• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اس تضاد کی وجہ کیا ہے؟

Dua

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 30، 2013
پیغامات
2,579
ری ایکشن اسکور
4,440
پوائنٹ
463
دوسری شادی کو پہلی بیوی ،معاشرے اور خاندان کی طرف سے معیوب جانا جاتا ہے۔ بیوی کی مخالفت کی وجہ یہ ہے کہ اللہ نے نسوانی جذبات ہی ایسے بنائے ہیں کہ کوئی بھی عورت اپنے شوہر میں ازدواجی شراکت برداشت نہیں کرسکتی۔ اس باب میں دیگر لوگوں کے بارے میں ہم کیا کہے سکتے خود ازواج مطہرات کے درمیان اس طرح کے تنازعات نظر آتے ہیں مثلا سورۃ التحریم میں شہد والی آیت کے شان نزول سے نسائی طبعیت کے اس پہلو کی طرف بخوبی روشنی پڑتی ہے۔ چناچہ بیوی کی طرف سے ہر حال میں یہ مسلہ ناقابل حل ہی رہنا ہے۔
اب آئیے خاندان کی طرف ،تو میاں بیوی دونوں کے خاندان کےاپنے اپنے مفادات بھی ہوتے ہیں اور معاشرتی رسوم سے مجبور بھی ہوتے ہیں۔وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس طرف سے مسلہ حل ہو جایا کرتا ہے۔
مسلے کا تیسرا پہلو معاشرے کا عمومی رجحان ہے جس میں ہندوانہ رسوم و رواجات ہونے کے ساتھ ساتھ مغربی تہذیب اور کلچر کا بھی بہت حد تک اثر ہے۔اہل مغرب کو جب مادی غلبہ حاصل ہوا تو انہوں نے خود کو فکری طور پر غالب کرنے کے لئے ضروری سمجھا کہ اسلام پر اعتراضات کئے جائیں اس کام کے لئے انہوں نے بے تحاشہ وسائل استعمال کرکے مستشرقین کا ایک گروہ پیدا کیا جس نے مختلف تاریخی ادوار میں اسلام پر اعتراضات کر نے شروع کئے ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ اسلام میں عورت کےحقوق کےسلب کئے جاتے ہیں ،اسلام میں عورت مساویانہ سلوک سے محروم ہے اس ضمن چار شادیوں والا اعتراض بھی اہمیت اختیار کر گیا۔اب یہ الگ بات ہے کہ ان کے ہاں حرام و ہلال کا کوئی امتیاز نہیں رہا۔بلکہ ماں،بہن،بیٹی تک کا فرق ختم ہوچکا ہے۔تہذیب حاضر کا یہ دل سوز پہلو ہے۔میرےخیال میں عمومی معاشرتی رجحان اسی وجہ سے تشکیل پایا ہے۔تاہم اس مسلے کا حل یہی ہے کہ ہم قلبی یقین کے ساتھ اسلام پر عمل پیرا ہوں۔اللہ ہمیں توفیق عطا فرمائے کہ ہم اسلام کی تمام تعلیمات پر عمل کرسکیں۔آمین۔ ویسے ’’دعا‘‘بہن عرض کرتا چلا جاؤں آپ کے خیالات واقعی بہت حیران کن ہیں۔تاہم دیکھ لیجیے گا وقت آپ کو اپنے سانچے میں ضرور ڈھال لے گا۔
جزاک اللہ خیرا بھائی۔۔۔۔عمدہ وضاحت کی ہے آپ نے۔۔۔ان شاء اللہ بھائی وقت کے حساب سے میرے ساتھ اچھا ہی ہو گا۔۔۔کیونکہ عورت کی اس فطرت کے باوجود میں اس سنت کو مانتی ہوں اور اس کے خلاف سوچ نہیں سکتی۔یہی ہمارے دین کی تعلیمات ہیں۔
 

