• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اسلام میں خود کشی اور اسلام کے نام پر خودکش حملہ بھی حرام ہے

سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔

حسن شبیر

مشہور رکن
شمولیت
مئی 18، 2013
پیغامات
802
ری ایکشن اسکور
1,834
پوائنٹ
196
1-خود کشی کیوں حرام ہے؟
خودکشی کے بارے میں اسلامی تعلیمات کا خلاصہ یہ ہے کہ یہ فعل حرام ہے۔ اِس کا مرتکب اللہ تعالیٰ کا نافرمان اور جہنمی ہے۔ قرآن و حدیث کے دلائل پر بحث سے قبل آئیے دیکھتے ہیں کہ اسلام نے اسے اتنا بڑا جرم کیوں قرار دیا۔
درحقیقت انسان کا اپنا جسم اور زندگی اس کی ذاتی ملکیت اور کسبی نہیں بلکہ اﷲ عزوجل کی عطا کردہ امانت ہیں۔ زندگی اللہ تعالیٰ کی ایسی عظیم نعمت ہے جو بقیہ تمام نعمتوں کے لیے اساس کی حیثیت رکھتی ہے۔ اسی لیے اسلام نے جسم و جاں کے تحفظ کا حکم دیتے ہوئے تمام افرادِ معاشرہ کو اس امر کا پابند بنایا ہے کہ وہ بہر صورت زندگی کی حفاظت کریں۔ اسلام نے ان اسباب اور موانعات کے تدارک پر مبنی تعلیمات بھی اسی لیے دی ہیں تاکہ انسانی زندگی پوری حفاظت و توانائی کے ساتھ کارخانۂ قدرت کے لیے کار آمد رہے۔ یہی وجہ ہے اسلام نے خودکشی (suicide) کو حرام قرار دیا ہے۔ اسلام کسی انسان کو خود اپنی جان تلف کرنے کی ہرگزاجازت نہیں دیتا۔
2۔ قرآن و حدیث میں خودکشی کی ممانعت
جیسا کہ اوپر بیان ہوچکا ہے کہ زندگی اور موت کا مالک حقیقی اﷲ تعالیٰ ہے۔ جس طرح کسی دوسرے شخص کو موت کے گھاٹ اتارنا پوری انسانیت کو قتل کرنے کے مترادف قرار دیا گیا ہے، اُسی طرح اپنی زندگی کو ختم کرنا یا اسے بلاوجہ ہلاکت میں ڈالنا بھی اﷲ تعالیٰ کے ہاں ناپسندیدہ فعل ہے۔ ارشاد ربانی ہے :
وَلَا تُلْقُوْا بِاَيْدِيْکُمْ اِلَی التَّهْلُکَةِج وَاَحْسِنُوْاج اِنَّ اﷲَ يُحِبُّ الْمُحْسِنِيْنَo
البقرة، 2 : 195
''اور اپنے ہی ہاتھوں خود کو ہلاکت میں نہ ڈالو، اور صاحبان احسان بنو، بے شک اﷲ احسان والوں سے محبت فرماتا ہےo''
امام بغوی نے سورۃ النساء کی آیت نمبر 30 کی تفسیر کے ذیل میں سورۃ البقرۃ کی مذکورہ آیت نمبر 195 بیان کرکے لکھا ہے :
وقيل : أراد به قتل المسلم نفسه.
بغوی، معالم التنزيل، 1 : 418
''اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس سے مراد کسی مسلمان کا خودکشی کرنا ہے۔''
ایک اور مقام پر اﷲ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا :
وَلَا تَقْتُلُوْا اَنْفُسَکُمْط اِنَّ اﷲَ کَانَ بِکُمْ رَحِيْمًاo وَمَنْ يَفْعَلْ ذٰلِکَ عُدْوَانًا وَّظُلْمًا فَسَوْفَ نُصْلِيْهِ نَارًاط وَکَانَ ذٰلِکَ عَلَی اﷲِ يَسِيْرًاo
النساء، 4 : 29، 30
''اور اپنی جانوں کو مت ہلاک کرو، بے شک اﷲ تم پر مہربان ہےo اور جو کوئی تعدِّی اور ظلم سے ایسا کرے گا تو ہم عنقریب اسے (دوزخ کی) آگ میں ڈال دیں گے، اور یہ اﷲ پر بالکل آسان ہےo''
امام فخر الدین رازی نے اس آیت کی تفسیر میں لکھا ہے :
﴿وَلاَ تَقْتُلُوْا اَنْفُسَکُمْ﴾ يدل علی النهی عن قتل غيره وعن قتل نفسه بالباطل.
رازی، التفسير الکبير، 10 : 57
''(اور اپنی جانوں کو مت ہلاک کرو)۔ یہ آیت مبارکہ کسی شخص کو ناحق قتل کرنے اور خودکشی کرنے کی ممانعت پر دلیل شرعی کا حکم رکھتی ہے۔''
مزید برآں امام بغوی نے ''معالم التنزیل (1 : 418)'' میں، حافظ ابن کثیر نے ''تفسیر القرآن العظیم (1 : 481)'' میں اور ثعالبی نے ''الجواھر الحسان فی تفسیر القرآن (3 : 293)'' میں سورۃ النساء کی مذکورہ بالا آیات کے تحت خود کشی کی حرمت پر مبنی احادیث درج کی ہیں (جو کہ اگلے صفحات میں آرہی ہیں)۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ ائمہ تفسیر کے نزدیک بھی یہ آیات خود کشی کی ممانعت و حرمت پر دلالت کرتی ہیں۔
احادیث مبارکہ میں بھی خود کشی کی سخت ممانعت وارد ہوئی ہے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
فَإِنَّ لِجَسَدِکَ عَلَيْکَ حَقًّا وَإِنَّ لِعَيْنِکَ عَلَيْکَ حَقًّا.
بخاری، الصحيح، کتاب الصوم، باب حق الجسم فی الصوم، 2 : 697، رقم : 1874
''تمہارے جسم کا بھی تم پر حق ہے اور تمہاری آنکھوں کا تم پر حق ہے۔''
یہ حکمِ نبوی واضح طور پر اپنے جسم و جان اور تمام اعضاء کی حفاظت اور ان کے حقوق ادا کرنے کی تلقین کرتا ہے، تو کیسے ہو سکتا ہے کہ وہ خودکش حملوں (suicide attacks) اور بم دھماکوں (bomb blasts) کے ذریعے اپنی جان کے ساتھ دوسرے پرامن شہریوں کی قیمتی جانیں تلف کرنے کی اجازت دے! حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خود کشی جیسے بھیانک اور حرام فعل کے مرتکب کو فِي نَارِ جَهَنَّمَ يَتَرَدَّی فِيْهِ خَالِدًا مُخَلَّدًا فِيْهَا أَبَدًا (وہ دوزخ میں جائے گا، ہمیشہ اس میں گرتا رہے گا اور ہمیشہ ہمیشہ وہیں رہے گا) فرما کر دردناک عذاب کا مستحق قرار دیا ہے۔
3۔ خودکش دہرے عذاب کا مستحق ہے
احادیث مبارکہ میں حضور تاجدار کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خودکشی کے مرتکب شخص کو دُہرے عذاب کی وعید سنائی ہے۔ ارشاداتِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ملاحظہ ہوں :
1. عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضی الله عنه عَنِ النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ : مَنْ تَرَدَّی مِنْ جَبَلٍ فَقَتَلَ نَفْسَهُ فَهُوَ فِي نَارِ جَهَنَّمَ، يَتَرَدَّی فِيْهِ خَالِدًا مُخَلَّدًا فِيْهَا أَبَدًا. وَمَنْ تَحَسَّی سُمًّا فَقَتَلَ نَفْسَهُ، فَسُمُّهُ فِي يَدِهِ يَتَحَسَّاهُ فِي نَارِ جَهَنَّمَ خَالِدًا مُخَلَّدًا فِيْهَا أَبَدًا. وَمَنْ قَتَلَ نَفْسَهُ بِحَدِيْدَةٍ، فَحَدِيْدَتُهُ فِي يَدِهِ يَجَأُ بِهَا فِي بَطْنِهِ فِي نَارِ جَهَنَّمَ، خَالِدًا مُخَلَّدًا فِيْهَا أَبَدًا.
1. بخاری، الصحيح،کتاب الطب، باب شرب السم والدواء به وبما يخاف منه والخبيث، 5 : 2179، رقم : 5442
