• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اسلام اور تہذیب مغرب کی کشمکش

عبد الرشید

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
5,400
ری ایکشن اسکور
9,990
پوائنٹ
667
کتاب کا نام
اسلام اور تہذیب مغرب کی کشمکش

مصنف
ڈاکٹر محمد امین

ناشر
بیت الحکمت،لاہور

[URL=http://s1053.photobucket.com/user/kitabosunnat/media/TitlePages---Islam-Aur-Tehzeeb-e-Maghrab-Ki-Kashmaksh.jpg.html][/URL]
تبصرہ
اسلام اورمغربی تہذیب کی کشمکش صدیوں سے جاری ہے۔ مغربی تہذیب کو اپنانے کے حوالے سے عالم اسلام میں تین مختلف مکاتب فکرپائے جاتے ہیں۔بعض نے مغربی تہذیب کومکمل طور پر اپنا طر زِ حیات بنالیا،توبعض نے درمیانی راہ نکال کر اس سےایک طرزِ مفاہمت پیدا کرلی۔صرف چند صاحب کرداراور باحمیت کردار ایسے ہیں، جنہوں نے کامل بصیرت اور گہرےادراک کے ساتھ اس تہذیب کاپرزور رد کیا،اور مخالفین کے منہ بند کر دءے۔ اسلام اور تہذیب مغرب کی یہ کشمکش مستقبل قریب میں کیا رخ اختیار کرے گی ،محترم ڈاکٹر محمدامین صاحب جیسے ذی شعور اورجدید وقدیم علوم سے آراستہ شخصیت نے اس نازک موضوع پر قلم اٹھاکراس کا حق ادا کردیا ہے ۔مصنف نے اپنی کتاب میں دواہم امور پربحث کی ہے ۔(اول) مسلمانوں کا مغربی تہذیب کے بارے میں کیا رویہ ہونا چاہیے، وہ اسے رد کردیں ،قبول کرلیں یا اس سے مفاہمت کرلیں ؟ مصنف نے تینوں نقطۂ ہائے نظر کے مؤیدین کے دلائل ذکر کر کے ان کا تجزیہ کرتے ہوئے اپنا نقطۂ نظر بھی تفصیل کے ساتھ پیش کیا ہے،اوراس سوال کاواضح جواب دیا ہے ۔(دوم)مسلم معاشرے پرمغربی تہذیب کے اثرات ۔اس امر میں کوئی شک نہیں ہے کہ مسلم معاشرے کے بیدارمغز عناصرنے اپنےمسلمانوں کومغرب کی غلامی سے نکالنے کے لیے جو جدوجہد کی ہے، مسلمانوں نے عملاً ان کا ساتھ دیا ہے ۔تاہم اس سے بھی انکار نہیں کہ زوال وادبار کی گزشتہ دوصدیوں میں مغربی استعمار اپنی قوت اور فراست سے مسلم معاشرے پر اثرانداز ہونے میں کسی حدتک کامیاب رہا ہے، اور مغربی تہذیب کے بہت سے افکار ونظریات مسلم معاشرے میں سرایت کرگئے ہیں۔ فاضل مؤلف نے مغرب سے درآمدشدہ ان نظریات وتصورات اوراداروں کی بڑے احسن اندراز میں نشاندہی کرتے ہوئے ان کا اسلامی تعلیمات وتصورات سے مختلف ومتضاد ہونا بھی واضح کردیا ہے ،او ربڑے منطقی اسلوب اور علمی تجزیے سے تہذیب مغرب کی دلدل سے نکلنےکاحل تجویز کیا ہے۔ امید ہے کہ امت مسلمہ کے افراد کے لیے یہ علمی کوشش ان شاء اللہ بصیرت افروز ثابت ہوگی۔(م۔ا)
 
Last edited:

عبد الرشید

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
5,400
ری ایکشن اسکور
9,990
پوائنٹ
667
فہرست مضامین
حصہ اول مغربی تہذیب کے بارے میں مسلمانوں کے ممکنہ رویے
پہلا رویہ مغربی تہذیب کو رد کردیا جائے
دوسرا رویہ مغربی تہذیب کو قبول کرلیا جائے
تیسرا رویہ مغربی تہذیب سے مفاہمت کر لی جائے ہر رویے کے مؤیدین کے دلائل اور ہمارا نقطہ نظر
حصہ دوم مسلم معاشرے پر مغربی تہذیب کے اثرات پاکستانی تناظر میں
مبحث اول مغربی تہذیب کے اثرات اسباب و مظاہر
مبحث دوم مغربی تہذیب کے اثرات مختلف شعبہ ہائے حیات میں
مبحث سوم کچھ علاج اس کا بھی اے چارہ گراں ہے کہ نہیں؟
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
انصاری سکول آف تھاٹ اور سید خالد جامعی صاحب کی باتیں

