• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اسلام کا تصور تفریح

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
اسلام کا تصور تفریح پر ایک تحقیقی مقالہ جو ایک مجلہ کے لیے لکھا گیا
تفریح کا تصور ہر زمانے میں اورہر قوم میں پایا جاتا ہے البتہ ہر قوم اپنی تہذیب وتمدن کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے اس کا اہتمام کرتی رہی ہے مثلا رقص ،ڈرامے،موسیقی،گانے اور مختلف طرح کے کھیل کو دوغیرہ۔ اور کچھ اقوام میں تو تفریح کے ان مظاہر کو مذہبی حیثیت بھی حاصل ہے اور کچھ اقوام میں اس کا تعلق صرف ثقافت سے ہے۔
لیکن عصر حاضر میں جدید ایجادات نے تفریح کا تصور بالکل ہی تبدیل کر دیا ہے عمومی طور پر زمانہ ماضی میں تفریح کا تصور جسمانی تربیت و نشوونما کے ساتھ وابستہ تھا اور بغور جائزہ لیا جائے تو زمانہ ماضی کے جتنے بھی کھیل تھے ان سب میں یہ پہلو اجاگر تھا یہاں تک کہ گھریلو خواتین کے کھیل بھی اسی نوعیت سے تعلق رکھتے تھے اس کے بالکل برخلاف جدید ایجادات جیسے ڈش ،کیبل،ٹیلی ویژن ، کمپیوٹر اور انٹرنیٹ اور اسمارٹ موبائل فونز جن کو ذرائع ابلاغ بھی کہا جاتا ہے تفریح کے تصور کو بہت وسیع بنا دیا ہے اور اس وسعت نے سب سے پہلے سابقہ تصور تفریح میں موجود اجتماعیت کو ختم کر دیا اور انفرادیت کو رائج کیا ۔ اور المیہ تو یہ ہوا کہ ان وسائل کے ذریعہ پیش کیے جانے والے پروگرام جس میں فلمیں ، کارٹونس، کھیل، گانے، فیشن شو، ٹی وی شو وغیرہ کو بھی تفریح کا نام دے دیا گیا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ اس وقت تہذیبی جنگ میدان میں یا اسلحے کے ساتھ نہیں لری جا رہی بلکہ تہذیب وتمدن عقیدہ اور اخلاق کے میدان میں لڑی جارہی ہے اور تفریح کے نام پرغیر اسلامی تہذیب و ثقافت کو فروغ دیا جارہا ہے
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
اسلام صرف عقائد کے باب میں ہی میانہ روی یا اعتدال پرستی کا قائل نہیں ہے بلکہ تمام شعبہ حیات میں اس کا یہی میزہ ہے اور اس کی دوسری سب سے بڑی خوبی اس کے کسی بھی ضابطے کا تعلق غیر فطری یا غیر عقلی تصورات سے نہیں یعنی کہیں بھی اس نے انسان کی جائز ضروریات پر کوئی قدغن نہیں لگائی البتہ کچھ اصول و ضوابط کے ذریعے اس کی حد بندیاں ضرور کر دیں تاکہ فساد بپا نہ ہو۔
اقوامِ یورپ کی طرح پوری زندگی کو کھیل کود بنادینا اور ”زندگی برائے کھیل“ کا نظریہ اسلام کے نقطئہ نظر سے درست نہیں ہے؛ بلکہ آداب کی رعایت کرتے ہوئے، اخلاقی حدود میں رہ کر کھیل کود، زندہ دلی، خوش مزاجی اور تفریح کی نہ صرف یہ کہ اجازت ہے؛ بلکہ بعض اوقات بعض مفید کھیلوں کی حوصلہ افزائی بھی کی گئی ہے۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ اسلام سستی اور کاہلی کو پسندنہیں کرتا؛ بلکہ چستی اور خوش طبعی کو پسند کرتا ہے۔ شریعت کی تعلیمات اس امر کا تقاضہ کرتی ہیں کہ مسلمان شریعت کے تمام احکام پر خوشی خوشی عمل کرے۔ یہ عمل انقباض اور تنگ دلی کے ساتھ نہ ہو؛ کیوں کہ سستی اور تنگ دلی کے ساتھ عبادات کو انجام دینا نفاق کی علامت ہے
