- شمولیت
- جنوری 08، 2011
- پیغامات
- 6,595
- ری ایکشن اسکور
- 21,395
- پوائنٹ
- 891
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ،
درج ذیل مضمون ماہنامہ محدث اگست 1978 کے شمارہ سے ماخوذ ہے۔ جو دراصل سلسلہ تعزیرات اسلام کے موضوع پر شائع ہونے والے قسط وار مضامین کی چوتھی قسط ہے۔ اور یہ مضامین ایک حنفی عالم دین قاضی بشیر احمد کے "اسلام کے قانون سرقہ" پر مشتمل قسط وار مضامین جو کہ ماہنامہ ترجمان القرآن کی جلد 90 میں یا اس کے قریب شائع ہوئے، کے جواب الجواب پر مشتمل ہے۔
چونکہ حالیہ دنوں میں محدث فورم پر بھی قانون سرقہ پر کچھ بحث جاری تھی اور دوران مطالعہ یہ مضمون سامنے آیا تو سوچا کہ کیوں نہ اسے علیحدہ مضمون ہی کی صورت میں دیگر احباب کے لئے بغرض مطالعہ و تحقیق پیش کر دیا جائے۔
مضمون نگار: برق التوحیدی
قسط 2 کا لنک
قسط 3 کا لنک
نوٹ: شاید قسط 1 ابھی محدث میگزین سائٹ پر اپ لوڈ ہی نہیں کی گئی۔ محمد ارسلان بھائی کلیم حیدر بھائی توجہ فرمائیں۔ اور میگزین سائٹ پر بھی ان مضامین کو آپس میں لنک کر دیجئے۔ جزاکم اللہ خیرا۔
(بسلسلہ تعزیرات اسلام)
ہم پہلی اقساط میں متعدد مرتبہ یہ بات عرض کرچکے ہیں کہ فقہ علی العموم اس قابل نہیں کہ اسے آج کے معاشرہ میں من و عن نافذ کردیا جائے لیکن فقہ حنفی کی شان تو کچھ نرالی ہی ہےکہ جس کی بنیاد 75 فیصد حیلہ سازی پر ہے اور حیل کےذریعےمجرم کو ''ادرؤا'' کے پردہ میں تحفظ بخشا جاتاہے لیکن نامعلوم ہمارےمہربان ایسی حیلہ سازی کو ختم کرنے کی بجائے الٹا امام بخاری وغیرہ ائمہ محدثین کو کیوں کوستے ہیں کہ انہو|ں نے ان پہلوؤں کی نشاندہی فرما کر عامۃ الناس کی رہنمائی و خیرخواہی کے جرم عظیم کا ارتکاب کیوں کیا؟ یہی رونا ہمارےمہربانوں کو مولانا آزاد پر ہے کہ تذکرہ کے وہ صفحات زخم پر نمک سے کم نہیں۔لیکن حقیقۃً ہم اس فقہ سےبیسار ہیں جس کا تمام تر محور و مدار کتاب الحیل ہی ہو۔
مااہل حدیثیم و غارانہ شناسیم
حدیث نبی چوں و چرا نہ شناسیم
صد شکر کہ درمذہب ماحیلہ وفن نیست
چنانچہ حیلہ سازی کی مثال ملاحظہ فرمائیے کہ قاضی صاحب دفعہ نمبر 18 کے ضمن میں فرماتے ہیں۔
''محفوظ مقام سے مال کو باہر نکالنے سے قبل ہلاک کرنا موجب ضمان ہوگا۔''
یعنی اگر محفوظ مقام سےنکالنے سے پہلے سارق مال ہلاک کردے تو اس پر حد نہیں ضمان ہوگا او رہلاک متصور ہونے کی صورتیں درج ذیل بتائی گئی ہیں۔
1۔ روپیہ پیسہ یا کوئی چیز نگل کر سارق محفوظ مقام سے باہر آجائے۔
2۔ کسی جانور کو ذبح کرکے محفوظ مقام سے باہر لائے۔
3۔ کپڑا وغیرہ پھاڑ دیا جس کی وجہ سے اس کی قیمت سرقہ سے کم ہوگئی پھر اس کو محفوظ جگہ سے باہر لایا۔وغیرہ وغیرہ۔
