• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اس جج کو عدالت میں نہیں ہونا چاہئے تھا بلکہ کسی مسجد میں خطیب ہونا چاہئے تھا، عاصمہ جہانگیر

شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
14 فروری پر پابندی کا فیصلہ قانون کے مطابق نہیں:عاصمہ جہانگیر

دیکھیئے خصوصی رپورٹ اور اوریا مقبول جان کا تبصرہ


ویڈیو


لنک



بہت ہی خوب، بہت ہی کمال اوریا مقبول جان صاحب اللہ آپ کا حامی و ناصر ہو آمین.
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
إِنَّ الَّذِينَ يُحِبُّونَ أَن تَشِيعَ الْفَاحِشَةُ فِي الَّذِينَ آمَنُوا لَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ ۚ وَاللَّهُ يَعْلَمُ وَأَنتُمْ لَا تَعْلَمُونَ

جو لوگ مسلمانوں میں بے حیائی پھیلانے کے آرزو مند رہتے ہیں ان کے لیے دنیا اور آخرت میں دردناک عذاب ہے اور الله جانتا ہے اور تم نہیں جانتے

(سورة النور آیت ۱۹)
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
مسجدوں میں ’ امام و خطیب ‘ اور عدالتوں میں ’ قاضی ’

’’عدالت میں جج کی بجائے انہیں کسی مسجد کا امام ہونا چاہیے ۔ ‘‘
اس طرح کا بیان داغنے والی ایک موصوفہ ہیں ، جو وطن عزیز پاکستان میں ’ بدنام زمانہ ‘ عورتوں میں سے ایک ہیں ۔ جن کی حرکات کے ساتھ بطور تعارف ان کا نام یا نام کے ساتھ ان کی حرکات کا ذکر تکرار شمار ہوگا ۔
موصوفہ کی دلچسپیوں کا مرکز و محور وہ ’ تہذیب و تمدن ‘ ہے ، جس کا ظفر علی خاں کے مطابق تھپڑ مار کے حلیہ بگاڑ دینا چاہیے ۔ یہاں میں ذرا وضاحت کرنے کی جسارت کروں گا کہ ’ تہذیب ‘ کا حلیہ بگڑا تو اسے ’ تہذیب نو ‘ کہنا پڑا ، اب اسے تھپڑوں کی ضرورت ہے ، تاکہ یہ اپنی ’ اوقات ‘ میں آجائے ۔
تہذیب نو کے منہ پر وہ تھپڑ رسید کر
جو اس حرامزادی کا حلیہ بگاڑ دے
ظفر علی نے تو ’ حرامزادی ‘ بھی کہا ، جو ظاہر ہے تہذیب کو کہا ہے ، اس تہذیب کی کسی پیروکار کو نہیں ، ویسے بھی ہمارے ایک دوست کا کہنا ہے اگر کسی ’پیروکار ‘ کو حرامزادی کہنا ہے اس کے لیے چار گواہ پیش کرنے پڑیں گے ، ورنہ حد قذف لگ سکتی ہے ۔
میں عرض کرنا چاہ رہا تھا کہ موصوفہ نے جس انداز سے طنز کیا ، اس سے ان کے اسلامی شعائر سے لگاؤ کا پول تو کھلا ہے ( جو وقتا فوقتا کھلتا ہی رہتا ہے ) ساتھ ساتھ اسلام اور اہل اسلام سے ناوافقیت بھی آشکار ہوئی ہے ، نہیں تو بطور ایک وکیل ہونے کے انہیں یہ علم ہونا چاہیے تھا کہ آج بھی بہت سارے ممالک میں امام و قاضی ایک ہی شخصیت ہوتے ہیں ، موصوفہ کا کبھی ارض حرمین میں آنا نہیں ہوا ہوگا ( کیونکہ سنا ہے قادیانیوں کا داخلہ ممنوع ہے ) ، اگر یہ خاتون سعودی نظام کے متعلق جاننے میں دلچسپی رکھتی ہوں ، تو انہیں بہت زیادہ حیرانی ہوگی ، یہاں مسجد کے ساتھ ہی عدالت ہوتی ہے ، جو شخص عدالت میں قاضی کے فرائض سر انجام دیتا ہے ، وہی مسجد میں امامت و خطابت کے فرائض سر انجام دیتا ہے ۔