از سمیع اللہ سعدی
ڈاکٹر جاوید اکبر انصاری اور آپ کے قابل قدر تلامذہ و منتسبین نے رد مغرب کا جو منہاج متعارف کرایا ہے ،مسلم امت کے دور زوال کی پچھلی دو تین صدیوں کا سب سے یونیک پیراڈائم ہے ، چونکہ یہ فکر بالکل ابتدائی مراحل میں ہے ،اس لیے غیر منضبط ہونے کی وجہ سے درجہ بندی اور تنقیح کے مرحلے سے نہیں گزرا ،جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اس فکری ڈسکورس میں بعض چیزیں اگر انتہائی اہمیت کی حامل ہیں تو بعض ایسی چیزیں بھی شامل ہو گئی ہیں ،جو بالکل ناقابل عمل اور زمینی حقائق کے خلاف ہیں ، اس فکر میں اگلا مرحلہ اس کی تنقیح و تہذیب اور درجہ بندی کا ہے ،کاش کوئی صاحب علم یہ کارنامہ سر انجام دے ،اس فکر کے اہم مصنفین،سید خالد جامعی ،ڈاکٹر عبد الوہاب سوری ،جناب زاہد مغل ،امین اشعر ،حافظ محمد احمد، علی محمد رضوی اور جناب ظفر اقبال صاحب ہیں ،تقریبا ان سب مصنفین کو پڑھنے اور سننے کا اتفاق ہوا،کراچی میں جامعی صاحب سے طویل نشست نے اس کی اہمیت کے ساتھ اس فکر کی تنقیح و تہذیب کی ضرورت کا احساس مزید بڑھا دیا۔
جناب جامعی صاحب کی گفتگو کے بعض اجزاء دوستوں کی خدمت میں حاضر ہیں :
۱۔اسلام ،اسلامی تاریخ و ثقافت اور اسلامی علوم کو مغرب کے معیارات پر پرکھنا اس وقت عالم اسلام کا سب سے بڑا مسئلہ ہے ،عالم اسلام میں موجود فکری کشمکش کی اہم ترین وجہ یہی رویہ ہے ۔
۲۔مغربی معیارات پر پرکھنے سے اسلامی تاریخ و تہزیب ہمیشہ پست ہی ثابت ہوگی ،مثلا آج کل مغربی معیار کے مطابق علمی ترقی سائنس و ٹیکنالوجی کی ترقی ہے ،اس معیار پر اگر مغرب و اسلام کا تقابل ہوگا ،تو فتح مغرب کی ہی ہوگی ،صرف امریکہ میں اس وقت ایک ادارے میں جو سائنسدان کام کر رہے ہیں ،اس کی تعداد چودہ سو سالہ اسلامی تاریخ کے سائنسدانوں سے زیادہ ہے ۔
۳۔کتب و لائبریریز کا قیام کسی معاشرے کے متمدن اور تعلیم یافتہ ہونے کے لیے ایک مغربی معیار ہے ،اس معیار کے مطابق اسلامی تاریخ کا سب سے پست دور (نعوذ باللہ)دور نبوت و دور صحابہ ہے ،کہ نہ کسی بڑی لائبریری کا ثبوت ملتا ہے ،اور نہ ہی کتب و مصنفین کی کثرت کا،حالانکہ اسلامی ڈسکورس میں یہ سب سے اعلی ترین دور ہے ۔
۴۔عقیدہ کبھی بھی برداشت کا حامل نہیں ہو سکتا،عقیدہ کا مطلب ہی خود کو یقینی طور پر درستگی پر سمجھنا ہے ،یہی وجہ ہے کہ کوئی بھی تہذیب اپنے عقائد پر سمجھوتہ نہیں کرتی ،خود مغرب اپنے تین عقائد آزادی ،ترقی اور مساوات پر کمپرومائز نہیں کرتا،اس کے لیے بڑی سے بڑی جنگیں بھی لڑ لیتا ہے ،اگر مغرب اپنے عقائد پر سمجھوتہ نہیں کرتا ،تو عالم اسلام سے کمپرومائز کیوں مانگتا ہے؟
۵۔مسلم ریاستوں کا مسئلہ یہ ہے کہ ملک کی ادارتی و سماجی صف بندی سب لبرل معاشروں کے مطابق کی گئی ہے ،جبکہ عوام مشرقی و اسلامی تہذیب سے جڑے ہیں ،جس کا نتیجہ ایک عجیب کشمکش کی صورت میں نکلا ہے ،اسی کشمکش کا نتیجہ خود سوزی ،غیرت کے نام پر قتل اور پنچائیتوں کے ذریعے بچیوں کے قتل صورت میں ظاہر ہوتا ہے ۔
۶۔جدید معاشرے میں فرد تحلیل ہورہا ہے ،اور فرد کی جگہ ادارے ،کمپنیاں اور کارپوریشنز لے رہے ہیں ،جبکہ اسلام فرد کو احکامات کا مخاطب بناتا ہے نا کہ ادارے کو ،فرد کی تحلیل بہت سے اسلامی احکام کے سقوط کو مستلزم ہے۔
۷۔اسلامی تاریخ کے اکثر معروف سائنسدان معتزلہ یا شیعہ گزرے ہیں ،اہلسنت میں اس چیز کے رواج نہ پکڑنے کے کیا وجوہات و اسباب ہیں ؟اس پر غور کرنا ہوگا ؟
۸۔برصغیر پاک وہند کی حد تک سر سید احمد خان نے جدیدیت پر جو مواد تیار کیا ہے ،بعد کے متجددین نے کم و بیش اسی کی جگالی کی ہے ،اس لیے جدیدیت کو سمجھنے کے لیے سر سید کو پڑھنا انتہائی اہمیت کا حامل ہے ۔
۹۔مسلم مفکرین کا مسئلہ یہ ہے کہ مغرب سے آئے ہر اعتراض کو قبول کر لیتے ہیں ،اور اس کو قبول کر کے پھر اسلامی احکام یا اسلامی تراث میں قطع و برید کرتے ہیں ،یہ رویہ ہمیں سب سے زیادہ سر سید و شبلی کے ہاں نظر آتا ہے ،جبکہ مودودی صاحب کی فکر میں اسی رویے کی جانب جھکی ہوئی ہے۔اعتراض کو قبول کر لینے کا مطلب ان تمام مبانی کو تسلیم کر لینا ہے ،جس پر وہ اعتراض کھڑا ہے ۔
۱۰۔مغربی فکر و تہزیب مغرب کے معروف فلاسفہ کے ذریعے نہیں پھیلا ،کہ فلسفہ ایک مخصوص و محدود گروہ کی سرگرمی ہے ،مغربی فکر تہذیب ادب ،شاعری اور آرٹ کے ذریعے پھیلا ہے ۔
۱۱۔محمد حسن عسکری کی تحریروں میں جدیدیت کے خلاف بڑا مواد موجود ہے ،فرمایا کہ ان کی تحریروں سے اس مواد کو یکجا کر رہا ہوں ۔
حوالہ
 
