• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اسلام کے بنیادی عقائد

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,861
ری ایکشن اسکور
41,093
پوائنٹ
1,155
فرشتوں پر ایمان

"ملائکہ" یعنی فرشتے ایک پوشیدہ اور اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنے والی مخلوق ہیں،ان میں "ربوبیت" اور "الوہیت" کی کوئی خصوصیت موجود نہیں،اللہ تعالیٰ نے انہیں نور سے پیدا فرمایا ہے اور ان کو اپنے تمام احکام پوری طرھ بجا لانے اور انہیں نافذ کرنے کی قدرت و قوت عطا فرمائی ہے۔اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
وَلَهُۥ مَن فِى ٱلسَّمَٰوَٰتِ وَٱلْأَرْضِ ۚ وَمَنْ عِندَهُۥ لَا يَسْتَكْبِرُونَ عَنْ عِبَادَتِهِۦ وَلَا يَسْتَحْسِرُونَ ﴿19﴾يُسَبِّحُونَ ٱلَّيْلَ وَٱلنَّهَارَ لَا يَفْتُرُونَ ﴿20﴾
ترجمہ: اور اسی کا ہے جو کوئي آسمانوں اور زمین میں ہے اور جو اس کے ہاں ہیں اس کی عبادت سے تکبر نہیں کرتےاور نہ تھکتے ہیں رات اور دن تسبیح کرتے ہیں سستی نہیں کرتے (سورۃ الانبیاء،آیت 19-20)
فرشتوں کی تعداد بہت زیادہ ہے ،اللہ تعالیٰ کے سوا ان کی صحیح تعداد کوئی نہیں جانتا۔
حضرت انس رضی اللہ عنہ کی قصہ معراج والی حدیث میں ہے:
"نبی ﷺ جب آسمان پر "بیت المعمور" پر پہنچے تو دیکھا کہ اس میں ہر روز ستر ہزار فرشتے نماز پڑھتے ہیں اور جو اس میں ایک بار (نماز پڑھ کر ) چلا جاتا ہے دوبارہ اس میں لوٹ کر نہیں آتا،یعنی پھر کبھی اس کی واپسی کی نوبت نہیں آتی۔"(صحیح بخاری،بد ء الخلق ،باب ذکر الملائکۃ صلوات اللہ علیھم،حدیث :3207،وصحیح مسلم ،الایمان،باب الاسراء برسول اللہ۔۔۔۔،حدیث :164)
فرشتوں پر ایمان لانا چار امور پر مشتمل ہے:
(1)فرشتوں کے وجود پر ایمان۔
(2)جن فرشتوں کے نام ہمیں معلوم ہیں ان پر ایمان مفصل اور جن فرشتوں کے نام معلوم نہیں ان سب پر اجمالا ایمان لانا۔
(3)فرشتوں کی جن صفات کا ہمیں علم ہے ان پر ایمان لانا جیسا کہ حضرت جبرائیل علیہ السلام کی صفت کے متعلق نبی ﷺ نے بیان فرمایا:
میں نے جبرائیل علیہ السلام کو ان کی اصل شکل و صورت میں دیکھا۔ان کے چھ سو پر تھے اور انہوں نے افق کو بھر رکھا تھا۔یعنی پوری فضا پر چھائے ہوئے تھے۔(مسند احمد:1/407،412،460۔)
کبھی فرشتے اللہ تعالیٰ کے حکم سے انسانی شکل و صورت میں بھی ظاہر ہوتے ہیں جیسا کہ حضرت جبرائیل علیہ السلام کے متعلق معروف ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے انہیں حضرت مریم علیھا السلام کے پاس بھیجا تو وہ ان کے پاس ایک عام انسان کی شکل میں آئے تھے۔
اسی طرح ایک مرتبہ حضرت جبرائیل علیہ السلام نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے ،اس وقت آپ (ﷺ) صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کے درمیان تشریف فرما تھے۔وہ ایک ایسے شخص کی شکل میں آئے تھے کہ ان کے کپڑے انتہائی سفید اور سر کے بال غیر معمولی طور پر سیاہ تھے اور ان پر سفر کے آثار بھی نہیں تھے،صحابہ میں سے کوئی بھی انہیں نہیں پہچانتا تھا۔وہ اپنے گھٹنے نبی ﷺ کے گھٹنوں سے ملا کر بیٹھ گئے اور اپنے ہاتھ اپنی رانوں پر رکھ لیے۔انہوں نے نبی ﷺ سے اسلام،ایمان،احسان،قیامت کی گھڑی اور اس کی نشانیوں کے بارے میں سوال کیا۔نبی ﷺ انہیں جواب دیتے رہے۔پھر نبی ﷺ نے صحابہ کرام رضی اللہ عنھم سے مخاطب ہو کر فرمایا:
((ھذا جبریل اتاکم یعلمکم دینکم))
"یہ جبرائیل تھے جو تمہیں تمہارا دین سکھانے آئے تھے۔"(صحیح مسلم،الایمان،باب الایمان ما ھو؟وبیان خصالہ،حدیث:9،10)
اسی طرح وہ فرشتے جن کو اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم اور حضرت لوط علیھم السلام کے پاس بھیجا تھا وہ بھی انسان ہی کی شکل میں آئےتھے۔
(4)فرشتوں کے ان اعمال پر ایمان لانا جو ہمیں معلوم ہیں اور وہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے انجام دیتےہیں،مثلا اللہ عزوجل کی تسبیح کرنا اور دن رات مسلسل بغیر تھکاوٹ اور اکتاہٹ کے اس کی عبادت کرنا وغیرہ۔بعض فرشتے مخصوص اعمال کے لیے مقرر ہیں۔جن کی تفصیل حسب ذیل ہے:
جبریل امین
اللہ تعالیٰ کی وحی پہنچانے پر مامور ہیں۔اللہ تعالیٰ نے اپنی وحی کے ساتھ انہیں اپنے نبیوں اور رسولوں کے پاس بھیجا ہے۔
میکائیل
ان کے ذمہ بارش اور نباتات (یعنی روزی) پہنچانے کا کام ہے۔
اسرافیل
قیامت کی گھڑی اور مخلوق کو دوبارہ زندہ کیے جانے کے وقت صور پھونکنے پر مامور ہیں۔
موت کا فرشتہ
موت کے وقت روح قبض کرنے پر مامور ہے۔
مالک
یہ فرشتہ داروغہ جہنم ہے۔
جنین پر مامور فرشتے
اس سے مراد وہ فرشتے ہیں جو شکم مادر مین جنین (بچے) پر مامور ہیں،چنانچہ جب انسان ماں کے رحم میں چار ماہ کی مدت پوری کر لیتا ہےتو االلہ تعالیٰ اس کے پاس ایک فرشتہ بھیجتا ہے جو اس کی موت،اس کے عمل اور اس کے بد بخت یا سعادت مند ہونے کو اھاطہ تحریر میں لاتا ہے۔