اب صاحب عقل یہ بات محسوس کرسکتا ہے کہ مندرجہ بالا صورتوں میں سروق منہ کی بہ نسبت سارق کازیادہ خیال رکھا گیا ہے اور موہومہ و مفروضہ صورتوں کے پیش نظر آج کے ترقی یافتہ دور میں بھی ایسے احکام صادر فرمانے کی محض اس وجہ سے کوشش کی گئی ہے کہ کہیں فقہ حنفی پر یہ الزام نہ آجائے کہ وہ اب فرسودہ ہوچکی ہے ایک ہزار سال بعد قانون کی حیثیت سے وہ کام نہیں دے سکتی حالانکہ یہ خصوصیت صرف شرعی ت(ارشادات الہٰیہ اور فرامین پیغمبرؐ) ہی کو حاصل ہے کہ وہ کسی دور میں ناکام نہیں ہوسکتی۔ درحقیقت یہی پس منظر ان تمام فقہی موشگافیوں کا ہے گویا یہ بھی ایک غیر معصوم پیغمبر کی شرعیت ہے جو تاقیامت قابل عمل ہے حالانکہ یہ نظر یہ سراسر ارتداد ہے آپ اسے یکے از کرشمہ ہائے تقلید سمجھیئے کہ ایک شخص کسی گھر سے بہ نیت سرقہ قدر نصاب سونا نگل لیتا ہے یا مورجہ کرنسی بقدر نصاب نگل لیتا ہے یا کوئی حجم والی چیز بقدر نصاب اور قیمتی چیز پیٹ میں ڈال لیتا ہے یا کم از کم وہ بلا ضرورت کھانے پینے والی چیز بقدر نصاب کھا لیتا ہے تو اس پر حد نہیں ہوگی۔ جب کہ آج کل ایسی متعدد صورتیں سامنے آچکی ہیں کہ سارق نگلے ہوئے مال کو منہ کے ذریعہ یا فضلہ کے راستہ خارج کرسکتا ہے بلکہ اگر اتنا سونا یا کرنسی وہ اپنی فنی مہارت کی بنا پرنگل لے جس سے اسے خاطر خواہ فائدہ ہو تو وہ یقیناً اسے اپریشن کے ذریعے نکالنے میں کامیاب ہوسکتا ہے ۔ تو پھر اس پر حد کیوں نہ جاری ہوگی؟
اسی طرح اصحاب خرد کو یہ بات بھی دعوت غوروفکر دیتی ہے کہ ایک شخص کسی گھر سے بکری یا مرغیاں ذبح کرکے لے جاتا ہے تاکہ وہ آواز وغیرہ نہ نکالے یا کسی اور مفاد کے پیش نظر تو اس پر حد کیوں نہ ہوگی ۔ کیا جانور کوزندہ لے جانے والے سارق کا یہ جرم ہے کہ اس نے جانور کو زندہ کیوں رکھا؟ یا مسروق منہ کو پہلی صورت میں منفعت حاصل ہونے کی توقع ہے۔
اسی طرح یہ بات بھی بڑا عجوبہ ہے کہ اگر ایک شخص بالفرض ایک سو گز کپڑا بقدر نصاب اٹھاتا ہے اور وہ اس کے متعدد ٹکڑے کرتا ہے یا اس میں سوراخ کردیتا ہے یا داغ لگا دیتا ہے تاکہ وہ اس حیلہ کے ضمن میں آجائے تو ان صورتوں میں کپڑے کی قیمت یقیناً کم ہوجائے گی جس کی وجہ سے وہ نصاب سے کم ہوگا لیکن اس پر حد کیوں نہ ہوگی؟
قارئین خود فیصلہ فرمائیں کہ آخر اس کا مقصد اس کے علاوہ اور کیا ہوسکتا ہے کہ کسی نہ کسی طرح جرائم پیشہ لوگوں کی جان بخشی کروائی جائے جو کہ بنفسہ ایک کبیرہ جرم ہے اور ولا تعاونوا علی الاثم والعدوان کا خلاف ہے! حالانکہ اس ضمن میں موصوف کو یہ حقیقت مدنظر رکھنا چاہیے تھی کہ اس میں اعتبار مسروق کا کیاجانا چاہیے کہ مال کی ہلاکت میں نقصان یا عدم نقصان کا تعلق تو مسروق منہ سے ہوتا ہے سارق سے نہیں۔ جبکہ سارق کا تعلق صرف ارتکاب جرم سے ہوتا ہے یا کم از کم موصوف کو ان لغزشات سے مامون رہنے کے لیے ہلاکت کا یہ مفہوم متعین کرنا چاہیے تھا کہ جو مال ہلاک ہونے کے بعد نہ سارق کے لئے نفع بخش رہے نہ مسروق منہ کے استعمال کے قابل رہے مثلاً انڈے وغیرہ یا اسی قسم کی اور کوئی مائی وغیرہ چیز ہو جو ہلاکت کے بعد فریقین کے لیے سودمند نہ رہے؟