اس سے قبل کہ ہم اسلام کا تصور تفریح پر بات کریں مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اس کا تعارف کروا دیا جائے
تفریح کا لفظ دراصل عربی زبان کا لفظ ہے جو ”فرح“ سے مشتق ہے جس کے معنی گپ شپ، دل لگی ، ہنسی مذاق ،خوشی و مسرت ، فرحت ا ور اطمینان وغیرہ حاصل کرنے کے آتے ہیں۔ فرح کے بارے میں علامہ قرطبی رحمة اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں: اَلْفَرْحُ لَذَّةٌ فِی الْقَلْبِ فِادْرَاکِ الْمَحْبُوْب (تفسیر قرطبی) کہ محبوب چیز کے پالینے سے جو لذت حاصل ہوتی ہے،اسی کو فرحت اور خوشی کہتے ہیں۔ اگر یہ فرحت محض قلبی ہو اور احساس نعمت یعنی شکر گذاری سے تعبیر ہو اور اس کے فضل وکرم کے استحضار پر مبنی ہو تو وہ شرعاً مطلوب،مستحسن اور پسندیدہ ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: قل بفضل اللہ و برحمتہ فبذالک فلیفرحوا (یونس:۵۸)
آپ کہہ دیجیے کہ یہ اللہ تعالیٰ کے فضل اور مہربانی سے ہے، تو چاہیے کہ وہ لوگ خوش ہوں
دوسری جگہ ارشاد ہے: فَرِحِیْنَ بِمَا اٰتَاہُمُ اللّٰہُ مِنْ فَضْلِہ․ (آل عمران۱۷۰) کہ جنتی لوگ خوش ہوں گے؛ ان نعمتوں پر جو اللہ نے انھیں اپنے فضل سے عطا کیا ہے۔ ایک حدیث میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: رَوِّحُوا الْقُلُوْبَ سَاعَةً․ کہ دلوں کو وقتاً فوقتاً خوش کرتے رہا کرو۔ (الجامع الصغیر للسیوطی)
ایک روایت میں ہے: اَلْقَلْبُ مُمِلٌّ کَمَا تَمُلُّ الْأبْدَانُ فَاطْلُبوا بِہَا طَرَائِقَ الْحِکْمَةِ․ یعنی دل اسی طرح اکتانے لگتا ہے، جیسے بدن تھک جاتے ہیں؛ لہٰذا اس کی تفریح کے لیے حکیمانہ طریقے تلاش کیا کرو۔
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
اسلام کا تصور تفریح کی اساس قرآنی تعلیمات اور احادیثِ نبوی پر ہے۔ جس میں حلال و حرام، شرم و حیا اور اخلاقی پابندیوں کو اہم مقام حاصل ہے۔ ہمارے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی نمونہ ہے۔آپ جہاں ایک طرف اتنی نمازیں پڑھتے تھے کہ قدمِ مبارک پرورم آجاتا تھا وہیں آپ صحابہ کرام سے ہنسی مذاق اور دل لگی بھی کرتے تھے۔اس کی سب سے بڑی وجہ تو یہ ہے کہ اسلام سستی اور کاہلی کو پسندنہیں کرتا بلکہ چستی اور خوش طبعی کو پسند کرتا ہے۔ شریعت کی تعلیمات اس امر کا تقاضہ کرتی ہیں کہ مسلمان شریعت کے تمام احکام پر خوشی خوشی عمل کرے۔ یہ عمل تنگ دلی کے ساتھ نہ ہوں کیوں کہ سستی اور تنگ دلی کے ساتھ عبادات کو انجام دینا نفاق کی علامت ہے۔ سستی اور کاہلی بے جا فکرمندی اتنی ناپسندیدہ چیز ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ان امور سے پناہ مانگی ہے۔اسی لیے آپ دعا فرماتے تھے: اللھم انی اعوذ بک من الھم و الحزن(سنن ابی داود)
