• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اسلام اور جمہوریت (جواز کے دلائل پر تبصرہ کیجیے)

کنعان

فعال رکن
شمولیت
جون 29، 2011
پیغامات
3,564
ری ایکشن اسکور
4,423
پوائنٹ
521
السلام علیکم

آصف بھائی آپکو پہلی بار جلال میں دیکھا ھے، سمائل!

ممبر نے اخبار کا کالم یونیکوڈ کیا ھے، اور اس سے ممبر کا متفق ہونا ضروری نہیں ہوتا، آپ کو یقیناً ان کا موقف پہلے جان لینا چاہئے تھا، موقف سامنے نہ آنا بھی کوئی بڑی ڈیل نہیں، آپ اس پر جو معلومات رکھتے ہیں کام نگار کے حوالہ سے آپ مضمون کی شکل میں مفید معلومات شیئر کر سکتے ہیں۔ جزاک اللہ خیر!

والسلام
 

عبدہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 01، 2013
پیغامات
2,038
ری ایکشن اسکور
1,225
پوائنٹ
425
رب کائنات نے قرآن پاک میں فکر اور تدبر کا حکم دیا تھا مگر ہم اپنے عمل کا حساب کرنے سے قاصر ہیں....
آزادیِ افکار سے ہے ان کی تباہی
رکھتے نہیں جو فکر و تدبر کا سلیقہ
(قیوم نظامی،نواے وقت،26 مئی2014)
اتامرون الناس بالبر وتنسون انفسکم کے تحت لگتا ہے کہ موصوف اسی طرح کی صرف اپنے لئے سوچ کی آزادی چاہتے ہیں جس طرح کی آزادی مغرب چاہتی ہے کہ انکو تو ساری دنیا توہین رسالت کی آزادی دے مگر وہ دوسروں کو نہ تو ہولو کاسٹ پر بولنے کا حق دیں نہ نقاب کا حق دیں نہ کسی کو عیسیٰ یا ملکہ برطانیہ کی گستاخی کا حق ہو
پس یہ خود تو نہیں سوچنا چاہتے کہ ہمارے اسلاف کی اصل سوچ کیا تھی مگر اسلاف کی کسی بات سے انکو اگر اپنا مقصد حل ہوتا نظر آئے تو دوسروں کو کہتے ہیں کہ اسلاف کی صرف اسی بات کو بغیر سوچے سمجھے تسلیم کر لو اور اگر سوچنا شروع کر دیا کہ کیا واقعی اسلاف کی مجموعی سوچ یہی ہے تو تم پر نہ سوچنے کا الزام لگا دیا جائے گا جیسے چور بھی کہے چور چور

کبھی اے نوجواں مسلم! تدبر بھی کیا تو نے؟
وہ کیا گردوں تھا، تو جس کا ہے اک ٹوٹا ہوا تارا؟


کیا جن خلفائے راشدین کی مثالیں دی جا رہی ہیں انکی سوچ کا تجزیہ بھی کیا اگر نہیں کیا تو میرے مندرجہ ذیل تھریڈ کو پڑھ لیں جس میں اسی بارے بتایا گیا ہے کہ پاکستان کی جمہوریت میں اصل خرابی کون سی ہے اور یہ بھائی لوگ اسکو چھپا کر اسکا موازنہ بادشاہت اور آمریت سے کر کے اسکو پاک صاف کرنے کی کوشش کرتے ہیں
اسلامی سیاسی نظام کی خصوصیات

اسکی اصل تشخیص تو اوپر دھاگہ میں کی گئی ہے البتہ اسکو مدنظر رکھتے ہوئے اوپر کالم پر بھی ٹکڑے ٹکڑے کر کے کچھ تبصرہ لکھتا ہوں
 

ماریہ انعام

مشہور رکن
شمولیت
نومبر 12، 2013
پیغامات
498
ری ایکشن اسکور
377
پوائنٹ
164
اتامرون الناس بالبر وتنسون انفسکم کے تحت لگتا ہے کہ موصوف اسی طرح کی صرف اپنے لئے سوچ کی آزادی چاہتے ہیں جس طرح کی آزادی مغرب چاہتی ہے کہ انکو تو ساری دنیا توہین رسالت کی آزادی دے مگر وہ دوسروں کو نہ تو ہولو کاسٹ پر بولنے کا حق دیں نہ نقاب کا حق دیں

نہ کسی کو عیسیٰ یا ملکہ برطانیہ کی گستاخی کا حق ہو




پس یہ خود تو نہیں سوچنا چاہتے کہ ہمارے اسلاف کی اصل سوچ کیا تھی مگر اسلاف کی کسی بات سے انکو اگر اپنا مقصد حل ہوتا نظر آئے تو دوسروں کو کہتے ہیں کہ اسلاف کی صرف اسی بات کو بغیر سوچے سمجھے تسلیم کر لو اور اگر سوچنا شروع کر دیا کہ کیا واقعی اسلاف کی مجموعی سوچ یہی ہے تو تم پر نہ سوچنے کا الزام لگا دیا جائے گا جیسے چور بھی کہے چور چور

