• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اس اہم مسئلے کی طرف رہنمائی درکارہے

حرب بن شداد

سینئر رکن
شمولیت
مئی 13، 2012
پیغامات
2,149
ری ایکشن اسکور
6,345
پوائنٹ
437
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
آپ کے فورم پر سافٹ ویئر کاپی کرنے کے بارے فتویٰ پڑھا،اور بہت پریشانی ہوئی،ہم جو ونڈوز یا کوئی بھی سافٹ ویئر کی سی ڈی بازار سے خرید کر لاتے ہیں وہ بیس یا تیس روپے میں مل جاتی ہے،جبکہ وہ سافٹ ویئر ہزاروں روپے کا ہوتا ہے جس کو خریدنا ہر بندے کے لیے نا ممکن ہے،تو اس حساب سے تو پاکستان میں جتنی بھی سافٹ ویئر چل رہے ہیں وہ سب کے سب غیر قانونی ہی ہیں اور نا جائز؟

اس کے علاوہ ایک بات یہ بھی ہے کہ جو بھی بندہ انٹرنیٹ یا ٹورینٹ پر رجسٹرڈ سافٹ ویئر دیتا ہے،وہ اس نے خریدنے کے بعد ہی شائع کیا ہوتا ہے،اور اپنی ذاتی ملکیت میں سے دیتا ہے تو کیا اس صورت میں بھی یہ چوری ہو گی؟ براہ مہربانی اس معاملے میں جلد از جلد مدلل راہنمائی فرمائی جائے۔؟
--------------------------------------------------------------------------------
الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
پہلی بات یہ ہے کہ جو چیز آپ خرید کر استعمال کرتے ہیں،وہ آپ کے لیئے جائز ہے،کیونکہ خرید لینے کے بعد وہ آپ کی ملکیت بن جاتی ہے۔اب جس سے آپ نے خریدی ہے، اس نے کہاں سے لی ہے یہ اس کا مسئلہ ہے،(اگرچہ اس کے لیئے بھی غیر قانونی کام کرنا ناجائز ہے ) لیکن یہ آپ کا مسئلہ نہیں ہے کہ اس نے قانونی کام کیا ہے یا غیر قانونی ۔

دوسری بات یہ ہے کہ اگر کسی نے کوئی سافٹ ویئر خریدا ہوا ہے تو آپ اس کی اجازت اور اس کے علم میں لا کر اسے استعمال کر سکتے ہیں۔کیونکہ وہ اس کی ملکیت ہے وہ جس کو چاہے دے ،اور جس کو چاہے نہ دے۔

هذا ما عندي والله اعلم بالصواب
فتویٰ کمیٹی محدث فتویٰ
ایک مسئلہ کے زانی عورت اپنی کمائی سے جو کرایہ ادا کرتی ہے وہ مالک مکان کے لئے جائز ہے۔۔۔ یہ ملاحظہ کیجئے۔۔
دیکھئے بیان چل رہاہے اجارہ کا۔
اب ایک فاحشہ خاتون ہے۔وہ کسی مکان کواجارہ یعنی کرایہ پر لیتی ہے وہ پیشہ کرتی ہے اوراسی پیشہ کے روپئے کوکرایہ کی مد میں دیتی ہے توصاحب مکان کیلئے یہ پیسے لیناجائز ہوگایانہیں۔یہ اصل اختلاف ہے۔
امام ابوحنیفہ کاکہناہے کہ اگرچہ کسب حرام ہے لیکن صاحب مکان کیلئے کرایہ لیناجائز ہوگاکیونکہ اگرصورت حال ایسی ہوتی کہ کوئی شخص مکان کرایہ پر لیتا لیکن کرایہ طے نہ ہوتاتواس کوقیمت مثل دیاجاتااگرچہ کرایہ طے نہ ہونے کی وجہ سے یہ اجارہ فاسد ہوتا۔وہی صورت حال یہاں بھی ہے کہ ایک خاتون فاحشہ مکان کرایہ پر لیتی ہے اس کاکسب حراب ہے جس کی وجہ سے اجارہ فاسدہوگالیکن اس فاحشہ کے روپے کرایہ کے مد میں لینامالک مکان کیلئے درست ہوگا۔
میں جو سافٹ ویئر والے فتوٰی سے بات سمجھ رہا ہوں۔۔۔ کے ایک شخص چاہئے اس کے ذرائے جائز ہوں یا ناجائز ہیں۔۔۔ تو حلال اور حرام کا معاملہ اس تک ہی محدود رہے گا۔۔۔ لیکن اگر کوئی دوسرا پیسے دے کر وہ ناجائز چیز خریدے تو اس کے لئے وہ حلال ہے جمشید بھائی نے زانیہ عورت کے حوالے سے اوپر جو مسئلہ بیان کیا ہے آپ کے دیئے ہوئے فتوٰی اور جمشید بھائی کی بیان کردہ باتوں میں مماثلت بہت زیادہ دکھائی دے رہے۔۔۔ لہٰذا گذراش یہ ہے کہ برائے مہربانی غلط موقف پر رہنمائی فرمائیں یعنی اگر میں غلط ہوں اور جمشید بھائی اپنے موقف پر صحیح تو مجھے اپنی غلطی تسلیم کرنے میں قطعی کوئی آر نہیں لیکن اگر حقیقت وہی ہے جو میں سمجھ رہا ہوں تو اللہ تعالٰی باقیوں کو سمجھ اور راہ ہدایت نصیب فرمائیں۔۔۔

شکریہ
 
Top