• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اسلام کا قانون طلاق اور اس کا ناجائز استعمال

حافظ محمد عمر

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
427
ری ایکشن اسکور
1,542
پوائنٹ
109
اسلام کا قانون طلاق
اگر زوجین کے مابین تعلقات خوشگوار نہ رہ سکیں اور اصلاحِ احوال کی تمام تر کوششیں ناکام ہو جائیں تو ایسا نہیں ہے کہ وہ اسی کشمکش ، گھریلو ناچاقی اور پریشانی میں ہی پوری زندگی گذار دیں بلکہ اللہ تعالی نے اس کا بھی حل بتایا ہے اور وہ ہے ’طلاق ‘ ۔
اللہ تعالی قرآن مجید میں ارشاد فرماتے ہیں :

﴿وَإِن يَتَفَرَّ‌قَا يُغْنِ اللَّـهُ كُلًّا مِّن سَعَتِهِ ۚ وَكَانَ اللَّـهُ وَاسِعًا حَكِيمًا﴾[النساء:۱۳۰]
’’ اور اگر وہ دونوں ( میاں بیوی ) الگ ہو جائیں تو اللہ اپنی مہربانی سے ہر ایک کو بے نیاز کردے گا ۔ اور اللہ تعالی بڑی وسعت والا اور حکمت والا ہے ۔ ‘‘
اِس آیت کریمہ سے پہلے اللہ تعالی نے دونوں کو صلح کرنے کا حکم دیتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ
﴿وَ الصُّلْحُ خَيْرٌ١ؕ﴾’’ صلح بہر حال بہتر ہے ۔ ‘‘
اس کے بعد اللہ کا یہ فرمان کہ
’’ اگر وہ دونوں جدا ہو جائیں تو اللہ تعالی ان میں سے ہر ایک کو بے نیاز کردے گا ۔ ‘‘
اس کا مطلب یہ ہے کہ جب صلح کا امکان نہ رہے تو ضروری نہیں کہ وہ مجبورا ایک دوسرے سے بندھے رہیں ۔ بلکہ اگر وہ جدا ہو جائیں تو ہو سکتا ہے کہ اللہ تعالی عورت کو اس سے بہتر خاوند اور خاوند کو اس سے بہتر بیوی نصیب کردے جس کے بعد وہ خوشگوار انداز سے ازدواجی زندگی بسر کر سکیں ۔
اللہ تعالی کا فرمان ہے :

﴿فَعَسَىٰ أَن تَكْرَ‌هُوا شَيْئًا وَيَجْعَلَ اللَّـهُ فِيهِ خَيْرً‌ا كَثِيرً‌ا﴾ [النساء : ۱۹ ]
’’ہو سکتا ہے کہ کوئی چیز تمھیں تو نا گوار ہو مگر اللہ تعالی نے اس میں بہت بھلائی رکھ دی ہو ۔ ‘‘
لہذا جب مرد کے سامنے سوائے طلاق دینے کے اور کوئی حل نہ رہے تو اسے ’طلاق ‘ دے دینی چاہئے ۔ تاہم اسے اِس سلسلہ میں اسلامی تعلیمات کی پابندی کرنا ہو گی اور ایک متعین طریقۂ کار کے مطابق ہی طلاق دینا ہو گی ۔
یہاں پر یہ بات خاص طور پر قابل ذکر ہے کہ اسلام کا قانونِ طلاق موجودہ دور کے خود ساختہ تمام قوانین ِ طلاق پر فوقیت رکھتا ہے ۔ کیونکہ اسلام کا قانونِ طلاق وحیِ الٰہی پر مبنی قانون ہے جوکہ ہر قسم کی خطا اور سہو وغیرہ سے پاک ہے ۔ یعنی اس کا ماخذ اللہ رب العزت کی ذات اقدس ہے جس کا ہر قانون ہر زمانے کیلئے سازگار رہتاہے ۔ جبکہ خود ساختہ قوانین انسانوں کے وضع کردہ ہیں جن میں یقینی طور پر خطا ، سہو اور نسیان وغیرہ کا امکان موجود ہوتاہے ۔ انسان حیرت انگیز کمالات کے باوجود نقائص سے خالی نہیں ہے ۔اس لئے اس کا بنایا ہوا قانون قطعا عیوب ونقائص سے خالی نہیں ہو سکتا ۔ اور اگر وہ ایک دور کیلئے مناسب ہو گا تو دوسرے دور کیلئے غیر مناسب وغیر موزوں ہو گا ۔
اسلام کا قانونِ طلاق کیا ہے ؟ ’طلاق‘ کس طرح دینی چاہئے اور اس سلسلے میں کن کن احکامات کو ملحوظ خاطر رکھنا چاہئے ؟ آئیے قرآن وحدیث کی روشنی میں معلوم کرتے ہیں ۔
 

