• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اس کا جواب درکار ہے

Muhammad Ayaz

رکن
شمولیت
فروری 11، 2015
پیغامات
29
ری ایکشن اسکور
2
پوائنٹ
57
سینہ پر ہاتھ باندھنے کی دلائل کا مختصر جائزہ


1️⃣عن سھل بن سعد، قال: کان الناس یؤمرون ان یضع الرجل الید الیمنی علی ذراعہ الیسری فی الصلاة .

⬅یعنی حضرت سھل بن سعد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ: لوگوں کو حکم دیاجاتا تھا کہ نماز میں ہرشخص دائیں ہاتھ کو بائیں ہاتھ کے ذراع پر رکھے ـ (صحیح بخاری1/102)

❌↩جواب: اس روایت سے استدلال کرنا قطعا صحیح نہیں، اس لئے کہ اس روایت میں کہیں بھی صدر بمعنی سینہ کا لفظ نہیں ـ

2️⃣نا عاصم بن کلیب قال حدثنی ابی ان وائل بن حجر اخبرہ قال: قلت لانظرن الی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیف یصلی فنظرت الیہ فقام فکبر ورفع یدیہ حتی حاذتا باذنیہ ثم وضع یدہ الیمنی علی کفہ الیسری والرسغ والساعد .

⬅یعنی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا دایاں ہاتھ بائیں ہتھیلی کی پشت کلائی اور بازو کے اوپر رکھا ـ (نسائی رقم الحدیث 889)

❌↩جواب: یہ روایت بھی صریح نہیں ہے، اس لئے کہ اس روایت میں بھی صدر بمعنی سینہ کا لفظ نہیں ـ

3️⃣عن سلیمان بن موسی عن طاؤس قال: کان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یضع یدہ الیمنی علی یدہ الیسری ثم یشد بھما علی صدرہ وھو فی الصلاة .

⬅حضرت طاؤس کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز اپنا دایا ہاتھ بائیں ہاتھ پر رکھ کر انہیں سینہ پر باندھتے تھے ـ (ابوداؤد 2/71)

❌↩جواب: اس روایت کی سند میں سلیمان بن موسی کے متکلم فیہ ہونے کے ساتھ ساتھ مرسل ومنقطع السند بھی ہے، اور مرسل ومنقطع حدیث غیر مقلدین کے نزدیک ضعیف اور ناقابل استدلال ہوتی ہے، جیسا کہ حافظ زبیر علی زئی وغیرہ نے صراحت کی ہے ـ

4️⃣عن قبیصة بن ھلب عن ابیہ قال: رایت النبی صلی اللہ علیہ وسلم ............. یضع ھذہ علی صدرہ .

⬅یعنی حضرت ہلب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ ..... اس ہاتھ کو اپنے سینہ پر رکھتے تھے ـ (مسند احمد_ المیمنة 5/226)

❌↩جواب: یہ روایت سماک بن حرب اور قبیصہ بن ہلب کے متکلم فیہ اور دیگر کتب میں (علی صدرہ) سینہ پر کی زیادتی نہ ہونے کی وجہ سے ناقابل استدلال ہے ـ

5️⃣نا ابوموسی نامؤمل نا سفیان عن عاصم بن کلیب عن ابیہ عن وائل بن حجر قال: صلیت مع رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ووضع یدہ الیمنی علی یدہ الیسری علی صدرہ .

⬅یعنی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز میں اپنے دائیں ہاتھ کو بائیں ہاتھ پر رکھ کر سینے پر رکھا ـ (صحیح ابن خزیمہ 1/ 243)

❌↩جواب: یہ روایت سفیان ثوری کی تدلیس اور مؤمل بن اسمعیل کے ضعیف بلکہ منکر الحدیث ہونے کی وجہ سے انتہائی ضعیف اور ناقابل استدلال ہے ـ

سینے پہ ہاتھ باندھنے کی روایت اور غیر مقلدین کے جھوٹ
سینے پہ ہاتھ باندھنا غیر مقلدین کا مشہور مسئلہ ہے لیکن اس مسئلہ کو ثابت کرنے کے لئے غیر مقلدین کتنا جھوٹ بولتے ہیں یہ آپ کے سامنے پیشِ خدمت ہے۔

