• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اسلام کا سلم اور ایمان کا امن انسانیت کی ضرورت

حرب بن شداد

سینئر رکن
شمولیت
مئی 13، 2012
پیغامات
2,149
ری ایکشن اسکور
6,345
پوائنٹ
437
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
دوستو!۔
ملت اسلامیہ کی وحدت کی اصل روح اس کا وہ منہج ہے جسے عموما عوام میں بیان نہیں کیا جاتا نہ ہمارے خواص اس کی اہمیت وضرورت سے واقف ہیں حالانکہ انتہائی سادہ، آسان اور مختصر سی بات میں اس کی تفسیر اور تشریح ہوسکتی ہے۔۔۔

وہ یوں کے ہمارے دین کے کچھ اصول و معتقدات اور مجمع علیہ مسائل ہیں جن میں اُمت مسلمہ اول سے تاحال اختلاف نہیں کرتی اور کچھ فروغ ہیں جن میں شارع نے انہیں اختلاف رائے کی اجازت دے رکھی ہے اگر اور مختصر چاہتے ہیں تو کچھ منصوص احادی مسائل ہیں جن میں ایک ہی راستہ ہے اور کچھ مجتہد فیہ مسائل ہیں جن میں وسعت خود شارع کی مرضی اور اُمت کی ضرورت ہے جسے اختلاف رائے یا تعددیت سے تعبیر کرتے ہیں اول قسم میں اُمت میں وحدت موجود ہے دوسری قسم صرف سلیقہ اختلاف یا ادب اختلاف کے زیور سے آراستہ ہونے کی ضرورت ہے تاکہ مجتہد فیہ مسائل میں جس طرح ہم اپنی رائے کا احترام کرتے ہیں اور اس پر کاربند ہیں دوسرے کی رائے کا بھی احترام کریں اور اس میں جرح وقدح نہ کریں۔۔۔

یہ اسلوب حیات ہے جسے اصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اختیار کررکھا تھا۔۔۔ تابعین نے اختیار فرمایا۔۔۔ آئمہ مجتہدین، آئمہ مفسرین، آئمہ محدثین، اور جمہور علماء اسلام نے اختیار کررکھا ہے اس اسلوب علمی اور منہج اسلامی کو سمجھنا، اختیار کرنا، اور اس پر اُمت کے افراد کی تربیت کرنا نہ صرف اُمت میں الفت ومحبت، تعظیم وتکریم کی فضاء کو برقرار رکھ سکتا ہے بلکہ اس کی صفوت میں اعدائے اسلام کی اس سازش کو کامیاب نہ ہونے دے گا۔۔۔

جب اللہ و رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک تو تعددیت آراء کیوں؟؟؟۔۔۔

اس کا جواب یہ ہے کے اُصول میں وحدت جس طرح شارع کا مقصود ہے اسی طرح مجتہد فیہ مسائل میں تعددیت کی گنجائش بھی شارع کی طرف سے ہے اور یہی ہماری شریعت کی وسعت ہے۔۔۔

ہر دور میں اہل فقہ وبصیرت، اھل حل وعقد اور اہل عقل وفہم علمائے اُمت اس منہج پر کاربند رہے اُمت واحدہ کا قافلہ اس منہج کی وحدت سے ترقی پذیر رہا جب کج فہم لوگوں نے اصول فروع میں فرق نہ کیا، نص اور مجتہد فیہ مسائل میں تمیز نہ کی، ادب، اختلاف اور سلیقہ اختلاف کے زیور سے آراستہ نہ ہوئے تو آپس میں انتشار وفرقت کا سبب بنے۔۔۔ نہ اسلام کی خدمت کی نہ شریعت کی، نہ مسلم اُمت کی، لہذا افراد اُمت کے مابین آج اس علمی فضا کو قائم کرنے کی ضرورت ہے۔۔۔ رہی دیگر انسانیت جو کج فہمی سے آج اسلام اور اُمت مسلمہ کے بارے میں غلط فہمی میں شکار ہے تو علماء کا فرض ہے کے انکو بھی اسلام کا سلامتی اور امن بھرا پیغام پہنچائیں۔۔ انہیں بتائیں۔۔۔ کے اسلام کا کلمہ سلم۔۔۔ سے اور ایمان کےامن سے ماخوذ ہے پورے احکام شریعت سے مقصود صرف اور صرف انسان کی اصلاح وتربیت، تزکیہ طہارت اور اسے اپنے معاشرہ کا ایک نافع اور کارآمد عنصر بنانا ہے۔۔۔

