• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

" اسلام کی مقبولیت میں اضافہ،،، کیوں اور کیسے؟" از ثبیتی حفظہ اللہ

شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
بسم الله الرحمن الرحيم
" اسلام کی مقبولیت میں اضافہ،،، کیوں اور کیسے؟"


از ثبیتی حفظہ اللہ


فضیلۃ الشیخ ڈاکٹر عبد الباری بن عواض ثبیتی حفظہ اللہ نے مسجد نبوی میں 22-ربیع الثانی- 1438 کا خطبہ جمعہ " اسلام کی مقبولیت میں اضافہ،،، کیوں اور کیسے؟" کے موضوع پر ارشاد فرمایا :

جس میں انہوں نے کہا کہ مایوسی کی زنجیریں توڑ کر ہر وقت پُر امید رہنا اور خیر کی امید رکھنا سابقہ انبیائے کرام سے لیکر رسول اللہ ﷺ تک سب کی تعلیمات میں شامل ہے، موجودہ سنگین حالات میں خوشی کی بات یہ ہے کہ اسلام دنیا میں تیزی سے پھیل رہا ہے؛ کیونکہ یہ اللہ تعالی کا وعدہ ہے، اسلام کی مقبولیت کی وجوہات یہ ہیں کہ: یہ اللہ تعالی کا پسندیدہ دین ہے، اسلام کے پاس تمام روحانی و دنیاوی سوالات اور مسائل کا حل ہے، اسلام عقل و فکر کو براہِ راست مخاطب کرتا ہے اور علم کی حوصلہ افزائی کرتا ہے۔ اسلام کے پھیلنے کی رفتار بے مثال اور بے نظیر ہے؛ کیونکہ یہ محبت اور شفقت دلوں میں بانٹتا ہے، اجتماعی عدل، باہمی اخوت اور تعاون کی فضا پروان چڑھاتا ہے۔ اسلام کی ترویج کیلیے ہمیں بھر پور کردار ادا کرنا چاہیے، اور اس کیلیے ہمیں اسلامی تعلیمات کا عملی نمونہ بن کر سب کے سامنے آنا پڑے گا، عصرِ حاضر میں اسلامی دعوت کیلیے میڈیا کا مثبت استعمال نا گزیر ہو چکا ہے، اس کے ذریعے اسلام کی سنہری صورت مسخ کرنے کی کوششیں ناکام بنائی جا سکتی ہیں، آخر میں انہوں نے کہا کہ مملکت حرمین میں رہنے والوں پر ترویجِ اسلام کی ذمہ داری دیگر تمام افراد سے زیادہ ہے۔

پہلا خطبہ:

تمام تعریفیں اللہ تعالی کیلیے ہیں جس نے اپنے رسول کو ہدایت دیکر تمام لوگوں کی جانب ارسال کیا، میں فرحت بخش نعمتوں پر اسی کی حمد و شکر بجا لاتا ہوں، میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبودِ بر حق نہیں وہ اکیلا ہے، اس کا کوئی شریک نہیں ، وہ اپنے مومن بندوں کو قیامت بپا ہونے پر تحفظ اور نجات عطا فرمائے گا، اور میں یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ ہمارے نبی سیدنا محمد اس کے بندے اور رسول ہیں، آپ نے اپنی امت کو کامیابی کے راستے پر گامزن کیا، اللہ تعالی آپ پر ، آپ کی آل ، اور صحابہ کرام پر رحمتیں نازل فرمائے ، اللہ تعالی نے انہیں تمام برائیوں کیلیے رکاوٹ بننے والی روح عطا فرمائی تھی۔

حمد و صلاۃ کے بعد:

میں اپنے آپ اور تمام سامعین کو تقوی الہی کی نصیحت کرتا ہوں، فرمانِ باری تعالی ہے:

{يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ حَقَّ تُقَاتِهِ وَلَا تَمُوتُنَّ إِلَّا وَأَنْتُمْ مُسْلِمُونَ}

اے ایمان والو! اللہ تعالی سے کما حقُّہ ڈرو اور تمہیں موت آئے تو صرف اسلام کی حالت میں۔[آل عمران: 102]

تفاؤل اور نیک شگونی اسلام کا بنیادی اصول اور ہمہ قسم کے حالات میں مسلمانوں کی علامت ہے؛ اللہ تعالی نے اپنے نبی ابراہیم علیہ السلام کی زبانی فرمایا :