کبھی اے نوجواں مسلم! تدبر بھی کیا تو نے؟
وہ کیا گردوں تھا، تو جس کا ہے اک ٹوٹا ہوا تارا؟


کیا جن خلفائے راشدین کی مثالیں دی جا رہی ہیں انکی سوچ کا تجزیہ بھی کیا اگر نہیں کیا تو میرے مندرجہ ذیل تھریڈ کو پڑھ لیں جس میں اسی بارے بتایا گیا ہے کہ پاکستان کی جمہوریت میں اصل خرابی کون سی ہے اور یہ بھائی لوگ اسکو چھپا کر اسکا موازنہ بادشاہت اور آمریت سے کر کے اسکو پاک صاف کرنے کی کوشش کرتے ہیں
اسلامی سیاسی نظام کی خصوصیات

اسکی اصل تشخیص تو اوپر دھاگہ میں کی گئی ہے البتہ اسکو مدنظر رکھتے ہوئے اوپر کالم پر بھی ٹکڑے ٹکڑے کر کے کچھ تبصرہ لکھتا ہوں
حضرت عیسی عیسائیوں سے زیادہ ہمارے نبی ہیں ۔۔۔کوئی مسلمان ان کی شان میں گستاخی کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتا۔۔۔عبارت سے یوں محسوس ہو رہا ہے جیسے ملکہ برطانیہ عیسائیوں کے قومی تشخص کی علامت ہیں ایسے ہی حضرت عیسی خاص انہی کے نبی ہیں
قُولُوا آمَنَّا بِاللَّهِ وَمَا أُنزِلَ إِلَيْنَا وَمَا أُنزِلَ إِلَىٰ إِبْرَاهِيمَ وَإِسْمَاعِيلَ وَإِسْحَاقَ وَيَعْقُوبَ وَالْأَسْبَاطِ وَمَا أُوتِيَ مُوسَىٰ وَعِيسَىٰ وَمَا أُوتِيَ النَّبِيُّونَ مِن رَّبِّهِمْ لَا نُفَرِّقُ بَيْنَ أَحَدٍ مِّنْهُمْ وَنَحْنُ لَهُ مُسْلِمُونَ ﴿١٣٦﴾
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,551
پوائنٹ
304
السلام علیکم-

جمہوریت ایک کفریہ نظام ہے -اس کا ثبوت یہ ہے کہ جمہوریت کی بنیاد پارلیمنٹ کی اکثریت ہے -کوئی بھی قانون چاہے دینی ہو یا شہری ہو اس وقت تک نا فذ العمل نہیں ہو سکتا -جب تک کہ پارلیمنٹ اس کو اکثریتی ووٹوں سے پاس نہیں کرتی -اس کا مطلب ہے کہ پارلیمنٹ چاہے تو اللہ کے کسی بھی حکم کو اکثریت نہ ہونے کی بنا پر رد کر سکتی ہے - اور یہ جرّت صرف جمہوری نظام میں ممکن ہے -کیوں کہ پارلیمنٹ کے نمائندے عوام کی اکثریت سے منتخب ہوتے ہیں لہذا اس کفر میں عوام بھی برابر کے شریک ہوتے ہیں -

جب کے ایک اسلامی ملک جس کی بنیاد کلمہ حق پر رکھی گئی ہو وہاں الله کا قانون ہر صورت میں نافذ العمل کرنا ہر مملکت کے حکمرانوں پر واجب ہے -الله نے اسلام کو" دین" حق قرا دیا ہے - قرآن میں الله کا ارشاد ہے -

وَقُلْ جَاءَ الْحَقُّ وَزَهَقَ الْبَاطِلُ ۚ إِنَّ الْبَاطِلَ كَانَ زَهُوقًا سوره بنی اسرئیل ٨١
اور کہہ دو کہ حق آگیا اور باطل مٹ گیا- بے شک باطل مٹنے ہی والا تھا

یعنی ١٤٠٠ سال پہلے الله نے جو دین اپنے نبی کریم صل الله علیہ وسلم پر نازل کیا تھا -اس کا ہر حکم قیامت تک کے لئے نافذ ہو چکا -اب انسانوں کو اس بات کا اختیار نہیں کہ وہ الله کے احکامات کو اکثریتی بنیادوں پر قبول یا رد کر سکیں- اب ہر صورت میں اس کے آگے سر تسلیم خم کر نا واجب ہے
-قرآن میں الله کا واضح فرمان ہے -

وَمَنْ لَمْ يَحْكُمْ بِمَا أَنْزَلَ اللَّهُ فَأُولَٰئِكَ هُمُ الْكَافِرُونَ سوره المائدہ ٤٤
جو کوئی اس کے موافق فیصلہ نہ کر لے جو الله نے اتارا تو وہی لوگ کافر ہیں -