خدایا میں تیری پناہ مانگتا ہوں پریشانی اور غم سے
اسی طرح صحابہ کرام بھی آپس میں ہنستے کھیلتے اور دل لگی کی باتیں کرتے تھے۔ اس لیے ہنسی مذاق اور تفریح کرنا کوئی ناجائز کام نہیں بشرط کہ اسے مستقل عادت نہ بنا لی جائے کہ آدمی اپنی ذمہ داریوں سے غفلت برتنے لگے اور یہ بھی مناسب نہیں کہ لوگوں کو ہنسانے کی خاطر جھوٹ سے کام لے ۔ حدیثِ نبوی ہے: تباہی ہے اس شخص کے لیے جو لوگوں کو ہنسانے کی خاطر جھوٹی باتیں کرتا ہے ۔ اس کے لیے تباہی ہے ۔ اس کے لیے تباہی ہے۔(ترمذی :۵۱۳۲)
اسی طرح یہ بھی صحیح نہیں کہ وہ لوگوں کی قدر ومنزلت اور عزت کا خیال نہ رکھے اور ان کا مذاق اڑانے لگے۔ اللہ تعالی کا ارشاد ہے:یا ایھا الذین آمنوا لا یسخر قوم من قوم عسیٰ ان یکونوا خیراً منھم ولا نسآءمن نسآءعسیٰ ان یکن خیراً منھن (الحجرات:۱۱)
اے ایمان والو! مرد دوسرے مرد کا مذاق نہ اڑائیں ممکن ہے کہ یہ ان سے بہتر ہو اور نہ عورتیں عورتوں کا مذاق اڑائیں ممکن ہے کہ یہ ان سے بہتر ہوں۔
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
مزاح اور زندہ دلی وخوش طبعی انسانی زندگی کا ایک خوش کن عنصر ہے، اور جس طرح اس کا حد سے متجاوز ہوجانا نازیبا اور مضر ہے،اسی طرح اس لطیف احساس سے آدمی کا بالکل خالی ہونا بھی ایک نقص ہے۔ جو بسا اوقات انسان کو خشک محض بنادیتی ہے۔ بسا اوقات ہمجولیوں اور ہمنشینوں اور ماتحتوں کے ساتھ لطیف ظرافت و مزاح کا برتاؤ ان کے لیے بے پناہ مسرت کے حصول کا ذریعہ اور بعض اوقات عزت افزائی کا باعث بھی ہوتا ہے۔ اسی وجہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی تمام تر عظمت و رفعت اور شان وشوکت کے باوجود، بسا اوقات اپنے جاں نثاروں اور نیازمندوں سے مزاح فرماتے تھے۔ ذیل کی احادیث سے اندازہ لگایا جاسکتاہے، کہ آپ کا پرشفقت مزاح کس طرح ہواکرتا تھا۔
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ بعض صحابہ نے حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! آپ ہم سے مزاح فرماتے ہیں۔ آپ نے ارشاد فرمایا: کہ میں مزاح میں بھی حق بات ہی کہتا ہوں (یعنی اس میں کوئی بات غلط اور باطل نہیں ہوتی)۔
انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک بوڑھی عورت سے فرمایا: کہ بڑھیا جنت میں نہیں جائے گی؛ ان بے چاری نے عرض کیا ان بوڑھیوں میں کیا ایسی بات ہے؛ جس کی وجہ سے وہ جنت میں نہیں جاسکیں گی۔ وہ بوڑھی قرآن خواں تھی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا تم نے قرآن میں یہ آیت نہیں پڑھی ؟ ”اِنَّا أنْشْأنَاہُنَّ انْشَاءً ا فَجَعَلْنَاہُنَّ أبْکَارًا“ کہ جنت کی عورتوں کی ہم نئے سرے سے نشوونما کریں گے اور ان کو نوخیز دوشیزائیں بنادیں گے۔
انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ: ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سواری کے لیے اونٹ مانگا؛ تو آپ نے ارشاد فرمایا: ہاں! میں تم کو سواری کے لیے اونٹ کا بچہ دوں گا، اس شخص نے عرض کیا کہ میں اونٹنی کے بچہ کا کیا کروں گا؟ تو آپ نے ارشاد فرمایا: اونٹ بھی تو اونٹنی ہی کے بچے ہوتے ہیں۔
انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں (ازراہِ مزاح وشفقت) یا ذالاذنین اے دو کان والے کہہ کر مخاطب کیا۔ (حالاں کہ ہر شخص دوکان والا ہوتاہے)
نعمان بن بشیر سے روایت ہے کہ ابوبکر صدیق نے ایک مرتبہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر میں داخل ہونے کی اجازت چاہی۔ اسی درمیان آپ کو گھریلومعاملات میں عائشہ کی آواز بلند محسوس ہوئی۔ جب آپ گھر میں داخل ہوئے تو عائشہ کی طرف مارنے کے لیے لپکے اور اپنی بیٹی عائشہ کو تنبیہ کرتے ہوئے فرمایا: کیا میں تمہیں رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے اونچی آواز میں گفتگو کرتے ہوئے نہیں دیکھ رہا ہوں؟! یہ دیکھ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عائشہ کو ان کے والد کی مار سے بچانے کی کوشش کرنے لگے۔ اسی دوران ابوبکر غصّہ کی حالت میں گھر سے نکل گئے۔ ابوبکر کونکلتے دیکھ کررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عائشہ سے فرمایا: کیا خیال ہے؟ میں نے تمھیں اس شخص سے بچایا کہ نہیں؟ راوی کہتے ہیں کہ ابوبکر کچھ دنوں تک ناراض رہے، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے یہاں حاضر ہوکر اندر آنے کی اجازت چاہی، گھر جاکر محسوس کیا کہ آپ اور عائشہ کے مابین صلح ہوچکی ہے۔ تو آپ نے فرمایا کہ: آپ دونوں مجھے اپنی صلح میں شامل کرلیجیے؛ جس طرح آپ دونوں نے مجھے اپنے جھگڑے میں شامل کیا تھا، تو آپ نے فرمایا کہ: جی ہاں آپ کو صلح میں شامل کرلیا(ابوداؤد۲۸۲)۔ (اس حدیث میں ابوّت کے رشتہ کے حامل بزرگ حضرت ابوبکر کو محض ”الرجل“ کہنے سے جو مزاح پیدا ہوتا ہے، اسے کوئی بھی شخص محسوس کیے بغیر نہیں رہ سکتا)۔
عوف بن مالک اشجعی کہتے ہیں کہ: میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں غزوئہ تبوک میں حاضر ہوا، جب کہ آپ چمرے سے بنے سائبان میں قیام پذیر تھے۔ میں نے سلام کیا، تو انھوں نے سلام کا جواب دیا اور کہا آجاؤ میں نے عرض کیا: پورا کا پورا آجاؤں؟ آپ نے فرمایا: ہاں پورا کاپورا۔ (جگہ کی قلت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ان صحابی نے جس محبت کے ساتھ مزاح کیا آں حضرت نے کمالِ اخلاق مندی سے انھیں کے مزاحیانہ اسلوب میں جواب دیا)۔