Dua

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 30، 2013
پیغامات
2,579
ری ایکشن اسکور
4,440
پوائنٹ
463
عام طور پر دوسری شادی کے تصور سے مرد حضرات بہت خوشی کا اظہار کرتے ہیں۔۔۔اور یہ اظہار دیکھا بھی جا رہا ہے۔
جہاں اللہ تعالی نے مرد کو 4 شادیوں کا اختیار دیا ہے وہاں عدل کا حکم بھی ہے۔درحقیقت عدل وانصاف سے تمام بیویوں کے معاملات نبھاتے رہنا بہت بڑی بات ہے۔اہم چیز مرد کی مینیجمنٹ ہے۔دوسری شادی کو معیوب سمجھنے میں دیگر اور وجوہات کے علاوہ اہم وجہ شوہر کا دونوں اطراف میں انصاف نہ کرنا ہے۔ایک شوہر کو بیک وقت اپنے ماں باپ کی خدمت ذمہ داری بھی نبھانی ہے اور دوسری جانب بیویوں سے حسن سلوک بھی، اسے فکر معاش بھی ہے اور احساس ذمہ داری بھی۔پاکستان انڈیا میں جو ساس بہو کے مابین کشمکش چلتی ہے تو اس میں ان دونوں کے علاوہ شوہر کا کردار بھی بہایت اہمیت کا حامل ہے۔جو مرد وہ ہینڈل کر لے وہاں یہ مسئلے پیش نہیں آتے۔
اسی طرح دوسری شادی کو جو مینیجمنٹ کر سکے وہ ضرور کرے۔تاکہ معاشرے میں بھی دیکھا جائے کہ دو بیویوں سے بھی زندگی خوش اسلوبی سے گزر سکتی ہے۔
مرد حضرات کو اس اہم پہلو کی طرف بھی توجہ دینی ہو گی کہ شادی عورت کا تحفظ ہے ، جب ایک مرد کنواری کم عمر لڑکی سے شادی کر چکا ہے ، اور وہ خواہش رکھتا ہے کہ وہ دوسری شادی کرے تو اسے چاہیئے کہ وہ ایسی عورت سے شادی کرے جس کے لیے وہ بہتر ہو۔اس طرح معاشرے کی بے سہارا عورتوں کو تحفظ حاصل ہو گا۔
کاش دوسری شادی کی خواہش رکھنے والے یہ روش اپنا لیں کہ بیوہ ، مطلقہ سے شادی کریں تاکہ وہ عزت کی زندگی گزار سکے ، اس عورت سے کریں جو بچوں والی ہوں تاکہ انھیں باپ کی شفقت مل سکے، اور اپنی بیویوں کو دین کی تعلیم دیں اور انھیں نیکی کے کام میں لگائیں تو اللہ سے قوی امید ہے کہ اللہ ایسے شوہروں کو پسند فرمائے گا۔ان شاء اللہ العظیم
 

