• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اسلام اور جمہوریت میں تصور ِاہلیت

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
اسلام اور جمہوریت میں تصور ِاہلیت


آج پانچ برس گزرنے کے بعد پاکستانی قوم ایک بار پھر انتخابات کے اہم ترین قومی مرحلے کا سامنا کررہی ہے۔ پاکستان کی تاریخ کے یہ انتخاب جہاں ایک طرف انتہائی متنازعہ حیثیت کے حامل ہیں ، شکوک وشبہات اور وسوسوں ،اندیشوں کے مہیب سائے پھیلے ہوئے ہیں وہاں اس کے نتائج بھی نوشتہ دیوار کی طرح ثبت ہیں ۔ اس کے باوجود خواہی نخواہی ہر آنے والا دن انتخابات کی طرف ہمارے قدم بڑھا رہا ہے۔ ان انتخابات کے لئے سیاسی رہنمائوں کی سرکردگی میں قوم نے کئی سالوں سے مطالبے اور ہڑتالیں کی ہیں اور سیاسی لیڈر قوم کو یہ تاثر دینے میں پوری طرح کامیاب نظر آتے ہیں کہ وہ ہر آنے والی نئی حکومت سے اپنی شمعِ اُمید وابستہ کرلے۔ لیکن کتنے ہی مراحلِ انتخاب سے، جوسیاسی جماعتوں کے لئے وصالِ محبوب کی سی حیثیت رکھتے ہیں ، گزرنے کے باوجود آج بھی پاکستانی قوم نہ صرف بدامنی، بدحالی، بے انصافی اور بے روزگاری جیسے بنیادی مسائل سے بری طرح دوچار ہے بلکہ دنیا کی کرپٹ ترین، غیرمنظم، انتہا پسند،باہم منقسم اور غیر محفوظ قوم ہونے کے 'اعزازات' بھی پاچکی ہے۔

آمریت کے زیر سایہ ۸ برسوں کے دوران ہمارے ہاں جمہوریت کا صور اس شدت سے پھونکا گیا ہے کہ پاکستان کے شہری اب حقیقی جمہوریت کو بھی حسین خواب تصور کرتے ہیں ۔ ہر قومی لیڈر جمہوریت کے نام کی یوں مالا جپتا نظر آتا ہے گویا یہ کوئی جنت ِگم گشتہ اور پاکستانی قوم کے دکھوں کا حقیقی درماں ہو۔ یوں تو ان حالات میں جمہوریت کے تقاضے پورے ہونا بھی ناممکن نظر آتا ہے لیکن بالفرض اگر جمہوریت کو اس کی حقیقی روح کے ساتھ پانے کی ہم 'سعادت' حاصل کر بھی لیں تو کیا اس سے ہمارے ملکی و ملی مسائل میں کمی واقع ہونے کا کوئی امکان موجود ہے؟ یہی سوال زیر نظر تحریر کا موضوع ہے کہ سیاسی میدان میں ہماری وہ کونسی ایسی لغزشیں ہیں جن کی بنا پر اسلامی ریاست بنانے اور اسلامی معاشرہ قائم کرنے کا خواب ابھی تک شرمندئہ تعبیر نہ ہوسکا۔

آمریت اور جبر واستبداد کو تو جدید دنیا کا اجتماعی ضمیر اب ردّ کرچکا ہے، اور میدانِ سیاست میں اسے جاہلیت کی ایک مذموم روایت سے زیادہ کوئی حیثیت حاصل نہیں رہی، اور فی الوقت جمہوریت کو ایک بہترین اور مثالی طرزِ حکومت باور کیا جاتا ہے لیکن ہماری نظر میں جمہوریت یا 'سلطانی ٔ جمہور' سے صبح نو کی اُمید وابستہ کرلینا بھی ایک سراب سے زیادہ کوئی حقیقت نہیں رکھتا۔ یہی وجہ ہے کہ ان دنوں پاکستان کے مرکزی شہروں میں جمہوریت کے نام پر جوسیاسی نقشہ اور مستقبل کا منظر نامہ دکھائی دیتا ہے، وہ بھی ایک دردمند اور محب ِدین وملت فرد کو مزید رنج والم اورپریشانیوں کا شکار کردینے کے لئے کافی ہے۔

الحمد للہ پاکستان کے اکثریتی باشندے مسلمان ہیں اور قرآن وسنت ہی ہمارا سرمایۂ حیات ہے۔ قرآن وسنت پر ایمان اور اس کو زیر مطالعہ رکھنے والا مسلمان جس سیاسی ڈھانچے اور اجتماعی نظام سے مانوس ہوتا ہے، اس کی جانب کوئی سنجیدہ پیش قدمی دور دور تک پاکستان کے اسلامی معاشرے میں ناپید نظر آتی ہے۔ اس پر طرہ یہ کہ اسلام تو درکنار تحریک ِپاکستان کے نامور قائدین کے فرمودات کو بھی پوری قوم پسِ پشت ڈال چکی ہے۔ مقامِ افسوس ہے کہ مسلمان ایک بہترین سیاسی نظام کے حامل ہوتے ہوئے بھی اَغیار سے فکری بھیک مانگنے کا رویہ اپنانے پر قانع ہوئے بیٹھے ہیں ۔

ہمارے موجودہ سیاسی منظرنامے میں ہم کن پہلوؤں سے کوتاہی کا شکار ہیں ، اس کی نشاندہی کرنا اہل فکر ونظرکا فرض ہے ، تاکہ حق کا پیغام اور اللہ کی حجت پوری ہوتی رہے۔ جہاں تک عملی کوتاہی کا تعلق ہے تو اسے مجبوری اور اضطرار تک ہی محدود رہنا چاہئے۔ لیکن جب یہ عملی کوتاہی اعتقاد و نظریے کی شکل اختیار کرجائے تو پھر قوموں کی واپسی انتہائی مشکل ہوجایا کرتی ہے۔ ان حالات میں کتاب و سنت سے منور شدہ نظام کو ہی ہمیں پیش نظررکھنا ہوگا اور یہی ایک مسلمان کا سرمایۂ حیات ہے!

اسلام اور جمہوریت میں کئی پہلوئوں سے اساسی اور جوہری فرق پایا جاتاہے۔ چونکہ آج کل ہمیں انتخاب کا مرحلہ درپیش ہے، اس لحاظ سے ہم یہاں اسی مناسبت سے چند بنیادی پہلووں کا تقابلی جائزہ پیش کریں گے:

مزید مطالعہ .....
 
Top