2. مسلم، الصحيح، کتاب الإيمان، باب غلظ تحريم قتل الإنسان نفسه وإن من قتل نفسه بشيء عذب به في النار، 1 : 103، رقم : 109
3. ترمذی، السنن،کتاب الطب، باب ما جاء فيمن قتل نفسه بسم أو غيره، 4 : 386، رقم : 2044
4. أبو داود، السنن،کتاب الطب، باب الأدوية المکروهة، 4 : 7، رقم : 3872
''حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جس شخص نے خود کو پہاڑ سے گرا کر ہلاک کیا تو وہ دوزخ میں جائے گا، ہمیشہ اس میں گرتا رہے گا اور ہمیشہ ہمیشہ وہیں رہے گا۔ اور جس شخص نے زہر کھا کر اپنے آپ کو ختم کیا تو وہ زہر دوزخ میں بھی اس کے ہاتھ میں ہوگا جسے وہ دوزخ میں کھاتا ہوگا اور ہمیشہ ہمیشہ وہیں رہے گا۔ اور جس شخص نے اپنے آپ کو لوہے کے ہتھیار سے قتل کیا تو وہ ہتھیار اس کے ہاتھ میں ہوگا جسے وہ دوزخ کی آگ میں ہمیشہ اپنے پیٹ میں مارتا رہے گا اور ہمیشہ ہمیشہ وہیں رہے گا۔''
2. عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضی الله عنه، عَنِ النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم : الَّذِي يَطْعَنُ نَفْسَهُ إِنَّمَا يَطْعَنُهَا فِي النَّارِ، وَالَّذِي يَتَقَحَّمُ فِيْهَا يَتَقَحَّمُ فِي النَّارِ، وَالَّذِي يَخْنُقُ نَفْسَهُ يَخْنُقُهَا فِي النَّارِ.
1. بخاري، الصحيح، کتاب الجنائز، باب ما جاء في قاتل النفس، 1 : 459، رقم : 1299
2. أحمد بن حنبل، المسند، 2 : 435، رقم : 9616
3. طبراني، مسند الشاميين، 4 : 285، رقم : 3311
4. بيهقي، شعب الإيمان، 4 : 350، رقم : 5362
''حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جو شخص اپنی جان کو کوئی چیز چبا کر ختم کر لیتا ہے تو وہ دوزخ میں بھی (ہمیشہ) اسی طرح خود کو ختم کرتا رہے گا، اس طرح جو شخص اپنی جان کو گڑھے وغیرہ میں پھینک کر ختم کرتا ہے تو وہ دوزخ میں بھی ایسے ہی کرتا رہے گا، اور جو شخص اپنی جان کو پھانسی کے ذریعے ختم کرتا ہے تو وہ دوزخ میں بھی ایسے ہی کرتا رہے گا۔''
3. عَنْ ثَابِتِ بْنِ الضَّحَّاکِ رضی الله عنه عَنِ النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ : وَمَنْ قَتَلَ نَفْسَهُ بِشَيئٍ عُذِّبَ بِهِ فِي نَارِ جَهَنَّمَ.
1. بخاری، الصحيح،کتاب الأدب، باب من أکفر أخاه بغير تأويل فهوکما قال، 5 : 2264، رقم : 5754
2. مسلم، الصحيح، کتاب الإيمان، باب غلظ تحريم قتل الإنسان نفسه، 1 : 104، رقم : 110
3. أبو داود، السنن،کتاب الأيمان والنذور، باب ما جاء في الحلف بالبراء ة وبملة غير الإسلام، 3 : 224، رقم : 3257
4. نسائي، السنن،کتاب الأيمان والنذور، باب الحلف بملة سوی الإسلام، 7 : 5، 6، رقم : 3770، 3771
5. أحمد بن حنبل، المسند، 4 : 33، 34، رقم : 16434 - 16438
''حضرت ثابت بن ضحاک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جس شخص نے کسی بھی چیز کے ساتھ خود کشی کی تو وہ جہنم کی آگ میں (ہمیشہ) اسی چیز کے ساتھ عذاب دیا جاتا رہے گا۔''
مندرجہ بالا احادیث مبارکہ کے کلمات۔ جن میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خودکشی کے عمل کو دوزخ میں بھی جاری رکھنے کا اشارہ فرمایا ہے۔ دراصل اس فعلِ حرام کی انتہائی سنگینی کو ظاہر کرتے ہیں۔ یعنی بہت سے ناجائز امور کی سزا تو جہنم ہوگی مگر خودکشی کے مرتکب کو بار بار اس تکلیف کے عمل سے گزارا جائے گا۔ گویا یہ دہرا عذاب ہے جو ہر خودکش کا مقدر ہوگا۔ (العیاذ باﷲ۔)
4۔ خودکشی کا حکم دینے والے امراء کی مذمت
مذکورہ بالا احادیث مبارکہ میں خود کشی کی عمومی حرمت وارد ہوئی ہے۔ ذیل میں کچھ احادیث خصوصی اہمیت کی حامل ہیں جن میں بعض امراء اور حکمرانوں کی غیر شرعی اطاعت سے ممانعت کی گئی ہے جس سے انسانی زندگیاں بلاوجہ خطرے سے دوچار ہوسکتی ہیں۔ ایسے بہت سے نوجوانوں کو میڈیا پر بات کرتے ہوئے سنا گیا ہے جو خودکشی کا سبب اپنے امیر کے حکم کو گردانتے ہیں۔ ان کے ذہنوں میں امیر کی اطاعت تو بٹھائی جاتی ہے لیکن انہیں یہ معلوم نہیں ہوتا کہ اسلام میں اس اطاعت کی حدود و قیود بھی ہیں۔ محض اس لیے اپنی اور دوسروں کی قیمتی جانیں تلف کردی جائیں کہ ''امیر'' کا حکم ہے، انتہائی نادانی، ناسمجھی اور جہالت ہے۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایسے رہنماؤں اور ان کے کارکنوں کے بارے میں کیا حکم دیا ہے۔
1. عَنْ عَلِيٍّ رضی الله عنه أَنَّ النَّبِيَّ صلی الله عليه وآله وسلم بَعَثَ جَيْشًا وَأَمَّرَ عَلَيْهِمْ رَجُلًا، فَأَوْقَدَ نَارًا، وَقَالَ : ادْخُلُوهَا. فَأَرَادُوا أَنْ يَدْخُلُوهَا، وَقَالَ آخَرُونَ : إِنَّمَا فَرَرْنَا مِنْهَا. فَذَکَرُوا لِلنَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم، فَقَالَ لِلَّذِينَ أَرَادُوا أَنْ يَدْخُلُوهَا : لَوْ دَخَلُوهَا لَمْ يَزَالُوا فِيهَا إِلَی يَوْمِ الْقِيَامَةِ. وَقَالَ لِلْآخَرِينَ : لَا طَاعَةَ فِي مَعْصِيَةٍ، إِنَّمَا الطَّاعَة فِي الْمَعْرُوفِ.
بخاری، الصحيح،کتاب الأحکام، باب السمع والطاعة للإمام ما لم تکن معصية، 6 : 2649، رقم : 6830
''حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک فوجی دستہ روانہ کیا اور (انصار کے) ایک آدمی کو اُس پر امیر مقرر فرمایا۔ پس اُس نے آگ جلائی اور اپنے ماتحت لوگوں سے کہا کہ اس میں داخل ہو جاؤ۔ کچھ لوگوں نے اس میں داخل ہونے کا ارادہ کیا تو بعض نے کہا : ہم آگ ہی سے تو بھاگے ہیں۔ جب حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اِس کا ذکر کیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اُن لوگوں سے فرمایا جنہوں نے آگ میں داخل ہونے کا ارادہ کیا تھا : اگر وہ اس کے اندر داخل ہو جاتے تو قیامت تک کبھی اس سے باہر نہ نکلتے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان لوگوں کو مخاطب کرکے ارشاد فرمایا (جنہوں نے آگ میں داخل ہونے کا ارادہ نہیں کیا تھا) : گناہ کے کاموں میں کسی کی اطاعت و فرمانبرداری لازم نہیں۔ (حکمران کی) اطاعت و فرمانبرداری تو صرف بھلائی کے کاموں میں لازم ہے۔''