Last edited:

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
سمیع اللہ سعدی کی تحریر پر کچھ اہم تبصرے :

غلام نبي مدني :
چند دن پہلے جامعی صاحب کے ایک شاگرد دوست سے ملاقات ہوئی،یہی کچھ انہوں نے بتایا،توہین رسالت پر غامدی صاحب کے رد میں جامعی صاحب کا مضمون بھی دیا،جسے پڑھ کر غامدی صاحب کے تضادات کااندازہ ہوا۔المیہ یہی ہے کہ ہم مغرب کے تصورات کو سمجھے بغیر محض اصطلاحات پر اعتماد کرکے انہیں اپنانے کی کوشش کرتے ہیں،پھر اسے اسلامیانے کی جسارت بھی کرتے جاتے ہیں۔نتیجتا کشمکش کا سلسلہ دراز ہوجاتاہے۔مغرب کا تصور جمہوریت اور تصور آزادی اس کی زبردست مثالیں ہیں۔
Syed Mateen Ahmad :
بہت خوب سعدی صاحب ۔ عمدہ نکات کا خلاصہ آ گیا ہے۔ جامعی صاحب غنیمت شخصیت ہیں۔ فون پر ان سے سیکھنے کا عمل جاری رہتا ہے۔ کچھ باتوں پر تحفظ پیش کرنا چاہوں گا :
یہ جو کہا کہ "۳۔کتب و لائبریریز کا قیام کسی معاشرے کے متمدن اور تعلیم یافتہ ہونے کے لیے ایک مغربی معیار ہے ،اس معیار کے مطابق اسلامی تاریخ کا سب سے پست دور (نعوذ باللہ)دور نبوت و دور صحابہ ہے ،کہ نہ کسی بڑی لائبریری کا ثبوت ملتا ہے ،اور نہ ہی کتب و مصنفین کی کثرت کا،حالانکہ اسلامی ڈسکورس میں یہ سب سے اعلی ترین دور ہے ۔"
---------------
یہ جامعی صاحب کا بہت افسوس ناک کمنٹ ہے۔ صحابہ کے دور میں اس چیز کا چلن ہی کہاں تھا۔ بہت سی چیزیں صحابہ کے دور میں نہ تھیں، مگر مسلم تاریخ کے امتیاز کے طور پر انھیں پیش کیا جاتا ہے۔ لائبریریوں کا قیام مغرب کی روایت نہیں بلکہ خود مسلم دنیا کی روایت رہی ہے اور اپنے عہد میں تمدن کی علامت ۔
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــ
۔محمد حسن عسکری کی تحریروں میں جدیدیت کے خلاد بڑا مواد موجود ہے ،فرمایا کہ ان کی تحریروں سے اس مواد کو یکجا کر رہا ہوں ۔
----------------------
حسن عسکری کے خلاف "ساحل " میں کسی دور میں کافی سخت باتیں بھی لکھی گئی تھیں۔ دارالعلوم سے "جدیدیت" کے اخراج کی طرف بھی بعض "خاص" اشارات کیے گئے تھے۔ خالد صاحب سے پوچھنا چاہیے کہ کہیں مکتب روایت کی زہرناکیوں سے خود ہی وہ کام نہ کر بیٹھیں جس سے دوسروں کو ڈراتے رہے ہیں۔
انس حسان :
1_ جامعی صاحب کی قابلیت اوروسعت مطالعہ میں شک نہیں۔ لیکن میراتاثرانہیں پڑھ کرہمیشہ یہ قائم ہواکہ وہ خوداپنےفکری مقدمات میں تذبذب اوربےیقینی کاشکارہیں۔ اس پرمستزادان کااپنےبارےاناالحق اوردیگربارےجہل مطلق والارویہ بھی کبھی دل کونہیں بھایا۔ممکن ہےمیراتاثرغلط ہو۔
2_ اسلام اورمغرب کی باہمی کشمکش ایک عرصہ سےجاری ہے۔ اس حوالےسےمعاصراسلامی فکرمیں جامعی صاحب اوران کےحلقے نےجوکام شروع کیاتھاوہ بتدریج ایک دوسری انتہاکی طرف جاتانظرآرہاہے۔ اس حوالےسےڈاکٹرمحموداحمدغازی کااسلوب معتدل نظرآتاہےجواگرچہ مغرب کےسخت ناقدہیں مگرپھر بھی ''خذ ماصفاودع ماکدر''کارویہ اپنانےکی دعوت دیتےہیں۔
3_ سائنسی اورعلمی ترقی کل انسانیت کامجموعی ورثہ ہے۔ اسےمذہب اورقومیت سےبالاترہوکردیکھنےکی ضرورت ہے۔ جب تک مسلمان دنیاپرغالب رہےاس کی باگ ان کےہاتھ میں رہی اورجب سےمسلمان مغلوب ہوئےاس عمل کومغرب نےجاری رکھاہے۔ ہاں البتہ مغرب کی سائنسی ترقی چونکہ مسلمانوں کےبرعکس سرمایہ داریت کی مرہون منت ہوکررہ گئی ہےاس لیےاس پربات کرنےکی ضرورت ہے۔ لیکن بدقسمتی سےاس طرف کسی کی توجہ نہیں۔
4_ اسلام اورمغرب کےمعیارات میں گوبین فرق ہےلیکن وہ معیارات جن پرقوموں کی ترقی کاانحصارہواسلام کامجموعی رویہ اسےقبول کرنےکاہے اورکسی جدیدچیزکومحض اس لیےترک نہیں کیاجاسکتاکہ یہ مغربی معیار کےسانچےمیں ڈھلی ہے۔
5_ نامعلوم یہ بات کس بناپرکہی گئی کہ اسلام فردکواحکامات کامخاطب بناتاہے ناکہ ادارےکو۔حالانکہ اسلام میں فرداورادارہ دونوں کی رعایت ملحوظ رکھی گئی ہے۔ تاہم اسلام کےاجتماعی احکامات میں ادارےکواکثر فردپراہمیت دی گئی ہے۔چونکہ دورحاضراداروں کادورہےتومحض اس بناپراس کورد کر دیناکہ اس کامرجع مغرب ہے،قطعی درست نہیں۔ اس حوالےسےلامحالہ اسلامی احکامات کےمجموعی مزاج کودیکھناہوگا۔
6_ جدیدیت اورمابعدجدیدیت کےحوالےسےموافق ومخالف جوکچھ تحریری ذخیرہ آج موجودہےوہ بجائےخودکئی جہات سےتنقیح کامتقاضی ہے۔
Ali Imran:
اگرچہ ہمارا دل، ہمارا مزاج اور خواہش یہی ہے کہ ہم مغربی نظم اور اس سے جڑے کئ سارے سارے فوائد کا مطلقاً انکار نہ کریں، بلکہ ان سے مفید چیزیں چن لیں اور نقصان دہ کو چھوڑ دیں، مگر بعد میں پتہ چلتا ہے کہ اس نظم کے ساتھ اس کا فلسفہ بھی ساتھ چلا آیا تھا اور مابعد طبیعی اثرات بھی..عصری علوم کے سلسلے میں تجربہ اس کا شاہد ہے.