اور حقیقت تو یہ ہے کہ اسلام جب شروع ہوا تھا تو تمام اداروں کا ہیڈ کوارٹر یہی مسجد ہی ہوا کرتی تھی ، بلکہ عدالتیں بھی مساجد میں ہی یا ان کے گردو پیش لگا کرتی تھیں ، اسلامی تاریخ اٹھا کر دیکھیے ، کون سا جج ہے ، جو عالم دین نہ تھا ؟ قرن اول کے قاضی شریح سے لیکر آخری دور کے ابن حجر تک آجائیں ، یہ جید اور کبار علماء کرام وقت کے قاضی القضاۃ میں بھی شمار ہوتے تھے ۔
بلکہ گاہے تو ایسا بھی ہوا کہ حکمران محدثین و فقہاء کی منت سماجت کیا کرتے تھے ، کہ آپ کچھ وقت نکال کر منصب قضاء کو بھی سنبھالیں ۔
چودہ صدیوں کے اہم فیصلے ، نامور ججز کی سیرتیں ، عدل و انصاف کے قوانین و ضابطے انہیں ’ مولویوں ‘ نے ہی مرتب کیے ہیں ، برصغیر پاک و ہند میں انگریز کا نظام رائج ہے ، ورنہ اگر عدالتیں اسلامی قوانین و ضابطوں کے مطابق ہوں تو آج بھی ان مولویوں کے سوا ان کی کوئی اہلیت نہیں رکھتا ۔
ماضی میں جانے کی ضرورت نہیں ، ذیل میں دنیا کے افضل ترین دو شہروں کی افضل ترین دو مسجدوں کے امام و خطباء میں سے چند نام گنواتا ہوں ، جو شخصیات بیک وقت ’ جج ‘ بھی ہیں ، اور ’ امام و خطیب ‘ بھی ہیں ۔
1۔ شیخ سعود الشریم برسوں سے حرم مکی میں امام و خطیب بھی ہیں ، اور مکہ مکرمہ کی اعلی عدالت کے جج ہی نہیں ، بلکہ قضاء کے بہترین پروفیسر بھی ہیں اور ام القری یونیورسٹی میں کلیۃ القضا انہیں کی کاوشوں کا نتیجہ ہے ۔
2۔ شیخ صالح بن عبد اللہ بن حمید ، مسجد حرام کے امام و خطیب ہیں ، اسی طرح ججز کی مجلس اعلی کے رئیس رہ چکے ہیں ۔
3۔ شیخ صالح آل طالب بھی مسجد حرام کے امام و خطیب ہیں ، مکہ مکرمہ میں جج کے فراض سر انجام دیتے ہیں ، اس کے علاوہ بھی سعودی عرب کے بہت سارے شہروں میں ان کی بطور جج خدمات مشہور ہیں ۔
4۔ شیخ صلاح البدیر 1419 سے مسجد نبوی میں امام و خطیب مقرر ہونے کے ساتھ ساتھ مسجد رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے پڑوس میں ہی قائم عدالت میں خدمات سر انجام دے رہے ہیں ۔
5۔ شیخ حسین بن عبد العزیز آل شیخ ( شیخ محمد بن عبد الوہاب کی اولاد ) ایک طویل عرصہ سے مسجد نبوی میں امامت و خطابت کے فرائض کے ساتھ ساتھ بطور قاضی بھی خدمات سر انجام دے رہے ہیں ۔
6۔ شیخ عبد المحسن القاسم ، کئی ایک اعتبارات سے اہل مدینہ میں بہت مشہورہیں ، کئی سالوں سے مسجد نبوی میں امامت و خطابت کے علاوہ عدالت میں بطور قاضی بھی مقرر ہیں ۔
یہ چند ایک نام میں نے بطور مثال پیش کیے ، ورنہ سعودیہ کی کسی عدالت کا کوئی جج ہی ہوگا ، جو کسی مسجد میں امام اور خطیب نہ ہو ۔
اللہ سے دعا ہے ، اسلام کے نام پر معرض وجود میں آنے والے وطن عزیز پاکستان میں اسلامی نظام کا کما حقہ نفاذ ہو، اور اس کی بھاگ دوڑ مکمل طور پر وہی سنبھالیں ، جو اس کے اہل ہیں ۔ جو دین کو سیاست سے جدا کرکے چنگیزی نظام کے دلدادہ نہیں ، بلکہ دین و دنیا کے تمام مسائل کے حل پر مشتمل مکمل اسلامی ضابطہ حیات کی حمایت کرنے والے ہیں ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ان ائمہ کرام و ججز عظام کی تصاویر دیکھنے کے لیے یہاں کلک کریں ۔
 
Last edited:
Top