2۔ ''صحیح مسلم'' میں یہ روایت مزید وضاحت کے ساتھ یوں بیان کی گئی ہے :
عَنْ عَلِيٍّ رضی الله عنه قَالَ : بَعَثَ رَسُولُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم سَرِيَةً وَاسْتَعْمَلَ عَلَيْهِمْ رَجُلًا مِنَ الْأَنْصَارِ، وَأَمَرَهُمْ أَنْ يَسْمَعُوا لَهُ وَيُطِيعُوا، فَأَغْضَبُوهُ فِي شَيْئٍ، فَقَالَ : اجْمَعُوا لِي حَطَبًا. فَجَمَعُوا لَهُ، ثُمَّ قَالَ : أَوْقِدُوا نَارًا. فَأَوْقَدُوا، ثُمَّ قَالَ : أَلَمْ يَأْمُرْکُمْ رَسُولُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم أَنْ تَسْمَعُوا لِي وَتُطِيعُوا؟ قَالُوا : بَلَی. قَالَ : فَادْخُلُوهَا. قَالَ : فَنَظَرَ بَعْضُهُمْ إِلَی بَعْضٍ، فَقَالُوا : إِنَّمَا فَرَرْنَا إِلَی رَسُولِ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم مِنَ النَّارِ. فَکَانُوا کَذَلِکَ، وَسَکَنَ غَضَبُهُ، وَطُفِئَتِ النَّارُ، فَلَمَّا رَجَعُوا، ذَکَرُوا ذَلِکَ لِلنَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم ، فَقَالَ : لَوْ دَخَلُوهَا مَا خَرَجُوا مِنْهَا، إِنَّمَا الطَّاعَة فِي الْمَعْرُوفِ.
مسلم، الصحيح، کتاب الإمارة، باب وجوب طاعة الأمراء، 3 : 1469، رقم : 1840
''حضرت علی رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک فوجی دستہ روانہ کیا اور اُس کا امیر انصار کے ایک آدمی کو مقرر فرمایا اور لشکر کو یہ حکم دیا کہ وہ امیر کے احکام سنیں اور اس کی اطاعت کریں۔ (اتفاق سے) وہ امیر اُن پر کسی چیز سے ناراض ہوگیا اور اس نے کہا : میرے لیے لکڑیاں جمع کرو۔ لشکر نے لکڑیاں جمع کیں تو اس نے کہا : ان میں آگ جلاؤ۔ انہوں نے آگ جلائی تو امیر نے کہا : کیا حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آپ لوگوں کو میری اطاعت کرنے کا حکم نہیں فرمایا تھا؟ انہوں نے جواب دیا : کیوں نہیں! امیر نے حکم دیا : تو پھر اس آگ کے اندر کود جاؤ۔ راوی بیان کرتے ہیں : اِس پر وہ کھڑے ہو کر ایک دوسرے کا منہ دیکھنے لگے۔ اُن میں سے بعض نے کہا : آگ ہی سے بچنے کے لئے تو ہم نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اتباع کی ہے (پھر کیوں اس میں داخل ہوں)؟ ابھی وہ اسی کشمکش میں تھے کہ امیر کا غصہ ٹھنڈا ہو گیا اور آگ بجھا دی گئی۔ پس جب وہ لوٹے تو اُنہوں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اس واقعے کا ذکر کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اگر وہ اس کے اندر داخل ہو جاتے تو کبھی اس سے باہر نہ نکلتے کیونکہ اطاعت تو صرف نیک باتوں میں لازم ہے۔''
حضرت علی رضی اللہ عنہ سے مروی مذکورہ بالا متفق علیہ حدیث مبارکہ کی روشنی میں اُن خود کش بمباروں کو اپنے فعل پر غور کرنا چاہیے جو اپنے نام نہاد کمانڈروں اور امیروں کی اِطاعت کے نشے میں ڈوب کر مذہب کے نام پر سول آبادیوں پر خود کش حملے کرتے ہیں۔ اور یوں نہ صرف دیگر لوگوں کے قتل کا باعث بنتے ہیں بلکہ فرمان رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مطابق خود کو جہنم کا ایندھن بھی بناتے ہیں۔ خودکشی کا ارتکاب کرنے والوں اور اس پر اُکسانے والوں کے لیے یہ احادیثِ صحیحہ نہایت غور طلب ہیں۔
5۔ خود کشی کرنے والے پر جنت حرام ہے
کم سن نوجوانوں کی ذہن سازی (brain washing) کرکے اور انہیں شہادت اور جنت کے سبز باغ دکھا کر خود کش حملوں کے لیے تیار کرنے والوں کو معلوم ہونا چاہیے کہ اﷲ تعالیٰ نے خود کشی کرنے والے کے لیے جہنم کی دائمی سزا مقرر کی ہے۔ اﷲ گ نے ایسا کرنے والوں کے لیے حَرَّمْتُ عَلَيْهِ الْجَنَّةَ فرما کر جنت حرام فرما دی ہے۔
1۔ حضرت جندب بن عبد اﷲ رضی اللہ عنہ سے متفق علیہ حدیث مبارکہ مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
کَانَ فِيْمَنْ کَانَ قَبْلَکُمْ رَجُلٌ بِهِ جُرْحٌ، فَجَزِعَ فَأَخَذَ سِکِّيْنًا، فَحَزَّ بِهَا يَدَهُ فَمَا رَقَأَ الدَّمُ حَتَّی مَاتَ. قَالَ اﷲُ تَعَالَی : بَادَرَنِي عَبْدِي بِنَفْسِهِ حَرَّمْتُ عَلَيْهِ الْجَنَّةَ.
1. بخاري، الصحيح،کتاب الأنبياء، باب ما ذکر عن بني إسرائيل، 3 : 1272، رقم : 3276
2. مسلم، الصحيح، کتاب الإيمان، باب غلظ تحريم قتل الإنسان نفسه وإن من قتل نفسه بشيء عذب به في النار، 1 : 107، رقم : 113
3. ابن حبان، الصحيح، 13 : 328، رقم : 5988
''تم سے پہلے لوگوں میں سے ایک آدمی زخمی ہو گیا۔ اس نے بے قرار ہوکر چھری لی اور اپنا زخمی ہاتھ کاٹ ڈالا۔ جس سے اس کا اتنا خون بہا کہ وہ مرگیا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : میرے بندے نے خود فیصلہ کر کے میرے حکم پر سبقت کی ہے، لہٰذا میں نے اس پر جنت حرام کر دی۔''
2۔ حضرت حسن بصری حضرت جندب رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
إِنَّ رَجُلًا مِمَّنْ کَانَ قَبْلَکُمْ، خَرَجَتْ بِهِ قُرْحَة، فَلَمَّا آذَتْهُ انْتَزَعَ سَهْمًا مِنْ کِنَانَتِهِ، فَنَکَأَهَا، فَلَمْ يَرْقَأْ الدَّمُ حَتَّی مَاتَ. قَالَ رَبُّکُمْ : قَدْ حَرَّمْتُ عَلَيْهِ الْجَنَّةَ.
1. مسلم، الصحيح، کتاب الإيمان، باب غلظ تحريم قتل الإنسان نفسه وإن من قتل نفسه بشيء عذب به في النار، 1 : 107، رقم : 113
2. ابن حبان، الصحيح، 13 : 329، رقم : 5989
''پچھلی امتوں میں سے کسی شخص کے جسم پر ایک پھوڑا نکلا، جب اس میں زیادہ تکلیف محسوس ہونے لگی تو اس نے اپنے ترکش میں سے ایک تیر نکال کر اس پھوڑے کو چیر ڈالا جس سے مسلسل خون بہنے لگا اور نہ رکا۔ اس کی وجہ سے وہ شخص مر گیا۔ تمہارے رب نے فرمایا : میں نے اس پر جنت حرام کر دی ہے۔''