حافظ محمد عمر

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
427
ری ایکشن اسکور
1,542
پوائنٹ
109
طلاق ایک سنجیدہ معاملہ ہے
جی ہاں ، طلاق دینا انتہائی سنجیدہ معاملہ ہے ! اس کی وجہ سے دو خاندانوں میں بغض ، نفرت، قطع رحمی اور دوری پیدا ہوجاتی ہے ۔ وہ گھرانہ اجڑ جاتا اور برباد ہوجاتاہے جس میں طلاق دی جاتی ہے ۔ لیکن تعجب ہے ان لوگوں پر جو معمولی معمولی باتوں پرطیش میں آکر ( طلاق ، طلاق ، طلاق ) کہہ کر دو خاندانوں میں فساد بپا کردیتے ہیں ۔ اور کئی لوگ تو اپنی بیویوں کو کھلونہ سمجھ کر نہایت آسانی سے طلاق کا پروانہ ان کے حوالے کر دیتے ہیں حالانکہ طلاق میں اصل چیزمنع ہے ۔ یعنی جب تک اس کا کوئی معقول سبب نہ ہو جس کا ازالہ کرنا نا ممکن ہو اور صلح کی کوئی صورت باقی نہ رہے تو انتہائی مجبوری کی حالت میں طلاق دے سکتے ہیں ورنہ نہیں ۔
’طلاق ‘ کے متعلق اللہ تعالی نے قرآن مجید میں ایک پوری سورت نازل کی ہے اور اس میں ’طلاق ‘ کو اُس نے اپنی حدوں میں سے ایک حد قرار دیا ہے ۔ اور اس کے ساتھ ہی فرمایا ہے

﴿١ؕوَمَن يَتَعَدَّ حُدُودَ اللَّـهِ فَقَدْ ظَلَمَ نَفْسَهُ﴾
’’ جو شخص اللہ کی حدوں سے آگے بڑھ جائے اس نے یقینا اپنے اوپر ظلم کیا ۔ ‘‘
لہذا ’طلاق ‘ کو عورت پر لٹکتی ہوئی تلوار اور ایک ہتھیار کے طور پر استعمال نہیں کرنا چاہئے کہ مردہر وقت اپنی بیوی کو اس سے ڈراتا اور دھمکاتا رہے بلکہ جب کوئی اورحل باقی نہ رہے اور دونوں کیلئے ازدواجی رشتے سے مزید منسلک رہنا ممکن نہ ہو توآخری حل کے طور پر طلاق کو استعمال کیا جا سکتا ہے ۔
اور جب طلاق دینے کا ارادہ ہو تو اللہ تعالی کی مقرر کردہ حدوں کے مطابق ہی دینی چاہئے۔ ان حدوں کو پھلانگنا بہت بڑا ظلم ہے ۔
سورۃ الطلاق میں اللہ تعالی نے بار بار تقوی اختیار کرنے کا حکم دیا ہے ۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ کے بندوں کو اللہ تعالی سے ڈرتے ہوئے اپنی بیویوں پر ظلم کرنے سے پرہیز کرنا چاہئے ۔ اگرانھیں اپنے عقد میں رکھنا ہو تو بھلے طریقے سے اور بسانے کی نیت سے رکھنا چاہئے اور اگر انھیں چھوڑنا ہو تو اچھے طریقے سے اور فیاضی کے ساتھ کچھ دے کر انھیں چھوڑنا چاہئے ۔
بعض لوگ مذاق مذاق میں ہی طلاق دے دیتے ہیں ۔ حالانکہ طلاق ایسا معاملہ ہے کہ جس میں مذاق کا حکم بھی سنجیدہ بات کے حکم جیسا ہے ۔
رسول اکرم ﷺ کا ارشاد ہے :