اسلام نے نہ دین کی تبلیغ وبیان میں نہ دین کے نشر کرنے اور اس میں داخل ہونے میں، کسی مرحلے پر جبروا کراہ اختیار کرنے کی اجازت نہیں دی۔۔۔ دین میں کوئی جبر نہیں، یہ محکم ضابطہ ہے اسلام میں شروفساد خواہ افراد کا ہو، جماعتوں یا ملکوں کا، اس کے دبانے کیلئے قوت کے استعمال کو روا رکھا ہے یہی دراصل امن پسند، سلامتی اور محب انسانیت کی خدمت ہے پھر اسلام نے حالت حرب میں بھی اپنے اعدائے دین سے ظلم وشدت کو روا نہیں رکھا ہر حال میں ایل ایمان کو اور افراد اُمت کو عدل وانصاف کی اقامت کا پابند بنایا۔۔

ارشاد باری تعالٰی ہے۔۔۔
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ كُونُواْ قَوَّامِينَ لِلّهِ شُهَدَاءَ بِالْقِسْطِ وَلاَ يَجْرِمَنَّكُمْ شَنَآنُ قَوْمٍ عَلَى أَلاَّ تَعْدِلُواْ اعْدِلُواْ هُوَ أَقْرَبُ لِلتَّقْوَى وَاتَّقُواْ اللّهَ إِنَّ اللّهَ خَبِيرٌ بِمَا تَعْمَلُونَ
اے ایمان والو! اﷲ کے لئے مضبوطی سے قائم رہتے ہوئے انصاف پر مبنی گواہی دینے والے ہو جاؤ اور کسی قوم کی سخت دشمنی (بھی) تمہیں اس بات پر برانگیختہ نہ کرے کہ تم (اس سے) عدل نہ کرو۔ عدل کیا کرو (کہ) وہ پرہیزگاری سے نزدیک تر ہے، اور اﷲ سے ڈرا کرو، بیشک اﷲ تمہارے کاموں سے خوب آگاہ ہے(المائدہ)۔۔۔

اسلام کے مذکورہ اور دیگر محاسن ایسے ہیں جن کا بیان اہل علم کا اولین فریضہ ہے آج لوگ اپنے ہی برادران کی لادینی سوچ کے شاکی ہیں اگر اس کے اسباب وعلل پر غور کریں تو معلوم ہوگا کے دینی مفاہیم ومقاصد کو افصاح وبیان نہ کرنے سے غیر ہمارے دین پر معترض ہیں اورکتنے ہی برادران ملت لادینی کی طرف مائل ہورہے ہیں قصور دین میں اس طریقہ کار میں جسے ہم لوگ اختیار کئے ہوئے ہیں قصور اسلام میں کا نہیں مسلمانوں کی بدعملی اور کج علمی کا ہے۔۔۔ جس کی وجہ سے غیروں کو پورا موقع ملتا ہے کے وہ اسلام کے خلاف زبانیں دراز کریں۔۔۔

اسلام میں ایسی بات ہرگز نہیں کے اس کی تعلیمات اور دنیا کے اُمور دو متناقص امر ہیں۔۔۔ دین کا مقابل دنیا نہیں بلکہ دین تو ہماری اس دنیا کی اصلاح کیلئے ہی آیا ہے تاکہ اس پر عمل کا ثمر ہم آخرت میں اپنے خالق سے حاصل کریں یہی دنیا دارلعمل ہے یعنی اس کے تمام شعبوں میں ہم دیندار بن کررہیں اور آخرت دارالجزاء ہے حق تعالٰی شانہ نے جو انعامات عظمیہ اس دین پر عمل کیلئے رکھی ہیں آخرت کی وسیع وعریض حیات ہی ان کا تحمل کرسکتی ہے یہ فانی دنیا نہیں ہاں چونکہ دین ہی میں ہماری اس زندگی کی اصلاح ہے اور آخرت کی سعادت لہذا دین اس امر کے خلاف نہیں کے ہم دنیا سے اپنا نصیب حاصل نہ کریں بلکہ جائز اور مشروع طریقوں سے اللہ تعالی کی نعمتوں سے مستفید ہوں جنکے بارے میں حق تعالٰی شانہ کا ارشاد ہے۔۔۔