Zahid Mughal :
سمیع اللہ سعدی بھائی نے ڈاکٹر جاوید اکبر انصاری صاحب کی فکر کو خراج تحسین پیش کرنے کے لئے تعریفی کلمات سے بھرپور پوسٹ لگائی ہے اور ساتھ ہی ان کے افکار کے لئے "انصاری سکول آف تھاٹ" کی اصطلاح بھی استعمال فرما دی ہے
صرف یہ وضاحت کرنا مقصود ہے کہ ڈاکٹر صاحب نے ہمیشہ اس امر کی شعوری کوشش کی کہ ہمیں الگ گروہ (فرقہ) نہ سمجھ لیا جائے۔ انہوں نے طلباء پر اس بات پر شدو مد کے ساتھ زور دیا کہ اپنے مضامین میں ان خیالات کو ڈاکٹر صاحب کا نام کوٹ کرکے پیش نہ کیا کریں، نہ ہی ان خیالات کو بیان کرنے کے لئے کوئی الگ شناخت قائم کرنے کی کوشش کریں۔ جب کبھی کسی نے ایسا کیا ڈاکٹر صاحب نے اس کی حوصلہ شکنی کی (اس کا تجربہ خود بندے کو بھی ہوا)۔ تقریبا ہر ذھین انسان کے ساتھ یہ معاملہ ہوتا ہے کہ وہ اپنے سے ماقبل لوگوں کے مقابلے میں کچھ نئے افکار پیش کرجاتا ہے، نیتیجتا وہ افکار ایک مجموعی فکر بننے کے بجائے ایک گروہ کے نام سے متعارف ہوکر مخصوص مخاطبین تک محدود ہوجاتے ہیں (مثلا جماعت اسلامی، تنظیم اسلامی وغیرہ)۔ اسی بنا پر ڈاکٹر صاحب نے اس رویے کی حوصلہ شکنی کی اور یہی کہا کہ آپ کو چاہئے کہ کسی نہ کسی دینی جماعت کے رکن بنیں اور یہاں مغرب کے بارے میں جو کچھ سیکھتے ہیں ان خیالات کو اپنی اپنی دینی جماعتوں میں متعارف کروائیں تاکہ یہ فکر مختلف دینی جماعتوں کی فکر بن سکے اور ایک مجموعی لائحہ عمل مرتب کیا جاسکے، ھمیں ایک علیحدہ "سکول آف تھاٹ" نہیں بننا۔ اس سٹڈی سرکل (جو ڈاکٹر صاحب نے قائم کیا) کی حیثیت تمام راسخ العقیدہ دینی جماعتوں کے تھنک ٹینک کی ہے جس کا مقصد ان جماعتوں کو "فرعون کے دربار" (مغرب) کی خبر پہچنانا ہے اور بس۔
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
سمیع اللہ سعدی
چند دن پہلے فیس بک پر جناب سید خالد جامعی صاحب کی گفتگو کے چند اجزاء شیئر کیئے تھے ،اس پر احباب کے مختلف تبصرے آئے تھے ،کسی کرم فرما نے وہ پوسٹ بمع تبصروں کے جامعی صاحب کی خدمت میں پیش کی تھی ،اس پر جامعی صاحب کا چار صفحات پر مشتمل خط میرے نام آیا ،اور ایک دو بار فون پر کچھ تفصیلی گفتگو بھی ہوئی ۔جامعی صاحب نے فرمایا کہ میری فکر ی آراء پر کوئی تنقید کرے تو خوشی ہوتی ہے ،اس سے فکر میں مزید بہتری آتی ہے ،پر صرف ایک شکوہ احباب سے کیا ،کہ جن احباب نے تنقیدی تبصرے کیے ،انہوں نے میری کیا کیا چیزیں پڑھی ہیں ؟یا محض کسی سے سن کر تنقید کی ؟مزید فرمایا کہ میں بحمدہ تعالی حیات ہوں ،کسی کو کوئی اشکال ہو،تو بلا تکلف مجھے سے بات کر سکتا ہے ،میں کسی بھی آدمی کو مکمل وقت دینے کے لیے تیار ہوں ۔میں جامعی صاحب کی اجازت سے ان کا نمبر شیئر کر رہا ہوں ،مغربی فکر و فلسفہ یا خؤد جامعی صاحب کے بارے میں کسی نے جو بھی پوچھنا ہے ،کوئی سوال کرنا ہے ،یا اختلاف رائے کرنا ہے ،تو جامعی صاحب سے اس نمبر پر رابطہ کرے۔
02199261571
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
مغربی تہذیب و تمدن اور اسلا م کی تطبیق علامہ اقبال کی نظر میں
جناب سہیل عمرصاحب اپنی کتاب "خطبات اقبال نئے تناظر میں "کے آخر میں لکھتے ہیں :
تشکیل جدید کی علمی منہاج اور تطبیقی طرز استدلال پر عمومی تبصرہ کرتے ہوئے علامہ اقبال نے ۱۹۳۲ میں ایک بہت معنی خیز بیان دیا تھا ،جس سے بحث اپنے اتمام کو پہنچتی ہے :
"میں نے اپنی زندگی کے ۳۵ سال اسلام اور موجودہ تہذیب و تمدن کی تطبیق کی تدابیر کے غور و فکر میں بسر کر دیئے ہیں اور اس عرصے میں یہی میری زندگی کا مقصد وحید رہا ہے ۔میرے حال کے سفر نے مجھے کسی حد تک اس نتیجہ پر پہنچا دیا ہے کہ ایسے مسئلے کو اس شکل میں پیش نہیں کرنا چاہیے ،کیونکہ اس کا مطلب بجز اس کے کچھ نہیں کہ اسلام موجودہ تمدن کے مقابلے میں ایک کمزور طاقت ہے ،میری رائے میں اس کو یوں پیش کرنا چاہیے کہ موجودہ تمدن کو کس طرح اسلام کے قریب تر لا یا جائے "
(خطبات اقبال نئے تناظر میں ص۱۷۲)
از سمیع اللہ سعدی
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
سمیع اللہ سعدی :
جس کتاب کی تلاش پچھلے تین سال سے جاری تھی ,صبح فیس بک کھولی تو سامنے آئی. سرمایہ دارانہ نظام کی تفہیم اور اس کے تعارف کے حوالے سے ڈکٹر جاوید اکبر انصاری صاحب کے مطالعے کا نچوڑ...
مغربی تہذیب ، ایک معاصرانہ تجزیہ

