• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اس پوسٹ پر تبصرہ ضرور کریں

عمر اثری

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 29، 2015
پیغامات
4,404
ری ایکشن اسکور
1,132
پوائنٹ
412
●● کون غوث اعظم ؟؟●●
●●●●●●●●●●●●●●●●●
جس نے جامع مسجد کے منبر پر کھڑے ہو کر یہ اعلان کیا: - میرا قدم تمام اولیاء اللہ کی گردن پر ہے

کون غوث اعظم ؟؟؟
جس نے بارہ سال پہلے ڈوبی ہوئی کشتی کو باراتيوں کے ساتھ زندہ
نکالا صرف ایک لمحے میں.باذ ن اللہ
کون غوث اعظم ؟؟
جن کے هجر-اے-پاک میں ایک چور چوری کی نیت سے آیا تو وقت کا قطب
بن گیا.
کون غوث اعظم ؟؟؟
جنہوں نے ایک ہزار سال پرانی قبر کو ٹھوکر مار کر مردے کو زندہ
کر دیا.
کون غوث اعظم ؟؟؟
جنہوں نے اپنے دھوبی کو حکم دیا کے قبر میں منكر نقر سوال پوچھے
تو کہہ دینا میں نے غوث اعظم کا دھوبی ہوں تو بخشا جائے
گا.
کون غوث اعظم ؟؟؟
جنہوں نے ماں کے پیٹ میں ہی 15 پارے یاد کئے.
کون غوث اعظم ؟؟؟
جو اپنے مريدوں کے لئے ارشاد فرماتے ہیں کے جب تک میرا ایک ایک
مرید جنت میں نہیں چلا جائے تب تک عبد القادر جنت میں نہیں جائے
گا.
کون غوث اعظم ؟؟؟
جنہوں نے یہ فرمایا کے میں مشرق میں رہوں اور میرا مرید مغرب
میں مجھے پكارےگا تو میں فورا اس کی مدد کو آئے گا.
کون غوث اعظم ؟؟؟
جنہوں نے اسلام کو زندہ کیا.
کون غوث اعظم ؟؟؟
جنہوں نے فرمایا جو مجھے اپنا پیر مانے گا وہ میرا مرید
ہے.
کون غوث اعظم ؟؟؟
جنہوں نے فرمایا سارے زمانے پر میری نظر ہے سارے عالم کو میں
ایسے دیکھتا ہوں جیسے رکھا میری هتےلي پر رائی کا دانا.
کون غوث اعظم ؟؟؟
جنہوں نے فرمایا میں نے انسانوں کا ہی نہیں بلکہ جناتوں کا بھی پیر ہوں.
کون غوث اعظم ؟؟؟
جن کا نام اگر کوئی سامان پر لکھ دیا جائے تو وہ سامان کبھی چوری نہیں ہوتا.
کون غوث اعظم ؟؟؟
جنہوں نے فرمایا وقت مجھے سلام کرتا ہے تب وقت کے مطابق آگے
بڑھتا
تیری سرکار میں لاتا ہے رضا اس کو شفیع
جو میرا غوث ہے اور لاڑلا بیٹا تیرا
مٹ گئے مٹتے ہے مٹ جائیں گے دشمن تیرے
نہ مٹا ہے نہ مٹےگا کبھی ذکر تیرا

اس کا رد کریں. ہو سکے تو قرآن و حدیث سے یا پھر کسی اور طرح سے.
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,565
پوائنٹ
791
میرا قدم تمام اولیاء اللہ کی گردن پر ہے
یہ باتیں ہندوستان ، پاکستان کے جاہلوں میں ہی نہیں ، بلکہ جہان عرب میں بھی یہ جنس وافر مقدار میں پائی جاتی ہیں
آپ گوگل پر ۔۔۔ قدمي على اعناق الاولياء ۔۔ یا ۔۔ قدمي هذه على رقبة كل ولي
لکھ کر نتیجہ دیکھ سکتے ہیں ،
اور اس قول کیلئے علامہ احسان الہی ظہیر رحمۃ اللہ علیہ کی کتاب (دراسات فی التصوف ) پڑھیں ،
 

