• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اسلام کا قانون طلاق اور اس کا ناجائز استعمال

حافظ محمد عمر

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
427
ری ایکشن اسکور
1,542
پوائنٹ
109
خاوند کے بیوی پر چند اہم حقوق :
  1. خاوند کی ہر حال میں فرمانبرداری کرنا ۔ ہاں اگر خاوند کسی غیر شرعی کام کا حکم دے تواس میں اس کی فرمانبرداری کرنا درست نہیں ہے ۔
  2. خاوند کی خدمت کرنا ۔
  3. خاوند کے مال اور جائیداد کی حفاظت کرنا ۔اسی طرح اس کی عزت وناموس پر حرف نہ آنے دینا ۔
  4. بیوی اپنے خاوند کے گھر میں کسی ایسے شخص کو نہ آنے دے جسے وہ نا پسند کرتا ہو ۔
  5. بیوی اپنے خاوند کی شکر گذار ہو ۔
  6. خاوند کا بیوی پرایک حق یہ ہے کہ وہ اس کیلئے زیب وزینت اختیار کرے ۔
  7. بیوی خاوند کی اجازت کے بغیر نفلی روزے نہ رکھے ۔
  8. بیوی اچھے انداز سے اولاد کی تربیت کرے ۔
 

حافظ محمد عمر

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
427
ری ایکشن اسکور
1,542
پوائنٹ
109
بیوی کے خاوند پر چند اہم حقوق :
  1. خاوند اپنی بیوی کو حق مہر اداء کرے ۔
  2. خاوند اپنی بیوی کے نان ونفقہ کا ذمہ دار ہے ۔
  3. خاوند اپنی بیوی سے اچھے انداز سے بود وباش رکھے اور اس سے اچھا سلوک کرے ۔
  4. بیوی کو حقِ خلع بھی حاصل ہے ۔
  5. بیوی کا خاوند پر ایک حق یہ ہے کہ وہ اپنی بیوی کی عزت کی حفاظت کرے اور اسے ہر ایسی چیز سے محفوظ رکھے جو اس کی عفت وعصمت کو داغدار کر سکتی ہو ۔
  6. خاوند اپنی بیوی کو اسلام کی بنیادی تعلیمات سے آگاہ کرے اور اسے ضروری احکام ومسائل کی تعلیم دے یا تعلیم حاصل کرنے کا موقعہ دے ۔
  7. اگر کسی کی ایک سے زیادہ بیویاں ہوں تو ان کا خاوند پر ایک حق یہ ہے کہ وہ ان کے درمیان انصاف کرے اور کسی کو ظلم وزیادتی کا نشانہ نہ بنائے ۔
 

حافظ محمد عمر

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
427
ری ایکشن اسکور
1,542
پوائنٹ
109
طلاق کے واقعات کیوں بکثرت واقع ہو رہے ہیں ؟
ہم اپنے معاشرے کا بغور جائزہ لیں تو ہم دیکھتے ہیں کہ بعض لوگ اِس عظیم رشتہ کو باوجود اس کے عظیم فوائد کے اسے قائم رکھنے میں کامیاب نہیں ہوپاتے ۔ اور طلاق کے واقعات ہیں کہ بکثرت واقع ہو رہے ہیں ا ور رفتہ رفتہ بڑھتے ہی جا رہے ہیں ۔ بسا اوقات معمولی معمولی باتوں پر نوبت طلاق تک جا پہنچتی ہے ۔ اور ہنستا بستا گھر برباد ہو جاتا ہے ۔
آئیے سب سے پہلے یہ جاننے کی کوشش کریں کہ آخر طلاق کے اسباب کیا ہیں ؟ اور کیوں اِس طرح کے واقعات بڑھتے جا رہے ہیں ؟ صرف اسباب ہی نہیں بلکہ یہ بھی معلوم کریں کہ شریعت میں ان اسباب کا حل کیا ہے اور وہ کونسے امور ہیں کہ اگر ان کا لحاظ کیا جائے تو طلاق کے بڑھتے ہوئے واقعات رک سکتے ہیں !
 