نبی آدم کے اعمال کی حفاظت پر مامور فرشتے
ہر شخص کے اعمال کی حفاظت اور انہیں لکھنے کے لیے دو فرشتے مقرر ہیں جن میں سے ایک انسان کے دائیں جانب اور دوسرا بائیں جانب رہتا ہے۔
مُردوں سے سوال کرنے پر مامور فرشتے
جب میت کو قبر میں رکھ دیا جاتا ہے تو اس کے پاس دو فرشتے آتے ہیں جو اس سے اس کے رب ،اس کے دین اور اس کے نبی کی بابت سوال کرتے ہیں۔
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,861
ری ایکشن اسکور
41,093
پوائنٹ
1,155
فرشتوں پر ایمان لانے کے ثمرات

*اللہ تعالیٰ کی عظمت و کبریائی ۔اس کی قوت اور اس کی س؛طنت کا علم کیونکہ مخلوق کی عظمت درحقیقت خالق کی عظمت کی دلیل ہے۔
*بنی آدم پر عنایات و انعامات کرنے پر اللہ تعالیٰ کا شکریہ ادا کرنا کہ اس نے ان فرشتوں کو بنی آدم کی حفاظت ،ان کے اعمال لکھنے اور دیگر مصلحتوں پر مامور فرمایا ہے۔*فرشتوں سے محبت کہ وہ اللہ تعالیٰ کی عبادت اور اپنے سپرد کردہ فرائض کی انجام دہی میں مصروف ہیں۔
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,861
ری ایکشن اسکور
41,093
پوائنٹ
1,155
فرشتوں کے متعلق بعض شبہات اور ان کا ازالہ

گمراہ اور بدنیتوں کی ایک جماعت نے فرشتوں کے مجسم مخلوق ہونے کا انکار کیا ہے۔ان کا دعوی ہے کہ فرشتے دراصل مخلوقات مین موجود خیروبرکت کی (پوشیدہ)قوتوں کا نام ہے لیکن یہ دعوی کتاب اللہ،سنت رسول اللہ ﷺ اور تمام مسلمانو کے اجماع کو صریھا جھٹلانے کے مترادف ہے۔اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
ٱلْحَمْدُ لِلَّهِ فَاطِرِ ٱلسَّمَٰوَٰتِ وَٱلْأَرْضِ جَاعِلِ ٱلْمَلَٰٓئِكَةِ رُسُلًا أُو۟لِىٓ أَجْنِحَةٍۢ مَّثْنَىٰ وَثُلَٰثَ وَرُبَٰعَ ۚ
ترجمہ: سب تعریف الله کے لیے ہے جو آسمانوں اور زمین کا بنانے والا ہے فرشتوں کو رسول بنانے والا ہے جن کے دو دو تین تین چار چار پر ہیں (سورۃ فاطر،آیت 1)
اور ایک جگہ یوں ارشاد ہوا:
وَلَوْ تَرَىٰٓ إِذْ يَتَوَفَّى ٱلَّذِينَ كَفَرُوا۟ ۙ ٱلْمَلَٰٓئِكَةُ يَضْرِبُونَ وُجُوهَهُمْ وَأَدْبَٰرَهُمْ
ترجمہ: اور اگر تو دیکھے جس وقت فرشتے کافروں کی جان قبض کرتے ہیں ان کے مونہوں او رپیٹہوں پر مارتے ہیں (سورۃ الانفال،آیت 50)
اور ایک جگہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
وَلَوْ تَرَىٰٓ إِذِ ٱلظَّٰلِمُونَ فِى غَمَرَٰتِ ٱلْمَوْتِ وَٱلْمَلَٰٓئِكَةُ بَاسِطُوٓا۟ أَيْدِيهِمْ أَخْرِجُوٓا۟ أَنفُسَكُمُ ۖ
ترجمہ: اور کاش تم ان ظالم (یعنی مشرک) لوگوں کو اس وقت دیکھو جب موت کی سختیوں میں (مبتلا) ہوں اور فرشتے (ان کی طرف عذاب کے لئے) ہاتھ بڑھا رہے ہوں کہ نکالو اپنی جانیں۔ (سورۃ الانعام،آیت 93)
ایک اور مقام پر ارشاد باری تعالیٰ ہے:
حَتَّىٰٓ إِذَا فُزِّعَ عَن قُلُوبِهِمْ قَالُوا۟ مَاذَا قَالَ رَبُّكُمْ ۖ قَالُوا۟ ٱلْحَقَّ ۖ وَهُوَ ٱلْعَلِىُّ ٱلْكَبِيرُ ﴿23﴾
ترجمہ: یہاں تک کہ جب ان کے دل سے گھبراہٹ دور ہوجاتی ہے کہتے ہیں تمہارے رب نے کیا فرمایا وہ کہتے ہیں سچی بات فرمائی اوروہی عالیشان اور سب سے بڑا ہے (سورۃ سبا،آیت 23)
اور اہل جنت کے متعلق ارشاد ہوتا ہے:
جَنَّٰتُ عَدْنٍۢ يَدْخُلُونَهَا وَمَن صَلَحَ مِنْ ءَابَآئِهِمْ وَأَزْوَٰجِهِمْ وَذُرِّيَّٰتِهِمْ ۖ وَٱلْمَلَٰٓئِكَةُ يَدْخُلُونَ عَلَيْهِم مِّن كُلِّ بَابٍۢ ﴿23﴾سَلَٰمٌ عَلَيْكُم بِمَا صَبَرْتُمْ ۚ فَنِعْمَ عُقْبَى ٱلدَّارِ ﴿24﴾
ترجمہ: ہمیشہ رہنے کے باغ جن میں وہ خود بھی رہیں گے اور ان کے باپ دادا اوربیویوں اور اولاد میں سے بھی جو نیکو کار ہیں اور ان کے پاس فرشتے ہر دروازے سے آئیں گے کہیں گے تم پر سلامتی ہو تمہارے صبر کرنے کی وجہ سے پھر آخرت کا گھر کیا ہی اچھا ہے (سورۃ الرعد،آیت 23،24)
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے ارشاد فرمایا:
"جب اللہ تعالیٰ اپنے کسی بندے کو پسند فرماتا ہے تو جبریل کو پکارتا ہے اور ان سے کہتا ہے کہ بے شک اللہ فلاں بندے کو محبوب رکھتا ہے ،پس تم بھی اس سے محبت کرو،تو جبرائیل علیہ السلام بھی اس سے محبت کرتے ہیں۔پھر جبرائیل علیہ السلام آسمان والوں کو پکارتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ اپے فلاں بندے کو محبوب رکھتا ہے ،تم لوگ بھی اس سے محبت رکھو تو تمام آسمان والے بھی اس بندے سے محبت کرنے لگتے ہیں۔پھر اس کو زمین پر بھی شرف قبولیت سے نوازا جاتا ہے۔(صحیح بخاری ،بدالخلق،باب ذکر الملائکۃ صلوات اللہ علیھم،۔۔۔۔۔حدیث:3209)
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ایک دوسری حدیث ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا:
"جمعہ کے دن مسجد کے تمام دروازوں پر فرشتے کھڑے ہو جاتے ہیں اور مسجد میں آنے والے نمازیوں (کے ناموں)کا ترتیب وار اندراج کرتے ہیں،پھر جب امام (خطبہ کے لیے منبر پر) بیٹھ جاتا ہے تو وہ بھی اپنے اپنے رجسٹر بند کر کے ( اللہ تعالیٰ کا ذکر) سننے کے لیے ( مسجد میں) آ جاتے ہیں۔"(صحیح بخاری ،بدالخلق،باب ذکر الملائکۃ صلوات اللہ علیھم،۔۔۔۔۔حدیث:3211)