عمر اثری

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 29، 2015
پیغامات
4,404
ری ایکشن اسکور
1,132
پوائنٹ
412
یہ باتیں ہندوستان ، پاکستان کے جاہلوں میں ہی نہیں ، بلکہ جہان عرب میں بھی یہ جنس وافر مقدار میں پائی جاتی ہیں
آپ گوگل پر ۔۔۔ قدمي على اعناق الاولياء ۔۔ یا ۔۔ قدمي هذه على رقبة كل ولي
لکھ کر نتیجہ دیکھ سکتے ہیں ،
اور اس قول کیلئے علامہ احسان الہی ظہیر رحمۃ اللہ علیہ کی کتاب (دراسات فی التصوف ) پڑھیں ،
جزاکم اللہ خیرا محترم شیخ!
الشيخ عبدالقادر الجيلاني وآراءه الاعتقادية والصوفية (صفحہ: 575) میں بھی کچھ من گھڑت باتوں کا جواب ہے. لیکن اسمیں صرف میری پوسٹ میں سے ایک کا ہی جواب ہے. میں نے گوگل پر کافی تلاش کیا. اسکے بعد ہی یہاں میسیج کیا. حالانکہ اس پوسٹ کی کوئی وقعت نہیں ہے. یہ سراسر من گھڑت باتیں ہیں. لیکن کسی نے خاص طور سے اسکا جواب مانگا ہے کہ اسکے ہر ہر پوائنٹ کا جواب قرآن وحدیث کی روشنی میں دیا جاۓ.
 

مظاہر امیر

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 15، 2016
پیغامات
1,426
ری ایکشن اسکور
409
پوائنٹ
190
الحمد للہ
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم اور تابعین عظام رحمہم اللہ کے دور میں صوفیت نام کی کوئ چيز نہیں پائ جاتی تھی ، حتی کہ زاھد لوگوں کا ایک گروہ پیدا ہوا جو کہ اون کے موٹے کپڑے پہنا کرتے تھے تو انہیں صوفی کے نام سے پکارا جانے لگا۔
اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ یہ (صوفی ) صوفیا سے ماخوذ ہے اور یونانی زبان میں اس کا معنی " حکمت " ہے نہ کہ جیسا کہ بعض یہ دعوی کرتے ہیں کہ یہ الصفاء سے ماخوذ ہے ، کیونکہ اگر الصفاء کی طرف نسبت کی جاۓ تو صفائ کہا جاۓ گا نہ کہ صوفی ۔

اس نۓ نام اور اس فرقہ نے مسلمانوں میں تفرقہ اور زیاد ہ کردیا ہے ، اور اس فرقہ کے پہلے صوفی حضرات بعد میں آنے والوں سے مختلف ہیں بعد میں آنےوالوں کے اندر بدعات کا بہت زیادہ عمل دخل ہے اور اس کے ساتھ ساتھ شرک اصغر اور شرک اکبر بھی پیدا ہو چکا ہے ، ان کی بدعات ایسی ہیں جن سے ہمارے نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے بچنے کا حکم دیتے ہوۓ فرمایا :

( تم نۓ نۓ کا موں سے بچو کیونکہ ہر نیا کام بدعت اور ہر بدعت گمراہی ہے ) سنن ترمذی ، امام ترمذی نے اسے حسن صحیح کہاہے۔

ذیل میں ہم صوفیوں کے اعتقادات اور ان کے دینی طریقوں اور قرآن وسنت پر مبنی اسلا م کا مقارنہ اور موازنہ پیش کرتے ہیں :

صوفی حضرات : کے مختلف طریقے اور سلسلے ہیں ، مثلا تیجانیہ ، نقشبندیہ ، شاذلیہ ، قادریہ ، رفاعیہ ،اور اس کے علاوہ دوسرے سلسلے جن پر چلنے والے یہ دعوی کرتے ہیں کہ وہ ہی حق پر ہیں ان کے علاوہ کو‎ئ اور حق پر نہیں ، حالانکہ اسلام تفرقہ بازی سے منع کرتا ہے ، اسی کی طرف اشارہ کرتے ہوۓ اللہ تعالی نے فرمایا ہے :

” اور تم مشرکوں میں سے نہ بنو ان لوگوں میں سے جنہوں نے اپنے دین کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیا اور خود بھی گروہ گروہ ہو گۓ ، ہر گروہ اس چيز پر جو اس کے پاس ہے وہ اس میں مگن اور اس پر خوش ہے “ الروم ( 31- 32 )

صوفی حضرات : نے اللہ تعالی کے علاوہ انبیاء اور اولیاء زندہ اور مردہ کی عبادت کرنی شروع کردی ، اور وہ انہیں پکارتے ہوۓ اس طرح کہتے ہیں ( یا جیلانی ، یا رفاعی ، یا رسول اللہ مدد ، اور یہ بھی کہتے ہیں ، یا رسول اللہ آپ پر ہی بھروسہ ہے ) ۔

اور اللہ تبارک وتعالی اس سے منع فرماتا ہے کہ اس کے علاوہ کسی اور کو ایسی چیز میں پکارا جاۓ جس پر وہ قادر نہیں بلکہ یہ اسے شرک شمار کیا ہے ۔