حافظ محمد عمر

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
427
ری ایکشن اسکور
1,542
پوائنٹ
109
طلاق کے اسباب اور ان کا حل
ویسے تو طلاق کے اسباب بہت زیادہ ہیں لیکن ہم یہاں چند اہم اسباب کا تذکرہ کرکے ان کا حل بھی بتائیں گے تاکہ ایسے اسباب پیدا ہی نہ ہوں جن کے نتیجے میں زوجین کے درمیان علیحدگی ہو جائے ۔
 

حافظ محمد عمر

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
427
ری ایکشن اسکور
1,542
پوائنٹ
109
گناہ اور برائیاں
پہلا سبب زوجین کی بے راہ روی اور ان کا گناہوں اور برائیوںمیں لت پت ہونا ہے جن کی نحوست سے ان کے ما بین محبت اور الفت کا خاتمہ ہو جاتا ہے ۔ پھر ناچاقی ، نفرت اور عداوت شروع ہو جاتی ہے ۔ اور آخر کار نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ خاوند اپنی بیوی کو طلاق دے دیتا ہے ۔
اللہ تعالی کا فرمان ہے :

﴿وَمَا أَصَابَكُم مِّن مُّصِيبَةٍ فَبِمَا كَسَبَتْ أَيْدِيكُمْ وَيَعْفُو عَن كَثِيرٍ‌﴾ [الشوری : ۳۰]
’’ اور تمہیں جو مصیبت آتی ہے تمھارے اپنے کرتوتوں کی وجہ سے آتی ہے۔ اور وہ بہت سے گناہوں کو تو ویسے ہی معاف کردیتا ہے ۔ ‘‘
طلاق یقینا ایک بہت بڑی مصیبت ہے جس کی وجہ سے پورا خاندان برباد ہو جاتا ہے ۔
حل : اس کا حل یہ ہے کہ زوجین اللہ تعالی کی نافرمانیوں ، گناہوں اور برائیوں سے پرہیز کریں ۔ اور اب تک جو گناہ کئے ہیں ان پر اللہ تعالی سے سچی معافی مانگیں ۔ کیونکہ جب اللہ تعالی راضی ہو گا تو زوجین بھی آپس میں ایک دوسرے سے راضی رہیں گے اور ان کی زندگی خوشی خوشی گذرے گی ۔
اللہ تعالی کا فرمان ہے :

﴿وَأَنِ اسْتَغْفِرُ‌وا رَ‌بَّكُمْ ثُمَّ تُوبُوا إِلَيْهِ يُمَتِّعْكُم مَّتَاعًا حَسَنًا إِلَىٰ أَجَلٍ مُّسَمًّى وَيُؤْتِ كُلَّ ذِي فَضْلٍ فَضْلَهُ ۖ وَإِن تَوَلَّوْا فَإِنِّي أَخَافُ عَلَيْكُمْ عَذَابَ يَوْمٍ كَبِيرٍ‌﴾[ ہود : ۳ ]
’’ اور یہ کہ تم اپنے رب سے مغفرت طلب کرو ، پھر اس کی جناب میں توبہ کرو ۔ تو وہ تمہیں ایک محدود وقت (موت ) تک عمدہ عیش وآرام کا فائدہ نصیب کرے گا ۔ اور ہر کارِ خیر کرنے والے کو اس کا اجر وثواب دے گا ۔ اور اگر تم منہ پھیر لو گے تو مجھے اندیشہ ہے کہ تمہیں بڑے دن (روزِ قیامت ) کے عذاب کا سامنا کرنا پڑے گا ۔‘‘
’ عمدہ عیش وآرام ‘ میں زوجین کے مابین خوشگوار تعلقات بھی شامل ہیں ۔
 