کتاب و سنت پر مشتمل مذکورہ بالا تمام نصوص اس بات کی صراحت کرتی ہیں کہ فرشتے مجسم مخلوق ہیں،کوئی پوشیدہ اور معنوی قوتیں نہیں جیسا کہ بعض گمراہ لوگوں کا کہنا ہے ،نیز چونکہ سب دلائل پر تمام مسلمانوں کا اتفاق ہے،لہذا اس مسئلے پر مسلمانوں کا اجماع ثابت ہوا۔
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,861
ری ایکشن اسکور
41,093
پوائنٹ
1,155
کتابوں پر ایمان

کتب،کتاب کی جمع ہے جس کے معنی مکتوب (نوشتہ) کے ہیں۔یہاں "کتب" سے مراد وہ کتابیں ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے مخلوق کی ہدایت کے لیے رسولوں پر نازل فرمایا تاکہ ان کے ذریعے وہ وہ دنیا و آخرت کی سعادت سے بہرہ وہ ہو سکیں۔
کتابوں پر ایمان چار امور پر مشتمل ہے:
(1)اس بات پر ایما کہ یہ کتابیں اللہ تعالیٰ کی جانب سے نازل ہوئیں اور برحق ہیں۔
(2)ان آسمانی کتابوں پر ایمان جن کے نام ہمیں معلوم ہیں،مثلا قرآن کریم جو حضرت محمد ﷺ پر نازل ہوا،"تورات" کا نزول موسی علیہ السلام پر ہوا۔"انجیل" عیسی علیہ السلام پر نازل ہوئی اور "زبور" داودعلیہ السلام کو دی گئی۔ان سب پر مفصل ایمان لانا فرض ہے اور ان کے علاوہ جن صحیفوں اور کتابوں کے نام ہمیں معلوم نہیں،ان سب پر ہمارا ایمان مجمل ہو گا۔
(3)قرآن کریم کی تصدیق کرنا اور ان سابقہ کتب سماوی کی ان خبروں اور آیات کی تصدیق بھی جزوایمان ہے جن میں کوئی تحریف نہیں کی گئی۔
(4)ان کتابوں کے ان احکامات پر برضا و رغبت عمل کرنا بھی ایمان کا حصہ ہے جو منسوخ نہیں ہوئے۔خواہ ہم ان احکام کی حکمت کا ادراک کر سکے ہوں،یا ایسا کرنے سے قاصر رہے ہوں،یاد رہے کہ سابقہ تمام کتب سماوی قرآن کریم کے ذریعے سے منسوخ ہو چکی ہیں۔اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
وَأَنزَلْنَآ إِلَيْكَ ٱلْكِتَٰبَ بِٱلْحَقِّ مُصَدِّقًۭا لِّمَا بَيْنَ يَدَيْهِ مِنَ ٱلْكِتَٰبِ وَمُهَيْمِنًا عَلَيْهِ ۖ
ترجمہ: "اور (اے رسول) ہم نے آپ کی طرف حق کے ساتھ کتاب نازل فرمائی ہے جو سابقہ کتابوں کی تصدیق کرنے والی اور ان کے مضامین کی محافظ ونگران ہے۔"(سورۃ المائدہ،آیت 48)
یعنی قرآن مجید دیگر آسمانی کتابوں پر حاکم ہے،لہذا پہلی کتابوں کے احکام میں سے کسی حکم پر عمل کرررنا جائز نہٰن ہے سوائے اس کے کہ وہ یقینی طور پر درست ہو اور قرآن کریم نے اسے منسوخ نہ کیا ہو بلکہ (پہلی حالت پر)برقرار رکھا ہو۔
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,861
ری ایکشن اسکور
41,093
پوائنٹ
1,155
کتابوں پر ایمان لانے کے ثمرات

*بندوں پر اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم کا علم حاصل ہوتا ہے کہ اس نے ہر قوم کی ہدایت کے لیے ایک کتاب نازل فرمائی۔
*شریعت سازی میں اللہ تعالیٰ کی حکمت بالغہ کا پتہ چلتا ہے کہ اس نے ہر قوم کے لیے ان کے مناسب احوال شریعت عطا کی۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:
لِكُلٍّۢ جَعَلْنَا مِنكُمْ شِرْعَةًۭ وَمِنْهَاجًۭا ۚ
ترجمہ: "تم میں سے ہر ایک کے لیے ہم نے ایک دستور (شریعت) اور ایک راہ عمل مقرر کی۔"(سورۃ المائدۃ،آیت 48)
*اس بارے میں اللہ تعالیٰ کی نعمت کا شکر لازم آتا ہے جو انعامات الہی کے اثبات و دوام کی اولین شرط ہے۔
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,861
ری ایکشن اسکور
41,093
پوائنٹ
1,155
رسولوں پر ایمان

رسل،رسول کی جمع ہے ۔اس کے معنی مرسل،یعنی پیغمبر،مبعوث اور فرستادہ کے ہیں۔جو کسی شے کو پہنچانے کے لیے بھیجا گیا ہو۔یاد رہے کہ یہاں "رسل" سے مراد انسانوں میں سے وہ ہستیاں ہیں جن کی طرف بذریعہ وحی شریعت نازل کی گئی اور انہیں اس تبلیغ کا حکم بھی دیا گیا۔سب سے پہلے رسول حضرت نوح علیہ السلام اور آخری رسول حضرت محمد ﷺ ہیں۔اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
إِنَّآ أَوْحَيْنَآ إِلَيْكَ كَمَآ أَوْحَيْنَآ إِلَىٰ نُوحٍۢ وَٱلنَّبِيِّۦنَ مِنۢ بَعْدِهِۦ ۚ
ترجمہ: بے شک ہم نے تمہاری طرف اسی طرح وحی بھیجی ہے جس طرح نوح اور ان سے پچھلے پیغمبروں کی طرف بھیجی تھی (سورۃ النساء،آیت 163)
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ کی روایت میں نبی ﷺ کے فرمان کا خلاصہ اس طرح ہے:
((ان الناس یاتون الی ادم لیشفع لھم فیعتذر الیھم و یقول: ائتوا نوھا اول رسول بعثہ اللہ "وذکر تمام الحدیث"))
"(قیامت والے دن)لوگ حضرت آدم علیہ السلام کے پاس آئیں گے تاکہ وہ ان کے لیے شفاعت کریں لیکن وہ عذر پیش کریں گے اور کہیں گے کہ آپ لوگ نوح علیہ السلام کے پاس جائیں جو پہلے رسول ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے بھیجا ہے ،پھر انہوں نے پوری حدیث بیان کی ۔"(صحیح بخاری،التفسیر،باب قول اللہ تعالیٰ (وعلم ادم الاسماء کلھا)،حدیث 7410،4476)