لیکن جمہوریت ہی ایسا طرز حکومت ہے -جس میں عام عوام سے لے کر حکمران طبقے تک فیصلے کا اختیار اکثریتی بنیاد ہے چاہے وہ الیکشن سے پہلے ہو یا بعد میں پارلیمنٹ کا اندر ہو -اور یہ اکثریتی بنیاد سرا سر الله کے احکمات سے بغاوت پر مبنی ہے -

آج ہم دیکھ لیں کہ وہ ملک جو کلمہ حق کی بنیاد پر وجود میں آیا تھا -٦٧ سال گزارنے کے بعد بھی یہاں پر ایک بھی اسلامی قانون نافذ نہیں ہو سکا اور نہ ہو سکے گا - کیوں کہ جمہوریت یہود و نصاری کا دین ہے - جس کا ثبوت یہ ہے کہ وہ لوگ ہر وقت ہر لمحہ اس کی ترویج اور اشاعت میں لگے رہتے ہیں تا کہ کسی نا کسی طر ح مسلم مملک میں اس کا نفاذ کر کے لوگوں کو الله کی بغاوت پر امادہ کریں -

جب کہ قرآن میں الله ک اواضح فرمان ہے -

وَلَنْ تَرْضَىٰ عَنْكَ الْيَهُودُ وَلَا النَّصَارَىٰ حَتَّىٰ تَتَّبِعَ مِلَّتَهُمْ ۗ قُلْ إِنَّ هُدَى اللَّهِ هُوَ الْهُدَىٰ ۗ وَلَئِنِ اتَّبَعْتَ أَهْوَاءَهُمْ بَعْدَ الَّذِي جَاءَكَ مِنَ الْعِلْمِ ۙ مَا لَكَ مِنَ اللَّهِ مِنْ وَلِيٍّ وَلَا نَصِيرٍ سوره البقرہ ١٢٠
اورتم سے یہود اور نصاریٰ ہرگز راضی نہ ہوں گے جب تک کہ تم ان کے دین کی پیروی نہیں کرو گے کہہ دو بے شک ہدایت الله ہی کی طرف سے ہے اور اگر تم نے ان کی خواہشوں کی پیروی کی اس کے بعد جو تمہارے پاس علم آ چکا تو تمہارے لیے الله کے ہاں کوئی دوست اور مددگار نہیں ہوگا -(یعنی الله کے عذاب سے بچانے والا کوئی نہ ہو گا


الله ہم مسلمانوں کو حق و باطل میں تمیز کرنے کی توفیق عطا فرماے (آ مین)
 

ابن حلبی

مبتدی
شمولیت
نومبر 23، 2013
پیغامات
38
ری ایکشن اسکور
23
پوائنٹ
19
اسلام کا نظامِ حکومت نہ جمہوریت ہے، نہ بادشاہت، نہ آمریت