قُلْ مَنْ حَرَّمَ زِينَةَ اللّهِ الَّتِي أَخْرَجَ لِعِبَادِهِ وَالْطَّيِّبَاتِ مِنَ الرِّزْقِ قُلْ هِيَ لِلَّذِينَ آمَنُواْ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا خَالِصَةً يَوْمَ الْقِيَامَةِ كَذَلِكَ نُفَصِّلُ الْآيَاتِ لِقَوْمٍ يَعْلَمُونَ
فرما دیجئے: اﷲ کی اس زینت (و آرائش) کو کس نے حرام کیا ہے جو اس نے اپنے بندوں کے لئے پیدا فرمائی ہے اور کھانے کی پاک ستھری چیزوں کو (بھی کس نے حرام کیا ہے)؟ فرما دیجئے: یہ (سب نعمتیں جو) اہلِ ایمان کی دنیا کی زندگی میں (بالعموم روا) ہیں قیامت کے دن بالخصوص (انہی کے لئے) ہوں گی۔ اس طرح ہم جاننے والوں کے لئے آیتیں تفصیل سے بیان کرتے ہیں(الانفال)۔۔۔

دین کا جامع تعارف اہل علم کا فریضہ ہے تاکہ مسلم اُمت کا کوئی فرد دین کو دنیا کا مقابل نہ جانے آج دین اسلام ہی وہ دین ہے جو بطور دین انسانوں کی دنیا وآخرت میں پھر دنیا وآخرت کی فکر میں اعتدال چاہتا ہے یہی اسلام کی وسطیت ہے یہی اس کی جامعیت اور یہ ہی اس کا شمول ہے۔۔۔

اسلام میں حرج یا تنگی نہیں نہ اس میں عجز ہے نہ اس میں کجی ہے کہ دنیا کا کوئی انسان زندگی کے کسی شعبہ میں کام کررہا ہو اور اسلام اُسے کہے کے تمہارے اس دنیاوی کام میں، میں تمہاری رہنمائی سے قاصر ہوں بلکہ اسلام ہر شخص کے ساتھ اس کی زندگی کے ہر شعبے میں ہر حال میں حاضر موجود ہے اسی لئے حق تعالٰی شانہ نے فرمایا کے۔۔۔

الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلاَمَ دِينًا
آج میں نے تمہارے لئے تمہارا دین مکمل کر دیا اور تم پر اپنی نعمت پوری کر دی اور تمہارے لئے اسلام کو (بطور) دین (یعنی مکمل نظامِ حیات کی حیثیت سے) پسند کر لیا (المائدہ)۔۔۔

اتوار ٢٨ نومبر صبح ٩ بجے دوبارہ انجانی کے دارالقرآن والحدیث میں مدارس دینیہ کے مدرسین ومدرسات اور طلبہ اور طالبات کے لئے ایک علمی مجلس کا اہتمام کیا گیا۔۔۔ اس حیثیت کے پیش نظر کے یہی حضرات حاملین دعوت اور عوام وخواص میں دین کے نمائندگان اُسے پیش کرنے والے اور اُن کی اصلاح وتربیت کے ذمہ دار ہیں۔۔۔ اور اسلوب ہو کے ہمیں دین اسلام کے عمومی مفہوم اس کے کامل نظام حیات ہونے پھر اس کے وضع کے اعتبار سے حق یاباطل ہونے کی وضاحت کرنا چاہئے پھر سابقہ شرائع اور حضرت خاتم النبین صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت کے اس فرق کو واضح کرنا چاہئے کے شریعت خالدہ، شریعت محفوظہ، شریعت انسان اب قیامت تک وہی ہے جسے لیکر حضرت خاتم النبین صلی اللہ علیہ وسلم مبعوث ہوئے اب پوری انسانیت کے لئے اسلام ہی اللہ تعالٰی کی ایک نعمت کاملہ اور مکمل نظام حیات ہے یہ اللہ تعالٰی کی وضع کردہ شریعت ہے جو انسان کی فطرت کے عین مطابق ہے پھر اس کی حفاظت کی کفالت بھی خود اللہ تعالٰٰی نے فرمائی اور اس کیلئے اس کے بنیادی ماخذ قرآن وسنت اس کی نصوص اور اُن کے مطالب ومفاہم کو محفوظ بنایا ہے۔۔۔