اور حضرت محمد ﷺ کے متعلق اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
مَّا كَانَ مُحَمَّدٌ أَبَآ أَحَدٍۢ مِّن رِّجَالِكُمْ وَلَٰكِن رَّسُولَ ٱللَّهِ وَخَاتَمَ ٱلنَّبِيِّنَ ۗ
ترجمہ: محمد تم میں سے کسی مرد کے باپ نہیں لیکن وہ الله کے رسول اورخاتم النبیین ہیں (سورۃ الاحزاب،آیت 40)
کوئی اُمت ایسی نہیں گزری جو کسی رسول سے خالی رہی ہو بلکہ اللہ تعالیٰ نے یا تو کسی رسول کو اس کی اپنی قوم کی طرف مستقل شریعت کے ساتھ مبعوث فرمایا ہے ،یا پھر کسی نبی کو اس سے پہلے رسول کی شریعت کی تجدید کے لیے بذریعہ وحی احکام شریعت بھیجے ہیں۔اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
وَلَقَدْ بَعَثْنَا فِى كُلِّ أُمَّةٍۢ رَّسُولًا أَنِ ٱعْبُدُوا۟ ٱللَّهَ وَٱجْتَنِبُوا۟ ٱلطَّٰغُوتَ ۖ
ترجمہ: اور ہم نے ہر جماعت میں پیغمبر بھیجا کہ اللہ ہی کی عبادت کرو اور بتوں (کی پرستش) سے اجتناب کرو (سورۃ النحل،آیت 36)
ایک اور جگہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَإِن مِّنْ أُمَّةٍ إِلَّا خَلَا فِيهَا نَذِيرٌۭ
ترجمہ: اور کوئی امت نہیں گزری مگر اس میں ایک ڈرانے والا گزر چکا ہے (سورۃ فاطر،آیت 24)
ایک اور مقام پر فرمایا:
إِنَّآ أَنزَلْنَا ٱلتَّوْرَىٰةَ فِيهَا هُدًۭى وَنُورٌۭ ۚ يَحْكُمُ بِهَا ٱلنَّبِيُّونَ ٱلَّذِينَ أَسْلَمُوا۟ لِلَّذِينَ هَادُوا۟
ترجمہ: بیشک ہم نے تورات نازل فرمائی جس میں ہدایت اور روشنی ہے اسی کے مطابق انبیاء جو (اللہ کے) فرمانبردار تھے یہودیوں کو حکم دیتے رہے ہیں (سورۃ المائدہ،آیت 44)
تمام رسول بشر اور مخلوق ہیں ،ان میں سے کسی میں بھی ربوبیت اور الوہیت کی خصوصیات نہیں پائی جاتیں حتی کہ حضرت محمد ﷺ جو اللہ تعالیٰ کے نزدیک تمام رسولوں کے سردار اور بہ لحاظ مرتبہ سب سے بڑے ہیں،کے متعلق اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
قُل لَّآ أَمْلِكُ لِنَفْسِى نَفْعًۭا وَلَا ضَرًّا إِلَّا مَا شَآءَ ٱللَّهُ ۚ وَلَوْ كُنتُ أَعْلَمُ ٱلْغَيْبَ لَٱسْتَكْثَرْتُ مِنَ ٱلْخَيْرِ وَمَا مَسَّنِىَ ٱلسُّوٓءُ ۚ إِنْ أَنَا۠ إِلَّا نَذِيرٌۭ وَبَشِيرٌۭ لِّقَوْمٍۢ يُؤْمِنُونَ ﴿188﴾
ترجمہ: کہہ دو میں اپنی ذات کے نفع و نقصان کا بھی مالک نہیں مگرجو الله چاہے اور اگر میں غیب کی بات جان سکتا تو بہت کچھ بھلائیاں حاصل کر لیتا اور مجھے تکلیف نہ پہنچتی میں تو محض ڈرانے والا اور خوشخبری دینے والا ہوں ان لوگوں کو جو ایمان دار ہیں (سورۃ الاعراف،آیت 188)
ایک اور جگہ یوں ارشاد ہوتا ہے:
قُلْ إِنِّى لَآ أَمْلِكُ لَكُمْ ضَرًّۭا وَلَا رَشَدًۭا ﴿21﴾قُلْ إِنِّى لَن يُجِيرَنِى مِنَ ٱللَّهِ أَحَدٌۭ وَلَنْ أَجِدَ مِن دُونِهِۦ مُلْتَحَدًا ﴿22﴾
ترجمہ: کہہ دو کہ میں تمہارے حق میں نقصان اور نفع کا کچھ اختیار نہیں رکھتا کہہ دو کہ اللہ (کے عذاب) سے مجھے کوئی پناہ نہیں دے سکتا اور میں اس کے سوا کہیں جائے پناہ نہیں دیکھتا (سورۃ الجن،آیت 21-22)
رسولوں کے ساتھ بھی تمام بشری خصوصیات ،مثلا مرض،موت اور کھانے پینے کی حاجتیں لگی ہوئیں تھیں،چنانچہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے بشری تقاضوں کا تذکرہ کرتے ہوئے رب تعالیٰ کے متعلق جو کچھ فرمایا تھا ،اس کی حکایت قرآن کریم میں اس طرح بیان ہوئی ہے:
وَٱلَّذِى هُوَ يُطْعِمُنِى وَيَسْقِينِ ﴿79﴾وَإِذَا مَرِضْتُ فَهُوَ يَشْفِينِ ﴿80﴾وَٱلَّذِى يُمِيتُنِى ثُمَّ يُحْيِينِ ﴿81﴾
ترجمہ: اور وہ جو مجھے کھلاتا اور پلاتا ہے اور جب میں بیمار ہوتا ہوں تو وہی مجھے شفا دیتا ہے اور وہ جو مجھے مارے گا پھر زندہ کرے گا (سورۃ الشعراء،آیت 79-81)
اس طرح نبی ﷺ کا ارشاد ہے:
((انما انا بشر مثلکم انسی کما تنسون فاذا نسیت فذکرونی))
"میں تو تمھی جیسا بشر ہوں ،جس طرح تم بھولتے ہو اس طرح میں بھی بھولتا ہوں۔پس جب میں بھول جاؤں تو مجھے یاد دلا دیا کرو۔"(صحیح البخاری،الصلوۃ ،باب التوحید نحو القبلۃ حیث کان،حدیث :401،وصحیح مسلم،المساجد وباب سھو فی الصلوۃ والمسجود لہ:572)
اللہ تعالیٰ نے پیغمبروں کو بندگی کے بلند مقامات سے نوازا ہے،چنانچہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے متعدد مقامات پر ان کی تعریف کی ہے۔مثال کے طور پر حضرت نوح علیہ السلام کے بارے میں ارشاد ہے:
إِنَّهُۥ كَانَ عَبْدًۭا شَكُورًۭا ﴿3﴾
ترجمہ: بےشک نوح (ہمارے) شکرگزار بندے تھے (سورۃ الاسراء،آیت 3)
حضرت محمد ﷺ کے متعلق یوں ارشاد ہوتا ہے:
تَبَارَكَ ٱلَّذِى نَزَّلَ ٱلْفُرْقَانَ عَلَىٰ عَبْدِهِۦ لِيَكُونَ لِلْعَٰلَمِينَ نَذِيرًا ﴿1﴾
ترجمہ: وہ بڑی برکت والا ہے جس نے اپنے بندے پر قرآن نازل کیا تاکہ تمام جہان کے لیےڈرانے والا ہو (سورۃ الفرقان،آیت 1)
اسی طرح حضرت ابراہیم ،اسحاق و یعقوب علیھم السلام کے متعلق یوں ارشاد ہوتا ہے:
وَٱذْكُرْ عِبَٰدَنَآ إِبْرَٰهِيمَ وَإِسْحَٰقَ وَيَعْقُوبَ أُو۟لِى ٱلْأَيْدِى وَٱلْأَبْصَٰرِ ﴿45﴾إِنَّآ أَخْلَصْنَٰهُم بِخَالِصَةٍۢ ذِكْرَى ٱلدَّارِ ﴿46﴾وَإِنَّهُمْ عِندَنَا لَمِنَ ٱلْمُصْطَفَيْنَ ٱلْأَخْيَارِ ﴿47﴾
ترجمہ: اور ہمارے بندوں ابراھیم اور اسحاق اور یعقوب کو یاد کر جو ہاتھو ں اور آنکھوں والے تھے بے شک ہم نے انہیں ایک خاص فضیلت دی یعنی ذکر آخرت کے لیے چن لیا تھا اور بے شک وہ ہمارے نزدیک برگزیدہ بندوں میں سے تھے (سورۃ ص،آیت 45-47)
حضرت عیسی بن مریم علیہ السلام کے متعلق ارشاد ہوتا ہے:
إِنْ هُوَ إِلَّا عَبْدٌ أَنْعَمْنَا عَلَيْهِ وَجَعَلْنَٰهُ مَثَلًۭا لِّبَنِىٓ إِسْرَٰٓءِيلَ ﴿59﴾
ترجمہ: وہ تو ہمارا ایک بندہ ہے جس پر ہم نے انعام کیا اور اسے بنی اسرائیل کے لیے نمونہ بنا دیا تھا (سورۃ الزخرف،آیت 59)
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,861
ری ایکشن اسکور
41,093
پوائنٹ
1,155
رسولوں پر ایمان ان چار امور پر مشتمل ہے:
(1)اس بات پر ایمان کہ ان کی رسالت برحق اور اللہ تعالیٰ کی جانب سے تھی،پس جس نے ان رسولوں میں سے کسی بھی رسالت کا انکار کیا تو اس نے ان سب کا انکار کیا جیسا کہ اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد سے واضح ہے:
كَذَّبَتْ قَوْمُ نُوحٍ ٱلْمُرْسَلِينَ ﴿105﴾
ترجمہ: نوح کی قوم نےرسولوں کو جھٹلایا (سورۃ الشعراء،آیت 105)
غور کیجیے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت نوح علیہ السلام کی قوم کو تمام رسولوں کو جھٹلانے والی قوم قرار دیا،حالانکہ جس وقت انہوں نے تکذیب کی تھی اس وقت تک نوح علیہ السلام کے سوا کوئی دوسرا رسول ان کے ہاں نہ آیا تھا۔اسی طرح جن عیسائیوں نے حجرت محمد ﷺ کو جھٹلایا اور ان کی پیروی نہیں کی ،تو گویا انہوں نے حضرت عیسی بن مریم کو بھی جھٹلایا اور وہ ان کی اتباع کرنے والوں میں سے بھی نہ رہے،کیونکہ حضرت عیسی علیہ السلام نے ان عیسائیوں کو حضرت محمد ﷺ کی آمد کی بشارت دی تھی اور اس بشارت کا مطلب اس کے سوا کچھ نہ تھا کہ حضرت محمد ﷺ ان کی طرف اللہ کے بھیجے ہوئے رسول ہوں گے،اللہ تعالیٰ آپ ﷺ کے ذریعے سے ان لوگوں کو گمراہیوں سے محفوظ فرمائے گا اور انہیں سیدھی راہ دکھائے گا۔
(2)ان رسولوں پر ایمان لانا جن کے نام ہمیں معلوم ہیں مثلا حضرت محمد(ﷺ)،ابراہیم،موسی،عیسی اور نوح علیھم السلام یہ پانچ اولوالعزم رسول ہیں،اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں دو مقامات پر ان کا تذکرہ فرمایا ہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَإِذْ أَخَذْنَا مِنَ ٱلنَّبِيِّۦنَ مِيثَٰقَهُمْ وَمِنكَ وَمِن نُّوحٍۢ وَإِبْرَٰهِيمَ وَمُوسَىٰ وَعِيسَى ٱبْنِ مَرْيَمَ ۖ
ترجمہ: اور جب ہم نے نبیوں سے عہد لیا اورآپ سے اورنوح اور ابراھیم اور موسیٰ اور مریم کے بیٹے عیسیٰ سے بھی (سورۃ الاحزاب،آیت 7)
مزید ارشاد الہی ہے:
شَرَعَ لَكُم مِّنَ ٱلدِّينِ مَا وَصَّىٰ بِهِۦ نُوحًۭا وَٱلَّذِىٓ أَوْحَيْنَآ إِلَيْكَ وَمَا وَصَّيْنَا بِهِۦٓ إِبْرَٰهِيمَ وَمُوسَىٰ وَعِيسَىٰٓ ۖ أَنْ أَقِيمُوا۟ ٱلدِّينَ وَلَا تَتَفَرَّقُوا۟ فِيهِ ۚ
ترجمہ: تمہارے لیے وہی دین مقرر کیا جس کا نوح کو حکم دیا تھا اور اسی راستہ کی ہم نے آپ کی طرف وحی کی ہے اور اسی کا ہم نے ابراھیم اور موسیٰ اور عیسیٰ کو حکم دیا تھا کہ اسی دین پر قائم رہو اور اس میں پھوٹ نہ ڈالنا (سورۃ الشوری،آیت 13)
ان برگزیدہ رسولوں کے علاوہ جن انبیاء کرام علیھم السلام کے اسمائے گرامی کا ہمیں علم نہیں ان پر بھی اجمالا ایمان لانا ہم پر لازم ہے۔اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
وَلَقَدْ أَرْسَلْنَا رُسُلًۭا مِّن قَبْلِكَ مِنْهُم مَّن قَصَصْنَا عَلَيْكَ وَمِنْهُم مَّن لَّمْ نَقْصُصْ عَلَيْكَ ۗ
ترجمہ: اورہم نے آپ سے پہلے کئی رسول بھیجے تھے بعض ان میں سے وہ ہیں جن کا حال ہم نے آپ پر بیان کر دیا اور بعض وہ ہیں کہ ہم نے آپ پر انکا حال بیان نہیں کیا (سورۃ غافر،آیت 78)
(3)ان کی جو خبریں درست ہوں ان کی تصدیق کرنا۔
(4)ان رسولوں میں سے جو رسول ہمارے پاس تشریف لائے ،ان کی شریعت پر عمل کرنا،اور بلاشبہ وہ کاتم الرسل حجر محمد ﷺ ہیں جو تمام انسانوں کی طرف بھیجے گئے ہیں۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
فَلَا وَرَبِّكَ لَا يُؤْمِنُونَ حَتَّىٰ يُحَكِّمُوكَ فِيمَا شَجَرَ بَيْنَهُمْ ثُمَّ لَا يَجِدُوا۟ فِىٓ أَنفُسِهِمْ حَرَجًۭا مِّمَّا قَضَيْتَ وَيُسَلِّمُوا۟ تَسْلِيمًۭا ﴿65﴾
ترجمہ: تمہارے پروردگار کی قسم یہ لوگ جب تک اپنے تنازعات میں تمہیں منصف نہ بنائیں اور جو فیصلہ تم کردو اس سے اپنے دل میں تنگ نہ ہوں بلکہ اس کو خوشی سے مان لیں تب تک مومن نہیں ہوں گے (سورۃ النساء،آیت 65)
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,861
ری ایکشن اسکور
41,093
