• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اس تحریر کے بارے میں بتاہیں اس میں کوئی غلط بات تو نہیں ہے

ابن قدامہ

مشہور رکن
شمولیت
جنوری 25، 2014
پیغامات
1,772
ری ایکشن اسکور
428
پوائنٹ
198
جرح و تعدیل سے متعلق چند اہم مباحث

اگر کسی راوی کے بارے میں جرح اور تعدیل دونوں پائی جائیں توکیا کیا جائے؟

اگر کسی راوی کے بارے میں مثبت اور منفی دونوں قسم کی آراء موجود ہوں اور جرح (منفی رائے) تفصیلی ہو تو صحیح نقطہ نظر یہ ہے کہ اس شخص کے بارے میں جرح کو ترجیح دی جائے گی۔ دوسرا نقطہ نظر یہ بھی بیان کیا گیا ہے کہ اگر تعدیل کرنے والے ماہرین کی تعداد جرح کرنے والے ماہرین کی نسبت زیادہ ہے تو اس شخص کی تعدیل کی جائے گی۔ اس نقطہ نظر پر اعتماد نہیں کیا گیا ہے۔

نوٹ: اگر کسی راوی کو ایک ماہر قابل اعتماد قرار دے اور دوسرا ناقابل اعتماد تو اس صورت میں یہ طرز عمل اختیار کرنا چاہیے۔

· اگر جرح اور تعدیل دونوں ہی کی تفصیلات بیان نہ کی گئی ہوں تو جرح کو ترجیح دی جائے اور اس راوی کو ناقابل اعتماد قرار دے کر اس کی بیان کردہ احادیث کو قبول نہ کیا جائے کیونکہ احتیاط کا تقاضا یہی ہے۔

· اگر جرح یا تعدیل میں صرف ایک کی تفصیلات بیان کی گئی ہوں تو جس چیز کی تفصیلات موجود ہوں اسی کو ترجیح دی جائے۔

· اگر جرح یا تعدیل دونوں کی تفصیلات موجود ہوں تو ان تفصیلات کو مدنظر رکھتے ہوئے اس راوی کے قابل اعتماد ہونے یا نہ ہونے کا فیصلہ کیا جائے۔

· اگر تعدیل کرنے والے ماہرین راوی پر عائد کیے گئے الزامات کے جواب دے کر اس کی وضاحت کر دیں تو پھر تعدیل کو ترجیح دی جائے۔

· احتیاط کا تقاضا یہی ہے کہ اس راوی کی بیان کردہ احادیث کی دوسری اسناد کو بھی دیکھ کر حتمی فیصلہ کیا جائے۔



کسی راوی کے بارے میں اسی سے مروی تعدیل کی روایات کا حکم

اہل علم کی اکثریت کا نقطہ نظر یہ ہے کہ کسی شخص کے قابل اعتماد ہونے سے متعلق ایسی روایات جو اسی شخص سے مروی ہیں ناقابل قبول ہیں۔ یہی نقطہ نظر صحیح ہے اگرچہ بعض لوگوں نے ان روایات کو قابل قبول قرار دیا ہے۔

نوٹ: یہاں روایات سے مراد حدیث نہیں ہے بلکہ وہ روایات ہیں جو جرح و تعدیل کے ماہرین کی آراء پر مشتمل ہیں۔ ظاہر ہے کہ اپنے آپ کو تو ہر شخص عادل ہی قرار دے گا۔ اس وجہ سے ضروری ہے کہ کسی بھی راوی کے بارے میں دیگر افراد کی آراء کی بنیاد پر فیصلہ کیا جائے۔

اس ضمن میں جرح و تعدیل کرنے والے ماہر کی اپنی شخصیت کا تجزیہ بھی بہت ضروری ہے۔ عین ممکن ہے کہ وہ کسی شخص سے عقیدت کے باعث اس کی تعدیل کر رہا ہو یا کسی سے تعصب کے باعث اس پر جرح کر رہا ہو۔ جرح و تعدیل کرنے والے ماہر کا غیر جانب دار اور غیر متعصب ہونا بہت ضروری ہے۔

ہمارے محدثین اور جرح و تعدیل کے ماہرین کی غیر جانب داری اور عدم تعصب کا یہ عالم تھا کہ کوئی شخص اگر کسی دوسرے مسلک سے تعلق رکھتا ہوتا مگر اپنی ذات میں ایک اچھا انسان ہوتا تو اس کی تعدیل کرتے اور مخصوص اختلافی مسائل سے ہٹ کر اس کی بیان کردہ احادیث کو قبول کرتے۔ دوسری طرف ان کے اپنے مسلک اور محدثین کے طبقے سے تعلق رکھنے والے افراد میں جو حقیقی خامیاں پائی جاتی تھیں، انہوں نے انہیں کھول کر بیان کر دیا ہے۔

