• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اسلام کا تصور ’’قیام امن‘‘ اور عا لمی دہشت گردی ۔((ظفراقبال ظفر))

ظفر اقبال

مشہور رکن
شمولیت
جنوری 22، 2015
پیغامات
281
ری ایکشن اسکور
21
پوائنٹ
104
اسلام کا تصور ’’قیام امن‘‘ اور عا لمی دہشت گردی
موضوع کا تعارف :
اسلام کیا ہے؟ اسلام کی حقانیت اور اس کی عالمگیریت ہونے کا دعویٰ کہا تک سچا ہے ۔؟اس کے بعد لفظ اصول کی لغوی اور اصطلاحی بحث کی گئی ہے ۔اوراسلام کا تصور امن اور فلسفہ جنگ و دفاعی نقطہ نظر اسلامی تعلیمات کی روشنی میں ۔اس کے بعدلفظ دہشت گردی کی لغوی بحث ہو گی اور مختلف مذاہب اور اقوام کے نقطہ نظر میں اس کا مفہوم پیش کیا جائے گا۔اس کے ساتھ ہی مسلمانوں پر اس کا انطباق اور مسلمانوں پرہونے والے عالمی دہشت گردی کا عالمی رویہ پربحث ہو گی ۔اس کے بعد حالیہ دہشت گردی کا اسلامی حل پیش کیا جائے گا اور مسلمانوں پر لگے اس الزام کا رد اسلامی تعلیمات کی روشنی میں کیا جائے گا ۔
دہشت گردی اور جہاد میں فرق:
اس بحث میں جہاد کی لغوی بحث اور اس کے مقاصد اور احترام انسانیت و مظلوظ مسلمانوں کی مدد کے لیے جہاد کی ضرورت اور عصر حاضر کے تقاضوں کو مد نزر رکھتے ہوئے دہشت گردی کے خاتمہ کے لیے کیے جانے والے عالمی اقدامات ۔
مذاہب عالم کا تصور جنگ اور دفاعی نقطہ نظر :
اس بحث میں مختلف مذاہب کی تعلیمات کی روشنی میں اپنے دفاع کے لیےکیا بنیادی اصول وضع کیے گئے ہیں اور ان مذاہب کے ماننے والوں کا ان اصولوں پرعمل کس حد تک ہے ۔اس بحث میں مختلف مذاہب کا تصور امن پیش کیا جائے گا ۔مزید حالیہ دہشت گردی کی وجوہات اور اس کے خاتمہ کے لیےکیا حائل رکاوٹیں ہیں اس پر بحث ہو گی ۔
موضوع کی ضرورت واہمیت:
عالمی دہشت گردی سے ہونے والی حلاکتوں کا اور عالمی طاقتوں کی خاموشی اور اس دہشت گردی کے مقاصد و اس سے مستفید ہونے والی طاقتو ں کے فلسفہ احترام انسانیت و حقوق انسانی کی اڑ میں انسانی قتل کے اسباب و محرکات و وجوہات سے پردہ اٹھاناہے ۔
تحقیق کا مقصد :
حالیہ دہشت گردی کا خاتمہ اور اس سے متاثر مختلف ممالک و اقوام پر اس کو مسلت کیے کانے کی وجوہات اور دہشت لفظ دہشت گردی کی تاریخی حثیت اور مسلمانوں پر اس کا اطلاق کیوں اور کب کیا جانے لگا ۔دہشت گردی سے متاثر مسلم دنیا کی تاریخ اور دہشت گرد تنظیموں کی تاریخی حثیت کے ساتھ ان کو پر وان چڑھانے والے غیر مسلم ممالک کا اصلی چہرہ ۔
بنیادی سوالات :
1۔ اسلام کا تصور امن اور فلسفہ احترام انسانیت کیا ہے ؟
2۔ کیا اسلام دہشت گردی کی تعلیم دیتا ہے ؟
3۔ کیا آج کا مسلمان دہشت گرد ہے ؟
4۔ آپﷺ کا تصور جہاد ؟