مذکورہ احادیث سے معلوم ہوا کہ آداب کی رعایت کرتے ہوئے کبھی کبھی مزاح کی نہ صرف گنجائش ہے؛ بلکہ مستحسن ہے اور اسوئہ نبوی کی اتباع ہے؛ لیکن اگرمزاح دوسرے آدمی کے لیے ناگواری اور اذیت کا باعث بن جائے، یا حد سے زیادہ ہنسی کا ذریعہ بن جائے یا مزاح کا عمل کبھی کبھار کے بجائے کثرت سے ہونے لگے، تو ایسے مزاح کی ممانعت ہوگی اور اس کی حوصلہ شکنی کی جائے گی۔
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
مسلمانوں کو تکلیف دینے، ان کا مذاق اڑانے، ان کی تحقیر کے سلسلے میں سخت ممانعت احادیث میں وارد ہوئی ہے۔ ارشاد نبوی ہے: اَلْمُسْلِمُ أخُو الْمُسْلِمِ لاَ یَظْلِمُہ وَلاَ یَخْذُلُہ وَلاَ یُحَقِّرُہ․ (صحیح مسلم) ہر مسلمان دوسرے مسلمان کا بھائی ہے،اس پر کوئی ظلم وزیادتی نہ کرے۔ اس کو بے مدد نہ چھوڑے اور اس کو حقیر نہ جانے اورنہ اس کے ساتھ حقارت کابرتاؤ کرے۔ پھر آپ نے فرمایا: آدمی کے برا ہونے کے لیے اتنا ہی کافی ہے، کہ وہ اپنے مسلمان بھائی کو حقیر سمجھے اور اس کے ساتھ حقارت سے پیش آئے، معلوم ہوا کہ ایسے امورانجام دینا؛ جن سے چہروں پر مسکراہٹ بکھرجائے، لوگ ہنسنے پر آمادہ ہوجائیں، کچھ دیر کے لیے دل سے ہموم وغموم اور غبار نکل جائیں، فکرِ آخرت برقرار رہے اور کسی کی تکلیف کا سبب نہ بنے اس کی نہ صرف یہ کہ اجازت ہے؛ بلکہ اسے مستحسن بھی کہا جاسکتا ہے۔
تکلیف دہ مزاح کی ممانعت کی دلیل مندرجہ ذیل حدیث ہے: عبداللہ بن عباس سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اپنے بھائی سے جھگڑا نہ کرو اور اس سے مذاق نہ کرو اور اس سے تم ایسا وعدہ نہ کرو جس کی وعدہ خلافی کرو(ترمذی ۲/۲۰)۔ اس حدیث میں دیگر تکلیف دہ اعمال (جھگڑا، وعدہ خلافی) کے ساتھ اس مزاح کی بھی ممانعت کی گئی ہے؛ جو اذیّت ناک اور ناگواری کا باعث ہو۔ مذکورہ احادیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ مزاح کے طور پر جو گفتگو کی جائے، وہ ظرافت ولطافت کے باوصف فی نفسہ صحیح اور درست ہو، خوش طبعی کے لیے جھوٹ کا سہارا لینا بھی مذموم ہے۔ رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: وَیْلٌ لِلَّذِیْ یُحَدِّثُ فَیَکْذِبُ لِیَضْحَکَ بِہ الْقَوْمُ وَیْلٌ لَہ وَیْلٌ لَہ․ (ابوداؤد:۶۸۱) کہ اس شخص کے لیے ہلاکت ہو، جو دورانِ گفتگو جھوٹی باتیں کرتا ہے، محض اس لیے کہ وہ لوگوں کو ان باتوں سے ہنسائے۔ اس کے لیے ہلاکت ہو، اس کے لیے ہلاکت ہو۔
معلوم ہوا کہ مزاح میں اگر جھوٹ یا تمسخر واستہزاء کا پہلو ہو، تو وہ موجبِ ہلاکت ہے۔ تمسخر واستہزاء کفار کا شیوہ ہے، جو وہ اہل ایمان؛ بلکہ انبیاء کرام صلی اللہ علیہ وسلم سے کرتے تھے ۔ اہل ایمان کے لیے اس کی قطعاً گنجائش نہیں۔ مزاح سے ایک درجہ آگے مذاق کا معاملہ ہے۔ علی فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب اپنے کسی صحابی کو مغموم دیکھتے، تو دل لگی کے ذریعہ اسے خوش فرماتے ۔ ایک مرتبہ ابوبکر نے حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو غمگین دیکھا، تو اپنا ایک واقعہ سناکر خوش کیا۔