« ثَلاَثٌ جِدُّهُنَّ جِدٌّ وَهَزْلُهُنَّ جِدٌّ النِّكَاحُ وَالطَّلاَقُ وَالرَّجْعَةُ »
’’ تین چیزیں ایسی ہیں کہ جن میں حقیقت بھی حقیقت ہے اور ان میں مذاق بھی ایسے ہی ہے جیسے حقیقت ہو اور وہیں: نکاح ، طلاق اور رجوع ۔ ‘‘[ ابو داؤد : ۲۱۹۶ ۔ قال الألبانی : حسن]
لہذا جو شخص طلاق دینا چاہتا ہو اسے اس کے عواقب اور نتائج پر اچھی طرح غور کرلینا چاہئے ۔ سوچ وفکر اور اصحاب الرائے سے مشورہ لینے کے بعد ہی وہ اِس طرح کے اقدام پر آمادہ ہو ۔ ورنہ بعد میں پچھتاوے اور ندامت کا سامنا بھی کر سکتا ہے ۔
 

حافظ محمد عمر

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
427
ری ایکشن اسکور
1,542
پوائنٹ
109
طلاق مرد کے ہاتھ میں ہے
طلاق اللہ تعالی نے خاوند کے ہاتھ میں رکھی ہے ۔ یعنی اس کا اختیار صرف مرد کو ہے کہ وہ اپنی بیوی کو طلاق دے سکتا ہے ۔ بیوی اپنے خاوند کو طلاق نہیں دے سکتی ۔ ہاں وہ خلع کی صورت میں اس سے طلاق لے سکتی ہے جس کی تفصیل آگے آ رہی ہے ۔
شاید اِس میں حکمت یہ ہے کہ عموما مرد ہی بیوی کے حصول کیلئے مال خرچ کرتا ہے ، پھر وہی اس کے اخراجات کا بھی ذمہ دار ہوتا ہے ۔ تو طلاق دینے کا اختیار بھی اسی کو دیا گیا ہے ۔
ویسے بھی مرد عموما دور اندیش ہوتے ہیں اور وہ جذباتی فیصلہ نہیں بلکہ سوچ سمجھ کر ہی فیصلہ کرتے ہیں ۔ جبکہ عورتیں عموما جذباتی ہوتی ہیں اور ان میں دور اندیشی بھی کم ہوتی ہے ۔ اس لئے طلاق عورت کی بجائے مرد کے ہاتھ میں رکھی گئی ہے تاکہ طلاق کے واقعات کم سے کم ہوں۔
خاوند کو تین طلاقیں دینے کا اختیار ہے جس کا درست طریقۂ کار اگلی سطور میں آ رہا ہے ۔ وہ خود بھی طلاق دے سکتا ہے اور اگر وہ کسی کو وکیل بنا دے تو اس کا وکیل بھی اس کی جانب سے شریعت میں طے شدہ طریقۂ کار کے مطابق طلاق دے سکتا ہے ۔
 

حافظ محمد عمر

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
427
ری ایکشن اسکور
1,542
پوائنٹ
109
طلاق کون دے سکتاہے ؟
طلاق ہر وہ خاوند دے سکتا ہے جو بالغ ، عاقل اور مختار ہو ۔ اس کا مفہوم یہ ہے کہ جو خاوند نابالغ ، مجنون ، دیوانہ اورپاگل ہو ، اسی طرح جو نشے کی حالت میں ہو ، یا اس قدر غضبناک ہو کہ اپنے حواس کھو بیٹھا ہو تو اس کی طلاق واقع نہیں ہو تی ۔ اسی طرح وہ خاوند جس سے طلاق زبردستی لی جائے اس کی طلاق بھی معتبرنہیں ہے ۔
 