لیکن مال مسروق کے سارق کو فائدہ پہنچانے کی صورت میں تو اسقاط حد کا تصور تعطیل حدود کے مترادف معلوم ہوتا ہے۔
اقول: ہم سمجھتے ہیں کہ یہ بھی محض رائے زنی ہے جس میں دلائل کا کوئی وزن نہیں کیونکہ اولاً تو مسافر کے مسلح یا باسکت ہونے کی شرط لگانا ویسے ہی ہے کہ کوئی شخص کہہ دے کہ زنا اس وقت متحقق ہوگا جب کہ عورت زیورات سے مزین بھی ہو او رپھر ہر مسافر کا باسکت ہونا تو ویسے بھی ممکن نہیں جس کی بنا پر قاضی صاحب کو چاہیے کہ وہ ان تکلفات سے محفوظ رہنےکے لیے ویسے ہی حدود میں سے قطع الطریق کو خارج فرما دیں کہ:
نہ رہے بانس نہ بجے بانسری
نیز قاضی صاحب نے خود جو بواسطہ ہدایہ قطع الطریق کی جو تعریف کی ہےوہ اگرچہ دوسری کتب سے ملتی جلتی ہے لیکن اس میں بھی یہ شرط نہیں کہ مقطوع منہ کا باسکت ہونا ضروری ہے۔ یہی وجہ ہے کہ علامہ کاسانی حنفی نے قطع الطریق میں اسےمسقط حد قرار نہیں دیا۔ جبکہ انہوں نے باقی تمام ان اسباب کا ذکر کیا ہے جو کہ سرقہ میں اسقاط حد کے لیے بیان کیے جاتے ہیں بالخصوص جبکہ اس کی نوعیت سرقہ سے کہیں سخت ہے جیسا کہ قرآن حکیم کی آیات سےبھی واضح ہے اور تقریباً یہی نوعیت مسافر کی فریاد رسی کی ہے جیسا کہ خود قاضی صاحب کی تشریح نمبر2 سے معلوم ہوتا ہے۔
بعینہ یہی نوعیت اس واردات کی ہے کہ ان کا آپس میں ٹکراؤ ہونا ایک اتفاق امر ہے جس سے مجرموں کے جرم میں تخفیف نہیں ہوسکتی۔ اگر یہ بات پایہ ثبوت تک پہنچ جائے کہ فریق ثانی بھی قاطع الطریق ہی تھا تو اسے تعزیر و توبیخ ہوسکتی ہے لیکن اصل مجرم سے حد کو ساقط کرنا کسی طرح بھی درست نہیں نہ شرعی طور پر نہ اخلاقی اعتبار سے ! قارئین کو یاد ہوگا کہ قاضی صاحب اس سے پہلے یہ بھی فرما چکے ہیں کہ چوری شدہ مال کی چوری سرقہ متصور نہیں ہوگی اور سارق سے حد ساقط ہوجائے گی۔ان فقہی موشگافیوں پر ہم اس کے علاوہ کچھ نہیں کہہ سکتے۔
پنبہ کجا کجا نہم ... دل ہمہ داغدار شُد
درج ذیل مضمون ماہنامہ محدث اگست 1978 کے شمارہ سے ماخوذ ہے۔ جو دراصل سلسلہ تعزیرات اسلام کے موضوع پر شائع ہونے والے قسط وار مضامین کی چوتھی قسط ہے۔ اور یہ مضامین ایک حنفی عالم دین قاضی بشیر احمد کے "اسلام کے قانون سرقہ" پر مشتمل قسط وار مضامین جو کہ ماہنامہ ترجمان القرآن کی جلد 90 میں یا اس کے قریب شائع ہوئے، کے جواب الجواب پر مشتمل ہے۔