{وَمَنْ يَقْنَطُ مِنْ رَحْمَةِ رَبِّهِ إِلَّا الضَّالُّونَ}

اپنے رب کی رحمت سے ناامید تو صرف گمراہ لوگ ہی ہوتے ہیں [الحجر: 56]،

نیک شگونی سے قوت ملتی ہے، ہمت پروان چڑھتی ہے، تفاؤل کچھ کرنے کی رغبت دلا کر روشن مستقبل تعمیر کرتا ہے۔

زمین پر کچھ حصوں میں مسلمانوں کیلیے اندوہناک حالات پیدا ہونے کی وجہ سے نیک شگونی کی ضرورت مزید بڑھ گئی ہے، نیک شگونی اس امت کے رسول سیدنا محمد ﷺ کا طریقہ کار تھا ؛ چنانچہ کتنی بار آپ ﷺ کے تفاؤل کی وجہ سے زحمت رحمت میں بدلی، اور عین مایوسی میں آس پیدا ہوئی۔

مومن کی زندگی میں سب سے بڑی خوشی اور نیک شگونی کا سبب یہ ہوتا ہے کہ رب العالمین کا دین پھیلتا پھولتا جائے، اور غیر مسلم حلقہ بگوشِ اسلام ہونے لگیں۔

تیزی سے پھیلاؤ اسلام کی ثابت شدہ امتیازی صفت ہے، یہ اسلام کی ذاتی خوبی ہے، اس پر پوری تاریخ شاہد ہے، چاہے مسلمانوں کی تعداد کتنی ہی کم ہو، یا مسلمان جتنے بھی سست ہوں یا دشمنوں کی جانب سے شدید مخالفت ہو! پھر بھی اسلام کی رفتار میں کمی نہیں آئی۔

مکہ میں اسلام کی ابتدا معمولی لوگوں سے ہوئی تھی ، انہوں نے قید و بند اور اذیت کی تمام صورتیں برداشت کیں، لیکن پھر بھی چند سالوں کے اندر ہی اسلام پورے جزیرہ عرب میں پھیل گیا، اور ایک ایسی نسل سامنے آئی جس نے اسلام کے پیغام کو صحرا و دریا ،پہاڑوں اور ریگزاروں میں پھیلا دیا، اسلام کی گونج اور صدا دور دور تک پھیل گئی، اسلام میں لوگ فوج در فوج اتنی تیزی کے ساتھ داخل ہونے لگے کہ اس کی مثال تاریخ میں کہیں نہیں ملتی، یہ اسلام کا بہت بڑا معجزہ اور اللہ تعالی کے وعدے کی تصدیق ہے کہ مستقبل صرف اسی دین کا ہوگا۔

اسلام اس لیے پھیل رہا ہے کہ اس دین کو اللہ تعالی نے تمام لوگوں کیلیے پسند فرمایا، اللہ تعالی نے اس کی حفاظت اور اسے پھیلانے کی ذمہ داری خود لی ہے، آپ ﷺ کا فرمان ہے:

(یہ دین وہاں تک پہنچے گا جہاں تک دن اور رات ہیں، اللہ تعالی کسی بھی مٹی یا کپڑے کی رہائش کو اسلام داخل کئے بغیر نہیں چھوڑے گا، با عزت لوگوں کو اللہ تعالی اسلام قبول کرنے کی وجہ سے معزز بنا دے گا اور ذلیل لوگوں کو اسلام ترک کرنے کی وجہ سے ذلیل کر دے گا)

اسے حاکم نے مستدرک میں روایت کیا ہے۔


لوگوں نے بھی اسلام سے محبت کا اظہار کیا؛ کیونکہ اسلام کے تمام گوشے روشن ہیں، اسلام ہی ثابت شدہ حق ہے، اسلام ہی فطرتِ سلیم اور عقلِ سلیم سے مطابقت رکھتا ہے، اسلام نے اندھیروں میں اجالا کیا، لوگوں کو خوشیاں دیں اور ان کی شرح صدر فرمائی:

{فِطْرَتَ اللَّهِ الَّتِي فَطَرَ النَّاسَ عَلَيْهَا لَا تَبْدِيلَ لِخَلْقِ اللَّهِ}

یہی [دین اسلام]فطرت الہی ہے اسی پر اللہ نے لوگوں کو پیدا کیا ہے اللہ کی اس تخلیق میں کوئی رد و بدل نہیں کر سکتا۔[الروم: 30]

اسلام پھیل رہا ہے؛ کیونکہ اسلام کے ایمانی نظریات دلوں کی خالی جگہوں کو پر کر دیتے ہیں، روحانی بے چینی کو چین بخشتے ہیں، فکری پیاس بھجاتے ہیں، روحانی ضروریات پوری کرتے ہیں ، نفس کو اطمینان دے کر اس کی تشنگی ختم کر دیتے ہیں۔

