• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اشرف علی تھانوی --- بہشتی زیور کا خود ساختہ اسلام / نجس چیز کو چاٹنا

سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔

lovelyalltime

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 28، 2012
پیغامات
3,735
ری ایکشن اسکور
2,898
پوائنٹ
436
بہشتی زیور --- اشرف علی تھانوی --- بہشتی زیور کا خود ساختہ اسلام / نجس چیز کو چاٹنا


111.jpg
 

تلمیذ

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 12، 2011
پیغامات
765
ری ایکشن اسکور
1,506
پوائنٹ
191
ایک اعتراض بار بار کیا جاتا ہے کہ اگر انگلی پر نجاست لگي ہو اور کوئي اس کو چاٹ لے تو فقہ حنفی کہتی ہے انگلی پاک ہوجائے گي
اس پر بعض افراد یہ اعتراض کرتے ہیں کہ فقہ حنفی کتنی گندی ہے کہتی کہ اگر انگلی پر نجاست لگی ہو تو اس کو چاٹ کر پاک کیا جاسکتا ہے ، یہ صرف ان جھلاء کی فقہ حنفی سے ناسمجھی کا نتیجہ ہے
اگر کوئی اپنی بیوی سے دبر سے جماع کرے اور بعد میں مقتی صاحب سے پوچھے کہ کیا مجھ پر غسل فرض ہے تو یقیقنا مفتی صاحب کہیں گے کہ غسل فرض ہو گيا ہے اس یہ اگر کوئي جاہل یہ نتیجہ نکالے کہ مفتی صاحب کے نذدیک دبر سے جماع کرنا جائز ہے تو اس کی جہالت پر سر ہی پیٹا جائے گا
فقہ حنفی نجاست چاٹنے کو برا عمل سمجتھی ہے لیکن اگر کو پاگل یا غیر عاقل بچہ ایسا کرلے تو کیا انگلی پاک سمجھی جائے گي یا نہیں تو فقہ حنفی کہتی پاک سمجھی جائے گي
مثلا اگر کسی پاگل کے ہاتھ نجاست ہو اور وہ اس کو چاٹنے کے بعد کسی پانی میں انگلی ڈال دے تو کیا پانی پاک سمجھا جائے گا فقہ حنفی کہتی ہے کہ اگر چہ نجاست چاٹنا غلط کام ہے لیکن چاٹنے سے انگلی پاک ہوجاگی اور اس پانی کو پاک سمجھا جائے
یا جیسے اشرف علی تھانوي نے بہشتی زیور میں لکھا ہے کہ اگر بچہ دودھ پیتے ہوئے ماں کے پستان پر قے کردے اور پھر اس کو چوس بھی لے تو کیا ماں کو اپني چھاتی دھونے کی ضرورت ہے یا نہیں تو چوں کہ نجاست چاٹنے سے پاک ہوجاتی ہے تو ماں کو اپنی چھاتی دھونے کی ضرورت نہیں
اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ کیا تھوک سے پاکی ہوجاتی ہے
احناف کا موقف وہی ہے کہ پانی کے بجائے کسی اور چیز سے اگر نجاست کا ازالہ ہوجائے تو وہ چیز پاک ہوجائے گي ،
دلیل

إذا جاء أحدكم إلى المسجد فلينظر فإن رأى في نعليه قذراً أو أذى فليمسحه وليصل فيهما. رواه أبو داود وصححه الألباني.

یہاں نجاست کو پانی سے دھونے کا نہیں کہا جارہا بلکہ نجاست کے ازالہ کے لئيے اس کے ازالہ کو کافی کہا جا رہا ہے تو تھوک سے بھی اگر نجاست کا ازالہ ہوجائے تو وہ چیز پاک سمجھی جائے گي
تھوک سے پاکی ایک بہترین اور واضح دلیل بخاری سے

حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ، قَالَ حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ أَبِي نَجِيحٍ، عَنْ مُجَاهِدٍ، قَالَ قَالَتْ عَائِشَةُ مَا كَانَ لإِحْدَانَا إِلاَّ ثَوْبٌ وَاحِدٌ تَحِيضُ فِيهِ، فَإِذَا أَصَابَهُ شَىْءٌ مِنْ دَمٍ، قَالَتْ بِرِيقِهَا فَقَصَعَتْهُ بِظُفْرِهَا‏