حافظ محمد عمر

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
427
ری ایکشن اسکور
1,542
پوائنٹ
109
شادی سے پہلے ہونے والی بیوی کو نہ دیکھنا
بعض لوگ جلد بازی کرتے ہوئے محض کسی کے کچھ کہنے یا کسی کے دیکھنے پر اکتفاء کرلیتے ہیں اور اپنی ہونے والی بیوی کو خودنہیں دیکھتے یا اس کے اور اس کے گھر والوں کے بارے میں مکمل معلومات نہیں لیتے ۔ اس کے بر عکس اس کے بارے میں غلط معلومات کی بناء پر بعض غلط اندازے لگا لیتے ہیں جوشادی ہو نے کے بعددرست ثابت نہیں ہوتے ، یا ایسی توقعات وابستہ کر لیتے ہیں جو بعد میں پوری نہیں ہوتیں ۔ اور آخر کار نوبت طلاق تک پہنچ جاتی ہے ۔
حل : شادی سے پہلے اپنی ہونے والی بیوی کو دیکھ لینا چاہئے اور اس کے اور اس کے گھر والوں کے بارے میں درست معلومات بھی حاصل کر لینی چاہییں تاکہ بعد میں پچھتاوا نہ ہو ۔
رسول اکرم ﷺ نے ہونے والی بیوی کو دیکھنے کا حکم دیا ہے ۔

حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ انھوں نے ایک عورت سے شادی کرنے کا ارادہ کیا تو وہ رسول اکرم ﷺ کے خدمت میں حاضر ہوئے اور انھیں اِس سے آگاہ کیا ۔ تو آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا :

« اذْهَبْ فَانْظُرْ إِلَيْهَا فَإِنَّهُ أَجْدَرُ أَنْ يُؤْدَمَ بَيْنَكُمَا »
’’ تم جاؤ اور اسے دیکھو کیونکہ اِس طرح تمھارے درمیان محبت زیادہ دیر تک رہے گی ۔ ‘‘
چنانچہ وہ گئے اور اُس عورت کے والدین کو آگاہ کیا کہ وہ اس سے شادی کرنے کا خواہشمند ہے اور رسول اکرمﷺ کے حکم کے بارے میں بھی انھیں بتایا ۔ تو ایسے محسوس ہوا کہ جیسے انھیں یہ بات بری لگی ہے ۔ لیکن وہ عورت سن رہی تھی تو اس نے کہا : اگر رسول اکرمﷺ نے آپ کو دیکھنے کا حکم دیا ہے تو تم ضرور مجھے دیکھو ۔ یا پھر میں تمھیں قسم دیتی ہوں ( کہ تم مجھے دیکھو) حضرت مغیرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے اسے دیکھا ، پھر اس سے شادی کر لی ۔ تو میرے اور اس کے درمیان بڑی محبت تھی ۔
[ابن ماجہ : ۱۸۶۶ ، ترمذی : ۱۰۸۷۔ قال الألبانی : صحیح ]
 

حافظ محمد عمر

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
427
ری ایکشن اسکور
1,542
پوائنٹ
109
شکوک وشبہات اور بد گمانیاں
شکوک وشبہات اور بد گمانیوں کی بناء پر زوجین کے درمیان باہمی تعلقات میں بگاڑ پیدا ہوجاتا ہے اور نوبت طلاق تک جا پہنچتی ہے ۔ بعض لوگ تو بے انتہاء شک و شبہ اور بد گمانی میں مبتلا رہتے ہیں اور بے بنیاد اور چھوٹی چھوٹی باتوں پر ہی بد گمانی کر لیتے ہیں ۔ اور بغیر کسی ثبوت یا دلیل کے محض سنی سنائی باتوں پر ہی یقین کرکے وہ اپنے اور اپنے گھروالوں کے درمیان تعلقات میں دراڑیں پیدا کر لیتے ہیں ۔ پھر اتنی بد اعتمادی پیدا ہو جاتی ہے کہ مرد طلاق دینے کا پختہ عزم کر لیتا ہے یا بیوی اپنے خاوند سے بار بار طلاق کا مطالبہ شروع کردیتی ہے ۔
حل : اس کا حل یہ ہے کہ خاوند بیوی ایک دوسرے پر اعتماد کریں ۔ بلا وجہ بد گمانی نہ کریں اور دونوں ایسی چیزوں سے پرہیز کریں جن کی بناء پر ان میں شکوک وشبہات پیدا ہوں ۔
اللہ تعالی نے اہل ایمان کو بہت زیادہ گمان کرنے اور تجسس سے منع کردیا ہے۔
اس کا فرمان ہے :

﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اجْتَنِبُوا كَثِيرً‌ا مِّنَ الظَّنِّ إِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ إِثْمٌ ۖ وَلَا تَجَسَّسُوا﴾[الحجرات :۱۲]
’’ اے ایمان والو ! تم زیادہ گمان کرنے سے بچو کیونکہ بعض گمان گناہ ہے ۔ اور جاسوسی نہ کیا کرو ۔‘‘
اور نبی کریمﷺ کا ارشاد گرامی ہے :

« إِيَّاكُمْ وَالظَّنَّ فَإِنَّ الظَّنَّ أَكْذَبُ الْحَدِيثِ وَلاَ تَحَسَّسُوا وَلاَ تَجَسَّسُوا »[ البخاری : ۶۰۶۶ ، مسلم : ۲۵۶۳]
’’ تم بد گمانی کرنے سے بچو کیونکہ یہ سب سے جھوٹی بات ہے ۔ اور تم چوری چھپے کسی کی بات نہ سنا کرو اور نہ ہی ایک دوسرے کے عیب تلاش کیا کرو ۔۔۔۔۔‘‘
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک آدمی ( جس کا نام ضمضم بن قتادہ رضی اللہ عنہ ذکر کیا گیا ہے ) نبی کریمﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور اس نے کہا :اے اللہ کے رسول ! میری بیوی نے ایک کالے رنگ کا بچہ جنم دیا ہے ۔ ( یعنی اس نے یہ کہہ کر اپنی بیوی پر شک وشبہ اور بد گمانی کا اظہار کیا ) تو آپﷺ نے ا س سے پوچھا : کیا تمھارے اونٹ ہیں ؟ اس نے کہا : جی ہاں ہیں ۔ آپﷺ نے فرمایا : ان کے رنگ کیاہیں ؟ اس نے کہا : سرخ رنگ کے ہیں ۔ آپﷺ نے فرمایا : کیا ان میں کوئی خاکی رنگ کا بھی ہے ؟ اس نے کہا : جی ہاں ہے۔ تو آپﷺ نے فرمایا :خاکی رنگ کہاں سے آ گیا ؟ اس نے کہا : شاید اس کے خاندان میں کوئی اسی رنگ کا ہو گا ( جس کے ساتھ اس کی مشابہت ہے ) ۔ تو آپﷺ نے فرمایا : شاید تمھارے اس بچے کے خاندان میں بھی کوئی اسی رنگ کا ہو گا ( جس کے ساتھ اس کی مشابہت ہے ۔) [ البخاری : ۵۳۰۵ ، مسلم : ۱۵۰۰]
اس حدیث سے ثابت ہوا کہ خاوند کو اپنی بیوی پر خواہ مخواہ شک وشبہ نہیں کرنا چاہئے کہ جو رفتہ رفتہ بد اعتمادی میں تبدیل ہو جائے اور اس کا نتیجہ طلاق نکلے ۔
بعض لوگ صرف سنی سنائی باتوں پر ہی اعتماد کرلیتے ہیں اور اپنے بیوی بچوں پراس قدر بدگمانی کرتے ہیں کہ ان کی زندگی اجیرن بن جاتی ہے ۔ اس سلسلے میں شرعی ضابطہ یہ ہے کہ سنی سنائی باتوں کے بارے میں تحقیق کرنی چاہئے اور بلا تحقیق کسی کی بات کو درست تسلیم نہیں کرنا چاہئے ۔
اللہ تعالی کا فرمان ہے :

﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِن جَاءَكُمْ فَاسِقٌ بِنَبَإٍ فَتَبَيَّنُوا أَن تُصِيبُوا قَوْمًا بِجَهَالَةٍ فَتُصْبِحُوا عَلَىٰ مَا فَعَلْتُمْ نَادِمِينَ﴾ [ الحجرات : ۶]
’’ اے ایمان والو ! اگر تمھارے پاس کوئی فاسق کوئی خبر لے کر آئے تو تم اس کی تحقیق کر لیا کرو ۔ ایسا نہ ہو کہ تم نادانستہ کسی قوم کو نقصان پہنچا بیٹھو ۔ پھر تمھیں اپنے کئے پر ندامت ہو ۔ ‘‘
 