اپریل 2001ء میں شیخ زاید اسلامک سنٹر ، پنجاب یونیورسٹی لاہور میں دیے گئے خطبات کا مکمل متن
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
سمیع اللہ سعدی :
جس کتاب کی تلاش پچھلے تین سال سے جاری تھی ,صبح فیس بک کھولی تو سامنے آئی. سرمایہ دارانہ نظام کی تفہیم اور اس کے تعارف کے حوالے سے ڈکٹر جاوید اکبر انصاری صاحب کے مطالعے کا نچوڑ...
مغربی تہذیب ، ایک معاصرانہ تجزیہ

اپریل 2001ء میں شیخ زاید اسلامک سنٹر ، پنجاب یونیورسٹی لاہور میں دیے گئے خطبات کا مکمل متن
زاہد صدیق مغل :
یہ وہ کتاب ہے جو میں نے ایک دوست کے کہنے پر جب پہلی مرتبہ 2003 میں پڑھی تھی تو مجھے کچھ سمجھ نہیں آئی تھی۔ پھر 2004 میں ڈاکٹر صاحب کے سرکل کو جوائن کیا تو چار چھ ماہ تک بھی سمجھ نہیں آتی تھی کہ یہ لوگ کیا کہنا چاھتے ہیں، یہ مسلمانوں کی ترقی کے دشمن ہیں، کہیں کوئی ایجنٹ تو نہیں؟ دوست نے کہا آتے رہو، بات سمجھ آجائے گی۔ پھر اللہ تعالی نے بات دل میں ڈال دی اور کچھ یوں ڈال دی کہ ھم اسی کے ہوکر رہ گئے۔
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
مغربی تہذیب اور قرآن مجید

