• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اس کا جواب بھی اسی طرح تفصیل سے چاہییے ، پلیز

شمولیت
جون 06، 2017
پیغامات
240
ری ایکشن اسکور
27
پوائنٹ
40
*اہلِ حدیث کتنا کمزور فرقہ ہے۔*

بخاری ومسلم کے خلاف ہے۔

ایک دن اسی طرح وہ جامعہ ستاریہ چلا گیا ۔کہتا ہے کہ میں نے جا کر دو نفل پڑھے۔دوتین بابے بیٹھے تھے۔شور مچانے لگے نماز نہیں ہوتی ۔ نماز نہیں ہو تی۔بخاری مسلم کے خلاف ہے ۔ حدیث کے خلا ف ہے۔میں نے کہا بابا جی نماز تو پڑھ لینے دو شور کیوں مچاتے ہو ۔ وہ پھربول پڑے جی ہوتی ہی نہیں ہے۔ہوتی ہی نہیں ہے۔پوچھا کیا ہوا۔کہابزرگوں نے کہ بخاری ومسلم کی حدیث کے خلا ف ہے۔اس نے کہا چلو حدیث کے خلا ف ہے سنت کے خلاف تو نہیں میں تو اہل سنت ہوں۔ آپ کو کس نے کہا کہ میں اہل حدیث ہوں۔ بزرگوں نے گرج کر کہا کہ جو بخاری کے خلاف نماز پڑھتا ہو اس کی نماز نہیں ہو تی ۔لڑکے نے کہا کہ ویسے ہی غصہ کر رہے ہو یہ جو باقی لوگ نماز پڑھ رہے ہیں ان کو کیوں نہیں کچھ کہتے۔ کہا کہ یہ لوگ تو بخاری کے خلاف نماز نہیں پڑھ رہے۔لڑکے نے پوچھا کہ کون پڑھ رہا ہے۔کسی نے نماز میں جوتا نہیں پہنا ہوا ۔ ان سب کو جوتے پہنا ﺅ تا کہ بخاری ومسلم پر عمل ہو جائے۔
بخاری میں باب ہے باب الصلٰوة فی ثوب واحد۔ایک کپڑے میں نماز پڑھنے کا باب ہے تین کپڑوں میں نماز پڑھنے کا باب بخاری میں نہیں ہے۔تو ان کے کپڑے اُتارو کسی کی قمیص رہنے دو کسی کی جراب رہنے دو کسی کی صرف بنیان رہنے دو۔تاکہ آرام سے گن کر بتایا جاسکے کہ یہ دیکھئے ایک کپڑے میں نماز ہو رہی ہے۔حدیث پر عمل ہو رہا ہے۔ بخاری پر عمل ہو رہا ہے۔اور بخاری ومسلم میں ہے۔ کہ کان یصلی وھو حامل حمامة بنت عاص کہ اپنی نواسی کو گود میں اُٹھا کر حضور ﷺ نماز پڑھ رہے ہیں۔دو چار بچے یہاں موجود رکھو تاکہ جو بھی نماز پڑھے اس پر بچے کو سوار کر دیا جائے۔تا کہ نماز بخاری ومسلم کے مطابق ہو جائے۔وہ لڑکا کہتا ہے کہ اتنے میں دیکھا کہ ایک آدمی بیٹھ کر استنجا کر رہا تھا میں نے کہا کہ دیکھو وہ آدمی بیٹھ کر استنجا کر رہا ہے اُسے کھڑا کر و بخاری ومسلم کے خلاف کر رہا ہے۔کم از کم اُس کو تو بتاؤ کہ بخاری ومسلم میں بیٹھ کر پیشاب کر نے کی حدیث مو جو د نہیں ہے۔وہ لڑکا کہتا ہے کہ مجھے کہنے لگے کہ چلو ہمار ے شیخ الحدیث کے پاس۔لڑکے نے کہا چلو۔بزرگوں نے جا کر کہا کہ جی یہ کہتا ہے کہ یہ یہ بات بخاری ومسلم میں ہے۔شیخ الحدیث نے کہا کہ جی ہاں ہے۔بزرگوں نے کہا کہ پھر اس پر ہمارا عمل کیوں نہیں؟شیخ الحدیث نے کہا کہ بس یہ لڑکا کوئی شرارتی معلوم ہوتا ہے ۔ لڑکے نے کہا کہ بخاری ومسلم کی حدیث پر عمل کرنے کو آپ شرارت کہتے ہیں۔
آمین تین بار کہنا سنت ہے۔