غیر مقلدین کے ایک عالم داؤد ارشد نے بریلوی عالم احمد یار نعیمی کی ایک کتاب جاءالحق کے جواب میں کتاب لکھی جس کا نام دین الحق بجواب جاء الحق ہے۔ اس کتاب کا مقدمہ مشہور غیر مقلد یحیی گوندلوی نے لکھا اور اس کے ساتھ ساتھ اس کی تعریف موجودہ دور کے مشہور غیر مقلد علامہ مبشر احمد ربانی نے بھی کی ہے۔

اس کتاب میں سینے پہ ہاتھ باندھنے کے بارے میں دلائل دیتے ہوئے داؤد ارشد صاحب نے کئی جھوٹ بولے۔
انہوں نے ایک روایت پیش کی حضرت ھلب رضی اللہ عنہ سے اور لکھتے ہیں کہ ''رَأَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَنْصَرِفُ عَنْ يَمِينِهِ وَعَنْ يَسَارِهِ،ويَضَعُ یدهُ عَلَى صَدْرِهِ۔ مسند امام احمد،ج5، صفحہ 226۔" میں نے نبی کریم ﷺ کو دیکھا کہ نماز کے اختتام پہ دائیں اور بائیں سلام پھیرتے اور نماز میں سینہ پہ ہاتھ رکھتے تھے۔ ( دین الحق بجواب جاءالحق، مصنف داؤد ارشد، صفحہ 217)
داؤد صاحب نے حوالہ دیا مسند امام احمد کا لیکن انہوں نےخیانت کرتے ہوئے روایت کے الفاظ تبدیل کر دئیے۔

مسند امام احمد میں حضرت ھلب رضی اللہ کی یہ روایت ان الفاظ کے ساتھ نہیں ہے جن الفاظ کے ساتھ داؤد صاحب نے بیان کی ہے۔ مسند امام احمد کی روایت یہ ہے کہ"حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ , عَنْ سُفْيَانَ , حَدَّثَنِي سِمَاكٌ , عَنْ قَبِيصَةَ بْنِ هُلْبٍ , عَنْ أَبِيهِ , قَالَ : " رَأَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَنْصَرِفُ عَنْ يَمِينِهِ وَعَنْ يَسَارِهِ , وَرَأَيْتُهُ قَالَ يَضَعُ هَذِهِ عَلَى صَدْرِهِ " , وَصَفَّ يَحْيَى : الْيُمْنَى عَلَى الْيُسْرَى فَوْقَ الْمِفْصَلِ "۔ ( مسند امام احمد، مسند الانصار، حدیث ھلب طائی رضی اللہ عنہ)
سب سے پہلے تو اس روایت میں نماز کے الفاظ ہی نہیں ہیں جبکہ داؤد صاحب نے ترجمہ کرتے ہوئے اپنی مرضی سے اس میں نماز کے الفاظ شامل کر دئیے اس کے علاوہ داؤد صاحب نے اپنا مؤقف ثابت کرنے کے لئے خیانت یہ کی کہ اس روایت سے (وَرَأَيْتُهُ قَالَ يَضَعُ هَذِهِ عَلَى صَدْرِهِ " , وَصَفَّ يَحْيَى : الْيُمْنَى عَلَى الْيُسْرَى فَوْقَ الْمِفْصَلِ ") یہ الفاظ نکال دئیے اور اس کے علاوہ لفظ "هَذِهِ" کو "یدهُ" سے تبدیل کر دیا،اس طرح یہ پوری روایت ہی تبدیل ہو گئی۔

اور یہ خیانت صرف یہاں تک ہی نہیں کی بلکہ اس روایت کو پیش کرتے ہوئے داؤد صاحب نے سند بیان ہی نہیں کی اور روایت کو صحیح ثابت کرنے کے لئے بھی امام ترمذی اور علامہ نیموی حنفی رح کی طرف جھوٹ منسوب کیا۔