محمد دین جوہر
ہمارے ایک دوست نے گزشتہ دنوں یہ سوال اٹھایا کہ کیا اہل مغرب نے اپنے علم، معاشرے اور تہذیب کے بنیادی اصول قرآن مجید سے حاصل نہیں کیے؟ ہم اپنے زوال کی وجہ سے جس ذمہ داری کو فراموش کر چکے ہیں، اہل مغرب نے اسے پورا کر دکھایا؟
یہ سوال دراصل جواب ہے۔ ہمارے کلچر، تعلیم، علوم، مذہبی مباحث، فکری انتاجات اور دینی تعبیرات میں یہ بات بہت عام ہے۔ ہمارے ہاں اسے ایک مرکزی سچ کی حیثیت حاصل ہو چکی ہے کہ اہل مغرب نے جو یہ جدید تہذیب کھڑی کی ہے اسے انہوں نے قرآن مجید سے اخذ کیا ہے۔ متجددین اور جدید تعلیم یافتہ مذہبی لوگ بھی یہی سمجھتے ہیں کہ مغرب نے سائنس کے اصول بھی قرآن مجید ہی سے اخذ کیے ہیں۔ جہاں تک مغرب کے سماجی، سیاسی اور معاشی نظام کا تعلق ہے اس کے بارے میں یہی مشہور ہے کہ وہ بھی انہوں نے قرآن مجید ہی سے اخذ کیا ہے۔ مغربی علوم کے بارے میں بھی ہمارے ہاں یہی دعویٰ ہے کہ اہل مغرب نے قرآنی تعلیمات پر ”تحقیق“ اور اس کی ہدایات پر عمل کر کے علوم کا حصول ممکن بنایا ہے۔ یہ بات اب تداول کا درجہ اختیار کر چکی ہے کہ ”ہمارے ہاں مسلمان تو ہیں، اسلام نہیں ہے، اور وہاں اسلام ہے، مسلمان نہیں ہیں“۔ ہمارے ایک دوست جو مذہبی تعلیم یافتہ ہیں گزشتہ دنوں کئی ماہ تک یورپ گھوم کے واپس آئے تو ان کا فرمان بھی شنیدنی تھا۔ فرمانے لگے کہ مجھے وہاں جا کے احساس ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں ہم سے جو مطالبات کیے ہیں، ہم تو اس کے صرف مخاطب ہی ہیں، ان پر عمل تو مغرب نے کر کے دکھایا ہے۔
اب یہ ایک مقبولِ عام ”علمی بصیرت“ ہے کہ اہل مغرب نے اسلام کی مرادات کے عین مطابق ایک معاشرہ اور تہذیب کھڑی کی ہے جسے انہوں نے قرآن مجید ہی سے اخذ کیا ہے، اور ”یہ تہذیب اور معاشرہ مکمل اسلامی ہے اور اب صرف کلمے کی کسر رہ گئی ہے باقی سارا کام تیار ہے“۔ یہ بات بھی بہت عام ہے کہ مغرب جو بھی نئی دریافت کرتا ہے ہمارے ”پڑھے لکھے“ لوگ، جو اب میڈیا اور سیاست کی معاشی اور ثقافتی ضروریات کی وجہ سے ہم پر پوری طرح مسلط ہو چکے ہیں، ہمیں فوراً یہ خوشخبری سناتے ہیں کہ یہ سائنسی حقیقت تو پہلے ہی قرآن مجید میں موجود تھی، اور اہل مغرب نے ”ریسرچ“ کر کے اسے قرآن مجید سے نکال لیا ہے۔ اس معاملے میں بھی مسلمانوں نے بڑی کوتاہی برتی اور وہ قرآن مجید سے سائنسی حقائق دریافت نہ کر سکے جو اس میں پوشیدہ تھے۔ گویا قرآن مجید ایک ایسی کان ہے اور اہل مغرب اس کے اسرار و رموز کے ایسے واقف اور غواص ہیں کہ وہ تعلیم، علم، ٹیکنالوجی، اور ہر قسم کے معاشی اور سیاسی نظام وغیرہ اس سے اکثر نکالتے رہتے ہیں۔ مسلمان بیچارے قرآن مجید پڑھتے تو بہت ہیں، لیکن وہ گوہر مراد انہیں ہاتھ نہیں آتا جو مغرب والوں کو مل جاتا ہے۔ اس سے مسلمانوں کی کوتاہی اور بدنصیبی کا ایک اور پہلو بھی سامنے آ جاتا ہے کہ ان کی فہم بھی نہایت ناقص ہے۔ گویا کہ ان کی بدنصیبیاں پہلے کم تھیں کہ ایک اور آ کھڑی ہوئی!
گزارش ہے کہ محولہ بالا قضایا کی نوعیت ”علمی“ بھی ہے اور ”مذہبی“ بھی۔ ان کی علمی حیثیت کے تعین کے لیے انہیں کسی علمی تناظر میں رکھ کر دیکھنے کی ضرورت ہے۔ ان کی مذہبی معنویت کے لیے ایک دینی تناظر درکار ہے۔ فی الوقت ہم ان دونوں پہلوؤں کو نظرانداز کرتے ہوئے، عام تجربے کی سطح پر، اس ”موقف“ کے صرف ایک پہلو کی طرف توجہ دلانا چاہتے ہیں۔
مسلمانوں کے ہاں یہ ”علمی“ نتائج اور مذہبی ادراک اس دوئی سے پیدا ہوا ہے جو حضور علیہ الصلٰوۃ و السلام کی ذات پاک اور قرآن مجید کے مابین کچھ خاص تاریخی حالات میں ہماری کوتاہ نظری سے پیدا ہوا ہے۔ ہماری جدید تعبیر و تفسیر پر تاریخی مؤثرات غالب آنے کی وجہ سے اس طرح کے موقف اب عام ہو گئے ہیں۔ جب مسلمان بہت جوش سے محولہ بالا مواقف کو آگے بڑھا رہے ہوتے ہیں، اس وقت وہ دراصل اس بات کا اعلان اور اعتراف کر رہے ہوتے ہیں کہ ایک ایسا تصور حیات، ایک ایسا معاشرہ اور ایک ایسی تہذیب جس کے فکری، سماجی اور تاریخی علوم میں پیغمبر اسلام علیہ الصلوٰۃ و السلام کی (نعوذ باللہ) تحقیر، تغلیط اور توہین کو صدیوں سے مرکزی حیثیت حاصل ہے، وہ عین قرآن مجید کے مطابق ہیں۔ یعنی ایک ایسا معاشرہ جس کے سماجی اور تاریخی علوم کی لائبریاں آقاے نامدار صلی اللہ علیہ وسلم کی (نعوذ باللہ) کردار کشی پر مبنی "تحقیقاتی کتابوں" سے پٹی پڑی ہیں، جس میں پیغمبر اسلام علیہ الصلٰوۃ والسلام کی (نعوذ باللہ) توہین کو ایک انسٹی ٹیوشن اور مستقل ثقافتی قدر کی حیثیت حاصل ہو گئی ہے، جہاں حضور علیہ الصلٰوۃ و السلام کے (نعوذ باللہ) کارٹون بنانا اظہار آزادی کی علامت بن چکا ہے، اور جہاں سرور کائنات صلی اللہ علیہ و سلم کی (نعوذ باللہ) توہین کو ایک ثقافتی میلے اور فیسٹیول کی حیثیت حاصل ہو گئی ہے، وہ معاشرہ عین قرآن مجید کی تعلیمات کے مطابق تشکیل دیا گیا ہے! مغرب کے سماجی اور تاریخی علوم کی منہج علم اور غایت بار بار اس لیے بدل دی جاتی ہے کہ اسلام کے ماورائی ہونے کا انکار کیا جا سکے، اور حضور علیہ الصلٰوۃ و السلام کی ذات پاک کو (نعوذ باللہ) ایک غیر تاریخی اور افسانوی شخصیت ہونے کا کوئی “علمی” ثبوت لایا جا سکے اور ہم انہی علوم کو قران مجید سے اخذ شدہ قرار دینے پر بضد ہوتے ہیں! اگر یہ تسلیم کر بھی لیا جائے کہ اہل مغرب نے اپنا سارا علم اور معاشرہ قرآن مجید ہی کی روشنی میں تشکیل دیا ہے، تو اس سوال کا جواب واجب ہے کہ قرآن مجید کی وہ کون سی تعبیر ہے جس کی بنیاد پر ایک ایسے معاشرے کی تشکیل ہوئی ہے جہاں حضور علیہ الصلٰوۃ والسلام کی ذات مبارکہ نہ صرف یہ کہ غیر متعلق اور غیر اہم ہے بلکہ آپٌ کی (نعوذ باللہ) توہین کو ایک مرکزی ثقافتی اور علمی ادارے کی حیثیت حاصل ہے۔
یہ نہایت بدقسمتی اور محرومی کی بات ہے کہ کوئی مسلمان دین کا ایسا تصور رکھتا ہو جس میں حضور علیہ الصلٰوۃ و السلام کی ذات پاک کو مرکزیت حاصل نہ ہو، یا وہ دین کا ایسا فہم رکھتا ہو جس کی توسیط جدید فکر کے انکاری ذرائع سے ہوئی ہو، یا وہ علم کا کوئی ایسا تصور رکھتا ہو جس میں حضور علیہ الصلٰوۃ و السلام سے وجودی تعلق کی نسبتیں غیر اہم ہو گئی ہوں، یا وہ کردار انسانی کا ایسا نمونہ سامنے رکھتا ہو جہاں اسوۂ حسنہ نگاہوں سے اوجھل ہو چکا ہو۔ کم از کم ایک بات تو واضح ہے کہ مغربی معاشرے اور تہذیب کو دیکھنے کی مذکورہ “قرآنی نظر” کا حضور علیہ الصلٰوۃ و السلام کی ذات مبارکہ سے کوئی تعلق نہیں ہو سکتا، اور نہ اس ہدایت سے جو حضور علیہ الصلٰوۃ و السلام نے ہمیں عطا فرمائی۔ قرآن مجید سے اس طرح کے نتائج صرف اس وقت نکالے جا سکتے ہیں جب یہ مستشرقین اور متجددین کے محاصرے میں ہو اور اس سے ہر طرح کی علمی، اخلاقی اور روحانی "ٹرمز آف سرینڈر " پر دستخط کرالیے گیے ہوں ۔ عصر حاضر کے “علمی” ذرائع اور “فکری” گھیراؤ اس قدر طاقتور ہیں کہ کوئی متن، بھلے وہ مذہبی ہی کیوں نہ ہو، بول نہیں سکتا، اسے بلوایا جاتا ہے۔ لیکن یہ ایک علمی اور تفصیل طلب موضوع ہے۔
اگر عصری دنیا کو دیکھنے کا محولہ بالا فہم ہمارے ہاں قرآن مجید سے حاصل ہوا ہے تو ہمیں قرآن مجید کی بجائے اپنے فہم اور عقل کو ازسرنو دیکھنے کی ضرورت ہے کہ کہیں وہ عین باطل کی مرادات پر ڈھلنے کے بعد قرآن مجید پر دھاوے کے مغربی عمل میں شریک تو نہیں؟ کیا ہمارا شعور و عمل حضور علیہ الصلٰوۃ و السلام سے بے وفائی کا مرتکب تو نہیں ہو رہا؟ کیا ہم نے جدید بننے کی دوڑ میں اس تعلق پر سمجھوتے تو نہیں کر لیے؟ اقبالؒ نے خوب کہا تھا کہ:
احکام ترے حق ہیں مگر اپنے مفسر
تاویل سے بنا سکتے ہیں قرآن کو پاژند
جدید مغربی تہذیب جیسا کہ اس کے علم، کلچر اور میڈیا میں ظاہر ہے، حضور علیہ الصلٰوۃ و السلام کی دشمن تہذیب ہے اور عین اسی تہذیب کے بارے میں یہ موقف رکھنا کہ اس کے اصول و مبادی قرآن مجید سے اخذ کیے گئے ہیں، انتہائی نادانی کا موقف ہے۔ اس جدید ”قرآنی“ موقف کو رد کرنے کے لیے یہی پہلو کافی ہے۔ لیکن جدید علمی اور فکری رویوں کے غلبے اور دھونس کی وجہ سے ان کا تجزیہ بھی آج ایک دینی ضرورت کی حیثیت رکھتا ہے، جس کی طرف ہمیں توجہ کرنی چاہیے۔
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
مغرب زدہ

