد عوام الناس کی اخلاقی تربیت نہ کر سکی تھی۔ صوفیاء نے اس خلا کو پر کیا۔ انہوں نے انسانی نفسیات میں گہری مہارت حاصل کی اور اس کو اپنے نظریات پھیلانے کے ساتھ ساتھ لوگوں کی اخلاقی تربیت کے لئے استعمال کیا۔
مسلمانوں کے علماء میں بالعموم عوام سے دوری کا رجحان رہا ہے۔ انہوں نے عام طور پر دین کو دلوں میں اتارنے کی بجائے ڈنڈے کے زور پر اسے لوگوں پر مسلط کرنے کی کوشش کی ہے۔ اس کے برعکس مسلم صوفیاء نے عوام سے قربت اختیار کی۔ انہوں نے اپنے لباس، رہن سہن اور نشست و برخاست کو عوامی بنایا۔
علماء نے اپنے خیالات کو لوگوں تک پہنچانے کے لئے درس و تدریس اور تصنیف و تالیف کا طریقہ اختیار کیا۔ برصغیر کے علماء نے عام طور پر مقامی زبانوں کی بجائےعربی و فارسی کو اپنے خیالات کے اظہار کا ذریعہ بنایا۔ اس طریقے سے وہ پڑھے لکھے طبقے تک تو اپنا پیغام پہنچانے میں کامیاب ہو گئے مگر عوام الناس تک ان کی رسائی ممکن نہ ہو سکی۔ اس کے برعکس صوفیاء نے عوامی طریقہ اختیار کیا۔ انہوں نے عوامی ذوق کے مطابق مقامی زبانوں میں اپنا پیغام پیش کیا۔ ہمارے ہاں پنجابی، پشتو اور سندھی زبان کی شاعری کا بڑا حصہ صوفیانہ کلام پر مشتمل ہے۔
صوفی بزرگ آسان آسان نظموں کی صورت میں اپنا پیغام لکھ دیتے۔ اس پیغام کو لے کر ان کے مرید گویے، بھانڈ اور میراثی گرد و نواح کے دیہات میں پہنچ جاتے اور چوپالوں میں گا گا کر یہ پیغام لوگوں کے ذہنوں میں راسخ کر دیتے۔ یہی وجہ ہے کہ ہماری دیہاتی معاشرت میں صوفی ازم کی جڑیں بہت گہری ہیں۔ علماء کے برعکس صوفیاء میں رواداری کا عنصر بہت زیادہ تھا۔ تشدد اور سختی کے ذریعے اپنی بات منوانے کی بجائے ان کی یہ کوشش رہی ہے کہ اپنی بات کو اعلی ادبی شہ پاروں اور خوبصورت تمثیلات کی مدد سے منوایا جائے۔ یہی وجہ ہے کہ آج کل انتہا پسندی کے خاتمے کے لئے صوفی ازم کے احیاء کی بات کی جا رہی ہے۔
ان سب معاملات کے ساتھ ساتھ صوفی بزرگ طب اور بعض پیرا سائیکالوجیکل علوم جیسے ہپنا ٹزم، ٹیلی پیتھی، تعویذ گنڈوں وغیرہ میں مہارت حاصل کرتے اور اسے عام لوگوں کے مسائل حل کرنے کے لئے استعمال کرتے ۔ جس کا مسئلہ حل ہو جاتا، وہ ان بزرگ کا بے دام غلام بن جاتا اور جس کا مسئلہ حل نہ ہوتا، وہ اسے رضائے الہی پر صابر و شاکر رہنےکی تلقین کرتے۔ ان کی ان خدمات کے باعث انہیں معاشرے میں غیر معمولی مقام حاصل ہو گیا جو کہ اب تک باقی ہے۔
تزکیہ نفس اور انسان کی روحانی و اخلاقی تربیت کے لئے قرآن مجید سے بڑھ کر کوئی دوا نہیں ہے۔ اللہ تعالی نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت کا بنیادی مقصد تزکیہ نفس ہی کو قرار دیتے ہوئے اس کا طریقہ یہ بتایا کہ یہ رسول انہیں کتاب و حکمت کی تعلیم دیتے ہیں۔

لَقَدْ مَنَّ اللَّهُ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ إِذْ بَعَثَ فِيهِمْ رَسُولاً مِنْ أَنْفُسِهِمْ يَتْلُوا عَلَيْهِمْ آيَاتِهِ وَيُزَكِّيهِمْ وَيُعَلِّمُهُمْ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَإِنْ كَانُوا مِنْ قَبْلُ لَفِي ضَلالٍ مُبِينٍ.

(آل عمران 3:164)

بے شک اللہ کا اہل ایمان پر عظیم احسان ہوا جب اس نے ان میں ایک شاندار رسول بھیجا جو کہ خود انہی میں سے ہے۔ وہ ان کے سامنے اس کی آیات کی تلاوت کرتا ہے، انہیں (روحانی و اخلاقی آلائشوں سے) پاک کرتا ہے اور (اس کے لئے) انہیں کتاب و حکمت کی تعلیم دیتا ہے۔ اس سے پہلے تو وہ کھلی گمراہی میں تھے۔


کیا ہی اچھا ہوتا کہ اگر ہمارے اہل علم عوام کی سطح پر اتر کر انہیں کتاب و حکمت کی تعلیم دیتے اور ان کی روحانی و اخلاقی تربیت کرتے۔ ان کے ایسا نہ کرنے کی وجہ سے وہ خلا پیدا ہوا جو اہل تصوف نے پر کیا اور اس پاکیزہ عمل میں بہت سی بدعات داخل کر دیں۔

 

اخلاق حسین

مبتدی
شمولیت
جولائی 20، 2013
پیغامات
7
ری ایکشن اسکور
5
پوائنٹ
4
اسی فیصد تحقیق بالکل غلط ہے۔بیس فیصد کیساتھ کسی حد تک اتفاق کیا جا سکتا ہے۔
 

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,395
پوائنٹ
891
بہت عمدہ اور نہایت متوازن تقابل پیش کیا گیا ہے۔ جزاکم اللہ خیرا۔
 
Top