داؤد صاحب لکھتے ہیں کہ '' امام ترمذی اور علامہ نیموی حنفی نے اس کی سند کو حسن تسلیم کیا ہے" ( دین الحق بجواب جاء الحق، صفحہ 218)
سب سے پہلے تو ترمذی میں ھلب رضی اللہ سے ان الفاظ کے ساتھ یہ روایت ہی نہیں ہے جن الفاظ کے ساتھ داؤد صاحب نے اپنی کتاب دین الحق میں پیش کی ہے اور اس کے علاوہ امام ترمذی نے ھلب رضی اللہ کی جس حدیث کو حسن کہا ہے اس کی سند بھی مختلف ہے۔ تو داؤد صاحب نے یہاں امام ترمذی کی طرف جھوٹ کی نسبت کی۔

اس کے علاوہ علامہ نیموی کا حوالہ دیا کہ انہوں نے آثار السنن میں اس روایت کو حسن تسلیم کیا ہے لیکن یہاں بھی داؤد صاحب نے غیر مقلدین کی روش پہ چلتے ہوئے خیانت کر دی۔ داؤد صاحب نے علامہ نیموی کا مکمل حوالہ پیش ہی نہیں کیا بلکہ آدھا حوالہ پیش کیا ہے اور باقی آدھا حوالہ چھوڑ دیا کیونکہ اگر اس حوالے کو مکمل پیش کرتے تو اس روایت کی حقیقت سب کے سامنے آ جاتی۔

علامہ نیموی حنفیؒ نے یہ روایت ان الفاظ کے ساتھ بیان ہی نہیں کی جن الفاظ کے ساتھ داؤد صاحب نے پیش کی۔
علامہ نیموی نے یہ روایت مسند احمد سے پیش کی اور مسند احمد کی روایت کی سند کو حسن تسلیم کیا لیکن اس کے ساتھ آگے وضاحت کی کہ مسند احمد کی اس روایت کی سند میں ''عَلَى صَدْرِهِ " کے الفاظ غیر محفوظ ہیں۔
مطلب یہ کہ اس روایت کی سند حسن ہے لیکن اس روایت میں "سینے پہ ہاتھ باندھنے کے الفاظ'' غیر محفوظ ہیں۔ (آثار السنن،علامہ نیموی، صفحہ 107،108)
لیکن داؤد ارشد صاحب نے خیانت کرتے ہوئے صرف اتنا بیان کیا کہ اس روایت کی سند حسن ہے اور آگے کا حوالہ چھوڑ دیا۔

غیر مقلدین کے مولانا داؤد ارشد صاحب مراسیل ابو داؤد سے ایک روایت بیان کر کے لکھتے ہیں کہ
"اس کی سند امام طاؤس تک بلکل صحیح ہے'' (دین الحق بجواب جاء الحق، جلد 1 ، صفحہ 218)

یہ داؤد ارشد صاحب کا جھوٹ ہے کہ اس کی سند صحیح ہے کیونکہ یہ روایت ضعیف ہے اور علامہ نیموی نے اس کو ضعیف بیان کرنے کے بعد اس کی سند میں ایک راوی کو بھی ضعیف بیان کیا ہے۔
علامہ نیموی یہ روایت بیان کرنے کے بعد لکھتے ہیں کہ اسے ابو داؤد نے اپنی مراسیل میں بیان کیا ہے لیکن اس کی سند ضعیف ہے۔
اور اس کی وجہ بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ”ضعیف ہونے کے ساتھ ساتھ اس کی سند میں سلیمان بن موسیٰ حدیث میں نرمی برتنے والے ہیں اور امام بخاری رح کے نزدیک منکر الحدیث، اور امام نسائی نے فرمایا کہ قوی نہیں ہیں اور التقریب میں اس کو صدوق اور فقیہ کہنے کے ساتھ ساتھ حدیث میں نرم اور آخر عمر میں مخلوط الکلام فرمایا ہے“ ( آثار السنن، صفحہ 108، علامہ نیموی)۔
اس کے علاوہ اس روایت کے راوی سلیمان بن موسیٰ کے بارے میں امام بخاری بیان کرتے ہیں کہ ” حدیث میں قوی نہیں ہیں“ ( کتاب الضعفاء، امام بخاری،صفحہ 186)۔
جس روایت کی سند ضعیف ہے اس روایت کو داؤد ارشد صاحب صحیح کہہ کر لوگوں کو دھوکہ دینے کی کوشش کر رہے ہیں۔