لوگ جوق در جوق اللہ کے دین میں داخل ہو رہے ہیں؛ کیونکہ اسی دین نے انسان کو اس کا اصلی مقام دیا، جسم و روح کو بلندیوں تک پہنچایا، انسانیت کے دل و دماغ کو پروان چڑھایا، اسلام نے انسانیت کے سامنے نئے افق کھولے، کائنات کو انسان کے تابع کیا، اور کسی بھی مفید چیز کو اسلام نے حرام قرار نہیں دیا۔

مستقبل اسی دین کا ہے؛ کیونکہ اسلام کی اثر انگیزی ایسی ہے کہ جسے ہم بیان کرنے سے قاصر ہیں، اسلام کے کارناموں کو الفاظ بیان نہیں کر سکتے؛ اس لیے کہ اسلام نے انسان کو گناہوں کی ذلت سے نکال کر اطاعت کی عزت میں لا کھڑا کیا، دنیاوی حد بندیوں سے ابدی وسعتوں تک پہنچایا، دلوں کو نفرت کی بجائے محبت و شفقت کے میدان میں پہنچایا۔

اسلام پھیلتا ہی جائے گا؛ کیونکہ اسلام علم اور اہل علم کو اعلی مقام دیتا ہے، عقل و فکر کی حوصلہ افزائی کرتا ہے، یہی وجہ ہے کہ کسی بھی خطے میں اسلام پہنچا تو اس خطے کو علم کے نور سے منور کر دیا، وہاں علم و عرفان کے دیپ روشن کیے، اس طرح سے امت مسلمہ نے انسانی ترقی کیلیے اپنا کردار ادا کیا، چنانچہ اسلامی طرزِ زندگی سابقہ ثقافتوں کیلیے تکمیل کا باعث بنا۔

لوگ اسلام پر خوش و خرم ہوئے؛ کیونکہ اسلام زندگی کے تمام شعبوں میں پوری انسانیت کیلیے اجتماعی عدل قائم کرتا ہے، اسلام نے اخوت پر مبنی تعلقات کو مضبوط بنایا، باہمی تعاون کی فضا قائم کی، معاشرے میں ایک دوسرے کے کام آنے کی ریت ڈالی، اسی کے بارے میں رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے:

(اگر تم میں سے کوئی اپنے بھائی کی مدد کیلیے اس کے ساتھ چلے تو یہ میری اس مسجد میں دو ماہ اعتکاف کرنے سے افضل ہے، آپ ﷺ نے انگلی سے اشارہ کرتے ہوئے فرمایا)

اسے حاکم نے مستدرک میں روایت کیا ہے۔

اسلام میں عدل کا مفہوم مکمل طور پر واضح ہے، اسلام میں عدل کی جڑیں بہت گہری ہیں، اسلام میں عدل کا معیار حسب اور نسب سے تبدیل نہیں ہوتا، کسی کی شان و شوکت اور دولت سے متاثر نہیں ہوتا، مسلمانوں کی سرزمین پر تمام کے تمام افراد یکساں طور پر عدل سے مستفید ہوتے ہیں، فرمانِ باری تعالی ہے:

{يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُونُوا قَوَّامِينَ لِلَّهِ شُهَدَاءَ بِالْقِسْطِ وَلَا يَجْرِمَنَّكُمْ شَنَآنُ قَوْمٍ عَلَى أَلَّا تَعْدِلُوا اعْدِلُوا هُوَ أَقْرَبُ لِلتَّقْوَى وَاتَّقُوا اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ خَبِيرٌ بِمَا تَعْمَلُونَ}

اے ایمان والو ! اللہ کی خاطر قائم رہنے والے اور انصاف کے ساتھ گواہی دینے والے بنو۔ اور کسی قوم کی دشمنی تمہیں اس بات پر مشتعل نہ کر دے کہ تم عدل کو چھوڑ دو۔ عدل کیا کرو، یہی بات تقوی کے قریب تر ہے اور اللہ سے ڈرتے رہو۔ جو کچھ تم کرتے ہو یقیناً اللہ اس سے باخبر ہے [المائدة: 8]

اسلام کی نشر و اشاعت کی ذمہ داری مسلمانوں پر عائد ہے، ان پر واجب ہے کہ اس دھرتی کے ہر گوشے میں اسلام کی تعلیمات پہنچائیں، اس ذمہ داری کی ابتدا رسول اللہ ﷺ سے ہوئی، فرمانِ باری تعالی ہے:

{يَاأَيُّهَا الرَّسُولُ بَلِّغْ مَا أُنْزِلَ إِلَيْكَ مِنْ رَبِّكَ}

اے رسول! تمہارے رب کی طرف سے جو کچھ تمہاری جانب نازل کیا گیا ہے اس کی تبلیغ کریں۔[المائدة: 67]

اور اسی طرح رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے:

(میری طرف سے آگے پہنچاؤ چاہے ایک آیت ہی کیوں نہ ہو) بخاری

رسول اللہ ﷺ نے اسلام کی نشر و اشاعت کیلیے تمام ممکنہ اسباب اپنائے، چنانچہ جس وقت ابو ذر غفاری رضی اللہ عنہ مسلمان ہوئے تو آپ ﷺ نے انہیں اسلام کی دعوت کیلیے اپنے قبیلے بنو غفار میں رہنے کا حکم دیا، اسی طرح جب طفیل بن عمر دوسی رضی اللہ عنہ مسلمان ہوئے تو ان سے بھی اپنے قبیلے دوس میں رہنے کا مطالبہ کیا تا کہ وہاں پر اسلام کی نشر و اشاعت کا کام ہو۔

مسلمان کو اسلام کی نشر و اشاعت کا حکم دیا گیا ہے، تاہم مسلمان لوگوں کو اسلام قبول کرنے پر مجبور نہیں کر سکتے، ان پر جبر نہیں کر سکتے، فرمانِ باری تعالی ہے:

{إِنْ عَلَيْكَ إِلَّا الْبَلَاغُ}

آپ کی ذمہ داری تو صرف تبلیغ ہے۔[الشورى: 48]

اسی طرح اللہ تعالی کا فرمان ہے:

{لَيْسَ عَلَيْكَ هُدَاهُمْ وَلَكِنَّ اللَّهَ يَهْدِي مَنْ يَشَاءُ}

آپ کے ذمہ نہیں ہے انہیں راہِ راست پر چلانا، وہ تو اللہ جسے چاہے راہِ راست پر چلاتا ہے۔[البقرة: 272]

اس دین کو پھیلانے کی ذمہ داری ان مسلمانوں پر بھی ہے جو غیر مسلم ممالک میں رہ رہے ہیں، چاہے وہ سفیر ،طلبا، تاجر یا مزدور کچھ بھی ہوں۔

اسلام کی نشر و اشاعت کا کام بہت ہی عظمت والا عمل ہے اور بلند مقام کا باعث ہے، فرمانِ باری تعالی ہے:

{وَمَنْ أَحْسَنُ قَوْلًا مِمَّنْ دَعَا إِلَى اللَّهِ وَعَمِلَ صَالِحًا وَقَالَ إِنَّنِي مِنَ الْمُسْلِمِينَ}

اور اس شخص سے بہتر بات کس کی ہو سکتی ہے جو اللہ کی جانب دعوت دے اور نیک عمل کرے، نیز کہے میں تو مسلمان ہوں۔[فصلت: 33]

اسی طرح آپ ﷺ کا فرمان ہے:

(اگر اللہ تعالی تمہاری وجہ سے کسی ایک کو بھی ہدایت دے دے تو یہ تمہارے لیے سرخ اونٹوں سے بھی بہتر ہے) بخاری، مسلم

اور ہم یہ بات بڑے وثوق سے کہہ سکتے ہیں کہ سلف صالحین کے ہاتھوں اسلام کی نشر و اشاعت کا مؤثر ترین ذریعہ یہ تھا کہ فتوحات میں بھی ان کا رویہ بہت عادلانہ ہوتا ، ان کے فیصلے انصاف پر مبنی ہوتے تھے، ان کا اخلاق دین، تقوی اور استقامت میں رنگا ہوتا تھا، ان میں سب سے پہلے ان مسلم فاتحین اور افواج کا ذکر آتا ہے جو جنگجو نہیں بلکہ واعظ تھیں، اسلام کی آبیاری کرنے والے یہ قائدین صاف دل، پاک روح اور اعلی احساسات کے مالک تھے، بلکہ ان میں ہر ایک شخص شفقت و رحمت کا سر چشمہ تھا، جہاں سے ہر وقت لوگ مستفید ہوتے تھے۔

اسلام کی نشر و اشاعت کیلیے سب سے مؤثر ترین ذریعہ یہ ہے کہ بشریت کے کانوں تک قرآن کریم آواز پہنچا دیں، درج ذیل آیت میں مشرکین کو قرآن کریم کی تلاوت سنانے کی تاکید ہے، فرمانِ باری تعالی ہے:

{وَإِنْ أَحَدٌ مِنَ الْمُشْرِكِينَ اسْتَجَارَكَ فَأَجِرْهُ حَتَّى يَسْمَعَ كَلَامَ اللَّهِ ثُمَّ أَبْلِغْهُ مَأْمَنَهُ ذَلِكَ بِأَنَّهُمْ قَوْمٌ لَا يَعْلَمُونَ}

اگر مشرکوں میں سے کوئی آپ سے پناہ طلب کرے تو اسے پناہ دے دو یہاں تک کہ وہ کلام اللہ سن لے پھر اسے اپنی جائے امن تک پہنچا دو، کیونکہ وہ علم نہیں رکھتے ۔ [التوبہ: 6]

اسلام کی نشر و اشاعت میں مصروف افراد جدید میڈیا اور ٹیکنالوجی کی دعوتی نقطہ نظر سے اہمیت اور ضرورت جانتے ہیں ۔

یہ ٹھیک ہے کہ اسلام کی نشر و اشاعت کیلیے ہمارے ہاں بہت کوتاہیاں ہیں لیکن اللہ تعالی نے میڈیا کے ان سر گرم ذرائع کو مسخّر فرما دیا ہے؛ بشرطیکہ عالمی طور پر اسلام کی روشن تعلیمات پہنچانے کیلیے ان کا استعمال صحیح طریقے سے کریں، اور اسلام کی صورت مسخ کرنے والوں کے خلاف اقدامات کریں۔

یہ بات سب کیلیے عیاں ہے کہ اسلام کو آئے دن کسی نہ کسی صورت میں جھوٹ، ظلم و زیادتی کا سامنا رہتا ہے، کوئی شدت پسندی اور دہشت گردی کو اسلام اور مسلمانوں سے نتھی کرتا ہے ، تو کوئی کارٹون اور میڈیا کے تراشوں کا سہارا لیکر دین اسلام سے خوف زدہ کرتا ہے کہ یہ دین شکوک و شبہات، قدامت پسندی، تنزلی، اور منفی سوچ کا حامل دین ہے۔

لیکن ان تمام چیزوں سے اسلام کی اصل صورت مسخ نہیں ہو سکتی، اور نہ مسلم نوجوانوں کے بازو کو کمزور کر سکتی ہے، اسلام کے نور اور چمکتی دمکتی خوبصورتی میں کمی بھی نہیں لا سکتی، فرمانِ باری تعالی ہے:

{يُرِيدُونَ لِيُطْفِئُوا نُورَ اللَّهِ بِأَفْوَاهِهِمْ وَاللَّهُ مُتِمُّ نُورِهِ وَلَوْ كَرِهَ الْكَافِرُونَ}

وہ تو چاہتے ہیں کہ اپنی پھونکوں سے نورِ الہی کو بھجا دیں، حالانکہ اللہ اپنے نور کو مکمل کرنے والا ہے، چاہے کافروں کو ناگوار گزرے۔[الصف: 8]

اسی طرح اللہ تعالی کا فرمان ہے:

{وَيَأْبَى اللَّهُ إِلَّا أَنْ يُتِمَّ نُورَهُ وَلَوْ كَرِهَ الْكَافِرُونَ}

اور اللہ کو یہ بات منظور نہیں۔ وہ اپنے نور کو پورا کر کے رہے گا، خواہ یہ بات کافروں کو کتنی ہی بری لگے۔[التوبہ: 32]

جھوٹ اور بہتان بازی کرتے ہوئے انہوں نے کہا ہے کہ اسلام تلوار کے زور پہ پھیلا، حالانکہ اسلام نے کبھی بھی کسی کو اپنا عقیدہ تبدیل کرنے پر مجبور نہیں کیا، بلکہ تاریخ حق اور انصاف کی روشنائی کے ذریعے اس بات کی گواہی دے گی کہ اسلام کا پھیلاؤ براہین، دلائل ، فیاضی اور عدل سے ہوا ہے، فرمانِ باری تعالی ہے:

{لَا إِكْرَاهَ فِي الدِّينِ قَدْ تَبَيَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَيِّ}

دین قبول کرنے میں کوئی جبر نہیں، یقیناً بھلائی گمراہی سے واضح ہو چکی ہے۔[البقرة: 256]

اور ایسے ہی اللہ تعالی نے فرمایا:

{أَفَأَنْتَ تُكْرِهُ النَّاسَ حَتَّى يَكُونُوا مُؤْمِنِينَ}

تو کیا آپ لوگوں کو اس وقت تک مجبور کریں گے کہ وہ مومن بن جائیں!؟[يونس: 99]