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
ذا ایسی مجالس کا انعقاد کراہت سے خالی نہیں اور اگر عملی طور پر ایسی مجالس میں محرمات وناجائز امور کا ارتکاب ہو؛ تو اس کے ناجائز ہونے میں کوئی شبہ نہیں رہ جاتا ہے۔ حضرت حسن سے روایت ہے کہ حضرت عثمان بن ابی العاص کسی ختنہ میں بلائے گئے، آپ نے انکار فرمادیا، کسی نے وجہ دریافت کی؛ تو آپ نے فرمایا کہ پیغمبرِ خدا صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہٴ مبارک میں ہم لوگ ختنہ میں نہیں جاتے تھے اور نہ اس کے لیے بلائے جاتے تھے (احمد، اصلاح الرسوم ۱۱۰)
معلوم ہوا کہ جس کام کا اہتمام سلف صالحین سے ثابت نہیں اس کے لیے اہتمام کرنا اور بلانا پسندیدہ نہیں ہے۔ اتفاقیہ طور پر حسبِ موقع مزاحیہ گفتگو کرلینا اور تفریحی اشعار کہہ سن لینا اگرچہ جائز ہے؛ لیکن اس کے لیے اہتمام سے اجتماع کرنا اوراس میں گھنٹوں لگانا کسی طرح بھی درست نہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: مِنْ حُسْنِ اِسْلَامِ الْمَرْءِ تَرْکُہ مَا لاَیَعْنِیْہِ (ترمذی) یعنی آدمی کے اچھے اسلام کی علامت یہ ہے کہ وہ لایعنی امور کو ترک کردے۔مستقل طور پر مزاح میں لگا رہنا ممنوع ہے؛ اس لیے کہ وہ زیادہ ہنسنے کا سبب، قلب کے بگاڑ کا ذریعہ اور ذکر اللہ سے اعراض کا موجب ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کبھی کبھار ہی مزاح فرماتے تھے، وہ بھی کسی خاص مصلحت کے لیے یا مخاطب کو مانوس کرنے کے لیے ۔
اگر مزاح کے پہلوؤں کا حامل، مفید امور پر مشتمل کوئی کہانی ہو، تو اسے افادیاتی نقطئہ نظر سے انگیز کیا جاسکتا ہے۔ ایک بار آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے عائشہ کو عرب کی تیرہ عورتوں اور ان کے شوہروں کا قصہ سنایا جو ”حدیثِ امّ ِذرح کے نام سے حدیث کی کتابوں میں مذکور ہے۔
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
لطیفہ گوئی اور مزاح کو ذریعہٴ معاش بنانا: کبھی کبھار لطیفہ کہہ دینے یا مزاح اور تفریح کرلینے کی تو گنجائش ہے؛ لیکن مستقل لطیفہ گوئی کرنا اور کو ذریعہٴ معاش بنالینا، یہ اس مقصد حیات کے برخلاف ہے، جو اسلام افراد اورمعاشرے میں پیدا کرنا چاہتا ہے اور مستقل لطیفہ گوئی اور مزاح وتفریح میں مشغول رہنا انسان کو فکرِ آخرت، ذکر اللہ، عبادت اور تلاوت قرآن سے غافل کردیتا ہے۔ زیادہ ہنسنے ہنسانے سے دل مردہ ہوجاتا ہے۔ انھیں اسباب کی وجہ سے شعر وشاعری کی مذمت کی گئی ہے۔ ابوہریرہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ روایت نقل کرتے ہیں کہ انسان اپنا پیٹ پیپ سے بھرے، یہ اس سے بہتر ہے کہ اشعار سے بھرے۔ امام بخاری فرماتے ہیں کہ میرے نزدیک اس کے معنی یہ ہیں کہ: شعر جب ذکر اللہ، قرآن کریم کی تلاوت اور علم کے اشتغال پر غالب آجائے، اور اگر شعر مغلوب ہے تو پھر برا نہیں۔ یہی حال لطیفہ گوئی اور مزاح نویسی کا ہے۔ اس کو مستقل پیشہ بنالینا انہماک کی دلیل ہے اور ایسی چیزوں میں غالب انہماک ممنوع ہے؛ لہٰذا اس کی اجرت وصول کرنا بھی درست نہیں، ازخود کوئی بطور انعام کے دے دے، تو اس کے لینے کی گنجائش ہے۔