پوائنٹ
1,155
رسولوں پر ایمان کے ثمرات

*بندوں پر اللہ تعالیٰ کی عنایت ورحمت کا علم کہ اس نے اپنے بندوں کی طرف اپنے رسولوں کو محض اس لیے بھیجا کہ وہ انہیں اللہ تعالٰی کا راستہ دکھائیں اور اس کی عبادت کرنے کا طریقہ بیان کریں،کیونکہ صرف عقل انسانی سے ان چیزوں کی معرفت ناممکن ہے۔
*اس بڑی نعمت پر اللہ تعالیٰ کا شکر کرنا۔
*تمام رسول علیھم السلام کے شایان شان ،ان کی تعظیم،ثنا اور محبت کرنا کیونکہ وہ اللہ تعالیٰ کے برگزیدہ رسول ہیں،نیز اس لیے بھی کہ وہ اللہ تعالیٰ کے عبادت گزار ہوئے ،اس کی رسالت کی تبلیغ کی اور اس کے بندوں کی نصیحت فرمائی۔
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,861
ری ایکشن اسکور
41,093
پوائنٹ
1,155
منکرین رسالت کا نظریہ اور اس کا رد

معاندین نے اس دعوے سے اپنے رسولوں کو جھٹلایا کہ بشر اللہ تعالیٰ کے رسول نہیں ہو سکتے۔قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے ان کے اس زعم کا یوں رد فرمایا ہے:
وَمَا مَنَعَ ٱلنَّاسَ أَن يُؤْمِنُوٓا۟ إِذْ جَآءَهُمُ ٱلْهُدَىٰٓ إِلَّآ أَن قَالُوٓا۟ أَبَعَثَ ٱللَّهُ بَشَرًۭا رَّسُولًۭا ﴿94﴾قُل لَّوْ كَانَ فِى ٱلْأَرْضِ مَلَٰٓئِكَةٌۭ يَمْشُونَ مُطْمَئِنِّينَ لَنَزَّلْنَا عَلَيْهِم مِّنَ ٱلسَّمَآءِ مَلَكًۭا رَّسُولًۭا ﴿95﴾
ترجمہ: اور جب لوگوں کے پاس ہدایت آگئی تو ان کو ایمان لانے سے اس کے سوا کوئی چیز مانع نہ ہوئی کہ کہنے لگے کہ کیا اللہ نے آدمی کو پیغمبر کرکے بھیجا ہے کہہ دو کہ اگر زمین میں فرشتے ہوتے (کہ اس میں) چلتے پھرتے (اور) آرام کرتے (یعنی بستے) تو ہم اُن کے پاس فرشتے کو پیغمبر بنا کر بھیجتے (سورۃ الاسراء،آیت94-95)
اس گمان کا رد کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ چونکہ اہل الارض (زمین کے باشندے)بشر ہیں،اور رسول انہی کی طرف بھیجے گئے ہیں ،لہذا ان رسولوں کا بشر ہونا ضروری ہے اور اگر زمین کے باشندے فرشتے ہوتے تو اللہ تعالیٰ یقینا ان پر آسمان سے کسی فرشتے ہی کو رسول بنا کر نازل فرماتا کہ وہا ن جیسا ہی ہو۔قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے رسولوں کو جھٹلانے والوں کا قول یوں نقل فرمایا ہے:
قَالَتْ رُسُلُهُمْ أَفِى ٱللَّهِ شَكٌّۭ فَاطِرِ ٱلسَّمَٰوَٰتِ وَٱلْأَرْضِ ۖ يَدْعُوكُمْ لِيَغْفِرَ لَكُم مِّن ذُنُوبِكُمْ وَيُؤَخِّرَكُمْ إِلَىٰٓ أَجَلٍۢ مُّسَمًّۭى ۚ قَالُوٓا۟ إِنْ أَنتُمْ إِلَّا بَشَرٌۭ مِّثْلُنَا تُرِيدُونَ أَن تَصُدُّونَا عَمَّا كَانَ يَعْبُدُ ءَابَآؤُنَا فَأْتُونَا بِسُلْطَٰنٍۢ مُّبِينٍۢ ﴿10﴾قَالَتْ لَهُمْ رُسُلُهُمْ إِن نَّحْنُ إِلَّا بَشَرٌۭ مِّثْلُكُمْ وَلَٰكِنَّ ٱللَّهَ يَمُنُّ عَلَىٰ مَن يَشَآءُ مِنْ عِبَادِهِۦ ۖ وَمَا كَانَ لَنَآ أَن نَّأْتِيَكُم بِسُلْطَٰنٍ إِلَّا بِإِذْنِ ٱللَّهِ ۚ
ترجمہ: ان کے رسولوں نے کہا کیا تمہیں الله میں شک ہے جس نے آسمان او زمین بنائے وہ تمہیں بلاتا ہے تاکہ تمہارے کچھ گناہ بخشے اور تمہیں ایک مقررہ وقت تک مہلت دے انہوں نے کہا تم بھی تو ہمارے جیسے انسان ہو تم چاہتے ہو کہ ہمیں ان چیزوں سے روک دو جنہیں ہمارے باپ دادا پوجتے رہے سو کوئی کھلا ہوامعجزہ لاؤ ان سے ان کے رسولوں نے کہا ضرور ہم بھی تمہارے جیسے ہی آدمی ہیں لیکن الله اپنے بندوں میں جس پر چاھتا ہے احسان کرتا ہے اور ہمارا کام نہیں کہ ہم الله کی اجازت کے سوا تمہیں کوئی معجزہ لا کر دکھائیں (سورۃ ابراہیم ،آیت10-11)
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,861
ری ایکشن اسکور
41,093
پوائنٹ
1,155
یوم آخرت پر ایمان

"یوم آخرت " سے مراد روز قیامت ہے۔اس دن لوگوں کو ان کے اعمال کے حساب اور جزا کے لیے دوبارہ اٹھایا جائے گا۔اس دن کا نام "یوم آخرت" اس لیے ہے کہ اس کے بعد کوئی دوسرا دن نہ ہو،کیونکہ تمام اہل جنت اور جہنم اپنے اپنے ٹھکانوں میں قرار پا چکے ہوں گے۔آخرت کے دن پر ایمان تین امور پر مشتمل ہے:
(1)دوبارہ اٹھائے جانے پر ایمان لانا۔دوبارہ اٹھائے جانے سے مراد دوسری بار صور پھونکتے وقت مردوں کو زندہ کرنا ہے،چنانچہ تمام لوگ بغیر جوتوں کے ننگے پاؤں،بغیر لباس کے ننگے جسم،اور بغیر ختنوں کے اللہ رب العالمین کے حضور کھڑے ہوئے جائیں گے،ارشاد باری تعالیٰ ہے:
كَمَا بَدَأْنَآ أَوَّلَ خَلْقٍۢ نُّعِيدُهُۥ ۚ وَعْدًا عَلَيْنَآ ۚ إِنَّا كُنَّا فَٰعِلِينَ ﴿104﴾
ترجمہ: جس طرح ہم نے پہلی بار پیدا کیا تھا دوبارہ بھی پیدا کریں گے یہ ہمارے ذمہ وعدہ ہے بے شک ہم پورا کرنے والے ہیں (سورۃ الانبیاء،آیت 104)
دوبارہ اٹھایا جانا برحق اور ثابت ہے ،کتاب اللہ ،سنت رسول اور اجماع مسلمین سب اس کے ثبوت پر دلالت کرتے ہیں۔اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
ثُمَّ إِنَّكُم بَعْدَ ذَٰلِكَ لَمَيِّتُونَ ﴿15﴾ثُمَّ إِنَّكُمْ يَوْمَ ٱلْقِيَٰمَةِ تُبْعَثُونَ ﴿16﴾