جو گروہ اپنی خامیوں پر پردہ ڈالنے کی کوشش کرے اور خوبیوں کو اجاگر کرے، اسے بہرحال متعصب ہی قرار دیا جائے گا۔ علماء کے مختلف طبقات میں صرف محدثین ہی ایسا گروہ ہے جس نے اعلی درجے کی غیر جانب داری کا مظاہرہ کیا ہے۔ افسوس کہ موجودہ دور کے اکثر محدثین اور دیگر اہل علم اپنے اسلاف کی اس روش کو ترک کر چکے ہیں۔

فسق و فجور سے توبہ کرنے والے سے حدیث قبول کرنے کا حکم

فسق و فجور سے توبہ کرنے والے شخص کی (توبہ کے بعد کے زمانے میں کی گئی) روایات کو قبول کیا جائے گا۔ لیکن اگر کوئی شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم سے جھوٹی احادیث منسوب کرنے کا مرتکب ہو تو اس کی بیان کردہ روایات کو توبہ کے بعد بھی قبول نہ کیا جائے گا۔

نوٹ: یہاں فسق و فجور سے مراد کسی شخص کے وہ گناہ ہیں جو اعلانیہ ہوں۔ کسی شخص کے پوشیدہ گناہوں کا حساب تو کوئی بھی نہیں رکھ سکتا۔ اگر کوئی شخص علی الاعلان کسی گناہ میں مبتلا ہو تو اس کی روایات قبول نہیں کی جاتیں کیونکہ اعلانیہ گناہ کرنا اللہ تعالی کے آگے سرکشی کی علامت ہے۔ ایسے شخص کے لئے لازم ہے کہ وہ اپنے اعلانیہ گناہوں کی توبہ بھی علی الاعلان کرے۔

حدیث کی تعلیم کا معاوضہ لینے والے سے حدیث قبول کرنے کا حکم

بعض اہل علم جیسے امام احمد بن حنبل، ابو اسحاق اور ابن حاتم کے نزدیک ایسے شخص سے احادیث قبول کرنا درست نہیں ہے۔ بعض دیگر اہل علم جیسے ابونعیم الفضل بن دکین کے نزدیک ایسے شخص سے احادیث قبول کی جائیں گی۔ ابو اسحاق شیرازی کا نقطہ نظر یہ ہے کہ جو شخص حدیث کی تعلیم میں مشغولیت کے باعث اپنے اہل و عیال کے لئے کسب معاش نہ کر سکے تو اس کے لئے یہ معاوضہ لینا جائز ہے۔

نوٹ: قدیم اہل علم دینی خدمات جیسے قرآن و حدیث کی تعلیم کے بدلے معاوضہ لینے کو جائز نہ سمجھتے تھے۔ بعد کے ادوار کے علماء نے بالاتفاق ایسا کرنے کو جائز قرار دیا ہے۔ اس کی وجہ کو سمجھنے کے لئے ہمیں دور صحابہ و تابعین کے معاشرتی حالات کا جائزہ لینا ہو گا۔ عہد صحابہ و تابعین میں اہل علم اور ان کے خاندانوں کی کفالت کی ذمہ داری حکومت کے سپرد ہوا کرتی تھی۔ حکومت کی جانب سے اہل علم کے وظائف مقرر ہوتے جو ان کے خاندانوں کی کفالت کے لئے کافی ہوتے۔ یہی وجہ ہے کہ اس دور کے تمام اہل علم دینی خدمات کا اضافی معاوضہ لینا جائز نہ سمجھتے تھے۔

بعد کے ادوار میں ایسا انتظام باقی نہیں رہا۔ مسلمانوں کی حکومتیں عیاشی اور کرپشن کا شکار ہو گئیں اور انہوں نے اہل علم کی کفالت کو چھوڑ دیا۔ اس موقع پر دین کی خدمت کرنے والوں کے سامنے دو راستے تھے: ایک تو یہ کہ دینی خدمت کو چھوڑ کر معاشی جدوجہد میں اپنا پورا وقت گزار دیں اور دوسری یہ کہ انہی دینی خدمات کا معاوضہ قبول کر لیں۔ ان کی غالب اکثریت نے دوسرا راستہ اختیار کیا۔ بعض افراد نے تیسرا راستہ اختیار کیا کہ اپنے دن کا کچھ حصہ کسب معاش میں اور کچھ حصہ دین میں خدمت میں لگا دیں۔، لیکن ظاہر ہے ایسا کرنا سب کے لئے ممکن نہ تھا۔