جس کے لئے اسلام کے روز اول سے تاحال ہر دور میں حافظین نصوص، حاملین دعوت اور دین حق کے مخالفین کا سنہری سلسلہ قائم فرمادیا جو اپنی خداداد صلاحیتوں سے ہر اعتبار سے قابل اعتماد ہے وہ اپنی تعداد میں حدتواتر میں رہے دین میں استقامت اور اُمت کے لئے صداقت وامانت کے اوصاف سے بھی موصوف رہے دین کی امانت کے تحمل میں اسلام کے عہد اول میں تو اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم، پھر تابعین، پھر آئمہ مجتہدین اس کے بعد مفسرین اور ہر دور کے علماء اسلام نے اپنا اپنا کردار ادا کیا ہے اللہ تعالٰی اپنے فضل وکرم سے انہی کے پاک سلسلے سے ہم سب کو مربوط رکھا۔۔۔ ہمارے علماء ومدرسین حضرات کو اپنے اس مقام عالی کا جاننا پھر اس کا تحفظ کرنا اور اپنے کردار کو مضبوطی سے تھامے رکھنا ہم سب کے لئے باعث شرف اور ہمارے عوام کے لئے باعث تحفظ ہے۔۔۔

موجودہ انسانیت میں دو قسم کے انحراف پائے جاتے ہیں۔۔۔ ایک انحراف تو مادیت کی عظمیت اور کفر کی طغیانی کی وجہ سے کھلی لادینی کا ہے کے بعض لوگ دین کی طرف نسبت سے کتراتے اور گھبراتے ہیں۔۔۔ جبکہ دوسرا انحراف دین کے نام پر ایسے فتنوں کا سراُٹھانا ہے جو دین کے نام پر بےدینی کی تحریکوں کے طور پر سرگرم عمل ہیں جیسے اہل قرآن کا انکار سنت کا فتنہ یا قادیانیت کا عقیدہ ختم نبوت سے انکار علماء کرام کا فریضہ ہے کے وہ اپنے دین اسلام کی اصلی اور خوبصورت تصویر کشی کریں کے لوگ دین حق کی جاذبیت اور اس کے محاسن ومنافع کی وجہ سے اس کی طرف راغب ہوں وہ لادینیت کے سیلاب میں غرق ہونےسے محفوظ رہیں اس طرح دین کے اصول وعقائد کو پوری وضاحت سے بیان کریں جن میں اُمت کے دھارے سے نکل جاتے ہیں جبکہ فروع میں اختلاف، دین کی وسعت کی علامت ہے فروع دین اور اُصول دین میں فرق کرنا، اسے بیان کرنا پھر دین کے محاس کو عام کرنا یہی اس وقت علماء اسلام کا بنیادی فریضہ ہے تاکہ اُمت لادینیت کے فتنے سے بھی محفوظ رہے اور دین کے نام پر پنپنے والے فتنوں سے بھی مسلم عوام کا تحفظ ہوسکتے۔۔۔

فتنوں سے گھبرانا مردان حق کا کام نہیں بلکہ فتنے تو باد مخالف کی مانند مومن کے رفع درجات کا ذریعہ بنتے ہیں آزمائش خلقت انسان کا مقصد ہے اہل خیر کو خیر کے عام کرنے پھر عوام کو اہل شر کے سر سے تحفظ کرنے پر اجر عظیم کی خوشخبری دی گئی ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کے میری اُمت کے آخری زمانے میں جو لوگ دین میں فتنہ پیدا کرنے والے والوں کے فتنوں کا رد زبان سے، مال سے، ہاتھ سے سے کریں گے وہ میری اُمت کے اولین افراد (یعنی صحابہ کرام) کی طرح اجر کے مستحق ہوں گے۔۔۔

اُمت کے موجودہ حالات میں علماء کرام کی ذمہ داری بہت بڑھ جاتی ہے اس کے ساتھ ساتھ ان کے درجات بھی بلند ہونگے مگر شرط یہ ہے کے وہ اپنے مقام ومنصب اور ذمہ داری کا ادراک کرکے اس کی ادائیگی کیلئے کمربستہ ہوجائیں امت کے احوال کا مطالعہ کر کے حکمت عملی سے دینی دعوت کا فریضہ سرانجام دیں۔۔۔

یہ ہی انبیاء علیھم السلام کی سنت بھی ہے چونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم خاتم الانبیاء ہیں تو اس عمل کو علماء اًمت ہی کو ادا کرنا ہے جن کے بارے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔۔۔ میری اُمت کے علماء انبیاء کے وارث ہیں۔۔۔

ڈاکٹر سعید احمد عنایت اللہ مکہ المکرمہ​

واللہ تعالٰی اعلم
واسلام علیکم۔۔۔

 
Top