کیلانی

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 24، 2013
پیغامات
347
ری ایکشن اسکور
1,110
پوائنٹ
127
عام طور پر دوسری شادی کے تصور سے مرد حضرات بہت خوشی کا اظہار کرتے ہیں۔۔۔اور یہ اظہار دیکھا بھی جا رہا ہے۔
جہاں اللہ تعالی نے مرد کو 4 شادیوں کا اختیار دیا ہے وہاں عدل کا حکم بھی ہے۔درحقیقت عدل وانصاف سے تمام بیویوں کے معاملات نبھاتے رہنا بہت بڑی بات ہے۔اہم چیز مرد کی مینیجمنٹ ہے۔دوسری شادی کو معیوب سمجھنے میں دیگر اور وجوہات کے علاوہ اہم وجہ شوہر کا دونوں اطراف میں انصاف نہ کرنا ہے۔ایک شوہر کو بیک وقت اپنے ماں باپ کی خدمت ذمہ داری بھی نبھانی ہے اور دوسری جانب بیویوں سے حسن سلوک بھی، اسے فکر معاش بھی ہے اور احساس ذمہ داری بھی۔پاکستان انڈیا میں جو ساس بہو کے مابین کشمکش چلتی ہے تو اس میں ان دونوں کے علاوہ شوہر کا کردار بھی بہایت اہمیت کا حامل ہے۔جو مرد وہ ہینڈل کر لے وہاں یہ مسئلے پیش نہیں آتے۔
اسی طرح دوسری شادی کو جو مینیجمنٹ کر سکے وہ ضرور کرے۔تاکہ معاشرے میں بھی دیکھا جائے کہ دو بیویوں سے بھی زندگی خوش اسلوبی سے گزر سکتی ہے۔
مرد حضرات کو اس اہم پہلو کی طرف بھی توجہ دینی ہو گی کہ شادی عورت کا تحفظ ہے ، جب ایک مرد کنواری کم عمر لڑکی سے شادی کر چکا ہے ، اور وہ خواہش رکھتا ہے کہ وہ دوسری شادی کرے تو اسے چاہیئے کہ وہ ایسی عورت سے شادی کرے جس کے لیے وہ بہتر ہو۔اس طرح معاشرے کی بے سہارا عورتوں کو تحفظ حاصل ہو گا۔
کاش دوسری شادی کی خواہش رکھنے والے یہ روش اپنا لیں کہ بیوہ ، مطلقہ سے شادی کریں تاکہ وہ عزت کی زندگی گزار سکے ، اس عورت سے کریں جو بچوں والی ہوں تاکہ انھیں باپ کی شفقت مل سکے، اور اپنی بیویوں کو دین کی تعلیم دیں اور انھیں نیکی کے کام میں لگائیں تو اللہ سے قوی امید ہے کہ اللہ ایسے شوہروں کو پسند فرمائے گا۔ان شاء اللہ العظیم
بالخصوص ازدواجی معاملات میں مرد کی طبعیت میں اللہ تعالی نے تنوع ( رنگارنگ کی چیزیں پسند کرنے) کا جذبہ رکھا ہے جبکہ اس معاملے میں عورت کی طبعیت میں وحدت پرستی رکھی ہوئی ہے۔ظاہر بات ہے جب مرد کے سامنے ایسی باتیں یا کام ہوں گے جو اس کی تنوع پسند طبعیت کو مسرور ہونے کا موقع فرہم کریں تو وہ ضرور اپنے جذبات کا اظہار کرےگا۔
اوریہ ایک حقیقت ہے کہ دوسری شادی واقعی ایک بہت بڑا کام ہے میں گزشتہ ایام میں مولانا عبدالماجددریابادی کی سوانح حیات پڑھ رہا تھا جس میں ان کی دوسری شادی کا ذکر آیا جس میں تھا کہ دوسری شادی کے بعد ان کی ملاقات مولانااشرف علی تھانوی سے ہوئی انہوں نے دریابادی کی دوسری شادی کے بارےمیں سن رکھا تھا چناچہ ان کے دریافت کرنے پر دریابادی صاحب نے تصدیق کی ۔اس پر مولانا تھانوی فرمانے لگے خیال کرنا اب! ایک سلطنت چلانا آسان ہے لیکن دوبیویوں کے ساتھ گھر چلانا مشکل ہے۔اور تاہم انسان کو ہمت کرنی چاہیے۔ویسے مزے کی بات ہے کل والی پوسٹ پہ میں جھڑکیا کھا بیٹھا ہوں۔ پھر بھی کہتا ہوں اللہ ہر ایک کو استقامت دے۔کہ وہ راہ حق میں ڈھٹا رہے۔
 

Dua

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 30، 2013
پیغامات
2,579
ری ایکشن اسکور
4,440
پوائنٹ
463

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,346
پوائنٹ
800
مجھے کیلانی بھائی سے اتفاق ہے کہ دوسری شادی ایسی شے ہے جسے عورت طبعی طور پر پسند نہیں کرتی، اسلام میں خواہ اس کی اجازت اور ترغیب ہی کیوں نہ ہو۔ اسی طرح بعض عورتیں شروع میں اسے قبول کر لیتی ہیں بلکہ کئی مرتبہ خود ہی شوہر کی شادی کرادیتی ہیں لیکن عملی طور پر اسے برداشت کرنا بعض اوقات ان کیلئے کافی مشکل ہو جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمیں ایسی بعض مثالیں کائنات کی بہترین عورتوں میں بھی مل جاتی ہیں۔ مثلاً سیدہ سارہ وہاجرہ کی رنجش کے بعض تاریخی واقعات، ازواج مطہرات کے آپسی بعض اختلافات وغیرہ وغیرہ!