مولانا احمد یار نعیمی صاحب نے علامہ ابن حزم کی کتاب سے ایک روایت حضرت انس رضی اللہ کی بیان کی کہ داہنا ہاتھ بائیں ہاتھ پہ ناف کے نیچے رکھنا نبوت کے اخلاق میں سے ہے۔ اس روایت پہ اعتراض کرتے ہوئے مولانا داؤد راشد صاحب لکھتے ہیں کہ
”بلا شبہ امام حزم نے اسے بیان کیا ہے مگر اس کی سند بیان نہیں کی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ خود امام حزم نے صراحت کی ہے کہ اس کی سند نہیں ہے یہ بلا سند ہی ہے“ ( دین الحق بجواب جاء الحق، جلد 1 صفحہ 226)

اس حوالے میں داؤد راشد صاحب نے علامہ ابن حزم کی طرف جھوٹ منسوب کیا ہے۔
یہ بات صحیح ہے کہ علامہ ابن حزم نے اپنی کتاب میں یہ روایت بلا سند بیان کی ہے لیکن علامہ ابن حزم نے یہ صراحت نہیں کی کہ اس روایت کی سند نہیں ہے۔
علامہ داؤد صاحب نے یہ جو کہا ہے کہ ” علامہ ابن حزم نے صراحت کی ہے کہ اس کی سند نہیں ہے اور یہ بلا سند ہے۔“
یہ داؤد ارشد صاحب نے جھوٹ بولا ہے۔

میں نے آپ کے سامنے غیر مقلدین کے صرف ایک روایت کے بارے میں یہ کئی جھوٹ بیان کئے تاکہ لوگوں کو ان کی حقیقت پتہ چلے کہ یہ کس طرح لوگوں کو گمراہ کرتے ہیں۔

(((ابو خالد نور گرجاکھی ٖغیر مقلد اور اس کے جھوٹ))))

غیر مقلد عالم ابو خالد نور گرجاکھی نے رفع یدین کے موضوع پہ ایک کتاب لکھی جس کا نام '' اثباتِ رفع یدین'' ہے لیکن اس کتاب میں بھی اس نے غیر مقلدین کی روش اختیار کی اور احادیث کی کتابوں کی طرف غلط حوالے منسوب کئے۔
ابو خالد نور گرجاکھی نے اپنی کتاب '' اثبات رفع یدین'' کے صفحہ 28 پہ ایک حدیث حضرت وائل بن حجر رضی اللہ عنہ سے بیان کی۔

جیسا کہ اس کتاب کے نام سے ظاہر ہے کہ اس کا مقصد رفع یدین کو ثابت کرنا تھا لیکن اس نے لوگوں کو دھوکہ دینے کے لئے اس روایت میں الفاظ اپنی طرف سے شامل کئے اور نہ صرف الفاظ شامل کئے بلکہ اس روایت کو حدیث کی 11 کتابوں کی طرف منسوب کیا جن کتابوں میں یہ روایت موجود ہی نہیں ہے۔

یہاں اس نے ایک تو حدیث کے الفاظ تبدیل کئے دوسرا احادیث کی کتابوں کی طرف جھوٹ منسوب کیا۔