اللہ تعالی میرے اور آپ سب کیلیے قرآن کریم کو بابرکت بنائے، اللہ تعالی مجھے اور آپ سب کو قرآن مجید سے مستفید ہونے کی توفیق دے، میں اپنی بات کو اسی پر ختم کرتے ہوئے اللہ سے اپنے اور تمام مسلمانوں کے گناہوں کی بخشش چاہتا ہوں، آپ سب بھی اسی سے اپنے گناہوں کی بخشش مانگیں وہی بخشنے والا اور نہایت رحم کرنے والا ہے۔

دوسرا خطبہ:

{الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي هَدَانَا لِهَذَا وَمَا كُنَّا لِنَهْتَدِيَ لَوْلَا أَنْ هَدَانَا اللَّهُ}

تمام تعریفیں اللہ ہی کے لیے ہے جس نے ہمیں [اسلام کی] راہ دکھائی اگر اللہ ہمیں یہ راہ نہ دکھاتا تو ہم کبھی یہ راہ نہ پا سکتے تھے۔ [الأعراف: 43]

میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبود بر حق نہیں وہ یکتا اور اکیلا ہے اس کا کوئی شریک نہیں، آسمان و زمین میں اسی عبادت کی جاتی ہے، اور یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ ہمارے نبی اور سربراہ محمد اللہ کے بندے اور اس کے چنیدہ اور برگزیدہ رسول ہیں ، اللہ تعالی آپ پر ، آپ کی آل و صحابہ کرام پر اور آپ کے پیروکاروں پر رحمتیں نازل فرمائے۔

حمد اور درود کے بعد:

میں تمام سامعین اور اپنے آپ کے تقوی الہی کی نصیحت کرتا ہوں۔

اللہ کے بندو!

کچھ لوگوں کے لا علمی کی بنا پر گمراہی پر چلنے یا منحرف نظریات اپنانے کی وجہ سے مسلمانوں کے متعلق لوگوں کا تصور بگاڑنے کا باعث بنتے ہیں ۔

متصادم مناہج امت کو تقسیم در تقسیم کرتے ہیں اور امت کے اتحاد کو نقصان پہنچاتے ہیں، اس سے دینِ اسلام کی نشر و اشاعت متاثر ہوتی ہے۔

یہ بات ذہن سے اوجھل نہیں ہونی چاہیے کہ مملکت حرمین شریفین کے مسلمانوں پر اس دین کی آبیاری کیلیے ذمہ داری بہت بڑی ہے؛ کیونکہ یہاں پر ہی مسلمانوں کا قبلہ اور رسول اللہ ﷺ کی جائے ہجرت ہے، فرمانِ باری تعالی ہے:

{كُنْتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَتَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَتُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ}

تم بہترین امت ہو جو لوگوں کے لیے نکالی گئی ہے کہ تم نیک باتوں کا حکم کرتے اور بری باتوں سے منع کرتے ہو اور اللہ تعالی پر ایمان رکھتے ہو [آل عمران: 110]

اللہ کے بندو!

رسولِ ہُدیٰ پر درود وسلام پڑھو، اللہ تعالی نے اپنی کتاب میں تمہیں اسی کا حکم دیتے ہوئے فرمایا:

{إِنَّ اللَّهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًا}

اللہ اور اس کے فرشتے نبی پر درود بھیجتے ہیں، اے ایمان والو! تم بھی اس پر درود و سلام بھیجا کرو۔[الأحزاب: 56]

اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ، وَأَزْوَاجِهِ وَذُرِّيَّتِهِ، كَمَا صَلَّيْتَ عَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ، وَبَارِكْ عَلَى مُحَمَّدٍ وَأَزْوَاجِهِ وَذُرِّيَّتِهِ، كَمَا بَارَكْتَ عَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ

یا اللہ! چاروں خلفائے راشدین ابو بکر، عمر، عثمان، اور علی سے راضی ہو جا، انکے ساتھ ساتھ اہل بیت، اور تمام صحابہ کرام سے راضی ہو جا، اور اپنے رحم و کرم، اور احسان کے صدقے ہم سے بھی راضی ہو جا، یا ارحم الراحمین!

یا اللہ! اسلام اور مسلمانوں کو غلبہ نصیب فرما، یا اللہ! اسلام اور مسلمانوں کو غلبہ نصیب فرما، ، کافروں کیساتھ کفر کو بھی ذلیل و رسوا فرما، یا اللہ! تیرے اور دین کے دشمنوں کو نیست و نابود کر دے، یا اللہ! اس ملک کو اور سارے اسلامی ممالک کو امن کا گہوارہ بنا دے۔

یا اللہ! جو بھی ہمارے بارے میں یا اسلام اور مسلمانوں کے متعلق برے ارادے رکھے تو اسے اپنی جان کے لالے پڑ جائیں، اس کی مکاری اسی کی تباہی کا باعث بنا دے، یا سمیع الدعاء! یا اللہ! جو بھی ہمارے بارے میں یا اسلام اور مسلمانوں کے متعلق برے ارادے رکھے تو اسے اپنی جان کے لالے پڑ جائیں، اس کی مکاری اسی کی تباہی کا باعث بنا دے، یا سمیع الدعاء!