ہم سے ابونعیم فضل بن دکین نے بیان کیا ، انھوں نے کہا ہم سے ابراہیم بن نافع نے بیان کیا ، انھوں نے عبداللہ ابن ابی نجیح سے ، انھوں نے مجاہد سے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ ہمارے پاس صرف ایک کپڑا ہوتا تھا ، جسے ہم حیض کے وقت پہنتے تھے ۔ جب اس میں خون لگ جاتا تو اس پر تھوک ڈال لیتے اور پھر اسے ناخنوں سے مسل دیتے ۔
 

lovelyalltime

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 28، 2012
پیغامات
3,735
ری ایکشن اسکور
2,898
پوائنٹ
436
ایک اعتراض بار بار کیا جاتا ہے کہ اگر انگلی پر نجاست لگي ہو اور کوئي اس کو چاٹ لے تو فقہ حنفی کہتی ہے انگلی پاک ہوجائے گي
اس پر بعض افراد یہ اعتراض کرتے ہیں کہ فقہ حنفی کتنی گندی ہے کہتی کہ اگر انگلی پر نجاست لگی ہو تو اس کو چاٹ کر پاک کیا جاسکتا ہے ، یہ صرف ان جھلاء کی فقہ حنفی سے ناسمجھی کا نتیجہ ہے
اگر کوئی اپنی بیوی سے دبر سے جماع کرے اور بعد میں مقتی صاحب سے پوچھے کہ کیا مجھ پر غسل فرض ہے تو یقیقنا مفتی صاحب کہیں گے کہ غسل فرض ہو گيا ہے اس یہ اگر کوئي جاہل یہ نتیجہ نکالے کہ مفتی صاحب کے نذدیک دبر سے جماع کرنا جائز ہے تو اس کی جہالت پر سر ہی پیٹا جائے گا
فقہ حنفی نجاست چاٹنے کو برا عمل سمجتھی ہے لیکن اگر کو پاگل یا غیر عاقل بچہ ایسا کرلے تو کیا انگلی پاک سمجھی جائے گي یا نہیں تو فقہ حنفی کہتی پاک سمجھی جائے گي
مثلا اگر کسی پاگل کے ہاتھ نجاست ہو اور وہ اس کو چاٹنے کے بعد کسی پانی میں انگلی ڈال دے تو کیا پانی پاک سمجھا جائے گا فقہ حنفی کہتی ہے کہ اگر چہ نجاست چاٹنا غلط کام ہے لیکن چاٹنے سے انگلی پاک ہوجاگی اور اس پانی کو پاک سمجھا جائے
یا جیسے اشرف علی تھانوي نے بہشتی زیور میں لکھا ہے کہ اگر بچہ دودھ پیتے ہوئے ماں کے پستان پر قے کردے اور پھر اس کو چوس بھی لے تو کیا ماں کو اپني چھاتی دھونے کی ضرورت ہے یا نہیں تو چوں کہ نجاست چاٹنے سے پاک ہوجاتی ہے تو ماں کو اپنی چھاتی دھونے کی ضرورت نہیں
اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ کیا تھوک سے پاکی ہوجاتی ہے
احناف کا موقف وہی ہے کہ پانی کے بجائے کسی اور چیز سے اگر نجاست کا ازالہ ہوجائے تو وہ چیز پاک ہوجائے گي ،
دلیل

إذا جاء أحدكم إلى المسجد فلينظر فإن رأى في نعليه قذراً أو أذى فليمسحه وليصل فيهما. رواه أبو داود وصححه الألباني.