مذکورہ بالا روایات میں اِس امر کی بھی اِجازت نہیں دی گئی کہ اگر کسی کو کوئی تکلیف یا مرض لاحق ہوجائے تو وہ اس تکلیف سے چھٹکارا پانے کی غرض سے ہی اپنے آپ کو موت کے گھاٹ اتار دے۔ اگر کوئی شخص ایسا کرے گا تو اس کا یہ عمل مقبول نہیں ہوگا بلکہ اس کے لیے باعث جہنم بنے گا۔
6۔ دوران جہاد بھی خودکشی کرنے والا جہنمی ہے
احادیث مبارکہ میں ہے کہ کسی غزوہ کے دوران میں مسلمانوں میں سے ایک شخص نے خوب بہادری سے جنگ کی، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے اس کی شجاعت اور ہمت کا تذکرہ کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے علمِ نبوت سے انہیں آگاہ فرما دیا کہ وہ شخص دوزخی ہے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم یہ سن کر بہت حیران ہوئے۔ بالآخر جب اس شخص نے زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے خود کشی کرلی تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پر یہ حقیقت واضح ہوئی کہ خود کشی کرنے والا چاہے بظاہر کتنا ہی جری و بہادر اور مجاہد فی سبیل اﷲ کیوں نہ ہو، وہ ہرگز جنتی نہیں ہو سکتا۔
1۔ متفق علیہ حدیث مبارکہ ہے۔ حضرت سہل بن سعد رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں :
إِلْتَقَی النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم وَالْمُشْرِکُونَ فِي بَعْضِ مَغَازِيهِ، فَاقْتَتَلُوا، فَمَالَ کُلُّ قَوْمٍ إِلَی عَسْکَرِهِمْ، وَفِي الْمُسْلِمِينَ رَجُلٌ لَا يَدَعُ مِنَ الْمُشْرِکِينَ شَاذَّةً وَلَا فَاذَّةً إِلَّا اتَّبَعَهَا، فَضَرَبَهَا بِسَيْفِهِ، فَقِيلَ : يَا رَسُولَ اﷲِ، مَا أَجْزَأَ أَحَدٌ، مَا أَجْزَأَ فُلَانٌ. فَقَالَ صلی الله عليه وآله وسلم : إِنَّهُ مِنْ أَهْلِ النَّارِ. فَقَالُوا : أَيُنَا مِنْ أَهْلِ الْجَنَّةِ إِنْ کَانَ هَذَا مِنْ أَهْلِ النَّارِ. فَقَالَ رَجُلٌ مِنَ الْقَوْمِ : لَأَتَّبِعَنَّهُ، فَإِذَا أَسْرَعَ، وَأَبْطَأَ، کُنْتُ مَعَهُ حَتَّی جُرِحَ، فَاسْتَعْجَلَ الْمَوْتَ، فَوَضَعَ نِصَابَ سَيْفِهِ بِالْأَرْضِ وَذُبَابَهُ بَيْنَ ثَدْيَيْهِ، ثُمَّ تَحَامَلَ عَلَيْهِ، فَقَتَلَ نَفْسَهُ، فَجَائَ الرَّجُلُ إِلَی النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم : فَقَالَ : أَشْهَدُ أَنَّکَ رَسُولُ اﷲِ، فَقَالَ : وَمَا ذَاکَ فَأَخْبَرَهُ. فَقَالَ : إِنَّ الرَّجُلَ لَيَعْمَلُ بِعَمَلِ أَهْلِ الْجَنَّةِ فِيمَا يَبْدُو لِلنَّاسِ، وَإِنَّهُ لَمِنْ أَهْلِ النَّارِ وَيَعْمَلُ بِعَمَلِ أَهْلِ النَّارِ فِيمَا يَبْدُو لِلنَّاسِ وَهُوَ مِنْ أَهْلِ الْجَنَّةِ.
1. بخاري، الصحيح، کتاب المغازي، باب غزوة خيبر، 4 : 1541، رقم : 3970
2. مسلم، الصحيح،کتاب الإيمان، باب غلظ تحريم قتل الإنسان نفسه، 1 : 106، رقم : 112
3. ابن منده، الإيمان، 2 : 663، رقم : 644
4. عبد بن حميد، المسند، 1 : 169، رقم : 459
''ایک غزوہ (غزوۂ خیبر) میں جب حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور مشرکین کا آمنا سامنا ہوا تو فریقین میں خوب لڑائی ہوئی، پھر (شام کے وقت) ہر فریق اپنے لشکر کی جانب واپس لوٹ گیا۔ پس مسلمانوں میں ایک ایسا آدمی بھی تھا جو کسی اِکا دُکا مشرک کو زندہ نہ چھوڑتا بلکہ پیچھا کرکے اسے تلوار کے ذریعے موت کے گھاٹ اتار دیتا تھا۔ لوگوں نے کہا : یا رسول اللہ! آج جتنا کام فلاں نے دکھایا ہے اتنا اور کسی سے نہیں ہوا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : وہ تو جہنمی ہے۔ پس لوگ کہنے لگے کہ اگر وہ جہنمی ہے تو ہم میں سے جنتی کون ہوگا! مسلمانوں میں سے ایک آدمی کہنے لگا : میں صورتِ حال کا جائزہ لینے کی غرض سے اس کے ساتھ رہوں گا خواہ یہ تیز چلے یا آہستہ۔ یہاں تک کہ وہ آدمی زخمی ہوگیا، پس اس نے مرنے میں جلدی کی یعنی اپنی تلوار کا دستہ زمین پر رکھا اور نوک اپنے سینے کے درمیان میں رکھ کر خود کو اس پر گرا لیا اور یوں اس نے خودکشی کرلی۔ جائزہ لینے والے آدمی نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہوکر عرض کیا : میں گواہی دیتا ہوں کہ واقعی آپ اللہ کے رسول ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دریافت فرمایا : بات کیا ہوئی ہے؟ اس شخص نے سارا واقعہ عرض کر دیا۔ پس آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : بے شک ایک آدمی جنتیوں جیسے عمل کرتا رہتا ہے جیسا کہ لوگ دیکھتے ہیں لیکن درحقیقت وہ جہنمی ہوتا ہے؛ اور بسا اوقات ایسا ہوتا ہے کہ لوگوں کے دیکھنے میں وہ جہنمیوں جیسے کام کرتا رہتا ہے لیکن درحقیقت وہ جنتی ہوتا ہے۔''
2. عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضی الله عنه قَالَ : شَهِدْنَا مَعَ رَسُولِ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم حُنَيْنًا، فَقَالَ لِرَجُلٍ مِمَّنْ يُدْعَی بِالْإِسْلَامِ : هَذَا مِنْ أَهْلِ النَّارِ. فَلَمَّا حَضَرْنَا الْقِتَالَ، قَاتَلَ الرَّجُلُ قِتَالًا شَدِيدًا، فَأَصَابَتْهُ جِرَاحَة. فَقِيلَ : يَا رَسُولَ اﷲِ، الرَّجُلُ الَّذِي قُلْتَ لَهُ آنِفًا إِنَّهُ مِنْ أَهْلِ النَّارِ، فَإِنَّهُ قَاتَلَ الْيَوْمَ قِتَالًا شَدِيدًا، وَقَدْ مَاتَ. فَقَالَ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم : إِلَی النَّارِ. فَکَادَ بَعْضُ الْمُسْلِمِينَ أَنْ يَرْتَابَ فَبَيْنَمَا هُمْ عَلَی ذَلِکَ إِذْ قِيلَ إِنَّهُ لَمْ يَمُتْ وَلَکِنَّ بِهِ جِرَاحًا شَدِيدًا. فَلَمَّا کَانَ مِنَ اللَّيْلِ لَمْ يَصْبِرْ عَلَی الْجِرَاحِ، فَقَتَلَ نَفْسَهُ، فَأُخْبِرَ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم بِذَلِکَ، فَقَالَ : اﷲُ أَکْبَرُ، أَشْهَدُ أَنِّي عَبْدُ اﷲِ وَرَسُولُهُ، ثُمَّ أَمَرَ بِلَالًا، فَنَادَی فِي النَّاسِ أَنَّهُ لَا يَدْخُلُ الْجَنَّةَ إِلَّا نَفْسٌ مُسْلِمَة، وَأَنَّ اﷲَ يُؤَيِّدُ هَذَا الدِّينَ بِالرَّجُلِ الْفَاجِرِ.