ترجمہ: پھر تم اس کے بعد مرنے والے ہو پھر تم قیامت کے دن اٹھائے جاؤ گے ( سورۃ المومنون،آیت 15-16)
اور نبی ﷺ کا ارشاد ہے:
یحشر الناس یوم القیامۃ حفاۃ عراۃ غرلا
یعنی"قیامت کے دن لوگوں کو ننگے پاؤں ،ننگے بدن اور بغیر ختنے کے جمع کیا جائے گا۔"(صحیح بخاری،الرقاق،باب الحشر،حدیث:6527،وصحیح مسلم ،الجنۃ و نعیمھا،باب فناء الدنیا وبیان الحشر یوم القیامۃ،حدیث:2859 واللفظ لہ)
اس کے اثبات پر مسلمان کا اجماع ہے اور حکمت کا تقاضا بھی یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنی اس مخلوق کو دوبارہ زندہ کرے اور اپنے رسولوں کے ذریعے سے اس نے ان پر جو فرائض عائد کیے تھے،ان کی انہیں جزا دے۔اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
أَفَحَسِبْتُمْ أَنَّمَا خَلَقْنَٰكُمْ عَبَثًۭا وَأَنَّكُمْ إِلَيْنَا لَا تُرْجَعُونَ ﴿115﴾
ترجمہ: سو کیا تم یہ خیال کرتے ہو کہ ہم نے تمہیں نکما پیدا کیا ہے اور یہ کہ تم ہمارے پاس لوٹ کر نہیں آؤ گے (سورۃ المومنون،آیت 115)
اور اپنے پیغمبر ﷺ سے فرمایا:
إِنَّ ٱلَّذِى فَرَضَ عَلَيْكَ ٱلْقُرْءَانَ لَرَآدُّكَ إِلَىٰ مَعَادٍۢ ۚ
ترجمہ: جس نے تم پر قرآن فرض کیا وہ تمہیں لوٹنے کی جگہ پھیر لائے گا (سورۃ القصص،آیت 85)
(2)حساب و جزا پر ایمان لانا۔یعنی بندے کے تمام اعمال کا حساب ہو گا اور اس کے مطابق اسے پورا بدلہ دیا جائے گا اور اس کے ثبوت پر بھی کتاب و سنت اور اجماع مسلمین سب دلالت کرتے ہیں۔اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
إِنَّ إِلَيْنَآ إِيَابَهُمْ ﴿25﴾ثُمَّ إِنَّ عَلَيْنَا حِسَابَهُم ﴿26﴾
ترجمہ: بےشک ہماری طرف ہی ان کو لوٹ کر آنا ہے پھر ہمارےہی ذمہ ان کا حساب لینا ہے (سورۃ الغاشیہ،آیت 25-26)

ایک اور مقام پر ارشاد باری تعالیٰ ہے:
مَن جَآءَ بِٱلْحَسَنَةِ فَلَهُۥ عَشْرُ أَمْثَالِهَا ۖ وَمَن جَآءَ بِٱلسَّيِّئَةِ فَلَا يُجْزَىٰٓ إِلَّا مِثْلَهَا وَهُمْ لَا يُظْلَمُونَ ﴿160﴾
ترجمہ: اور جو کوئی (اللہ کے حضور) نیکی لے کر آئے گا اس کو ویسی دس نیکیاں ملیں گی اور جو برائی لائے گا اسے سزا ویسے ہی ملے گی اور ان پر ظلم نہیں کیا جائے گا (سورۃ الانعام،آیت 160)

ایک اور جگہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
وَنَضَعُ ٱلْمَوَٰزِينَ ٱلْقِسْطَ لِيَوْمِ ٱلْقِيَٰمَةِ فَلَا تُظْلَمُ نَفْسٌۭ شَيْا ۖ وَإِن كَانَ مِثْقَالَ حَبَّةٍۢ مِّنْ خَرْدَلٍ أَتَيْنَا بِهَا ۗ وَكَفَىٰ بِنَا حَٰسِبِينَ ﴿47﴾
ترجمہ: اور قیامت کے دن ہم انصاف کی ترازو قائم کریں گے پھرکسی پر کچھ ظلم نہ کیا جائے گا اور اگر رائی کے دانہ کے برابر بھی عمل ہو گا تو اسے بھی ہم لے آئیں گے اور ہم ہی حساب لینے کے لیے کافی ہیں (سورۃ الانبیاء،آیت 47)

حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے بھی مروی ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا:
"قیامت کے روز اللہ تعالیٰ مومن شخص کو اپنے قریب بلا کر اپنے پردے سے ڈھانپ لے گا اور اس سے پوچھے گا کہ کیا یہ اور یہ گناہ جانتا ہے۔وہ جواب دے گا،ہاں،اے میرے رب !یہاں تک کہ جب وہ اپنے گناہوں کے اقرار کے بعد یہ سمجھ لے گا کہ وہ تباہ و برباد ہو گیا ہے،تو اللہ فرمائے گا:میں نے دنیا میں تیرے گناہوں کی پردہ پوشی کی تھی،آج میں تیرے ان گناہوں کو معاف کرتا ہوں،چنانچہ اس کو اس کی نیکیوں کا اعمال نامہ دے دیا جائے گا،لیکن کفار اور منافقین کو علی الاعلان تمام مخلوق کے سامنے بلا کر یہ کہا جائے گا:"یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنے رب کو جھٹلایا ،خبردار ظالموں پر اللہ کی لعنت ہے۔"(صحیح بخاری،المظالم)
اور نبی ﷺ سے صحیح طور پر ثابت ہے:
((فمن ھم بحسنۃ فلم یعملھا کتبھا اللہ لہ عندہ حسنۃ کاملۃ فان ھم بھا وعملھا کتبھا اللہ لہ عندہ عشر حسنات الی سبعمائۃ ضعف الی اضعاف کثیرۃ ومن ھم بسیئۃ فلم یعملھا کتبھا اللہ لہ عندہ حسنۃ کاملۃ فان ھو ھم بھا فعملھا کتبھا اللہ لہ سیئۃ واحدۃ))
"جس نے نیکی کا ارادہ کیا اور نیکی نہیں کی،اللہ تعالیٰ اپنے ہاں اُس کے لیے پوری ایک نیکی لکھ دیتا ہے اور جس نے ارادہ نیکی کرنے کے بعد وہ نیکی کر لی تو اللہ تعالیٰ اس ایک نیکی کو اپنے ہاں دس گنا سے سات سو گنا بلکہ اس سے بھی زیادہ نیکیاں لکھ دیتا ہے اور جب کوئی کسی بدی کا ارادہ کر کے اس پر عمل نہ کرے تو اللہ تعالیٰ اپنے ہاں ایک مکمل نیکی لکھ دیتا ہے،پس وہ بدی پر عمل بھی کر گزرے ،تو اللہ تعالیٰ اپنے ہاں (اس کے نامہ اعمال میں )صرف ایک ہی بدی لکھتا ہے۔"(صحیح بخاری،الرقاق،من ھم بحسنۃ او بسئۃ ،حدیث 6491،وصحیح مسلم،الایمان،اذا ھم العبد بحسنۃ کتبت۔۔۔۔،128،129،130)