اسی طرح فتاوی ستاریہ میں مسئلہ لکھا ہو ا ہے کہ تین دفعہ آمین کہنا سنت ہے اور آمین کے ساتھ رب اغفرلیکہنا بھی سنت ہے۔ تین بار۔ ایک شاگرد نے وہ صفحہ فوٹو سٹیٹ کروا لیا جیب میں ڈالا اور چلا گیا ان کی مسجد میں مغرب کی نماز تھی ۔امام نے کہا ولاالضالین۔ سب نے کہا آمین ۔ اس لڑکے نے کہا آ۔آ۔آمین۔رب اغفر لی۔پھر کہا۔آ ۔ آ۔آمین ۔رب اغفر لی۔پھر کہا۔آ ۔ آ۔آمین ۔رب اغفر لی۔
اب شور مچ گیا ۔ پوچھا گیا تو کہاں سے آیا ہے ۔ کہنے لگا کہ جی میں تو حدیث پر عمل کررہا ہوں یہ دیکھو فتاوٰی ستاریہ میں لکھا ہے۔ عجیب بات ہے کہ اہل حدیث کی مسجدہے اور حدیث پر عمل کرنے سے ناراض ہو رہے ہیں۔ کیوں ناراض ہو رہے ہیں۔کہنے لگے نہیں نہیں تو شرارت کر رہا ہے۔ لڑکے نے کہا کہ حدیث پر عمل کرنا شرارت ہے؟عجیب بات ہے؟ اہل حدیث کہ منہ سے یہ کہنا کیسے زیب دیتا ہے کہ حدیث پر عمل کرنا شرارت ہے۔ اُنہوں نے کہا کہ کبھی کبھی عمل کرنا چاہیے۔کہنے لگا کہ بھئی کبھی کبھی کا لفظ دکھاؤ کہ کہاں ہے حدیث میں؟تو میں کبھی کبھی کرلیا کروں گا۔ تو وہ خاموش ہو گئے۔
تو بات کرنے کا مقصد یہ ہے کہ ہم اہل سنت والجماعت ہیں اہل سنت وہ ہیں جو حضور ﷺکی عادات مبارکہ کو اپناتے ہیں۔ثبوت اور چیز ہے سنت اور چیز ہے۔جیسے نماز پڑہتے ہوئے دروازہ کھول دینا ثابت ہے سنت نہیں۔نماز کی حالت میں بچے کو اُٹھا لینا ثابت ہے سنت نہیں۔لیکن ہم اہل سنت ہیں۔ سنت کہتے ہی سڑک اور راستے کو ہیں اس لیے جو عمل آپ ﷺ سے امت میں چل پڑا وہی سنت ہے۔
چند وسوسوں کے جوابات:
ہمارے دوست جو ہیں ان کے پاس صرف چند وسوسے ہوتے ہیں اور کچھ نہیں۔میں جب کراچی تھا تو دس بارہ آدمی آگئے میں نگرانی کر رہا تھا امتحانات میں ۔ دو ساتھی آئے کہ یہ آدمی آپ سے ملنا چاہتے ہیں۔ ہم بیٹھ گئے بڑا عجیب انداز تھا ان کا ۔ پڑھے لکھے آدمی تھے ۔ کوئی پروفیسر ، کوئی ٹیچر ، کوئی وکیل۔ کہنے لگے۔ ہم بہت پریشان ہیں۔ پوچھا کیا ہواجی۔کہنے لگا ہوا کیا چار امام ہوگئے ہیں ۔ چار۔چار۔چار۔ میں نے کہا کہاں ؟ یہاں جھنگ میں کتنے مدرسے ہیں شافعیوں کے؟مالکیوں کے کتنے ہیں؟ حنبلیوں کے کتنے ہیں؟تو میں نے کہا کہ جو بھینگا ہوتا ہے نا اس کو ایک کے دو نظر آتے ہیں ۔ تو یہاں تو صرف ایک حنفی ہیں پھریہ آپ کو ایک کے چار کہاں سے نظر آنے لگے؟ کہنے لگے کہ جی وہ کہیں نہ کہیں تو ہوں گے نا۔میں نے کہا کہ جہاں جہاں وہ ہوں گے تو وہاں کے لوگ پریشان ہوں آپ کو کیا پریشانی لگ گئی ہے یہاں پر بیٹھے بیٹھے؟
کہنے لگے کہ جی کسی حدیث میں ہے کہ صرف ایک ہی امام کی تقلید کرنا ؟میں نے پوچھا کہ آپ قرآن پاک پڑھتے ہیں؟کہنے لگے جی ہاں۔ میں نے کہا کہ ساتوں قراءتیں آتی ہیں؟کہنے لگے کہ نہیں جی ایک ہی قراءت میں ہم تو پڑھتے ہیں۔ میں نے کہا کہ کسی حدیث میں ہے کہ سات میں سے صرف ایک ہی قراءت میں پڑھنا؟کہنے لگے کہ ہم کیا کریں کہ ہمیں آتی ہی ایک قراءت ہے۔ میں نے کہا کہ ہم کیا کریں کہ یہاں ہے ہی ایک مسلک امام ابو حنیفہ ؒ کا ہے۔