((اس نے روایت بیان کی کہ ''عَنْ وَائِلِ بْنِ حُجْرٍ قال قلت لانظرن إلى رسول اللہ صلى اللہ عليہ وسلم كيف يصلي قال فنظرت إليہ قام فكبر ورفع يديہ حتى حاذتا أذنيہ ثم وضع يده اليمنى علیٰ الیسری علی صدرہ فلما اراد ان یرکع رفع یدیہ مثلہ فلما رفع راسہ من الرکوع رفع یدیہ مثلھا (رواہ احمد) ( اثبات رفع یدین، صفحہ 28)
ترجمہ ''سیدنا وائل بن حجر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے ارادہ کیا کہ دیکھوں رسول اللہ ﷺ نماز کس طرح پڑھتے ہیں۔ پھر میں نے دیکھا کہ جب آپ ﷺ اللہ اکبر کہتے تو رفع یدین کرتے اور سینہ پہ ہاتھ رکھ لیتے تھے پھر جب رکوع میں جانے کا ارادہ فرماتے اور رکوع سے سر اٹھاتے تو رفع یدین کرتے۔
بحوالہ ، صحیح مسلم، ابن ماجہ، ابو داؤد، بہیقی، دار قطنی، سنن الدارمی، جز بخاری، مسند احمد، کتاب الام، جز سبکی، مشکوۃ۔)))

اس روایت میں شاید نورگرجاکھی غیر مقلد نے سوچا کہ رفع یدین کے ساتھ ساتھ سینہ پہ ہاتھ باندھنے کا مسئلہ بھی بیان کر دیا جائے تاکہ لوگوں کو پتہ چلے کہ نبی کریم ﷺ سینہ پہ ہاتھ باندھتے تھے اس لئے اس نے '' علیٰ صدرہ'' یعنی '' سینہ پہ ہاتھ باندھنا'' کے الفاظ اپنی طرف سے ملا لئے۔

دوسر اس نے نیچے احادیث کی مشہور10 کتابوں کے حوالے بھی دے دئیے تاکہ لوگوں کو پتہ چلے کہ رفع یدین اور سینہ پہ ہاتھ باندھنے کا مسئلہ صحیح مسلم اور باقی احادیث کی کتبس ے ثابت ہے لیکن عجیب بات یہ ہے کہ جن الفاظ کے ساتھ نور گرجاکھی نے یہ روایت بیان کی ان الفاظ کے ساتھ یہ روایت ان میں سے کسی بھی حدیث کی کتاب میں نہیں ہے۔

بعض کتابوں میں اس روایت میں علیٰ صدرہ کےا لفاظ نہیں ہیں اور کئی کتابوں میں تو یہ حدیث ہی موجود نہیں ہے بلکہ وہاں وائل بن حجر رضی اللہ عنہ کی کوئی اور حدیث بیان ہوئی ہے۔

نور گرجاکھی نے جن کتابوں کا حوالہ دیا ان پہ نظر ڈالتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ
1۔ صحیح مسلم میں یہ روایت موجود ہی نہیں ہے۔
2۔سنن ابن ماجہ میں '' علیٰ صدرہ'' لے الفاظ موجود نہیں ہیں۔
3۔سنن الدارمی میں یہ روایت ہی موجود نہیں ہے۔
4۔سنن ابو داؤد میں بھی یہ روایت ان الفاظ کے ساتھ اور ''علی صدرہ'' کے ساتھ موجود نہیں ہے۔
5۔ امام بخاری کی کتاب جز بخاری میں اس روایت میں '' علیٰ صدرہ'' کے الفاظ موجود نہیں ہیں۔
6۔سنن کبری بہیقی میں بھی '' علی صدرہ'' کے الفاظ موجود نہیں ہیں۔
7۔سنن دار قطنی میں یہ روایت موجود نہیں لیکن حاشیہ میں حاشیہ لکھنے والے نے یہ روایت بیان کی لیکن اس میں بھی ہاتھ باندھنے کا ذکر ہی نہیں ہے۔
8۔مسند احمد میں بھی '' علی صدرہ'' کے الفاظ موجود نہیں ہیں۔
9۔امام شافعی رح کی کتاب الام میں یہ روایت نہیں ہے لیکن کتاب الام کے محقق نے حاشیہ میں مسند حمیدی سے یہ روایت بیان کی لیکن اس میں بھی ''علی صدرہ'' کے الفاظ موجود نہیں ہیں۔
10۔مشکوۃ المصابیح میں بھی یہ روایت موجود نہیں اور وہاں جو روایت وائل بن حجر رضی اللہ سے موجود ہے اس میں ''علی صدرہ" کے الفاظ نہیں ہیں۔
11۔ جز سبکی کتاب مجھے مل نہیں سکی۔۔
اگر کسی غیر مقلد کے پاس اس کتاب کی حدیث کا وہ حوالہ موجود ہے جو خالد گرجاکھی نے دیا ہے تو برائے مہربانی اس کا اصل صفحہ پیش کریں۔