یا اللہ! اپنے دین، قرآن، سنت نبوی اور تیرے مومن بندوں کی مدد فرما، یا اللہ! پوری دنیا میں کمزور مسلمانوں کی مدد فرما، یا اللہ! ان کا حامی و ناصر اور مدد گار بن جا۔

یا اللہ! وہ بھوکے ہیں ان کے کھانے پینے کا بندوبست فرما، وہ ننگے پاؤں ہیں انہیں جوتے فراہم فرما، ان کے تن برہنہ ہیں انہیں ڈھانپنے کیلیے کپڑے عطا فرما، یا اللہ! ان پر ظلم ڈھایا جا رہا ہے ان کا بدلہ چکا دے، یا اللہ! ان پر ظلم ڈھایا جا رہا ہے ان کا بدلہ چکا دے، یا اللہ! ان پر ظلم ڈھایا جا رہا ہے ان کا بدلہ چکا دے، یا رب العالمین! یا قوی! یا متین!

یا اللہ! کتاب نازل کرنے والے، بادلوں کو چلانے والے، لشکروں کو پچھاڑنے والے دشمنانِ اسلام کو شکست سے دوچار فرما، یا رب العالمین!

یا اللہ! ہم تجھ سے جنت اور اس کے قریب کرنے والے اعمال کا سوال کرتے ہیں، اور جہنم اور اس کے قریب کرنے والے ہر عمل سے تیری پناہ چاہتے ہیں۔

یا اللہ! ہم تجھ سے ابتدا سے لیکر انتہا تک ہر قسم کی جامع خیر کا سوال کرتے ہیں، شروع سے لیکر اختتام تک ، ظاہری ہو یا باطنی سب کا سوال کرتے ہیں، اور جنت میں بلند درجات کے سوالی ہیں، یا رب العالمین!

یا اللہ! ہم تجھ سے ہر قسم کی خیر کا سوال کرتے ہیں چاہے وہ فوری ملنے والی یا تاخیر سے، ہمیں اس کے بارے میں علم ہے یا نہیں، اور اسی طرح یا اللہ! ہم ہر قسم کے شر سے تیری پناہ چاہتے ہیں چاہے وہ فوری آنے والا ہے یا تاخیر سے، ہمیں اس کے بارے میں علم یا نہیں۔

یا اللہ! ہم تجھ سے ہدایت، تقوی، تونگری اور عفت مانگتے ہیں، یا اللہ! ہم جنت کا تجھ سے سوال کرتے ہیں اور جہنم سے تیری پناہ چاہتے ہیں۔

یا اللہ! ہم تیری نعمتوں کے زوال ، تیری طرف سے ملنے والی عافیت کے خاتمے ، تیری اچانک پکڑ اور تیری ہمہ قسم کی ناراضی سے تیری پناہ چاہتے ہیں۔

یا اللہ! ہم تجھ سے دین اسلام پر ثابت قدمی، رشد و ہدایت پر استقامت، ہمہ قسم کی ڈھیروں نیکیاں، ہمہ قسم کے گناہوں سے سلامتی، جنت میں داخلہ اور جہنم سے آزادی مانگتے ہیں۔

یا اللہ! ہم تجھ سے تیری رضا اور جنت مانگتے ہیں، اور تیری ناراضگی اور جہنم سے تیری پناہ مانگتے ہیں۔

یا اللہ! ہم پر اپنی برکت، رحمت، فضل اور رزق کے دروازے کھول دے۔

یا اللہ! قرآن کریم کو ہمارے دلوں کی بہار، سینوں کا نور بنا دے، دکھوں کو چھٹنے والا، غموں اور پریشانیوں کو مٹانے والا بنا دے۔

یا اللہ! ہمارا خاتمہ بالخیر فرما، یا اللہ! ہمارے تمام معاملات کا انجام کار خیر فرما، یا اللہ! ہمارے تمام معاملات سنوار دے، یا اللہ! ہمیں ایک لمحے کیلیے بھی ہمارے رحم و کرم پر نہ چھوڑنا، اور نہ ہی ہمیں ایک لمحہ کیلیے بھی اپنی کسی مخلوق کے سپرد کرنا۔

یا اللہ! ہم تجھ سے خاتمہ بالخیر مانگتے ہیں، ماضی میں گناہ اور پاپ جو کچھ بھی ہوا ان کی معافی مانگتے ہیں۔

یا اللہ!ہمارے حکمران کو تیرے پسندیدہ کام کرنے کی توفیق عطا فرما، یا اللہ ان کے تمام کام اپنی رضا کیلیے بنا لے یا رب العالمین! یا اللہ! تمام مسلم حکمرانوں کو کتاب و سنت کے نفاذ اور شریعت کو بالا دستی دینے کی توفیق عطا فرما، یا ارحم الراحمین!