5۔ عصر حاضر کی جہادی تنظیموں کا منہج جہاد کیا ہے؟
6۔ عالمی دہشت گردی سے سب سے زیادہ متاثر کون مسلمان یا کافر؟
7۔ حالیہ دہشت گردی کے خاتمہ کے لیے پاکستا ن کا کیا کردار ہے؟
8۔ حقوق انسانی کی اڑ میں کی جانے والے دہشت گردی پر دنیا خاموش کیوں؟
9۔ پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات اور انسانی قتل ؟
10 سعودی اسلامی اتحاد اور نیٹوں اتحاد کے مقاصد اور حقائق؟
11 دہشت گردکلبوشن کی سزائے موت پر عالمی عدالت انصاف کافیصلہ اور پس پردہ حقائق ؟
12 حالیہ دہشت گردی میں عالمی میڈیا کا کردار کیا رہا ہے ؟
13۔ دہشت گرد کے خاتمہ کےلیےپاکستان میں کیے جانے والے اقدامات ۔؟
سابقہ کام کا جائزہ :
مسلمانوں پر ہونے والی دہشت گردی اور سہولت کاروی پر میڈیا کا کردار ۔ حالیہ دہشت گردی میں مسلمانوں کے قتل عام کی وجوہات اسباب اور اس کے حل کے لیے حائل رکاوٹیں کیا ہیں ۔؟ دہشت گردی اور جہاد میں فرق ۔اسلام کا تصور جہاد اور جہاد کے نام پرہونے والی دہشت گردی کا تاریخی پس منظر ۔دہشت گردی کا خاتمہ اور قیام امن کی عالمی جدو جہد ۔
تحقیق کا دائرہ کار:
اسلام کے نام پر کی جانے والی دہشت گردی اور اسلام کا تصور قیام امن اسلامی تعلیمان کی روشنی میں اسلامی اصول جنگ کو مد نظر رکھتے ہوئے حالیہ دہشت گردی کا خاتمہ کیسے ممکن ہے ۔؟
اسلوب تحقیق:
منہج کے اعتبار سے یہ ایک تقابلی تحقیق ہو گی کیو نکہ مختلف اداروں سے جا کر معلومات اکھٹی کرنی ہو نگی ۔ مطالعہ احوال، انٹرنیٹ اور مختلف لائبریریوں سے استفادہ کیا جائے گا۔
 زیر نظر موضوع کی تحقیق کے وقت ہم عالمی تصور ’’قیام امن ‘‘ کا جائزہ لیں گے۔اسلام کا تصور امن اور حالیہ دہشت گردی کا اسلامی تعلیمات کی روشنی خاتمہ اور حائل رکاوٹوں کا جائزہ لیا جائے گا ۔
 عملی تحقیق کو تحریری صورت میں لانے کےلیے حاصل شدہ معلومات کو ابواب میں تقسیم کیا جائے گا۔
حوالے فٹ نوٹ میں دیے جائیں گے۔
 حوالہ دیتے وقت پہلے مصنف کا نام، پھر کتاب کا نام، بعد ازاں جلد نمبر ( اگر ہے تو) اور پھر صفحہ نمبر دیا گیا ہے۔ جلد نمبر اور صفحہ نمبر کو33۔2 کے انداز میں لکھا گیا ہے۔
 کسی کتاب کا پہلی دفعہ ذکر آنے پر اس کا مکمل حوالہ دیا گیا ہے یعنی کتاب کا نام، مصنف کا نام، مطبع اور سن اشاعت وغیرہ
جب کہ آئندہ ذکر آنے پر محض کتاب کا نام اور صفحہ نمبر بتانے پر اکتفا کیا جائے گا۔
مقالہ کے آخر میں اشاریہ ترتیب دیا جائے گا جس کے بعد مصادر ومراجع کی فہرست شامل کی جائے گی ۔
دستیاب وسائل و ذرائع:
لائبریز انٹر نیٹ اور ویب سائیٹس وغیرہ
خلاصہ کلام:
[/FONT][/RIGHT]
 
Last edited:
Top