حافظ محمد عمر

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
427
ری ایکشن اسکور
1,542
پوائنٹ
109
غیرت میں افراط وتفریط
مومن بڑا غیور ہوتا ہے ۔ رسول اکرم ﷺ کا ارشاد گرامی ہے :

« الْمُؤْمِنُ يَغَارُ وَاللَّهُ أَشَدُّ غَيْرًا » [ مسلم: ۲۷۶۱]
’’ مومن غیرت مند ہوتا ہے اور اللہ تعالی اس سے زیادہ غیرت والا ہے۔ ‘‘
تاہم غیرت میں اعتدال ضروری ہے ۔ کیونکہ اگر مرد میں غیرت بالکل نہ ہو تو اس سے اس کی بیوی ( اگر وہ دیندار نہ ہو تو اس کو) آزادی مل جاتی ہے ۔ پھر وہ بے پردہ ہو کر باہر گھومتی پھرتی ہے ، غیر محرم مردوں کے ساتھ اٹھتی بیٹھتی ہے اور مختلف غیر شرعی امور میں منہمک رہتی ہے لیکن اس کے خاوند کو کچھ بھی احساس نہیں ہوتا ! اور اگر غیرت حد سے زیادہ ہو تو شکوک وشبہات جنم لیتے ہیں ، بے جا طور پر تجسس ہوتا ہے اور ہر ہر بات پر بدگمانیاں ہوتی ہیں ۔ اور یوں فرطِ غیرت میں مبتلا ہو کر مرد اپنی بیوی کو طلاق دے دیتا ہے ۔
حل : اگر مرد میں بالکل ہی غیرت نہ ہو تو اسے اپنی بیوی کیلئے غیرت مند ہونا چاہئے ۔ وہ اس قدر غیور ہو کہ اس کا غیر مردوں کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا ، بے پردہ ہو کر اس کا گھومنا پھرنا اور اجنبی مردوں سے فون پر غیر ضروری بات چیت کرنا اسے نا پسند ہو ۔ اور اگر بیوی بعض برائیوں میں مبتلا ہو تو اسے اس پر بھی شرعی حدود میں رہتے ہوئے تنبیہ کرنی چاہئے ۔
اور اگر غیرت حد سے زیادہ ہو تو اسے اعتدال کی حد تک لانا چاہئے کیونکہ فرطِ غیرت کے نتائج بہت ہی خطرناک ہوتے ہیں ۔
 

حافظ محمد عمر

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
427
ری ایکشن اسکور
1,542
پوائنٹ
109
مردانگی کا بے جا اظہار اور بد سلوکی کا مظاہرہ
بعض حضرات کو چونکہ یہ معلوم ہے کہ اللہ تعالی نے مردوں کے بارے میں فرمایا ہے :

﴿اَلرِّجَالُ قَوّٰمُوْنَ عَلَى النِّسَآءِ ﴾
’’ مرد عورتوں پر حاکم ہیں ۔ ‘‘
اور انھیں یہ بھی معلوم ہے کہ رسول اکرم ﷺ نے عورتوں کو (ناقصات العقل) ’’ کم عقل ‘‘ قرار دیا ہے ، تو وہ بے جا طور پر اپنی مردانگی اور عورت پراپنی حکمرانی کا اظہار کرتے ہوئے ان سے بد سلوکی کرتے ہیں ۔ ان کا طرزِ عمل اس قسم کا ہوتا ہے کہ