یہاں نجاست کو پانی سے دھونے کا نہیں کہا جارہا بلکہ نجاست کے ازالہ کے لئيے اس کے ازالہ کو کافی کہا جا رہا ہے تو تھوک سے بھی اگر نجاست کا ازالہ ہوجائے تو وہ چیز پاک سمجھی جائے گي
تھوک سے پاکی ایک بہترین اور واضح دلیل بخاری سے

حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ، قَالَ حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ أَبِي نَجِيحٍ، عَنْ مُجَاهِدٍ، قَالَ قَالَتْ عَائِشَةُ مَا كَانَ لإِحْدَانَا إِلاَّ ثَوْبٌ وَاحِدٌ تَحِيضُ فِيهِ، فَإِذَا أَصَابَهُ شَىْءٌ مِنْ دَمٍ، قَالَتْ بِرِيقِهَا فَقَصَعَتْهُ بِظُفْرِهَا‏

ہم سے ابونعیم فضل بن دکین نے بیان کیا ، انھوں نے کہا ہم سے ابراہیم بن نافع نے بیان کیا ، انھوں نے عبداللہ ابن ابی نجیح سے ، انھوں نے مجاہد سے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ ہمارے پاس صرف ایک کپڑا ہوتا تھا ، جسے ہم حیض کے وقت پہنتے تھے ۔ جب اس میں خون لگ جاتا تو اس پر تھوک ڈال لیتے اور پھر اسے ناخنوں سے مسل دیتے ۔


اگر کسی حنفی کی انگلی کے ساتھ پاخانہ لگ جا ے اور وہ پاخانہ کو چاٹ لے تو کیا اس کی انگلی پاک ھو جا ے گی

 

تلمیذ

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 12، 2011
پیغامات
765
ری ایکشن اسکور
1,506
پوائنٹ
191
اگر کسی حنفی کی انگلی کے ساتھ پاخانہ لگ جا ے
حنفی نہیں کسی کی بھی انگلی کے ساتھ پّاخانہ لگ جائے
اور وہ پاخانہ کو چاٹ لے
یہ چاٹنا ایک غلیظ عمل ہے اور صرف مجنون یا دیوانہ یا پاگل یا غیر عاقل بچہ ہی کرسکتا ہے

تو کیا اس کی انگلی پاک ھو جا ے گی
تھوک سےپاکی حاصل ہوجاتی ہے اس بات کو اوپر احادیث کی روشنی میں بتایا گیا ہے ، دلائل سے بات کرسکتے ہیں تو کریں ، جذباتت سے نہیں
 
شمولیت
نومبر 11، 2013
پیغامات
79
ری ایکشن اسکور
25
پوائنٹ
63
حنفی نہیں کسی کی بھی انگلی کے ساتھ پّاخانہ لگ جائے

یہ چاٹنا ایک غلیظ عمل ہے اور صرف مجنون یا دیوانہ یا پاگل یا غیر عاقل بچہ ہی کرسکتا ہے


تھوک سےپاکی حاصل ہوجاتی ہے اس بات کو اوپر احادیث کی روشنی میں بتایا گیا ہے ، دلائل سے بات کرسکتے ہیں تو کریں ، جذباتت سے نہیں
آپ کے حسن تدبیر پہ لاحول ولا قوۃ ہی پڑھا جاسکتا ہے ۔چوری اور سینہ زوری
 

شاہد نذیر

سینئر رکن
شمولیت
فروری 17، 2011
پیغامات
1,969
ری ایکشن اسکور
6,263
پوائنٹ
412
جیسے اشرف علی تھانوي نے بہشتی زیور میں لکھا ہے کہ اگر بچہ دودھ پیتے ہوئے ماں کے پستان پر قے کردے اور پھر اس کو چوس بھی لے تو کیا ماں کو اپني چھاتی دھونے کی ضرورت ہے یا نہیں تو چوں کہ نجاست چاٹنے سے پاک ہوجاتی ہے تو ماں کو اپنی چھاتی دھونے کی ضرورت نہیں
اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ کیا تھوک سے پاکی ہوجاتی ہے
احناف کا موقف وہی ہے کہ پانی کے بجائے کسی اور چیز سے اگر نجاست کا ازالہ ہوجائے تو وہ چیز پاک ہوجائے گي ،
دلیل

إذا جاء أحدكم إلى المسجد فلينظر فإن رأى في نعليه قذراً أو أذى فليمسحه وليصل فيهما. رواه أبو داود وصححه الألباني.