پس ثابت ہوا کہ نور گرجاکھی نے احادیث کی 10 کتابوں کی طرف جھوٹ منسوب کیا ہے۔
میں آپ کے سامنے نور گرجاکھی کے ہی بیان کی گئی احادیث کی کتابوں کے صفحات پیش کرتا ہوں جن کتابوں کا نور گرجاکھی نے حوالہ دیا ہے کہ یہ روایت ان کتابوں میں موجود ہے۔
قارئیں خود فیصلہ کر لیں کہ نور گرجاکھی نے کتنا بڑا جھوٹ ان احادیث کی کتابوں کی طرف منسوب کیا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ حدیث میں الفاظ کی ملاوٹ بھی کی ہے۔
ہو سکتا ہے کہ کوئی غیر مقلد کہہ دے کہ '' علیٰ صدرہ'' کا لفظ غلطی سے کتابت کی وجہ سے پرنٹ ہو گیا ہے تو ان غیر مقلدین سے گزارش ہے کہ اگر '' علیٰ صدرہ'' کا لفظ غلطی سے پرنٹ ہوا ہے تو تمہارے اس عالم نے روایت میں اس لفظ کا ترجمہ '' سینہ پہ ہاتھ باندھا'' کیسے بیان کر دیا؟؟؟؟

نور گرجاکھی نے لفظ بیان کرنے کے ساتھ اس کا ترجمہ بھی بیان کیا اور یہ اس بات کو ثابت کرتا ہے کہ روایت میں یہ لفظ اس غیر مقلد نے خود ملائے ہیں۔
اگر کسی غیر مقلد کو ان کتابوں میں یہ روایت ان الفاظ کے ساتھ ملے تو برائے مہربانی اس کا اصل صفحہ کا سکین لگا دے تا کہ مجھے اور سب کو پتہ چل سکے کہ یہ روایت موجود ہے۔

غلام خاتم النبیین ﷺ
محسن اقبال

بریلوی مفتی احمد یار نعیمی صاحب نے اپنی کتاب ''جاء الحق'' میں ترک رفع یدین کی دلیل میں ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی روایت پیش کی تھی جس میں ایک راوی عاصم بن کلیب ہیں۔
غیر مقلد داؤد ارشد نے اس کے جواب میں عاصم بن کلیب پہ جرح نقل کی اور اس کو مرجئی قرار دیا اور کہا کہ علامہ ذہبی اور حافظ ابن حجر نے عاصم بن کلیب کو مرجیہ کہا ہے۔ـ( دین الحق، جلد 1 صفحہ 373)
لیکن ان کی دوغلی پالیسی یہ ہے کہ سینہ پہ ہاتھ باندھنے کے لئے داود ارشد صاحب اسی راوی عاصم بن کلیب کی روایت کو اپنی دلیل بنا رہے ہیں۔
داؤد ارشد صاحب نے سینہ پہ ہاتھ باندھنے کے لئے وائل ابن حجر رضی اللہ عنہ کی روایت صحیح ابن خزیمہ سے پیش کی لیکن اس کی سند بیان نہیں کی کیونکہ اس کی سند میں ''عاصم بن کلیب'' راوی ہیں ۔(دین الحق، جلد 1 صفحہ 216)
لیکن اسی عاصم بن کلیب راوی کو ترک رفع یدین کی دلیل میں اسی کتاب میں مرجئہ کہہ کر اس پہ جرح کر رہے ہیں ۔( دین الحق، جلد 1 صفحہ 373)
راوی جب ترک رفع کی دلیل میں آیا تو اس کو مرجئہ کہہ کر رد کر دیا لیکن سینہ پہ ہاتھ باندھنے کے لئے اسی راوی کی روایت کو اپنی دلیل بنا لیا۔یہ ہے غیر مقلدین کی نفس پرستی۔