اسلام کا نظامِ حکومت دنیا میں موجود باقی تمام نظام ہائے حکومت سے یکسر مختلف ہے، وہ اساس جس پر اس نظام کی بنیاد رکھی گئی ہے، اس نظام کے افکار وتصورات اور پیمانہ، وہ قوانین جن کے ذریعے یہ لوگوں کے معاملات کی دیکھ بھال کرتا ہے، وہ دستور اور قوانین جنہیں یہ نافذ کرتا ہے، وہ شکل جو یہ اسلامی ریاست کو عطا کرتا ہے؛ غرض یہ نظام پوری دنیا میں موجودحکمرانی کی مختلف شکلوں سے یکسرمختلف ہے ۔
اسلام میں حکومت کی شکل بادشاہت نہیں ہے:
اسلام کا نظامِ حکومت نظامِ بادشاہت نہیں ہے۔ اسلام نہ تو بادشاہی طرزِ حکومت کو تسلیم کرتا ہے اور نہ ہی اس سے مشابہت رکھتا ہے۔
بادشاہی نظامِ میں حکومت موروثی ہوتی ہے جس میں بیٹا اپنے باپ سے حکومت وراثت میں حاصل کرتا ہے بالکل اسی طرح جیسے وہ مالِ میراث حاصل کرتا ہے۔ جبکہ اسلامی نظامِ حکومت میں موروثی حکومت کا کوئی تصور نہیں بلکہ حکومت اسے ملتی ہے جسے امت اپنی مرضی اور اختیار سے بیعت دیتی ہے۔
بادشاہی نظام میں بادشاہ کو خصوصی حقوق اور امتیازی استثناء حاصل ہوتا ہے جو رعایا میں سے کسی اور کا استحقاق نہیں ہوتا۔ یہ حقوق اسے قانون سے بالاتر بناتے ہیں اور وہ کسی کے سامنے جواب دہ نہیں ہوتا۔ بادشاہ کی حیثیت یا تو قوم کی علامت کی سی ہوتی ہے جس میں وہ ریاست کا مالک ہوتا ہے لیکن حکومت نہیں کرتا جیسے کہ یورپ کے بادشاہ ؛ یا پھر وہ ریاست کا مالک ہونے کے ساتھ ساتھ ملک کا حاکم بھی ہوتا ہے۔ بلکہ وہ بذاتِ خود قانون کا ماخذ ہوتا ہے اور جس طرح چاہتا ہے ملک اور رعایا پر حکومت کرتا ہے جیسے کہ سعودی عرب ، مراکش اور اردن کے بادشاہ۔
اسلامی ریاست میں خلیفہ یا امام کو نہ کوئی امتیازی استثناء حاصل ہوتا ہے اور نہ ہی وہ کسی قسم کے خصوصی حقوق کا حقدار ہوتا ہے۔ وہ امت کے باقی افراد کی طرح ایک فرد ہوتا ہے۔ اس کی حیثیت امت کی علامت کی سی نہیں ہوتی جہاں امت اس کی ملکیت ہو اور وہ خود حکومت نہ چلائے اور نہ ہی اسے ایسی حیثیت حاصل ہوتی ہے کہ وہ اپنی مرضی کے مطابق حکومت کرے اور جیسے چاہے ملک و قوم کے معاملات چلائے۔ بلکہ وہ حکومت و اختیار میں امت کا نمائندہ ہوتا ہے جسے امت منتخب کرتی ہے اپنی رضامندی سے بیعت دیتی ہے تاکہ وہ اس پر اللہ کی شرع کو نافذ کرے۔ وہ اپنے تمام کاموں ، فیصلوں ، امت کے امور اور مفادات کی دیکھ بھال میں احکامِ شریعت کا پابند ہو تا ہے۔
مزید برآںاسلام کے نظامِ حکومت میں ولی عہد ی کا بھی کوئی تصور نہیں۔ اسلام موروثی حکومت کو مسترد کرتا ہے اور حکومت کو بطورِ وراثت حاصل کرنے کو جائز قرار نہیں دیتا۔ خلیفہ یا امام صرف اس وقت حکمرانی حاصل کر سکتا ہے جب امت اپنی رضا و اختیار کے ساتھ اسے بیعت دے دے۔
اسلامی نظامِ حکومت کی شکل جمہوری نہیں ہے:
اسلام کا نظامِ حکومت جمہوری نظام نہیں ہوتا۔ جمہوری یعنی ری پبلکن نظام کی بنیاد جمہوریت ہے جس میں لوگ اقتدارِ اعلیٰ کے حامل ہوتے ہیں۔ لہٰذاجمہوریت میںحکومت اور قانون سازی کا حق لوگوں کو حاصل ہے اور حکمران کو مقرر کرنے اور اسے معزول کرنے کا حق بھی اُنہی کے پاس ہوتا ہے۔ لوگ یہ حق بھی رکھتے ہیں کہ وہ دستور و قوانین مرتب کریں، ان دستور وقوانین کو منسوخ یا تبدیل کردیں یا پھر ان میں کوئی ردوبدل کریں۔
اس کے مقابلے میں اسلامی نظامِ حکومت کی بنیاد اسلامی عقیدے اور احکامِ شرعیہ پر ہے۔ اور اقتدارِاعلیٰ شریعت کو حاصل ہے امت کو نہیں۔ نہ تو امت اور نہ ہی خلیفہ کو یہ حق حاصل کہ وہ قانون سازی کریں ۔ شارع صرف اللہ تبارک و تعالیٰ کی ذات ہے اور خلیفہ کو صرف یہ اختیارحاصل ہے کہ وہ کتاب و سنت سے اخذ کردہ احکامات کودستور و قوانین مرتب کرنے کے لیے اختیار کرے۔ علاوہ ازیں خلیفہ کو معزول کرنے کا حق امت کو حاصل نہیں بلکہ شرع ہی خلیفہ کو معزول کرتی ہے۔ البتہ خلیفہ کو مقرر کرنے کا اختیار امت کے پاس ہے کیونکہ اسلام نے قوت و اختیار امت کوتفویض کیا ہے۔ چنانچہ خلیفہ کے انتخاب کا اختیار امت کے پاس ہے کہ وہ جسے چاہے اپنی مرضی سے بیعت دے۔