مسلم، الصحيح، کتاب الإيمان، باب غلظ تحريم قتل الإنسان نفسه، 1 : 106، رقم : 111
''حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں : ہم رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ غزوۂ حنین میں تھے، ہم لوگوں میں ایک شخص تھا جس کا شمار مسلمانوں میں ہوتا تھا۔ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کے بارے میں فرمایا : یہ جہنمی ہے۔ جب جنگ شروع ہوئی تو وہ شخص بڑی بہادری سے لڑا اور زخمی ہوگیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عرض کیا گیا : یا رسول اللہ! جس شخص کے بارے میں آپ نے فرمایا تھا کہ وہ جہنمی ہے وہ تو آج بہت بہادری سے لڑا اور اب وہ مر چکا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : وہ دوزخ میں گیا۔ بعض صحابہ کرام رضی اللہ عنہم (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فرمان کی تہ تک نہ پہنچ سکے اور) قریب تھا کہ وہ شکوک و شبہات کا شکار ہوجاتے۔ اتنے میں کسی شخص نے آکر عرض کیا : یا رسول اللہ! وہ شخص ابھی مرا نہیں تھا لیکن بہت زخمی تھا، رات کے آخری حصہ میں وہ زخم کی تکلیف برادشت نہ کر سکا تو اس نے خودکشی کرلی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اس کی خبر پہنچی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اللہ اکبر! میں گواہی دیتا ہوں کہ میں اللہ کا بندہ اور اس کا رسول ہوں۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت بلال رضی اللہ عنہ کو بلوا کر لوگوں میں اعلان کروایا کہ جنت میں صرف مسلمان جائیں گے اور اللہ تعالیٰ اس دین کو فاسقوں کے ذریعے بھی تقویت دیتا رہتا ہے۔''
7۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خودکشی کرنے والے کی نمازِ جنازہ نہیں پڑھائی
خود کشی کس قدر سنگین جرم ہے اس کا اندازہ حضور رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اِس عمل مبارک سے ہوتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سراپا رحمت ہونے کے باوُجود خودکشی کرنے والے کی نمازِ جنازہ نہیں پڑھائی حالاں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہمیشہ اپنے بد ترین دشمنوں کے لیے بھی دعا فرمائی، اور جب تک اللہ تعالیٰ کی طرف سے واضح حکم نہیں آگیا کسی منافق کی نماز جنازہ پڑھانے سے بھی انکار نہیں فرمایا۔ اس حوالے سے درج ذیل احادیث ملاحظہ فرمائیں :
1. عَنْ جَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ رضی الله عنه قَالَ : أُتِيَ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم بِرَجُلٍ قَتَلَ نَفْسَهُ بِمَشَاقِصَ، فَلَمْ يُصَلِّ عَلَيْهِ.
مسلم، الصحيح،کتاب الجنائز، باب تَرْکِ الصَّلَاةِ عَلَی الْقَاتِلِ نَفْسَه، 2 : 672، رقم : 978
''حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے ایک شخص لایا گیا جس نے اپنے آپ کو نیزے سے ہلاک کر لیا تھا، پس آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کی نماز جنازہ نہیں پڑھائی۔''
2۔ امام نسائی، امام ابو داؤد اور امام احمد بن حنبل نے اس روایت کو ان الفاظ کے ساتھ بیان کیا ہے :
عَنِ ابْنِ سَمُرَةَ أَنَّ رَجُلًا قَتَلَ نَفْسَهُ بِمَشَاقِصَ، فَقَالَ رَسُولُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : أَمَّا أَنَا فَلَا أُصَلِّي عَلَيْهِ.
1. نسائی، السنن، کتاب الجنائز، باب تَرْکِ الصَّلَاةِ عَلَی من قتلِ نَفْسَه، 4 : 66، رقم : 1964
2. أبوداؤد، السنن، کتاب الجنائز، باب الْإِمَامِ لَا يُصَلِّي عَلَی مَنْ قَتَلَ نَفْسَه، 3 : 206، رقم : 3185
3. أحمد بن حنبل، المسند، 5 : 92، رقم : 20891
''حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک شخص نے تیر کے ذریعے خودکشی کرلی تو حضور سرورِ کونین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : میں اس کی نماز جنازہ نہیں پڑھاؤں گا۔''
خلاصہ کلام
مختصراً یہ کہ اسلام اپنی تعلیمات اور اَفکار و نظریات(teachings and idealogy) کے لحاظ سے کلیتاً اَمن و سلامتی، خیر و عافیت اور حفظ و امان کا دین ہے۔ اﷲ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نزدیک مسلمان اور مومن صرف وہی شخص ہے جو نہ صرف تمام انسانیت کے لئے پیکر امن و سلامتی اور باعث خیر و عافیت ہو بلکہ وہ امن و آشتی، تحمل و برداشت، بقاء باہمی اور احترام آدمیت جیسے اوصاف سے متصف بھی ہو۔ اسلام ایک ایسا دین ہے جو خود بھی سراپا سلامتی ہے اور دوسروں کو بھی امن و سلامتی کی تعلیم دیتا ہے۔ اس کے برعکس اقامت و تنفیذِ دین اور اعلاء کلمہ حق کے نام پر انتہا پسندی، نفرت و تعصب، افتراق و انتشار، جبر و تشدد اور ظلم و عدوان کا راستہ اختیار کرنے والے اور شہریوں کا خون بہانے والے لوگ چاہے ظاہراً اسلام کے کتنے ہی علم بردار کیوں نہ بنتے پھریں، ان کا دعویٰ اسلام ہرگز قابلِ قبول نہیں ہوسکتا۔
اسلام میں کسی انسانی جان کی قدر و قیمت اور حرمت کا اندازہ یہاں سے لگایا جا سکتا ہے کہ اِس نے بغیر کسی وجہ کے ایک فرد کے قتل کو بھی پوری انسانیت کے قتل کے مترادف قرار دیاہے۔ قتلِعمد کی سزا موت ہے۔
مسلمانوں کو قتل کرنے والوں کے لیے شدید اور دردناک عذاب کی وعید ہے۔ جب اسلام کسی ایک فرد کے قتل حتی کہ اپنی جان کو بھی تلف کرنے کی اجازت نہیں دیتا، تو کیسے ہو سکتا ہے کہ وہ خودکش حملوں اور بم دھماکوں کے ذریعے ہزاروں شہریوں کے جان ومال کو تلف کرنے کی اجازت دے! لہٰذا جو لوگ نوجوانوں کو خون ریزی اور قتلِ عام پر اُکساتے ہیں اور جو نوجوان ایسے گمراہ لیڈروں کے کہنے پر خود کش حملوں میں حصہ لیتے ہیں، دونوں نہ صرف دنیا میں اسلامی تعلیمات سے اِنحراف کے مرتکب ہوتے ہیں بلکہ آخرت میں بھی شدید عذاب کے حق دار ہیں۔ کیونکہ وہ اسلام جیسے پرامن اور متوازن دین کی بدنامی کا باعث بھی بن رہے ہیں اور پوری اِنسانیت کو نفرتوں کی آگ میں دھکیلنے کا سبب بھی۔ بشکریہ کائنات
 