اسی طرح عورت کے رشتے دار بھی یہ بات طبعاً پسند نہیں کرتے کہ ان کی بیٹی اور بہن وغیرہ پر سوکن آئے اگرچہ خود انہوں نے دوسری شادی کیوں نہ کی ہو۔ صحیحین میں ہے کہ خاتون جنّت سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کو جب پتہ لگا کہ سیدنا علی﷜ ابو جہل کی (مسلمان) بیٹی سے دوسری شادی کرنا چاہتے ہیں تو انہوں نے اس کی شکایت نبی کریمﷺ سے کی۔ نبی کریمﷺ نے خطاب فرما کر سیدنا علی﷜ کو اس سے روک دیا کہ نبی کی بیٹی اور اللہ کے دشمن کی بیٹی ایک آدمی میں نکاح میں اکٹھی نہیں ہو سکتیں۔

پھر ہمارا معاشرہ ہندوانہ کلچر اور غیر مسلموں کے پراپیگنڈہ سے متاثر ہونے کی وجہ سے بھی اس کی مخالفت کرتا ہے۔ جس کی وضاحت پچھلی پوسٹس میں ہوچکی ہے۔

اس کی ناپسندیدگی کی ایک بڑی وجہ میرے نزدیک مردوں کا بیویوں کے مابین انصاف نہ کرنا بھی ہے۔ کئی لوگوں نے تو اسے بیویوں کیلئے ایک دھمکی بنایا ہوا ہے اور پھر بہت سارے ایسے حضرات ہیں جو صرف ’تلذّذ‘ یا ’چسکے‘ کیلئے دوسری شادی کی بات (وہ بھی کنواری یا کم عمر لڑکیوں کے حوالے سے) کرتے ہیں جو نہایت غیر مناسب اور غیر اخلاقی بات ہے۔ اگر نبی کریمﷺ کی مبارک سنت کا مطالعہ کیا جائے تو آپ نے پہلی شادی اپنے سے 15 برس زیادہ عمر کی بیوہ خاتون (سیدہ خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ عنہا) کے ساتھ کی اور اسے 25 سال نبھایا پھر ان کی وفات پر دوسری شادی بھی اپنے سے بڑی عمر کی بیوہ خاتون (سیدہ سودہ رضی اللہ عنہا) سے کی۔ باقی تمام شادیاں بھی آپ نے بیوہ یا مطلقہ عورتوں سے کیں سوائے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے اور وہ بھی اللہ کے حکم پر جس کے پیچھے عظیم حکمتیں تھیں اور امت کیلئے ایسی صورت میں بھی اسوۂ حسنہ قائم کرنا مقصود تھا۔

حقیقت یہ ہے کہ اگر اسلامی تعلیمات کو مدِ نظر رکھتے ہوئے دوسری، تیسری یا چوتھی شادی کی جائے تو یہ عورتوں کی بجائے مردوں پر ایک بڑا بوجھ اور ذمہ داری ہے اور اس میں عورتوں کا فائدہ ہے خاص طور پر ان بیوہ، مطلقہ یا شادی کے انتظار میں بیٹھی خواتین کا جن کے بالوں کی چاندی اُتر آئی ہے۔ اور پھر عورتوں کی تعداد ہمیشہ مردوں سے زیادہ رہی ہے اگر تعدد ازواج پر صحیح روح کے مطابق عمل نہ کیا جائے تو اس کا نتیجہ صرف اور صرف زنا کاری ہے اور کچھ نہیں۔

اللہ تعالیٰ ہماری اصلاح فرمائیں اور ہمیں اسلامی اصولوں پر کما حقہ عمل پیرا ہونے کی توفیق عطا فرمائیں!
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,551
پوائنٹ
304
مجھے کیلانی بھائی سے اتفاق ہے کہ دوسری شادی ایسی شے ہے جسے عورت طبعی طور پر پسند نہیں کرتی، اسلام میں خواہ اس کی اجازت اور ترغیب ہی کیوں نہ ہو۔ اسی طرح بعض عورتیں شروع میں اسے قبول کر لیتی ہیں بلکہ کئی مرتبہ خود ہی شوہر کی شادی کرادیتی ہیں لیکن عملی طور پر اسے برداشت کرنا بعض اوقات ان کیلئے کافی مشکل ہو جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمیں ایسی بعض مثالیں کائنات کی بہترین عورتوں میں بھی مل جاتی ہیں۔ مثلاً سیدہ سارہ وہاجرہ کی رنجش کے بعض تاریخی واقعات، ازواج مطہرات کے آپسی بعض اختلافات وغیرہ وغیرہ!