جیسا کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے :

” اور اللہ تعالی کو چھوڑ کر ایسی چیز کی عبادت مت کرو جو آپ کو کوئ نفع نہ دے سکے اور نہ ہی کوئ نقصان اور ضرر پنچا سکے ، پھر اگر آپ نے ایسا کیا تو تم اس حالت میں ظلم کرنے والوں میں سے ہو جاؤ گے “ یونس ( 106 )

اور صوفی حضرات : کا یہ اعتقاد ہے کہ کچھ قطب اور ابدال اور اولیاء ہیں جنہیں اللہ تعالی نے معاملات اور کچھ امور سپرد کۓ ہیں جن میں وہ تصرف کر تے ہيں ۔

اوراللہ تعالی نےتو مشرکوں کے جواب کوبیان کرتے ہوۓ یہ فرمایاہے :

” اور معاملات کی تدبیر کون کرتا ہے ؟ تو وہ ضرور یہ کہیں گے کہ اللہ تعالی ہی کرتا ہے “ یونس ( 31 )

تو مشرکین عرب کو ان صوفیوں سے اللہ تعالی کی زیادہ معرفت تھی ۔

اورصوفی حضرات مصائب میں غیراللہ کی طرف جاتے اور ان سے مدد طلب کرتے ہیں ۔

لیکن اللہ تبارک وتعالی کا فرمان ہے :

” اوراگر اللہ تعالی تجھے کوئ تکلیف پہنچاۓ تو اللہ تعالی کے علاوہ کوئ بھی اسےدور کرنے والا نہیں ، اور اگرتجھے اللہ تعالی کوئ نفع دینا چاہے تو وہ ہر چیز پر قادر ہے “ الانعام ( 17 )

بعض صوفی حضرات وحدۃ الوجود کا عقیدہ رکھتے ہیں ، تو ان کے ہان خالق اور مخلوق نہیں بلکہ سب مخلوق اور سب الہ ہیں ۔

صوفی حضرات : زندگی میں زھد اور اسباب کو حاصل نہ کرنے اور جھاد کو ترک کرنے کی دعوت دیتے ہیں ۔

لیکن اللہ تبارک وتعالی کافرمان ہے :

” اور جوکچھ اللہ تعالی نے آپ کودے رکھاہے اس میں آخرت کے گھر کی بھی تلاش رکھ ، اور اپنے دنیوی حصے کو نہ بھول “ القصص (77 ) اور اللہ رب العزت کا فرمان ہے : ” اور تم ان کے مقابلے کے لۓ اپنی طاقت کے مطابق قوت تیار کرو “ الانفال ( 60 )

صوفی حضرات : اپنے مشائخ کو احسان کے درجہ پر فائز کرتے ہیں اور اپنے مریدوں سے ان کا مطالبہ ہوتا ہے کہ وہ اللہ تعالی کا ذکر کرتے وقت اپنے شیخ کا تصور کریں حتی کہ نماز میں بھی شیخ کا تصور ہونا چاہۓ ، حتی کہ ان میں سے بعض تونما ز پڑہتے وقت شیخ تصویر اپنے آگے رکھتے تھے ۔

حالانکہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے : ( احسان یہ ہے کہ عبادت ایسے کرو گویا کہ اللہ تعالی کو دیکھ رہے ہو، اگر آپ اللہ تعالی کونہیں دیکھ رہے تو اللہ تعالی تمہیں دیکھ رہا ہے ) صحیح مسلم ۔

صوفی حضرات : رقص وسرور اور گانے بجانے اور موسیقی اور اونچی آواز سے ذکرکو جائز قرار دیتے ہیں ۔

اور اللہ تعالی کا فرمان تو یہ ہے کہ :

” ایمان والے تو ایسے ہوتے ہیں کہ جب اللہ تعالی کا ذکر کیا آتا ہے تو ان کے دل دھل جاتے ہیں “ الانفال ( 3 )

پھر آپ ان کو دیکھیں گے وہ صرف لفظ جلالہ ( اللہ اللہ اللہ ) کا ذکر کرتے ہیں جو کہ بدعت اور ایسی کلام ہے جو کہ شرعی معنی کے لحاظ سے غیر مفید ہے ، بلکہ وہ تو اس حد تک چلے جاتے ہیں کہ صرف ( اھ ، اھ ) اور یا پھر ( ہو ، ہو ، ہو ) کرنا شروع کردیتے ہیں ۔

اور اسلام مصادر کتاب وسنت میں تو یہ ہے کہ بندہ رب ایسے کلام سے یاد اور اس کا ذکر کرے جو کہ صحیح اور مفید ہو جس پر اسے اجروثواب سے نوازا جاۓ ، مثلا سبحان اللہ ، الحمد للہ ، لاالہ الا اللہ ، اللہ اکبر ، اوراس طرح کے دوسرے اذکار ۔