شمولیت
دسمبر 25، 2014
پیغامات
31
ری ایکشن اسکور
19
پوائنٹ
13
بسم اللہ الرحمن الرحیم
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ










شیخ عبد العزیز بن باز رحمہ اللہ سے پوچھا گیا:

ایسے شخص کا کیا حکم ہے جو کچھ یہودیوں کو قتل کرنے کیلئے اپنے آپکو دھماکے سےاُڑائے؟

تو انہوں نے جواب دیا:

"میری نظر میں یہ کام درست نہیں ہے، اور کئی بار اس کے متعلق متنبہ بھی کرچکا ہوں، کیونکہ یہ قتل کے مترادف ہے، اور اللہ تعالی فرماتا ہے: (ولا تقتلوا أنفسكم) [یعنی اپنی جان کو قتل مت کرو] اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:


(جس نے اپنی جان کو کسی بھی چیز سے قتل کیا ،قیامت کے دن اسی چیز کیساتھ اسے عذاب دیا جائے گا)[ بخاری( 5700 ) ومسلم ( 110 )]۔۔۔


اور اگر شرعی جہاد شروع ہوجائے تو مسلمانوں کے ساتھ مل کر جہاد کرے، چنانچہ اگر قتل ہوجائے تو الحمد للہ، لیکن بارودی مواد اپنے ساتھ رکھ کر خود کش حملہ کرے اور انہی یہودیوں کے ساتھ !مارا جائے تو یہ غلط ہے، جائز نہیں


اسی طرح فقیہ الشیخ محمد بن صالح عثیمین رحمہ اللہ سے خود کش حملوں کے بارے میں پوچھا گیا:

تو انہوں نے جواب دیا: "ہم یہ سمجھتے ہیں کہ جن خود کش حملوں میں موت یقینی ہو تو یہ حرام ہے، بلکہ یہ کبیرہ گناہ ہے، کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ وعید سنائی ہے کہ : (جس نے دنیا میں کسی چیز کے ساتھ اپنے آپکو قتل کیا قیامت کے دن اسی چیز کے ساتھ اسے عذاب دیا جائے گا) [بخاری ( 5700 ) اورمسلم ( 110 )] اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی بھی چیز کو مستثنی نہیں کیا، اس لئے یہ حکم عام ہے؛ اور اس لئے بھی خود کش حملہ حرام ہے کہ جہاد فی سبیل اللہ کا مقصد اسلام اور مسلمانوں کی حفاظت ہے؛ جبکہ یہ خود کش حملہ آور آپنے آپکو دھماکے سے اُڑا کر مسلمانوں کے ایک فرد کو کم کر رہا ہے، مزید برآں کہ اُسکی وجہ سے دوسروں کا بھی نقصان ہوتا ہے؛ کیونکہ دشمن پھر ایک کے بدلے ایک نہیں بلکہ بسا اوقات پوری قوم کو بھی تباہ کرسکتا ہے؛ اسی طرح ایک خود کش حملہ جسکی وجہ سے دس یا بیس یا تیس یہودی قتل ہوں اسکی وجہ سے مسلمانوں کو انتہائی شدید تنگی کا سامنا کرنا پڑتا ہےاور سنگین نقصان ہوتاہے، جیسے کہ آج فلسطینیوں کا یہود کے ساتھ معاملہ [ہمارے سامنے ]ہے۔

اور جو شخص اس کے بارے میں جواز کا قائل ہے، اسکی یہ بات بے بنیاد ہے، بلکہ اسکی یہ بات فاسد رائے پر قائم ہے؛ اس لئے کہ خود کش حملہ کے رد عمل میں حاصل ہونیوالے نقصانات اسکے فوائد سے کہیں زیادہ ہیں، اور یہ براء بن مالک رضی اللہ عنہ کے واقعہ (جنگ یمامہ کے موقع پر انہوں اپنے ساتھیوں کو حکم دیا کہ انہیں قلعے کی فصیل کے اندر پھینک دیں، تو وہ انکے لئے دروازہ کھول دینگے) کو دلیل بھی نہیں بنا سکتا،کیونکہ براء بن مالک کے واقعہ میں موت یقینی نہیں تھی، اسی لئے وہ ناصرف بچ بھی نکلے اور دروازہ کھولنےمیں بھی کامیاب رہے، جسکی بنا پر لوگ قلعہ میں داخل ہوئے"

ماخوذ از: "مجموع فتاوى ورسائل عثيمين" (25/ 358)

بلکہ انہوں نےایک بار مجلہ "الدعوۃ" کو فتوی دیتے ہوئے سنہ 1418 ہجری میں سوال کے جواب میں کہا تھا: "میرے مطابق اس نے خود کشی کی ہے، اور اسے جہنم میں اسی چیز کے ساتھ عذاب دیا جائے گا جس سے اس نے خود کشی کی، جیسے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ ثابت ہے۔۔۔۔"

واللہ اعلم.


http://islamqa.info/ur/217995








گویا معلوم ہوا کبار علماء مثلا الشیخ عبدالعزیز بن باز رحمہ اللہ اور الشیخ محمد بن صالح العثمین رحمہ اللہ وغیرھم کے نزدیک جہاد فی سبیل اللہ میں بھی اپنے ساتھ بم باند کر یا گاڑی میں بم لیجا کر کہیں ٹکرا دینا بھی جائز نہیں اور ایسے ہے جیسے کسی نے خود کشی کی ہو کیونکہ ایک تو اس سے اپنے آپ کو قتل کرنے کا سبب بنا اور بے گناہوں کا قتل عام علیحدہ کیا. اب سوال یہ ہے کہ جو شخص ان کبار علماء کے قرآن والسنۃ پر مبنی فتاوں کو نہیں مانتا اور کم علمی، نا دانی، جہالت یا نفرت میں انکو کبھی مرجی کبھی مداخلہ کبھی جامی اور کبھی کچھ اور بولتا ہے اسکو تو اللہ کے علاوہ کوئ نہیں سمجھا سکتا اور یہ اس جیسے لوگوں کے اعمال ہیں کہ صرف شام و عراق کی سر زمین میں دو لاکھ یا اس سے زائد نفوس کا صریحا قتل عام ہو چکا ہے. وہ اردو کا محوارہ تو آپ نے سنا ہی ہوگا: "..نیم ملا خطرہ ایمان". جب نیم ملا کے ہاتھ میں مشین اور دوشاکہ اور بم آجاۓ تو قتل عام ہی ہوتا ہے، کیونکہ وہ تو بس کافر یا اسکے فہم پر مرتد کی تلاش میں ہوتا ہے. امام ابن کثیر نے لکھا:

رأي الحافظ ابن كثير علي الخوارج: قال الحافظ ابن كثير الدمشقي ـ رحمه الله ـ في كتابه “البداية والنهاية ” (١٠/ ٥٨٤-٥٨٥)

عن ما سيفعله الخوارج بالأمة إذا قووا: إذْ لو قَووا هؤلاء لأفسدوا الأرض كلها عراقاً وشاماً، ولم يتركوا طفلاً ولا طفلة، ولا رجلاً ولا امرأة، لأن الناس عندهم قد فسدوا فساداً لا يصلحهم إلاّ القتل جملۃ

(بحواله: البداية والنهاية، للطباعة والنشر والتوزيع والاعلان‏

یعنی مفہوما ترجمہ: یعنی وہ عراق وشام کی سرزمین کو فساد سے بھر دیں گے، نہ بچوں کو چھوڑیں گے نہ مرد و زن کو اور بلا تفریق سب کو قتل کریں گے


اللہ میرے آپ کے اور تمام مسلمانوں کے گناہوں کو معاف فرماۓ اور ہمیں قبر کے عذاب سے محفوظ رکھے اور آخرت میں جنت الفردوس میں جگہ عطا فرماۓ، اللہ مجھے اور آپ کو اپنے دین پر ثابت قدم رکھے اور اپنے دین کو صحابہ اور سلف الصالحین کے منہج پر صحیح اور حسن روایت کی روشنی میں اٹھانے، عمل کرنے اور پھیلانے کے توفیق عطا فرماۓ، اور گمراہی اور بدعات سے دور رکھے، آمین، اللھم آمین.
 