چونکہ حالیہ دنوں میں محدث فورم پر بھی قانون سرقہ پر کچھ بحث جاری تھی اور دوران مطالعہ یہ مضمون سامنے آیا تو سوچا کہ کیوں نہ اسے علیحدہ مضمون ہی کی صورت میں دیگر احباب کے لئے بغرض مطالعہ و تحقیق پیش کر دیا جائے۔
مضمون نگار: برق التوحیدی
قسط 2 کا لنک
قسط 3 کا لنک
نوٹ: شاید قسط 1 ابھی محدث میگزین سائٹ پر اپ لوڈ ہی نہیں کی گئی۔ محمد ارسلان بھائی کلیم حیدر بھائی توجہ فرمائیں۔ اور میگزین سائٹ پر بھی ان مضامین کو آپس میں لنک کر دیجئے۔ جزاکم اللہ خیرا۔
(بسلسلہ تعزیرات اسلام)
ہم پہلی اقساط میں متعدد مرتبہ یہ بات عرض کرچکے ہیں کہ فقہ علی العموم اس قابل نہیں کہ اسے آج کے معاشرہ میں من و عن نافذ کردیا جائے لیکن فقہ حنفی کی شان تو کچھ نرالی ہی ہےکہ جس کی بنیاد 75 فیصد حیلہ سازی پر ہے اور حیل کےذریعےمجرم کو ''ادرؤا'' کے پردہ میں تحفظ بخشا جاتاہے لیکن نامعلوم ہمارےمہربان ایسی حیلہ سازی کو ختم کرنے کی بجائے الٹا امام بخاری وغیرہ ائمہ محدثین کو کیوں کوستے ہیں کہ انہو|ں نے ان پہلوؤں کی نشاندہی فرما کر عامۃ الناس کی رہنمائی و خیرخواہی کے جرم عظیم کا ارتکاب کیوں کیا؟ یہی رونا ہمارےمہربانوں کو مولانا آزاد پر ہے کہ تذکرہ کے وہ صفحات زخم پر نمک سے کم نہیں۔لیکن حقیقۃً ہم اس فقہ سےبیسار ہیں جس کا تمام تر محور و مدار کتاب الحیل ہی ہو۔
مااہل حدیثیم و غارانہ شناسیم
حدیث نبی چوں و چرا نہ شناسیم
صد شکر کہ درمذہب ماحیلہ وفن نیست
چنانچہ حیلہ سازی کی مثال ملاحظہ فرمائیے کہ قاضی صاحب دفعہ نمبر 18 کے ضمن میں فرماتے ہیں۔
''محفوظ مقام سے مال کو باہر نکالنے سے قبل ہلاک کرنا موجب ضمان ہوگا۔''
یعنی اگر محفوظ مقام سےنکالنے سے پہلے سارق مال ہلاک کردے تو اس پر حد نہیں ضمان ہوگا او رہلاک متصور ہونے کی صورتیں درج ذیل بتائی گئی ہیں۔
1۔ روپیہ پیسہ یا کوئی چیز نگل کر سارق محفوظ مقام سے باہر آجائے۔
2۔ کسی جانور کو ذبح کرکے محفوظ مقام سے باہر لائے۔
3۔ کپڑا وغیرہ پھاڑ دیا جس کی وجہ سے اس کی قیمت سرقہ سے کم ہوگئی پھر اس کو محفوظ جگہ سے باہر لایا۔وغیرہ وغیرہ۔
اب صاحب عقل یہ بات محسوس کرسکتا ہے کہ مندرجہ بالا صورتوں میں سروق منہ کی بہ نسبت سارق کازیادہ خیال رکھا گیا ہے اور موہومہ و مفروضہ صورتوں کے پیش نظر آج کے ترقی یافتہ دور میں بھی ایسے احکام صادر فرمانے کی محض اس وجہ سے کوشش کی گئی ہے کہ کہیں فقہ حنفی پر یہ الزام نہ آجائے کہ وہ اب فرسودہ ہوچکی ہے ایک ہزار سال بعد قانون کی حیثیت سے وہ کام نہیں دے سکتی حالانکہ یہ خصوصیت صرف شرعی ت(ارشادات الہٰیہ اور فرامین پیغمبرؐ) ہی کو حاصل ہے کہ وہ کسی دور میں ناکام نہیں ہوسکتی۔ درحقیقت یہی پس منظر ان تمام فقہی موشگافیوں کا ہے گویا یہ بھی ایک غیر معصوم پیغمبر کی شرعیت ہے جو تاقیامت قابل عمل ہے حالانکہ یہ نظر یہ سراسر ارتداد ہے آپ اسے یکے از کرشمہ ہائے تقلید سمجھیئے کہ ایک شخص کسی گھر سے بہ نیت سرقہ قدر نصاب سونا نگل لیتا ہے یا مورجہ کرنسی بقدر نصاب نگل لیتا ہے یا کوئی حجم والی چیز بقدر نصاب اور قیمتی چیز پیٹ میں ڈال لیتا ہے یا کم از کم وہ بلا ضرورت کھانے پینے والی چیز بقدر نصاب کھا لیتا ہے تو اس پر حد نہیں ہوگی۔ جب کہ آج کل ایسی متعدد صورتیں سامنے آچکی ہیں کہ سارق نگلے ہوئے مال کو منہ کے ذریعہ یا فضلہ کے راستہ خارج کرسکتا ہے بلکہ اگر اتنا سونا یا کرنسی وہ اپنی فنی مہارت کی بنا پرنگل لے جس سے اسے خاطر خواہ فائدہ ہو تو وہ یقیناً اسے اپریشن کے ذریعے نکالنے میں کامیاب ہوسکتا ہے ۔ تو پھر اس پر حد کیوں نہ جاری ہوگی؟
اسی طرح اصحاب خرد کو یہ بات بھی دعوت غوروفکر دیتی ہے کہ ایک شخص کسی گھر سے بکری یا مرغیاں ذبح کرکے لے جاتا ہے تاکہ وہ آواز وغیرہ نہ نکالے یا کسی اور مفاد کے پیش نظر تو اس پر حد کیوں نہ ہوگی ۔ کیا جانور کوزندہ لے جانے والے سارق کا یہ جرم ہے کہ اس نے جانور کو زندہ کیوں رکھا؟ یا مسروق منہ کو پہلی صورت میں منفعت حاصل ہونے کی توقع ہے۔
اسی طرح یہ بات بھی بڑا عجوبہ ہے کہ اگر ایک شخص بالفرض ایک سو گز کپڑا بقدر نصاب اٹھاتا ہے اور وہ اس کے متعدد ٹکڑے کرتا ہے یا اس میں سوراخ کردیتا ہے یا داغ لگا دیتا ہے تاکہ وہ اس حیلہ کے ضمن میں آجائے تو ان صورتوں میں کپڑے کی قیمت یقیناً کم ہوجائے گی جس کی وجہ سے وہ نصاب سے کم ہوگا لیکن اس پر حد کیوں نہ ہوگی؟
قارئین خود فیصلہ فرمائیں کہ آخر اس کا مقصد اس کے علاوہ اور کیا ہوسکتا ہے کہ کسی نہ کسی طرح جرائم پیشہ لوگوں کی جان بخشی کروائی جائے جو کہ بنفسہ ایک کبیرہ جرم ہے اور ولا تعاونوا علی الاثم والعدوان کا خلاف ہے! حالانکہ اس ضمن میں موصوف کو یہ حقیقت مدنظر رکھنا چاہیے تھی کہ اس میں اعتبار مسروق کا کیاجانا چاہیے کہ مال کی ہلاکت میں نقصان یا عدم نقصان کا تعلق تو مسروق منہ سے ہوتا ہے سارق سے نہیں۔ جبکہ سارق کا تعلق صرف ارتکاب جرم سے ہوتا ہے یا کم از کم موصوف کو ان لغزشات سے مامون رہنے کے لیے ہلاکت کا یہ مفہوم متعین کرنا چاہیے تھا کہ جو مال ہلاک ہونے کے بعد نہ سارق کے لئے نفع بخش رہے نہ مسروق منہ کے استعمال کے قابل رہے مثلاً انڈے وغیرہ یا اسی قسم کی اور کوئی مائی وغیرہ چیز ہو جو ہلاکت کے بعد فریقین کے لیے سودمند نہ رہے؟
لیکن مال مسروق کے سارق کو فائدہ پہنچانے کی صورت میں تو اسقاط حد کا تصور تعطیل حدود کے مترادف معلوم ہوتا ہے۔
قولہ: قطع الطریق کی سزا نافذ کرنے کے لیے ضروری ہے کہ اس میں مندرجہ ذیل شرائط پائی جائیں۔