یا اللہ! فوت شدگان پر رحم فرما، بیماروں کو شفا یاب فرما، اور ہمارے معاملات کی باگ ڈور سنبھال لے، یا ارحم الراحمین!

یا اللہ! ہمیں ، ہمارے والدین، تمام مسلم مرد اور خواتین کو بخش دے، یا ارحم الراحمین!

یا اللہ! ہم تجھ سوال کرتے ہیں کہ یا اللہ! تو ہی معبودِ بر حق ہے، تیرے سوا کوئی معبود نہیں، تو ہی غنی ہے ہم تیرے در کے فقیر ہیں، ہمیں بارش عطا فرما، اور ہمیں مایوس مت فرما، یا اللہ! ہمیں بارش عطا فرما، یا اللہ! ہمیں بارش عطا فرما، یا اللہ! ہمیں بارش عطا فرما، یا اللہ! عذاب، تباہی، غرق اور منہدم کرنے والی بارش نہ ہو، یا اللہ! بارش کے ذریعے دھرتی کو زندہ فرما، بندوں کو پینے کا پانی مہیا فرما، اور اس پانی کو شہروں اور دیہاتوں سب کیلیے مفید بنا، یا ارحم الراحمین!

{رَبَّنَا ظَلَمْنَا أَنْفُسَنَا وَإِنْ لَمْ تَغْفِرْ لَنَا وَتَرْحَمْنَا لَنَكُونَنَّ مِنَ الْخَاسِرِينَ }

ہمارے پروردگار! ہم نے اپنے آپ پر ظلم کیا اور اگر تو نے ہمیں معاف نہ کیا اور ہم پر رحم نہ کیا تو ہم بہت نقصان اٹھانے والوں میں سے ہو جائیں گے [الأعراف: 23]

{رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا وَلِإِخْوَانِنَا الَّذِينَ سَبَقُونَا بِالْإِيمَانِ وَلَا تَجْعَلْ فِي قُلُوبِنَا غِلًّا لِلَّذِينَ آمَنُوا رَبَّنَا إِنَّكَ رَءُوفٌ رَحِيمٌ}

اے ہمارے پروردگار! ہمیں بھی بخش دے اور ہمارے ان بھائیوں کو بھی جو ہم سے پہلے ایمان لائے تھے اور جو لوگ ایمان لائے ہیں, ان کے لیے ہمارے دلوں میں کدورت نہ رہنے دے, اے ہمارے پروردگار! تو بڑا مہربان اور رحم کرنے والا ہے[الحشر: 10]

{رَبَّنَا آتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً وَفِي الْآخِرَةِ حَسَنَةً وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ}

ہمارے رب! ہمیں دنیا اور آخرت میں بھلائی عطا فرما، اور ہمیں آخرت کے عذاب سے محفوظ رکھ۔ [البقرة: 201]

{إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْإِحْسَانِ وَإِيتَاءِ ذِي الْقُرْبَى وَيَنْهَى عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنْكَرِ وَالْبَغْيِ يَعِظُكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ}

اللہ تعالیٰ تمہیں عدل، احسان اور قرابت داروں کو (امداد) دینے کا حکم دیتا ہے اور بے حیائی، برے کام اور سرکشی سے منع کرتا ہے۔ وہ تمہیں اس لئے نصیحت کرتا ہے کہ تم اسے (قبول کرو) اور یاد رکھو [النحل: 90]

تم اللہ کا ذکر کرو وہ تمہیں یاد رکھے گا، اسکی نعمتوں کا شکر ادا کرو ، وہ تمہیں اور زیادہ عنایت کرے گا، اللہ کی یاد بہت ہی بڑی عبادت ہے، اور اللہ تعالی تمہارے تمام اعمال سے بخوبی واقف ہے۔

پی ڈی ایف فارمیٹ میں ڈاؤنلوڈ یا پرنٹ کیلیے کلک کریں

عربی آڈیو، ویڈیو اور ٹیکسٹ سمیت انگلش ترجمہ کیلیے کلک کریں
 
Top