﴿مَا أُرِ‌يكُمْ إِلَّا مَا أَرَ‌ىٰ﴾
’’بس رائے وہی ہے جو میں دے رہا ہوں ۔ ‘‘
یعنی اپنی بیویوں سے رائے لینا گوارا ہی نہیں کرتے یا اگر ان کی رائے سامنے آ بھی جائے تو اسے نہایت حقیر سمجھتے ہیں اور بس اپنی رائے کو ہی واجب العمل تصور کرتے ہیں ! اس کے علاوہ ان کا اپنی بیویوں سے انداز گفتگو نہایت توہین آمیز ہوتا ہے حتی کہ اولاد کے سامنے بھی ان کی بے عزتی کرنے سے باز نہیں آتے !
اِس اندازِ معاشرت سے آخر کار بیویاں تنگ آ جاتی ہیں کیونکہ گھر میں ان کی شخصیت مسلسل مجروح ہو رہی ہوتی ہے اور آخر کار وہ طلاق کا مطالبہ شروع کردیتی ہیں ۔ اور ان کے اس مطالبے کے بعد مرد یہ سمجھتے ہیں کہ اگر انھوں نے طلاق نہ دی تو ان کی مردانگی پر حرف آئے گا ۔ اس لئے وہ سوچے سمجھے بغیر فورا طلاق دے دیتے ہیں ۔
حل : مرد بے شک عورتوں پر حاکم ہیں اور خواتین بے شک کم عقل ہیں لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ انھیں حقیر سمجھتے ہوئے ان سے بد سلوکی کی جائے اور گھریلو معاملات میں ان کی رائے کو نظر انداز کیا جائے ۔ اس کے بر عکس ان سے حسن سلوک اور اچھے انداز سے بود وباش رکھنا ضروری ہے ۔ کیونکہ اللہ تعالی کا فرمان ہے :

﴿وَعَاشِرُ‌وهُنَّ بِالْمَعْرُ‌وفِ ﴾ [النساء : ۱۹ ]
’’اور ان کے ساتھ بھلے طریقے سے زندگی بسر کرو ۔ ‘‘
اور رسول اکرمﷺکا ارشاد ہے :

« أَكْمَلُ الْمُؤْمِنِينَ إِيمَانًا أَحْسَنُهُمْ خُلُقًا وَخِيَارُكُمْ خِيَارُكُمْ لِنِسَائِهِمْ »
[ الترمذی ۔ ۱۱۶۲ : حسن صحیح ، وانظر: السلسلۃ الصحیحۃ : ۲۸۴ ]
’’ مومنوں میں سب سے کامل ایمان والا شخص وہ ہے جو ان میں سب سے اچھے اخلاق کا حامل ہو ۔ اور تم میں سب سے بہتر وہ ہے جو اپنی عورتوں کے حق میں بہتر ہو ۔ ‘‘
مردوں کو یہ بھی جاننا چاہئے کہ اللہ تعالی نے ان کی بیویوں کے ان پر کچھ حقوق مقرر کئے ہیں جن کا ادا کرنا ضروری ہے ۔ اللہ تعالی فرماتے ہیں :

﴿وَلَهُنَّ مِثْلُ الَّذِي عَلَيْهِنَّ بِالْمَعْرُ‌وفِ ۚ وَلِلرِّ‌جَالِ عَلَيْهِنَّ دَرَ‌جَةٌ١ؕ﴾[البقرۃ : ۲۲۸ ]
’’ اور عورتوں کے ( شوہروں پر ) عرفِ عام کے مطابق حقوق ہیں جس طرح شوہروں کے ان پر ہیں ۔ ‘‘
اس کے علاوہ نبی کریمﷺ نے بھی شوہروں کو ان کی بیویوں کے متعلق خصوصی طور پر یہ تاکید کی ہے کہ وہ نہ ان پر ظلم کریں اور نہ ان کی حق تلفی کریں بلکہ ان کے ساتھ اچھا سلوک کریں۔
رسول اللہﷺنے خطبۂ حجۃ الوداع میں فرمایا تھا :

« فَاتَّقُوا اللَّهَ فِى النِّسَاءِ فَإِنَّكُمْ أَخَذْتُمُوهُنَّ بِأَمَانِ اللَّهِ وَاسْتَحْلَلْتُمْ فُرُوجَهُنَّ بِكَلِمَةِ اللَّهِ»[مسلم ۔ ۱۲۱۸ ]
’’ تم عورتوں کے معاملے میں اللہ تعالی سے ڈرتے رہنا کیونکہ تم نے انھیں اللہ کی ذمہ داری پر لیا ہے۔ اور انھیں اللہ کے کلمہ کے ساتھ حلال کیا ہے ۔ ‘‘
 