1۔ راہزن مسلح ہوں بایں صورت کہ راہزنی کرتے وقت مسافر ان کے مقابلہ کی سکت نہ رکھتا ہو۔
2۔ اس جرم کا ارتکاب ایسے مقام پر ایسے وقت میں کیا گیا ہو کہ مسافر کی فریاد رسی عموماً ان حالات میں نہ کی جاسکتی ہو۔ (دفعہ نمبر 21)
اقول: ہم سمجھتے ہیں کہ یہ بھی محض رائے زنی ہے جس میں دلائل کا کوئی وزن نہیں کیونکہ اولاً تو مسافر کے مسلح یا باسکت ہونے کی شرط لگانا ویسے ہی ہے کہ کوئی شخص کہہ دے کہ زنا اس وقت متحقق ہوگا جب کہ عورت زیورات سے مزین بھی ہو او رپھر ہر مسافر کا باسکت ہونا تو ویسے بھی ممکن نہیں جس کی بنا پر قاضی صاحب کو چاہیے کہ وہ ان تکلفات سے محفوظ رہنےکے لیے ویسے ہی حدود میں سے قطع الطریق کو خارج فرما دیں کہ:
نہ رہے بانس نہ بجے بانسری
نیز قاضی صاحب نے خود جو بواسطہ ہدایہ قطع الطریق کی جو تعریف کی ہےوہ اگرچہ دوسری کتب سے ملتی جلتی ہے لیکن اس میں بھی یہ شرط نہیں کہ مقطوع منہ کا باسکت ہونا ضروری ہے۔ یہی وجہ ہے کہ علامہ کاسانی حنفی نے قطع الطریق میں اسےمسقط حد قرار نہیں دیا۔ جبکہ انہوں نے باقی تمام ان اسباب کا ذکر کیا ہے جو کہ سرقہ میں اسقاط حد کے لیے بیان کیے جاتے ہیں بالخصوص جبکہ اس کی نوعیت سرقہ سے کہیں سخت ہے جیسا کہ قرآن حکیم کی آیات سےبھی واضح ہے اور تقریباً یہی نوعیت مسافر کی فریاد رسی کی ہے جیسا کہ خود قاضی صاحب کی تشریح نمبر2 سے معلوم ہوتا ہے۔
اقول: قاضی صاحب کا یہ فیصلہ بھی کسی طرح عجوبہ روزگار سے کم نہیں۔ کاش کہ قاضی صاحب اس کی تشریح بھی فرما دیتے تاکہ ہمیں معلوم ہوسکتا کہ اس کا فلسفہ اور حکمت کیا ہے؟ کس نص صریح پر اس کی بنیاد ہے؟ لیکن سیاق و سباق سے معلوم ہوتا ہے کہ قاضی صاحب کسی اور طرف چلے جب کہ یہ بات واضح ہے کہ اگر ایک شخص کسی کو قتل کرنے کی نیت سے جاتا ہے لیکن راستے میں وہی شخص یا کوئی اور اسے قتل کردے تو مقتول کے قاتل پر حد جاری ہوگی۔ کیا قاضی صاحب اس قاتل کو بھی بری کرنے کی جسارت فرمائیں گے؟قولہ:راہزنی اگر آپس میں قطع الطریق کریں تو ان پر حد قطع الطریق نافذ نہ ہوگی۔ (دفعہ نمبر 21 شرط نمبر 6)
بعینہ یہی نوعیت اس واردات کی ہے کہ ان کا آپس میں ٹکراؤ ہونا ایک اتفاق امر ہے جس سے مجرموں کے جرم میں تخفیف نہیں ہوسکتی۔ اگر یہ بات پایہ ثبوت تک پہنچ جائے کہ فریق ثانی بھی قاطع الطریق ہی تھا تو اسے تعزیر و توبیخ ہوسکتی ہے لیکن اصل مجرم سے حد کو ساقط کرنا کسی طرح بھی درست نہیں نہ شرعی طور پر نہ اخلاقی اعتبار سے ! قارئین کو یاد ہوگا کہ قاضی صاحب اس سے پہلے یہ بھی فرما چکے ہیں کہ چوری شدہ مال کی چوری سرقہ متصور نہیں ہوگی اور سارق سے حد ساقط ہوجائے گی۔ان فقہی موشگافیوں پر ہم اس کے علاوہ کچھ نہیں کہہ سکتے۔
پنبہ کجا کجا نہم ... دل ہمہ داغدار شُد