صوفی حضرات : مجالس ذکر میں عورتوں اور بچوں کے نام سے غزلیں اور اشعار گاتے اور پڑھتے ہیں اور اس میں باربار عشق و محبت اور خواہشات کی باتیں ایسے دہراتے ہیں گویا کہ وہ رقص وسرور کی مجلس میں ہوں ، اور پھر وہ مجلس کے اندر تالیوں اور چیخوں کی گونج میں شراب کا ذکر کرتے ہیں اور یہ سب کچھ مشرکین کی عادات وعبادات میں سے ہے ۔

اللہ تعالی کا اس کے متعلق فرمان ہے :

” اور ان کی نماز کعبہ کے پاس صرف یہ تھی کہ سیٹیاں بجانا اور تالیاں بجانا “ الانفال ( 35 )

مکاء سیٹی بجانا اور تصدیۃ تالی بجانے کو کہتے ہیں ۔

اور بعض صوفی اپنے آپ کو لوہے کی سیخ مارتے اور یہ پکارتے ہيں (یاجداہ) تو اس طرح شیطان آکر اس کی مدد کرتا ہے کیونکہ اس نے غیراللہ کو پکارا ، اللہ تبارک وتعالی کا فرمان ہے :

” اور جو شخص رحمن کی یاد سے غافل ہو جاۓ ہم اس پر ایک شیطان مقرر کر دیتے ہیں وہی اس کا ساتھی رہتا ہے “ الزخرف ( 36 )

صوفی حضرات : کشف اور علم غیب کا دعوی کرتے ہیں اور قرآن کریم ان کے اس دعوی کی تکذیب کرتا ہے ۔

اللہ سبحانہ وتعالی کے فرمان کا ترجمہ کچھ اس طرح ہے :

” کہہ دیجۓ کہ آسمان وزمین والوں میں سے اللہ تعالی کے علاوہ کوئ بھی غیب کا علم نہیں جانتا “ النمل ( 65 )

صوفی حضرات : کا گمان ہے کہ اللہ تعالی نے دنیا محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے لۓ پیدا کی ہے ، اور قرآن کریم ان کی تکذیب کرتے ہوۓ کہتا ہے :

” میں نے جنوں اور انسانوں کو صرف اپنی عبادت کے لۓ پیدا کیا ہے “ الذاریات ( 56 )

اور اللہ تعالی نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کومخاطب کرتے ہوۓ فرمایا یہ فرمایا ہے :

” آپ اس وقت تک اپنے رب کی عبادت کرتے رہيں یہاں تک کہ آپ کو موت آجاۓ “ الحجر ( 99 )

صوفی حضرات : اللہ تعالی کو دنیا میں دیکھنے کا گمان کرتے ہیں اور قرآن مجید ان کی تکذیب کرتا ہے جیسا کہ موسی علیہ السلام کی زبان سے کہا گیا ” اےمیرے رب ! مجھے اپنا دیدار کردیجۓ کہ میں آپ کو ایک نظر دیکھ لوں اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا تم مجھ کو ہر گز نہیں دیکھ سکتے “الاعراف ( 143 )

صوفی حضرات : کا گمان یہ ہے کہ وہ بیداری کی حالت میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے واسطہ کے بغیر علم ڈاریکٹ اللہ تعالی سے حاصل کرتے ہیں ، تو کیا وہ صحابہ کرام سے بھی افضل ہیں ؟۔

صوفی حضرات : اس بات کا دعوی کرتے ہیں کہ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے واسطہ کے بغیرڈاریکٹ اللہ تعالی سے علم حاصل کرتے ہیں اور کہتے ہیں : میرے دل نے میرے رب سے بیان کیا ۔

صوفی حضرات : میلاد مناتے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر درود وسلام کے نام سے مجلسیں قائم کرتے ہیں ، اور ان میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کی مخالفت کرتے ہوۓ شرکیہ ذکر اور قصیدے اور اشعار پڑھتے ہیں جن میں صریح شرک ہوتا ہے ۔

تو کیا نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر ، عمر اور عثمان اور علی رضي اللہ تعالی عنہم اور آئمہ اربعہ وغیرہ نے میلاد منایا تو ان کیا ان کی عبادت اور علم زیادہ صحیح ہے یا کہ صوفیوں کا ؟

صوفی حضرات : قبروں کا طواف یا ان کا تبرک حاصل کرنے کے لۓ سفر کرتے اور ان پر جانور ذبح کرتے ہیں جوکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے قول کی صریحا مخالفت ہے ۔ فرمان نبوی ہے :

