پاكستان ميں ايسے دو واقعات
1۔ گذشتہ دنوں ہمارے ہاں ايسے دوكيس عدالتوں ميں پيش آئے ہيں جن ميں نسب كا مسئلہ زير بحث آيا- ان دونوں كيسوں ميں ڈى اين اے كے ذريعے نسب كو ثابت كرنے كے مسئلہ پر بهى بحث كى گئى-
پہلے واقعہ كا خلاصہ يوں ہے كہ نشتر ٹاؤن لاہور كے رہائشى طارق مسيح كے مطابق روحيل 2001ء ميں پيدا ہوا اور دو سال تك اس كے گهر ميں اس كى بيوى كے پاس رہا - 2003ء ميں يہ بچہ اغوا ہوگيا- 2005ء ميں جب يہ بچہ محمد على نامى ايك شخص اور اس كى بيوى كے پاس سے برآمد ہوا تو طارق مسيح نے اس كى واپسى كى درخواست تهانے ميں جمع كرادى اور يہ دعوىٰ كيا كہ يہ بچہ ميرا ہے، جيسا كہ اس كى پيدائش پرچى وغيرہ سے ثابت ہوتا ہے، لہٰذا اسے ميرے حوالے كيا جائے- اس موقعہ پر شہزاد مسيح نامى ايك كنوارے لڑكے نے يہ دعوىٰ كيا كہ روحيل تو ميرا بيٹا ہے اور ثمينہ ابراہيم گجر نامى ايك لڑكى سے ناجائز تعلقات كے نتيجے ميں يہ بچہ پيدا ہوا تها- تهانے ميں اس نے ثمينہ سے اپنى شادى كا تذكرہ كيا، البتہ جب يہ معاملہ عدالت ميں چلا گيا تو وہاں عدالت كے رو برو اس نے صرف تعلقات اور شادى كے وعدہ كا ذكر كيا- وہاں شہزاد عرف پپو نے يہ دعوىٰ بهى كيا كہ اپنے اس بچے كو ميں نے محمد على كے پاس اچهى تربيت كے لئے ركهوايا ہوا ہے-اب اس بچے كے باپ ہونے كے دو عيسائى شخص دعويدار ہيں:
1۔ كنوارا شہزاد جو ثمينہ ابراہيم كے ساتھ تعلقات كے نتيجے ميں اسے اپنا بيٹا قرار ديتا ہے۔
2۔ طارق مسيح جو اسے اپنا اور اپنى بيوى كا بچہ قرار ديتا ہے-
عدالت نے اس سلسلہ ميں ثمينہ كا بيان لئے اور واقعہ كى تفصيلات ميں جائے بغير دونوں سے كہا كہ اگر ڈى اين اے ٹيسٹ كرا ليا جائے تو كيا اس كا نتيجہ آپ دونوں مانيں گے؟ دونوں نے اس كا اقرار كرليا- ڈى اين اے ٹيسٹ ميں يہ بچہ شہزاد سے مشابہ نكل آيا، سو عدالت نے 27/اپريل 2005ء كو ايك فيصلہ كے ذريعے اس كے حوالہ كرديا-
اس عدالتى فيصلہ كے بارے ميں روزنامہ پاكستان ميں 10/مئى 2005ء كو ايك مذاكرہ ہوا، جس ميں علما كرام كے علاوہ ماہر ڈاكٹرز كو بهى دعوت دى گئى-
مذاكرہ ميں مدعو مہمان ڈاكٹر امينہ نے ڈى اين اے ٹيسٹ كى حيثيت كے بارے ميں گفتگو كرتے ہوئے كہا كہ
"يہ ٹيسٹ اگر صحيح ہوجائے تو اس كے نتائج سو فيصد ہوتے ہيں اورہرآدمى كا ڈى اين اے دوسرے سے مختلف ہوتا ہے اورممكن ہے كہ ايك كهرب افراد كے بعد كسى ايك كا دوسرے سے ڈى اين اے ملے- اس لئے اس پر اعتماد كيا جاسكتا ہے ، البتہ پاكستان ميں ڈى اين اے ٹيسٹ ہونے كے معيار ى انتظامات موجود نہيں-"
زير بحث مسئلہ كے بارے ميں وہاں مختلف اہل علم نے بهى اپنے اپنے خيالات كا اظہار كياجو روزنامہ پاكستان ميں شائع بهى ہوچكے ہيں-
اس فيصلہ پر ہمارا تبصرہ نكات كى صورت ميں حسب ِذيل ہے :