تحریر :حافظ محمد زبیر (@ابوالحسن علوی )
مسلم معاشروں میں دو قسم کے طبقات مغرب زدہ ہیں؛ ایک وہ جو مغرب کو پڑھ کر اس سے متاثر ہو گئے اور دوسرے وہ جو مغرب کو پڑھ کر رد عمل کی نفسیات [psychology of reaction] کا شکار ہو گئے۔ یہ دوسرا طبقہ اگرچہ مغرب کا شدید ناقد ہے لیکن مغرب نے ان پر پہلے طبقے سے زیادہ گہرا اثر چھوڑا ہے۔ یہ اثر نیوٹن کے تیسرے قانون کے عین مطابق ہے کہ ہر عمل کا ایک رد عمل ہوتا ہے جو قوت میں برابر لیکن سمت میں مخالف ہوتا ہے۔
مغرب کے فکری اثر سے اگر کوئی طبقہ کسی قدر محفوظ ہے تو وہ، وہ طبقہ ہے جسے مغرب کو پڑھنے کی نعمت میسر نہیں ہے یا آسان الفاظ میں جنہیں اتنی انگریزی نہیں آتی کہ وہ مغرب کو پڑھ سکے اور اس پڑھنے کے نتیجے میں اس سے متاثر ہونے کے اسباب اور رستے ہی پیدا کر سکے۔
پس سائنس اور ٹیکنالوجی کے بارے میں اگر کوئی معتدل رائے سامنے آ سکتی ہے تو اس کی امید روایتی علماء کے طبقے سے کی جا سکتی ہے۔ اور ان سب کا اس پر تقریبا اتفاق ہے کہ ٹیکنالوجی ویلیو نیوٹرل ہے، بھلے انہوں نے ان الفاظ کو استعمال نہ کیا ہو یا وہ ویلیو نیوٹرل کی اصطلاح کو نہ جانتے ہوں لیکن ان کے فتاوی کا خلاصہ یہی ہے، جمع کر کے دیکھ لو۔
ٹیکنالوجی کے بارے میں جو رائے "انصاری" مکتب فکر نے پھیلا اور عام کر دی ہے، وہ نہ تو سو فی صد درست ہے اور نہ ہی سو فی صد غلط ہے۔ لیکن انہوں نے اللہ کے فضل و کرم سے نوجوان اسکالرز کی ایک ایسی جماعت ضرور پیدا کر دی ہے جو اسمارٹ فون جیب میں رکھ کر اس کی شناعت ومضرت پر ایسی عمدہ گفتگو کر سکتے ہیں کہ کسی دار العلوم کے آخری درجہ کے طلباء تو کجا دار الافتاء کے مفتی بھی مسحور ہو جائیں۔
یہ اس ماڈرن سوسائٹی میں رہتے ہوئے ٹیکنالوجی کے استعمال نہ کرنے کے بارے ایک ایسے شاذ موقف پر ضد کر رہے ہیں کہ جس میں امت تو کجا ان کی اولاد کو بھی پناہ نہیں ملے گا۔ یہ دین ایسے موقف کا حامل کیسے ہو سکتا ہے کہ جس پر اربوں کی امت کی بجائے چار افراد کو لانا مشکل ہو جائے۔ فقہاء اور مفتی بھلے مغرب کو ککھ نہ جانتے ہوں، اور یہ ان کی خوبی ہے اور تمہاری خامی ہے، لیکن یہ امر واقعہ ہے کہ کل کلاں کو تمہاری نسلیں بھی انہی کے بیانیے کی روشنی میں زندگی گزار رہی ہوں گی۔
جدید ٹیکنالوجی کے ضرر اور نقصانات سے انکار نہیں ہے لیکن اس کے بارے جو موقف آپ لوگ پیش کر رہے ہیں، وہ امت کو ایک فتنے سے نکال کر دوسرے فتنے میں ڈال دینے کے مترادف ہے۔ اور اس رہبانیت کے لیے صوفیانہ ڈسکورس سے کمک لینا مزید ایک حماقت ہے کہ وہ سب کا سب ضعیف اور موضوع روایات پر کھڑا ہے۔ امت اگر مجموعی حیثیت میں کسی ڈسکورس پر کھڑی ہو سکتی ہے تو وہ فقیہانہ اور قانونی ہے نہ کہ صوفیانہ اور اخلاقی۔ صوفیانہ اور اخلاقی ڈسکورس کوئی علمی پوزیشن لینے کے لیے بنیاد بن ہی نہیں سکتا، البتہ اس سے کسی علمی پوزیشن میں اعتدلال لانے کے لیے ضرور مدد لی جانی چاہیے۔
یہ صوفیانہ ڈسکورس ہی کے فضائل وبرکات ہیں کہ آج اکثر کو صحیح بخاری کی اس مستند ترین روایت کا علم نہیں ہے کہ بڑے گھر اور کھلے مکان کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک نعمت اور فضل قرار دیا لیکن یہ ضعیف روایت سب کو حفظ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک صحابی کے "چوبارہ" بنانے کو اتنا ناپسند فرمایا کہ انہوں نے اسے گرا دیا تھا۔ ایک اور اعتبار سے بھی عرض کر دوں کہ یہ امت اپنی اجتماعی حیثیت میں گناہ گار ہے، لہذا اسے چلانے کے لیے گناہ گار مفتی زیادہ کارآمد ہیں، بنسبت متقی صوفیوں کے۔ مزید تفصیل اگر اللہ نے چاہا تو کسی مستقل تحریر میں عرض کر دوں گا۔
 
Top