( صرف تین مسجدوں کی طرف سفر کیا جاۓ مسجد حرام ، اور میری یہ مسجد ، اور مسجد اقصی ) صحیح بخاری و صحیح مسلم ۔

صوفی حضرات : اپنے مشائخ کے بارہ میں بہت ہی متعصب ہیں اگرچہ وہ اللہ تعالی اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت ہی کیوں نہ کریں ، اور اللہ تعالی کا تو فرمان یہ ہے : ” اے ایمان والو ! اللہ تعالی اور اس کے رسول سے آگے نہ بڑھو “ الحجرات ( 2 )

صوفی حضرات : استخارہ کے لۓ طلسم اور حروف استعمال کرتے اور تعویذ گنڈا وغیرہ کرتے ہیں ۔

صوفی حضرات : وہ درود جو کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہیں نہیں پڑھتے بلکہ ایسے بناوٹی درود پڑھتے ہیں جس میں صریح تبرک اور شرک پایا جاتا ہے جس پر اللہ تعالی کی رضا حاصل نہیں ہوتی ۔

اوررہا یہ سوال کہ کیا صوفیوں کے مشائخ کا رابطہ ہے تو یہ صحیح ہے ان کا رابطہ شیطان سے ہے نہ کہ اللہ تعالی سے ۔

تو وہ ایک دوسرے کے دل میں چکنی چپڑی باتوں کا وسوسہ ڈالتے ہیں تاکہ انہیں دھوکہ میں ڈالیں اللہ سبحانہ وتعالی کا فرمان ہے :

” اور اسی طرح ہم نے ہر نبی کے دشمن بہت سے شیطان پیدا کۓ تھے کچھ آدمی اور کچھ جن ، جن میں سے بعض بعض کو چکنی چپڑي باتوں کا وسوسہ ڈالتے رہتے تھے تا کہ ان کو دھوکہ میں ڈال دیں اوراگر اللہ تعالی چاہتا تو یہ ایسے کام نہ کرتے “ الانعام ( 112 )

اور اللہ تبارک وتعالی کا فرمان ہے :

” اور بیشک شیطان اپنے دوستوں کے دلوں میں ڈالتے ہیں “ الانعام (121)

اور اللہ سبحانہ وتعالی کے فرمان کا ترجمہ ہے :

” کیا میں تمہیں بتا‎ؤں کہ شیطان کس پر اتر تے ہیں وہ ہر ایک جھوٹے گنہگار پر اترتے ہیں “ الشعراء ( 221 - 222 )

تو یہ وہ حقیقی رابطہ جو ان کے درمیا ن ہوتا ہے نہ کہ وہ رابطہ جو وہ گمان کرتے ہیں کہ اللہ تعالی سے رابطہ جو کہ بہتان اور جھوٹ ہے اور اللہ تعالی اس سے منزہ اور بلند وبالا ہے ۔ دیکھیں معجم البدع ( 346 - 359 )

اور صوفیوں کے بعض مشائخ کا اپنے مریدوں کی نظروں سے اوجھل ہونا بھی اسی رابطہ کا نتیجہ ہے جو کہ شیطان کے ساتھ ہوتا ہے ، حتی کہ بعض اوقات وہ شیطان انہیں دور دراز جگہ پر لے جاتے ہیں اور پھر اسی دن یا رات کو واپس لے آتے ہیں تا کہ ان کے مریدوں کو گمراہ کیا جاسکے ۔

تواسی لۓ یہ عظیم قاعدہ ہے کہ ہم خارق عادات کاموں سے اشخاص کا وزن نہیں کرتے بلکہ ان کا وزن کتاب وسنت کے قرب اور اس پر التزام کرنے کے ساتھ ہوگا ، اور اللہ تعالی کے اولیاء کے لۓ یہ شرط نہیں کہ ان کے ھاتھ پر خارق عادت کام ہو بلکہ وہ تو اللہ تعالی کی عبادت اس طریقے پر کرتے ہیں جو کہ مشروع ہے نہ کہ بدعات کو رواج دے کر ۔

اولیاء اللہ تو وہ ہیں جو کہ حدیث قدسی میں ذکر کۓ گۓ ہیں جسے امام بخاری رحمہ اللہ تعالی نے روایت کیا ہے ۔