قیامت کے روز تمام انسانی اعمال کے حساب کتاب اور ان کی جزا و سزا کے اثبات پر تمام مسلمانوں کا اتفاق ہے اور حکمت کا تقاضا بھی یہی ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے کتابیں نازل کیں،رسول بھیجے جو احکام شریعت وہ لائے تھے انہیں قبول کرنا اور ان میں سے جن احکام پر عمل کرنا واجب تھا،ان پر عمل کرنا بندوں پر فرض کیا۔جو لوگ اس کی شریعت کے مخالف ہیں،اُن کے ساتھ قتال کو واجب قرار دیا ،ان کے خون ،ان کی اولاد،ان کی عورتوں اور ان کے مالوں کو حلال قرار دیا۔تو اگر ان تمام اعمال کا حساب کتاب ہی نہ ہو اور نہ ان کے مطابق جزا و سزا دی جائے تو یہ تمام احکام بے کار اور مہمل قرار پاتے ہیں حالانکہ تمام جہانوں کا پروردگار تو ہر عبث چیز سے منزہ ہے،چنانچہ اس حقیقت کی طرف اللہ تعالیٰ نے خود اشارہ فرمایا ہے:
فَلَنَسْلَنَّ ٱلَّذِينَ أُرْسِلَ إِلَيْهِمْ وَلَنَسْلَنَّ ٱلْمُرْسَلِينَ ﴿6﴾فَلَنَقُصَّنَّ عَلَيْهِم بِعِلْمٍۢ ۖ وَمَا كُنَّا غَآئِبِينَ ﴿7﴾
ترجمہ: پھر ہم ان لوگوں سے ضرور سوال کریں گے جن کے پاس پیغمبر بھیجے گئے تھے اور ان پیغمبروں سے ضرور پوچھیں گے پھر اپنے علم کی بناء پر ان کے سامنے بیان کر دیں گے اور ہم کہیں حاضر نہ تھے (سورۃ الاعراف،آیت 6-7)
(3)جنت اور جہنم پر ایمان لانا ،یعنی یہ دونوں مخلوق کے ابدی ٹھکانے ہیں،سو جنت نعمتوں کا گھر ہے جسے اللہ تعالیٰ نے تقوی اختیار کرنے والے ان مومنوں کے لیے بنایا ہے جو ان چیزوں پر ایمان لائے جن پر ایمان لانا اللہ تعالیٰ نے ان پر واجب ٹھہرایا ،اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی اطاعت کی اور اللہ تعالیٰ سے مخلص اور اس کے رسول کے سچے پیروکار رہے۔ان کے لیے جنت میں طرح طرح کی نعمتیں ہیں۔ایک حدیث میں ہے:
ما لا عین رات،ولا اذن سمعت،ولا خطر علی قلب بشر
"جسے نہ کسی آنکھ نے دیکھا،نہ کسی کان نے سنا اور نہ کسی انسان کے دل میں اس کا خیال تک گزرا۔"(صحیح بخاری،بدءالخلق،باب ما جاء فی صفہ الجنۃ اوانھا مخلوقۃ حدیث:3244)
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
إِنَّ ٱلَّذِينَ ءَامَنُوا۟ وَعَمِلُوا۟ ٱلصَّٰلِحَٰتِ أُو۟لَٰٓئِكَ هُمْ خَيْرُ ٱلْبَرِيَّةِ ﴿7﴾جَزَآؤُهُمْ عِندَ رَبِّهِمْ جَنَّٰتُ عَدْنٍۢ تَجْرِى مِن تَحْتِهَا ٱلْأَنْهَٰرُ خَٰلِدِينَ فِيهَآ أَبَدًۭا ۖ رَّضِىَ ٱللَّهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا۟ عَنْهُ ۚ ذَٰلِكَ لِمَنْ خَشِىَ رَبَّهُۥ ﴿8﴾
ترجمہ: بے شک جولوگ ایمان لائے اورنیک کام کیے یہی لوگ بہترین مخلوقات ہیں ان کا بدلہ ان کے رب کے ہاں ہمیشہ رہنے کے بہشت ہیں ان کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی وہ ان میں ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے الله ان سے راضی ہوا اور وہ اس سے راضی ہوئے یہ اس کے لئےہے جو اپنے رب سے ڈرتا ہے (سورۃ البینۃ ،آیت 7-8)
ایک اور جگہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
فَلَا تَعْلَمُ نَفْسٌۭ مَّآ أُخْفِىَ لَهُم مِّن قُرَّةِ أَعْيُنٍۢ جَزَآءًۢ بِمَا كَانُوا۟ يَعْمَلُونَ﴿17﴾
ترجمہ: پھر کوئی شخص نہیں جانتا کہ ان کے عمل کے بدلہ میں ان کی آنکھو ں کی کیا ٹھنڈک چھپا رکھی ہے (سورۃ السجدۃ،آیت 17)
اور "جہنم" عذاب کا گھر ہے،اسے اللہ تعالیٰ نے ان ظالم کافروں کے لیے بنایا ہے جنہوں نے اس کے ساتھ کفر کیا اور اس کے رسولوں کی نافرنی کی۔جہنم میں طرح طرح کا عذاب اور سامان عبرت ہے،کوئی دل ان ہولناکیوں کا تصور بھی نہیں کر سکتا۔
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
وَاتَّقُوا النَّارَ الَّتِي أُعِدَّتْ لِلْكَافِرِينَ ﴿131﴾
ترجمہ: "اور اس آگ سے بچو جو کافروں کے لیے تیار گئی ہے"(سورۃ آل عمران،آیت 131)
اور ایک جگہ یوں فرمایا:
إِنَّآ أَعْتَدْنَا لِلظَّٰلِمِينَ نَارًا أَحَاطَ بِهِمْ سُرَادِقُهَا ۚ وَإِن يَسْتَغِيثُوا۟ يُغَاثُوا۟ بِمَآءٍۢ كَٱلْمُهْلِ يَشْوِى ٱلْوُجُوهَ ۚ بِئْسَ ٱلشَّرَابُ وَسَآءَتْ مُرْتَفَقًا ﴿29﴾
ترجمہ: بے شک ہم نے ظالموں کے لیے آگ تیار کر رکھی ہے انہیں اس کی قناتیں گھیر لیں گی اور اگر فریاد کریں گے تو ایسے پانی سے فریاد رسی کیے جائیں گے جو تانبے کی طرح پگھلا ہوا ہو گا مونہوں کو جھلس دے گا کیا ہی برا پانی ہو گا او رکیا ہی بری آرام گاہ ہو گی (سورہ الکہف،آیت 29)
اور ایک مقام پر ارشاد باری تعالیٰ ہے:
إِنَّ ٱللَّهَ لَعَنَ ٱلْكَٰفِرِينَ وَأَعَدَّ لَهُمْ سَعِيرًا ﴿64﴾خَٰلِدِينَ فِيهَآ أَبَدًۭا ۖ لَّا يَجِدُونَ وَلِيًّۭا وَلَا نَصِيرًۭا ﴿65﴾يَوْمَ تُقَلَّبُ وُجُوهُهُمْ فِى ٱلنَّارِ يَقُولُونَ يَٰلَيْتَنَآ أَطَعْنَا ٱللَّهَ وَأَطَعْنَا ٱلرَّسُولَا۠﴿66﴾
ترجمہ: بے شک الله نے کافروں پر لعنت کی ہے اور ان کے لیے دوزخ تیار کر رکھا ہے وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے نہ کوئی دوست پائیں گے اور نہ کوئی مددگار جس دن ان کے منہ آگ میں الٹ دیے جائیں گے کہیں گے اے کاش ہم نے الله اور رسول کا کہا مانا ہوتا (سورۃ الاحزاب،آیت 64-66)
 
Top