حافظ محمد عمر

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
427
ری ایکشن اسکور
1,542
پوائنٹ
109
طلاق کے الفاظ
الفاظ کے لحاظ سے طلاق کی دو قسمیں ہیں :
  1. طلاقِ صریح : یعنی ایسے الفاظ جو صرف طلاق کیلئے ہی استعمال ہوتے ہیں ۔ مثلا میں نے تجھے طلاق دی ، تجھے طلاق ہے ، تو مطلقہ ہے وغیرہ ۔ یہ الفاظ چونکہ اپنے معنی کے لحاظ سے بالکل واضح ہیں اس لئے ان الفاظ کے ساتھ طلاق واقع ہو جاتی ہے خواہ خاوند کی نیت کچھ بھی ہو۔
  2. طلاقِ کنایہ : یعنی ایسے الفاظ استعمال کرنا جن سے طلاق کا معنی بھی سمجھا جائے اور کوئی دوسرا معنی بھی مراد لیا جا ئے ۔ مثلا تم اپنے گھر چلی جاؤ ، اب اِس گھر میں تمھاری کوئی جگہ نہیں ، تم مجھ سے الگ ہو جاؤ وغیرہ ۔ اِس طرح کے الفاظ میں خاوند کی نیت کا اعتبار کیا جاتا ہے ۔ اگر اس کی نیت صرف بیوی کو ڈرانا دھمکانا ہی ہو تو طلاق نہیں ہوتی ۔ اور اگراس کی نیت طلاق دینا ہو تو طلاق واقع ہو جاتی ہے ۔
 

حافظ محمد عمر

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
427
ری ایکشن اسکور
1,542
پوائنٹ
109
طلاق کی مختلف صورتیں
طلاق کی تین صورتیں ہیں:
1. خاوند اپنی بیوی کو کہے کہ تمھیں طلاق ہے ، یا میں نے تمھیں طلاق دی ۔ ان الفاظ کے ساتھ طلاق اُسی وقت واقع ہو جاتی ہے ۔
2. وہ اپنی بیوی کو یوں کہے : تمھیں آنے والی کل سے طلاق ہے ، یا جب فلاں مہینہ شروع ہو گا تو تمھیں طلاق ، یا ایک سال بعد تمھیں طلاق ۔ ان الفاظ کے ساتھ طلاق تب واقع ہو گی جب وہ مقررہ وقت آئے گا ۔ اس سے پہلے نہیں ۔
3. خاوند کسی کام کے ساتھ طلاق کو معلق کردے ۔ مثلا وہ یہ کہے کہ اگر تم بازار گئی تو تمھیں طلاق ۔ یا اگر تم نے فلاں کام کیا تو تمھیں طلاق ۔ ان الفاظ میں خاوند کی نیت دیکھی جائے گی ۔ اگر اس کا ارادہ صرف اسے اس کام سے روکنا تھا تو طلاق واقع نہیں ہو گی ۔ تاہم اگر اس کی بیوی وہ کام کرلے تو اس میں قسم کا کفارہ دینا پڑے گا کیونکہ وہ ایسے ہی تھا جیسے اسکے خاوند نے اسے قسم دی کہ تم یہ کام نہ کرو یا فلاں جگہ نہ جاؤ ۔ پھراگر وہ اس کام کو کر لے یا اس جگہ پہ چلی جائے تو گویا اس نے قسم کو توڑ دیا ۔ اس لئے کفارہ دینا پڑے گا ۔ لیکن اگر اس کا ارادہ واقعتا طلاق کا ہی تھا تو جب وہ اُس کام کو کرے گی جس کے ساتھ اس نے اس کی طلاق کو معلق کیا تھا تو طلاق واقع ہو جائے گی ۔
 

حافظ محمد عمر

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
427
ری ایکشن اسکور
1,542
پوائنٹ
109
حالت ِ حیض میں طلاق دینا حرام ہے
حضرت عبد اللہ بن عمررضی اللہ عنہ نے اپنی بیوی کو حالتِ حیض میں طلاق دی تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے رسول اکرمﷺ کے ہاں اس کا ذکر کیا ۔ چنانچہ آپﷺ نے ارشاد فرمایا :

