محمد آصف مغل
سینئر رکن
- شمولیت
- اپریل 29، 2013
- پیغامات
- 2,677
- ری ایکشن اسکور
- 4,006
- پوائنٹ
- 436
''اشاعرہ'' کے عمومی طور پر وہی عقائد ہیں جو اہل سنت والجماعت کے عقائد ہیں البتہ کئی ایک امور میں وہ اہل سنت سے الگ ہوئے ہیں :'' اشاعرہ''
٭کتاب و سنت کو علم الکلام کے قواعد کی بنیاد پر پرکھتے ہیں ۔
٭خبر آحاد کو عقیدہ میں حجت نہیں مانتے ۔
٭اللہ تعالیٰ کی صفات خبریہ کی تاویل کرتے ہیں۔
٭مسئلہ ایمان میں اعمال کو ایمان سے خارج کیا۔
اللہ تعالیٰ کے علو کا انکار ......جہمیہ اور اشعریہ کے مابین فرق
جہمیہ اللہ کی صفت علوّ(بلندہونا) کو تسلیم نہیں کرتے اوربعض سلف نے اسی سبب سے ان کے کفرکی تصریح کی ہے۔اوراشاعرہ نے بھی اس صفت میں غلطی کھائی ۔ لیکن ان دونوں کی غلطی میں کچھ بنیادی فرق ہے :
(الف ):جہمیہ کا انکار تعطیل پر مبنی ہے جبکہ اشاعرہ کا انکار تاویل کے ساتھ ہے ۔
اشاعرہ اللہ تعالیٰ کی صفات کو تسلیم کرتے ہیں البتہ بعض صفات کی وہ تاویل کرتے ہیں ۔تاویل کا معنی علماء نے یوں بیان کیا ہے :
((صرف اللفظ عن ظاھرہ ))(شرح عقیدۃ الواسطیہ لابن عثیمین)
''لفظ کو اس کے ظاہری معنوں سے کسی اور معنی کی طرف پھیرنا ۔''
جس طرح اللہ تعالیٰ کے اس قول کی تاویل کرنا
﴿ اَلرَّحْمٰنُ عَلَي الْعَرْشِ اسْتَوٰى۵ ﴾(طہ:۵)
یہاں ''استویٰ کاعربی زبان میں معنی'' بلند ہونے ''اور'' قرار پکڑنے ''کے ہیں لہٰذا اگر کوئی استویٰ کا معنی بلند ہونے کی بجائے ''استولیٰ ''غالب ہوا کرتا ہے تو اس کی یہ تاویل ہے اور مذموم ہے کیونکہ اس دوسرے معنی کے مراد لیے جانے پر کوئی شرعی یا لغوی دلیل دلالت نہیں کرتی ۔
(ب) جہمیہ حلول و اتحاد کی طرف گئے ہیں جبکہ اشاعرہ اس کے قائل نہیں ۔
جہمیہ کہتے ہیں : اللہ عرش پر نہیں ہے بلکہ وہ ہرجگہ میں ہے ،یہ عقیدہ حلول کی بنیاد ہے جبکہ اشاعرہ کا کہنا ہے کہ :اللہ تعالی اُس وقت موجودتھا جب کوئی مکان نہ تھا اوروہ اب بھی اسی حالت میں ہے جس حالت میں مکان کوپیداکرنے سے پہلے تھا۔ وہ کہتے ہیں کہ اللہ تعالی کے لیے جہت کااثبات نہ کرنے کے یہ معنی نہیں کہ وہ ہرجگہ میں حلول کرگیاہے۔ دوسرے لفظوں میں جہمیہ کی بدعت کفریہ اور اشاعرہ کی بدعت غیر کفریہ ہے ۔