تساہل، سستی اور غلطیاں کرنے والے سے حدیث قبول کرنے کا حکم

ایسا شخص جو حدیث کو سننے اور سنانے میں سستی اور لاپرواہی سے کام لیتا ہو، اس کی روایت کردہ احادیث کو قبول نہیں کیا جائے گا۔ مثال کے طور پر جو شخص حدیث کو سننے کی محفل میں بیٹھ کر عام طور پر اونگھتا رہے یا اصل استاذ کی بجائے اس کے کسی شاگرد سے حدیث سن کر روایت کرے تو اس کی بیان کردہ احادیث کو قبول نہیں کیا جائے گا۔

اس شخص کی روایات کو بھی قبول نہیں کیا جائے گا جو حدیث کو بغیر سوچے سمجھے (ہاں، ہاں) قبول کر لیتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جو ایسا کرتا ہے وہ یہ نہیں جانتا کہ جو بات وہ بیان کر رہا ہے وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کی حدیث ہے بھی یا نہیں۔

جو شخص روایت بیان کرنے میں کثرت سے غلطیاں کرتا ہو، اس کی بیان کردہ حدیث کو بھی قبول نہیں کیا جائے گا۔

نوٹ: یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ حدیث کو قبول نہ کرنے کا معنی یہ نہیں ہے کہ اس حدیث کے متن کو یہ مسترد کر دیا جائے گا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جس سند سے وہ حدیث اس شخص نے روایت کی ہے، اس سند کو مسترد کر دیا جائے گا۔ اگر حدیث کا وہی متن کسی دوسری صحیح سند سے مروی ہے تو اس متن کو بہرحال قبول کیا جائے گا۔ اگر اس متن کو صرف ایک اسی شخص ہی نے روایت کیا ہے تو پھر اسے مسترد کر دیا جائے گا۔

جہاں تک حدیث سننے سنانے میں لاپرواہی اور اونگھنے کا تعلق ہے، تو یہ معاملہ سمجھنے کے لئے ہمیں حدیث روایت کرنے کے دور کی علمی محافل کے طریق کار کا علم ہونا چاہیے۔ چونکہ اس دور میں باقاعدہ کتابیں شائع کرنے کا رواج نہیں ہوا تھا، اس وجہ سے حدیث کو روایت کرنے کا طریقہ یہ تھا کہ ایک محدث کسی مسجد وغیرہ میں حدیث کی محفل سجاتا اور اس کے شاگرد محفل میں بیٹھ جاتے۔ استاذ اپنی یادداشت کے سہارے یا ڈائری میں لکھی گئی احادیث پڑھ کر شاگردوں کو سناتا۔ حدیث کی روایت کے لئے بنیادی شرط یہ تھی کہ استاذ اور شاگرد دونوں مضبوط حافظے کے مالک ہوں۔ شاگرد احادیث سن سن کر یاد بھی کرتے جاتے اور اپنی ڈائریوں میں ان کے نوٹس بھی تیار کرتے جاتے۔ اس عمل کو "سماع حدیث" کہا جاتا ہے۔

اگر ان شاگردوں میں سے کوئی اکثر سستی برتتا، حدیث کو صحیح طور پر نہ سنتا، یا حدیث کے سماع کے وقت اونگھتا تو یہ بات فوراً مشہور ہو جاتی اور اس کے بعد طالب علموں کی نظر میں وہ شخص اتنا لائق اعتماد نہ رہتا کہ کوئی اس سے احادیث کا علم حاصل کرے۔

یہاں ایک لفظ "تلقین" استعمال ہوا ہے۔ اس کا معنی یہ ہے کہ کسی شخص کے سامنے کوئی حدیث بیان کی جائے اور وہ بلا سوچے سمجھے ہاں، ہاں کہہ کر اس کی تائید کرتا چلا جائے۔ یہ بھی تساہل اور سستی کی ایک قسم ہے اور ایسا کرنے والے سے احادیث قبول نہیں کی جاتیں۔