ابو ھریرہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتےہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : یقینا اللہ تعالی نے فرمایا ہے : ( جس نے میرے ولی سے دشمنی کی میری اس کے ساتھ جنگ ہے اور جو میرا بندا کسی چيز کے ساتھ میرا قرب حاصل کرتا ہے تو وہ مجھے اس چيزسے زیادہ پسند ہے جو میں نے اس پر فرض کیا ہے اور جو بندہ نوافل کے ساتھ میرا قرب حاصل کرتا ہے تو میں اسے اپنا محبوب بنا لیتا ہوں اور جب میں اس سے محبت کرنے لگتا ہو ں تو اس کا کان ہوتا ہوں جس سے وہ سنتا اور اس کی بصر ہوتا ہوں جس سے وہ دیکھتا اور اس کا ھاتھ ہوتا ہوں جس سے وہ پکڑتا اور اس کی ٹانگ ہو تا ہوں جس سے وہ چلتا ہے ، اگر وہ مجھ سے سوال کرتا ہے تو میں اسے عطا کرتا ہوں اور اگر میری پناہ میں آتا ہے تو میں اسے پناہ دیتاہوں ) ۔

اور اللہ تبارک وتعالی توفیق بخشنے والا اور صحیح راہ پر چلانے والا ہے ۔

واللہ تعالی اعلم .

الشیخ محمد صالح المنجد
 

مظاہر امیر

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 15، 2016
پیغامات
1,426
ری ایکشن اسکور
409
پوائنٹ
190
لوگوں كى يہ فكر اور سوچ ہے کہ كچھ سيد اور ولى ايسے ہيں جنہيں اللہ تعالى نے بشريت كے علاوہ كوئى اور خصوصيت بھی دى ركھى ہے، يا پھر انہيں لوگوں سے ہٹ کر كچھ شرف و مرتبہ حاصل ہے، يہ مجوسى سوچ ہے، جسکی ابتداء اور بنياد اس نظریے پر ہے كہ اللہ تعالى بشریت سے عاری چنیدہ اور خاص لوگوں ميں حلول كر جاتا ہے ۔

اہل فارس اپنے بادشاہوں اور سربراہوں جنہیں وہ كسرى كا نام ديتے تھے ان كے متعلق يہى اعتقاد ركھتے تھے، کہ يہ روح ايك بادشاہ سے دوسرے بادشاہ اور نسل در نسل منتقل ہوتى رہتى ہے، اور يہ مجوسى نظریہ رافضى شيعوں ـ جو كہ اصل ميں مجوسى تھے ـ كے ذريعہ مسلمانوں ميں پہنچی، اور وہ اس نظریے کو مسلمانوں ميں داخل کرنے میں کامیاب ہوگئے، مذکورہ نظریہ یہ ہے كہ اللہ تعالى کچھ لوگوں كو امامت وولایت کا شرف و مرتبہ عنائت فرماتا ہے۔

چنانچہ على بن ابى طالب رضى اللہ تعالى عنہ اور ان كے بعد ان كى اولاد کے بارے ميں بهى ان رافضيوں كا يہى عقيدہ ہے، انہوں نے اس ميں كئى ايك مراتب كا اضافہ بھی کیا ہے، مثلا ان كے ہاں سيد، اور آيت كا مرتبہ ہے (كہ فلاں سيد ہے، اور فلاں آيت اللہ ہے ) اور يہى فكر اور سوچ بعض گمراہ قسم كے صوفى فرقوں ميں بھى سرايت كر چكى ہے، چنانچہ ان کے ہاں ابدال اور قطب (سے موسوم )مراتب ہیں ۔

اور ان كا كہنا ہے كہ اس سيد يا ولى كو بلند شرف و مرتبہ حاصل ہونے کی وجہ سے ہماری مصلحتوں اور ضروريات کا ہم سے زیادہ علم ہے،اس لئے ہمارے لئے مناسب یہ ہے كہ ہم اپنے معاملات ان كے سپرد كريں، كيونكہ وہ ہم سے افضل اور بہتر ہيں، تو نتيجتا زكاۃ لينے كے زيادہ حقدار وہی ہيں، حالانکہ بلاشك و شبہ يہ کھلی گمراہى ہے۔
الشیخ محمد صالح المنجد
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,565
پوائنٹ
791
جس نے جامع مسجد کے منبر پر کھڑے ہو کر یہ اعلان کیا: - میرا قدم تمام اولیاء اللہ کی گردن پر ہے،
اس پوسٹ پر تبصرہ ضرور کریں
حسب ارشاد تبصرہ پیش ہے :
اس پوسٹ میں مرکزی نکتہ ( جناب شیخ ؒ کو غوث ،بلکہ غوث اعظم باور کروایا گیا ) تو سنیں :
1. شیخ جیلانی ؒ کو' غوثِ اعظم' کہنا
حافظ مبشر حسین حفظہ اللہ
نفس مسئلہ پربحث سے پہلے ضروری ہے کہ لفظ 'غوثِ اعظم' کے معنی و مفہوم پر ذرا غور کرلیا جائے۔ 'غوث' عربی زبان کا لفظ ہے جس کا معنی ہے 'مدد'۔ اگر اسے مصدر کے طور پر استعمال کیا جائے تو پھر اس کا معنی ہے 'مدد کرنا' البتہ مدد کرنے والے کو 'غائث' (بروزن فاعل) کہا جائے گا
اور مدد مانگنے والے کو 'مستغیث'۔لیکن اگر مصدر کوبطورِ اسم فاعل استعال کیا جائے تو پھر 'غوث' مددگار کا معنی ادا کرے گا اور شیخ جیلانی کو غو ث کہنے والے اس کا یہی مفہوم مراد لیتے ہیں۔ اسی طرح لفظ 'اعظم' بھی عربی زبان میں بطورِ اسم تفضیل استعمال ہوتا ہے جس کا معنی ہے 'سب سے بڑا'۔ گویا 'غوثِ اعظم' کا معنی ہوا... 'سب سے بڑا مددگار'