صدارتی طرز کے جمہوری نظام میں ریاست کی سربراہی کے لازمی اختیارات مملکت کے صدرکے پاس ہوتے ہیں۔ اس کی کابینہ میں وزیر اعظم نہیں ہوتا بلکہ سیکرٹری آف سٹیٹ ہوتے ہیں جیسے کہ ریاست ہائے متحدہ امریکہ ہے۔ جبکہ پارلیمانی طرزِ حکومت میں حکومت میں صدر اور وزیر اعظم دونوں ہوتے ہیںاور حکومت کے لازمی اختیارات صدر کی بجائے (وزیر اعظم کی) کابینہ کے پاس ہوتے ہیںجیسے جرمنی میںہے۔
نظامِ خلافت میں نہ تو جمہوری نظام کی طرز پر وزراء ہوتے ہیں اور نہ ہی خلیفہ کے ساتھ اس طر ح کی وزارتی کابینہ ہوتی ہے جس میں وزراء کے پاس مخصوص وزارتی قلمدان ہوں اور انہیں لازمی اختیارات حاصل ہوں۔ اس کی بجائے خلیفہ کے ساتھ اس کے معاونین ہوتے ہیںجنہیں وہ مقرر کرتا ہے تاکہ وہ خلافت کو چلانے اور ذمہ داریوں کو نبھانے میں خلیفہ کی مدد کریں۔ یہ معاون تفویض اور معاون تنفیذ ہوتے ہیں۔ اور خلیفہ ریاست کے سربراہ کی حیثیت سے ان کی قیادت کرتا ہے نہ کہ وزیر اعظم کی حیثیت سے یا انتظامی مجلس کے سربراہ کی حیثیت سے۔ خلیفہ کے ساتھ کوئی وزارتی کونسل نہیں ہوتی جو خود سے اختیارات کی حامل ہو۔ کیونکہ تمام لازمی اختیارات خلیفہ کو حاصل ہوتے ہیں اور معاونین ان اختیارات کو بروئے کار لانے میں معاونت کا کام سرانجام دیتے ہیں۔
علاوہ ازیں جمہوری نظامِ حکومت میں خواہ اس کی شکل صدارتی ہو یا پارلیمانی، ریاست کاسربراہ عوام اور ان کے نمائندوں کے سامنے جواب دہ ہوتا ہے۔ اور عوام اور ان کے نمائندوں کو یہ اختیار حاصل ہوتا ہے کہ وہ اسے اس کے عہدے سے معزول کردیں، کیونکہ ری پبلکن نظام میں اقتداراعلیٰ کے مالک عوام ہوتے ہیں۔
یہ مومنین کی امارت کے خلاف ہے۔ امیر المومنین امت اور اس کے نمائندوں کے سامنے جواب دہ ہوتا ہے اور امت اور اس کے نمائندے اس کا محاسبہ کرتے ہیں۔ لیکن خلیفہ کو ہٹانے کا اختیار امت اور اس کے نمائندوں کے پاس نہیں ہوتا۔ خلیفہ کو صرف اسی صورت میں ہٹایا جا سکتا ہے جب وہ شرع کی ایسی خلافت ورزی کرے کہ اس کو ہٹانا واجب ہو جائے اور محکمة المظالم ہی اس بات کا تعین کرتا ہے۔
جمہوری نظامِ حکومت میں خواہ وہ صدارتی ہویا پارلیمانی، حکمران یا صدر کا انتخاب مقررہ مدت کے لیے ہوتا ہے اور اس مدت سے تجاوز کرنا ممکن نہیں۔
جبکہ نظامِ خلافت میں خلیفہ کے عہدے کی کوئی متعین مدت نہیں ہوتی بلکہ اس کا انحصار شریعت کے نفاذ پر ہوتا ہے۔ جب تک وہ کتاب اللہ اور سنتِ رسول اسے اخذ کردہ احکام شرعیہ کو نافذ کرتا رہے، وہ خلیفہ کے عہدے پر موجود رہتا ہے۔ اس بات سے قطعِ نظر کہ اس کی خلافت کی مدت کتنی طویل ہے۔ اگر وہ شرع کی خلاف ورزی کرے اور اسلام کے نفاذ سے روگردانی کرے تو اس کی حکومت کا خاتمہ کردیاجاتا ہے، خواہ وہ ایک مہینہ یا ایک دن ہی کیوں نہ ہو۔ اور اسے فوراََ ہٹانا لازمی ہوتا ہے۔
اس سے ثابت ہوا کہ نظامِ خلافت اورجمہوری نظام نیز خلیفہ اور جمہوری صدر کے مابین بہت بڑا فرق ہے۔
چنانچہ یہ دعویٰ بالکل جائز نہیں کہ اسلامی نظام ایک جمہوری نظام ہے اور نہ ہی 'اسلامی جمہوریہ' کی اصطلاح استعمال کرنا جائز ہے کیونکہ ان دونوں نظاموں کی شکل و ہیئت اور تفاصیل میں تفاوت ہونے کے ساتھ ساتھ، یہ نظام اپنی اساس کے لحاظ سے بھی ایک دوسرے سے بالکل متناقض ہیں۔
اسلامی نظام ِحکومت کی شکل نوآبادیاتی نہیں ہے:
اسلام کا نظامِ حکومت نو آبادیاتی نظام نہیں ہے۔ بلکہ نوآبادیاتی نظامِ حکومت اسلام سے بالکل میل نہیں کھاتا۔ اسلام کے زیرحکومت مختلف علاقے --گرچہ مختلف نسل کے لوگوں پر مشتمل ہوتے ہیںاور ایک مرکز سے منسلک ہوتے ہیں-- لیکن ان پر نو آبادیاتی نظا م کی بجائے ایک ایسے نظام سے حکومت کی جاتی ہے جو کہ نو آبادیاتی نظام کے برعکس ہے۔ کیونکہ نوآبادیاتی نظام میں سلطنت کے مختلف حصوں میں بسنے والے مختلف نسل کے لوگوں سے یکساں سلوک نہیں کیا جاتا بلکہ مرکز کو حکومت، اموال اور اقتصادی لحاظ سے خصوصی مراعات حاصل ہوتی ہیں۔