اُس کی حدیث تم دکھا دو اِس کی ہم دکھا دیتے ہیں۔پوچھنے لگے کہ جی خدا کتنے ہیں ؟ میں نے کہا کہ ایک ۔ کہنے لگے کہ خدا ایک اور امام چار بن گئے ؟ توبہ توبہ۔ غضب خدا کا۔میں نے کہا ابھی تھوڑا ہے۔کیسے؟ خدا ایک ہے اور نبی ایک لاکھ چوبیس ہزار ہیں۔میں نے پوچھا کہ آپ کا مقصد کیا ہے صاف بات کریں ۔ کہنے لگے کہ ہم تو اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ سب کو چھوڑ دو۔میں نے کہا کہ دیکھو جلدی نہ کرنا ۔کیونکہ قرآن پاک میں سات قاریوں کا اختلاف ہے قراءت کا ۔ تو سات کا اختلاف بڑا ہے یا چار کا ؟اس لیے اگر ائمہ کو چھوڑنا ہے تو پہلے لکھ کر دو کہ آج کے بعد ہم قرآن نہیں پڑھیں گے کیوں کہ اس کی قراءت میں سات قاریوں کا اختلاف ہے اور ہم اختلاف کو پسند نہیں کرتے۔اس کے بعد احادیث کے باقی کتابیں تو ایک طرف کر دیں۔ صرف صحاح ستہ ہی ایسی چھ کتابیں ہیں جن میں آپس میں اختلافی حدیثیں ہیں۔ تو چھ کا اختلاف زیادہ ہے یا چار کا ؟کہنے لگے کہ چھ کا ۔ میں نے کہا کہ پھر دوسرے نمبر پرچھ والا اختلاف چھوڑنا پڑے گا۔ ان بے چارے اماموں کی کہیں جا کر تیسرے نمبر پر باری آئے گی جن کے پیچھے آپ پہلے نمبر پر ہی لاٹھی اُٹھا ئے پھر رہے ہیں۔
پھر کہنے لگے کہ چاروں امام ہی بر حق ہیں؟ میں نے کہا جی ہاں چاروں برحق ہیں۔پھر کہا کہ چاروں ؟میں نے کہا ہاں چاروں۔کہنے لگے کہ پھر آپ باقی تین کی تقلید کیوں نہیں کرتے ۔ میں نے کہا نہیں کرتے ۔ ہماری مرضی۔پھر کہنے لگے کہ ان کو برحق کیوں کہتے ہو؟ میں نے کہابالکل برحق کہتے ہیں مگر تقلیداپنے امام کی کرتے ہیں۔
پھر میں نے ان سے پوچھا کہ آج آپ جمعہ پڑھ رہے ہیں نا کیونکہ آپ لوگ حضور ﷺ کو برحق مانتے ہیں۔ اورکیا کل آپ لوگ یہودیوں کی عبادت گاہوں میں جائیں گے ؟کیونکہ آپ موسٰی ؑ کو بر حق مانتے ہیں۔کیاپرسوں عیسائیوں کے گرجے میں جائیں گے؟ تا کہ اتوار والی عبادت بھی کر آئیں۔انہوں نے کہا نہیں۔میں نے کہا کہ اس لیے نہیں جائیں گے کہ آپ سب نبیوں کو بر حق مانتے ہیں مگر تابعداری صرف اپنے نبی کی کرتے ہیں۔اُنہوں نے کہا کہ جی وہاں توناسخ منسوخ مسئلہ ہے ۔ میں نے کہا کہ یہاں راجح مرجوح کا مسئلہ ہے۔ جیسے منسوخ پر عمل جائز نہیں ویسے ہی مرجوع پر عمل جائز نہیں۔ہم اُن نبیوں کو برحق مانتے ہیں مگر اُن نبیوں کے بعض مسائل کو منسوخ مانتے ہیں۔ہم ان آئمہ کو برحق مانتے ہیں مگر بعض مسائل کو مرجوح مانتے ہیں۔
اب ایک صاحب تو زیادہ ہی ناراض ہو نے لگے کہنے لگے کہ مولوی صاحب آپ کو کبھی عقل آئے گی بھی یا نہیں؟چاروں اماموں میں حلال وحرام کا اختلا ف ہے حلال وحرام کا ۔ایک امام ایک چیز کو حلا ل کہتا ہے ایک اُسی چیز کو حرام کہتا ہے۔حلال بھی برحق حرام بھی برحق؟ غضب خدا کا۔کبھی تو عقل کی بات کیا کرو۔میں نے کہا کہ یہ امام بے چارے جن پر آپ ناراض ہیں ، یہ نبیوں کے تابعدار ہیں ۔