اسی طرح عورت کے رشتے دار بھی یہ بات طبعاً پسند نہیں کرتے کہ ان کی بیٹی اور بہن وغیرہ پر سوکن آئے اگرچہ خود انہوں نے دوسری شادی کیوں نہ کی ہو۔ صحیحین میں ہے کہ خاتون جنّت سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کو جب پتہ لگا کہ سیدنا علی� ابو جہل کی (مسلمان) بیٹی سے دوسری شادی کرنا چاہتے ہیں تو انہوں نے اس کی شکایت نبی کریمﷺ سے کی۔ نبی کریمﷺ نے خطاب فرما کر سیدنا علی� کو اس سے روک دیا کہ نبی کی بیٹی اور اللہ کے دشمن کی بیٹی ایک آدمی میں نکاح میں اکٹھی نہیں ہو سکتیں۔

پھر ہمارا معاشرہ ہندوانہ کلچر اور غیر مسلموں کے پراپیگنڈہ سے متاثر ہونے کی وجہ سے بھی اس کی مخالفت کرتا ہے۔ جس کی وضاحت پچھلی پوسٹس میں ہوچکی ہے۔

اس کی ناپسندیدگی کی ایک بڑی وجہ میرے نزدیک مردوں کا بیویوں کے مابین انصاف نہ کرنا بھی ہے۔ کئی لوگوں نے تو اسے بیویوں کیلئے ایک دھمکی بنایا ہوا ہے اور پھر بہت سارے ایسے حضرات ہیں جو صرف ’تلذّذ‘ یا ’چسکے‘ کیلئے دوسری شادی کی بات (وہ بھی کنواری یا کم عمر لڑکیوں کے حوالے سے) کرتے ہیں جو نہایت غیر مناسب اور غیر اخلاقی بات ہے۔ اگر نبی کریمﷺ کی مبارک سنت کا مطالعہ کیا جائے تو آپ نے پہلی شادی اپنے سے 15 برس زیادہ عمر کی بیوہ خاتون (سیدہ خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ عنہا) کے ساتھ کی اور اسے 25 سال نبھایا پھر ان کی وفات پر دوسری شادی بھی اپنے سے بڑی عمر کی بیوہ خاتون (سیدہ سودہ رضی اللہ عنہا) سے کی۔ باقی تمام شادیاں بھی آپ نے بیوہ یا مطلقہ عورتوں سے کیں سوائے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے اور وہ بھی اللہ کے حکم پر جس کے پیچھے عظیم حکمتیں تھیں اور امت کیلئے ایسی صورت میں بھی اسوۂ حسنہ قائم کرنا مقصود تھا۔

حقیقت یہ ہے کہ اگر اسلامی تعلیمات کو مدِ نظر رکھتے ہوئے دوسری، تیسری یا چوتھی شادی کی جائے تو یہ عورتوں کی بجائے مردوں پر ایک بڑا بوجھ اور ذمہ داری ہے اور اس میں عورتوں کا فائدہ ہے خاص طور پر ان بیوہ، مطلقہ یا شادی کے انتظار میں بیٹھی خواتین کا جن کے بالوں کی چاندی اُتر آئی ہے۔ اور پھر عورتوں کی تعداد ہمیشہ مردوں سے زیادہ رہی ہے اگر تعدد ازواج پر صحیح روح کے مطابق عمل نہ کیا جائے تو اس کا نتیجہ صرف اور صرف زنا کاری ہے اور کچھ نہیں۔

اللہ تعالیٰ ہماری اصلاح فرمائیں اور ہمیں اسلامی اصولوں پر کما حقہ عمل پیرا ہونے کی توفیق عطا فرمائیں!
جزا ک الله -

جہاں تک یہ بات کہ نبی کریم صل الله علیہ وسلم کی پہلی شادی کے وقت عمر 25 سال اور حضرت خدیجہ رضی الله عنہ کی عمر 40 سال تھی -اس بارے میں میں نے کہیں پڑھا تھا (اب یاد نہیں کہ کہاں) کہ یہ روایت صحیح نہیں بلکہ ضعیف ہے -اصل یہ ہے کہ حضرت خدیجہ رضی الله عنہ کی نبی کریم صل الله علیہ وسلم سے شادی کے وقت عمر 28 سے 30 سال کے درمیان تھی- اگر چہ یہ ان کی دوسری شادی تھی -بہت سے دوسرے تاریخی دلائل کے علاوہ مصنف کے مطابق 40 سال کی عمر میں شادی اس لئے بھی ممکن نہیں تھی کہ حضرت خدیجہ رضی الله عنہ کی نبی کریم صل الله علیہ وسلم سے 6 اولادیں ہوئیں (4 بیٹیاں اور 2 بیٹے ) - جب کہ 40 سال کی عمر کے بعد عورت کے لئے طبی لحاظ سے اولاد پیدا کرنا مشکل ہو جاتا ہے - جب کہ آپ رضی الله عنہ کی ساری اولادیں 40 سال کی عمر کے بعد پیدا ہوئیں - (واللہ عالم ) اگر اس بارے میں کسی بھائی کو کچھ صحیح بات کا علم ہو تو بیان کرے تا کہ میرے علم میں بھی اضافہ ہو -