اسلامی طرز ِ حکومت میں ریاست کے تمام خطوںمیں بسنے والے لوگوں کو مساوی حقوق حاصل ہوتے ہیں اور نسلی تعصب کی ممانعت ہوتی ہے۔ اسلام ان غیر مسلموں کو جو اسلامی ریاست کے باشندے ہوتے ہیں وہ تمام حقوق عطا کرتا ہے اور ان پر وہ فرائض عائد کرتا ہے جو ریاست میں بسنے والے ایک مسلمان کے ہوتے ہیں۔ اور ان کے ساتھ ویسا ہی عدل کیا جاتا ہے جیسا مسلمانوں کے ساتھ ہوتا ہے اور ان سے اسی طرح پوچھ گچھ ہوتی ہے جیسا کہ مسلمانوں کی پوچھ گچھ ہوتی ہے۔ علاوہ ازیں ریاست کے ہر باشندے کو ،خواہ اس کا تعلق کسی بھی مذہب سے ہو ، وہ حقوق حاصل ہوتے ہیں جو بیرون ِریاست بسنے والے اُس مسلمان کو حاصل نہیں ہوتے جس کے پاس ریاست کی شہریت نہ ہو۔ اس مساوات کی بنا پر اسلام کا نظامِ حکومت نو آبادیاتی نظام سے یکسر مختلف ہے۔ وہ اپنے زیر حکومت علاقوں کو کالونیاں نہیں بناتا، ان کا استحصال نہیں کرتا اور نہ ہی مرکز اپنے فائدے کے لیے ان علاقوں کو دولت چوسنے کا ذریعہ بناتا ہے۔ بلکہ اسلام تمام علاقوں کو ایک وحد ت تصور کرتا ہے، خواہ یہ علاقے کتنے ہی دور کیوںنہ ہوں اور ان کی نسلیں کتنی مختلف ہی کیوں نہ ہوں۔ یہ تمام علاقے ریاست کے جسم کا حصہ ہوتے ہیںاور ان حصوں میں بسنے والے لوگوں کے وہی حقوق ہوتے ہیں جو کہ مرکز کے باشندوں کو حاصل ہوتے ہیں۔ اور ہر حصے میں حکومت، اتھارٹی، نظام اور قوانین یکساں ہوتے ہیں۔
اسلامی نظامِ حکومت کی شکل وفاقی طرزِ حکومت نہیں ہے:
اسلام کا نظامِ حکومت وفاقی طرز کا نہیں کہ جس میں مختلف علاقوں کو خود مختاری حاصل ہوتی ہے لیکن وہ ایک عمومی مرکزی حکومت کے ذریعے باہم متحد ہوتے ہیں۔ بلکہ اسلام وحدت کا نظام ہے جس میں مغرب میں مراکش کو وہی حیثیت حاصل ہوتی ہے جو مشرق میں خراسان کی ہے۔ اور اگرصوبۂ فیوم اسلامی ریاست کا مرکز ہو تو اس کا انتظام ویسے ہی ہو گا جیسے کہ قاہرہ کا۔ تمام علاقوں کی مالیات اور ان کا بجٹ بھی ایک جیسا ہو تا ہے۔ مختلف صوبوں سے قطع نظر، اموال کو لوگوں پر یکساں انداز سے خرچ کیا جاتا ہے۔ مثلاََ اگر ایک صوبے میں محصولات سے حاصل ہونے والی آمدن اس کی ضروریات سے دوگنا ہو تو اس پر خرچ کیا جانے والا فنڈ اس کی ضروریات کے مطابق ہو گا اور اس سے حاصل ہونے والی آمدن کے مطابق نہیں ہو گا۔ اور اگر ایک صوبے کی آمدن اس کی ضروریات سے کم ہے تو اس امر کوملحوظِ خاطر نہیں رکھا جائے گا اور مجموعی بجٹ میں سے صوبے کی ضرورت کے مطابق اس پر خرچ کیا جائے گا، خواہ وہ ضرورت کے مطابق محصولات پیدا کرے یا وہ ایسا نہ کرسکے۔
چنانچہ نظام ِ حکومت وحدت پر مبنی ہے اور یہ وفاقی اتحاد کا نظام نہیں۔ لہٰذا اسلام کا نظامِ حکومت اپنے ماخذ اور اساس کے حوالے سے دیگر تمام نظام ہائے حکومت سے مختلف ہے۔ اگرچہ اس کے بعض پہلو دیگر حکومتی نظاموں کے بعض پہلوئوں سے مشابہت رکھتے ہیں۔ علاوہ ازیں اسلامی نظامِ میں، حکومت میں مرکزیت ہوتی ہے چنانچہ اعلیٰ اتھارٹی مرکز کو حاصل ہوتی ہے اور مرکز کا اختیار اوراس کی حکومت ریاست کے ہر چھوٹے بڑے حصے پر محیط ہوتی ہے۔ ریاست کے کسی حصے کی خود مختاری کی اجازت نہیں تاکہ ریاست حصے بخرے ہونے سے محفوظ رہے۔ یہ اعلیٰ مرکزی اتھارٹی ہی فوج کے سالاروں، صوبوں کے والیوں اور حکام اور مالی و اقتصادی امور کے عہدیداروں کا تقرر کرتی ہے۔ یہ ہی تمام علاقوں میں قاضیوں کا تقرر کرتی ہے اور ہر اس شخص کا تقررکرتی ہے جس کا کا م حکومت کرنا ہو یا وہ کسی علاقے میں حکومتی امور کے ساتھ براہِ راست منسلک ہو۔
حاصل کلام یہ ہے کہ اسلام میں حکومت کا نظام، نظامِ خلافت ہے۔ خلافت اورریاست کی وحدت اور ایک سے زیادہ خلیفہ کی بیعت کے عدم جواز پر اجماع منعقد ہو چکاہے۔ تمام امام، فقیہہ اور مجتہدین اس بات پرمتفق ہیں۔
 