اس سے اس احتیاط کا اندازہ ہوتا ہے جو پرنٹنگ پریس کے دور سے کہیں پہلے احادیث کے ضمن میں برتی گئی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بہت سے یورپی اور امریکی مستشرقین کا یہ نقطہ نظر ہے کہ مسلمانوں کی ضعیف سے ضعیف حدیث بھی دیگر اقوام کی بنیادی مذہبی کتب سے زیادہ قابل اعتماد ہیں کیونکہ ان ضعیف احادیث کے بارے میں بھی اتنی معلومات موجود ہیں جو دیگر اقوام کی بنیادی مذہبی کتب کے بارے میں موجود نہیں ہیں۔

حدیث بیان کر کے بھول جانے والے کی بیان کردہ احادیث کا حکم

اس کی صورت یہ ہے کہ کوئی شاگرد یہ بیان کرتا ہے کہ میں نے یہ حدیث اپنے استاذ سے سنی ہے اور استاذ یہ کہتا ہے کہ میں نے یہ حدیث بیان نہیں کی۔ (اب دو ہی صورتیں ممکن ہیں، یا تو استاذ حدیث بیان کرنے کے بعد خود بھول گیا اور دوسری یہ کہ شاگرد جھوٹ بول رہا ہے۔)

ایسی احادیث کا حکم یہ ہے کہ اگر استاذ سختی سے اس حدیث کی تردید کرے اور مثلاً یہ کہے کہ میں نے اس شاگرد کو کبھی دیکھا ہی نہیں یا وہ شخص میرے متعلق جھوٹ بول رہا ہے تو اس حدیث کو مسترد کر دیا جائے گا۔ دوسری صورت یہ ہے کہ استاذ خود متردد ہو کہ اس نے یہ حدیث بیان کی ہے یا نہیں (اور شاگرد بھی ثقہ راوی ہو) تو اس صورت میں حدیث کو قبول کر لیا جائے گا۔

اس کی مثال وہ حدیث ہے ابو داؤد، ترمذی اور ابن ماجہ نے روایت کی ہے۔

ربیعۃ بن ابی عبدالرحمٰن نے سہیل بن ابی صالح سے، انہوں نے اپنے والد اور انہوں نے سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے (ایک مقدمے میں) ایک گواہ اور قسم کھانے کی بنیاد پر فیصلہ فرما دیا۔

عبدالعزیز بن محمد الدراوردی کہتے ہیں کہ یہ حدیث ربیعۃ بن ابی عبدالرحمٰن نے مجھ سے اسی سند کے ساتھ بیان کی۔ اس کے بعد میری ملاقات سہیل بن ابی صالح سے ہوئی تو میں نے اس حدیث کے بارے میں ان سے پوچھا تو وہ اس سے بے خبر تھے۔ میں نے ان سے کہا کہ ربیعۃ تو یہ حدیث آپ کے حوالے سے بیان کر رہے ہیں۔ اس کے بعد سہیل لوگوں کو بتاتے تھے کہ اور ربیعۃ نے یہ کہہ کر عبدالعزیز سے حدیث بیان کی کہ ان سے یہ حدیث میں نے بیان کی ہے۔

حدیث کو بیان کرنے کے بعد بھول جانے سے متعلق خطیب بغدادی نے ایک کتاب "اخبار من حدث و نسی" تصنیف کی ہے۔
نوٹ

آپ نے فرمایا تھا ۔کہ کس عا لم سے یہ علم حاصل کریں ۔تو میں یہ بتانا چاہتا ہوں ۔کہ میں انٹرنیٹ پر عالم دین سے ہی علم حاصل کررہا ہوں ۔لیکن وہ اہل حدٰیث نہیں ہے۔اس لیے اس کون سی بات صحیع ہے ۔اور کون سی غلط اس بارے میں آپ سے رہنمائی لیتا ہوں ۔کیونکہ وہ اپنا مسلک واضح طور پر بیان نہیں کرتا
 
Last edited:

ابن قدامہ

مشہور رکن
شمولیت
جنوری 25، 2014
پیغامات
1,772
ری ایکشن اسکور
428
پوائنٹ
198
منتقل
@کفایت اللہ
فاتحہ خلف الامام کے بارے میں جو عبادہ رضی اللہ عنہ کی حدیث ہے ۔اس کے جواب میرے میرے پاس
بہت لمی تحریریں موجود ہ ہیں۔تقربیا ایک مقالہ کی صورت اختیار کرجاہیں گی۔ کیا اس کو یونی کورڈ
میں کر دو آپ جواب دیں دیں گے ؟
 
Last edited:
Top