« مُرْهُ فَلْيُرَاجِعْهَا ثُمَّ لْيُطَلِّقْهَا طَاهِرًا أَوْ حَامِلاً »
’’ اسے حکم دو کہ وہ اپنی بیوی سے رجوع کر لے ۔ پھر اسے طہر یا حمل کی حالت میں طلاق دے ۔ ‘‘[ مسلم : ۱۴۷۱]
اِس حدیث سے معلوم ہوا کہ حالتِ حیض میں طلاق دینا حرام ہے ۔ لہذا جو شخص اپنی بیوی کو طلاق دینا چاہتا ہو اور وہ حیض کے ایام میں ہو تو اسے اس کے پاک ہونے کا انتظاکرنا چاہئے۔ پھر جب وہ پاک ہو جائے تو اس سے مباشرت کئے بغیر اس کو طلاق دے ۔
 

حافظ محمد عمر

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
427
ری ایکشن اسکور
1,542
پوائنٹ
109
جس طہر میں خاوند نے صحبت کر لی ہو اور ابھی حمل کا پتہ نہ چلا ہو اس میں بھی طلاق دینا حرام ہے
حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کی اسی حدیث میں ہے کہ نبی کریمﷺ نے ارشاد فرمایا :

« مُرْهُ فَلْيُرَاجِعْهَا ثُمَّ لْيَدَعْهَا حَتَّى تَطْهُرَ ثُمَّ تَحِيضَ حَيْضَةً أُخْرَى فَإِذَا طَهُرَتْ فَلْيُطَلِّقْهَا قَبْلَ أَنْ يُجَامِعَهَا أَوْ يُمْسِكْهَا فَإِنَّهَا الْعِدَّةُ الَّتِى أَمَرَ اللَّهُ أَنْ يُطَلَّقَ لَهَا النِّسَاءُ »
’’ اسے حکم دو کہ وہ اپنی بیوی سے رجوع کر لے ۔ پھر اس کے پاک ہونے کا انتظار کرے۔ پھر جب دوبارہ حیض آئے اور وہ اس سے پاک ہو جائے تو وہ اس سے جماع کرنے سے پہلے اسے طلاق دے ۔ یا اسے روک لے ۔ یہی وہ عدت ہے جس کا عورتوں کو طلاق دیتے وقت لحاظ کرنے کا اللہ تعالی نے ( سورۃ الطلاق کی ابتداء میں) حکم دیا ہے ۔ ‘‘[مسلم:۱۴۷۱]
اس حدیث سے ثابت ہوا کہ عورت جب حیض سے پاک ہو اور اس کے خاوندکا اسے طلاق دینے کا ارادہ ہو تو وہ اس سے صحبت کئے بغیر اسے طلاق دے ۔ اور اگر وہ اس طہر میں اس سے جماع کر چکا ہو اور ابھی حمل کا پتہ نہ چلا ہو تو اسے طلاق دینا حرام ہے ۔ ہاں اگر اس کے حاملہ ہونے کا یقین ہو چکا ہو ( ٹیسٹ وغیرہ کے ذریعے ) تو طلاق دینے میں کوئی حرج نہیں ۔
مذکورہ دونوں صورتوں میں طلاق دینا ’ طلاق بدعی ‘ کہلاتا ہے ۔
 

حافظ محمد عمر

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
427
ری ایکشن اسکور
1,542
پوائنٹ
109
طلاق رجعی دینے کے بعد بیوی کو گھر سے نکالنا حرام ہے
اگر کوئی شخص مذکورہ دونوں باتوں کا لحاظ کرتے ہوئے اپنی بیوی کو طلاق دے دے تو اس کے بعد اسے اپنے گھر سے مت نکالے کیونکہ اللہ تعالی نے اس سے منع فرمایا ہے ۔
اللہ تعالی کا فرمان ہے :