نبیوں میں بھی حلال وحرام کا اختلاف ہے۔آدم ؑ کے زمانے میں بہن سے نکاح حلال تھا یا حرام ؟ (حلال) اور آج؟(حرام) وہ نبی ؑ بھی برحق جس کی شریعت میں بہن سے نکاح حلال تھا ۔ اور وہ نبی ﷺ بھی برحق جس کی شریعت میں بہن سے نکاح حرام ہے۔ہم آدم ؑ کو برحق ضرور مانیں گے مگر عمل اپنے نبی ﷺکی شریعت پر کریں گے۔یعقوب ؑ کے نکاح میں دونوں سگی بہنیں تھی ان کی شریعت میں حلال تھا ۔اور اب آیت آگئی ہے لا تجمع بین الاُختین۔ (دو بہنوں کو ایک نکاح میں جمع نہ کرنا ۔)اب یعقوب ؑ بھی برحق اور نبی ﷺ بھی برحق ۔برحق ہم دونوں کو مانتے ہیں مگر عمل اپنے نبی ﷺکی شریعت پر کریں گے۔ابراہیم ؑ کی زوجہ محترمہ حضرت سارہؓ ماں کی طرف سے آپ کی بہن تھیں باپ کی طرف سے نہیں تھیں۔اس سے نکاح ہوا۔آج یہ نکاح حلال ہے یا حرام ؟ (حرام ہے) تو ابرہیم ؑ کی شریعت میں حلال تھا اور ہماری شریعت میں حرام۔برحق ہم دونوں کو کہیں گے مگر تابعداری صرف اپنے نبی ﷺ کی کریں گے۔کہنے لگے کہ وہاں تو زمانے کا اختلاف ہے ۔میں نے کہا یہاں علاقوں کا اختلاف ہے شافعی سری لنکا میں ہیں حنفی پاکستان میں ۔شافعی اپنے ملک میں ہیں ۔ حنبلی اپنے ملک میں ہیں ۔ مالکی اپنے ملک میں ہیں ۔ اور حنفی اپنے ملک میں ہیں ۔
علاقے کے اختلاف کو سمجھنے کے لیے مثال:
علاقوں کے اختلاف کو ایک مثال سے سمجھیں۔کئی سالوں سے آپ دیکھ رہے ہیں کہ سعودیہ میں عید ہوتی ہے اور پاکستان میں روزہ ہوتا ہے۔ اب عید کے دن روزہ رکھنا حلال ہے یا حرام؟ اور رمضان میں عید پڑھنا حرام ہے۔لیکن اُن کی عید اپنی جگہ بالکل درست ۔ اور ہمارا روزہ صحیح یا غلط؟(بالکل صحیح) کیونکہ مسئلہ ہے کہ چاند نظر آگیا تو عید نہ نظر آیا تو روزہ ۔وہاں تواتر ساتھ چاند ثابت ہو گیا۔یہاں نہیں ہوا۔ وہاں سارے عید پڑھ رہے ہیں اُن کی عید درست ہے۔یہاں سارے روزہ رکھ رہے ہیں یہاں والوں کا روزہ بالکل درست ہے۔ہاں فتنہ پھیلانا اچھا نہیں کہ چار آدمی لاٹھیاں لے کر آجائیں کہ توڑو روزے آج مکے میں عید ہے۔یا چار آدمی وہاں لاٹھیاں لے کر کھڑے ہو جائیں کہ نہیں پڑھنے دیں گے آج عید۔پاکستان بڑا اسلامی ملک ہے وہاں آج روزہ ہے۔تو یہ فتنہ ہے۔جس طرح وہاں عید ان کا مذہب ہے بالکل برحق۔ اسی طرح روزہ یہاں ہمارا مسلک ہے بالکل برحق۔جہاں شافعیت ہے وہاں شافعیت بالکل برحق ہے مذہب ہے فتنہ نہیں۔جس ملک میں حنبلیت ہے وہ مذہب ہے فتنہ نہیں۔جس ملک میں حنفیّت ہے وہ مذہب ہے فتنہ نہیں۔جس ملک میں مالکیت ہے وہ مسلک ہے فتنہ نہیں۔اور غیر مقلدیت فتنہ ہے کوئی مسلک ومذہب نہیں ۔