طاہر اسلام

سینئر رکن
شمولیت
مئی 07، 2011
پیغامات
843
ری ایکشن اسکور
732
پوائنٹ
256
حافظ صاحب آپ کا اپنا تبصرہ کیا ہے؟
آپ اپنا تبصرہ ارشاد فرمائیں اس کے بعد بات آگے بڑھانے میں کافی مدد ملے گی۔
اگر آپ نے اپنا تبصرہ شامل نہ کیا تو
کم از کم میں یہی تصور کروں گا کہ آپ من و عن اس کالم سے کلی طور پر متفق ہیں۔
میں جمہوریت کو مکمل کفریہ نظام سمجھتا ہوں جس کی اسلام کاری کسی طور ممکن نہیں؛اسلام کا سیاسی نظام خلافت و امامت و امارت ہے؛مقصود یہ ہے کہ کالم نگار کے دلائل کا ناقدانہ جائزہ لیا جائے؛میں ذرا مصروف تھا اس لیے تاخیر ہوئی،علمی معاملات میں تعجیل مناسب نہیں۔والسلام
 

طاہر اسلام

سینئر رکن
شمولیت
مئی 07، 2011
پیغامات
843
ری ایکشن اسکور
732
پوائنٹ
256
میں نےجدید نظاموں کے باب میں اپنا اصولی موقف سہ ماہی نظریات کے شمارہ 3 میں ’زاویہ نظر کی غلطی ‘کے زیر عنوان بیان کیا ہے جو رسائل جرائد سیکشن میں موجود ہے،کوشش کرتا ہوں اسے یہاں نقل کر دوں۔
 

طاہر اسلام

سینئر رکن
شمولیت
مئی 07، 2011
پیغامات
843
ری ایکشن اسکور
732
پوائنٹ
256
زاویۂ نظر کی غلطی