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
بہ تکلف قہقہہ لگانے کی مجلسوں میں شرکت:
ہنسی کے مواقع پر ہنسنا اور مسکرانا بھی انسانی فطرت کا تقاضا ہے اور بلا موقع اور محل تکلف سے ہنسنا اور قہقہہ لگانا فطرت کے خلاف عمل ہے۔ موجودہ دور میں ڈاکٹروں کی رائے میں اگرچہ ہنسنا انسانی صحت کی برقراری اور اس کو چست ونشیط رکھنے کے لیے معاون فعل ہے، اس کے لیے خاص طور پر ہنسنے کے پروگرام منعقد کیے جاتے ہیں، جن میں لوگ بہ تکلف قہقہہ لگاتے ہیں اور دیر تک ہنسنے کی کوشش کرتے ہیں؛ لیکن یہ عمل شرعی لحاظ سے مناسب نہیں؛ اس لیے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: لاَتُکْثِرِ الضِّحْکَ فَانَّ کَثْرَةَ الضِّحْکِ تُمِیْتُ الْقَلْبَ (ترمذی، مشکوٰة:۴۴) کہ تم زیادہ مت ہنسا کرو، اس لیے کہ زیادہ ہنسنا دل کو مردہ کردیتا ہے۔ اس کے علاوہ قہقہہ لگانا یہاں تک کہ کھلکھلاکر ہنسنا بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم (جو بالیقین ایمان والوں کے لیے ہر عمل میں بہترین اسوہ ہیں) سے ثابت نہیں؛ بلکہ آپ خوشی کے مواقع پر صرف زیر لب مسکرایا کرتے تھے۔ عائشہ صدیقہ فرماتی ہیں کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس طور پر کھل کھلاکر ہنستے ہوئے کہ آپ کے دہن مبارک کا اندرونی حصہ نظر آجائے، کبھی نہیں دیکھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم تو صرف تبسم فرمایا کرتے تھے (بخاری)
معلوم ہوا کہ اگر سلسلہٴ کلام میں کوئی تعجب خیز، حیرت انگیز یا مضحکہ خیز بات زیر تذکرہ آجائے؛ تو ان پر ہنسنے اور مسکرانے میں کوئی حرج نہیں ہے؛ بلکہ ایسے مواقع پر ہنسنا اور مسکرانا چاہیے؛ تاکہ دل کا بوجھ ہلکا اور غبار کم ہو اور موجودہ زمانے کی تحقیق کے مطابق صحت، مستعدی اور نشاط میں اضافہ ہو؛ لیکن شرط یہ ہے کہ یہ ہنسنا اور مسکرانا غافلین کا سا نہ ہو؛ اس لیے کہ اس طرح کا ہنسنا دلوں کو مردہ کردیتا ہے۔ قتادہ کا بیان ہے کہ عبداللہ بن عمر سے کسی نے پوچھا کہ کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ ہنسا بھی کرتے تھے؟ انھوں نے فرمایا: ہاں! بیشک! وہ ہنسنے کے موقع پر ہنستے بھی تھے؛ لیکن اس وقت بھی ان کے قلوب میں ایمان پہاڑ سے زیادہ عظیم ہوتا تھا۔
لہٰذا موجودہ دور کے ڈاکٹروں کی رائے کے مطابق عمل کرتے ہوئے بہ تکلف قہقہے لگانے کی مجلس منعقد کرنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی ہے؛ بلکہ بے تکلف فطری انداز میں جس قدر انسان ہنس لے، وہی اس کی صحت وتندرستی کے لیے کافی ہے؛ اس لیے کہ زیادہ ہنسنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کے مطابق صحت وتندرستی کا سبب نہیں؛ بلکہ دلوں کے مردہ ہونے کا سبب ہے۔