یہ بھی ذہن میں رہے کہ رافضی بھی اسی روایت (یعنی نبی کریم صل الله علیہ وسلم کی پہلی شادی کے وقت عمر 25 سال اور حضرت خدیجہ رضی الله عنہ کی عمر 40 سال تھی) کی بنیاد پر بڑے دھڑلے سے کہتے ہیں کہ نبی کریم صل الله علیہ وسلم کی حضرت خدیجہ الکبریٰ رضی الله عنہ سے صرف 2 اولادین ہوئیں تھیں ایک بیٹی اور ایک بیٹا - بیٹی حضرت فاطمہ رضی الله عنہ اور بیٹا حضرت قاسم رضی الله عنہ تھے - (والله عالم )
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
بہت بہت شکریہ اتنی اچھی اور مفید معلومات شیئر ہو چکی ہیں۔ اور یہ تھریڈ میری نظر سے ابھی گزر رہا ہے۔
شاید یہ وجہ بھی ہو کہ بقول بعض عرب حضرات اور پاکستانی علماء کے کہ
میں نے بھی ایک شادی کر رکھی ہے اور ایک شادی والا ظالم ہوتا ہے۔
دو شادیوں والا مسکین ہوتا ہے
تین اور چار شادیاں کرنا والا منصف ہوتا ہے۔
اور شاید میں اس تھریڈ کے ساتھ بھی ظلم ہی کروں
کیونکہ
میری ایک ہی شادی ہے۔ ہاہاہاہا

بہرحال میرے نزدیک یہ مسئلہ نہایت اہمیت کا حامل ہے۔ وجہ یہ ہے کہ معاشرے کو پاک صاف رکھنے کے لئے اللہ رب العزت نے بیوہ و مطلقہ وغیرہ کا نکاح کرنے کا حکم ان کے ولی حضرات کو قرآن مجید میں ارشاد فرمایا ہے۔

تنگی و تنگدسی کے باوجود مفلس و محتاج سے نکاح کرنے کا حکم اپنی طرف سے غنی کرنے کی خوشخبری کے ساتھ ارشاد فرمایا۔

بیویوں میں انصاف کرنے کی شرط عائد فرمائی ہے اور انصاف ہی کا حکم دیا ہے
لیکن
اس کے بعد والی آیات میں
اس شرط پر پورا نہ اترنے کے باوجود بھی دوسرے تیسری چوتھے نکاح سے نہیں روکا بلکہ نکاح کے حکم کو برقرار رکھتے ہوئے فرمایا:
وَلَنْ تَسْتَطِيْعُوْٓا اَنْ تَعْدِلُوْا بَيْنَ النِّسَاۗءِ وَلَوْ حَرَصْتُمْ فَلَا تَمِيْلُوْا كُلَّ الْمَيْلِ فَتَذَرُوْھَا كَالْمُعَلَّقَۃِ۝۰ۭ وَاِنْ تُصْلِحُوْا وَتَتَّقُوْا فَاِنَّ اللہَ كَانَ غَفُوْرًا رَّحِيْمًا۝۱۲۹
اور تم ہرگز اس بات کی طاقت نہیں رکھتے کہ (ایک سے زائد) بیویوں کے درمیان (پورا پورا) عدل کر سکو اگرچہ تم کتنا بھی چاہو۔ پس (ایک کی طرف) پورے میلان طبع کے ساتھ (یوں) نہ جھک جاؤ کہ دوسری کو (درمیان میں) لٹکتی ہوئی چیز کی طرح چھوڑ دو۔ اور اگر تم اصلاح کر لو اور (حق تلفی و زیادتی سے) بچتے رہو تو اللہ بڑا بخشنے والا نہایت مہربان ہے۔