سب سے بڑا مددگار کون ہے؟ یہ سوال اگر آپ ایک عام مسلمان سے بھی کریں گے تو وہ جواباً یہی کہے گا کہ 'اللہ تعالیٰ'... کیونکہ دین اسلام نے عقیدئہ توحید کے حوالہ سے یہی تعلیم دی ہے کہ اللہ کے سوا اور کوئی مددگار نہیں، نفع و نقصان صرف اللہ تعالیٰ ہی کے اختیار میں ہے، صرف وہی مشکل کشا، حاجت روا ہے۔ وہی خالق ، رازق (داتا)اور مالک الملک ہے۔ بطورِ مثال چند آیات ملاحظہ فرمائیں:

1. ﴿وَمَا النَّصرُ‌ إِلّا مِن عِندِ اللَّهِ العَزيزِ الحَكيمِ ﴿١٢٦﴾... سورة آل عمران
'' اور مدد تو اللہ تعالیٰ ہی کی طرف سے ہے جو غالب اور حکمتوں والا ہے۔''

2. ﴿وَلا يَجِدونَ لَهُم مِن دونِ اللَّهِ وَلِيًّا وَلا نَصيرً‌ا ﴿١٧﴾... سورة الاحزاب
'' اور وہ اپنے لیے اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی مدد گار اور حمایتی نہیں پائیں گے۔''

3. ﴿وَما لَكُم مِن دونِ اللَّهِ مِن وَلِىٍّ وَلا نَصيرٍ‌ ﴿١٠٧﴾... سورة البقرة
''اور تمہارے لیے اللہ کے سوا کوئی حمایتی اور مدد گار نہیں۔''

4. ﴿وَما كانَ لَهُم مِن أَولِياءَ يَنصُر‌ونَهُم مِن دونِ اللَّهِ...٤٦﴾... سورة الشورى
''ان کے کوئی مدد گار نہیں جو اللہ تعالیٰ سے الگ ان کی امداد کر سکیں۔''

5. ﴿وَإِن يَمسَسكَ اللَّهُ بِضُرٍّ‌ فَلا كاشِفَ لَهُ إِلّا هُوَ ۖ وَإِن يُرِ‌دكَ بِخَيرٍ‌ فَلا ر‌ادَّ لِفَضلِهِ...١٠٧﴾... سورة يونس
'' اور اگر تمہیں اللہ تعالیٰ کوئی تکلیف پہنچائے تو بجز اس کے اور کوئی اس تکلیف کو دور کرنے والا نہیں اور اگر وہ تمہیں کوئی خیر پہنچانا چاہے تو اس کے فضل کو بھی کوئی ہٹانے والا نہیں۔''

مندرجہ بالا آیات سے یہ حقیقت واضح ہوجاتی ہے کہ صرف اللہ تعالیٰ ہی حقیقی مددگار ہے جبکہ دیگر بہت سی آیات میں نہ صرف غیر اللہ کو پکارنے، اسے مددگار سمجھنے کی نفی کی گئی ہے بلکہ ایسا کرنے والے کو مشرک، ظالم اور عذاب کامستوجب قرار دیا گیاہے، مثلاً

1. ﴿وَلا تَدعُ مِن دونِ اللَّهِ ما لا يَنفَعُكَ وَلا يَضُرُّ‌كَ ۖ فَإِن فَعَلتَ فَإِنَّكَ إِذًا مِنَ الظّـٰلِمينَ ﴿١٠٦﴾... سورة يونس
'' اللہ کو چھوڑ کر کسی اور کو نہ پکارنا جو تمہیں نہ کوئی فائدہ پہنچا سکے اور نہ کوئی نقصان پھر اگر تم نے ایسے کیا(غیر اللہ کو پکارا) تو تم اس حالت میںظالموں میں سے ہو جائوگے۔''

