السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
صحت و تخریج درکار ہے
عبداللہ بن جدعان (مکہ کا بہت بڑا سخی ) کے متعلق عائشہ رضی اللہ عنھا نے پوچھا کہ کیا اس کے انسانی خدمت کے کام اس کو کوئی فائدہ نہیں دیں گے؟؟ تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "کیسے عائشہ؟ جبکہ اس نے کبھی یہ تک نہیں کہا :اللھم اغفرلی! یا اللہ مجھے معاف فرما۔"
و علیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
عبداللہ بن جدعان
قریش کا سردار اور نہایت سخی انسان تھا ، خاندان کے لحاظ سے عبد اللہ بن جدعان ۔۔ جناب ابوبکر الصدیق کے والد کا چچا زاد بھائی تھا ،
جناب ابوبکرصدیق کا نسب یہ ہے :
أبو بكر الصديق بن أبي قحافة، خليفة رسول اللَّه صلى اللَّه عليه وآله وسلّم
عبد اللَّه بن عثمان بن عامر بن عمرو بن كعب بن سعد بن تيم بن مرة بن كعب بن لؤيّ القرشي التميمي،
اور عبد الله بن جدعان کا نسب یہ ہے :
عبد الله بن جدعان بن عمرو بن كعب بن سعد بن تيم بن مرة بن كعب بن لؤي بن غالب بن فهر بن مالك بن النضر وهو قريش بن كنانة بن خزيمة بن مدركة بن إلياس بن مضر بن نزار بن معد بن عدنان.
وابن عم أبو قحافة والد أبي بكر الصديق .
رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کی نوجوانی کے دور میں قریش مکہ نے ایک معاہدہ کیا تھا جس کا نام "حلف الفضول" ہے۔ اس کے بارے میں آپ نے ارشاد فرمایا۔
روى الحافظ البيهقي بسنده عن جبير بن مطعم قال : قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: شهدت مع عمومتي حلف المطيبين فما أحب أن أنكثه - أو كلمة نحوها - وأن لي حمر النعم. ثم روى البيهقي عن عمر بن أبي سلمة عن أبيه عن أبي هريرة قال : قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ما شهدت حلفا لقريش إلا حلف المطيبين وما أحب أن لي حمر النعم وأني كنت نقضته. قال : و المطيبون: هاشم وأمية وزهرة ومخزوم
(محمد ناصر الدين الباني؛ صحيح السيرة النبوية)
حافظ بیہقی اپنی سند سے سیدنا جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے ارشاد فرمایا، "میں مطیبین کے معاہدے میں عام لوگوں کے ساتھ شریک تھا۔ اس معاہدے کو میں کبھی توڑنا پسند نہیں کروں گا (یا غالباً اسی طرح کا کوئی اور لفظ ارشاد فرمایا) اگرچہ مجھے اس کے بدلے سرخ اونٹ بھی ملیں۔ "اس کے بعد بیہقی نے سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت پیش کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے فرمایا، "میں مطیبین کے معاہدے کے علاوہ قریش کے کسی معاہدے میں شریک نہیں ہوا۔ مجھے یہ بات سخت ناپسند ہے کہ میں سرخ اونٹوں کے بدلے ہی (یعنی کسی بھی قیمت پر) اس معاہدے کی خلاف ورزی کروں۔" راوی کہتے ہیں کہ مطیبین سے مراد بنو ہاشم، بنو امیہ، بنو زھرہ اور بنو مخزوم ہیں۔
یہ معاہدہ قریش مکہ کی قیادت نے کیا تھا جو اس وقت غیر مسلم افراد تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے نہ صرف اسے پسند فرمایا بلکہ اس پر اعلان نبوت کے بعد بھی عمل فرمایا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر کوئی معاہدہ انسانیت کے مطابق ہو تو اس پر ہر حال میں عمل کیا جائے گا خواہ اس معاہدے کا آغاز غیر مسلم حکمرانوں کی جانب سے ہی کیا گیا ہو۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم اس معاہدے کو اتنا پسند کیوں کیا کرتے تھے، اس کی وجہ جاننے کے لئے اس معاہدے کی تفصیلات دیکھنا ضروری ہوں گی۔ علامہ صفی الرحمٰن مبارکپوری، سیرت ابن ہشام کے حوالے سے لکھتے ہیں:
یہ لوگ عبداللہ بن جدعان تیمی کے مکان پر جمع ہوئے کیونکہ وہ سن و شرف میں ممتاز تھا، اور آپس میں عہد و پیمان کیا کہ مکہ میں جو بھی مظلوم نظر آئے گا، خواہ وہ مکے کا رہنے والا ہو یا کہیں اور کا، یہ سب اس کی مدد اور حمایت میں اٹھ کھڑے ہوں گے اور اسے اس کا حق دلوا کر رہیں گے۔ اس اجتماع میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم بھی تشریف فرما تھے اور بعد میں شرف رسالت سے مشرف ہونے کے بعد بھی فرمایا کرتے تھے، "میں عبداللہ بن جدعان کے مکان پر ایک ایسے معاہدے میں شریک تھا کہ مجھے اس کے عوض سرخ اونٹ بھی پسند نہیں ہیں اور اگر (دور) اسلام میں بھی مجھے اس عہد و پیمان کے لئے بلایا جاتا تو میں لبیک کہتا۔"
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
اور جس حدیث کے متعلق آپ نے پوچھا ہے ، وہ صحیح مسلم اور مسند احمد اور دیگر کئی کتب حدیث میں موجود ہے ،
صحیح مسلم میں ہے :
عَنْ عَائِشَةَ قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللهِ، ابْنُ جُدْعَانَ كَانَ فِي الْجَاهِلِيَّةِ يَصِلُ الرَّحِمَ، وَيُطْعِمُ الْمِسْكِينَ، فَهَلْ ذَاكَ نَافِعُهُ؟ قَالَ: " لَا يَنْفَعُهُ، إِنَّهُ لَمْ يَقُلْ يَوْمًا: رَبِّ اغْفِرْ لِي خَطِيئَتِي يَوْمَ الدِّينِ "
امّ المومنین سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ میں نے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا:اے اللہ کے رسول!عبداللہ بن جدعان دور جاہلیت میں تھے (اسلئے اسلام تو نہیں لائے ،تاہم ) وہ رشتے ناطے نبھانے والے،غرباء و مساکین کو کھلانے والے تھے ، کیا اس کو اس کے اعمال کا کوئی فائدہ حاصل ہوگا؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
«لَا يَنْفَعُهُ لَمْ يَقُلْ يَوْمًا: رَبِّ اغْفِرْ لِي خَطِيئَتِي يَوْمَ الدِّينِ»
’’نہیں، کیونکہ اس نے کسی بھی دن یہ نہیں کہا کہ :اے میرے رب! قیامت کے روز میرے گناہ کو بخش دینا‘‘۔