کہنے لگے کہ جب تین امام ایک طرف ہوں اور ایک امام ایک طرف ہو تو کس کی بات ماننی چاہیے؟ میں نے کہا ایک کی ۔ کہنے لگے کیوں جی؟زیادہ کی ماننی چاہیے۔ میں نے کہ اچھا۔انبیاءؑ کم وبیش ایک لاکھ چوبیس ہزار ہیں ۔حضرت یوسف ؑ کے بھائیوں نے یوسف ؑ سجدہ تعظیمی کیا تھا نا ؟ اسی آیت کی تفسیر میں مفسرین نے لکھا ہے کہ حضور ﷺ کی شریعت سے پہلے تمام شریعتوں میں تعظیمی سجدہ جائز تھا ۔اور ہماری شریعت میں جائز نہیں۔ سارے نبی ایک طرف اور ہمارے نبی ﷺ ایک طرف ۔ اب آپ ایک نبی کی بات مانیں گے یا زیادہ بلکہ سارے انبیاءکی ۔ کہنے لگے کہ جی ہم تو ایک ہی کی مانیں گے ۔ میں نے کہا کہ اسی طرح ہم بھی ایک ہی کی مانیں گے۔اسی طرح حضور ﷺ سے پہلے کی تمام امتوں میں تصویر بنانا جائز تھا ہماری شریعت میں حرام ہے۔ اب سب کی بات مانیں گے یا ایک کی۔
پھر آخر میں وہ لوگ کہنے لگے کہ دین مکے مدینے میں آیا تھا یا کوفے میں ؟ میں نے کہا کہ مکے مدینے میں۔کہنے لگے کہ پھر مکے مدینے والے امام کو ماننا چاہیے یا کوفے والے امام کو؟ میں نے کہا کہ آپ کا دل کیا کہتا ہے؟ کہنے لگے کہ مکے مدینے والے کو ماننا چاہیے۔میں نے کہا اچھا آپ کو معلوم ہے کہ جھوٹ بولنا ہر شریعت میں منع ہے؟ کہنے لگے کہ بالکل ۔ کیا ہم نے کوئی جھوٹ بولا؟ میں نے کہا کہ بہت بڑا جھوٹ بولا ہے۔ قرآن کی جو سات قراءتیں ہےں۔ ان میں مکی قاری بھی تھا۔ مدنی قاری بھی تھا۔ بدری قاری بھی تھا ۔ تم سب لوگ تو قاری عاصم کوفی جو کہ کوفہ کا رہنے والا تھا اس کی قراءت پڑھ رہے ہو ۔یہ ہی قرآن ہے جسے شاہ فہد ساری دنیا میں تقسیم کررہا ہے۔ تو خود کوفے والوں کو مانتا ہے تجھ سے بڑا کوفی کون ہو گا کہ قرآن نازل تو مکے مدینے میں ہو اور تو مکی قاری اور مدنی قاری کی قراءت چھوڑ کر کوفے والے قاری کے مطابق قرآن پڑھتا ہے۔اب وہ کہنے لگے کہ بات یہ ہے کہ کوفہ والوں نے قرآن خود تو نہیں بنایا تھا نا۔ایک ہزار سے زائد صحابہ کرام ؓ آئے تھے مکے مدینے سے ۔ وہ ساتھ قرآن لے کر آئے تھے۔میں نے کہا کہ جو صحابہ کرام ؓ قرآن ساتھ لائے تھے وہی صحابہ کرام ساتھ نماز لے کر آئے تھے۔ساتھ لائے تھے یا وہیں پھینک کر آئے تھے کہ کوفے جاکر نئی نماز بنا لیں گے؟ یا نماز بھی وہاں سے لے کر آئے تھے؟ (یقینا نماز بھی مکے مدینے سے لے کر آئے تھے۔) تو جب قرآن کے معاملے میں اہل کوفہ پر اعتماد کرتے ہو تو نماز کے بارے میں بھی اعتماد کرنا چاہیے۔ لیکن کریں کیا ۔ ایک رافضی کہتا ہے کہ نماز غلط ہے ایک رافضی کہتا ہے کہ قرآن غلط ہے۔لیکن قرآن کوفہ میں کہاں سے آیا ؟ مکے اور مدینے سے۔نماز کہاں سے آئی ؟ مکہ مدینہ سے ۔جب کوفے والے کی قراءت تم کو پسند ہے تو کوفے والوں کی وہ نماز جو صحابہ کرام ؓ لے کرآئے ہیں وہ پسند کیوں نہیں؟پھر ہمارے امام اعظم امام ابوحنیفہ ؒ کافی ہیں۔(الحمد للہ) امام صاحب نے صحابہ کی زیارت کی ہے۔جس صحابی نے اللہ کے نبی ﷺ کا دور نبوت پورا پایا وہ بھلا کتنے سال ہے دور نبوت؟ 23سال ۔اور امام اعظم امام ابو حنیفہ ؒ نے تقریباً چالیس سال صحابہ ؓ کا زمانہ پایا ہے۔تو چالیس سال کی عمر میں مسلمان نماز شروع کر دیتے ہیں یا نہیں ؟ خاص طور پر خیر القرون کے زمانے میں۔ آپ کا کیا خیا ل ہے کہ جب مسجد میں نماز کے لیے بچہ آتا ہے تو لوگ دیکھتے ہیں کہ بچہ نماز پڑھ رہا ہے۔ اور بچہ لوگوں کو دیکھ دیکھ کر نماز پڑھتا ہے۔اسی طرح صحابہؓ امام صاحبؒ کو دیکھتے تھے اور امام صاحب صحابہ کو دیکھ کر نماز پڑھتے تھے۔اگر امام صاحب کی نما زخلا ف سنت ہو تو صحابہ کو ٹوکنا چاہیے تھا یا نہیں؟ (اوراگر صحابہ اکرام ؓ نے دیکھا کہ نماز سنت کے خلاف پڑھ رہے ہیں اور صحابہ ؓ نے نہ ٹوکا تو مطلب یہ ہوا کہ نعوذباللہ صحابہ کے سامنے غلط کام ہو رہا ہے اور صحابہ خاموش ہیں ؟)
میں نے سر پر ہاتھ باندھ لیے:
ایک صاحب تھے بس میں بیٹھے تھے ۔ کسی جگہ بس رکی پاس ہی مسجد تھے ۔ وہ صاحب کہتے ہیں کہ میں نے کہا کہ چلو نماز پڑھ لوں ۔ میں نے جب نماز پرھنے کے لیے ہاتھ ناف کے نیچے باندھے۔(یاد رہے کہ نماز میں ہاتھ سینے پر باندھنے کی حدیث ہے مگر یہ عمل سنت نہیں ہے ۔ حضرت علی ؓ فرماتے ہیں۔ ان من السنّة وضعالکف علی الکف فی الصلوة تحت السرة۔ کہ بے شک نماز میں ایک ہاتھ کو دوسرے ہاتھ پر ناف کے نیچے باندھنا یہ سنت ہے۔)تو ایک بابا جی آئے اور انہوں نے نماز میں ہی میرے ہاتھ سینے پر رکھ دیے۔ میں نے سر کے اُوپر رکھ لیے ۔ نماز کے بعد مجھ سے پوچھنے لگا کہ یہ کیا تھا(جو تو نے سر پر ہاتھ باندھے)؟ میں نے پوچھا وہ کیا تھا(جو تو نے سینے پر رکھوائے تھے؟)۔
اب اگر اس مسجد میں کوئی نماز پڑھنے کے لیے آئے اورہاتھ ناف کے بجائے سر پر باندھے تو کیا آپ لوگ اس کر ٹوکیں گے یانہیں ؟ (بالکل ٹوکیں گے۔) اس کا مطلب ہے کہ پندھرویں صدی کے مسلمانوں کا ایمان بہت ہی زیادہ مضبوط ہے جو غلط کا م ہو تا دیکھیں تو فوراً ٹوک دیتے ہیں۔اور معاذاللہ ،استغفراللہ جس زمانے کو اللہ کے نبی ﷺ خیر القرون فرما رہے ہیں ۔ صحابہ ،تابعین اور تبع تابعین جو تھے ان میں معاذاللہ سنت کی کوئی محبت ہی نہ تھی کہ امام صاحب ؓ غلط نماز پڑھتے رہتے تھے کوئی ٹوکتا ہی نہیں تھا؟
ہم جو نماز پڑھتے ہیں ہمیں فخر ہے کہ ہماری نماز کی توثیق الحمدللہ صحابہ ؓ کے سامنے ہو چکی۔ اگر اس میں کوئی غلطی ہوتی تو صحابہ ؓ ضرور ٹوکتے۔اب جس نماز کی تصدیق صحابہ ؓسے ہو چکی ہو؟مجھے اُن دوستوں سے نہیں گلہ آپ سے گلہ ہے کہ صحابہ کی تصدیق کے بعد بھی جب تک وہ بابا گنڈیریوں والا جب کہے گا نا کہ نماز ٹھیک ہے تو نماز ٹھیک ہو گی ورنہ نہیں۔کیا صحابہ کی تصدیق کے بعد کسی بابے روڑیے کی تصدیق کی ضرورت ہے؟ (بالکل نہیں۔) اگر آپ نے شک کیا تو گویا آپ نے صحابہ کی تصدیق کو نہ مانا۔امام صاحبؒ تابعی ہیں۔ اور صحابہ اُستاد ہیں۔تابعین ہم جماعت ہیں ۔تبع تابعین شاگرد ہیں۔ہماری نماز کی صحابہ کے سامنے تصدیق ہو چکی۔تابعین کے سامنے تصدیق ہو چکی اسی طرح تبع تابعین کے سامنے تصدیق ہو چکی۔ان سب کی تصدیق کے بعد اب ہمیں کسی پندھرویں صدی کے کسی آدمی کی تصدیق کی کوئی ضرورت نہیں۔
 