یہاں نجاست کو پانی سے دھونے کا نہیں کہا جارہا بلکہ نجاست کے ازالہ کے لئيے اس کے ازالہ کو کافی کہا جا رہا ہے تو تھوک سے بھی اگر نجاست کا ازالہ ہوجائے تو وہ چیز پاک سمجھی جائے گي
تھوک سے پاکی ایک بہترین اور واضح دلیل بخاری سے

حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ، قَالَ حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ أَبِي نَجِيحٍ، عَنْ مُجَاهِدٍ، قَالَ قَالَتْ عَائِشَةُ مَا كَانَ لإِحْدَانَا إِلاَّ ثَوْبٌ وَاحِدٌ تَحِيضُ فِيهِ، فَإِذَا أَصَابَهُ شَىْءٌ مِنْ دَمٍ، قَالَتْ بِرِيقِهَا فَقَصَعَتْهُ بِظُفْرِهَا‏

ہم سے ابونعیم فضل بن دکین نے بیان کیا ، انھوں نے کہا ہم سے ابراہیم بن نافع نے بیان کیا ، انھوں نے عبداللہ ابن ابی نجیح سے ، انھوں نے مجاہد سے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ ہمارے پاس صرف ایک کپڑا ہوتا تھا ، جسے ہم حیض کے وقت پہنتے تھے ۔ جب اس میں خون لگ جاتا تو اس پر تھوک ڈال لیتے اور پھر اسے ناخنوں سے مسل دیتے ۔
میرے نزدیک اسلام کے سب سے بڑے اور خطرناک دشمن یہودیوں کے بعد یہی حنفی ہیں جو پرلے درجے کے منافق ہیں اسلام کے لبادے میں اسلام کی جڑوں کو کاٹنے میں لگے ہوئے ہیں کل بھی اور آج بھی۔ تلمیذ صاحب آپ کی اس جراءت اور اپنی فقہ کی گندگی اور بے حیائی کو صحابہ پر تھوپنے کے شرمناک عمل پر میرا دل چاہ رہا ہے کہ آپکی شایان شان آپکی تواضع کروں لیکن فورم کے قوانین سے مجبور ہوں۔

محترم آپ نے جو انتہائی بے شرمی سے صحابہ کی دلیل دی ہے وہ آپکو مفید مطلب نہیں کیونکہ وہاں تھوک سے صفائی کی بات ہورہی ہے (بشرط صحت روایت) جب کہ آپکی فقہ میں ہر قسم کی گندگی جسم کے کسی بھی حصہ پر لگ جانے کی صورت میں اسے زبان سے تین مرتبہ چاٹ کر جسم کا وہ حصہ پاک کیا جاسکتا ہے۔ زبان سے ہر قسم کی گندگی چاٹنا اور خون پر تھوک پھینک کر اسے ناخنوں سے صاف کردینے میں زمین آسمان کا فرق ہے۔فقہ حنفی میں صفائی کے لئے زبان کا استعمال شرط ہے ناکہ تھوک کا۔

تلمیذ صاحب کا یہ فرمانا کہ گندگی چاٹنے کا یہ فتویٰ دیوانوں اور پاگلوں کے لئے ہے سراسر جھوٹ ہے اور اپنی جان چھڑانے کی خاطر یہ آپ کی باطل تاویل ہے کیونکہ بہشتی زیور میں اور اشرف علی تھانوی صاحب نے فقہ کی جس اصل کتاب سے اس ’’پاکیزہ مسئلہ‘‘ کو بہشتی زیور میں نقل کیا ہے اس میں بھی ایسی کوئی بات نہیں لکھی جس سے صاف ظاہر ہے کہ ہمہ اقسام کی نجاستیں چاٹنے کی یہ رعایت اور آسانی ہر صحت مند اور دماغی طور پر درست حنفی کے لئے ہے۔ میرے نزدیک ابوحنیفہ کے مذہب کی یہ آسانی اس وقت کے لئے ہے جب حنفی کو پانی میسر نہ ہو اور اسے بدن یا جسم کے کسی بھی حصہ کی پاکی بھی مطلوب ہو تو وہ بے دھڑک جسم پر لگی ہوئی نجاست اپنی زبان مبارک سے چاٹ سکتا ہے یہ دیکھے بغیر کہ وہ کس قسم کی نجاست ہے جسے وہ چاٹ رہا ہے لیکن پاکی شرطیہ حاصل ہوجائے گی۔