صحیح ابن خزیمہ کی روایت اور غیر مقلدین کے جھوٹ

غیر مقلدین سینے پہ ہاتھ باندھتے ہیں اور اس کے لئے صحیح ابن خزیمہ سے حضرت وائل بن حجر رضی اللہ عنہ کی ایک روایت پیش کرتے ہیں جس کی سند مومل بن اسماعیل کی وجہ سے ضعیف ہے لیکن غیر مقلدین اس کے ضعف کو چھپانے کے لئے بہت جھوٹ بولتے ہیں۔
صحیح ابن خزیمہ کا ترجمہ غیر مقلدین کے مشہور ادارہ ''دار السلام'' سے شائع ہوا جو کہ کئی غیر مقلدین علماء کی تحقیق اور تخریج کے ساتھ شایع ہوالیکن اس ترجمہ میں غیر مقلدین نے یہ روایت بیان کرنے کے بعد اس کی تحقیق میں جھوٹ بولا ہے۔

یہ روایت بیان کرنے کے بعد حاشیہ میں غیر مقلدین نے اس کی سند کو صحیح قرار دیا ہے اور سند کی تصیح کے لئے 2 کتابوں سنن کبری بہیقی اور مسند احمد کا حوالہ دیا۔
سب سے پہلا جھوٹ یہ بولا گیا کہ اس کی سند صحیح ہے حالانکہ اس روایت کی سند کو مومل بن اسماعیل کی وجہ سے کئی غیر مقلدین کے اکابرین نے بھی ضعیف کہا ہے۔

دوسرا حاشیہ میں ''اسناد صحیح'' لکھ کر ''سنن کبری بہیقی اور مسند احمد'' کا حوالہ دیا لیکن جس سند اور الفاظ کے ساتھ صحیح ابن خزیمہ میں آئی ہے اس سند اور الفاظ کے ساتھ یہ روایت ان دونوں کتابوں میں نہیں ہے۔
سنن بہیقی میں مومل بن اسماعیل کی سند کے ساتھ جو روایت آئی ہے اس کے الفاظ میں اور صحیح ابن خزیمہ کی روایت کے الفاظ میں فرق ہے اور نیچے حاشیہ میں لکھا گیا ہے کہ یہ روایت مومل بن اسماعیل کی وجہ سے ضعیف ہے۔

مسند احمد میں صحیح ابن خزیمہ کی سینے پہ ہاتھ باندھنے والی روایت موجود ہی نہیں ہے۔
تو ان دونوں کتابوں کی طرف جھوٹ منسوب کیا گیا کہ ان کتابوں میں اس روایت کی سند کو صحیح کہا گیا ہے۔

غیر مقلدین سے گزارش ہے کہ وہ سنن بہیقی اور مسند احمد سے صحیح ابن خزیمہ کی وائل بن حجر رضی اللہ عنہ والی روایت کا سکین سند کے ساتھ پیش کریں تاکہ ثابت ہو سکے کہ آپ کے ان بہت سے محققین نے صحیح ابن خزیمہ کے ترجمہ میں جھوٹ نہیں بولا اور خیانت نہیں کی۔
شکریہ
غلامِ خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم

Sent from my SM-N910S using Tapatalk
 

عامر عدنان

مشہور رکن
شمولیت
جون 22، 2015
پیغامات
921
ری ایکشن اسکور
263
پوائنٹ
142
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
شیخ کفایت اللہ حفظہ اللہ کی کتاب انوار البدر کی طرف رجوع کر لیں ان شاء اللہ سارے جوابات مل جائیں گے فل حال یہ کتاب ابھی نیٹ پر دستیاب نہیں ہیں آپ مارکیٹ سے منگوا لیں۔
جزاک اللہ خیراً
 
Top