کنعان

فعال رکن
شمولیت
جون 29، 2011
پیغامات
3,564
ری ایکشن اسکور
4,423
پوائنٹ
521
السلام علیکم

آپ نے یہ تحریر فیس بکس یہاں سے کاپی کی ہے، میری ذاتی رائے ہے کہ آپ اگر وہ سوال پوچھتے جسے آپکا جاننا بہت ضروری ہے اسے پہلے پیش کرتے تو شائد بہتر ہوتا یا پھر عبارت کے مطابق ایک ایک سوال بنا کر پوچھیں تو بہتر ہوتا، اتنا طویل پوسٹ پر سوال بنانا اور پھر لکھنا ہو سکتا ہے آپ کو سمجھ نہ آئے، باقی دیکھیں مشائخ کرام اس پر بہتر جانتے ہوں اور اسی عبارت سے بھی جواب عنایت فرمائیں۔

والسلام
 

speaktruth753

مبتدی
شمولیت
اپریل 02، 2017
پیغامات
45
ری ایکشن اسکور
5
پوائنٹ
13
یہاں اتنی لمبی تحریر کاپی پیسٹ کرکے آپ اپنے مسلک کی برتری ثابت کرنے کی ناکام کوشش کررہے ہیں شائید
 

speaktruth753

مبتدی
شمولیت
اپریل 02، 2017
پیغامات
45
ری ایکشن اسکور
5
پوائنٹ
13
صاحب السیف والقلم شیخ الاسلام ابنِ تیمیہ رحمہ اﷲنے فرمایا :
(فَاِذَا وَقَعَ الْاِسْتِفْصَالُ وَالْاِسْتِفْسَارُ، اِنْکَشَفَتِ الْأسْرَارُ وَتَبَیَّنَ اللَّیْلُ مِنَ النَّھَارِ، وَتَمَیَّزَ أَھْلُ الْایمَانِ وَالْیَقِینِ مِنْ أَھْلِ النِّفَاقِ الْمُدَلِّسِینَ، الَّذِینَ لَبَّسُوا الْحَقَّ بِالْبَاطِلِ وَکَتَمُوا الْحَقَّ وَھُمْ یَعْلَمُونَ)
’’جب تفصیل میں جایا جائے اور وضاحت طلب کی جائے تو راز منکشف ہو جاتے ہیں ، رات دن سے واضح ہو جاتی ہے اور اہلِ ایمان و یقین اُن مدلّس دھوکے باز منافقوں سے ممتاز ہوجاتے ہیں جو حق کو باطل سے خلط ملط کرتے ہیں اور جانتے بوجھتے حق کو چھپاتے ہیں۔‘‘

اوروں سے کہا تم نے، اوروں سے سنا تم نے
کچھ ہم سے کہا ہوتا، کچھ ہم سے سنا ہوتا

 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,417
ری ایکشن اسکور
2,730
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
@ابن نواز بھائی جہاں سے آپ کو حنفیہ کی نماز کے متعلق اس خوش فہمی میں مبتلا کیا گیا ہے، وہاں امام سیوطی رحمہ اللہ کا یہ فتوی پیش کر دیجیئے!

حنفیوں کی نماز باطل۔ امام السيوطي رحمۃ الله
ومن أداها على مذهب مخالف، وقع الخلاف في صحة صلاته من وجوه:
إجازتهم الوضوء في السفر بنبيذ التمر، وتطهير البدن والثوب عن النجاسات بالمائعات، وأجازوا الصلاة في جلد الكلب المذبوح من غير دباغ، وأجازوا الوضوء بغير نية ولا ترتيب، وأسقطوه في مس الفرج والملامسة، وأجازوا الصلاة على ذرق الحمام مع قدر الدرهم من النجاسات الجامدة، أو ربع الثوب من البول، أو مع كشف بعض العورة، وأبطلوا تعيين التكبير والقراءة.
وأجازوا القرآن منكوساً وبالفارسية، وأسقطوا وجوب الطمأنينة في الركوع والسجود والإعتدال من الركوع وبين السجدتين، والتشهد والصلاة على النبي (صلى الله عليه وعلى آله وسلم) في الصلاة مع الخروج عنها بالحدث. وأبطلنا نحن الصلاة في هذه الوجوه، وأوجبنا الإعادة على من صلى خلف واحد من هؤلاء، وهم لا يوجبون الإعادة على من صلى خلفنا على مذهبنا في هذه المسائل.

جس نے نماز شافعی مذھب کے مطابق نماز ادا کی ،اس کو اس کے صحیح ہونے کا یقین ہے، اور جس نے اس کے مخالف مذہب (حنفی مذہب) پر ادا کی اس کی نماز کئی وجوہ سے صحیح نماز کے خلاف ہے
انہوں نے (حنفیوں نے) سفر میں کھجور کی نبیذ سے وضوء کو جائز قرار دیا ہے،
بدن اور کپڑوں کی نجاست کوپانی کے علاوہ دیگر مایعات سے پاک کرنا،
اور انہوں نے(حنفیوں نے) ذباح کئے ہوئے کتے کی چمڑی جو غیر مدبوغ ہے اس پر نماز کو جائز قرار دیا ہے۔اور انھوں نے(حنفیوں نے) وضوء کو بغیر نیت اور بغیر ترتیب کے جائز قرار دیا ہے، اور شرم گاہ کو چھونے اور شرم گاہوں کو آپس میں ملانے سےوضوء کے ٹوٹنے کے حکم کو ساقط کر دیا (یعنی حنفیوں کے نزدیک اس سے وضوء نہیں ٹوٹتا)
اور انہوں نے(حنفیوں نے) نماز کو جائز قرار دیا ہے حمام میں اور نجاسات جامدہ کا ساتھ لگے ہوئے یا کپڑے کے چوتھائی حصے کو پیشاب لگا ہو،یا بعض ستر کا ننگا ہونا ،
اور انہوں نے(حنفیوں نے) تکبیر اور قرات (یعنی اللہ اکبر اور سورہ فاتحہ کی قراءت) کا معین ہونا باطل قرار دیا ہے،اور انہوں نے(حنفیوں نے) (نماز میں) قران کو الٹا پڑھنے اور فارسی میں پڑھنے کو جائز قرار دیا ہے،
اور انہوں نے(حنفیوں نے) رکوع اور سجدے میں اطمینان اور رکوع اور دو سجدوں کے درمیان اعتدال کے واجب ہونے کو ساقط قرار دیا ہے، اور نماز میں تشہد اور درود کے واجب ہونے کو بھی ساقط قرار دیا۔ اور (سلام کے بجائے) ہوا خارج کر کے (یعنی پاد مار کر) نماز کا اختتام کرنا جائز قرار دیا۔
ان وجوہات کی بنا پر ہم (حنفیوں کی) نماز کو باطل قرار دیتے ہیں اور ہم نے ہر اس شخص پر نماز کے دہرانے کو لازم قرار دیا ہے جو ان (حنفیوں) کے پیچھے نماز پڑھے۔اور وہ (احناف) ہمارے پیچھے ہمارے مذہب کے مطابق نماز ادا کرنے والے کی نماز دہرانے کو لازم قرار نہیں دیتے۔
ملاحظہ فرمائل:
صفحه جزيل المواهب في إختلاف المذاهب - عبد الرحمن بن أبي بكر، جلال الدين السيوطي (المتوفى: 911هـ) - دار الأعتصام