شمولیت
ستمبر 13، 2014
پیغامات
393
ری ایکشن اسکور
276
پوائنٹ
71
استشھادی حملے کے جواز پر کئی بار بحث ہو چکی ہے اگر تو علماء کے اقوال ہی پیش کیئے جائیں تو شیخ محمد بن ابراھیم رحمہ اللہ مفتی عام دیار حرمین کے محدث البانی رحمہ اللہ محدث سلیمان العلوان فک اللہ اسرہ شیخ امین اللہ پشاوری حفظہ اللہ جواز کے قائل ہیں شیخ ابن عثیمین بھی جواز کے قائل ہیں ان کا فتوی موجود ہے رہا جواز کے لیئے شرائط اور قیود لگانا کہ کس کس صورت میں جائز ہے تو سب قائلین جواز نے لگائی ہیں
اور ابن کثیر رحمہ اللہ کا قول پیش کرنے کا انداز نہایت غلط ہے یہ احساس دلایا جا رہا ہے کہ موجودہ صورتحال کے بارے ان کا یہ تبصرہ تھا عربی عبارت کی پہلی سطر سے یہی جھلک رہا ہے
جبکہ یہ رائے ان کی صرف اس وقت کے خوارج کے بارے تھی جیسا کہ مکمل پیرا گراف سے واضح ہے یہاں پر ملاحظہ کیا جا سکتا ہے آخری پیرا گراف
http://library.islamweb.net/newlibrary/display_book.php?idfrom=855&idto=856&bk_no=59&ID=947
 
شمولیت
دسمبر 25، 2014
پیغامات
31
ری ایکشن اسکور
19
پوائنٹ
13
عام طور پر میں بحث کا قائل تو نہیں مگر کچھ عرض کرنا چاھتا ہوں..

استشھادی حملہ سے آپ کی مراد یہ ہے مسلمان اور کفار کے مابین شرعی جہاد ہو اور الشیخ ابن باز رحمہ اللہ کے بقول، مفہوم:


"اور اگر شرعی جہاد شروع ہوجائے تو مسلمانوں کے ساتھ مل کر جہاد کرے، چنانچہ اگر قتل ہوجائے تو الحمد للہ"


تو ظاہر ہے اس میں کوئ حرج نہیں. مگر اسکے علاوہ اپنے جسم سے بم باند کر وہ کفار میں کود پڑے تو ظاہر ہے یہ جائز نہیں، بقول الشیخ عثمین رحمہ اللہ:

ہم یہ سمجھتے ہیں کہ جن خود کش حملوں میں موت یقینی ہو تو یہ حرام ہے، بلکہ یہ کبیرہ گناہ ہے، کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ وعید سنائی ہے کہ : (جس نے دنیا میں کسی چیز کے ساتھ اپنے آپکو قتل کیا قیامت کے دن اسی چیز کے ساتھ اسے عذاب دیا جائے گا) [بخاری ( 5700 ) اورمسلم ( 110 )]


"...اور جو شخص اس کے بارے میں جواز کا قائل ہے، اسکی یہ بات بے بنیاد ہے، بلکہ اسکی یہ بات فاسد رائے پر قائم ہے"



اگر آپ کی بات ابن کثیر سے متعلق صحیح بھی ہو اور انہوں نے بالفرض یہ اپنے وقت کے خوارج کے متعلق کہیں تو یہ بات آج کل میں بھی صادق آتی ہے جیسا کہ یہ عمل شام و عراق کی سرزمین پر بلاتفریق جاری ہے، اللہ ہمیں فتنا گروں کے فتنہ سے محفوظ رکھے، آمین
 
شمولیت
دسمبر 25، 2014
پیغامات
31
ری ایکشن اسکور
19
پوائنٹ
13
اپنا مدعا بیان کرنے کے لیے میں آپ کے سامنے ایک فرضی حالت رکھتا ہوں. اگر میں کسی اہل حدیث یا سلفی بھائ سے استفسار کرتا ہوں کیا آپ کسی دیوبندی یا بریلوی کے پیچھے نماز پڑھو گے وہ کہتا ہے حتی الامکان نہیں.
میں: مگر کیوں؟
وہ: کیوں کہ خطرہ ہے.
میں کس چیز کا؟
وہ: کہ میری نماز ہوئ ہی نہیں.
میں: مگر وہ کیسے؟
وہ: کیونکہ وہ وحدۃ الوجود کے قائل ہیں اور ہمارے نزدیک یہ عقیدہ کفر ہے.
میں: او اچھا

اب کچھ عرصہ بعد یہ اہل حدیث بھائ اور ایک دیوبندی صاحب دونوں جہاد کے غرض سے افغانستان پہنچ گۓ. وہاں پہنچے تو پتا لگا کہ ایک وافر تعداد جن لوگوں کی جہاد کے غرض سے موجود ہے وہ دیوبند، اخوان المسلمین، جماعت اسلامی، حزب التحریر وغیرھم سے ہے اور چند ہی سلفی واہل حدیث ہیں. گویا اب جن لوگوں کے پیچھے وہ نماز کا بھی قائل نہیں تھا مجبورا ان کے ساتھ مل کر جہاد کر رہا ہے اور انکے پیچھے نماز بھی پڑھ رہا ہے. اور جب ان سے جہاد پر تبادلہ خیالات بھی کر رہا ہے. جب انکے ساتھ ہی رہا تو بھول گیا کہ سلف کا منحج قرآن والسنۃ کو صحابہ تابعین کے فہم پر صحیح اور حسن روایات کی روشنی میں سمجھا جاتا ہے. اور جمہور اور کبار علماء سے دین کو اٹھایا جاتا ہے اور صحیح العقیدہ عالم یا علماء کے شاز فتوں کو، جو جمہور کے خلاف ہوں، رد کر دیا جاتا ہے.

اب اس کا عمل نیم ملا والا بن چکا ہے یعنی ہاتھ میں مشین و دوشکہ ہے اور اپنا زاتی استدلال قرآن کی آیت پر کرتا ہے نہ حدیث صحیح کی فکر نہ صحیح اور حسن روایت فہم سلف پر عمل. اور کبار علماء حق مثلا الشیخ صالح فوزان، الشیخ البانی الشیخ ربیع، الشیخ صالح السحیمی وغیرھم؟ وہ تو اسکے لیے مرجی، مداخلہ، وھابی، مرتد.. (والعیاذ بلل)ہ

یہ ہے استشھادی المیہ جو مسلم ممالک کے طول عرض میں پھیلا ہوا ہے...
 
شمولیت
ستمبر 13، 2014
پیغامات
393
ری ایکشن اسکور
276
پوائنٹ
71
بھائی بہت فرق ہے دیوبندی کے پیچھے نماز کے نہ ہونے اور استشھادی حملے میں
باقی ابن باز رحمہ اللہ وحی تو ہیں نہیں میں نے اور بھی علماء کے اقوال لکھے ہیں جو جواز کے قائل ہیں عند الاختلاف دلیل دی جاتی ہے کتاب و سنت سے شیخ ابن عثیمیں رحمہ اللہ بھی جواز کے قائل تھے ان کی آڈیو بھی موجود ہے
عراق اور شام کے بارے وہ جو حدیث ہے کہ طائفہ منصورۃ شام میں ہو گی پھر اس کا کیا کیا جائے ؟؟؟
اور ابھی ایک اعتراض چل رہا ہے کہ ہر جگہ یہ شور ہے کرسمس منانا مبارکباد دینا کفر ہے حرام ہے تو صلیبی حملوں میں ساتھ دینا کیا وہ حلال ہے اس کی حرمت پر کوئی کیوں نہیں بولتا ؟؟
یہ بھی تو ایک المیہ ہے ؟؟؟
اللھم جنبنا الفتن ما ظھر منھا و ما بطن
 
سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔
Top