حنفی فقہاء یہ بتانا بھول گئے کہ زبان سے نجاست چاٹنے سے جسم کا کوئی بھی حصہ پاک تو ہو جائے گا لیکن اس عمل سے زبان جو ناپاک ہوجائے گی اسے کیسے پاک کیا جائے گا۔ کیا اس شخص کو اپنی گندی زبان کسی اور سے چٹوانی پڑے گی؟ ایک سوال یہ بھی ہے کہ حنفی فقہاء کو کیسے پتا چلا کہ ہرقسم کی گندگی زبان سے چاٹنے سے دور ہو جاتی ہے اور جسم کا وہ حصہ پاک ہوجاتا ہے کیا اس مسئلہ کو فقہ میں درج کرنے سے پہلے حنفیوں کی قانون ساز کمیٹی کے ہر ممبر نے عملی طور پر ہر قسم کی نجاست کو اپنی زبان سے چاٹا ہوگا؟
 

تلمیذ

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 12، 2011
پیغامات
765
ری ایکشن اسکور
1,506
پوائنٹ
191
میرے نزدیک اسلام کے سب سے بڑے اور خطرناک دشمن یہودیوں کے بعد یہی حنفی ہیں جو پرلے درجے کے منافق ہیں اسلام کے لبادے میں اسلام کی جڑوں کو کاٹنے میں لگے ہوئے ہیں کل بھی اور آج بھی۔ تلمیذ صاحب آپ کی اس جراءت اور اپنی فقہ کی گندگی اور بے حیائی کو صحابہ پر تھوپنے کے شرمناک عمل پر میرا دل چاہ رہا ہے کہ آپکی شایان شان آپکی تواضع کروں لیکن فورم کے قوانین سے مجبور ہوں۔
ہم جو الفاظ بولتے ہیں یا جو الفاظ لکھتے ہیں ان کو لکھنے والے موجود ہیں اور ان الفاظ کے قائلین کا احتساب قیامت کے روز ہوگا اس لئيے آپ کی حنفی مسلک پر اور بین السطور مجھ پر جو کچھ آپ نے کہا اس کا معاملہ اسی اخروی احتساب پر چھوڑتے ہیں
محترم آپ نے جو انتہائی بے شرمی سے صحابہ کی دلیل دی ہے وہ آپکو مفید مطلب نہیں کیونکہ وہاں تھوک سے صفائی کی بات ہورہی ہے (بشرط صحت روایت) جب کہ آپکی فقہ میں ہر قسم کی گندگی جسم کے کسی بھی حصہ پر لگ جانے کی صورت میں اسے زبان سے تین مرتبہ چاٹ کر جسم کا وہ حصہ پاک کیا جاسکتا ہے۔ زبان سے ہر قسم کی گندگی چاٹنا اور خون پر تھوک پھینک کر اسے ناخنوں سے صاف کردینے میں زمین آسمان کا فرق ہے۔فقہ حنفی میں صفائی کے لئے زبان کا استعمال شرط ہے ناکہ تھوک کا۔
کیا آپ بتانا پسند فرمائيں گے آپ حنفی فقہ کی کس عبارت سے یہ یقین ہوا کہ زبان کا استعمال شرط ہے اور معاملہ تھوک سے طھارت کا نہیں

تلمیذ صاحب کا یہ فرمانا کہ گندگی چاٹنے کا یہ فتویٰ دیوانوں اور پاگلوں کے لئے ہے سراسر جھوٹ ہے اور اپنی جان چھڑانے کی خاطر یہ آپ کی باطل تاویل ہے کیونکہ بہشتی زیور میں اور اشرف علی تھانوی صاحب نے فقہ کی جس اصل کتاب سے اس ’’پاکیزہ مسئلہ‘‘ کو بہشتی زیور میں نقل کیا ہے اس میں بھی ایسی کوئی بات نہیں لکھی جس سے صاف ظاہر ہے کہ ہمہ اقسام کی نجاستیں چاٹنے کی یہ رعایت اور آسانی ہر صحت مند اور دماغی طور پر درست حنفی کے لئے ہے۔ میرے نزدیک ابوحنیفہ کے مذہب کی یہ آسانی اس وقت کے لئے ہے جب حنفی کو پانی میسر نہ ہو اور اسے بدن یا جسم کے کسی بھی حصہ کی پاکی بھی مطلوب ہو تو وہ بے دھڑک جسم پر لگی ہوئی نجاست اپنی زبان مبارک سے چاٹ سکتا ہے یہ دیکھے بغیر کہ وہ کس قسم کی نجاست ہے جسے وہ چاٹ رہا ہے لیکن پاکی شرطیہ حاصل ہوجائے گی۔
میں نے صرف یہ کہا تھا کہ ایسا عمل کا صدور صرف پاگل یہ غیر عاقل بچہ سے ہونا ممکن ہے
آپ نے مذید یہ کہا کہ
میرے نزدیک ابوحنیفہ کے مذہب کی یہ آسانی اس وقت کے لئے ہے جب حنفی کو پانی میسر نہ ہو اور اسے بدن یا جسم کے کسی بھی حصہ کی پاکی بھی مطلوب ہو تو وہ بے دھڑک جسم پر لگی ہوئی نجاست اپنی زبان مبارک سے چاٹ سکتا ہے
اس الزام کی دلیل چاھئیے ورنہ یہ صرف ایک دیوانہ کی بھڑک کہلائے گی