معاصر مسلم فکر میں اسلام اور مغرب کے تعلق سے جو مباحث و نکات فکرو تحقیق کا ہدف بنے ہیں،ان میں ایک اہم اور بنیادی مبحث یہ ہے کہ جدید حالات کے تناظر میں تہذیب مغرب اور اس کے اجتماعی و تمدنی نظاموں سے اخذ و استفادہ کے حدود کیا ہیں؟
اس سوال کے مختلف جواب دیے گئے ہیں:
دانش وروں کے ایک طبقہ کا اصرار ہے کہ سیاست و ریاست، اقتصاد و معیشت، آئین و قانون اور تہذیب و تمدن سے متعلق ان تمام اسالیب کو بعینہٖ اپنا لینا چاہیے ، جنھیں مغربی مفکروں نےطویل غور و فکر کے بعد تشکیل دیا ہے ؛ اس طائفے کا استدلال چوں کہ وحی و تنزیل کی یقین افروزیوں کے بجاے محض فکر و تعقل کی شعبدہ طرازیوں پر مبنی ہے اور ہمیں بحث و تجزیہ کو بہ ہر حال شرعی پیمانوں ہی تک محدود رکھنا ہے، اس لیے فی الحال ہم اس سے صرف نظر کرتے ہیں۔
جن لوگوں نے اس قضیے پر مذہب و شریعت کے رخ سے غور کیا ہے، وہ دو گروہوں میں منقسم ہیں: ایک گروہ ارباب تجددکا ہے، جن کا نظریہ یہ ہے کہ اسلام نے عقائد و ایمانیات اور مراسم عبودیت کے باب میں تو ہماری مفصل راہ نمائی کی ہے ، تاہم معاملات اور اجتماعیت کے دائروں میں چند اصول و کلیات اور مجمل اشارات دینے کے بعد ہمیں آزاد چھوڑ دیا ہے،چناں چہ یہ امورمباحات کے زمرے میں آتے ہیں اورہم اپنی عقل و فکرکی روشنی میں کوئی بھی نظام اختیار کرسکتے ہیں ؛ اسے وہ اجتہاد سے تعبیر کرتے ہیں۔ظاہر ہے، اجتہاد کا یہ تصوراہل سنت کے مسلمہ اصولوں کی رو سے یک سر غلط ہے، جس کی تفصیل کا یہ موقع نہیں ؛علاوہ بریں مآل و نتیجہ میں یہ گروہ پہلے سےکچھ زیادہ مختلف بھی نہیں ہے۔
اس ضمن میں اصحاب علم و نظر کی ایک بڑی تعداد کا موقف یہ ہے کہ جدید اجتماعیت کے تقاضوں سے ابھرنے والے مسائل سے عہدہ برآ ہونے کے لیے ہمیں مغرب کے وضع کردہ نظاموں میں سے ان صورتوں کو اپنے ہا ں رائج کرلینا چاہیے ، جو اسلام کی رو ح سے قریب تر ہوں اور نصوص کتاب و سنت سے جن کی تائید ہو سکے؛بہ الفا ظ دیگر نظام ہاے مغرب کی اسلام کاری مسئلہ کا اصل حل ہے ۔ مثال کے طور پر اس اسلوب فکر کے تحت یہ استدلال سامنے آتا ہے کہ موجودہ عصری تقاضوں کے مطابق جمہوری نظام ہی اسلام کا نظام مملکت ہے، کیوں کہ یہ اس دور کا بہترین نظام ہے، نیز اسلام کے تصور شورائیت اور آزادی فکر و نظر کی اسلامی اقدار سے مطابقت رکھتا ہے۔
نقد و احتساب کی میزان میں تولا جائے ،تو مذکورہ استدلال میں ایک بنیادی جھول دکھائی دے گا اور وہ یہ کہ اس میں وہ زاویۂ نظر ملحوظ نہیں رہا ، جو شرعی پہلو سے کسی مسئلے پر بحث و تمحیص اور درست نتائج تک پہنچنے کے لیے ضروری ہے ۔ زاویۂ نظر سے مراد یہ ہے کہ سب سے پہلے یہ طےکیا جائےکہ آیا یہ مسئلہ اس علمیت اور منہاج سے متعلق بھی ہے یا نہیں،جس کی روشنی میں اس پربحث کی جارہی ہے؟یہی وہ مقام ہے، جہاں ہمارے اربا ب علم ودانش کے اشہب فکر نے ٹھوکرکھائی ہے اور انھوں نے دومختلف اور متضاد اقالیم و مناہج کے مسائل و نظریات کو خلط ملط کردیا ہے، جس کی بناپر ان کے نتائج فکر مغربی علمیت میں شایستہ اعتناہیں، نہ اسلامی منہاج علم ہی میں قابل قبول ہیں؛چناں چہ جب وہ جمہوریت کو اسلام کا لبادہ اوڑھاتے ہوئےووٹ کو بیعت پر قیاس کرتے، سیاسی جماعتوں کے وجود پر انصار و مہاجرین کے گروہوں کو دلیل بناتے اور طلب عہدہ کے لیے قصۂ یوسف ؑ کو مبناے استنباط ٹھیراتے ہیں ،تو بہ ظاہر یہ فقہی نوعیت کا استدلال ہے، اور اسی لیے زیادہ خطرناک ہے، لیکن زاویۂ نظرکی غلطی کے سبب سے اس کے نتائج محکم و استوار نہیں ہیں، کیوں کہ بیعت کا تصور ووٹ سے قطعی مختلف ہے؛ انصار و مہاجرین کے گروہوں کو سیاسی پارٹیوں سے کوئی نسبت ہے ،نہ حضرت یوسفؑ کے واقعہ سے عہدہ و منصب کی طلب و خواہش کا جواز نکلتا ہے؛ یہ تمام معاملات مغربی جمہوریت کے برگ و بار ہیں؛مزید برآں جب کسی نظام کو اپنایاجاتا ہے، تو اس کے لوازمات واقدار سے دامن کشاں نہیں رہا جا سکتا،یہی وجہ ہے کہ جمہوریت کو اختیارکرنے سے ملی افتراق و تشتت، اقتدار و اختیار کی حرص وہوس اور اس کے حصول کی خاطر سرمایے کے مسرفانہ استعمال سمیت بے شمار غیر اسلامی اور غیر اخلاقی رویے ہماری سیاست کا جزو لا ینفک بن چکے ہیں ۔
رہا یہ سوال کہ اسلام اور مغرب کے تناظر میں اجتماعی مسائل پربحث ونظر کا کون اسلوب درست ہے؟اس پر اپنا نقطۂ نظر ہم آیندہ نشست میں پیش کریں گے۔​
 
Top