 

اٹیچمنٹس

Last edited:
شمولیت
جون 06، 2017
پیغامات
240
ری ایکشن اسکور
27
پوائنٹ
40
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ۔۔۔
ابن داؤد بھائی ایک بھائی نے یہ سب لکھا ہے؟

امام ابراہیم سرخسی ؒ (وفات 483ھ) فرماتے ہیں:
و أما في ما بعد ذلک فلا یجوز تقلید غیر الأئمة الأربعة
ترجمہ:
یعنی دورِ اول کے بعد ائمہ اربعہ کے سوا کسی کی تقلید جائز نہیں۔
(الفتوحات الوہبیہ: ۱۹۹)

خطیب بغدادی ؒ (المتوفی 463ھ )لکھتے ہیں:
لومنعنا التقلید فی ہذہ المسائل التی ہی من فروع الدین لاحتاج کل احد ان یتعلم ذالک وفی ایجاب ذالک قطع عن المعایش وہلاک الحرث والماشیۃ فوجب ان یسقط۔
ترجمہ:
اگر ہم ان فروعی مسائل میں عوام کو تقلید سے روکیں تو پھر ہر کسی پر پورے دین کی تعلیم ضروری ہوجائےگی اسےہر کسی کے لیے ضروری ٹھہرانے میں دیگر امور معاش ،کھیتی باڑی اور مال مواشی سب برباد ہوجائیں گے۔

حافظ ابن عبد البرؒ (وفات 463 ھ)فرماتے ہیں:
ولم يختلف العلماء أن العامة عليها تقليد علمائها
”علماء کا اس میں کوئی اختلاف نہیں کہ عامی آدمی پر علماء کی تقلید لازم ہے“۔
(جامع بيان العلم ص390)

محمد بن عمر بن الحسن بن الحسين التيمي الرازي (وفات 606ھ) فرماتے ہیں:
أَنَّ الْعَامِّيَّ عَلَيْهِ تَقْلِيدُ الْعُلَمَاءِ فِي أَحْكَامِ الْحَوَادِثِ
ترجمہ:
”اور نئے پیش آمدہ مسائل پر عامی پر علما کی تقلید واجب ہے“۔
(تفسیر کبیر ج 3 ص 372)

علامہ عبد الکریم بن ابي بكر احمد الشهرستانيؒ (وفات 548ھ) فرماتے ہیں:
”اہل فروع کہتے ہیں کہ جب مجتہد کو یہ علم و معارف حاصل ہو جائیں تو اس کیلئے اجتہاد کرنا جائز ہے۔ اور وہ حکم جس کی جانب اس کے اجتہاد نے رہنمائی کی ، شریعت میں جائز ہوگا۔ عامی پر اس کی تقلید واجب ہو گی اور اس کے فتویٰ پر عمل کرنا ضروری ہو گا“۔
(ترجمہ کتاب الملل والنحل طبع ثانی ص 294)

شارح صحیح مسلم محيي الدين يحيى بن شرف النووي (وفات 676ھ )فرماتے ہیں:
لوجاز اتباع ای مذہب شاء لافضی الی ان یلتقط رخص المذاہب متبعا ہواہ۔۔۔۔۔ فعلی ہذا یلزمہ ان یجتہد فی اختیار مذہب یقلدہ علی التعین ۔
ترجمہ:
اگر یہ جائز ہو کہ انسان جس فقہ کی چاہے پیروی کرے تو بات یہاں تک پہنچے گی کہ وہ اپنی نفسانی خواہش کے مطابق تمام مذاہب کی آسانیاں چنےگا۔ اس لیے ہرشخص پرلازم ہے کہ ایک معین مذہب چن لے اور اس کی تقلیدکرے۔
(المجموع شرح المہذب ج 1 ص 91)

۔
علامہ ابن قدامہؒ (وفات 620ھ) فرماتے ہیں:
حكم التقليد في الفروع ، بالنسبة للعامة وقد وقع الاتفاق علي انه صحیح
ترجمہ:
”عامی (غیرمجتہد) کیلئے فروع میں تقلید با اتفاق صحیح ہے“۔
(شرح مختصر روضة الناظر ج 2 ص 682)
 
Top