﴿ يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ إِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَاءَ فَطَلِّقُوهُنَّ لِعِدَّتِهِنَّ وَأَحْصُوا الْعِدَّةَ ۖ وَاتَّقُوا اللَّـهَ رَ‌بَّكُمْ ۖ لَا تُخْرِ‌جُوهُنَّ مِن بُيُوتِهِنَّ وَلَا يَخْرُ‌جْنَ إِلَّا أَن يَأْتِينَ بِفَاحِشَةٍ مُّبَيِّنَةٍ ۚ وَتِلْكَ حُدُودُ اللَّـهِ ۚ وَمَن يَتَعَدَّ حُدُودَ اللَّـهِ فَقَدْ ظَلَمَ نَفْسَهُ ۚ لَا تَدْرِ‌ي لَعَلَّ اللَّـهَ يُحْدِثُ بَعْدَ ذَٰلِكَ أَمْرً‌ا﴾[الطلاق:1]
’’ اے نبی ! ( مومنوں کو حکم دیں کہ ) جب تم اپنی بیویوں کو طلاق دینا چاہو تو ان کی عدت (کے آغاز ) میں انھیں طلاق دو ۔ اور عدت کا حساب رکھو ۔ اور اللہ جو کہ تمھارا رب ہے اس سے ڈرتے رہو ۔ تم انھیں ان کے گھروں سے مت نکالو ۔ اور نہ ہی وہ خود نکلیں ۔ ہاں اگر وہ واضح طور پر بے حیائی کا ارتکاب کریں ( تو انھیں نکال سکتے ہو ۔) یہ اللہ کی مقرر کردہ حدیں ہیں ۔ جو شخص اللہ کی حدوں سے آگے بڑھ جائے اس نے یقینا اپنے اوپر ظلم کیا ۔ تم نہیں جانتے شاید اس کے بعد اللہ تعالی کوئی نئی بات پیدا کردے ۔ ‘‘
اس آیت کریمہ میں اللہ تعالی نے عورتوں کو عدت کے آغاز میں یعنی جب وہ حیض سے پاک ہو جائیں تو اُس طہر میں جماع کرنے سے پہلے طلاق دینے اور عدت کا حساب رکھنے کا حکم دیا ہے ۔ یعنی تمھیں یہ معلوم ہونا چاہئے کہ عدت کب سے شروع ہوئی اور کب ختم ہوگی ۔ تاکہ اگر عورت عقد ثانی کرنا چاہئے تو اسے پتہ ہو کہ کب اسے اس کی اجازت ہوگی اور اگر اس کا خاوند اس سے رجوع کرنا چاہے تو اسے بھی پتہ ہو کہ اسے کب تک رجوع کرنے کا حق حاصل ہے ۔
اس کے بعد اللہ تعالی نے ان عورتوں کو جنھیں طلاق رجعی دی گئی ہو انھیں ان کے گھروں سے نکالنے سے منع فرمایا ہے اور خود انھیں بھی روک دیا ہے کہ وہ بلا وجہ خاوند کے گھر سے باہر نہ جائیں ۔ اِس میں حکمت یہ ہے کہ اگر خاوند بیوی دونوں ایک ہی گھر میں ہوں گے تو شاید ان کے دلوں میں نرمی پیدا ہو جائے اور وہ مصالحت کرنے اور طلاق سے رجوع کرنے پر آمادہ ہو جائیں ۔ ورنہ اگر خاوند اپنی بیوی کو طلاق دے کر عدت گذرنے سے پہلے ہی گھر سے نکال دے تو ان کے درمیان مصالحت کے امکانات ختم ہونے کا اندیشہ ہو گا جو درست نہیں ہے ۔ اس لئے اللہ تعالی نے فرمایا :
﴿لَا تَدْرِيْ لَعَلَّ اللّٰهَ يُحْدِثُ بَعْدَ ذٰلِكَ اَمْرًا﴾
یعنی ہو سکتا ہے کہ اللہ تعالی خاوند کے دل میں بیوی کی رغبت پیدا کردے اور وہ طلاق سے رجوع کر لے ۔
 