1۔ ہائيكورٹ نے انسانى قوانين كے پيش نظر اس مسئلہ كو زنا كى حيثيت سے عليحدہ كركے غور كيا ہے، جبكہ نسب كا مسئلہ كوئى مجرد سوال نہيں بلكہ يہ نسب ايك فعل كے نتيجے ميں پيدا ہوتا ہے- اگر وہ فعل درست ہے تو اس كى بنا پرنسب كو ثابت كيا جانا چاہئے ، اور اگر وہ فعل درست نہيں تو اس نسب كا اعتبار نہيں ہونا چاہئے- عدالت كا نسب كو مجرد طورپر زير بحث لانا درست نہيں- عدالت كا يہ رويہ جديد سائنس سے مرعوبيت اور اسلامى شريعت سے لاعلمى كا نتيجہ ہے-
2۔ شہزاد كا دعوىٰ ہے كہ وہ ابهى تك كنوارا ہے، اگر وہ كنوارا ہے اوريہ بچہ ثمينہ سے غلط تعلقات كے نتيجے ميں پيدا ہوا ہے، تو يہ زنا ہے اور زنا سے نسب ثابت نہيں ہوتا-
3۔ اگر شہزاد كا ثمينہ سے شادى كا دعوىٰ بهى مان ليا جائے تو اسلام كى رو سے عيسائى مرد سے مسلمان عورت كى شادى نہيں ہوسكتى، تب بهى يہ نكاح باطل ہے جس كى وجہ سے شہزاد كو يہ بچہ نہيں مل سكتا- عدالت كو شہزاد كے اعترافِ زنا كے جرم ميں سزا دينا چاہئے، اگر اسلام كى رو سے نہيں تو كم از كم عيسائيت كى روسے حرام ہے يا پاكستانى قانون ميں زنا ايك قابل سزا جرم !
4۔ بالفرض يہ بچہ شہزاد اور ثمينہ كے تعلقات كے نتيجے ميں تسليم بهى كرليا جائے تو اس بچے كو ثمينہ كو دينا چاہئے تها، جبكہ عدالت نے ثمينہ كے بارے ميں معمولى تحقيق يا اس كا بيان لينے كى زحمت بهى گوارا نہيں كى۔
5۔ عدالت كا بچے كو شہزاد كے حوالے كردينا گويا زنا كا انعام دينے كے زمرے ميں آتا ہے اور اس سے اسلامى معاشرت شديد خطرے ميں پڑ جاتى ہے كہ ايك آدمى غلط كام كا بهى ارتكاب كرے او رساتھ اس زنا كے نتيجے ميں ہونے والے بچے كا وارث بهى بن بیٹھے-
2۔ ايسا ہى ايك واقعہ انہى دنوں عدالت ِعاليہ ميں امريكہ ميں مقیم شخص كا پيش آيا- يہ شخص گاہے بگاہے پاكستان آتا رہتا- اس دوران اس كے ہاں ايك بچى پيدا ہوئى- چند سالوں بعد اس كو اس بچى پر شك گزرا تو وہ اسے امريكہ لے گيا اور وہاں اپنا اور اپنى بچى كا DNA ٹيسٹ كروايا، دونوں كى رپورٹ ميں فرق نكلا- چنانچہ پاكستان آكر اس نے اپنى بيوى اور ايك غير شخص پر زنا كا پرچہ كٹوا ديا- يہ پاكستان كى عدالتى تاريخ كا پہلا واقعہ ہے- دوسرى طرف جس شخص پر الزام لگايا گيا، وہ بهى عدالت ميں اپنے آپ كو اس الزام سے برى قرا رديتا ہے- اس كيس ميں عدالت نے جناب محمد اسمٰعيل قريشى ايڈوكيٹ كو بهى معاونت كے لئے طلب كيا-
گذشتہ دِنوں عدالت نے بهى يہ فيصلہ سنا ديا كہ DNA سے زنا كى حد نہيں لگائى جاسكتى- اس پر جنرل مشرف نے يہ بيان دياكہ ہميں قدامت پسند علما كى تشريحات سے شریعت كو آزاد كرانا ہوگا، DNA زنا كى سزا كے لئے معتبر ہے- جناب صدر كے اس بيان كے ساتھ يہ بهى حقيقت ہے كہ اگر DNA كى بنا پر ملزمان كو زنا كى حد لگائى جاتى تب بهى صدر كو اعتراض ہوتا، صدر كے اس بيان كا مقصد علما كے بہانے سے اسلام كو قديم قرار دينا اور محض مغرب نواز حلقوں كو خوش كرنا ہے- تفصيلات كے لئے اخبارات ملاحظہ فرمائيں-