میرے نزدیک اس بے راہ روی کے دور میں دوسرا، تیسرا اور چوتھا نکاح کرنا کم از کم واجب ہے کیونکہ اگر برائی کو ہاتھ سے روکنا افضل ایمان کی نشانی ہے تو معاشرے سے بے راہ روی کو دور کرنے کے لئے دوسرا نکاح کرنا بھی ایمان کی نشانی ہے اور جس میں جتنی استطاعت ہے وہ اتنا ہی اس واجب کو پورا کرنے کا مکلف ہے
باقی باتیں ان شاء اللہ العزیز جاری رہیں گی۔
 

محمد وقاص گل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 23، 2013
پیغامات
1,033
ری ایکشن اسکور
1,711
پوائنٹ
310
محمد علی بھائی آپ نے اچھے مسئلے کی طرف رہنمائی کی۔۔
اس بارےمیں میں نے آپ کے اس مراسلے کے بعد کچھ تھوڑی سی سرچ کی تو اس میں آٹھ مختلف اقوال میں سے دو قول 28،40 ذیادہ نظر آتے ہیں ۔
لیکن 28 والا قول بھی سند کے بغیر اور منقطع ہے۔
مزید اس حوالے سے علماء بہتر رہنمائی کر سکتے ہیں۔
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
باقی میں نے چند باتیں اپنے اساتذہ کے متعلق لکھیں جنہوں نے دوسری دوسری شادی کی تو اللہ تعالی نے انہیں نوازا۔ لیکن یہ سب انٹر نیٹ کی نظر ہو گئیں۔
اب اس بات کو آگے بڑھاتے ہیں کہ

جب کوئی انسان اور خصوصاً مسلمان جب کوئی بھی کام صرف اور صرف اللہ تعالی کی رضا کے لئے کرتا ہے۔ اس کے دین کے لئے کرتا ہے۔ دین کو دنیا میں قائم کرنے کے لئے کرتا ہے تو اللہ تعالی اسے اس کا بدلہ ضرور عطا فرماتا ہے اور اس کے اس کام میں خیر و برکت عطا فرماتا ہے۔ مثلاً
انبیاء علیہم السلام میں سے ابراہیم علیہ السلام نے اللہ سے اولاد مانگی اور تاکہ دین کا کام جاری و ساری رہ سکے۔

چنانچہ اللہ تعالی نے دو بیٹے عطا کئے۔ ایک ایک بیوی سے اور دوسرا دوسری بیوی سے۔ دونوں کو نبی بنایا۔ بعد میں آنے والے تمام انبیاء و رُسل اسی بیٹے کی ذریت سے آئے سوائے ایک
چنانچہ دوسرا بیٹے کی نسل سے ایک نبی آیا تو اُسے خاتم النبیین بنا دیا۔ یہ سب اللہ تعالی کا خصوصی فضل تھا۔ اس واقعے میں بھی دو بیویاں نظر آتی ہیں اور اللہ کے دین کی مدد کے لئے اولاد کی طلب نظر آتی ہے۔

زکریا علیہ السلام نے اللہ سے اولاد مانگی تو صرف اور صرف اس لئے کہ اللہ کے دین کی مدد ہو۔ اور اللہ کا دین آگے چلے۔ چنانچہ اللہ تعالی نے بیٹا دیا اور نبی بھی بنا دیا۔

ایک عورت نے نذر مانی کہ میرے بطن میں جو کچھ ہے اسے تیرے لئے آزاد کرتی ہوں (چاہت اور امید تھی کہ بیٹا ہو گی ) تاکہ دین کا کام ترقی کر سکے۔ لیکن اللہ تعالی نے بیٹے کی بجائے بیٹی عطا فرما دی اور اسے بھی قبول کرتے ہوئے دین کی خدمت کا کام ان کے بیٹی عیسیٰ علیہ السلام کے سپرد کر دیا۔
غور کریں کہ جو بھی کام کیا جا رہا ہے اللہ کی رضا اور اللہ کے دین کی خاطر کیا جا رہا ہے۔

آج بھی اگر کوئی مسلمان صرف اور صرف اللہ تعالی کی رضا حاصل کرنے کے لئے دوسرا تیسرا اور چوتھا نکاح کرے گا تو کیا اللہ تعالی اس کے اس کام میں برکت عطا نہیں فرمائے گا۔ لازما فرمائے گا۔ صرف اور صرف للہیت کی ضرورت ہے۔

جاری ہے
 
Top