حافظ محمد عمر

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
427
ری ایکشن اسکور
1,542
پوائنٹ
109
اکٹھی تین طلاقیں دینا حرام !
ایک ہی مجلس میں اکٹھی تین طلاقیں دینا حرام ہے۔ اسی لئے علماء اسے بھی ’ طلاق بدعی ‘ کہتے ہیں ۔
حضرت محمود بن لبید رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ رسول اکرمﷺکو ایک شخص کے متعلق بتایا گیا کہ اس نے اپنی بیوی کو اکٹھی تین طلاقیں دے دی ہیں۔ تو آپﷺغصے کی حالت میں کھڑے ہو گئے اور فرمایا :

أَیُلْعَبُ بِکِتَابِ اللّٰہِ وَأَنَا بَیْنَ أَظْہُرِکُمْ ؟
’’کیا میری موجودگی میں ہی کتاب اللہ کو کھلونا بنایا جارہا ہے ؟‘‘
[النسائی :۳۴۰۱۔ صححہ الألبانی فی غایۃ المرام : ۲۶۱]
رسول اکرمﷺ کی جانب سے ناراضگی کا اظہار اور اکٹھی تین طلاقوں کو کتاب اللہ کے ساتھ کھیل قرار دینا اس بات کی دلیل ہے کہ بیک وقت تین طلاقیں دینا حرام ہے ۔
بیک وقت تین طلاقیں دینا قرآنی تعلیمات کے بھی خلاف ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے :

﴿الطَّلَاقُ مَرَّ‌تَانِ ۖ فَإِمْسَاكٌ بِمَعْرُ‌وفٍ أَوْ تَسْرِ‌يحٌ بِإِحْسَانٍ﴾ [البقرۃ:۲۲۹]
’’ طلاق دو مرتبہ ہے۔ پھر یا تو اچھائی سے روکنا یا عمدگی کے ساتھ چھوڑ دینا ہے ۔ ‘‘
یعنی وہ طلاق جس کے بعد خاوند کو رجوع کرنے کا حق حاصل ہے وہ دو مرتبہ ہے۔ لہذا پہلی مرتبہ اور دوسری مرتبہ طلاق دینے کے بعد خاوند رجوع کرسکتا ہے ۔ یعنی عدت کے اندر وہ قولی یا عملی طور پر رجوع کر نے کا حق رکھتا ہے ۔ اور عدت گذرنے کے بعد بھی وہ نیا نکاح کرکے اسے اپنے عقد میں لا سکتا ہے ۔ تاہم اسے یہ یاد رکھنا چاہئے کہ جن تین طلاقوں کا اسے اختیار دیا گیا تھا وہ ان میں سے دو کا استعمال کر چکا ۔ اور یہ دونوں طلاقیں واقع ہو چکیں ۔ اب اس کے بعد اس کے پاس آخری طلاق کا اختیار رہ جائے گا ۔
پھر تیسری مرتبہ طلاق دینے کے بعد اسے رجوع کا حق حاصل نہیں رہے گا۔
یہ جو رجوع کی گنجائش رکھی گئی ہے اس میں حکمت یہ ہے کہ اگر خاوند نے بغیر سوچے سمجھے جلدبازی میں طلاق دے دی ہو تو اسے سوچنے اور غور و فکر کرنے کا موقع مل جائے ۔ ورنہ اگر پہلی طلاق کے ساتھ ہی ہمیشہ کے لئے جدائی کا حکم ہوتا تو اس سے بہت سارے گھر تباہ ہوسکتے تھے ۔ فرمان الٰہی
﴿اَلطَّلَاقُ مَرَّتٰنِ﴾
میں اسی حکمت کی طرف اشارہ کیا گیا ہے ۔
چونکہ اکٹھی تین طلاقیں دینا قرآنی تعلیمات کے خلاف ہے اور نبی کریمﷺ کی ہدایات کے بھی بالکل برعکس ہے اس لئے پاکستان میں اسلامی نظریاتی کونسل نے بھی اسے قابل تعزیر جرم قرار دینے کی سفارش کی ہے ۔
فقہ حنفی کی مشہور کتاب ’ہدایہ ‘ میں بیک وقت تین طلاقوں کو بدعت کہا گیا ہے اور اس طرح طلاق دینے والے کو عاصی اور گناہگار بتایا گیا ہے ۔ [ ہدایہ ج ۲ ص ۳۵۵]
 
Top