حنفی فقہاء یہ بتانا بھول گئے کہ زبان سے نجاست چاٹنے سے جسم کا کوئی بھی حصہ پاک تو ہو جائے گا لیکن اس عمل سے زبان جو ناپاک ہوجائے گی اسے کیسے پاک کیا جائے گا۔ کیا اس شخص کو اپنی گندی زبان کسی اور سے چٹوانی پڑے گی؟
آپ مجھے صرف یہ بتادیں کہ کیا اہل حدیث فقہ کے میں اس مسئلہ کا جواب موجود ہے کہ اگر کوئی پاگل نجاست زدہ انگلی کو چاٹ کر پانی میں انگلی ڈالے تو کیا وہ پانی پاک ہو گا یا نہیں ، یا اہل حدیث ایک نا مکمل فقہ ہے ؟؟؟؟ ایسی نا مکمل فقہ کس کام کی جو ادھوری ہو !!!

ایک سوال یہ بھی ہے کہ حنفی فقہاء کو کیسے پتا چلا کہ ہرقسم کی گندگی زبان سے چاٹنے سے دور ہو جاتی ہے اور جسم کا وہ حصہ پاک ہوجاتا ہے کیا اس مسئلہ کو فقہ میں درج کرنے سے پہلے حنفیوں کی قانون ساز کمیٹی کے ہر ممبر نے عملی طور پر ہر قسم کی نجاست کو اپنی زبان سے چاٹا ہوگا؟
کیا کسی مسئلہ کا شرعی حل بتانے کے لئيے آپ حضرات کے مفتی حضرات پہلے اس مسئلہ پر عمل کرتے ہیں پھر فتوی دیتے ہیں ، جو لوگ فقہاء پر اعتراض کرتے ان کی عقل ایسی ہی سلب ہوجاتی ہے
 
شمولیت
نومبر 11، 2013
پیغامات
79
ری ایکشن اسکور
25
پوائنٹ
63

حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ، قَالَ حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ أَبِي نَجِيحٍ، عَنْ مُجَاهِدٍ، قَالَ قَالَتْ عَائِشَةُ مَا كَانَ لإِحْدَانَا إِلاَّ ثَوْبٌ وَاحِدٌ تَحِيضُ فِيهِ، فَإِذَا أَصَابَهُ شَىْءٌ مِنْ دَمٍ، قَالَتْ بِرِيقِهَا فَقَصَعَتْهُ بِظُفْرِهَا‏

ہم سے ابونعیم فضل بن دکین نے بیان کیا ، انھوں نے کہا ہم سے ابراہیم بن نافع نے بیان کیا ، انھوں نے عبداللہ ابن ابی نجیح سے ، انھوں نے مجاہد سے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ ہمارے پاس صرف ایک کپڑا ہوتا تھا ، جسے ہم حیض کے وقت پہنتے تھے ۔ جب اس میں خون لگ جاتا تو اس پر تھوک ڈال لیتے اور پھر اسے ناخنوں سے مسل دیتے ۔[/quote]
ذرا اس حدیث کے صحت اورروایت اور درایت کےمتعلق تو آگاہ کرنا پلیز
 
سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔
Top