اسلام کے تصور تفریح کا مقصد صرف وقت گزاری نہیں ہے بلکہ اس نے عملی، تربیتی عسکری اور جسمانی ورزش کے مقاصد بھی مد نظر رکھے ہیں۔ تفریح کے نام پر جھوٹ، تہمت، مبالغہ آمیزی اور دوسروں کی نقل اتارنے کی اجازت نہیں دی ہے۔اس کے علاوہ یہ بھی کہ اسلام نے ان مجلسوں میں شرکت کرنے سے روک دیاجس میں انسان اس قدر منہمک ہوجائے کہ اسے نماز ودیگر فرائض کا پاس وخیال نہ رہے یامردوزن کا بے محابا اختلاط ہو۔
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
اسی لیے اسلام نے تفریح اور کھیل میں سے صرف انھیں کی اجازت دی ہے جو جسمانی یا روحانی فوائد کے حامل ہوںاورجو محض تضیعِ اوقات کا ذریعہ ہوں، فکرِ آخرت سے غافل کرنے والے ہوںیا دوسروں کے ساتھ دھوکہ فریب یا ضررسانی پر مبنی ہوں،ان کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ اسلامی نظام کوئی خشک نظام نہیں؛ جس میں تفریحِ طبع اور زندہ دلی کی کوئی گنجائش نہ ہو؛ بلکہ وہ فطرتِ انسانی سے ہم آہنگ اور فطری مقاصد کو بروئے کار لانے والا مذہب ہے۔
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
۱۔ اصولی ہدایت: اسلام انسان کو ایک بامقصد زندگی گزارنے کی ہدایت دیتا ہے اور کھیل وکود اور لہوولعب پرمشتمل زندگی کی مذمت کرتا ہے۔ بامقصد زندگی جس کی اساس ہمہ وقت اللہ کی خوشنودی کی جستجو، تعمیر آخرت کی فکر مندی اور لہولعب سے اِعراض ہو؛ وہ زندگی اہل ایمان کی پہچان ہے اور جس کی بنیاد لہوولعب پر مشتمل غفلت و بے پرواہی ہو وہ کفار کا شعار ہے۔ ارشاد الٰہی ہے: وَالَّذِیْنَ ہُمْ عَنِ اللَّغْوِ مُعْرِضُوْنَ (المومنون:​
۳)​
کہ اہل ایمان کی صفت یہ ہے کہ وہ لغو اور فضول باتوں سے اعراض کرتے ہیں۔​
لہٰذا شرعی نقطئہ نظر سے ہر وہ کام، قابلِ تعریف ہے؛ جو انسان کو مقصدِ اصلی پر گامزن رکھے۔ ہر اس کام کی اجازت ہے، جس میں دنیا وآخرت کا یقینی فائدہ ہو​
۔ یا کم از کم دنیا وآخرت کا خسارہ نہ ہو۔ کھیلوں میں سے بھی صرف انھیں اقسام کی اجازت ہے، جو جسمانی یا روحانی فوائد کا حامل ہو۔ وہ کھیل جو محض تضیعِ اوقات کا ذریعہ ہوں، فکرِ آخرت سے غافل کرنے والے ہوں؛ وہ کھیل جو دوسروں کے ساتھ دھوکہ فریب یا ضررسانی پر مبنی ہوں؛ ان کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: کُلُّ مَا یَلْہُوبِہ الْمَرْءُ الْمُسْلِمُ بَاطِلٌ الَّا رَمْیَةٌ بِقَوْسِہ وَتَأدِیْبُہ فَرَسَہ وَمُلاَعَبَتُہ اِمْرَأتُہ فَانَّہُنَّ مِنَ الْحَقِّ․ (ترمذی، ابن ماجہ) یعنی مرد مومن کا ہر کھیل بیکار ہے سوائے تین چیز کے: (۱) تیر اندازی کرنا، (۲) گھوڑے سدھانا، (۳) اپنی بیوی کے ساتھ کھیلنا؛ کیوں کہ یہ تینوں کھیل حق ہیں۔
 
Top