2. ﴿وَمَن أَضَلُّ مِمَّن يَدعوا مِن دونِ اللَّهِ مَن لا يَستَجيبُ لَهُ إِلىٰ يَومِ القِيـٰمَةِ وَهُم عَن دُعائِهِم غـٰفِلونَ ﴿٥﴾... سورة الاحقاف
'' اور اس سے بڑھ کر گمراہ اور کون ہو گا؟ جو اللہ کے سوا انہیں پکارتا ہے جو تا قیامت اس کی پکار کاجواب نہیں دے سکتے بلکہ وہ تو ان (پکارنے والوں) کی پکار سے بھی بے خبر ہیں!''
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہاں ہم ایک اور دلخراش حقیت کی بھی نشاندہی کرنا چاہیں گے کہ شیخ جیلانی جن کے بارے میں یہ جھوٹے دعوے کئے جاتے ہیں کہ وہ زندگی ہی میں نہیں بلکہ وفات کے بعد بھی اپنے مریدوں کی دستگیری فرماتے اور دنیا سے مصائب و آفات رفع کرتے ہیں،
جبکہ انکی اپنی بے بسی کا یہ عالم تھا کہ آپ کی وفات کے چند ہی سال بعد ناصر الدین کے وزیر ابوالمظفر جلال الدین عبداللہ بن یونس بغدادی نے آپ کے مکان (روضہ) کو مسمار کرکے آپ کی اولاد کو دربدر کردیا حتیٰ کہ آپ کی قبر تک کھود ڈالی اور آپ کی ہڈیاں دریائے دجلہ کی لہروں میں پھینک دیں اور کہا کہ'' یہ وقف کی زمین ہے، اس میں کسی کا بھی دفن کیا جانا جائز نہیں۔
'' تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو شذرات الذہب (۴؍۳۱۳،۳۱۴)، النجوم الزاہرۃ (۶؍۱۴۲) الزبل علی الروضتین لابی شامہ (ص۱۲)
خود شیخ کے عقیدت مندوں نے بھی اس واقعہ کونقل کرکے اس کی صحت کوتسلیم کیاہے۔ دیکھئے: قلائد الجواہر (ص۲۶۰) اور غوث الثقلین (ص۲۰۳)۔
درج بالا سطور جید محقق عالم حافظ مبشر حسین لاہوری کے قلم سے ماہنامہ محدث میں شائع ہوئیں
 
Last edited:

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,565
پوائنٹ
791
2. شیخ کے عقائد و نظریات اور تعلیمات

حافظ مبشر حسین حفظہ اللہ
شیخ کی ذاتی تصنیفات کے حوالہ سے معلوم ہوتا ہے کہ شیخ کا عقیدہ وہی تھا جو اہل السنۃ کا متفقہ عقیدہ ہے بلکہ آپ خود اپنے عقیدہ کے حوالہ سے رقم طراز ہیں کہ
''اعتقادنا اعتقاد السلف الصالح والصحابة'' (سیراعلام النبلاء:۲۰؍۴۴۲) ''ہمارا عقیدہ وہی ہے جو صحابہ کرامؓ اور سلف صالحین کا ہے۔''

بلکہ شیخ دوسروں کو بھی سلف صالحین کا عقیدہ ومذہب اختیارکرنے کی اس طرح تلقین کرتے ہیں کہ
''علیکم بالاتباع من غیر ابتداع، علیکم بمذھب السلف الصالح امشوا في الجادة المستقیمة''
'' تمہیں چاہیے کہ (کتاب وسنت کی) اتباع اختیار کرو اور بدعات کا ارتکاب نہ کرو اور تمہیں چاہیے کہ سلف صالحین کے مذہب کو اختیار کرو اور یہی وہ صراط مستقیم ہے جس پر تمہیں گامزن رہنا چاہیے۔'' (الفتح الربانی: المجلس العاشر ص۳۵)

نیز فرماتے ہیں کہ ''فعلی المؤمن اتباع السنة والجماعة فالسنة ما سنه رسول اﷲﷺ والجماعة ما اتفق علیه أصحاب رسول اﷲ'' ''مومن کوچاہیے کہ سنت اور سنت پر چلنے والی جماعت کی پیروی کرے۔ سنت وہ ہے جسے رسول اللہؐ نے سنت قرار دیا اور جماعت وہ ہے جس پر اللہ کے رسول کے صحابہ کا اتفاق رہا۔'' (الغنیۃ: ۱؍۱۶۵)
 
Last edited:
Top