حافظ محمد عمر

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
427
ری ایکشن اسکور
1,542
پوائنٹ
109
خاوند کی نافرمانی
بعض بیویاں اپنے شوہروں کی نافرمان ہوتی ہیں ۔ وہ ان کی کوئی پروا نہیں کرتیں ۔ ہر کام میں من مانی کرتی ہیں ۔ اور ان کے شوہر انھیں جس بات کا حکم دیں یا کسی کام سے منع کریں تو وہ اس کے الٹ ہی کرتی ہیں ۔ اس کے علاوہ وہ اپنے خاوندوں کی شکر گذار بھی نہیں ہوتیں ۔ ایسی عورتوں کا یہ طرز عمل ان کیلئے تباہ کن ہوتا ہے اور ان کے شوہر آخر کار انھیں طلاق دینے پر مجبور ہو جاتے ہیں ۔
حل : عورتوں کو یہ بات تسلیم کرنی چاہئے کہ اللہ تعالی نے مردوں کو ان پر حاکم بنایا ہے ۔ اور جہاں اللہ تعالی نے ان کے حقوق کا ذکر کیا ہے وہاں یہ بھی فرمایا ہے کہ
وَ لِلرِّجَالِ عَلَيْهِنَّ دَرَجَةٌ١ؕ ’’ اور مردوں کو عورتوں پر فوقیت حاصل ہے ۔ ‘‘
لہذا عورتوں کو مردوں کی فوقیت کو ماننا چاہئے ۔ اور ان کی فرمانبرداری کرنی چاہئے ۔ کیونکہ جب رسول اکرمﷺ سے سوال کیا گیا کہ عورتوں میں سے کونسی عورت سب سے افضل ہے ؟ تو آپﷺ نے ارشادفرمایا :

الَّتِي تَسُرُّهُ إِذَا نَظَرَ وَتُطِيعُهُ إِذَا أَمَرَ وَلَا تُخَالِفُهُ فِي نَفْسِهَا وَمَالِهَا بِمَا يَكْرَهُ
’’ وہ جو کہ اسے ( خاوند کو) خوش کردے جب وہ اسے دیکھے ۔ اور اس کی فرمانبرداری کرے جب وہ اسے حکم دے ۔ اور اپنے نفس اورمال میں شوہر کی خلاف ورزی بایں طور نہ کرے کہ جو شوہر کو ناپسند ہو ۔ ‘‘
[النسائی ۔ النکاح باب أی النساء خیر : ۳۲۳۱ ، وصححہ الألبانی فی صحیح سنن النسائی والصحیحۃ : ۱۸۳۸]
اور خا وند کی نافرمانی کرنا اتنا بڑا گناہ ہے کہ اس کی وجہ سے نافرمان بیوی کی نماز تک قبول نہیں ہوتی ۔
رسول اکرمﷺ کا ارشاد گرامی ہے :

اثنان لا تجاوز صلاتهما رؤوسهما عبد أبق من مواليه حتى يرجع وامرأة عصت زوجها حتى ترجع
’’دو آدمیوں کی نماز ان کے سروں سے اوپر نہیں جاتی ۔ ایک اپنے آقاؤں سے بھاگا ہوا غلام یہاں تک کہ وہ واپس آجائے ۔ اور دوسری وہ عورت جو اپنے خاوند کی نافرمان ہو یہاں تک کہ وہ اس کی فرمانبرداربن جائے ۔‘‘
[ صحیح الترغیب والترہیب للألبانی : ۱۹۴۸]
فرمانبرداری کے ساتھ ساتھ عورتوں کو اپنے خاوندوں کا شکرگذار بھی ہونا چاہئے ۔ کیونکہ ناشکر گذار بیوی کے متعلق رسول اللہﷺ کا ارشاد ہے:

لا ينظر الله تبارك وتعالى إلى امرأة لا تشكر لزوجها وهي لا تستغني عنه
’’ اللہ تبارک وتعالی اس عورت کی طرف دیکھتا ہی نہیں جو اپنے خاوند کی ناشکر گذار ہو حالانکہ وہ اس کے بغیر رہ نہیں سکتی۔ ‘‘
 
Top